روح کے لئے موت نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
موت و حیات کے بیان میں یہ امر ملحوظ ہے کہ روح کے حق میں موت کے صرف یہ معنیٰ ہیں کہ وہ بدن سے خارج ہو جائے۔یہ نہیں کہ طریان موت روح کو معدوم کر دے ۔ ا س لئے کہ موت کے بعد ارواح کا باقی رہنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ دیکھئے قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے شہد ا کی حیات کو بیان فرمایا ہے ، وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
’یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ‘‘ (س: آل عمران آیت ۱۶۹، ۱۷۰)
وہ رزق دئیے جاتے ہیں اور خوش باش رہتے ہیں۔ اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے دی۔
اگر ان کی ارواح معدوم ہو جائیں تو اجسام بھی ’’جماد‘‘ محض ہو کر رہ جائیں گے ۔ ایسی صورت میں ان کو رزق دیا جا نا اور ان کا خوش باش رہنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے ؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ یَالَیْتَ قَوْمِیْ یَعلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ۔ (یٰسین : ۲۶)
(مرنے والے کو عالم برزخ میں ) کہا جائے گا جنت کی راحتوں میں داخل ہو جا۔ وہ کہے گاکاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے میری کیسی بخشش فرمائی اور کس طرح مجھے عزت والوں میں سے کیا یہ تو شہدا ء اور مومنین کے بارے میں ارشاد خدا و ندی تھا۔ اب کفار کے حق میں ملاحظہ فرمایئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یَاتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَا ئِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَا طِ وَ کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ (س: اعراف آیت ۴۰)
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لئے آسمانوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ سوئی کے ناکے میں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں گہنگاروں کو ۔
اس آیت سے ثابت ہو ا کہ مجرمین کی ارواح بھی موت کے بعد معدوم نہیں ہوتیں بلکہ آسمانوں پر لے جائے جانے کے بعد انتہائی ذلت سے واپس آتی ہیں اور اپنے جرائم کا بدلہ پاتی ہیں اور احادیث تو اس مسئلہ میں بے شمار ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (ابتدا ء امر میں) جب سماع موتی کا انکار کیا تھا تو ارواح کے علم کا انکار نہیں فرمایا چنا نچہ بخاری شریف میں ان کی حدیث میں یہ الفاظ مو جو د ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
وقالت انما قال انہم الان لیعلمون انما کنت اقول لہم حق
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف اتنی با ت ارشاد فرمائی تھی کہ مقتولین بدر اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہتا تھا۔ وہ حق ہے۔
اس کے علاوہ احادیث صحیحہ کثیرہ جن میں مرنے کے بعد تنعیم و تعذیب کا بیان وارد ہے سب اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ مرنے کے بعد اروح معدوم نہیں ہوتیں بلکہ علم و ادراک ، سمع و بصر قول و عمل کے ساتھ متصف ہو کر مو جو د رہتی ہیں۔
روح کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ’’وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً (بنی اسرائیل : ۸۵)
’’(اے محبوب ﷺ) لو گ آپ سے روح کے متعلق سوال کر تے ہیں فرما دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم نہیں دئیے گئے علم سے مگر تھوڑا ‘‘
روح کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے سوال کر نے والے یہودی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے بھی روح کا علم قلیل ثابت فرمایا ۔ جب یہودیوں کیلئے روح کے مسئلہ میں علم قلیل ثابت ہے تو مو منین بالخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ان کے بعد ائمہ دین رحمہم اللہ تعالیٰ کیلئے تو یقینا اس علم قلیل سے زیادہ علم حاصل ہو گا جس کا یہودیوں کیلئے ا ثبات کیا گیا۔ پھر حضور ﷺ کی شان تو سب سے بلند ہے اس لئے سب سے زیادہ روح کا علم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے تسلیم کرنا پڑے گا ۔ یہ صحیح ہے کہ بعض علماء نے روح کے بارے میں کچھ کہنے سے تو قف کیا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جن لوگوں نے روح کے متعلق کلا م کیا انہیں اس بارے میں سائلین عن الروح سے کہیں زیادہ علم حاصل تھا ورنہ وہ اس نازک مسئلہ میں ہر گز کلام نہ فرماتے ۔ مختصر یہ کہ اسی علم کی بناء پر جمہور اہلسنت نے روح کی تعریف اس طرح کی
انھا جسم و ھٰؤلاء تنوعوا انواعاً امثلہا قول من قال انھا اجسام لطیفۃ مشتبکۃ بالا جسام الکثیفۃ جر ی اللّٰہ العادۃ بالحیاۃ مع مقامہا وھو مذہب جمھور اہل السنۃ والی ذالک یشیر قول الاشعری والعلامۃ الباقلانی وامام الحرمین وغیرہم ویوافقھم قول کثیر من قدماء الفلاسفۃ و منھم من قال انھا عرض خاص ولم یعینہ ۔
و منھم من عینہ و منھم من قال انھا جو ھر فرد متحیزۃ۔۔۔۔۔ واتفق الاطباء علی ان فی بدن الانسان ثلثۃ ارواح روح طبیعی ۔۔۔ و روح حیوانی۔۔۔ و روح نفسانی۔۔۔ ولم یتکلمو فی النفس الناطقۃ الخاصۃ بالانسان التی ھی غرضنا ھنا۔ (شفاء السقام ص ۱۷۷ مطبوعہ مصر)
کہ وہ (روح) جسم ہے۔ پھر انہوں نے جسم کہہ کر بھی کئی قسم کے قول کئے۔ سب سے بہتر قول یہ ہے کہ روحیں اجسام لطیفہ ہیں جو اجسام کثیفہ پر چھائی ہوئی ہیں ان کے قیام مع البدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حیات پائے جانے کی ایک عادت جاریہ مقرر فرما دی ہے۔ یہ جمہور اہلسنّت کا مذہب ہے۔ امام اشعری علامہ باقلانی اور امام الحرمین و غیرہم کا قول اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ وہ عرض خاص ہے۔ اس قائل نے اسے متعین نہیں کیا۔ بعض نے اس کی تعیین بھی کی ہے۔
بعض نے کہا، وہ جوہر فرد متحیزہ ہے اور اطبّا کا اتفاق اس امر پر ہے کہ بدن انسان میں تین روح ہیں۔ روح طبعی، روح حیوانی، روح نفسانی اور نفس ناطقہ خاصہ بالانسان کے بارے میں انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا، جس کے ساتھ اس مقام پر ہماری غرض وابستہ ہے۔ (شفاء السقام ص ۱۷۷)
حقیقت انسان
امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ شفاء السقام میں فرماتے ہیں، ’’والانسان فیہ امران، جسد(۱) ، و نفس (۲) ‘‘
انسان میں دو چیزیں ہیں، جسم (۱) اور روح (۲)۔
فاضل محشی نے اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے
(قولہ فیہ امران) قال السبکی للسید الصفوی ہنا تحقیق فی مسئلۃ المعاد فلیراجع وعبارتہ الانسان ہو مجموع الجسد والروح وما فیہ من المعانی فان الجسد الفارغ من الروح والمعانی تسمی شجاوجثۃ لا انسانًا وکذا الروح المجرد لا یسمی انسانا وکذا المعانی المحققۃ لا تسمی علی الانفراد انسانًا لاعرفًا ولا عقلًا ۱ھ من الاصول المنقول عنہا
(قولہ فیہ امران)امام سبکی نے سید صفوی سے فرمایا یہاں مسئلہ معاد میں ایک تحقیق ہے جس کی طرف مراجعت کرنی چاہئے۔ ان کی عبارت یہ ہے کہ انسان جسم و روح اور ان تمام معانی کا مجموعہ ہے ۔ جو اس میں پائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ جسم جو روح اور اس میں پائے جانے والے معانی سے فارغ ہو اس کا نام شج اور جثہ رکھا جا تا ہے ۔اسے انسان نہیں کہا جا تا۔ اسی طرح روح مجرد کا نام بھی انسان نہیں اور ایسے ہی اس میںپائے جانے والے معانی کو بھی علی الانفر اداز روئے عرف و عقل انسان نہیں کہا جاتا۔
نفس انسانی کی حقیقت کیا ہے ؟
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
’’اصل‘‘ حقیقۃ النفس الانسانیۃ عند نا انھا برزۃ للنفس الکلیۃ مدبرۃ للنسمۃ والنسمۃ حالۃ فی البدن مدبرۃ لہ حاملۃ للقوی
’’اصل‘‘ الاصل الذی بہ زید زید و عمر و عمر و عند التحقیق لیس ھی المشخصات بل نحو البرزۃ الذی بہ صارت ھذہ البرزۃ نفس زید و تلک نفس عمر و۔۔۔۔۔
’’اصل‘‘ معنی الموت انفکاک النسمۃ عن البدن لا انفکاک النفس عن النسمۃ فاحفظ
’’اصل‘‘ لما کان من خاصیۃ ھذہ البرزۃ ان تحل فی النسمۃ نسمۃ لا یمکن ان تصیر مجردۃ محضۃ ولکن تتقوم بالنسمۃ فقط (فتاویٰ عزیزی ص۵۹، ج۱)
اصل نفس انسانیہ کی حقیقت ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ نفس کلیہ کے لئے ’’حقیقت لطیفہ‘‘ کا برزہ یعنی اس کی ایک صورت ہے جو نسمہ جان کیلئے مدبرہ ہے اور نسمہ بدن میں حال ہے اس کے لئے مدبرہ ہے تمام قویٰ کیلئے یہی حاملہ ہے۔
’’اصل ‘‘وہ اصل حقیقت جس کی وجہ سے زید فی الواقع زید ہے اور عمر و عمر و ہے عند التحقیق مشخصات نہیں بلکہ برزہ جیسی ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے بہ صورت نفس زید اور بہ صورت نفس عمر و قرار پائی۔
اصل موت کے معنی بدن سے نسمہ کا جد ا ہو نا ہیں نسمہ کا نسمہ سے جدا ہو نا نہیں ۔ یا د رکھو!
’’اصل‘‘ جبکہ اس برزہ کی خاصیت سے یہ بات ہے کہ وہ نسمہ میں حلول کرے تو اس کا مجردہ محضہ ہو نا ممکن نہیں اس کا تقوم ہمیشہ نسمہ کے ساتھ ہو گا۔(فتاویٰ عزیزی )
حقیقت انسان یا نفس انسانی کی حقیقت کے بارے میں مختلف عنوانات سے جو اقوال متعددہ پائے جاتے ہیں۔ ان تمام کا احصاء اور ان پر تبصرہ اس وقت ہمارا مقصود نہیں ۔ ہمیں صرف یہ بتا نا ہے کہ علیٰ اختلاف الاقوال جس چیز کو بھی اصل حقیقت قرار دیا جائے۔ وہ بعد الوفات بھی مو جو د ہے ۔ ورنہ کتاب و سنت میں وارد ہو نے والے وہ تمام حالات جن کا تعلق انسان اور اس کی حقیقت سے ہے ۔ معاذ اللہ خلاف واقع اور کذب محض قرا ر پائیں گے۔ اس لئے وفات کے بعد روح یا با الفاظ دیگر حقیقت نفس انسانی کا باقی اور مو جو د رہنا تسلیم کر نا پڑے گا۔ اور وہ حالات جب ہر ایک کے حسب حال ہیں تو بقاء حیات پر روشن دلیل ہوں گے۔
موت و حیات سے متعلق بقیہ ضروری تفصیلات انشاء اللہ اگلے عنوانات میں ہدیہ ناظرین کی جائیں گی۔ سردست ہم امور مذکورہ سابقہ میں سے امر اول پر کلا م شروع کرتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کا قبروں میں نماز پڑھنا
رسول اللہ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قبروں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ لیکن اس مضمون پر حسب ذیل شکوک و شبہات اور اعتراضات پیدا ہو تے ہیں، جن کا جواب دینا اثبات مد عا کے لئے ضروری ہے لہٰذا پہلے اعتراضات کو بیان کیا جا تا ہے ۔ پھر ان کے جوابات عرض کئے جائیں گے۔
اعتراضات حسب ذیل ہیں
(۱) انبیاء کرام علیہم السلام کو دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی روحوں یا مثالی صورتوں کو دیکھا ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں بھی ہوں اور بیت المقدس میں بھی اور پھر اپنے اپنے مقامات پر آسمانوں میں بھی مو جو د رہیں۔
(۲) اگریہ تسلیم کر لیا جائے کہ قبروں میں اور بیت المقد س میں اور آسمانوں پر انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اصلی جسموں کے ساتھ مو جو د تھے تو بیت المقدس اور آسمانوں پر ہو نے کے وقت لازم آئے گا۔ کہ ان کی قبریں ان کے جسموں سے خالی ہوں ۔اسی طرح چالیس راتوں کے بعد انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبروں سے اٹھا لیا جا نا بھی اس بات کو مستلزم ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تمام قبریں ان کے وجود سے خالی ہوں حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کا حضور ﷺ سے خالی ہو نا لازم آئے گا جو دلائل و واقعات کی روشنی میں صراحتاً باطل ہے ۔
(۳) اگر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو آپ قبور میں تسلیم کر تے ہیں تو ان کی زندگی کیسے ثابت ہو گی جبکہ ان کی ارواح کا اعلیٰ علیین میں ہو نا قطعی طو ر پر معلو م ہے ۔
پہلے اور دوسرے اعتراض کا جو اب
ان اعتراضات کے جوابات نمبر و ار ملاحظہ فرمایئے۔
زمان و مکان کی قیودو حدود مادی کثافتوں تک محدود رہتی ہیں۔ کثافتیں جس قدر دور ہوتی جائیں گی زمان و مکان کی قیود اسی قدر مر تفع ہوتی چلی جائیں گی۔ ایک جسم کا آن واحد میں متعد د مقامات پر پائے جانے کا استحالہ اسی مادی کثافت کا نتیجہ ہے ۔ جہاں یہ کثافتیں مو جو د نہ رہیں وہاں زمان ومکان کی حد بندیاں بھی باقی نہیں رہتیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام محققین کے نزدیک ایسے لطیف تھے کہ ان میں اور ارواح میں کوئی فرق نہ تھا۔ معترضین کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں اپنے اکابر کی عبارات کو دیکھیں آپ کے مو لا نا رشید احمد صاحب گنگوہی نے فرمایا موت سب کو شامل ہے مگر انبیاء علیہم السلام کی ارواح مشاہد ہ جمال و جلا ل حق تعالیٰ شانہ و تقابل آفتاب و جو د باری تعالیٰ سے اس درجہ تک پہنچ جاتی ہیں کہ اجزا ء بدن پر ان کا یہ اثر ہو تاہے کہ تمام بدن حکم (۱) روح پیدا کر لیتا ہے اور تمام جسم ان کا عین ادراک اور عین حیات ہو جا تا ہے اور یہ حیات دوسری قسم کی ہو تی ہے اور اس تحقیق سے نکتہ ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تأکل اجساد الانبیاء بھی ظاہر ہو جا تا ہے۔
شمائم امدادیہ میں جناب گنگوہی صاحب کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں، ’’اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے مضائقہ نہیں کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے ۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذات بابرکات کا بعید نہیں۔‘‘ ( شمائم امدایہ ص۹۳)
گنگوہی صاحب کے اقتباس سے اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ انبیاء علیہم السلام کا تمام بدن حکم روح پیدا کر لیتا ہے ۔ اب یہ سنیئے کہ وہ روح جس کو قرآن نے ’’الروح الامین‘‘ قرار دیا اور لسانِ شرع میں جبرائیل سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔ اسی زمان و مکان کے باب میں اس کا کیا حال ہے ۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں
ان جبریل علیہ السلام مع ظھورہ بین یدی النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام فی صورۃ دحیۃ الکلبی او غیرہ لم یفارق سدرۃ المنتھیٰ (روح المعانی ص۳۵پ۲۲)
ترجمہ: بے شک جبرائیل علیہ السلام دحیہ کلبی و غیرہ کی صورت میں نبی کریم ﷺ کے سامنے ظاہر ہونے کے باوجود سدرۃالمنتہیٰ سے جدا نہیں ہوئے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح طیبہ تو ارواح ملائکہ سے کہیں زیادہ قوت و تصرف کی صفت سے متصف ہیں۔ بالخصوص ہمارے نبی کریم ﷺ کی روح اقدس تو روح الا رواح ہے۔ جب ان کے اجسام کریمہ ان کی ارواح مقدسہ کا حکم پیدا کرلیں گے تو ان کیلئے یہ کو ن سی بڑی بات ہو گی کہ وہ آسمانوں اور بیت المقدس میں ظاہر ہو نے کے باوجو د اپنی قبور شریفہ سے جدا نہ ہوں۔
اس مضمون کی تائید کنز العمال کی ایک حدیث سے بھی ہو تی ہے۔ فیض الباری میں اس حدیث کو حسب ذیل عبارت میں نقل کر کے اس کی مراد کو واضح طو ر پر بیان کیا
وفی کنز العمال ان اجساد الانبیاء نابتۃ علی اجساد الملائکۃ و اسنادہ ضعیف و مرادہ ان حال الا نبیاء علیھم السلام فی حیاتھم کحال الملائکۃ بخلاف عامۃ الناس فان ذالک حالھم فی الجنۃ فلا تکون فضلا تھم غیر رشحات عرق۔ انتھی۔ (فیض الباری جز اول ص ۲۵۱)
اور کنز العمال میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کی پیدا ئش اجسام ملائکہ کے موافق ہوتی ہے۔ اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ اور اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات دنیا میں ان کا حال ملائکہ کے حال کی طرح ہو تا ہے ۔ بخلاف عامۃ الناس کے کہ ان کا یہ حال جنت میں ہو گا اسی وجہ سے انبیاء کرام علیہم السلام کے فضلات پسینے کے قطروں کے سوا نہیں ہوتے۔ (فیض الباری)
اگرچہ اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے مگر باب مناقب میں وہ بالاتفاق مقبول ہے ۔ دیکھئے اعلا ء السنن میں ہے۔
ولا یخفی ان الضعاف مقبولۃ معمولۃ بھافی فضائل الاعمال و مناقب الرجال علی ما صرحوا بہ۔ انتھٰی۔ (اعلاء السنن حصہ چہارم ص۶۵) مصدقہ مو لوی اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون
اور مخفی نہ رہے کہ محدثین کی تصریح کے موافق ضعیف حدیثیں فضائل اعمال اور مناقب رجال میں مقبول ہیں۔ معمول بہاہیں۔
اجسادانبیاء علیہم السلام جب اجساد ملائکہ کے موافق ہوئے حتی کہ ان کے فضلات بھی پیسنے کے چند قطروں سے متجاوز نہیں ہوتے تو اب ان کا قیاس عامۃ الناس کے اجسام پر کرنا غلطی نہیں تو اور کیا ہے؟
انبیاء علیہم السلام کے اپنی قبروں میں نماز پڑھنے اور آسمان و بیت المقدس اور قبور میں انبیاء علیہم السلام کے پائے جانے کے مسئلہ میں اسی قسم کے معترضین کو ان کی غلطی پر متنبہ کر نے کیلئے امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
ورأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صورتہ ھناک فی اشخاص السعداء فشکر اللّٰہ تعالیٰ و علم عند ذالک کیف یکون الانسان فی مکانین وھو عینہ لا غیرہ ۔۔۔۔ و فیہا شھود الجسم الواحد فی مکانین فی آن واحد کمارأی محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم نفسہ فی اشخاص بنی آدم سعداء حین اجتمع بہ فی السماء الاولٰی کما مر وکذالک آدم و موسٰی و غیرھما فانھم فی قبورھم فی الارض حال کو نھم ساکنین فی السماء فانہ قال رأیت آدم رأیت موسٰی رأیت ابراھیم واطلق وما قال روح آدم ولا روح موسٰی فراجع صلی اللّٰہ علیہ وسلم موسیٰ فی السماء وھو بعینہ فی قبرہ فی الارض قائما یصلی کما ورد فیا من یقول ان الجسم الواحد لا یکون فی مکانین کیف یکون ایمانک بھذا الحدیث(الیواقیت و الجواہر ج ۲ ص ۳۴)
ترجمہ: اور نبی کریم ﷺ نے اس جگہ (آدم علیہ السلام کے پاس) نیک بختوں کے افراد میں اپنی صورت مبارک بھی دیکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اس وقت حضور ﷺ نے علم مشاہدہ کے ساتھ اس بات کو جان لیا۔ کہ ایک انسان دو جگہ میں کس طرح پا یا جا تا ہے۔ درآن حالیکہ وہ اس کا عین ہے، غیر نہیں…فوائد معراج سے یہ بھی ہے کہ ایک جسم کا ایک ہی آن میں دو جگہ حاضر ہو نا جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنی ذات مقدسہ کو بنی آدم کے نیک بخت افراد میں دیکھا۔ جب کہ حضور ﷺ پہلے آسمان میں آدم علیہ السلام کے ساتھ جمع ہو ئے۔ جیسا کہ ابھی گزر چکا اور اسی طرح آدم و موسیٰ اور ان کے علاوہ انبیاء کرام کہ وہ زمین میں اپنی قبروں میں بھی موجود ہیں اور اسی وقت آسمانوں میں بھی ساکن ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے آدم کو دیکھا۔ میں نے موسیٰ کو دیکھا ۔ میں نے ابراھیم کو دیکھا اورروح کی قید لگا کر یہ نہیں فرمایا کہ میں نے روحِ آدم کو دیکھا اور نہ یہ فرمایا کہ میں نے روحِ موسیٰ کو دیکھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آسمان میں گفتگو بھی فرمائی۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام بعینہٖ زمین میں اپنی قبر کے اندر کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا، پس اے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ ایک جسم دوجگہ نہیں پایا جا سکتا اس حدیث پر تیرا ایمان کیسے ہو گا؟ (الیواقیت والجواہر)
عالمِ مثال
عبارات منقولہ سے معترض کے اعتراض کا جہالت اور بے دینی پر مبنی ہونا اچھی طرح واضح ہوگیا۔ لیکن اگر ان تمام حقائق سے قطع نظر کر لی جائے تو ہم دوسرے طریقہ سے بھی جواب دے سکتے ہیں اوروہ یہ کہ صوفیہ عارفین کے نزدیک عالم کئی قسم کا ہے، ان میں سے ایک عالم اجسام ہے، دوسرا عالم مثال اور تیسرا عالم ارواح، ایک ہی چیز بیک وقت تینوں عا لموں میں پائی جاتی ہے اور ان میں سے کوئی وجود دوسرے کا غیر نہیں بلکہ ان میں سے جس کا بھی اعتبار کیا جاوے باقی اس کا عین ہوں گے، غیر نہ ہوں گے۔ لہٰذا انبیاء کرام کے ان اجسام کر یمہ کو جو ان کی قبور اور بیت المقدس اورآسمانوں میں پائے گئے۔ عالم مثال پر حمل کر دیا جائے تو کو ئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ انور شاہ صاحب کشمیر ی مقدمہ فیض الباری میں لکھتے ہیں
العوالم عند الصوفیۃ علی انحا ء عا لم الاجساد العنصریۃ وہی التی فیہا المادۃ والمقدار وعالم الامثال وہی التی لامادۃ فیہا مع بقاء الکم وا لمقدار کا لشج المرئی فی المرأ ۃ وعالم الارواح وھی التی لا مادۃ فیھا ولا کم ولا مقدار وقد صرحوا ان عالم المثال لتجردہ عن المادۃ اقوی من عالم الاجساد ولیس کما زعمہ بعض الجھلاء انہ من التخیلات الصرفۃ وقالوا ان زید افی آن واحد موجودفی مواطن ثلا ثۃ عالم الا جساد والمثال والارواح بدون تفاوت ولاتغیر انتھٰی (مقدمہ فیض الباری جز اول ص ۶۵)
عارفین صوفیہ کے نزدیک عالم کی چند قسمیں ہیں ایک ان میں سے عالم اجساد عنصر یہ ہے اور وہ وہ ہے جس میں مادہ اور مقدار دونوں چیزیں پائی جائیں ۔ دوسرا عالم مثال اور وہ وہ ہے جس میں مادہ نہ ہو صرف کمیت اور مقدار پائی جائے جیسے آئینہ میں نظر آنے والی شکل، تیسرا عالم ارواح اس میں نہ مادہ ہوتا ہے اور نہ کمیت اور نہ مقدار۔ عارفین کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عالم مثال تجرد عن المادہ کی وجہ سے عالم اجسام سے زیادہ قوی ہے اوریہ بات نہیں جیسا کہ بعض جہلاء نے گمان کر لیا کہ عالم مثال محض تخیلات کا مجموعہ ہے ۔ صوفیائے کرام نے یہ فرمایا کہ زید آ ن واحد میں تین جگہ موجود ہے۔ ایک عالم اجساد، دوسرے عالم مثال اور تیسرے عالم ارواح میں۔ ان تینوں جگہ زید بغیر کسی تفاوت اور تغیر کے پایا جاتا ہے۔ پھر آگے چل کر اگلے صفحے پر فرماتے ہیں
ثم ان عا لم المثال لیس اسما للحیز کما یتوھم بل ھواسم لنوع من الموجودات فما کان من عالم المثال ربما یوجد فی ھٰذ ا العالم بعینہٖ کا لملٰئکۃ فانھم فی عالم المثال عند ھم ومع ذالک تتعاقب فی ھٰذا العالم بکرۃ واصیلا انتھٰی (مقدمہ فیض الباری ص ۶۶)
پھر عالم مثال کسی چیز کا نام نہیں۔ جیسا کہ وہم کیا جاتا ہے بلکہ وہ موجودات کی ایک قسم کا نام ہے تو بسا اوقات عالم مثال کی چیز اس عا لم میں بعینہٖ پائی جاتی ہے جیسے فرشتے کہ وہ ان کے نزدیک عالم مثال میں ہیں اور اس کے باوجود اس عالم میں بھی ایک دوسرے کے پیچھے صبح و شام آتے ہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ
شاید کو ئی کہہ دے کہ صاحب فیض الباری نے صو فیاء کا مذہب نقل کر دیا ۔ جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا اپنا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ اول تو صوفیاء کا عقیدہ ہی ہماری دلیل ہے۔ دوم یہ کہ صاحب فیض الباری نے اس مسئلہ میں اپنے عقیدہ کی خود تصریح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
وقد ثبت عندی تجسد المعا نی وتجوھر الاعراض با لعقل والنقل فلا بعد عندی فی صعودھا ( فیض الباری جز ۲ص۳۰۲)
میر ے نزدیک اعراض ومعانی کا جسد مثالی اور جوہر مثالی میں ظاہر ہونا عقل ونقل سے ثابت ہوچکاہے۔
اس لیے کلمات طیبات کے آسمانوں کی طر ف چڑھنے میں کوئی بعد نہیں پایا جاتا۔ اس عبارت سے ثابت ہو اکہ صاحب فیض الباری نے عالم مثال کا قول محض نقل نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس کا وجود عقل ونقل سے ثابت ہے۔
عا لم مثال کابے حقیقت ہو نا
شاید کو ئی جھگڑا لو آدمی یہ کہہ دے کہ عالم مثال تخیلاتِ صرفہ اور فراغ متوہم کا نام ہے۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔
تو اس کا جواب مقدمہ فیض الباری سے ہماری نقل کی ہوئی عبارت میں واضح طور پر آ چکا ہے۔ کیونکہ اس میں صاف مو جود ہے کہ عالم مثال کو تخیلات محضہ قرار دینا جہلاء کا کا م ہے۔ اسی طرح اسے محض فراغ متوہم ما ننا بھی وہم ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عالم مثال موجودات کی ایک نوع کو کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ عالم مثال کی چیزیں بسا اوقات اس عالم میں بعینہٖ پائی جاتی ہیں۔
اتنی روشن تصریحات کے باوجود بھی عالم مثال کی حقیقت وواقعیت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کیاہو سکتا ہے۔ قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ عالم مثال پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
والصوفیۃ العلیۃ لما ظھرلھم من العوالم عالم المثال و فیہ مثال لکل جوھر وعرض بل للمجردات ایضاً بل للّٰہ سبحانہٗ ایضاً مع کونہ متعال عن الشبہ والمثال ذالک ھو المحل لحدیث رأیت ربی علی صورۃ امرد شاب قطط فی رجلیہ نعلا الذھب وقد ینتقل الصورۃ المثالیۃ من عالم المثال الی عالم الشھادۃ بکمال قدرتہ تعالٰی وقد اشتھر ذالک کرامۃ عن کثیر من الاولیاء ولعل اللّٰہ تعالٰی یحضر الصورۃ المثالیۃ للموت من عالم المثال فی الاٰخرۃ الی عالم الشھادۃ فیؤمر بذبحہ حتی یظھر علی اھل الجنۃ والنارانہ خلود ولا موت وھکذا التاویل فی حشر الاسلام والایمان والقرآن والاعمال والامانۃ والرحم وایام الدنیا کما نطق بہ الاحادیث الصحیحۃ التی لا یسع ذکرھا المقام قال السیوطی فی البدور السا فرۃ الاعمال والمعانی کلھا مخلوقۃ ولھا صورۃ عنداللّٰہ تعالی وان کنا لا نشاھد ھا وقد نص ارباب الحقیقۃ علی ان من انواع الکشف الوقوف علی حقائق المعانی و ادراک صورھا بصور الاجسام والا حادیث شاھدۃ بذالک وھی کثیرۃ انتھٰی و ھذا القول من السیوطی حکایۃ عن عالم المثال واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اور صوفیاء عُلیہ پر عوالم میں سے عالم مثال ظاہر ہوا۔ جس میں ہر جو ہر و عرض بلکہ مجردات بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی مثال ہے باو جو د یکہ اللہ تعالیٰ شبہ و امثال سے پاک ہے ۔ صوفیاء نے کہا۔ یہی عالم مثال اس حدیث کا محل ہے کہ میں نے اپنے رب کو گھنگھریالے بالوں والے نوجوان کی شکل میں دیکھا جس کے پائو ں میں سونے کی جوتیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی عالم مثال سے صورت مثالیہ عالم شہادت کی طرف اپنی کمال قدرت کے ساتھ منتقل فرما دیتاہے اور اسی عالم مثال کی بناء پر آن واحد میں مقامات متعددہ پر مو جو د ہو نے کی یہ کرامت بکثرت اولیا ء اللہ سے مشہور ہو گئی اور شاید ا للہ تعالیٰ موت کے لئے آخرت میں عالم مثال سے عالم شہادت کی طرف ایک صورت مثالیہ حاضر فرمائے گا۔ پھر اسے ذبح کر نے کا حکم دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جنتیوں اور دوزخیوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ خلود ہے موت نہیں۔ یہی تاویل حشر، اسلام، ایمان ، قرآن ، اعمال ، امانت، رحم اور ایام دنیا کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ بکثرت احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں۔ جن کے ذکر کی گنجائش نہیں۔
اما م سیوطی نے بدور سافرہ میں کہا اعمال اور معانی سب مخلوق ہیں۔ اور ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ ہم ان کا مشاہد ہ نہیں کر سکتے ارباب حقیقت نے اس بات پر نص کی ہے ۔ کہ منجملہ انواع کشف کے وقوف حاصل کرنا ہے حقائق معانی پر اور ان صورتوں کے ادراک پر جو اجسام کی سی صورتیں ہو ں اور احادیث کثیرہ اس کیلئے شاہد ہیں انتہیٰ ! اور یہ قول امام سیوطی کا ہے جس کے ذریعہ انہوں نے عالم مثال کی حکایت کی ہے ۔ ’’اللہ تعالیٰ بہتر جا نتا ہے۔ (تفسیر مظہر ی پ ۲۹ص۲۱،۲۰)
ان تما م عبارات سے عالم مثال کا و جود اظہر من الشمس ہو گیا اور یہ بات واضح ہو گئی کہ مو جو دات عالم مثال و جو د واقعی رکھتے ہیں اور وہ انواع کائنات میں سے ایک نو ع ہیں ۔ نیز یہ کہ جو چیز عوالم ثلٰثہ میں بیک وقت مو جو د ہو گی اس کا وجو د تینوں میں سے کسی عالم کے و جو د کا غیرنہ ہو گا۔ لہٰذا انبیاء کرام علیہم السلام جو مقامات متعددہ پر دیکھے گئے ان سب کا و جو د ہر جگہ و جو د واقعی ہے اور وہ ان کا غیر نہیں بلکہ عین ہے ۔
امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ’’لا یترکون فی قبورھم بعد اربعین لیلۃ‘‘کے متعلق امام بیہقی سے نقل کیا ہے ۔
قال البیھقی ان صح فالمراد انھم لا یترکون یصلون الا ھذا المقدار و یکونون مصلین بین یدی اللّٰہ (زرقانی جلد پنجم ص۳۳۵)
بیہقی نے کہا اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس کی مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اس عرصہ معینہ کے بعد نماز پڑھنے کیلئے نہیں چھوڑے جا تے ۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور خاص میں نماز پڑھتے ہیں۔
بہر حال معترضین کے شبہات محدثین و علماء محققین کی تصریحات کی روشنی میں لغو اور بے بنیاد ہیں۔ ہمارے اس جو اب میں دوسرے اعتراض کا جواب بھی آگیا۔ جس کو دوبارہ لکھنا تطویل لا طائل ہے ۔
تیسرے اعتراض کا جو اب
رہا تیسرا اعتراض تو ہم پو چھتے ہیں کہ معترض کو ارواح انبیا ء کرام علیہم السلام کے اعلیٰ علیین میں ہونے کا علم قطعی کس دلیل سے حاصل ہوا۔
جب دلائل سے ہم نے ثابت کر دیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں تو یہ کیوں نہ کہا جائے کہ ارواح مقدسہ ابدان شریفہ میں ہونے کے باوجود اپنی روحانی قوت اور طاقت تصرف کی بناء پر اعلیٰ علیین سے بھی اس طرح متعلق ہیں کہ گویا وہ وہا ں مو جو د ہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے مسلک پر پھر بھی کوئی زد نہیں پڑتی ۔ اس لئے کہ جب اجسام مقدسہ کا امکنہ متعددہ میں ہو نا باہمی غیریت کو مستلزم نہیں تو روح اقدس کے لئے تو بطریق اولیٰ یہ بات ماننی پڑے گی اور اس میں شک نہیں کہ ارواح مقدسہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ابدان مبارکہ میں مو جو د ہونے کے باوجو د بھی اعلیٰ علیین میں مو جو د ہیں۔ غیر مرئی پر مرئی سے دلیل لانا اور ایک عالم پر دوسرے عالم کا قیاس کر نا صحیح نہیں۔
No comments:
Post a Comment