Friday 25 December 2015

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور محبّت رسول صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

0 comments
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور محبّت رسول صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، ابو عمارہ ان کی کنیت تھی اور وہ عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو چار سال بڑے تھے۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے انہیں بھی دودھ پلایا تھا، اس حوالے سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے تو تحریکِ اسلامی کے اراکین کو ایک ولولۂ تازۂ عطا ہوا۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے جس سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی، جرات اور بے باکی کا پتہ چلتا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعئ اعظم کی حیثیت سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دیتے ہوئے چھ سال ہو گئے تھے لیکن کفار و مشرکینِ مکہ کی اکثریت نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق پر کان نہیں دھرتی تھی بلکہ انہوں نے شہر مکہ کو قریۂ جبر بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو اقلیت میں تھے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دشنام طرازیوں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے تک بنائے جا رہے تھے۔ پورے مکہ کی فضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی شرفِ اسلام سے محروم تھے۔ وہ شمشیر زنی، تیراندازی اور شکار و تفریح کے مشاغل میں اس قدر مشغول تھے کہ دعوتِ اسلام پر غور کرنے کی فرصت ہی نہ مل سکی تھی۔

ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوہِ صفا (یا ایک روایت کے مطابق حجون) کے مقام سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو دینِ حق کی طرف بلا رہے تھے کہ ابوجہل بھی ادھر آنکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ بدبخت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہذیان بکنے لگا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس پر ایک بھی شکن نمودار نہ ہوئی۔ ابوجہل گالیاں بکتا رہا، حروفِ ناروا اُس کی گندی زبان سے کانٹوں کی طرح گرتے رہے۔ اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی اذیت کا نشانہ بھی بنایا لیکن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس پر حرفِ شکوہ تک نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور اس کی ہرزہ سرائی و اذیت رسانی پر کمال صبر و تحمل سے کام لیا۔ ایک عورت اپنے گھر میں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے لوٹے تو اس خاتون سے نہ رہا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگی : کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے کتنا برا سلوک کیا ہے، انہیں گالیاں دی ہیں اور اُن پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے، چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ اٹھایا ہے، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے، ابوجہل کو دیکھا کہ کفار و مشرکین کی ایک مجلس میں بیٹھا لاف زنی کر رہا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ابوجہل کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے اور اس کی دریدہ دہنی اور شرارت کی سزا دینے کے لئے اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری، جس سے اُس بدبخت شاتمِ رسول کا سر پھٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا : ابوجہل! تیری یہ ہمت کہ میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے اور ان سے بدسلوکی کرے۔ اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا باطن نورِ ایمان سے روشن ہو گیا اور ان کے مقدر کا ستارا اوجِ ثریا پر چمکنے لگا، اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنکھوں میں غیرتِ ایمانی کا چراغ بن کر جل اٹھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل سے کہنے لگے :

أتشتمه وأنا علی دينه أقول ما يقول؟ فرد ذلک علي إن استطعت.

ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 2129
طبري، التاريخ، 1 : 3549
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 4477
طبري، ذخائر العقبي، 1 : 173

’’کیا تو (میرے بھتیجے) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتا ہے؟ میں (بھی اُن کے دین پر ہوں اور) وہی کہتا ہوں جو وہ فرماتے ہیں، میرا راستہ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھو۔‘‘

اور پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہونے کے لئے آ رہے تھے تو اصحابِ رسول کو تردد ہوا لیکن جان نثارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پورے اعتماد سے گویا ہوئے کوئی بات نہیں، عمر آتا ہے تو اُسے آنے دو، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک اور اگر برے ارادے سے آیا ہے تو اس کی تلوار ہی سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔