Monday 28 December 2015

حیات النبی ﷺ ، سماع موتیٰ ، دور سے سننا پر اشکالات و اعتراضات کے جواب 2

0 comments
حیات النبی ﷺ ، سماع موتیٰ ، دور سے سننا پر اشکالات و اعتراضات کے جواب 2
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وصیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
پھر حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت جو انہوں نے اپنے وصال سے قبل فرمائی تھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کو قبر انور میں زندہ مانتے ہیں۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر جلد ۵ ص ۶۸۵ پر فرماتے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ حضور ﷺ کے حجرہ مبارکہ کے سامنے رکھ دینا اگر دروازہ کھل جائے اور قبر انور سے آواز آئے کہ ابوبکر کو اندر لے آؤتب تو مجھے حجرہ مبارکہ میں دفن کر نا ورنہ عام مومنین کے قبرستان میں دفن کر دینا چنانچہ ایساہی ہو ا جب حجرہ مبارکہ کے سامنے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جنازہ رکھا گیا تو دروازہ کھل گیا اور قبر انور سے آوازآئی ادخلوا الحبیب الی الحبیب اگر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضور ﷺ کی حیاۃ بعد الممات کے قائل نہ ہوتے تو اس وصیت کے کیا معنی؟

عزیر علیہ السلام کا واقعہ
رہا عزیر علیہ السلام کا واقعہ تو سب سے پہلے تو یہ عرض کر وں گا کہ قرآن مجید میں حضرت عزیر علیہ السلام کا نام نہیں آیا ۔ قرآن میں اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ کے الفاظ ہیں اور اَلَّذِیْ سے کون مراد ہے؟ اس میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے ۔ عطاء نے کہا کہ ارمیاء مراد ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ عزیر مراد ہیں۔مجاہد فرماتے ہیں کہ اَلَّذِیْ سے رجل کا فر مراد ہے ۔ (دیکھئے تفسیر کبیر جلد ۲ص ۴۸۳طبع مصر)

ایسی صورت میں حیات انبیاء کے خلاف اس آیت کو پیش کر نا کیسی شدید حماقت ہے اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے۔ کہ اَلَّذِیْ سے حضرت عزیر علیہ السلام ہی مراد ہیں تب بھی مخالفین کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو تا کیونکہ اس آیت سے زیادہ سے زیادہ حضرت عزیز علیہ السلام کی ایک واقعہ سے لا علمی ثابت ہو گی اور لاعلمی عدم حیاۃ کو مستلزم نہیں۔ آپ لو گ رسول اللہ ﷺ کی حیات دنیا کے زمانہ میں کئی واقعات سے حضور کی لا علمی ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں لیکن اس وقت حضور ﷺ کو زندہ بھی مانتے ہیں۔ تو کیا آپ ہی کے مسلک پر یہ ممکن نہیں کہ عزیر علیہ السلام کو موت کے بعد حیات بھی حاصل ہو اور اس حیات میں ایک واقعہ سے وہ لا علم بھی ہوں؟

رہا ہمارا مسلک تو ہم لا علمی کی بجائے عدم التفات کا قول کریں گے اور یہ کہیں گے کہ عزیر علیہ السلام چونکہ عالم برزخ میں مشغول تھے اس لئے انہیں دنیا کے زمانہ طویلہ اور سو سال کی مدت کی طرف التفات نہ ہوا۔ ا س لئے انہوں نے ’’یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ‘‘کہہ دیا ۔ اس واقعہ سے حیات بعد الموت کی نفی کس طرح ثابت ہو گئی۔

اس آیت پر کسی دوسری جگہ ہم نے طویل کلام کیا ہے اس لئے یہاں قدر ضرورت پر اکتفا کرتے ہیں۔

شہدا ء کی ازواج نکاح کر سکتی ہیں، ان کا ترکہ تقسیم ہو تا ہے

ہم بارہا عرض کر چکے ہیں کہ شہداء و انبیاء علیہم السلام پر موت بھی آتی ہے اور انہیں حیات بعد الممات بھی عطاء کی جا تی ہے۔ دنیا میں ان پر موتٰی کے جس قدر احکام جاری ہو تے ہیں ۔ وہ سب قبض روح کی وجہ سے ہیں۔ باقی رہی حیات تو بعض امور میں اس کے احکام بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً حنفیہ کے نزدیک شہداکو غسل میت نہ دیا جانا اور شافعیہ کے نزدیک غسل اور نماز دونوں کا نہ ہو نا ۔

ازواج و میراث کے مسئلہ کو بھی حیات میں ضرور دخل ہے لیکن اس مسئلہ میں انبیاء اور شہدا ء کے درمیان جو فرق ہے وہ نفس حیات کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا منبع درجات حیات کا تفاضل اور تفاوت ہے۔

ان تمام بحثوں کے بعد انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ کا ان کی قبور منورہ میں محفوظ رہنے کا مسئلہ بھی سامنے آجا تا ہے۔ دلائل کی روشنی میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ صرف انبیاء نہیں بلکہ بعض شہداء اور صالحین اور علماء کے اجسام شریفہ بھی گلنے سڑنے اور خراب و متغیر ہونے سے صحیح و سالم رہتے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ فرعون کے جسم کا سالم رہنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہے فرق یہ ہے کہ فرعون کا جسم اہانت کے لئے سالم رکھا گیا کہ اس کا جسم دیکھ کر لو گوں کو عبرت ہو اور وہ سمجھیں کہ خدا اوراس کے رسولوں کی نافرمانی کر نے والوں کا ایسا ہی انجام ہو تا ہے چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً (یونس : ۹۲، پ ۱۱)
آج ہم تجھ کو تیرے بدن کے ساتھ نجات دیں گے۔ تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لئے ’’ہمارے عذاب‘‘ کا نشان ہوجائے۔

تحقیق جدید سے معلوم ہو ا کہ فرعون کی لا ش آج تک محفوظ چلی آتی ہے۔ اور یہ اس کی انتہائی اہا نت کا مو جب ہے کہ جو بھی اسے دیکھتا ہو گا اس کے ذہن میں فوراًیہ بات مرکوز ہو جاتی ہو گی کہ یہی ہے اللہ اور ا س کے رسول کا باغی جو اپنے جرائم اور معاصی کیوجہ سے اللہ کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہلا ک ہو ا لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام کریمہ کمال عزت اور انتہائی عظمت کا نشان بن کر صحیح و سالم رہتے ہیں کہ جس ذہن میں بھی ان کے مبارک جسموں کے صحیح و سالم رہنے کا تصور آتا ہے وہ ساتھ ہی اس حقیقت سے روشنا س ہو جاتے ہیں کہ یہ اجسام مقدسہ ان پاکیزہ اور نورانی ہستیوں کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہو ئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حیات ابدی کے ساتھ زندگی بخشی۔

کمال عزت و عظمت کے ساتھ اجساد انبیاء علیہم السلام کا محفوظ رہنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہے ۔

سلیمان علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے
فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہٖ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَأْکُلُ مِنْسَأَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّتَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ (سبا آیت ۱۴)
پھر جب ہم نے ا ن پر موت واقع کر دی تو جنات کو ان کی مو ت پر کسی نے رہنمائی نہ کی۔ سوائے دیمک کے کیڑوں کے کہ وہ دیمک کے کیڑے ان کے عصا کو کھاتے رہے۔ جب عصا کے دیمک خوردہ ہو کر گر جانے کی وجہ سے سلیمان علیہ السلام گرے تو جنوں کو معلوم ہو ا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے عذاب میں اتنے عرصے تک مبتلا نہ رہتے ۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام جو عصا کا سہارا لگا ئے کھڑے تھے اپنی حشمت و شوکت کے ساتھ جنات سے کام لے رہے تھے ۔ اسی حال میں انہیں موت آگئی اور مو ت کے بعد اسی عصا کے سہارے اتنے طویل عرصہ تک کھڑے رہے کہ عصا کو دیمک لگ گئی اور ا س دیمک نے عصا کو یہاں تک کھالیا کہ وہ ٹھہر نہ سکا اور اس کے ساتھ ہی سلیمان علیہ السلام کا جسم مبارک بھی زمین پر آپڑا۔

تفاسیر سے معلو م ہو تا ہے کہ یہ ایک سال کی مدت تھی اگر تفاسیر سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو الفاظ قرآن سے اتنا ضرور ثابت ہو تا ہے کہ وہ مدت چند روز کی نہ تھی بلکہ اتنا طویل زمانہ تھا جس میں کا م کر نے کو جنات جیسی قوی ہیکل اورسخت جان مخلوق کیلئے ’’مَالَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ‘‘سے تعبیر کیاگیا ہے۔ معلوم ہو ا کہ ازروئے قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ کا عرصہ دراز تک صحیح سالم رہنا حق اوردرست ہے۔

اسی طرح یونس علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے ۔جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔’’لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَومِ یُبْعَثُوْنَ‘‘ (صٰفّٰت ۱۴۴) کہ یونس علیہ السلام جنہیں مچھلی نے نگل لیا تھا اور وہ کچھ عرصہ تک مچھلی کے پیٹ میں رہ کر زندہ اور صحیح سالم نکل آئے۔ اگر مُسَبِّحِیْن میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ ہی میں ٹھہرے رہتے۔

ظاہر الفاظ قرآن سے واضح ہو تا ہے کہ یو نس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک صحیح سالم ٹھہرے رہتے اور قیامت کے دن جب دوسرے لو گ اپنی قبروں سے نکلتے تو یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر آتے۔

قرآن کریم کے بعد احادیث شریفہ کو دیکھا جائے تو انبیاء علیہم السلام کے مبارک جسموں کے صحیح سالم رہنے کی دلیل میں بکثرت احادیث ملیں گی۔ جن میں سے بعض حدیثیں گزشتہ صفحات میں ہم بیان کر چکے ہیں اور ایک حدیث حضرت دانیال علیہ السلام کے جسم اقدس کے متعلق اس وقت پیش کرتے ہیں۔

البدایہ والنہایہ میں بروایت یونس بن بکیر حضرت ابو العالیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم نے قلعہ تستر فتح کیا تو ہر مزان کے گھر کے مال و متاع میں ایک تخت پایا جس پر ایک آدمی کی میت رکھی ہوئی تھی اور اس کے سر کے قریب ایک مصحف تھا ہم نے وہ مصحف اٹھاکر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب کو بلایا۔ انہوں نے اس کو عربی میں لکھ دیا۔ کل عرب میں میں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کو پڑھا میں نے اسے اس قرآن کی طرح پڑھا۔ ابو خالد بن دینار کہتے ہیں، میں نے ابو العالیہ سے کہا اس صحیفہ میں کیا تھا انہوں نے کہا تمہارے احوال، امور اور تمہارے کلام کے لہجے اور آئندہ ہونے والے واقعات ہیں۔ میں نے کہا تم نے اس آدمی کا کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے دن کے وقت متفرق طو ر پر تیرہ قبریں کھو دیں جب رات آئی تو ہم نے انہیں دفن کر دیا اور تمام قبروں کو برابر کردیا تاکہ وہ لو گوں سے مخفی رہیں اور کوئی انہیں قبر سے نہ نکالنے پائے۔ میں نے کہا۔ ان سے لو گوں کی کیا امیدیں وابستہ تھیں؟ انہوں نے کہا جب بارش رک جاتی تھی تو لوگ ان کے تخت کو باہر لے آتے تھے۔ تو بارش ہو جاتی تھی۔ میں نے کہا تم اس رجل مبارک کے متعلق کیا گمان رکھتے تھے کہ وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ انہیں دانیال کہا جا تا تھا۔ الخ۔اس کے بعد اگلے صفحہ پر ایک حدیث مرقوم ہے

قال رسول اللّٰہ ان دانیال دعاربہ عزوجل ان یدفنہ امۃ محمد ﷺ فلما افتتح ابو موسٰی الا شعری تستر وجدہ فی تابوت تضرب عروقہ ووریدہ (البدایہ والنہایہ، ج ۲، ص ۴۱)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دانیال علیہ السلام نے اپنے رب عزوجل سے یہ دعا کی تھی کہ انہیں حضرت محمد ﷺ کی امت دفن کرے۔ جب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے قلعہ تستر فتح کیا تو انہیں ان کے تابوت میں اس حال میں پایا کہ ان کے تمام جسم اور گردن کی سب رگیں برابر چل رہی تھیں۔ انتہیٰ

ان دونوں روایتوں سے اتنی بات بلا تر ددواضح ہے کہ دانیال علیہ السلام کا جسم مبارک سینکڑوں سال گزر جانے کے باوجود صحیح سالم تھا۔ اس کے بعد یہ بات بھی ان دونوں روایتوں سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا توسل حق ہے اور ان حضرات کے توسل سے بارش طلب کی جاتی تھی اور لو گ سیراب بھی ہوتے تھے۔ نیز یہ کہ دانیال علیہ السلام کا جسم مبارک صد ہا برس کے بعد نہ صرف صحیح سالم تھا بلکہ اس کی نبضیں اور وریدیں بھی چل رہی تھیں۔

ایک سوال کا جواب
اس مسئلہ میں بعض لو گ یہ پو چھا کرتے ہیں کہ اگر انبیاء علہیم السلام کے اجسام کریمہ ایک لمحہ کیلئے بو سیدہ نہیںہو تے توانہیں بعض اوقات عظام سے کیوں تعبیر کیا جا تاہے ۔ اس کا جو اب یہ ہے کہ عظام کہنے کی یہ وجہ نہیں کہ معاذ اللہ سارا بدن گلنے کے بعد ہڈیاں رہ جا تی ہیں ۔ بلکہ عظام استعارہ ہے جسم کے نہ گلنے سے کہ جس طرح بعض ہڈیاں نہیں گلتیں اسی طرح انبیاء علیہم السلام کا بدن گلنے سے پا ک ہو تاہے۔ اس مقام پر لفظ عظام سے بغیر گوشت کے ہڈیاں مراد نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی جسمانی حقیقی حیات پر ایک اور تصریح ملاحظہ فرمایئے مواہب اللدنیہ میں ہے
ونقل السبکی فی طبقاتہ عن ابن فورک انہ علیہ السلام حی فی قبرہ رسول اللّٰہ ابدا لاباد علی الحقیقۃ لا المجاز۔ انتھٰی(مواہب اللدنیہ، ج ۲، ص ۵۴)
اما م سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طبقات میں ابن فورک سے نقل کیا کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اللہ کے رسول ہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپ کا رسول ہو نا حقیقت پر محمول ہے مجاز پر نہیں۔ انتہیٰ

ابن عقیل حنبلی کا قول
امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت ، زرقانی علی المواہب، میں ارشاد فرماتے ہیں
لحیاتہ فی قبرہ یصلی فیہ باذان و اقامۃ قال ابن عقیل الحنبلی و یضاجع ازواجہ و یستمتع بھن اکمل من الدنیا وحلف علیٰ ذلک وھو ظاہر ولا مانع منہ (زرقانی علی المواہب جلد دس ص۱۶۹)
حضور ﷺ کا حقیقتاً رسول ہو نا اس لئے ہے کہ قبر انور میں حضور ﷺ کو حیات حقیقی حاصل ہے۔ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ابن عقیل حنبلی نے کہا حضور ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ استراحت فرماتے ہیں اور ان سے ایسا استمتاع فرماتے ہیں جو دنیا سے اکمل ہے ۔ ابن عقیل نے یہ بات قسم کھاکر کہی۔ امام زرقانی فرماتے ہیں اور یہ کھلی ہوئی بات ہے اس میں کوئی امر مانع نہیں۔

اللہ تعالیٰ امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے وھو ظاہر ولا مانع منہ کہہ کر ابن عقیل حنبلی کے قول کو بے غبار کردیا۔ میں ہزار مرتبہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابن عقیل حنبلی کے اس قول کو مکروہ نہیں جانے گا۔ مگر وہی نفس کا بندہ جو خواہشات نفسانی میں مبتلا ہے اور اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات مقدسہ اور حضور ﷺ کے حالِ مطہرہ کا قیاس اپنی مکروہ ذات اور نجس حال پر کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ تو عالم دنیا میں بھی ان تمام مکروہات سے پاک رہے جن کا تصور کسی کے حق میں کیا جاسکتا ہے ۔ چہ جائیکہ عالم برزخ میں تشریف لے جانے کے بعد سرکار ﷺ کی ذات مقدسہ کے حق میں کوئی سیاہ باطن اس قسم کا ناپاک تصور پیدا کرے۔

قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء و شہدا ء کرام علیہم السلام جنت میں رزق دئیے جاتے ہیں اور وہ طرح طرح کی نعمتیں کھاتے اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے لذتیں اٹھاتے ہیں تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ رزق اور نعمتیں اور ان سے لذت کا حصول دنیاوی رزق اور دنیاوی نعمتوں اور دنیا کی لذتوں کی قسم سے ہے ۔ ہم اس سے پہلے بارہا تنبیہ کرچکے ہیں کہ برزخ کے حال کا قیاس دنیا کے حال پر صحیح نہیں اور وہاں کے لوازم حیات کی نوعیت دنیا کے لوازم حیات کی نوعیت سے قطعاً جداگانہ اور مختلف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے وہاں کی کسی چیز کا قیاس یہاں کی کسی چیز پر نہیں ہوسکتا۔

صالحین اور اہل جنت کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَھُمْ فِیْہَا اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ (البقرۃ ۲۵)
جنتیوں کیلئے جنت میں ازواج مطہرہ (پاک بیویاں) ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے
القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفرات النیران
جب عام مؤمنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی قبر انور تو بطریقہ اولیٰ جنت کے باغوں میں سے ایک عظیم وجلیل باغ قرار پائے گی اور جنت کے باغوں میں جنت کی ازواج سے استمتاع حقیقت ثابتہ ہے ۔ اگر وہاں کوئی امر مانع نہیں تو یہاں کیونکر مانع ہوسکتا ہے ۔

ابن عقیل حنبلی کے کلام میں لفظ ازواجہ میں تین احتمال نکل سکتے ہیں۔ (۱) ازواج دنیا (۲) ازواج آخرۃ(۳) ازواج مطہرہ کے حقائق لطیفہ موجود فی عالم المثال۔

لیکن کسی تقدیر پر بھی استراحت اور استمتاع کی دنیوی نوعیت کا احتمال نہیں نکل سکتا ۔ اس لئے کہ حضور ﷺ عالم برزخ میں جلوہ گر ہیں اور اس عالم کے تمام امور کی نوعیت اس عالم دنیا کی نوعیت سے مختلف اور جداگانہ ہے۔

ایک غلط روایت
بعض جہلا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ایک غلط روایت بیان کردیا کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا تھاکہ حضور ﷺ کے بدن کی بو ایسے ہی بدل جائے گی جیسے عام لوگوں کے بدن کی بوبدل جاتی ہے حالانکہ یہ روایت کذبِ محض اور دروغ بے فروغ ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت جو ابن ماجہ اور مراسیل ابودائود میں موجود ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا اور کسی ایسی چیز کو دیکھنے لگا جو مریض سے نکلتی ہے لیکن میں نے ایسی کوئی چیز نہ پائی۔ فَقُلْتُ طِبْتَ حَیًّا وَّمَیِّتاً تو میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ حیات ظاہری میں اور بعد الممات پاکیزہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
وَسِعَتْ مِنْہُ رِیْحٌ طَیّبَۃٌ لَمْ یَجِدُوْا مِثْلَھَا قَطُّیعنی پھر حضور ﷺ سے ایسی پاکیزہ خوشبو مہکی جس کی مثل لوگوں نے کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی تھی۔ (ابن ماجہ ،ابودائود) از نسیم الریاض جلد اول صفحات ۴۴۲/۴۴۳

معلوم ہوا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف جس روایت کو منسوب کیا گیا ہے وہ باطل محض اور کذب صریح ہے۔

جسم اقدس کے تغیرات
رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر کے بارے میں جو لوگ تغیرات کاقول کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے۔ کہ یہ ایسا قول ہے کہ علماء نے اس کے کفر ہونے میں اختلاف کیا ہے ( دیکھئے علامہ شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں)

اختلفو افی کفر من قال ان النبی ﷺ لما انتقلت روحہ للملاء الاعلیٰ تغیر بدنہ وروی ان و کیع بن الجراح حدث عن اسماعیل بن ابی خالد ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لما توفی لم یدفن حتیٰ ربا بطنہ وانثنی خصرہ (۱) وخضرت اظفارہ لانہ ﷺ توفی یوم الاثنین وترکہ الی اللیلۃ الا ربعاء لا شغالھم بامر الخلافۃ و اصلاح امر الا مۃ و حکمتہ ان جماعۃ من الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم قالوا لم یمت فار ادا للّٰہ ان یریھم ایۃ الموت فیہ ولما حدث وکیع بھذا بمکۃ رفع الی الحاکم العثمانی فاراد صلبہ علی خشبۃ نصبہا لہ خارج الحرم فشفع فیہ سفیان بن عیینۃ واطلقہ ثم ندم علی ذلک ثم ذھب وکیع المدینۃ فکتب الحاکم لا ھلھا اذا اقدم الیکم فارجموہ حتّٰی یقتل فادبرلہ بعض الناس بریدا اخبرہ بذالک فرجع للکوفۃ خیفۃ من القتل وکان المفتی بقتلہ عبدالمجید بن رواد قال سفیان لایجب علیہ القتل و انکر ھذا الناس وقالوا رأینا بعض الشھداء نقل من قبرہ بعداربعین سنۃ فو جد رطبالم یتغیر منہ شیٔ فکیف بسید الشھداء والا نبیاء علیہ وعلیھم الصلوٰۃ والسلام وھذہ زلۃ قبیحۃ لا ینبغی التحدث بھا۔ (نسیم الریاض جلد اول صفحات ۳۹۰/۳۹۱ غیر ہامشی)

علماء نے اس کے کفر میں اختلاف کیا ہے۔ جس نے یہ کہا کہ
رسول اللہ ﷺ کے روح مبارک ملاء اعلیٰ کی طرف منتقل ہو نے کے بعد حضور ﷺ کا جسم شریف متغیر ہو گیا مرو ی ہے کہ وکیع بن جراح نے اسماعیل بن ابی خالد سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کی جب وفات ہوگئی تو حضور ﷺ دفن نہیں کئے گئے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کا شکم مبارک پھو ل گیا اور حضور ﷺ کی چھنگلیا (سب سے چھوٹی انگلی) ٹیڑھی ہوگئی اور حضور ﷺ کے ناخن سبز ہوگئے کیونکہ پیر کے دن حضو ر کی وفات ہوئی تھی اور بدھ کی رات تک حضو ر ﷺ دفن نہیں کئے گئے۔ صحابہ کرام کے امر خلافت اور اصلاح امت کے کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے اور اس تغیر میں حکمت یہ تھی کہ صحابہ کی ایک جماعت نے یہ کہہ دیا تھاکہ حضور ﷺ کو موت نہیں آئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے بدن میں ان کی موت کی علامت دکھادی۔

جب وکیع نے مکہ میں یہ روایت بیان کی تو انہیں حاکم عثمانی کی طرف لے جایاگیا۔ اس نے خارج حرم میں ایک لکڑی نصب کر کے وکیع کو سولی پر چڑھانے کا ارادہ کر لیا۔ سفیان بن عیینہ نے وکیع کی سفارش کی اور حاکم نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر حاکم اپنے اس فعل پر سخت نادم ہو ا اور وکیع مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ حاکم نے مدینہ والوں کو لکھا کہ جس وقت وکیع تمہارے پاس پہنچے اسے فوراً سنگسار کر کے قتل کردو۔ بعض لوگوں نے مکہ سے اس کے پیچھے قاصد روانہ کیا اور اس نے وکیع کو راستے ہی میں خبردار کر دیا تو وکیع قتل کے خوف سے کوفے روانہ ہوگیا جس مفتی نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا اس کا نام عبدالمجید بن رواد ہے۔

سفیان کا قول یہ تھا کہ قتل واجب نہیں وکیع کی اس روایت کاتمام لوگوں نے سخت انکار کیااور کہا کہ ہم نے بعض شہداء کو دیکھا کہ وہ چالیس سا ل کے بعد اپنی قبر سے منتقل کئے گئے تو وہ ایسے تروتازہ تھے کہ ان میں کچھ بھی تغیر نہ تھا تو کس طرح سید الشہداء اور سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ روایت صحیح ہو سکتی ہے ۔ یہ بدترین قسم کی لغزش ہے جس کا ذکر کسی حال میں مناسب نہیں۔ انتہیٰ (نسیم الریاض اول ص۳۹۰/۴۹۱طبع مصر)

الحمد للہ! علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے وکیع کی اس روایت کا حال بخوبی معلوم ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ اجساد انبیاء علیہم السلام کی محفوظیت اور ہر قسم کے تغیرات سے ان کا پا ک ہو نا ہی حق و ثواب ہے ۔ اس کے خلاف کوئی قول امت مسلمہ کے نزدیک قابل التفات نہیں۔

حضور اکرم ﷺ قبر انور میں ہیں یا بہشت میں
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں ارشاد فرماتے ہیں
اما آنکہ قونوی تفضیل و ترجیح دادہ بودن آنحضرت ﷺ دربہشت اعلیٰ ’’استمرار آورد‘‘ در قبر شریف جو اب وے آنست کہ قبر احاد مومنین روضہ ایست از ریاض جنت پس قبر شریف سید المرسلین افضل ریاض جنت باشدو تو اند بودکہ وے ﷺ ہم در قبر از تصرف و نفوذ حالتی بو د کہ از سموات وارض جنان حجاب مرتفع باشد بے تجاوزو انتقال زیر ا کہ امور آخرت و احوال برزخ رابراحوال دنیا کہ مقید و مضیق حدود و جہات است قیاس نتواں کرد۔ (جذب القلوب)
اور علامہ قونوی نے جو حضور ﷺ کے قبر انور میں ہونے پر حضور ﷺ کے بہشت بریں میں ہو نے کو ترجیح دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عام مومنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو حضور ﷺ کی قبر انور ان سب میں افضل ترین باغیچہ جنت ہوگی۔

اور ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبرِ انور میں ایسا تصرف دیا گیا ہو اور ایسی حالت عطاء کی گئی ہو کہ آسمانوں ، زمینوں اور جنت سب سے حجاب اٹھ گیا ہو بغیر اس کے حضور ﷺ اپنے مقام سے آگے بڑھیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ اس لئے کہ امور آخرت اور احوال برزخ کا قیاس اس دنیا کے احوال پر نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقید ہے اور جس کے حدود اور جہات نہایت تنگ ہیں۔ انتہیٰ

اس عبارت سے بہت سے اشکال رفع ہوگئے اور احادیث کے درمیان تطبیق ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مقام میں جلوہ گر ہیں اور بغیر اس کے کہ اپنے مقام شریف سے تجاوز فرمائیں یا کہیں منتقل ہوں۔ زمینوں اور آسمانوں اور قبر انور جمیع امکنہ کے ساتھ حضور ﷺ کو مساوی نسبت ہے اور ایک جگہ ہو نے کے باو جو د ہر جگہ مو جو د ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حجاب کو اٹھادیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ہر جگہ ہو نے میں رکاوٹ کا مو جب ہو۔

رہا یہ امر کہ دنیا میں یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ہی وجود کئی جگہ یکساں مو جو د ہو تو اس کا جواب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح دیا کہ دنیا کی حدود جہات بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہیں اور عالم دنیا قیود کے ساتھ مقید ہے اس لئے عالم آخرت اور برزخ کا قیاس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا۔

اور اس میں شک نہیں کہ حضر ت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا اور درست فرمایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقید پر غیر مقید کا قیاس کر لیا جائے کسی کو تاہ اور تنگ چیز کو فراخ اور وسیع شئے کی طرح تسلیم کر لیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر انور میں بھی ہیں اور جنت اعلیٰ میں بھی لہٰذا کوئی تعارض اور اشکال باقی نہ رہا ۔

اس بیان سے دونوں مسلکوں کی تائید ہو جاتی ہے ۔ یعنی حضور ﷺ کے جسد اقدس کی حیات روح مبارک کے اس میں پائے جانے کی وجہ سے ہے یا کمال اتصال کی بناء پر۔ ہمارے نزدیک پہلا مسلک قوی اور راجح ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے
وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی (الضحیٰ آیت ۴)
اے محبوب ﷺ آپ کیلئے ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔

اس سے ثابت ہو ا کہ حضور ﷺ کیلئے کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا۔ جس میں حضو ر ﷺ کی کوئی فضیلت پہلے سے کم ہو بلکہ ہر آنے والی گھڑی میں حضور کی فضیلتیں پہلے سے زیادہ ہوںگی۔

روح اقدس کا استقرار اگر جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام میںہو تو ’’وَلَـلْاٰخِـرَۃُ خَیْـرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘ کے خلاف لازم آئے گا۔ ا س لئے کہ جسم اقدس سے روح مبارک کے قبض ہونے کے بعد اسے کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جو جسم مبارک سے زیادہ فضیلت والی ہو زیادہ تو درکنار تمام کائنات میں کوئی جگہ حضور ﷺ کے جسم اقدس کے برابر بھی فضیلت رکھنے والی نہیں کیونکہ علماء محققین نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ قبر انور اور زمین کا وہ حصہ جو حضور ﷺ کے اعضاء شریفہ سے متصل ہے تمام زمینوں اور آسمانوں اور کرسی اور یہاں تک کہ کعبہ مکرمہ اور عرش الٰہی سے افضل ہے۔ جسم اقدس سے اتصال (تعلق) رکھنے والی زمین عرش اور کعبہ سے افضل ہوئی ۔ تو خود جسم اقدس کا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ چنانچہ الدر المنتقیٰ میں علامہ محمد علاء الدین الامام فرماتے ہیں
وما ضم اعضاء الشریفۃ افضل البقاع علی الاطلاق حتیٰ من الکعبۃ ومن الکرسی وعرش الرحمٰن
جو زمین اعضاء شریفہ سے متصل ہے (یعنی قبر ا نور ) مطلقاً تمام مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ سے اور کرسی اور عرش رحمن سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنتقی بہا مش مجمع الانہار جلد اول ص ۳۱۲) (یہ مضمون درمختار جلد دوم اور شامی جلد دوم ص ۳۵۲/۳۵۱پر مر قوم ہے )

اگر روح مبارک جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو حضور ﷺ کی فضیلت پہلے سے کم ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ روح اقدس جسم مبارک سے باہر نکلنے کے بعد پھر جسم اقدس میں واپسی آگئی اور باہر نکلنا صرف قانون خداوندی کو پورا کر نے کے لئے تھا۔ روح مبارک کا جسم اقدس میں واپس آجانا حضور ﷺ کی حسی، حقیقی اور جسمانی حیات طیبہ کو مستلزم ہے۔

جن کتابوں سے یہ مضامین حیات انبیاء علیہم السّلام ، سماع موتیٰ ، دور سے سننا ، لیئے گئے ان کی مختصر فہرست
---------------------------------------
قرآن کریم
تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی
تفسیر عزیزی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی
تفسیر مدارک علامی نسفی
جلالین علامہ جلال الدین سیوطی
تفسیر خازن علامہ علی بن محمد خازن
روح المعانی سید محمود الوسی
مفردات راغب امام راغب اصفہانی
بخاری شریف امام محمد بن اسمٰعیل بخاری
مسلم شریف امام مسلم
جامع ترمذی امام ابو عیسیٰ ترمذی
ابو داؤد امام ابو داؤد
سنن نسائی امام نسائی
سنن ابن ماجہ امام ابن ماجہ
مسند ابو یعلیٰ حضرت ابو یعلیٰ
سنن بیہقی امام احمد بن حسین بیہقی
جامع سفیان ثوری حضرت سفیان ثوری
مشکوٰۃ ولی الدین عراقی
سنن دارمی امام دارمی
مسند احمد امام احمد بن حنبل
عمدۃ القاری بدر الدین عینی
شرح صحیح مسلم علامہ شرف الدین زکریا نووی
حصن حصین محمد بن محمد جزری
انباء الاذکیاء امام جلال الدین سیوطی
زرقانی علامہ عبد الباقی زرقانی
شامی علامہ ابن عابدین شامی
درِ مختار علامہ ابن عابدین شامی
طبقاتِ کبریٰ امام تقی الدین سبکی
شکایت اھل السنۃ امام ابو القاسم القشیر ی
تفسیر فتح القدیر علامہ شوکافی
مبسوط امام سرخسی
فیوض الحرمین حضرت شاہ ولی اللہ
حلیہ الاولیاء ابو نعیم اصفہانی
حیات الانبیاء امام بیہقی
تاریخ بخاری امام بخاری
الترغیب والترہیب امام اصفہانی
دلائل النبوۃ ابو نعیم اصفہانی
اخبار مدینہ زبیر بن بکار
طبقاتِ ابن سعد ابن سعد
شرح الصدور جلال الدین سیوطی
مدارج النبوۃ شیخ عبد الحق محدث دہلوی
شفاء السقام علامہ تقی الدین سبکی
فتاویٰ عزیزی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
شمائم امدادیہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
فیض الباری مولانا انور شاہ کشمیری
الیواقیت والجواہر امام عبد الوہاب شعرانی
اعلاؤ السنن مصدقہ اشرف علی تھانوی
قسطلانی امام احمد قسطلانی
جذب القلوب شاہ عبد الحق محدث دہلوی
مواہب اللدنیہ امام احمد قسطلانی
البدایہ والنھایہ حافظ ابن کثیر
نسیم الریاض امام شہاب الدین خفا جی
جلاء الافہام ابن قیم جوزی
تہذیب التہذیب علامہ ابن حجر عسقلانی
الترغیب حافظ منذری
بوادر النوادر اشرف علی تھانوی
تدریب الراوی جلال الدین سیوطی
میزان الاعتدال علامہ ذہبی
رسالہ حیات الانبیاء امام احمد بن حسین بیہقی
الحاوی للفتاویٰ امام جلال الدین سیوطی
آبِ حیات مولوی محمد قاسم نانوتوی
رسالہ دینیات سید ابو الاعلیٰ مودودی
الدر المنتقی علامہ محمد علاؤ الدین

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔