ترکِ قرآن کا نتیجہ ذلت و رسوائی ہے
محترم قارئینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر 30)
ترجمہ : اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرالیا ۔
یہ وہ شکوہ ہے جب قیامت کے دن اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ مولا میری قوم اور میری امت نے ، اس قرآن کے ساتھ اپنا تعلق کمزور کررکھا تھا ، اس تعلق کو مضبوط نہیں کیا حتی کہ قرآن کی روشن ہدایت سے انہوں نے استفادہ نہیں کیا ۔ قرآن سے اخذ ہدایت کی کوئی صورت اختیار نہیں کی ۔ جبکہ گنہگار اس روز ، اپنی حسرت کی دنیا میں ، اس خواہش کا اظہار کررہے ہوں گے ۔ جب کفار کے اعتراضات اور طعن و تشنیع حد سے زیادہ ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کی : اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑ دینے کے قابل چیز بنا لیا ہے کہ کسی نے اس کو جادو کہا ، کسی نے شعر اور یہ لوگ قرآن مجید پر ایمان لانے سے محروم رہے ۔ ( تفسیرکبیر سورہ الفرقان الآیۃ : ۳۰، ۸ / ۴۵۵)
اس آیت میں چھوڑنے سے اصل مراد تواس پر ایمان نہ لانا ہے ۔ لیکن چھوڑنے کی اس کے علاوہ بھی صورتیں ہیں لہٰذا قرآن مجید کے حوالے سے مسلمان کاحال ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے یہ لگے کہ اس نے قرآن مجید کو چھوڑ رکھا ہے ، بلکہ اسے چاہیے کہ روزانہ تلاوتِ قرآن کرے ، قرآن مجید کی آیات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ان میں غور و تَدَبُّر کیا کرے ، نیز اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے باز رہے تاکہ وہ قرآن مجید کو عملی طور پر چھوڑ رکھنے والے لوگوں میں شامل نہ ہو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر 27)
ترجمہ : اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی ۔
ارشاد فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں جس دن ظالم حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ جنت و نجات کا راستہ اختیار کیا ہوتا ، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی ہدایت کو قبول کیا ہوتا ۔
یہ حال اگرچہ کفار کےلیے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف کا گہرا دوست تھا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مُرتَد ہو گیا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے قتل ہوجانے کی خبر دی ، چنانچہ وہ بدر میں مارا گیا ۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹنے لگے گا ۔ (تفسیر مدارک سورہ الفرقان الآیۃ : ۲۷ صفحہ ۸۰۰)(تفسیر خازن سورہ الفرقان الآیۃ : ۲۷، ۳ / ۳۷۱)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور رسول کہیں گے اے میرے رب ! بیشک میری قوم (میں سے کافروں) نے اس قرآن کو متروک بنا لیا تھا ۔ اور ہم نے اسی طرح ہر نبی کےلیے مجرمین میں سے دشمن بنا دیے ہیں اور آپ کا رب آپ کو ہدایت دینے اور آپ کی مدد کرنے کےلیے کافی ہے ۔ (سورہ الفرقان آیت نمبر ٣١-٣٠)
مھجور کا لفظ ھجر سے بنا ہے اور ھجر کا ایک معنی ترک کرنا ہے اور مھجور کا معنی متروک ہے اور ھجر کا دورسا معنی ھذیان اور فضول بکواس ہے، پہلے معنی کے لحاظ سے قیامت کے دن رسول یہ کہیں گے کہ کافروں نے قرآن مجید کو متروک بنا لیا تھا ، وہ اس سے اعراض کرتے تھے اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اور اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے تھے ۔
اور مجور کا دوسرا معنی ھذیان اور فضول باتیں ہیں یعنی کافر قرآن مجید کو فضول باتیں اور ھذیان قرار دیتے تھے ، وہ یہ زعم کرتے تھے کہ قرآن مجید شعر و شاعری اور سحر کا نتیجہ ہے ، یہ مجاہد کا قول ہے اور اس کی ایک تفسیر ی ہے کہ قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قوم کے مشرکین کی اپنے رب سے شکایت کریں گے کہ انہوں نے قرآن مجید کو فضول اور مہمل کلام قرار دیا تھا تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسلی دینے کےلیے فرمائے گا : اور ہم نے اسی طرح ہر نبی کےلیے مجرمین میں سے دشمن بنا دیے ہیں ۔ مقاتل نے اس کی تفسیر میں کہا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی باتوں سے رنجید نہ ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے نبیوں علیہم السلام کو بھی اپنی قوموں کی طرف سے اسی قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ، سو جس طرح انہوں نے اپنے مخالفوں کی دل آزار باتوں پر صبر کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کی باتوں پر صبر کریں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت دینے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کرنے کےلیے کافی ہے ۔ (تفسیر معالم التنزیل جلد ٣ صفحہ ٤٤٥ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢٠ ھ)
مذکورہ دونوں آیات مبارکہ ہمیں اس طرف متوجہ کر رہی ہیں کہ ایک مسلمان کےلیے لازم ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہو ، وہ قرآن سے نظری ہدایت لے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت سے عملی ہدایت لے ، وہ قرآن کے اصولوں کو پڑھے اور ان کا عملی نمونہ رسول اللہ کی ذات میں دیکھے ، وہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی سے جدا نہ ہونے دے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عن مالک انه بلغه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بها کتاب الله وسنة نبيه ۔
ترجمہ : امام مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ۔ (امام مالک، الموطا، کتاب القدر باب النهی عن القول بالقدر، 2: 899، الرقم:1594)
اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عن حذيفة قال حدثنا رسول الله ان الامانة نزلت من السماء فی جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فقرووا القرآن وعلموا من السنة ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا کہ امانت آسمان سے لوگوں کے دلوں کی تہہ میں نازل فرمائی گئی اور قرآن کریم نازل ہوا ۔ سو انہوں نے قرآن کریم پڑھا اور سنت سیکھی ۔ (صحيح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله، 26556، الرقم6848،چشتی)(صحيح مسلم، کتاب الايمان باب رفع الامانة والايمان من اجفرالقلوب، 1، 126، الرقم143)
قرآن حکیم کو پڑھنے ، سمجھنے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سیکھنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ ان دونوں کا پڑھنا ، ان دونوں کا صحیح سمجھنا ، ان دونوں سے اخذ ہدایت کرنا، ان دونوں سے اپنے قول و عمل کی کی اصلاح لینا ، ان دونوں پر اپنے اخلاق اور رویوں کی بنیاد رکھنا اور ان دونوں سے اپنی زندگی کے شب و روز کو سنوارنا اور ان دونوں کی روشنی سے ایسے لین دین اور اپنے معاملات حیات کو درست کرنا ایک مسلمان کےلیے ایک کھلی ہدایت ہے جو اسے ضلالت و گمراہی سے بچاتی ہے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی امت کے نام اپنے آخری پیغام میں یہ ارشاد فرمایا : عن ابن عباس رضی الله عنه ان رسول الله خطب الناس فی حجة الوداع فقال يايها الناس انی قد ترکت فيکم ما ان اعتصکتم به فلن تضلوا ابدا کتاب الله وسنة نبيه ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور ارشاد فرمایا اے لوگو ! یقیناً میں تمہارے اندر ایسی شے چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ۔ (الحاکم، المستدرک، 1: 171، الرقم: 318)(البيهقی، السنن الکبریٰ، 10: 114،چشتی)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کو ہدایت پر قائم رہنے اور ضلالت سے بچنے کی ضمانت فراہم کر دی ہے اور یہ ضمانت آپ نے ان الفاظ کے ساتھ عطا کی ہے : فلن تضلوا ابدا ’’ تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے‘‘ ۔ یعنی گمراہی کبھی تمہارے قریب بھی نہ آئے گی اور ہدایت تمہاری پہچان ہو گی ، گمراہی سے بچنا تمہاری شناخت ہوگی ۔ اللہ کی اطاعت پر قائم رہنا تمہاری علامت ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں زندگی بسر کرنا تمہاری رفعت ہو گی ۔ پس اس کی ایک ہی شرط ہے کہ تم اپنی زندگی میں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو ، اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا ، تمہارے قول و عمل سے ان کی روشنی معدوم نہ ہونے پائے ۔ قرآن و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمہارا تمسک جس قدر بڑھتا جائے گا اسی قدر تم ہدایت پر مضبوط ہوتے جاٶ گے ۔ اگر تم نے اس عمل اعتصام بالکتاب والسنۃ کو اختیار کرلیا تو سن لو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوسکے گے ۔ تم کبھی بھی ہدایت سے ہٹ نہ سکو گے ، ضلالت و گمراہی کبھی بھی تمہارا مقدر نہ ہوگی۔ اسی حدیث کی تشریح حضرت ابن عون یوں کرتے ہیں : عن ابن عون قال ثلاث اجهن لنفسی ولاخوانی هذه السنة ان يتعلمهوا ويسالوا عنها ولقرآن يتفهموه ويسالوا عنه ويدعوا الناس الا من خير ۔
ترجمہ : حضرت ابن عون کا قول ہے کہ تین چیزیں میں اپنے لیے اور اپنے بھائی کےلیے پسند کرتا ہوں ایک یہ کہ وہ اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق سوال کریں ، دوسرا قرآن کریم کو سمجھیں اور اس کے متعلق پوچھیں تیسرا یہ کہ بھلائی کے سوا لوگوں سے کنارہ کش رہیں ۔ (صحيح بخاري، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله، 6: 2654،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی احادیث مبارکہ میں امت کو حکم دیتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں : اقرووا القرآن فانه ياتی يوم القيامة شفيعا لاصحابه ۔
ترجمہ : قرآن مجید پڑھا کرو یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کےلیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا ۔ (مسلم الصحيح، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل قراة القرآن، 1، 553، رقم: 804)
اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خيرکم من تعلم القرآن وعلمه ۔
ترجمہ : تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کے رموز اور مسائل سیکھے اور سکھائے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب خيرکم من تعلم القرآن وعلمه، 4، 1919، رقم: 4739،چشتی)
اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو قرآن پڑھنے اور قرآن سیکھنے ، قرآن پر عمل کرنے اور قرآنی ہدایت کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرنے اور قرآن پر اپنی زندگی کی بنیاد رکھنے اور اپنے قول و عمل اور اخلاق کی اساس قرآن کو بنانے کےلیے ترغیب دیتے ہوئے کبھی امت کو يتغنی بالقرآن (قرآن کو خوبصورت انداز میں پڑھنے) کے ساتھ متوجہ کرتے ہیں اور کبھی من قرا القرآن (جس نے اس قرآن کو پڑھا) اور کبھی ان هذا القرآن (یہ قرآن ہی ہدایت عظیم ہے) اور کبھی من قرا حرفا من کتاب الله (جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا) کبھی ان الذی ليس فی جوفة شئی من القرآن (وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ بھی نہیں) اور کبھی القرآن شافع مشفع کے کلمات کے ساتھ امت کو قرآن کا تعارف کراتے ہیں اور کبھی یوں فرماتے ہیں يقال لصاحب القرآن اقراء اور کبھی یوں تذکرہ کرتے ہیں يحيی صاحب القرآن يوم القيامة اور کبھی من قرا القرآن وتعلمه وعمل به کے ساتھ قرآن کی عظمتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی یوں ذکر قرآن کرتے ہیں من استمع الی اية من کتاب الله کانت له نورا ۔
کبھی قرآن سے اپنے دلوں اور گھروں کو آباد رکھنے کا یوں حکم دیتے ہیں : قال رسول الله اعمروا به قلوبکم واعمروا بيوتکم قال اراه يعنی القرآن ۔
ترجمہ : قرآن کے ذریعے اپنے دلوں اور گھروں کو آباد کیا کرو ۔ (دارمی السنن، 2، 530، رقم: 3342،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اے لوگو سن لو قرآن مجھے اس روئے زمین پر سب سے زیادہ پیارا ہے اور میرے رب کو بھی اس پوری کائنات میں سب سے زیادہ پیارا قرآن ہے اور تم بھی اپنی زندگیوں میں اپنا سب سے زیادہ پیارا قرآن کو بنالو اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس قرآن سے پیار ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : القرآن احب الی الله من السموات والارض ومن فيهن ۔
ترجمہ : بے شک قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان میں سب سے زیادہ پیارا ہے ۔ (دارمی، السنن ، 2 ، 533 ، رقم 3358)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ان ارشادات کے ذریعے اپنی امت کو رجوع الی القرآن کا حکم دیا ہے اور قرآن سے اپنے مضبوط تمسک کا امر دیا ہے ۔ اس لیے کہ تمسک بالقرآن کا نتیجہ ہدایت ہے اور ترک بالقرآن کا نتیجہ ضلالت ہے ۔ تمسک بالقرآن کا نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے اور ترک بالقرآن اور مہجور بالقرآن کا نتیجہ معصیت ہے ۔ اگر ہماری زندگیوں میں قرآن آ جائے اور قرآن سے ہمارا تعلق پختہ ہو جائے اور قرآنی ہدایت کو ہم اپنی حیات میں اختیار کرلیں اور قرآن پر اپنے قول و عمل کی بنیادیں استوار کرلیں تو پھر قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اللہ کی بارگاہ میں یہ شکوہ نہیں کریں گے ۔
اسلام انسان کےلیے ایک جامع اور اکمل قانون لے کر آیا ، انسانی اعمال کا کوئی مناقشہ ایسا نہیں جس کےلیے وہ حکم نہ ہو ، وہ اپنی توحید تعلیم میں نہایت غیور ہے اور کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی چوکھٹ پر جھکنے والے کسی دوسرے دروازے کے سائل بنیں ۔ مسلمانوں کی اخلاقی زندگی ہو یا عملی ، سیاسی ہو یا معاشرتی ، دینی ہو یا دنیوی ، حاکمانہ ہو یا محکومانہ ، وہ ہر زندگی کےلیے ایک اکمل ترین قانون اپنے اندر رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کا آخری اور عالمگیر مذہب نہ ہو سکتا ۔ وہ اللہ عزوجل کی آواز اور اس کی تعلیم گاہ ، اللہ عزوجل کا حلقہ درس ہے جس نے اللہ عزوجل کے ہاتھ پر رکھ دیا وہ پھر کسی انسانی دستگیری کا محتاج نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ہر جگہ اپنے تئیں ، اِمَامِ مُبِیْنٌ ، حَقُّ الْیَقِیْنِ ، نُوْرٌ ، کِتَابٌ مُّبِیْنٌ ، تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیئٍی ، بَصَائِرُ للِّنَّاسِ ، ہَادِیْ ، اِہْدٰی اِلٰی السَّبِیْلِ ، جَامِعَ اَضْرَابُ ، حَادِیَ اَمْثَالُ ، بَلاَغُ للِّنَّاسِ ، حَادِیْ بَحْرُ وَ بَرْ ، اور اسی طرح کے انقلاب آخریں ناموں سے یاد کیا ہے ، اکثر موقعوں پر کہا کہ وہ ایک روشنی ہے اور جب روشنی نکلتی ہے تو ہرطرف کی تاریکی دور ہو جاتی ہے ۔ قرآن روشنی ہے اور روشنی ہے تو انسانی اعمال کی تاریکیاں صرف اسی سے دور ہو سکتی ہیں ۔ وہ انسان کو تمام گمراہیوں کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لاتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری پولٹیکل گمراہیاں اور انقلابی ضلالت کی تاریکیاں صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے قرآن کے دست رہنما کو اپنا ہاتھ سپرد نہیں کیا ورنہ تاریکی کی جگہ آج ہمارے چاروں طرف روشنی ہوتی ۔
مسلمانوں کی ساری مصیبت صرف اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ انہو ں نے اس تعلیم گاہ الٰہی کو چھوڑ دیا ہے اور سمجھنے لگے کہ صرف نماز روزہ کے مسائل کےلیے اس کی طرف نظر اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اور بس ورنہ اپنے تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی اور انقلابی و ارتقائی اعمال سے اسے کیا سروکار ، اللہ اللہ ، لیکن وہ جس قدر قرآن سے دور ہوتے گئے اتنی ہی تمام دنیا سے دور ہوتی چلی گئی اور محرومی ونامرادی نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا اور بدبختی و نحوست ، شقاوت و ناکامی ان پر چھا گئی ۔
ترکِ قرآن کا نتیجہ ذلت و رسوائی
شاعر مشر ق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی اچھی بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ : ⬇
معزز تھے زمانہ میں مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اتحاد بالقرآن ، قرآن کو اپنانے اور قرآن کو اختیار کرنے ، قرآن سے تمسک کرنے ، قرآن سے مضبوط تعلق رکھنے ، قرآن سے اخذِ ہدایت کا طریق لینے قرآن سے وابستہ ہونے اور قرآن سے رجوع کی کیا کیا صورتیں ہیں ۔ اتحاد بالقرآن کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں قرآن کو اللہ کی سب سے بڑی نعمت جانیں اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت کی زندہ نشانی جانیں ۔ دین اسلام کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل مانیں ۔ اللہ رب العزت کی توحید اور واحدانیت کی سب سے بڑی حجت تسلیم کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ اسے تصور کریں ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول ’’کان خلقہ القرآن‘‘ کے مطابق ہم بھی اپنے قول و فعل اور خلق و اخلاق کو قرآن کے مطابق ڈھالیں ، ہماری زندگیوں میں بھی قرآن آئے اور قرآن سے ہماری زندگیاں روشنی پائیں، قرآن کا نور ہماری زندگیوں کی ظلمت ختم کرے، قرآن کی ہدایت ہماری زندگیوں کے اندھیرے ختم کرے، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی یہ پہچان ہو ۔
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًا ۔ وَّ اَنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ (سورہ الاسراء آیت نمبر 9 ، 10)
ترجمہ : بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشی سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے کام کریں کہ ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔ اور یہ کہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اِن آیاتِ مبارکہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی تین خوبیاں بیان فرمائی ہیں (1) قرآن سب سے سیدھا راستہ دکھاتا ہے اور وہ راستہ اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا ، اس کے رسولوں علیہم السلام پر ایمان لانا اور اُن کی اطاعت کرنا ہے ۔ (یہی راستہ سیدھا جنت تک اور خدا تک پہنچانے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں یعنی ولیوں اور ان نیک بندوں کا ہے جن کی پیروی کا قرآنِ پاک میں حکم دیا گیا ہے) ۔
(2) نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہے ۔
(3) آخرت کے منکرین کو درناک عذاب کی خبر دیتا ہے ۔ (تفسیرکبیر سورہ الاسراء الآیۃ : ۹-۱۰، ۷ / ۳۰۳-۳۰۴، مدارک سورہ الاسراء الآیۃ : ۹-۱۰، ص۶۱۷)
ہماری ذلت وپستی کا جو اصلی سبب ہے وہ قرآن کریم سے رشتہ توڑ لینا ہمارے اکابر و اسلاف نے قرآن کریم سے اپنا رشتہ مضبوط کیا اس کے احکام و قونین کو اپنی زندگیوں میں اتارا تو دنیا میں بھی وہ سرخرو ہو کر رہے اور آخرت میں بھی کامیابی ان کے قدم چومے گی ۔ آج ہم نے قرآن کو ایصال وثواب اور دعا وتعویذ کےلیے سمجھ رکھا ہے اس کے بعد قرآن کو طاقوں رکھ دیا جاتا ہے ۔ روزانہ اس کو معمول بنا کر پڑھنے اور تلاوت کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ہماری ناکامی و نامرادی کی اصلی سبب قرآن سے دوری ہی ہے ۔ اس وقت روئے زمین پر قرآنِ کریم کے علاوہ کوئی بھی آسمانی کتاب صحیح اور سچی نہیں ہے ۔ یہ تو ہمارے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کےلیے ہدایت و رہنمائی کا اہم فریضہ انجام دیتا رہے گا ۔ اور ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ جب کہ قرآن کو اپنے سینوں سے لگائیں اس کے ایک ایک حرف پر عمل کریں مسلمانوں کی پستی وزبوں حالی کا اصلی سبب قرآن کریم سے غفلت ہی ہے اس لیے آئیے آج اس بات کا عہد کریں کہ قرآنِ کریم کو سینوں سے لگائیں گے اس پر عمل کریں گے ہر روز اس کی تلاوت کریں گے اور اپنے گھروں کو نورانی اور بابرکت بنائیں گے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment