Saturday 12 December 2015

اِمام عبد الرحمٰن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 795 ھ) اور تعریف و اقسام بدعت

0 comments
اِمام عبد الرحمٰن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 795 ھ) اور تعریف و اقسام بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ ابن رجب حنبلی بغدادی اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں بدعت کی اقسام اور اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.

بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔

ابن رجب حنبلي رحمة الله عليه ، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
محمد شمس الحق، عون المعبود شرح سنن أبي داؤد، 12 : 235
عبد الرحمن مبارکپوري، تحفت الأخوذي، 7 : 366
---------------------------------------------------------------------------------
حديث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هذا مَا لَيْسَ مِنْهَ فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف رقمطراز ہیں :

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلي الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء في ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية.

حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہو گی اور دین اس چیز سے بری ہو گا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔

مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم : 14
احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26
دار قطني، السنن، 4 : 224، رقم : 78
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 252
---------------------------------------------------------------------------------
علامہ ابن رجب بدعات حسنہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اور بدعتِ حسنہ کے اثبات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے لیے تمام لوگوں کو مسجد میں ایک امام کی اقتداء میں جمع کیا اور پھر جب انہیں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ اگر یہ بدعت ہے تو پھر یہ اچھی بدعت ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ اگرچہ یہ اس طرح نہ بھی ہو، تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی جانتا ہوں لیکن یہ اچھی بدعت ہے اور اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ عمل اس سے پہلے اس صورت میں نہیں تھا۔ لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود تھی جو کہ اس فعل کی طرف لوٹتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام قیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی لوگ متفرق جماعات کی صورت میں قیام کیا کرتے تھے اور اکیلے اکیلے بھی قیام کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک رات سے زیادہ راتوں میں رمضان میں نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی علت کے باعث اس سے منع فرما دیا اور وہ اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوف ہونے لگا کہ یہ ان پر فرض کردی جائے گی اور وہ لوگ اس قیام سے عاجز آجائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کردی، اور آقا علیہ السلام سے روایت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اپنے بعض صحابہ کرام کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ کام (یعنی قیام رمضان تراویح کی صورت) خلفاء راشدین کی سنت میں سے ہوگیا۔ اور اسی طرح لوگ حضرت عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضيٰ رضی اﷲ عنہم کے زمانے میں ہی اس چیز پر مجتمع ہوگئے تھے اور اسی طرح جمعہ کی پہلی اذان ہے جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر زیادہ کیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر قائم رہے اور اس پر لوگوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ کی دوسری اذان کے بارے میں فرمایا کہ وہ بدعت ہے۔ شاید ان کی مراد بھی وہی ہو جو ان کے والد کی قیام رمضان کے بارے میں تھی۔ اور اسی میں سے صحائف کو ایک کتاب میں جمع کرنا ہے۔ اس پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے توقف کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما سے کہا کہ آپ اس کام کو کیسے کر رہے ہو جسے خود آقا علیہ السلام نے نہیں کیا؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ اس میں مصلحت ہے۔ تو پھر آپ اس کو جمع کرنے پر راضی ہوگئے۔ اور حضور علیہ السلام نے وحی کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے متفرق یا مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔ لیکن اس کو جمع کرنا زیادہ مبنی بر مصلحت ہے۔ اور اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو ایک مصحف پر جمع کیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا جس کے لوگ مخالف تھے اور جو امت میں تفرقہ ڈالنے والی تھی۔ اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم نے درست جانا ہے اور یہ مصلحت کے عین مطابق تھا۔ اور اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کے بارے میں (حضرت ابوبکر کا) فیصلہ اس میں عمر اور دیگر صحابہ نے توقف اختیار کیا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس اصل کا بتا دیا جو کہ شریعت میں سے اس کی طرف لوٹتی ہے پھر اس پر لوگ آپ سے متفق ہوگئے۔

مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 3 - 252

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔