Saturday 12 December 2015

اِمام شہاب الدین احمد القرافی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (684ھ) اور تعریف بدعت

0 comments
اِمام شہاب الدین احمد القرافی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (684ھ) اور تعریف بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی تفصیل کے ساتھ بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب الفروق میں رقمطراز ہیں :

بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم واجب ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد وجوب پر مشتمل ہو اور اس کی دلیل شریعت میں موجود ہو جیسے ضائع ہونے کے ڈر سے قرآن مجید اور شریعت کی تدوین۔ بے شک ہمارے بعد آنے والوں کے لیے تبلیغ کرنا اجماعاً واجب ہے اور اسے چھوڑ دینا اجماعا حرام ہے۔ اس طرح کی چیزوں کے وجوب میں اختلاف کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری قسم بدعت محرومہ ہے۔ یہ وہ بدعت ہے جس کی دلیل شریعت میں حرام کے قواعد کے مطابق ہو۔ جیسے ٹیکس اور ایسے نئے ظالمانہ امور جو کہ قواعد شریعت کے منافی ہوں۔ جیسے جھلاء کو علماء پر فوقیت دینا اور شریعت کے کسی ایسے عہدے پر فائز کرنا جو وراثتی طریقے سے اس کے لیے درست نہ ہو اور اس منصب کو اس شخص کے لیے درست قرار دیا جائے جو کہ اس کے باب کے لیے تھا اور وہ بذات خود اس منصب کا اہل نہ ہو اور تیسری قسم بدعت مستحبہ ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد استحباب پر مشتمل ہو اور شریعت میں اس کی حمایت میں دلائل موجود ہوں جیسا کہ نماز تراویح اور امر صحابہ کے خلاف (مصلحت و خیر کے پیش نظر) حکمرانان وقت، قاضیوں اور اہم منصب داروں کی تصویروں کو آویزاں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار مصالح اور شرعی مقاصد لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی عظمت ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے صحابہ کے زمانے میں صحابہ کے دین اور سابق الھجرہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے پھر نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ زمانہ گزرگیا اور نیا زمانہ آگیا اس زمانہ میں لوگ تصویروں کے بغیر کسی کی عظمت نہیں کرتے تھے لہٰذا تصویروں کی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ متعلقہ مصلحتیں حاصل ہوگئیں اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تو جو کی روٹی اور نمک کھایا کرتے تھے جبکہ اپنے عاملین کے لئے آدھی بکری روزانہ مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دوسرے عاملین بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود تھے تو وہ عوام الناس کی نظروں میں گرجاتے اور لوگ ان کا احترام نہ کرتے اور ان کی مخالفت پر اتر آتے لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی دوسرے کو کسی اور شکل میں نظام کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے اور اسی طرح جب آپ شام گئے تو آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پردہ کئے ہوئے اور پردہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے پاس خوبصورت سواری اور اعليٰ رعب دار کپڑے تھے اور آپ اس طرح پیش آتے جس طرح بادشاہ پیش آتے تھے پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے احوال کو بہتر جانتے ہو کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر ضرورت ہے تو یہ بہتر ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسروں کے نظائر (Precedents) سے یہ دلیل ملتی ہے کہ ائمہ کے احوال اور امور سلطنت، زمانے، شہروں، صدیوں کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں حسن معاملات اور حسن سیاسیات میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ احوال پرانے نہ ہوجائیں اور بعض اوقات یہ مصلحتیں واجب ہوجاتی ہیں اور چوتھی قسم بدعت مکروہ کی ہے اور یہ وہ ہے جو شریعت اور اس کے قواعد میں سے دلائل کراہت پر مشتمل ہو جیسے بعض فضیلت والے اور بابرکت ایام کو عبادات کے لئے مخصوص کرنا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جسے امام مسلم اور دیگر نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے اور اسی رات کو قیام کے لئے مختص کرنے کو منع کیا ہے۔ اور اسی طرح اس باب میں محدود مندوبات کو زیادہ کرنا جیسے نمازوں کے بعد تینتیس بار تسبیح کرنا آیا ہے پھر ان کو سو بار کیا جائے، اور اسی طرح زکوٰۃ فطر کے لیے ایک صاع دینا آیا ہے پھر اسے دس صاعات بنا دیا جائے یہ اس وجہ سے ہے کہ ان امور میں زیادتی شارع پر جرات اور اس کی بے ادبی ہے۔ پس عظیم لوگوں کی شان یہ ہے کہ اگر انہیں کسی امر سے روکا جائے تو وہ رک جائیں کیونکہ اس حکم سے سرتابی سوئے ادب ہے۔ لہٰذا واجب میں زیادتی یا واجب پر زیادتی سخت منع ہے۔ کیونکہ اس طرح یہ اعتقاد پنپتا ہے کہ واجب اور اس پر زیادتی دونوں واجب ہیں۔ جیسا کہ امام مالک نے شوال کے چھ (روزوں کو) ملانے سے منع کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی رمضان میں سے ہیں اسی طرح امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا پھر اس نے فرض نماز ادا کی اور ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تاکہ دو رکعتیں (نفل) پڑھے۔ تو اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ تو اپنے فرض اور نفل میں فرق کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسی وجہ سے ہم سے پہلے لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر اسے آقا علیہ السلام نے فرمایا اے ابن خطاب اللہ تعاليٰ نے تجھے درست پایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ہم سے پہلے لوگوں نے نوافل کو فرائض کے ساتھ ملا دیا انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ یہ تمام واجبات میں سے ہیں اور یہ شریعت میں تغیر ہے جو کہ اجماعاً حرام ہے اور پانچویں قسم بدعت مباح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی دلیل شریعت کے قواعد و ضوابط میں اباحت کے اصولوں کے مطابق ہو جیسا کہ آٹا چھاننے کے لیے چھلنی کا استعمال کرنا اور آثار میں پہلی چیز جو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد کی وہ تھی ’’اتخاذ المناخل للدقیق‘‘ یعنی آٹا چھاننے کے لئے چھلنی کا استعمال کیونکہ زندگی میں لوگوں کی طبیعت میں نرمی ہونا اور اس کی اصلاح کرنا مباحات میں سے ہے اور اس کے تمام وسائل بھی مباح میں سے ہیں۔

القرافي، انوار البروق في انوار الفروق، 4 : 202 - 205

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔