Thursday 31 December 2015

اِیمانِ مجمل

0 comments
اِیمانِ مجمل
٭٭٭٭٭٭٭٭
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَآئِهِ وَصِفَاتِهِ وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِهِ اِقْرَارٌ م بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ م بِالْقَلْبِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے، زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے تصدیق کرتے ہوئے۔‘‘

اِیمانِ مفصّل

0 comments
اِیمانِ مفصّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بُری تقدیر
اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد اُٹھائے جانے پر۔‘‘

حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے

1 comments
حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
’نماز کیا ہے؟‘ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ یہ بندۂ مومن کا اپنے خالق و مالک اور پروردگار کی بارگہ بے کس پناہ میں اپنی عبودیت اور اس کے ذکر کا ایسا اَرفع اِظہار ہے، جو رب ذوالجلال کی نگاہ میں غایت درجہ حسین اور اسی قدر اُسے پسند ہے۔ تاجدارِ کائنات  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اَقدس کے مطابق ’نماز دین کا ستون ہے‘ گویا نماز نہ ہو تو دین بے بنیاد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دین کی عمارت کو قائم رکھنے اور منہدم ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے نظام صلوٰۃ کا قیام ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ہر دور میں ہر اُمت پر فرض رہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز کے فیوض و برکات اور فوائد و حسنات دنیا و آخرت کے لحاظ سے بے پناہ ہیں لیکن اس کے حقوق یا تقاضے بھی متعدد ہیں، جن کو پورا کیے بغیر نماز بے اثر رہتی ہے۔

نماز نہ صرف اِنفرادی بلکہ اِجتماعی عبادت ہے اور اِقامتِ صلوٰۃ ایک بندہ مومن کی جب کہ مسجد مسلم معاشرے کی شناخت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ مومن اور کافر کے مابین فرق صرف نماز کا ہے۔ لہٰذا حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے اور جس معاشرے میں یہ نظام اپنی روح اور تمام تر تقاضوں کے ساتھ قائم کر دیا جائے وہ معاشرہ عرفانِ خدا و معرفتِ نفس، علم و حکمت، اُخوت و محبت، آزادی و مساوات، عدل و اِحسان، ایثار و قربانی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔

Wednesday 30 December 2015

نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے 7 بنیادی اُصولوں کی مختصر تشریح

0 comments
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے 7 بنیادی اُصولوں کی مختصر تشریح
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ سیرت کی بطور وحدت فہم اورتفہیم

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ بطور ایک وحدت کے کیا جائے۔ یعنی سیرت کے روحانی، جمالیاتی، احکامی اور اطلاقی پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے بلکہ اُنہیں بطور ایک وحدت کے سمجھنے اور اختیار کرنے کی سعی کی جائے۔ کیونکہ یہی وہ جامع منہج ہے جس کے ذریعے سے نہ صرف سیرت سے ہم آہنگی اور جامع تعلق پیدا ہو سکتا ہے بلکہ اس تعلق کی تاثیر عملی زندگی میں محسوس ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک بڑی نظیر غزوۂ تبوک میں صحابۂ کرام کی طرف سے پیش کی جانے والی قربانیوں کا واقعہ ہے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر تمام صحابہ کرام کو قربانی کی تلقین کی تو ہر ایک حسبِ استطاعت اس غزوہ میں اپنا حصہ ڈالنے لگا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عمل اتنا بے نظیر و بے مثال تھا کہ وہ تاابد قربانی و ایثار کا استعارہ بن گیا۔ اگرچہ کئی صحابۂ کرام نے سینکڑوں اور ہزاروں درہم و دینار کی شکل میں قربانی پیش کی اور ان کے مقابل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے اثاثے شاید ظاہری لحاظ سے اس مقدار و معیار کے نہ تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روحانی اور قلبی وابستگی کا اثر تھا کہ آپ نے اپنے گھر کے تمام اثاثے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نچھاور کر دیئے۔ جس سے اس غزوہ کی تیاری میں ایمانی تاثیر کا وہ عالم پیدا ہوا جو نہ صرف خوشنودی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خوشنودئ خدا کا باعث ہوا بلکہ اس غزوہ کی فتح کا سبب بھی بنا۔ گویا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حصولِ منزل کے لئے ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ نادیدہ اسباب کے حصول اور تائید میسر آنے کا واحد راستہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسا ہمہ گیر تعلق ہے جس میں اخلاقی، روحانی، عملی اور احکامی پہلوؤں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔
--------------------------------------------------------------------------------
2۔ فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی

فکر و عمل کے بحران کے حل کے لئے سیرت سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ دورِ حاضر میں جبکہ زندگی فکری اور عملی سطح پر کئی جہات میں ارتقاء پذیر ہے، لگے بندھے فکری اور عملی ضابطے نہ صرف یہ کہ دورِ حاضر کی فکری اور علمی ترقی کے ساتھ میل نہیں کھاتے بلکہ اس کا ساتھ دینے سے بھی قاصر ہیں۔ آج ہمیں ایک ہمہ گیر فکری تبدیلی (Paradigme shift) کی ضرورت ہے۔ اور ایک صحت مندانہ فکری تبدیلی (Paradigm shift) اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکر و عمل کے باب میں راہنمائی براہِ راست سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں۔
--------------------------------------------------------------------------------
3۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح

قرآنی تعلیمات کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں سمجھنے کی سعی کی جائے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہٹ کر قرآنِ حکیم کا فہم صرف تلقین اور تحکیم تک ہی محدود رہتا ہے جبکہ اس کے اطلاق اور تنفیذ کی سبیل اور راستے اسی وقت میسر آسکتے ہیں جب ہم قرآنِ حکیم کی آیات اور تعلیمات کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود واقعات کے ساتھ مربوط کرکے سمجھنے اور ان کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاًسورۂ توبہ میں غزوۂ تبوک کا جابجا بیان ہوا ہے۔ غزوۂ تبوک کن حالات میں وقوع پذیر ہوا؟ اس موقع پر مسلمانوں کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں؟ اس نازک مرحلے پر اِسلام کو اندرون اور بیرون ریاست کون کون سی سازشیں درپیش تھیں اور ان سازشوں کا قلع قمع کس طرح کیا گیا؟ ان سب سوالات کے جوابات ان آیاتِ مبارکہ کو سیرت کی روشنی میں سمجھنے سے ملتے ہیں۔ مثلاً قرآن حکیم میں مخالفینِ اِسلام کی سازشوں کا ذِکر کرتے ہوئے اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

لَقَدِ ابْتَغَوُاْ الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُواْ لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللّهِ وَهُمْ كَارِهُونَO

’’درحقیقت وہ پہلے بھی فتنہ پردازی میں کوشاں رہے ہیں اور آپ کے کام الٹ پلٹ کرنے کی تدبیریں کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہو گیا اور وہ (اسے) ناپسند ہی کرتے رہےo‘‘

القرآن، التوبة، 9 : 48

اس آیت میں مذکور الفاظ وقلبوا لک الامور ان تمام سازشوں کا احاطہ کرتے ہیں جو اِسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کفار اور منافقین کی طرف سے کی گئیں۔ ان سازشوں کا قلع قمع کس طرح ہوا؟ تائیدِ ایزدی اور بصیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح پہلو بہ پہلو کام کرتے ہوئے اِسلام کو کامیابی کی طرف لے گئی! ان اُمور کا احاطہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان آیات کو ان کے مقابل موجود سیرت کے واقعات کے ساتھ مربوط کرکے سمجھا جائے۔
---------------------------------------------------------------------------------
4۔ عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اِطلاقی مطالعہ

عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اطلاقی مطالعہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس موجودہ صدیوں کے علمی ذخیرے میں فہمِ اسلام کے باب میں وافر سرمایہ موجود ہے۔ لیکن اس تمام علمی سرمائے میں اقداری ربط و ترتیب ( Axiological Systematization) کا فقدان ہے۔ یعنی سیرت میں مذکور واقعات کا اپنے وقوعی زمان و مکاں کے تناظر میں ذکر اور اس کا دورِ حاضر کے زماں و مکاں کے تناظر میں اطلاق اور ربط، یہ وہ خلا ہے جسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم سیرت کی اصل معنویت تک رسائی نہیں پا سکتے۔ قرآن حکیم کے نزول کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر آیت کا نزول کسی نہ کسی واقعے اور کسی نہ کسی سبب کے نتیجے میں ہوتا رہا۔ وہ واقعہ اور وہ سبب ایک مخصوص زماں و مکاں کے اندر محدود تھا مگر اس کے نتیجے میں اُترنے والی آیات کی اہمیت ابدی اور لامحدود ہے۔ اس لامحدود اور محدود کے ربط (Association of Infinite & Finite) کی دریافت ہی ہمیں دورِ حاضر میں قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی مؤثریت کی منزل پر لاسکتی ہے۔ یہ سیرت کے اطلاقی مطالعہ کی منہج کی دریافت کے بغیر ممکن نہیں۔
-------------------------------------------------------------------------------
5۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازنِ اِجتماعی کا حصول

اﷲ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو اُمتِ وسط بنا کر بھیجا ہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ذریعے سے زندگی کے ہمہ گیر توازن کی تلاش کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ یعنی عقیدہ و عمل کا توازن، دُنیا و آخرت کا توازن، اخلاقی و مادی تقاضوں کا توازن، روحانیت و مادیت کا توازن، استدلال اور محبت کا توازن الغرض کہ زندگی کے ہر دائرے میں ایک ہمہ گیر اور قابلِ عمل توازن کی یافت ہی اُمتِ مسلمہ کو اُمت وسط کے منصب پر فائز کر سکتی ہے اور یہ صرف سیرت سے عملی اور زندہ تعلق سے ہی ممکن ہے۔

6۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ
------------------------------------------------------------------------------
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کی ضرورت کے طور پر پیش کیا جائے۔ تاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسولِ اِسلام کی بجائے رسول انسانیت کے طور پر دُنیا میں متعارف ہوں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانی فلاح کے لئے ناگزیر سر چشمہِ ہدایت کے طور پر پیش کریں اور زندگی کے ہر شعبے میں ارتقاء کی بنیادوں کو جو فی الحقیقت تاریخی طور پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی میسر آئی ہیں، نمایاں کریں۔ دلائل کی قوت اور براہین کی طاقت سے اس امر کو عالمِ انسانیت کے سامنے واضح کیا جائے کہ آج بھی بنی نوع اِنسان کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہنمائی کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے دورِ ظلمت سے نکلنے کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی دستگیری کی تھی۔
-----------------------------------------------------------------------------------
7۔ فہم کمالِ سیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے باب میں ایک انتہائی اہم اُصول ہمہ وقت فہمِ انسانی کی نارسائی کا اعتراف ہے۔ جب سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات اور واقعات کو انسان کے محدود عقلی اور فکری چوکھٹے میں بند کرکے دیکھا جاتا ہے، وہیں سے عقیدہ، فکر اور عمل کے باب میں گمراہی کا دروازہ کھلتا ہے۔ لہٰذا سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان توضیحات اور تفصیلات کے باب میں جہاں کسی بھی علمی یا فکری لغزش کا احتمال موجود ہو انسانی فہم کی نارسائی کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس اُصول کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم میں مستقل ضابطے کے طور پر اختیار کر لیا جائے تو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار واقعات۔ ۔ ۔ مثلاً انتم اعلم بامور دنیاکم(1)۔ ۔ ۔ کے بیان اور تفصیل و توضیح میں کبھی بھی عقیدہ، فکر یا عمل کی لغزش کا ارتکاب نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہمہ وقت ایکم مثلی، انی لست مثلکم اور لست کہیئتکم کا ضابطہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنے اور بیان کرنے والے کے پیشِ نظر رہے گا۔ (2)

(1) مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب وجوب الامتثال ما قاله شرعا، 4 : 1836، رقم : 2363
(2) i. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب الوصال ومن قال ليس في اليل، 2 : 693، رقم : 1861
ii. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن الوصال، 2 : 774، رقم : 1102

مطالعہ سیرت کے باب میں مذکورہ بالا اصولوں کے استحضار سے نہ صرف زندگی کے تمام شعبوں میں سیرت سے رہنمائی اخذ کی جا سکتی ہے بلکہ دور حاضر میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ سیرت ست وابستگی کی ناگزیریت بھی واضح ہو سکتی ہے اس طرح انفرادی اور اجتماعی معاشرے کو سیرت کے نمونے پر ڈہالنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقانیت پر ایمان وایقان کے استحکام کا سامان بھی کیا جا سکتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے چند بنیادی اُصول

0 comments
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کے چند بنیادی اُصول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مؤثر استدلال اور مضبوط و منظم علمی بنیادوں پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم و ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ دورِ حاضر کے درپیش مسائل اور تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ایسے اُصول طے کئے جائیں جو سیرت کے منظم اور مربوط فہم میں معاون ثابت ہوں۔

جب سے علوم کی ترتیب و تدوین کا مرحلہ شروع ہوا تمام علوم بشمول تفسیر، حدیث اور فقہ کی ترتیب و تدوین کے لئے اہل علم نے کئی اُصول طے کئے جن کی روشنی میں ان علوم کی ثقاہت کو نہ صرف پرکھا گیا بلکہ اُنہیں منظم و مرتب بھی کیا گیا۔ لیکن سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ اور تفہیم کے لئے تاحال کوئی واضح اُصول مرتب نہیں کئے گئے۔ دورِ حاضر میں جبکہ ملتِ اِسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کو سیرت کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت اور تقاضے پہلے زمانے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، اس امر کی ضرورت ہے کہ مطالعہ سیرت کے لئے مؤثر اور جامع ضابطوں کا تعین کیا جائے۔ اس ذیل میں یہاں کچھ اُصول بیان کئے جاتے ہیں :

1 سیرت کا بطور وحدت فہم اورتفہیم
2 فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی
3 سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح
4 عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اطلاقی مطالعہ
5 سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازن اجتماعی کا حصول
6 سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ
7 فہم کمالِ سیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف

غیر مسلم دنیا تک نبی کریم ﷺ کی سیرت کیسے پہنچائیں اور ہماری غفلت و چیلنجز

0 comments
غیر مسلم دنیا تک نبی کریم ﷺ کی سیرت کیسے پہنچائیں اور ہماری غفلت و چیلنجز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اﷲ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف رسول اسلام نہیں بلکہ رسول انسانیت بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پوری اِنسانیت کے لئے کامیابی کا پیغام ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسے عوامل ضرور کار فرما رہے جن کے سبب سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا یہ پیغام پورے عالم تک نہیں پہنچ سکا۔ غیر اسلامی دنیا میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے دو بڑے اسباب ہیں :

1 اسلام اور مغرب کی معاشرتی اَقدار کا فرق
2 مغربی مصنفین اور مفکرین کی متعصبانہ تحریریں اور اِسلام کے بارے میں تعصب پر مبنی پروپیگنڈہ

(ا) اِسلام اور مغرب کی معاشرتی اَقدار کا فرق

مغرب کا اِسلام کے حوالے سے دورِ جدید میں سامنے آنے والا ردِعمل بنیادی طور پر اسلام اور مغرب کے سماجی اور عمرانی ڈھانچے کے فرق کے سبب سے ہے۔ اِسلام کا سماجی، عمرانی اور معاشرتی ڈھانچہ مغرب کے نظامِ معاشرت سے کلیتاً مختلف ہے۔ اسلام کی بنیادی اقدار انجام کار مغرب کو اسلام دُشمنی پر مجبور کرتی ہیں۔ ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :

The most basic cultural fault line between the west and Islam does not concern democracy-it involves issues of gender equality and sexual liberalization.

Ronald Inglehart, Pippa Norris, Sacred and Secular : Religion and Politics Worldwide, p. 155.

’’اسلام اور مغرب میں بنیادی ثقافتی تفاوت کی حد کا تعلق جمہوریت سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق نوعی مساوات اور جنسی آزادی سے ہے‘‘

The social values of gender equality and sexual liberalization could plausibly lie at the heart of any "clash" between Islam and the west. The analysis of these social attitudes reveals the extent of the gulf between Islam and the west, with a stronger and more significant gap on these issues than across most of the political values.(1)

Ronald Inglehart, Pippa Norris, Sacred and Secular : Religion and Politics Worldwide, p. 149.

’’۔ ۔ ۔ نوعی مساوات اور جنسی آزاد روی کی سماجی اقدار یقینی طور پر اسلام اور مغرب میں کسی تصادم کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ ان سماجی رویوں کا تجزیہ اسلام اور مغرب میں موجود خلیج کی نوعیت کو واضح کرتا ہے، جو سیاسی اقدار میں موجود خلیج سے زیادہ موثر اور اہم ہے۔‘‘

اِسلام کی معاشرتی اقدار صرف معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ اُن کا براہ راست اثر اجتماعی نظام اور حکومت کی تشکیل پر پڑتا ہے اور یہاں بھی اسلام اور مغرب کی اقداری حدیں الگ ہوتی چلی جاتی ہیں :

Islam (is) personal piety and worship of God in a framework of revealed universal ethical principles which are to be implemented in human life.۔ ۔ ۔ Islam in its personal pietism and Quranic ethical universalism is meant to do this.

David Marquand, Ronald L. Nettler, Religion and Democracy, pp. 53-54.

’’اسلام وحی پر مبنی آفاقی اخلاقی اقدار کے اندر انفرادی پاکبازی اور اللہ کی بندگی کا نام ہے۔ اسلام اسے انسانی زندگی میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ اسلام اپنی انفرادی پاکبازی کی تعلیمات اور قرآن کی آفاقی اخلاقیات کے تحت اسے روبہ عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ۔ ۔‘‘
(2) مغربی مفکرین کا اِسلام کے خلاف متعصبانہ پراپیگنڈہ

اسلام اور مغرب کی موجودہ آویزش کا پس منظر مغالطوں، تعصب اور حقائق کے منافی پراپیگنڈے پر مبنی ہے جو آج تک جاری ہے۔

یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ اسلام کی اس فطری فروغ پذیری کو جو انسانیت کی ضرورت بھی تھی، عیسائیت نے اپنے لئے علمی، فکری، مذہبی، سماجی اور سیاسی خطرہ محسوس کیا(1) جو تاریخ کی فطری حرکت کی غلط تفہیم تھی۔ انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے غلط اور کذب پر مبنی خودساختہ کہانیاں مشہور کر دیں جن کاہدف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تھی۔ انہوں نے مشہور کیا کہ معاذ اﷲ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جادوگر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رومن چرچ کے ایک Cardinal تھے جو پوپ بننے کی تمنا میں ایک نئے مذہب کے بانی بن گئے۔ (2)

ایک مغربی مصنف ساؤدرن (R. W. Southern) لکھتا ہے کہ 1100ء سے قبل میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صرف ایک جگہ ذکر پڑھا مگر 1120ء کے بعد کا ہمارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں علم ان کی حقیقی سیرت کے برعکس معلومات پر مبنی ہے (3) کیونکہ اسلام پر افسانہ کی حد تک بڑھے ہوئے جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی الزامات عائد کئے گئے۔ (4) بلکہ ایک مغربی سیرت نگار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے حالات لکھتے ہوئے جتنی زیادہ برائیاں لکھ سکتے ہو لکھو۔ (5) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشخص کو بگاڑ کر پیش کرو۔ (معاذ اﷲ)

Maxime Rodinson, The Western Image & Western Studies of Islam in Joseph Schacht & C. E. Bosworth, eds., The Legacy of Islam, p. 9.
Albert Hourani, Europe and the Middle East, p. 9.
Southern R. W., Western Views of Islam and the Middle Ages, p. 28.
John L. Esposito, The Islamic Threat : Myth or Reality? p. 43.
Southern, R. W., Western Views of Islam and the Middle Ages, p. 31.

اسلام کے فروغ کے ساتھ جب عیسائی دنیا میں اقلیتی مسلمان فاتحین اکثریت میں بدلنے لگے تو عیسائی مذہبی طبقوں (Clergy) نے اسے اپنے لئے خطرہ قرار دیا۔ (1) یہی احساس آگے چل کر صلیبی جنگوں میں بدلا، اسلام اور عیسائیت کے مستقبل کے تعلقات کے تعین میں 11ویں سے 13 ویں صدی میں ہونے والی صلیبی جنگوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ (2) جن کے حقیقی اسباب کے بارے میں آج بھی اکثر مغربی مفکرین ابہام و التباس کا شکار ہیں۔ (3) ان جنگوں کا اثر یہ ہو اکہ مسلم دنیا میں عیسائیت کے متشدد قوم کا تاثر پیدا ہوا۔ (4) اور آج مغرب کی سرگرمیوں سے یہ تاثر مزید تقویت پذیر ہو رہا ہے۔ (5)

آنے والے دور میں ترکی عثمانیوں کا اقتدار یورپ کے لئے مزید خطرہ بن گیا کیونکہ اس دور میں سات لاکھ آبادی (7,00,000) کا استنبول طاقت و تہذیب کا علمی مرکز تھا۔ (6)

Stephen Humphreys, R., Islamic History : A Framework for Inquiry, p. 250.
John L. Esposito, The Islamic Threat, p. 37, 38.
Runciman, S., A History of the Crusade, p.54
John L. Esposito, The Islamic Threat, p. 38.
Bosworth, CE., 'The Historical Background of Islamic Civilization' in R.M. Savory, ed., Introduction to Islamic Civilization, p. 25.
Ira Lapidus, A History of Islamic Societies, p. 330.

مگر مسلمانوں کی طاقت و اقتدار کا یہ نصف النہار بھی آج کے مغربی عروج سے بالکل مختلف تھا۔ اسلام کے ابتدائی حکمرانوں کی طرح ترک عثمانی کی عیسائیت اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے ریاستی پالیسی بہت ہی لچک دار (flexible) تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دنیائے عیسائیت (Christiandom) کے عیسائی بھی یہ کہتے تھے :

Better the turban of the Turk than the tiara of the Pope.(1)

’’پوپ کے تکونی تاج سے ترکوں کی پگڑی بہتر ہے۔‘‘

مسلمانوں کے اس حسن سلوک کے باوجود ان کے خلاف یورپ میں منفی پراپیگنڈے کی مہم جاری رہی جس کا ثبوت کروشیا کے مصنف Bartholomew Gregevich کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب Miseries & Tribulations of the Christians held in Tribute and Slavery by the Turks ہے۔ (2)

یہ امر قابل افسوس ہے کہ جس طرح ماضی میں یورپ کا تصورِاسلام جہالت پر مبنی تھا وہی تصور آج ان کے باہمی تعلقات کی نوعیت طے کر رہا ہے، (3) اور آج تک مغرب میں اسلام کے یورپ پر احسانات کا منصفانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہو سکا اور اگر کہیں آواز بلند بھی ہوئی تو اسے سماعت سلیمہ میسر نہیں آئی۔ (4)

آج اگر مغربی میڈیا میں عربوں کے امیج کو دیکھیں تو وہ عیاش، غافل اور کاہل دولتمندوں کا امیج ہے۔ (5) جسے دورِ حاضر کے تقاضوں کا کوئی احساس و شعور نہیں بلکہ وہ دنیا کو دور تاریکی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ جب اس طرح کی میڈیا مہم کل وقتی طور پر جاری ہو گی تو لامحالہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مغربی دانشور اسلام کو جدید تہذیب و ترقی کا دشمن و قاتل تصور کرنے لگیں گے۔ (6) یہی وجہ ہے کہ مغربی دانشوروں نے تمام دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ناطہ اسلام اور مسلم دنیا سے جوڑ دیا(7) اور یہ ثابت کرنے پر تل گئے کہ مسلمان ظالم اور وحشی قوم ہیں۔ (8)

Arthur Goldschmidt Jr., A Concise History of the Middle East, p. 132.
Paul Coles, The Ottoman Impact on Europe, p. 146-47.
Albert Hourani, Europe & the Middle East, p. 10.
Southern, R.W., Western view of Islam & Middle Ages, p. 2.
Jack G. Shaheen, The TV Arab, p. 4.
Edward Saeed, Covering Islam : How the Media and the Experts Determine, How we see the rest of the World, p. 51.
Amos Perlmutter, Islamic Threat is Clear and Present, Insight on the News, Feb. 15, 1993.
Michael Suleiman, The Arabs in the Mind of America, p. 2.

حالانکہ اسلام کے ارتقاء و عروج میں ایسا کوئی شائبہ تک موجود نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی فروغ کا سبب اس کی حملہ آوری نہیں بلکہ اس کا عظیم سوشل، اخلاقی اور سیاسی نظام تھا۔ (1) گو اسلامی افواج کے لوگ عرب قبائل کے غیر تعلیم یافتہ افراد تھے مگر ان کا مطمع نظر کشور کشائی یا دنیاوی مال و متاع نہ تھا بلکہ دنیا کو اسلام کے عطا کردہ عدل و انصاف کا گہوارہ بنانا تھا۔ (2) اس بنیادی فلسفہ کے زیراثر ترقی پانے والی مملکت کا زمانہ تاریخ انسانی کے تہذیبی و ثقافتی ارتقاء کا سنہری زمانہ تھا۔ (3) جو آنے والے ادوار میں مغرب اور دوسری دنیا کے لئے بھی علوم و حکمت کے دروازوں کے کھلنے کا باعث بنا۔ (4)

Fred McGraw Donner, The Early Islamic Conquests, p. 269.
Bernard G. Weiss and Arnold H. Green, A Survey of Arab History, p. 59.
Marshall G S., Hougson, The Venture of Islam, vol. 1, p. 235.
John L. Esposito, The Islamic Threat : Myth or Reality, p. 32.

اِسلام کے بارے میں اہل مغرب میں پائے جانے والے مخاضمانہ اور متعصبانہ افکار و نظریات کا اثر ہے کہ ژاک دریدا (Jacques Darrida, 1930-2004) جیسے روشن خیال مفکر کا شاگرد فرانسس فوکویاما (Francis Fokoyama) مغربی فکر و عمل اور نظریے کو تاریخ کی معراج قرار دیتے ہوئے اِسلام کو از کار رفتہ نظریہ حیات قرار دیتا ہے :

The days of Islam's cultural conquests, it would seem, are over. It can win back lapsed adherents, but has no resonance for the young people of Berlin, Tokyo or Moscow.

Fukuyama F., The End of History and the Last Man, pp. 45-6.

’’ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کی ثقافتی فتح کا زمانہ گزر چکا۔ اب تو یہ صرف کچھ مہمل معتقدوں کو ہی مسخر کر سکتا ہے، اس میں برلن، ٹوکیو اور ماسکو کی نوجوان نسل کے لئے کوئی کشش نہیں رہی۔‘‘

عالم مغرب میں اِسلام کے ابلاغ اور سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں پائے جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے ہمہ گیر علمی و فکری کو ششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں کی دو جہتیں ہو سکتی ہیں :

اِسلام کے بارے میں منصفانہ موقف رکھنے والے مغربی مصنفین کے موقف کا مطالعہ
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقلی اور استدلالی بنیادوں پر تبلیغ

مغربی مفکرین میں ایسے سلیم الفکر لوگ موجود ہیں جنہوں نے اِسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا منصفانہ جائزہ لیا اور حقائق کو کما حقہ‘ پیش کیا۔ ایسے مفکرین کی آراء کواہل مغرب میں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ صرف متعصب مفکرین ہی کے فکر کے آئینے میں نہ کریں بلکہ غیر جانبدارانہ آراء تک بھی رسائی پا سکیں۔ کیونکہ تاحال اکثر و بیشتر اسلام اور پیغمبرِ اِسلام کو منفی پراپیگنڈہ ہی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ منٹگمری واٹ (Watt M. Watt) لکھتا ہے :

Of all the world's great men none has been so much maligned as Muhammad. For centuries Islam was the great enemy of Christianity.

Watt Montgomery Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, p. 231.

’’دنیا کے جملہ عظیم انسانوں میں سے کسی کو تہمت اوربدگوئی کا اتنا نشانہ نہیں بنایا گیا جتنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنایا گیا۔ صدیوں تک عیسائیت کا سب سے بڑا دشمن اسلام رہا۔‘‘

اب ہم یہاں مغربی مفکرین کی تحریروں سے کچھ اقتباسات دے رہے ہیں جن سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے حوالے سے ان کی آراء کا پتہ چلتا ہے :

سرولیم میور (Sir William Muir) اپنی کتاب The Life of Mahomet میں لکھتا ہے :

All authorities agree in ascribing to the youth of Mahomet a modesty of the deportment and purity of manners rare among the people of Mecca.

Sir William Muir, The Life of Mahomet, vol. II, p.14.

’’تمام ارباب سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد شباب حیاء و پاکیزگی اور اعلی اخلاقی اَقدار کا حامل تھا جو مکہ کے لوگوں میں بہت کم پائی جاتی تھی۔‘‘

سر ولیم میور (Sir William Muir) مزید لکھتا ہے :

A patriarchal simplicity pervaded his life. His custom was to do everything for himself. He disliked to say no. If unable to answer a petition in the affirmative, he preferred silence. He was not known ever to refuse an invitation to the house even of the meanest, nor to decline a proffered present, however small.. ..He shared his food, even in times of adversity with others, and was sedulously solicitous for the personal comfort of every one about him A kindly and. benevolent disposition pervades all these illustrations of his character.

Sir William Muir, The Life of Mohammed, p.512.

’’ایک بزرگانہ سادگی ان کی زندگی پر چھائی ہوئی تھی۔ ہر کام کو اپنے ہاتھ سے کرنا ان کا معمول تھا۔ کسی سوالی کو ’نہ‘ کا جواب دینا انہیں ناپسند تھا۔ اگر کسی کی فریاد کا جواب اثبات میں نہ دے پاتے تو خاموشی کو ترجیح دیتے۔ یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی نے ان کو گھر آنے کی دعوت دی ہو اور انہوں نے انکار کیا ہو۔ خواہ دعوت دینے والا کتنا ہی کم حیثیت اور ادنیٰ درجے کا ہوتا۔ اسی طرح وہ کسی کا تحفہ قبول کرنے سے انکار نہ کرتے خواہ وہ کتنا ادنیٰ کیوں نہ ہوتا۔ مصیبت اور مشکل کے وقت بھی وہ اپنے دسترخوان پر کھانے کے لئے دوسروں کو بلالیتے۔ وہ انہیں ہم نشینوں میں ہر ایک کے ذاتی آرام کا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر خیال رکھتے۔ ان کی سیرت و کردار کے ہر گوشے میں ایک کریمانہ خوش مزاجی سایہ فگن تھی۔‘‘

لیسی جان سٹون (P. de. Lacy Johnstone) اپنی تصنیف Muhammad and his Followers میں لکھتا ہے :

He enjoyed a high character among the citizens and nothing stands against his name.

P De. Lacy Johnstone, Muhammad and His Followers, p. 51.

’’مکہ کے شہریوں میں ان کا کردار اور سیرت ارفع و اعلی تھی اور ان کے نام پر کوئی دھبہ نہ تھا۔‘‘

ایملی ڈرمنگھم (Emile Dermengham) اپنی کتاب The Life of Muhomet میں لکھتا ہے :

Mahomet's youth has been chaste.

Emile Dermengham, The Life of Mahomet, Tr. by Arabella York, p. 52.

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جوانی حیاء و پاکیزگی کے ساتھ بسر ہوئی۔‘‘

Mahomet's house was a model of conjugal happiness and domestic virtues; Khadija made an ideal wife for Mahomet, who was the best of husbands. This man remained faithful to one wife much older than himself for a quarter of a century.

Emile Dermengham, Life of Mahomet, p. 52.

’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گھر ازدواجی سیرت اور گھریلو خوبیوں اور نیکیوں کا مرقع تھا۔ خدیجہ (رضی اﷲ عنہا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثالی بیوی تھیں اور وہ سب شوہروں سے بہترین شوہر تھے۔ آپ وہ انسان تھے جو چوتھائی صدی تک ایک ہی بیوی کے وفادار رہے جو ان سے عمر میں کافی بڑی تھیں۔‘‘

ڈی ایس مرگولیتھ (D.S Margoliouth) اپنی کتاب Muhammad and Rise of Islam میں لکھتا ہے :

Ever since the taking of Mecca the prophet had worked as hard as the most industrious of sovereigns, organizing expeditions, giving audience, dispatching ambassadors, dictating letters, besides hearing plaints, administering justice and interpreting law. He worked continuously, allowing himself no day to rest. Always ready to hear and take advice, whatever the subject, he kept all the reins in his own hand : and till his death managed both the external and internal affairs of the vast and ever-growing community which he had founded and of which he was both the spiritual and temporal head. In later times a whole hierarchy of deputies was established for the purpose of discharging those duties.

Margoliouth, D. S., Mohammad and Rise of Islam, p.448.

’’مکہ پر اختیار پانے تک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک محنتی سرگرم حکمران کی طرح محنتِ شاقہ سے مہمات کو منظم کرنے، لوگوں سے ملاقات کرنے، ایلچیوں کو روانہ کرنے اور خطوط لکھوانے میں مشغول رہتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ شکایات سنتے، انصاف مہیا کرتے اور شرعی قوانین کی تشریح و تعبیر بھی کرتے تھے۔ آپ مسلسل کام میں لگے رہتے اور دن کے اوقات میں بھی آرام نہ کرتے۔ کوئی بھی مسئلہ ہوتا آپ مشاورت کرنے اور بات سننے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ زمامِ اختیار آپ نے اپنے ہاتھ میں رکھی اور وفات تک وسیع اور روز افزوں کاروبار حکومتِ جس کی بنیاد آپ نے رکھی، کے خارجی اور داخلی معاملات نپٹانے میں مصروف رہے۔ آپ ہی مملکت کے روحانی اور دنیاوی سربراہ تھے۔ آخری زمانے میں ان فرائض کی بجا آوری کے لئے حکومت میں آپ کے نائبین کا نظام قائم کیا گیا۔‘‘

وہ مزید لکھتا ہے :

But amid all the duties of a general, legislator, judge, and diplomat, the prophet did not neglect those of preacher and teacher : his advice was demanded on all possible questions, the occasions were few on which he failed to give it.

Margoliouth, D. S., Mohammad and Rise of Islam, pp. 463-464.

’’بحیثیت ایک سپہ سالار، شارع، منصف اور سفارت کار کے ان فرائض کی انجام دہی کے دوران میں آپ کبھی معلم اور مبلغ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں غفلت و تساہل سے کام نہیں لیتے تھے۔ تمام ممکنہ سوالات پر آپ سے مشورہ طلب کیا جاتا اور ایسے مواقع کبھی نہیں آئے جب آپ سے کوئی جواب نہ بن پایا ہو۔‘‘

ڈی ایس مرگولیتھ (Rev. D. S. Margoliouth) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا لفظی مرقع یوں پیش کرتا ہے :

Another of those domestic scenes is somewhat different in character. Abu Bakr and 'Umar knock at the Prophet's doors and at first cannot obtain permission. When they are admitted they find the Prophet seated gloomily silent with his wives around him. They had been asking for household supplies which the Prophet cannot provide. 'Umar, hoping to cheer the Prophet, narrates how his wife had been demanding money, and he had replied by a sound blow on her neck. The Prophet; exploding with laughter, explains that his wives were equally importunate. The two friends wish to try 'Umar's expedient with their respective daughters. This the Prophet does not permit, but he gives his wives the .choice of quitting him if they prefer the present world. A'isha declines the offer, and the others follow suit.(1)

Margoliouth, D. S., Mohammed and the Rise of Islam, p. 418.

’’ان گھریلو مناظر میں سے ایک منظر کچھ مختلف انداز پیش کرتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور انہیں پہلے اندر آنے کی اجازت نہیں ملتی۔ جب انہیں اندر آنے کی اجازت مل جاتی ہے تو وہ پیغمبر کو بیویوں کے درمیان خاموش و افسردہ پاتے ہیں وہ گھریلو سامان رسد کی فرمائش کر رہی تھیں جو وہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں مہیا نہ کرسکے۔ عمر رضی اللہ عنہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس افسردہ ماحول سے نکالنے کی امید لئے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کی بیوی نے کچھ رقم طلب کی تو انہوں نے اس کا جواب گردن پر مکہ مار کردیا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی بیویاں بھی اس طرح چیزوں کے لئے مسلسل اصرار کرتی رہی ہیں۔ دونوں دوستوں نے اپنی بیٹیوں پر عمر رضی اللہ عنہ کے مصلحت آمیز طریقے کو آزمانا چاہا جس کی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اجازت نہ دی۔ لیکن وہ اپنی بیویوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ اگر وہ دنیاوی ساز و سامان چاہتی ہیں تو وہ اسے ترجیح دیتے ہوئے انہیں چھوڑ سکتی ہیں۔ عائشہ (رضی اﷲ عنھا) اس پیشکش کو ٹھکرا رہی ہیں اور دوسری بیویاں بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔‘‘

معروف مغربی مفکر ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) اپنی تصنیف ’’زوالِ سلطنتِ رومہ‘‘ میں لکھتا ہے :

The good sense of Mohammad despised the pomp of royalty; the apostle of God submitted to the menial offices of the family; he kindled the fire, swept the floor, milked the ewes, and mended with his own hands his shoes and his woolen garment. Disdaining the penance and merit of a hermit, he observed without effect or vanity, the abstemious diet of an Arab soldier. On solemn occasions he feasted his companions with rustic and hospitable plenty. But in his domestic life many weeks would elapse without a fire being kindled on the hearth of the Prophet. The interdiction of wine was confirmed by his example; his hunger was appeased with a sparing allowance of barley bread, he delighted in the taste of milk and honey, but his ordinary food consisted of dates and water.

Edward Gibbon, The Decline and Fall of the Roman Empire, vol. 2, p. 694.

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اچھی افتادِ طبع شاہانہ شان و شوکت کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ خدا کے رسول کو روز مرہ گھریلو کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی۔ وہ آگ جلالیتے، فرش کی صفائی ستھرائی کر کے بکریوں کا دودھ دوہ لیتے اور اپنے ہاتھ سے جوتوں کی مرمت کرتے اور اونی کپڑوں کو پیوند لگالیتے۔ راہبانہ طرز زندگی کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے بغیر کسی لگی لپٹی اور دکھلاوے کے وہ ایک عرب سپاہی کی طرح سادہ غذا پر گزر بسر کرتے۔ سنجیدہ مواقع پر وہ اپنے ساتھیوں کی تواضع اور مہمان نوازی دیہاتی وافر کھانوں کی ضیافت کے ساتھ کرتے۔ لیکن گھریلو زندگی میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر چولہے میں آگ نہ جلائی جاتی۔ انہوں نے اپنے ذاتی عمل سے امتناعِ شراب کی تصدیق کی۔ فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرتے اور اپنی بھوک جو کی روٹی سے مٹاتے، شہد اور دودھ سے لطف اندوز ہوتے لیکن ان کی معمول کی خوراک کھجور اور پانی پر مشتمل تھی۔‘‘

جرمن مفکر گوسٹاویل (Gustav Weil) اپنی تصنیف History of the Islamic Peoples میں لکھتا ہے :

Mohammad set a shining example to his people. His character was pure and stainless. His house, his dress, his food, these were characterized by a rare simplicity.

Gustav Weil, History of the Islamic Peoples, (Tr. by S. Khuda Bakhsh), p. 27.

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے لوگوں کے لئے ایک تابندہ مثال قائم کی۔ ان کا کردار پاکیزہ اور بے داغ تھا۔ ان کا گھر، مکان اور غذا سب میں فقید المثال سادگی جھلکتی تھی۔‘‘

ایڈورڈ فری مین (Edward Freeman) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

He reared no palace for his own honour by the side of the temple which he recovered to the honour of God. The city of his fathers, the metropolis of his race, the shrine of his religion, was again deserted for his own humble dwellings among those who had stood by him in the days of his trial. Muhammad was now spiritual and temporal ruler.

Edward A. Freeman, History and Conquests of the Saracens, p. 36-37.

’’انہوں نے عبادت گاہ (مسجد نبوی) کے پہلو میں جہاں وہ خدا کی تقدیس بیان کرتے تھے اپنے جاہ و جلال کے لئے کوئی محل تعمیر نہ کیا۔ ان کے آبا و اجداد کا شہر (مکہ)، جو اُن کے خاندان کا ام البلاد اور مذہب کا مرکز تھا، اُن کے لئے ان دوستوں کے درمیان رہنے کے لئے جنہوں نے آزمائش کے وقت ان کا ساتھ دیا تھا دوبارہ مسخر ہو گیا۔ اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی اور دنیاوی اعتبار سے حکمران تھے۔‘‘

انسائیکلوپیڈیا امریکانہ (Encyclopedia Americana) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا گیا :

His Personality was strong and dominant, but his domestic life was as simple as his frugality at meals. He was kind and generous, a tender father and a loyal friend. Even at the height of his power he lived in a miserable hut, slept upon straw and his pillow was made of palm-leaves covered with leather.

The Encyclopedia Americana, 1947 Edition, vol. 19, p. 294.

’’ان کی شخصیت مضبوط، توانا اور بہمہ اعتبار سب پر حاوی تھی۔ لیکن ان کی گھریلو زندگی اتنی ہی سادہ تھی جتنی کفایت شعاری وہ اپنی خوراک میں اختیار کئے ہوئے تھے۔ وہ سخی، رحمدل، شفیق باپ اور ایک وفادار دوست تھے۔ اپنے اختیار و اقتدار کے بام عروج پر ہوتے ہوئے بھی وہ ایک ادنی کٹیا میں گزر بسر کرتے۔ بوریا پر خواب استراحت فرماتے اور ان کا سرہانہ کھجور کے پتوں کا بنا ہوتا جس پر چمڑا چڑھایا گیا تھا۔‘‘

چارلس ملز (Charles Mills) اپنی تصنیف History of Muhammedanism میں لکھتا ہے :

In the possession of the kind and generous affections of the heart, and in the performance of most of the social and domestic duties, he disgraced not his assumed title of apostle of God. With that simplicity which is so natural to a great mind, he performed the humblest offices whose homeliness it would be idle to conceal in the pomp of diction; even while lord of Arabia, he mended his own shoes and coarse woolen garment, milked the ewes, swept the hearth, and kindled his fire. Dates and water were his usual fare and milk and honey his luxuries, when he traveled, he divided his morsel with his servant. The sincerity of his exhortations to benevolence was testified at his death by the exhausted state of his coffers.

Charles Mills, History of Mohammedanism, p. 39.

’’ان کا دل فیاضانہ شفقتوں اور مہربانیوں کا گہوارہ تھا۔ اپنے معاشرتی اور خانگی فرائض کو انجام دیتے ہوئے وہ رسول خدا کے منصب پر حرف نہ آنے دیتے۔ مزاج کی اس سادگی سے جو فطرت کے خمیر سے پھوٹتی ہوئی اعلیٰ دماغی کی مظہرہے، وہ ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے سے بھی عار نہ کھاتے۔ ان کا طرزِ تکلم خود نمائی سے عاری تھا۔ اس وقت بھی جب وہ خطۂ عرب کے مالک تھے وہ اپنے جوتے اور موٹے اونی لباس کی خود مرمت کرتے۔ بکریوں کا دودھ دوہتے، گھر کے فرش کی جھاڑ پونجھ کرتے اور آگ جلاتے تھے۔ کھجوریں اور پانی ان کی معمول کی غذا تھی۔ شہد اور دودھ ان کے لئے سامانِ تعیش تھا جب وہ سفر پر ہوتے تو وہ خادم کو اپنے ساتھ شریک طعام کرلیتے۔ ان کی پند و موعظت کے اخلاص اور کریم النفسی کی تصدیق ان کی وفات پر ان کے جمع کردہ پونجی کی بے سروسامانی سے ہوتی ہے۔‘‘

ول ڈیورانٹ (Will Durant) اپنی تصنیف The Age of Faith میں لکھتا ہے :

His simple foods were dates and barley bread, milk and honey were occasional luxuries... Courteous to the great, affable to the humble, Dignified to the presumptuous, indulgent to his aides, kindly to all but his foes - so his friends and followers describe him. He visited the sick and joined any funeral procession that he met. He put on none of the pomp of powers, rejected any special mark of reverence, accepted the invitation of a slave to dinner, and asked no service of a slave that he had time and strength to do for himself. Despite all the booty and revenue that came to him, he spent little upon his family, less upon himself, much in charity.

Will Durant, The Age of Faith, p. 173.

’’ان کی سادہ غذا کھجوروں اور جو کی روٹی پر مشتمل تھی۔ دودھ اور شہد کا استعمال خاص موقعوں پر ہوتا تھا۔ بڑوں سے خندہ پیشانی اور چھوٹوں سے عاجزی اور انکساری سے پیش آتے، متکبر اور امیر کبیر لوگوں سے پروقار متانت کا مظاہرہ کرتے اور خدام سے درگزر کرتے۔ وہ اپنے پرائے دوست دشمن سب پر مہربان تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کرتے، جنازہ چاہے کسی کا بھی ہوتا اس میں شریک ہوتے، ان میں اقتدار و اختیار کی ذرہ بھر خو بو نہیں تھی۔ اپنے لئے کسی قسم کا امتیاز اور تفوق و برتری پسند نہیں کرتے تھے۔ غلام بھی کھانے کی دعوت دیتا تو اسے قبول کرلیتے اور غلام سے بھی وہ کام کرنے کو نہ کہتے جسے کرنے کے لئے ان کے پاس ہمت اور وقت ہوتا۔ مال غنیمت اور آمدنی جو باہر سے وصول ہوتی اسے اپنے گھر والوں پر خرچ نہ کرتے اور اسے اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے صدقہ و خیرات میں دے دیتے۔‘‘

سر جان گلب (Sir John Glubb) اپنی کتاب The Empire of Arabs میں لکھتا ہے :

The Prophet never accumulated wealth nor even made use of the most elementary comforts. His food, his clothing, his house and its furnishings were simple in the extreme, even when ample money was available if he had been interested in it.

Sir John Glubb, The Empire of the Arabs, p. 54.

’’پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی مال جمع نہ کرتے اور نہ ہی انتہائی معمولی آرام و آسائش کا سامان استعمال میں لاتے۔ ان کے گھر کا ساز و سامان انتہائی سادہ ہوتا اور اگر رقم کافی مقدار میں آجاتی تب بھی انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی۔‘‘

برٹریم تھامس (Bertram Thomas) اپنی تصنیف The Arabs میں لکھتا ہے :

He was a man without pride, without ostentation, without cant, not a mealy-mouthed man but a strong just man, and works that he died in debt, some of his belongings in pawn with a Jew-among them his only shield for which he obtained three measures of meal. Mohammed despised pomp and lived an utterly simple life.۔ ۔ ۔ He lived in great humility, performing the most menial tasks with his own hands; he kindled the fire, swept the floor, milked the ewes, patched his own garments, and cobbled his own shoes. There was an essential Puritanism in his system.

Bertram Thomas, The Arabs, p. 65-66.

’’بحیثیت انسان ان میں غرور و رعونت اور نام و نمو د نام کو بھی نہیں تھا۔ ریاکاری اور دکھاوا ان کو چھو کر بھی نہیں گزارا تھا۔ وہ ہرگز چرب زبان نہیں تھے بلکہ ایک مضبوط اور انصاف پرور انسان تھے۔ وہ وصال کے وقت مقروض تھے اور ان کا کچھ سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھا ہوا تھا۔ ان کے پاس اتنا سامان تھا جس سے وہ تن و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکتے تھے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نمود و نمائش سے نفرت تھی وہ حد درجہ سادہ زندگی بسر کرتے جو عجز و خاکساری کا مرقع تھی۔ انہیں اپنے ہاتھوں معمولی سے معمولی کام کرنے میں بھی عار نہیں تھا۔ آگ جلاتے، فرش کی جھاڑ پونچھ کرلیتے، بکریوں کا دودھ دوہتے، اپنے لباس میں پیوند لگالیتے اور جوتوں کی مرمت کرلیتے۔ ان کے رہن سہن کا تمام تر نظام پاکیزگی سے عبارت تھا۔‘‘

جے جے سانڈرز (J. J. Saunders) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی زندگی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

...his habits were so simple that even in the last days in Medina, when he governed Arabia, he mended his own clothes and cobbled his own shoes. His piety was sincere and unaffected.

Saunders, J. J., History of Medieval Islam, p. 34.

’’ان کی عادات اتنی سادہ تھیں کہ مدینہ کے آخری ایام میں بھی جب وہ عرب کے حکمران تھے وہ اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگاتے اور جوتوں کو مرمت خود کرلیتے تھے۔ ان کی پارسائی اور تقویٰ میں نام کو بھی بناوٹ نہیں تھی۔‘‘

فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) اپنی تصنیف History of the Arabs میں لکھتا ہے :

Even in the height of his glory Muhammad led, as in his days of obscurity, an unpretentious life in one of those clay houses as do all old-fashioned houses of present- day Arabia and Syria. He was often seen mending his own clothes and was at all times within the reach of his people. The little he left he regarded it as state property.

Philip K. Hitti, History of the Arabs, p. 120.

’’اپنی عظمت کے دور عروج میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح زندگی بسر کرتے جس طرح وہ بے سروسامانی اور گمنامی کے زمانے میں بسر کرتے تھے۔ مٹی کے لیپے ہوئے گھر میں ایسی زندگی جو شان و شوکت اور نمود و نمائش سے عاری تھی۔ جس کٹیا میں رہتے اس کا موازنہ آج کے عرب اور شام کے قدیم طرز کے جھونپڑوں سے کیا جاسکتا ہے انہیں اکثر اپنے کپڑے کو آپ پیوند لگاتے دیکھا گیا۔ وہ ہمہ وقت لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے۔ جو کچھ قلیل سامان ان کے پاس تھا اسے وہ ریاست کی ملکیت تصور کرتے تھے۔‘‘

متعصب عیسائی پادری ولسن کیش (W. Wilson Cash) اپنی تصنیف The Expansion of Islam میں لکھتا ہے :

His life was very simple and primitive. He never assumed the garb of an eastern potentate. He was always accessible to his followers.

Wilson Cash, W., The Expansion of Islam, p. 14.

’’ان کی زندگی انتہائی سادہ اور بے تصنع تھی۔ وہ کبھی بھی مشرقی حاکم اعلیٰ کا لباس زیب تن نہ کرتے۔ ان تک ہمیشہ ان کے پیروکاروں کی رسائی رہتی تھی۔‘‘

بودلے (R.V.C. Bodley) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں لکھتے ہوئے بیان کرتا ہے :

To an American or English or Japanese Muslim, Mohammed's life suggests something primitive, something in the order of an anchorite. It is as unimaginable as that of Jesus to the average Christian.

Bodley,R.V.C., The Messenger : The Life of Mohammed, p. 195.

’’ایک امریکی، انگریز یا جاپانی مسلمان کے نزدیک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں سادگی اور گوشہ نشینی کا رنگ جھلکتا تھا یہ اتنا ہی ماورائے تصور ہے جتنا ایک اوسط درجے کے عیسائی کی نظر میں یسوع مسیح کی ذات کا تصور ابھرتا ہے۔‘‘

مغربی اہل قلم سے چند نمایاں مصنفین کی تحریروں کے متذکرہ بالا اقتباسات اس امر کو واضح کرتے ہیں کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ غیر جانبداری اور دیانت داری سے کیا جائے، چاہے مطالعہ کرنے والا کسی بھی خطے، مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسوۂ حسنہ ہی انسانیت کے لئے ابدی نمونہ کامل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم ان تمام جہات کا احاطہ کرتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام عالمِ انسانیت تک پہنچانے کی سعی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دُنیا بھر میں سلیم الفکر رکھنے والے لوگ اِسلام کے اصل چہرے سے آشنا نہ ہوں۔

عالمی سطح پر سیرت کے مؤثر ابلاغ کے منہج کی دوسری جہت انسانیت کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناگزیریت کواستدلال اور مضبوط عملی بنیادوں پر بیان کرنا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دورِ حاضر میں عالمِ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل سیرت سے دیا جائے اور دلائل و براہین سے اس امر کو ثابت کر دیا جائے کہ سیر ت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر نمونۂ حیات نوع اِنسانی کو کبھی بھی میسر نہیں آ سکتا۔

Tuesday 29 December 2015

نبی کریم ﷺ کی سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اِجتماعی زندگی کی لاتعلقی

0 comments
نبی کریم ﷺ کی سیرت کے فکری و تعلیماتی پہلو سے اِجتماعی زندگی کی لاتعلقی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام کے اعمال و اقدار کے مجرد رسم میں بدل جانے کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سیرت سے دور ہو گئی۔ زندگی کے کسی بھی پہلو پر سیرت کے واضح اور نمایاں اثرات نہیں رہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بصیرت پر مبنی فہم نہ ہونے اور سیرت کے ساتھ زندہ عملی، قلبی اور روحانی تعلق نہ ہونے کے سبب سے نسل نو میں عمل کے نتائج کے باب میں بے یقینی پیدا ہو گئی اور اس بے یقینی نے ملت اِسلامیہ کو اجتماعی سطح پر لادینی طرز فکر اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس بے یقینی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ ملتِ اِسلامیہ سے عمل کا داعیہ چھن گیا بلکہ راہِ عمل پر گامزن لوگ بھی اپنے عمل کی مؤثریت سے محروم ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ اس سیرت مبارکہ کو جسے اﷲ رب العزت نے اسوۂ حسنہ قرار دے کر اہل اِسلام کے لئے تا ابد نمونہ بنایا تھا۔ ایسا نمونہ کامل جس میں حصول نتائج کی ضمانت ہے اور اُنہی احوال و کیفیات اور حالات و واقعات کے پھر سے منصہ شہود پر آنے کی ضمانت ہے جن کے سبب سے دورِ نبوت میں انسانیت تاریکی سے نکل کر روشنی، زوال سے نکل کر عروج اور جہالت سے نکل کر دورِ نو میں داخل ہوئی تھی، وہ اسوۂ حسنہ صرف بیان تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ان حالات میں نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام عقیدے کی حد تک تو دین رہا لیکن عملاً ہماری زندگیوں میں بطور ایک مکمل دین کے موجود نہیں رہا اور اس کے نتیجے میں ہماری اجتماعی زندگی کم و بیش ہر دائرے میں تغیرات کی نذر ہو گئی جن میں سیاسی فکر، معاشی و اقتصادی فکر، قانونی فکر، عمرانی اور سماجی فکری، تہذیبی اور ثقافتی فکر، مذہبی فکر اور تعلیمی فکر شامل ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت کےفیضان و تاثیر سے ہمارے اعمال زندگی اور اقدار محروم ہیں

0 comments
نبی کریم ﷺ کی سیرت کےفیضان و تاثیر سے ہمارے اعمال زندگی اور اقدار محروم ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام ایسے اعمال و اقدار کاحامل ہے جو زندگی کو ظاہراً و باطناً ایک مثبت تبدیلی سے آشنا کرتے ہیں۔ اسلام کے یہی اعمال و اقدار ماضی میں مسلمانوں کی مادّی و تعدادی کمزوریوں کے باوجود ان کے غلبہ و تمکنت کا باعث رہے ہیں۔ یہ اعمال و اقدار مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی میں تب ہی موثر ہو سکتے ہیں جب انہیں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی اور کلی تعلق میسر ہو۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت انسانی شخصیت کے تمام اوصاف و کمالات کی جامع ہے۔ اس کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی ایسی جامع تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کامل اور اسوہ حسنہ کا صحیح نقشہ ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و امانت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت، جود و سخا اور رحمت و مودت جیسے عظیم خصائل و اَوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے اور ہر قاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو عظیم مصلح و رہنماء، عظیم مدبر و منتظم، عادل قاضی و منصف، بے نظیر مقنن، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، مثالی خاوند اور سربراہ خاندان، کامیاب سربراہِ ریاست اور اسی طرح ایک عظیم انسان کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو کی اہمیت و افادیت تبھی موثر ہے جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ دیکھا جائے۔ لیکن بعض مسلم مفکرین و مصنّفین نے رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کے بیان کو صرف اسی عملی پہلو تک محصور کر دیا اور وہ روحانی پہلو جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و بالا کمالات اور معجزانہ خصائص و امتیازات پر مشتمل تھا، اُسے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو محض صوفیاء و عرفاء کے لئے ہیں یا فقط عقیدت مندی کی باتیں ہیں جو نئے دور کی ضرورت نہیں۔

مزید برآں فضائل سیرت کے ظاہری پہلوؤں کا بیان بھی عقیدت و محبت کی چاشنی اور تعظیم و تکریم کے رنگ سے اس بنا پر عاری رکھا گیا کہ یہ جدید آداب تحقیق کے منافی ہے، لہٰذا اس غلو سے اپنی تحریروں کو مبرا ہی رکھنا چاہئے۔ نتیجتاً وہ قلبی عقیدت اور والہانہ محبت جو رفتہ رفتہ عشق میں بدل جایا کرتی ہے اس نسل کے دلوں سے ناپید ہوتی گئی اور بقول اقبال تعلیم یافتہ نوجوان نسل اس نوبت کو جا پہنچی ہے :

بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 745، ساقی نامہ

سیرت کے عملی پہلوؤں کے بیان سے فکری و نظری دلائل کی صورت میں عقل پرست طبقے کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو بیشک نئے حالات میں قابل عمل اور نتیجہ خیز بھی ثابت کیا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا چراغ روشن نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سینوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیوانہ وار الفت و عقیدت کا وہ طوفان بپا نہیں کیا جاسکتا جس کی قوت سے وہ کفر و طاغوت کے خلاف ٹکرا جائیں اور ناموس دین اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اس طرح جانوں کے نذرانے پیش کر دیں کہ۔ ۔ ۔ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں) (1) ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ لاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ (کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے)
(2) ۔ ۔ ۔ کے ایمان پرور نظارے دنیا کے سامنے آجائیں۔

(1) القرآن، الفتح، 48 : 29
(2) القرآن، المائده، 5 : 54

جب غیر مسلم مفکرین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے محض ظاہری پہلوؤں کو منفی انداز میں پیش کیا تو مسلم مفکرین نے بھی انہیں ظاہری پہلوؤں کو جواباً مثبت انداز میں پیش کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فضائل و کمالات کے بیان کو جدید دور میں غیر ضروری سمجھتے ہوئے ترک کر دیا تو خود مسلمانوں میں ہی دو طرح کے ذہن پیدا ہو گئے :

1۔ مغربیت زدہ سیکولر ذہن
2۔ مادیت زدہ مذہبی ذہن

مغربیت زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلاء ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا، مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث نہ صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے عاری اور اسلام کے روحانی تصورات سے نابلد ہو گیا بلکہ اسلام کی ابدی صداقت و عملیت اور عظمتِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور عقیدت میں بھی متزلزل ہو گیا۔ دوسری طرف مادیت زدہ مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا وہ جدید اسلامی لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانیء اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتقادی، فکری اور عملی طور پر وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کو فرسودہ، غیر ضروری اور جاہلانہ و شخصیت پرستی کے مترادف تصور کرنے لگا۔ بلکہ وہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ عظمتِ رِسالت کے درمیان خطرناک تضادات اور اِلتباسات کا شکار ہو گیا۔ اُس کی نگاہ میں مقامِ نبوت غیر اِرادی اور لاشعوری طور پر کم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور وہ اس نشے میں مبتلا رہا کہ اس کی توحید نکھر رہی ہے اور وہ شرک سے پاک ہو کر پختہ موَحد بن رہا ہے۔ اس طرح دونوں طبقات بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے اور یوں ہماری اعتقادی و فکری زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔

اِس دور میں اِحیائے اسلام اور ملت کی نشاۃِ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں ان کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظام حیات قبول کر لینا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ اِیمان اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے؛ اور اس اِتباع کے علاوہ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی، عشقی اور جذباتی لگاؤ مقصودِ ایمان ہے نہ تعلیمِ اسلام، بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے۔

اِس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملّی پر جو مضر اَثرات مرتب ہوئے وہ محتاج بیان نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل تصور کو اس طرح اُجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجوان نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ حبی تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانشِ فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کرسکیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 599، غزلیات (حصہ دُوُم)

اور اُنہیں دینِ حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہو جسے اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے :

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است

(دین سارے کا سار درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)

اِقبال، کلیات (اَرمغانِ حجاز) : 1140، حسین اَحمد

اَندریں حالات عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اَزسرِ نو نمایاں کرنا اَشد ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ عصر حاضر کے فکری بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا ممکنہ حد تک اِزالہ کیا جاسکے۔ ہماری نظر میں ایک طرف حضور سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ محبوبانہ عظمت و شان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی شوکت و رفعت کا وہ عُلوّ جس کے پھریرے اَقلیمِ فرش و عرش پر پیہم لہرا رہے ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے فکری، علمی اور عملی عظمت کے وہ پہلو ہوں جن سے دنیائے علم و عمل جگمگا رہی ہے۔ اس جامع اور ہمہ جہت تصور کو حتی المقدور الفاظ کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کرایا جائے تاکہ تعلیمات اسلام اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا متوازن اور جامع تصور متعارف کرایا جاسکے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرے اور دلوں اور روحوں کی اُجڑی بستی بھی سیراب کرے۔

آج اِس اَمر کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور صلحائے اُمت کے تذکرے عام کئے جائیں جنہوں نے اپنی زندگیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور والہانہ عشق کی بھٹی میں سے گزارتے ہوئے قدم قدم پر ایسے ان منٹ نقوش ثبت کئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کوئی محب اپنے محبوب کے لئے محبت کی دنیا میں ایسے نذرانے پیش نہیں کر سکتا۔ ان کی انہی اداؤں کو آج بھی ہم اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں کیونکہ پریشان حال امت کے دکھوں کا مداوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر سنت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائے بغیر ناممکن ہے۔

اس خزاں رسیدہ چمن میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابوبکر و عمر اور بلال و بوذر رضی اللہ عنھم نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرح یہ سوزشِ عشق نہ ہو گی تو معرکہ ہائے بدر و حنین بھی برپا نہیں ہو سکیں گے اور نہ راتوں کی تاریکیوں میں شب زندہ دار اپنے نالہ ہائے نیم شبی سے قدسیان فلک کو محو رشک کر سکیں گے۔

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دِلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

اِقبال، کلیات (ضربِ کلیم) : 982، شعاعِ اُمید

اِس لئے اِس اَمر کی آج کے پر فتن دور میں شدید ضرورت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واقعاتی اور تعلیماتی سیرت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبوی کمالات و فضائل اور روحانی شؤن و شمائل کا تذکرہ بھی کیا جائے تاکہ قاری عشق و محبت سے مملو جذبات کے ساتھ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کر سکے۔ حضور رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ جمیل بالعموم تین صورتوں پر مشتمل ہو سکتا ہے :

بیانِ فضائل
بیانِ شمائل
بیانِ خصائل

بیانِ فضائل

فضائل سے حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ پیغمبرانہ روحانی امتیازات اور معجزات و کمالات مراد ہیں جو وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ظاہر ہوتے رہے۔ ان کے ذکر کا مقصد اَوّلیں دلوں پر رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و تکریم کا نقش ثبت کرنا ہے۔ یہ تصور اگر دل میں جاگزیں ہو جائے تو اس سے بذاتِ خود حقانیتِ اسلام کی بہت بڑی دلیل ہاتھ آجاتی ہے، کیونکہ انبیاء کرام علیھم السلام کو معجزات عطا کئے جانے کا یہی بنیادی فلسفہ تھا اور مزید یہ کہ مسلمانوں کے دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ ادب و تعظیم میں منسلک ہو جاتے ہیں۔

بیانِ شمائل

شمائل کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ کے حسنِ ظاہر سے ہے۔ اس کے بیان کا مدعا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات سے محبت کے والہانہ جذبات اہلِ ایمان کے دلوں میں فروغ پائیں۔ یہ فطری بات ہے کہ کسی حسین کے حسن دل پذیر کا تذکرہ کیا جائے تو دل بے اختیار اس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ کیونکہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں والہانہ پن ہی ایمان کا حقیقی کمال اور اطاعت و اتباع کی صحیح بنیاد ہے۔ اس بیان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت، سیرت، سنت اور ہر ہر ادا کا فہم اور اس کا پیار فطری طریق سے دلوں میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی مقصود ایمان ہے۔

بیانِ خصائل

خصائل کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات و اطوار اور افعال و اعمال سے متعلق ہے، گویا یہ شخصیت مبارکہ کے حسن باطن کا آئینہ دار ہے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوتا ہے تاکہ اس روشنی میں انسان اپنے عمل کی اِصلاح اور اَخلاق کی تطہیر کر سکے اور اپنی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکے۔ یہ پہلو اِطاعت و اِتباع کی ترغیب دیتا ہے اور کمالِ اِیمان اِسی سے متعلق ہے۔