Monday 28 December 2015

اہلسُنّت و جماعت کا عقیدہ حیات النبیﷺ قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments
اہلسُنّت و جماعت کا عقیدہ حیات النبیﷺ قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بالخصوص حضور رحمۃ للعالمین ﷺ حیات حقیقی جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں۔ اپنی نورانی قبروں میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ گوناگوں لذتیں حاصل کرتے ہیں۔ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، کلام فرماتے ہیں اور سلام کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں ۔ چلتے پھرتے اور آتے جاتے ہیں جس طرح چاہتے ہیں۔ تصرفات فرماتے ہیں اپنی امتوں کے اعمال کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور مستفیضین کو فیوض و برکات پہنچاتے ہیں۔ اس عالم دنیا میں بھی ان کے ظہور کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔ آنکھوں والوں نے ان کے جمالِ جہاں آراء کی بار ہا زیارت کی اور ان کے انوار سے مستنیر (منور) ہوئے۔

سردست ہمارا روئے سخن خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کی طر ف ہے۔ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام اور حضرات شہدائے عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی حیات کا مسئلہ ہمارے کلام میں ضمناً مذکور ہو گا۔ حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات مقدسہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے ثابت ہے ۔

پہلی آیت : اللہ تعالیٰ فرماتاہے
وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن َط (س انبیاء آیت ۱۰۷)
’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو (اے محمد ﷺ ) مگر رحم کر نے والا تمام جہانوں کے لئے ‘‘
وجہ استد لال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بمو جب آیۃ کریمہ تمام عالموں کیلئے رحمت ہیں اور جمیع ممکنات پر ان کی قابلیت کے موافق واسطہ فیض الٰہی ہیں اور اول مخلوقات ہیں اور عطاء الٰہی کو اس کی مخلوقات پر تقسیم فرمانے والے ہیں۔

تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کریمہ کے تحت مرقوم ہے۔

وکونہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم رحمۃ لِلجَمِیعِ باعتبارانہ علیہ الصلـوٰۃ والسلام واسطۃ الفیض الالٰہی علی الممکنات علیٰ حسب القوابل ولذا کان نورھ صلی اللہ علیہ وسلم اول المخلوقات ففی الخبر اول ما خلق اللہ تعالٰی نور نبیک یا جابر وجاء ’’اللہ تعالیٰ المعطی وانا القاسم‘‘ (روح المعانی پ ۱۷ ص ۹۶)

اور نبی کریم ﷺ کا تمام عالموں کے لئے رحمت ہو نا اس اعتبار سے ہے کہ حضور ﷺ تما م ممکنات پر ان کی قابلیتوں کے موافق فیض الہٰی کا واسطہ ہیں اور اسی لئے حضور ﷺ کا نور اول مخلوقات ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے
’’اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْ رُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ ‘‘
ترجمہ: ’’اے جابر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نو ر پیدا کیا ۔ ‘‘

دوسری حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ معطی ہے اور میں تقسیم کرتاہوں آگے چل کر صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔

والذی اختا رہ انہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم انما بعث رحمۃ لکل فرد من العالمین ملٰئکتھم وانسھم و جنھم ولا فرق بین المؤمن والکافر من الا نس والجن فی ذالک والرحمۃ متفاوتۃ‘‘ (ص۹۷پ ۱۷)
ترجمہ: ’’اور میرے نزدیک مسلک مختار یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ عالمین کے ہر فرد کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ فرشتوں، انسانوں اور جنات حضور ﷺ سب کے لئے رحمت ہیں اور اس امر میں جن وانس کے مومن و کا فر کے مابین بھی کوئی فرق نہیں اور رحمت ہر ایک کے حق میں الگ الگ اور متفاوت نوعیت رکھتی ہے۔ ‘‘

اسی آیت کریمہ پر کلام کر تے ہوئے صاحب روح المعانی آگے چل کر فرماتے ہیں۔
’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ اکثر الصوفیۃ قدست اسرارھم علٰی ان المراد من العالمین جمیع الخلق وھوصلی اللّٰہ علیہ وسلم رحمۃ لکل منھم الاان الحظوظ متفاوتۃ ویشترک الجمیع فی انہ علیہ الصـلٰوۃ والسلام سبب لوجودھم بل قالوا ان العالم کلہ مخلوق من نورہٖ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وقد صرح بذالک الشیخ عبدالغنی النابلسی قدس سرہ فی قولہٖ وقد تقدم غیر مرۃ

طٰہٰ النبی تکونت من نورہٖ
کل الخلیقۃ ثم لو ترک القطا

واشار بقولہٖ ’’لو ترک القطا‘‘ الیٰ ان الجمیع من نورہٖ علیہ الصلوٰۃ والسلام ( روح المعانی پ ۱۷ ص ۱۰۰)
ترجمہ: اور آیۂ کریمہ ’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ کے بارے میں اکثر صوفیائے کرام قدست اسرار ہم کا مسلک یہ ہے کہ عالمین سے تمام مخلوق مراد ہے اور یہ واقعہ ہے کہ حضور ﷺ عا لمین میں سے ہر ایک کے لیے رحمت ہیں لیکن ہر ایک کی رحمت کا حصہ مختلف اور جدا گا نہ ہے ۔ البتہ اتنی بات میں سب شریک ہیں کہ حضور ﷺ سب کے وجود کا سبب ہیں ۔ بلکہ صو فیائے کرام نے یہ فر مایا کہ تما م عالم حضور ﷺکے نور سے مخلوق ہے۔ سید نا شیخ عبدا لغنی نابلسی قدس سرہ العزیز اپنے اس قول میں تصریح فرماتے ہیں اور ان کا یہ قول بار بار گزر چکا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’طٰہٰ نبی کے نور سے تمام مخلوقا ت پیدا کی گئی ۔ پھر جمیع افراد اس کے ضمن میں آگئے اور کو ئی ایسا فرد با قی نہ رہا جو اس عموم میں شامل نہ ہوا ہو ۔

اس شعر میں لوترک القطا سے اس بات کی طر ف اشا رہ کیا گیا ہے کہ جمیع کائنات کا ایک ایک ذرہ حضور ﷺ کے نور سے ہے ۔‘‘

ان تمام عبا رات سے ثا بت ہو ا کہ آ یت کر یمہ ’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ کا مفاد یہ ہے کہ حضور ﷺ اٹھا رہ ہزار عالم کے ہر ہر فرد کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ جس طرح اصل تمام شاخوں کو حیات بخشی ہے ۔ اسی طرح تمام عالم ممکنات اور جملہ مو جوداتِ عالم کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اصل الاصول ہے اور ہر فرد ممکن حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے فرع اور شا خ کا حکم رکھتا ہے۔

جس طرح درخت کی تمام شا خیں جڑ سے حیاتِ نباتی حا صل کر تی ہیں اسی طر ح عالم امکان کا ہر فرد حضور ﷺ سے ہر قسم کے فیو ض و برکات اور حیات کا استفادہ کر تا ہے اور حضورعلیہ ا لصلوٰۃ و السلام ہر فرد ممکن کو اس کے حسب حال حیات واقعی عطا فرماتے ہیں اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عالم کے ہر ذرہ کی طرف حضور ﷺ متوجہ ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اس کے حسب حال فیض رسانی فرماتے ہیں چنا نچہ حضرت شاہ ولی اللہ صا حب محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مشہو ر کتاب فیوض الحر مین میں حضور ﷺ کی اس رحمت اور فیض رسانی کا اس طرح بیان فرمایا ہے۔
فتفطنت ان لہ خا صیۃمن تقویم روحہٖ بصورۃ جسدہٖ علیہ الصـلٰـوۃ والسلا م وانہ الذی اشار الیہ بقولہٖ ان الانبیاء لا یموتون وانھم یصلون و یحجون فی قبورھم وانھم احیاء الٰی غیر وذالک لم اسلم علیہ قط الاوقد انبسط الی وانشرح وتبدی وظھر وذالک لانہ رحمۃ للعا لمین (فیوض الحرمین ص ۲۸ طبع دیو بند )
ترجمہ: ’’ پس مجھ کو دریا فت ہو ا کہ آ پ ﷺ کا خاصہ ہے ۔روح کو صورت جسم میں قائم کر نا اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف آ پ نے اپنے اس قول سے اشارہ فر مایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہیں مر تے اور نماز پڑھا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور انبیا ء حج کیا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور وہ زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے آ پ پر سلام بھیجا تو آپ مجھ سے خوش ہو ئے اور انشراح فرمایا اور ظاہر ہو ئے اور یہ اس واسطے کہ آ پ رحمۃ للعا لمین ہیں۔‘‘

نیز حضر ت شا ہ ولی اللہ صاحب اسی کتا ب فیوض الحرمین میں ایک دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں کہ
لما دخلت المدینۃالمنورۃوزرت الروضۃالمقدسۃعلٰی صاحبھا افضل الصلٰوۃ والتسلیما ت رأ یت روحہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ظا ھرۃ با رزۃ لا فی عالم الارواح فقط بل فی المثا ل القریب من الحس فا درکت ان العوام انما یذکرون حضور النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الصلٰوۃ واما مۃ با لنا س فیھا وامثا ل ذالک من ھٰذہٖ الدقیقۃ (فیو ض الحرمین ص ۲۷ )
ترجمہ: ’’ جب میں مد ینہ منورہ میں دا خل ہوا اور رسو ل اللہ ﷺ کے رو ضئہ مقدسہ کی زیا رت کی تو آ پ ﷺ کی روح مبارک کو ظاہراور عیاں دیکھا نہ صرف عا لمِ ارواح میں بلکہ عا لم مثال میں ان آ نکھوں سے قریب، پس میں نے معلو م کیا کہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ آ نحضرت ﷺ نمازوں میں بنفسِ نفیس تشریف لاتے ہیں اور لوگوں کی اما مت فر ما تے ہیں اور ایسی ہی اور باتیں اسی نا زک مسئلہ سے متعلق ہیں۔‘‘

حضرت شاہ ولی اللہ صا حب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اور عبارت ملا حظہ ہو ۔فرما تے ہیں
لم یزل ﷺ ولا یزال متوجہا الی الخلق مقبلا الیہم بوجہہ  (فیو ض الحرمین ص۳۰ )
ترجمہ: ’’آ نحضرت ﷺ ہمیشہ خلقت کی طر ف متوجہ ہیں اور انکی طر ف اپنا رخ انور فرمائے ہوئے ہیں ۔‘‘

اسی سلسلہ میں آ گے چل کر حضر ت شاہ صا حب مو صوف ایک نہا یت ہی بصیرت افروز تقریر فرماتے ہیں۔
ورایتہ ﷺ مستقرا علی تلک الحا لۃ الوا حدۃ دا ئما لا یزعجہ فی نفسہ ارادۃ متجددۃ ولا شیء من الدواعی نعم لما کا ن وجھہ ﷺ الی الخلق کا ن قریبا جدا من ان یرتفع انسا ن الیہ بجھدہمتہٖ فیغیثہٗ فی نا ئبۃ او یفیض علیہ من بر کاتہ حتی یتخیل انہ ذوارادات متجددۃ کمثل الذی بھمۃ اغا ثۃ الملھو فین المحتا جین (فیو ض الحرمین ص ۳۰ )
ترجمہ: ’’اور دیکھا میں نے آنحضرت ﷺ کو قائم ہمیشہ اسی حا لت واحدہ پر کہ وہاں سے نہ تو آپ کو کو ئی ارادہ متجد دہ ہٹا سکتا ہے او ر نہ کو ئی داعیہ ۔ ہا ں جس وقت آپ متوجہ ہو تے ہیں خلق کی طرف تو نہا یت قریب ہو تے ہیں کہ انسان اپنی کو شش و ہمت سے عر ض کرے اور آ پ فریاد رسی کر یں اس کی مصیبت میں یا اس پر ایسی بر کتیں افا ضہ فرما ئیں کہ وہ خیال کرے کہ آ پ صاحب ارادات متجددہ ہیں ۔ جیسے کو ئی شخص مظلوموں محتاجوں کی مدد میں مصروف ہو ۔ ‘‘

صاحب روح المعا نی اور حضر ت شا ہ ولی اللہ صا حب محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کی ان عبارات سے یہ حقیقت آ فتا ب سے زیادہ روشن ہو کر سا منے آ گئی کہ رسول اللہ ﷺ کا رحمۃ للعا لمین ہو نا حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرکز حیات ہونے کی چمکتی ہوئی دلیل ہے کیونکہ جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام متصف بحیات نہ ہو ں کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتے ۔ تمام عالم اور کل مخلو قات کے ہر ہر فرد کو فیض پہنچا نا اس وقت تک ممکن ہی نہیںجب تک ہرذرہ کا ئنا ت میں پائے جانے والے کمال کا وجود ذات مقدسہ میں نہ ہو ۔ حیات ِ ارواح روحِ اقدس کے زندہ ہو نے کی دلیل ہے اور حیاتِ اجسام جسم پاک کی حیات کی دلیل ہے۔

دو سر ی آ یت جو رسو ل اللہ ﷺکی حیا تِ مقدسہ کو ثابت کر تی ہے اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے ۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہٖ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ
ترجمہ: ’’اور نہ کہو ان لو گو ں کے لیے جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں جا نتے ۔‘‘ (البقرۃ : ۱۵۴)

بظا ہر یہ آ یت کر یمہ شہدا (غیر انبیا ء) کی حیا ت پر دلا لت کر تی ہے لیکن درحقیقت انبیاء علیہم السلام با لخصو ص نبی کر یم ﷺ اس میں شا مل ہیں ۔ اس لئے کہ دلائل و واقعات کی رو شنی میں یہ حقیقت نا قابل انکار ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام شہید ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں شہا دت کا درجہ پا یا اور ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ کے عموم میں حضو ر علیہ الصلوٰۃ و السلام بلاشبہ دا خل ہیں ۔ اس اجما ل کی تفصیل یہ ہے کہ ’’ یقتل‘‘ قتل سے ما خوذ ہے اور قتل کے معنی ہیں اماتت یعنی مار ڈا لنا ۔

رسو ل اللہ ﷺ کا مقام ( اس حیثیت سے کہ حضو ر ﷺ کی ذا ت مقدسہ سے بڑے بڑے عظیم الشان معجزات کا ظہو ر ہو ا) یہ تھا کہ کوئی شخص حضو ر ﷺ کو قتل کرنے اور مار ڈا لنے پر قادر نہ ہو۔ اس لئے کہ ایسا ہو نا بادی النظر میں معجزاتِ عظام کے منا فی (۱) تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا ۔ ’’وَاللّٰہُ یََعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ (المائدہ : ۶۷) یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو لو گو ں سے بچا ئے گا ۔ اور کو ئی شخص آپ ﷺ کے قتل کر نے اور مار ڈالنے پر قادر نہ ہو گا ۔ قتل اور اماتت کے معنی میں ایک باریک فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے امام راغب اصفہانی قتل کے معنی بیان کرتے ہوئے اس فرق کو ظاہر فرماتے ہیں مفردات راغب میں ہے۔

(قتل) اصل القتل ازالۃ الروح عن الجسد کالموت لٰکن اذا اعتبر بفعل المتولی لذٰلک یقال قتل واذا اعتبر بفوت الحیاۃ یقال موت
ترجمہ: ’’ قتل‘‘ قتل کے اصل معنی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں ۔ جیسے موت لیکن جب متولی اور متصرف ازالہ کے فعل کا اعتبار کیا جائے تو قتل کہا جائے گا اور جب فوت حیات کا اعتبار کیا جائے تو موت کہا جائے گا۔

قتل میں چونکہ فاعل کا فعل معتبر ہوتا ہے اور فعل کا اختیار عبد کیلئے بھی حاصل ہے۔ اس لئے قتل کی اسناد عبد کی طرف صحیح ہے اور عبد کو قاتل کہا جاسکتا ہے بخلاف اماتت کے کہ اس میں فعل مذکور معتبر نہیں بلکہ فوت حیات کا اعتبار ہے اور عبد کا اختیار فعل سے متجاوز ہوکر فوت حیات تک نہیں پہنچتا۔ حیات کا فوت ہونا قدرت خداوندی ہی سے متعلق ہے اس لئے اماتت کی اسناد صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہوسکتی ہے ازالہ ٔ حیات صرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور ممیت اس کے سوا کوئی نہیں۔

ہمارے اس بیان سے ناظرین کے ذہن میں ایک اشکال پیدا ہوگیا ہوگا۔ اور وہ یہ کہ حضور ﷺ کا ’’من یقتل‘‘ کے عموم میں داخل ہونا ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ کے منافی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ان کی جان پاک کو لوگوں سے بچانے کا وعدہ فرماچکا۔ تو اب انہیں کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے اور بغیر قتل ہوئے ’’ مَنْ یُّقْتَلُ‘‘میں حضور ﷺ کا شامل ہونا ممکن نہیں۔
اس کے حل کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ قتل میں فعل فاعل کا اعتبارہوتا ہے اور اماتت میں فوت حیا ت کا۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وعدئہ الہٰیہ کے الفاظ ہیں ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ اس میں نہ قتل کا لفظ ہے نہ موت کا۔ اس وعدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کے مار ڈالنے سے اللہ آپ کو بچائے گا۔ یعنی آپ ﷺ کی ذات پاک کیلئے کوئی ایسا فعل نہ کرسکے گا جس سے عادتاً علی الفور آپ کی موت واقع ہوجائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور کسی شخص نے آپ ﷺ کو مارڈالنے پر قدرت نہ پائی ۔

رہا یہ امر کہ ’’مَنْ یُّقْتَلُ‘‘کے عموم میں حضور ﷺ کیسے داخل ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتل سے مراد وہ فعل ہے جو فوت حیات کا موجب ہوجائے۔

فعل قتل کا فوت حیات کیلئے موجب ہونا دوطریقے سے ہوتا ہے ایک عادتاً دوسرا خارقاً للعادۃ۔عادۃً فعل قتل سے علی الفور ازالہء حیات ہو جا تا ہے اور خر ق عادت کے طور پر علی الفور ازالہ حیات نہیں ہو تا ۔ بلکہ ایک مدت طو یلہ کے بعد ہی اس کا سبب موت ہو نا ظاہر ہو سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کو پہلی قسم کے قتل سے بچا کر اپنے و عدے کو پورا فرما دیا اور دوسری قسم کا فعل قتل حضور ﷺ کے لیے بر بنا ء حکمت متحقق کر دیا تاکہ حضور ﷺ ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے عمو م میں داخل ہو کر شہادت کا مرتبہ پائیں اور کسی بے دین کے لئے حضور ﷺ کو مردہ کہہ کر حیات نبو ت کے انکار کی مجا ل باقی نہ رہے ۔

ہمارے اس دعویٰ کی دلیل اما م بخاری اور امام بیہقی کی وہ حدیث ہے جو امام جلال الدین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہو ر کتا ب ’’ انباء الا ذکیا بحیاۃ الانبیا ء ‘‘ میں نقل فرما ئی ہے۔
واخرج البخاری والبیہقی عن عائشۃ قالت کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فی مرضہ الذی توفی فیہ لم ازل اجدالم الطعام الذی اکلت بخیبر فہٰذا او ان انقطع ابہری من ذالک السم(انبا ء الاذکیاء ص ۱۴۹)
تر جمہ: ’’ امام بخاری اور امام بیہقی نے حضر ت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انہو ں نے فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺ اپنے مر ض میں فرماتے تھے کہ میں نے خیبر میں جو زہر آ لود ، لقمہ کھایا تھا میں اس کی تکلیف ہمیشہ محسو س کرتا رہا ہو ں پس اب وہ وقت آ پہنچا کہ اسی زہر کے اثر سے میر ی رگ جا ن منقطع ہو گئی ۔‘‘

نیز اما م زرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں
وقد ثبت ان نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم مات شہیدا لاکلہ یوم خیبر من شاۃ مسمومۃ سما قاتلا من ساعتہ حتّٰی مات منہ بشر (بکسر الموحدۃ) وسکون المعجمۃ (ابن البراء) بن معرور (وصار بقاؤہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معجزۃ فکان بہ الم السم یتعاہدہ) احیانا (الی ان مات بہ) ( زرقانی جلد ۸ ص۳۱۳)
ترجمہ: ’’اور بیشک یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی وفات پائی ۔ اس لئے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ایسی زہر ملائی ہو ئی بکری کے گوشت کا ایک لقمہ تنا ول فرمایا، جس کا زہر ایسا قا تل تھا کہ اس کے کھانے سے اس وقت علی الفور مو ت واقع ہو جائے ۔یہا ں تک کہ اس زہر کے اثر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحا بی بشر بن براء بن معرور اسی و قت فوت ہو گئے اور حضور ﷺ کا با قی رہنا معجزہ ہو گیا ۔ وہ زہر حضور ﷺ کو اکثر تکلیف دیتا تھا ۔یہاں تک کہ اسی کے اثر سے حضور ﷺ کی موت وا قع ہو ئی۔‘‘

بخاری ،بیہقی ، سیو طی اور زرقانی کی ان پیش کردہ روایات سے ہمارا دعویٰ بخوبی ثابت ہو گیا اور وہ یہ کہ حضور ﷺ کو قتل کر نے کے لیے زہر دیا گیا اور اسی زہر سے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مو ت واقع ہو ئی ۔ اگر چہ زہر دینے اور مو ت وا قع ہونے میں تین سال کا وقفہ تھا لیکن وفات شر یف اسی زہر دینے کے فعل سے وا قع ہو ئی اور تین سال تک حضور ﷺ کا باقی رہنا زہر دینے اور اس فعل قتل کی کمزوری کی بنا ء پر نہ تھا بلکہ خرق عادت اور حضور ﷺ کے معجزہ کے طور پر تھا جیسا کہ ہم عبارات منقولہ سے ثابت کر چکے ہیں ۔

امام جلال الدین سیو طی رحمتہ اللہ علیہ ’’انباء الا ذکیا بحیاۃ الا نبیاء‘‘ میں فرماتے ہیں
واخرج احمد و ابو یعلٰی والطبرانی والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی دلائل النبوۃ عن ابن مسعود قال لان احلف تسعا ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قتل قتلا احب الی من ان احلف واحدۃ انہ لم یقتل وذالک ان اللّٰہ تعالٰی اتخذہ نبیا واتخذہ شہیدا۔ (انباء الاذکیاء ص۱۴۸،۱۴۹مطبوعہ مصر)
ترجمہ: ’’احمد، ابو یعلیٰ، طبرانی اور مستدرک میں حاکم نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نو مرتبہ قسم کھا کر یہ بات کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کئے گئے تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ محبو ب ہے کہ میں ایک دفعہ قسم کھا کر یہ کہہ دوں کہ حضور ﷺقتل نہیں کئے گئے اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ ؑکو نبی بھی بنایا اور شہید بھی !

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ظاہر ہو گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے عموم میں داخل ہیں۔ اس بناء پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زندہ ہو نا نص قطعی سے ثابت ہے۔

علاوہ ازیں یہ کہ اللہ تعالیٰ نے منعم علیہم کے چار گروہ قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ نبیین ، صدیقین ، شہدا اور صالحین اور ہر نعمت کی اصل رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ ہے۔ جیساکہ سابقاً تفصیل سے معلوم ہو چکا۔ نبوت، صدّیقیت اور صالحیت کے اوصاف کا حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پایا جا نا تو سب کے نزدیک قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اب اگر وصف شہادت حضور ﷺ کیلئے (ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں ) تسلیم نہ کیا جائے تو حضور ﷺ کی ذات مقدسہ کمال شہادت سے محروم رہے گی۔ جو حضور ﷺ کے رحمۃللعٰلمین ہونے اور تمام کمالات وانعاماتِ الٰہیہ کے لئے حضور ﷺ کے اصل ہو نے کے منافی اور معارض ہے جو باطل محض اور دلائل کی روشنی میں مردود ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نبوت و صدیقیت اور صالحیت کی طرح وصفِ شہادت بھی حضور اکرم کی ذات مقدسہ میں بلاشبہ پا جا تا ہے ۔ ’’وھو المراد‘‘

نبوت و ر سالت ، رُسل و انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیات پر روشن دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت بھی کوئی نبی اور رسول دنیا میں مبعوث فرمایا تو وصف نبوت اور رسالت کو جسم اور روح دونوں کے ساتھ متعلق فرمایا اور حقیقی نبوت و رسالت جسم و روح کے مجموعے کیلئے ہی متحقق ہے۔ عالم ارواح میں حضور ﷺ کا نبی ہو نا اور حضور ﷺ کا ’’کنت نبیا و اٰدم بین الروح والجسد‘‘ فرمانا، ہمارے اس بیان کے منافی نہیں۔ اس لئے کہ عالم ارواح میںروحانی نبوت متحقق تھی۔ جس کو اس عالم میں پائی جانے والی نبوت کے مقابلہ میںحکمی نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقی نبوت و رسالت وہی ہے جو مجموعہ جسد و روح کے لئے متحقق ہو۔ علامہ زرقانی صرف روح کے لئے نبوت و رسالت ماننے کے قول پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
(وتعقب) ھٰذا التعلیل (بان الانبیاء احیاء فی قبورہم) کما صرحت بہ الاحادیث (فوصف النبوۃ فی الجسد والروح معا) ای الاتصاف بالنـبوۃ مـع الرسالۃ وان انقطع العمل بشر ائعہم سوی شریعۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم (زرقانی جلد ۶ص ۱۶۹)
ترجمہ: ’’اور (منکرین کی) اس تعلیل کا تعاقب اس طرح کیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح مو جو د ہے۔ لہٰذا وصف نبوت و رسالت جسم و روح دونوں کیلئے ایک ساتھ باقی ہے۔ یعنی ’’اتصاف بالنبوۃ مع الرسالۃ‘‘ اگرچہ ان کی شرائع پر عمل منقطع ہو چکا۔ سوا ہمارے نبی کریم ﷺؑ کی شریعت کے۔ ‘‘

اس عبارت سے ثابت ہو ا کہ نبوت صرف روح کیلئے نہیں بلکہ جسم و روح دونوں کیلئے ہے ایسی صورت میں حیات جسمانی کا انکار نبوت و رسالت حقیقیہ کا انکار ہے جیسا کہ بعض گمراہوں کا غلط عقیدہ ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
امام زرقانی فرماتے ہیں
(فان قلت ہل ہو علیہ الصلٰوۃ والسلام باق علٰی رسالتہ الی الآن) بعد الموت الی الابد اجاب ابو المعین (النسفی) منہ (بان الاشعری قال انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام الآن فی حکم الرسالۃ وحکم الشیء یقوم مقام اصل الشیء) الخ ( زرقا نی جلد ۶، ص ۱۶۸، ۱۶۹، مطبو عہ مصر)
اگر سوال کیا جا ئے کہ نبی کریم ﷺ اپنی رسا لت پر اب با قی ہیں یا نہیں تو اس کے جواب میں ابو المعین نسفی نے کہا کہ اما م اشعری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اب رسا لت کے حکم میں ہیں اور کسی شے کا حکم اصل شے کے قا ئم مقام ہو ا کر تا ہے ۔ الخ۔

اس عبارت سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اما م اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور کی رسالت حقیقی نہیں بلکہ حکمی ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ امام اشعری رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضور ﷺ کے لیے حیات جسمانی کی نفی با لضرور لازم آ ئے گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا دعویٰ کر نے وا لے بہت سے لو گ ایسے ہیں جنہوں نے محض اپنی ضد پر اصرار کرنے کی وجہ سے بہت سی غلط با تیں ائمۂ اہلسنت کے سر تھوپ دیں اوربعض علماء اہل حق نے محض سادہ لو حی کی بنا پر انہیں نقل کر دیا لیکن تحقیق کے بعد ان با توں کا کذب صریح ہو نا ثابت ہو گیا ۔ یہ بات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امام اشعری رضی اللہ عنہ پر یہ کھلا بہتا ن ہے اور افتراء صریح ہے ۔ دیکھئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اسی بہتا ن کے جوا ب میں فرماتے ہیں۔

ثم قال ویمکن ان یقال انہا باقیۃ حکما بعد موتہ وکان استحقاقہ بحقیقۃ الرسالۃ لابالقیام بامور الامۃ اھ ولا یخفٰی ما فی کلامہٖ من ایہام انقطاع حقیقتہا بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد افادفی الدر المنتقی انہ خلاف الاجماع قلت واما ما نسب الی الامام الاشعری امام اہل السنّۃ والجماعۃ من انکار ثبوتہا بعد الموت فہو افتراء وبہتان والمصرح فی کتبہٖ وکتب اصحابہ خلاف مانسب الیہ بعض اعدائہٖ لان الانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام احیاء فی قبورہم وقد اقام النکیر علی افتراء ذلک الامام العارف ابو القاسم القشیری فی کتابہ شکایۃ اہل السنّۃ وکذا غیرہ کما بسط ذلک الامام ابن السبکی فی طبقات الکبرٰی فی ترجمۃ الامام الاشعری انتہٰی(شامی جلد سوم ص ۲۵۹)
ترجمہ: ’’پھر (مقدسی نے کہا) کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کی رسالت حضور کی موت کے بعد حکماً باقی ہے اور حضور ﷺ کا (غنیمت کے حصے کا ) مستحق ہو نا امور امت کے قیام کے ساتھ نہیں بلکہ حقیقت رسالت کے ساتھ متعلق تھا ۔مقدسی کے اس کلام میں حضور ﷺ کے بعد حضور کی حقیقت رسالت کے انقطاع کا جو ایہام پایا جا تا ہے مخفی نہیں۔ در منتقی میں مذکو ر ہے کہ حضور ﷺ کے بعد حقیقت رسا لت کے انقطاع کا قو ل خلافِ اجماع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام اہلسنت امام اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف حضور کے بعد حضور کی رسالت حقیقیہ کے ثبوت کا جو انکار منسوب کیا جاتا ہے، وہ افتراء اور بہتان ہے۔ امام اشعری رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب کی کتا بوں میں اس کے خلاف تصریحات موجود ہیں کیونکہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبر وں میں زندہ ہیں اور اس افتراء عظیم پر امام عارف باللہ ابوالقاسم القشیری نے اپنی کتا ب شکا یت اہلسنت میں اوراسی طرح انکے علاوہ دیگر ائمہ دین نے زبردست انکار کیا جیسا کہ امام سبکی نے طبقات کبریٰ میں اما م اشعری رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس بہتان طرازی کا نہایت تفصیل سے جواب دیا ہے ۔‘‘ انتہیٰ

علامہ شامی امام ابو القاسم قشیری امام ابن سبکی اوران کے علاوہ دیگر علمائے اعلام کی تصریحات سے یہ با ت آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئی کہ امام اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کی حیا ت کا انکا ر کر کے معا ذ اللہ حضور ﷺ کی رسالت حقیقیہ کے ہرگز منکر نہیں اور ایسی ناپا ک بات ان کے دشمنوں نے ان کی طرف منسوب کرکے ان پر بہتان باندھا ہے۔

تیسری آیت جو حیات النبی ﷺ کی روشن دلیل ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَرَبِّھِمْ یُرْ زَ قُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَـضْلِہٖ (س: آل عمران آیت ۱۶۹، ۱۷۰)
علامہ شوکا نی (غیر مقلدین کے پیشوا ) اس آیت کے تحت اپنی ’’تفسیر فتح القدیر‘‘میں لکھتے ہیں
ومعنی الایۃ عند الجمھور انھم احیاء حیاۃ محققۃ ثم اختلفوا فمنھم من یقول انھاتردالیھم اروا حھم فی قبور ھم فیتنعمون وقا ل مجاھد یر زقون من ثمرالجنۃ ا ی یجدون ریحھا ولیسوا فیھا وذھب من عدا الجمھور الی انھا حیاۃ مجازیۃ والمعنی انھم فی علم اللّٰہ مستحقون التنعم فی الجنۃ والصحیح الاول ولا موجب المصیر الی المجاز وقدوردت السنۃ المطھرۃ بان اروا حھم فی اجواف طیور وانھم فی الجنۃ یرزقون ویا کلون ویتمتعون (فتح القدیر ص ۱۶۵)
ترجمہ: ’’جمہور اہلسنت کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہیں کہ شہدا ء کرام حیات حقیقیہ کے ساتھ زندہ ہیں ۔(حیاۃ حقیقی تسلیم کر نے کے بعد )اس کی کیفیت میں جمہور کے در میا ن اختلاف ہے کہ بعـض نے کہا ہے کہ ان کی روحیں ان کی قبروں میں لوٹا دی جا تی ہیںاور وہ عیش وطرب میں رہتے ہیں اور مجا ہد کا قول ہے کہ انہیں جنت کے پھل دئیے جانے سے یہ مراد ہے کہ وہ ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں اور وہ جنت میں نہیں ہیں ۔جمہور کے علاوہ لوگوں کا قول ہے کہ شہداء کی حیات حقیقی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مجازی طور پر زندہ ہیں ۔ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ علم الہٰی میں جنت کی نعمتوں کے حقدار ہیں ۔مگر صحیح وہ پہلا قول ہے جو جمہور نے اختیار کیا مجازی معنی لینے کی کوئی وجہ نہیں ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ شہیدوں کی روحیں پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں اور وہ جنت میں ہیں ۔انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ کھاتے ہیں اور ہرقسم کے فوائد حیات حاصل کرتے ہیں ۔‘‘

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ انباء الاذ کیا ء بحیاۃ الانبیاء میں فرماتے ہیں
وقد قال اللّٰہ تعا لیٰ فی الشھداء (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ)والانبیاء اولی بذلک فھم اجل واعظم وما من نبی الاوقد جمع مع النبوۃ وصف الشھادۃ فید خلون فی عموم لفظ الایۃ (انباء الا ذکیا ص۱۴۸)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے شہداء کے بارے میں فرمایا(اور نہ گمان کرو ان لوگوں کے بارے میں جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے نزدیک رزق دئیے جاتے ہیں )اور انبیاء اس کے ساتھ اولیٰ ہیں اور وہ اجل واعظم ہیں اور کوئی نبی نہیں لیکن اس نے نبوت کے ساتھ وصف شہادت کو بھی جمع کر لیا ہے۔ لہٰذا وہ لفظ آیت کے عموم میں ضرور داخل ہوں گئے ۔‘‘

امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کی اس عبارت سے یہی واضح ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام میں وصف شہادت پایا جاتا ہے ۔لہذاحیات انبیاء علہیم السلام بطریق اولیٰ ثابت ہو گی۔شہداکی حیات اہلسنت کے نزدیک اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ شوافع نے اس آیت’’ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ‘‘کو اس مسئلہ کی دلیل بنالیا ۔کہ شہید کے جنازے کی نماز نہیں ہوتی ۔شوافع کہتے ہیں ۔

لقولہ تعا لیٰ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِ یْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا والصلوٰۃ علی المیت لا علی الحی (مبسوط امام سرخسی جلد ۲ص۵۰)
شوافع کی اس دلیل کے جواب میں اختلاف حیات شہدا کا انکار نہیں کر تے بلکہ انہیں زندہ ما ن کراحکام حیات کو دنیا کی بجائے آخرت سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے مبسوط جلد ۲صفحہ۵۰۔

سوال: حیات بعد الموت شہداء کے لئے خا ص نہیں بلکہ ہر مومن صا لح کیلئے ثابت ہے ۔ اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے
فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط (س: النحل آیت ۹۷)
پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ مردہ کہنے کی مما نعت صرف شہدا کے حق میں کیوں وارد ہوئی۔

جواب: صرف مومن صالح نہیں بلکہ مومن و کافر سب کے لئے نفس حیات ثا بت ہے ۔کما سنبینہ ان شاء اللّٰہ تعا لیٰ اس کے باوجود مردہ ـ کہنے کی ممانعت صرف شہداء کے حق میں اس لئے وارد ہوئی کہ شہداء مقتول فی سبیل اللہ ہوتے ہیں اور اپنی جانیں خدا کے لئے دیتے ہیں اور خاص طور پر اپنی عزیز ترین متا ع حیات (دنیا)کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ان کا یہ وصف دیگر اوصاف پر غالب ہوتا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں انعام خاص کے طور پر حیات دنیویہ کے بدلے میں ایسی حیات عطا فرما تا ہے۔جس کے اثرات بعض احکام دنیاوی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔مثلا ان کو غسل نہ دینا اور ان کے حق میں مردہ نہ کہنااللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (الانعام ۱۶۰)
’’جو ایک نیکی کرے اسے اس کی مثال دس نیکیاں ملیں گی۔‘‘

لہٰذا ایک جان دینے والے کو دس جانیں عطا کیا جانا ثا بت ہوا۔

دنیا میں ایک جان کے ساتھ زندہ انسان جب اپنے آپ کو زندہ سمجھتا ہے تو جیسے اس ایک جان کے بد لے دس جانیں عطا کی گی ہیں وہ کیونکر مردہ ہو سکتا ہے اور اسے مردہ کہنا یا سمجھنا کس طرح درست قرار پا سکتا ہے۔اس بناء پر شہداء کے حق میں مردہ کہنے کی نہی وارد ہوئی چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام شہید ہیں لہٰذا مردہ کہنے کی ممانعت انبیاء علیہم السلام کے حق میں پہلے ہو گی اور محض شہدا کے حق میں ان کے بعد

’’فائدہ ان دونوں آیتوں ‘‘وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ اور وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا میں لفظ ’’انبیاء‘‘ سے لِمَنْ یُّقْتَلُ اور اَلَّذِ یْنَ قُتِلُوْاکی طرف عدول فرمانے میں بھی یہی نکتہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اگرچہ شہید ہیں لیکن ان کی شہادت وصف نبوت سے مغلوب ہے اور دونوں آیتوں میں مضمون کلام کی مناسبت وصف شہادت سے تھی اس لئے انبیاء کی بجائے مَنْ یُّقْتَلُ اور اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْا فرمایا گیا۔

علاوہ ازیں اگر لفظ ’’انبیاء ‘‘لایا جا تا تو مردہ کہنے کی ممانعت اور ’’بل احیاء‘‘کا حکم انبیاء کے ساتھ خاص ہو جاتا جو صحیح نہ تھا ۔ نیز ’’لِمَنْ یُّقْتَلُ‘‘ کا عموم اور ’’اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْا ‘‘ کا مفہوم عامۃ المسلمین کوجہاد کی رغبت دلا تا ہے ۔اس کی بجائے ’’لفظ انبیاء ‘‘یہ فائدہ نہیں دیتا۔لہٰذا منقولہ بالا دونوں آیتوں میں لفظ انبیاء کا نہ ہونا نکتہ اور حکمت پر مبنی ہے اس بناء پر نہیں کہ معاذ اللہ حضرات انبیاء علیہم السلام مضمون آیت سے خارج ہیں۔ فافہم و تدبر۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔