حیات النبی ﷺ ، سماع موتیٰ ، دور سے سننا پر اشکالات و اعتراضات کے جواب 1
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رہا اشکال مذکور تو اس کا جواب ہماری طر ف سے یہ ہے کہ ہم قبض روح اقدس کا اعتقاد رکھنے کے باو جو د یہ سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺ کا جسم اقدس کسی وقت ایک آن کیلئے بھی حیات حقیقی سے خالی نہیں ہو ا حتیٰ کہ جب روح اقدس قبض ہو رہی تھی اس وقت بھی جسم اقدس میں حیاتِ حقیقی موجود تھی۔ روحِ اقدس قبض ہو نے کے بعد بھی بدن مبارک متصف بحیات حقیقی تھا اور ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ جسم اقدس میں حیات کا رہنا حقیقی نبوت و رسالت کیلئے کافی ہے رہا یہ امر کہ قبض روح کے وقت بھی حضو ر ﷺ کا جسم مبارک حیات سے خالی نہیں ہے یہ مستلزم ہے بیک و قت موت اورحیات کے اجتماع کو جو صراحۃً باطل ہے۔
تو اس کا جواب پچھلے صفحات میں نہایت تفصیل سے گزر چکا ہے کہ جسم سے روح کا نکلنا مو ت عاد ی ہے اور جسم میں ایسی صفت کا پا یاجا نا جو سمع و بصر ادراک و احساس کیلئے مصححہ ہو حیات حقیقی ہے اور یہ ممکن بلکہ واقع ہے کہ روح کے بغیر حیات پائی جائے کیونکہ روح اور حیات کے درمیان ملازمت عادیہ ہے عقلیہ نہیں لہٰذا ممکن ہے کہ قبض روح کے باوجود خرق عادت کے طو ر پر جسم میں احسا س و ادراک پایا جائے اس کے نظائر و شواہد ہم تفصیل کے ساتھ پیش کر چکے ہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کے متعلق مدارج النبوۃ جلد دوم ص ۵۶۸ سے ایک روایت ہدیہ ناظرین کر چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قبر انور میں رونق افروز ہوئے تو حضور ﷺ اپنے لب ہائے اقدس کو متحرک فرما کر رب امتی امتی فرما رہے تھے ۔
شق صدر
علاوہ ازیں شق صد ر مبارک کا واقعہ حضور ﷺ کی حیات طیبہ اور ہمارے اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے ۔ سب جا نتے ہیں کہ روح حیات کا مستقر قلب ہو تا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے دل کی حرکت بند ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن کو ن نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کے سینہ مقدس کو فی الواقع چا ک کیا گیا اور قلب اطہر کو جسم مبارک سے باہر نکا لا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلا معاونت آلات و اسباب عادیہ اسے شگاف بھی دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی حضور ﷺ جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ رہے کیونکہ شق صدر کے واقعہ کو آج تک کسی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں موت قرار نہیں دیا۔
حیات بعدالممات کی دلیل
شق صدرکے اس واقعہ میں حضور ﷺ کی حیات بعد الممات پر دلیل قائم کی گئی اور یہ دکھایا گیا کہ جس طرح قلب اقدس جسم مبارک سے باہر ہے ۔ مگر اس کے باوجود بھی جسم شریف زندہ ہے اسی طرح عندالوفات جب روح مبارک قبض ہو کر جسم اقدس کے باہر ہو گی تو اس وقت بھی جسم شریف اسی طرح زندہ ہو گا جیسا کہ اب زندہ ہے اس واقعہ سے متعلق دیگر مسائل کو ہم اپنے دوسرے مضامین میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں۔
اسباب عادیہ کا حیات عادی سے تعلق
اہل علم سے مخفی نہیں کہ اسباب عادیہ سے حیات عادی کا تعلق محض امر عادی ہے عقلی نہیں جس کا خلاف ممکن ہو ۔ اس لئے ہمارا یہ مسلک ان تمام شکوک و شبہات سے بے غبار ہے جو محض عادت کے پیش نظر پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے بیان سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہ سب امور خرق عادت سے متعلق ہیں جن پر کتاب و سنت سے شہادتیں پیش کی جا چکی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ قبض روح کے بعد عالم بدل جانے کی وجہ سے جسم کے ساتھ روح کے تعلقات اور لوازم حیات میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ ا س کا لازمی نتیجہ حیات انبیاء علیہم السلام کا استتار ہے بعد الوفات اگر کسی نبی کے جسم مبارک کا مشاہدہ کسی خوش نصیب کو نصیب ہو تو اسے عادتاً حیات کا کوئی اثر محسوس نہ ہو گا اور وہ اس کو بظاہر جسم بے جان کی طرح پائے گا لیکن حقیقت اس کے خلاف ہو گی۔ جیسا کہ ایک سونے والا خواب کی حالت میں کسی پر فضا مقام کی سیر و تفریح میں مشغول ہو اور طرح طرح کی نعمتوں اور لذتوں سے محظوظ ہو رہا ہو اگر ہم اسی حال میں اسے سو تا ہو ا دیکھیں تو اس کی ان تمام کیفیات کے باوجود ہمیں کچھ محسوس نہیں ہو گا۔ اس کا چلنا پھرنا، کھانا پینا، نعمتوں لذتوں سے محظوظ ہو نا ہمیں قطعاً معلوم نہ ہو سکے گا اور اس سوتے ہوئے جسم کو دیکھ کر ہم بظاہر یہی سمجھیں گے کہ یہ جس طرح ہمیں نظر آرہا ہے فی الواقع اسی طرح بے ہو ش پڑاہو ا ہے لیکن سونے والے کا حال ہمارے خیال کی تکذیب کر تا ہے بالکل اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی حیات واقعی ہمارے اس گمان کو جھٹلاتی ہے۔
مختصر یہ کہ جس طرح سوتے میں خواب دیکھنے والا عالم خواب کی لذتوں اور نعمتوں سے مستفیض ہو کر ہمارے سامنے مستور الحال ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام بعد الوفات مستور الحیات ہو تے ہیں۔ ’’الا من اکرمہ اللّٰہ برؤیتہم فی حال حیاتہم وما ذالک علی اللّٰہ بعزیز‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سوا
کوئی متصف بحیات بالذات نہیں
اسی ضمن میں یہ بھی عرض کر دوں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ چونکہ اصل کائنات ہے اس لئے بالنسبتہ الی الخلق حضو ر ﷺ متصف بحیات بالذات قرار پائیں گے۔ حضو ر ﷺکے مقابلہ میں کسی دوسرے کو متصف بحیات بالذات قرار دینا اور اس کے حق میں امتناع انفکاک حیات کا قول کر نا بارگاہ رسالت میں انتہائی جرأت کے ساتھ سوء ادبی ہے بالخصوص دجال لعین کے حق میں یہ کہنا کہ جیسے رسول اکرم ﷺ بوجہ منشائیت ارواح مومنین جس کی تحقیق سے ہم فارغ ہو چکے ہیں متصف بالذات ہوئے ایسے ہی دجال بوجہ منشائیت ارواح کفار جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ متصف بحیات بالذات ہو گا اور اس وجہ سے اس کی حیات قابل انفکاک نہ ہو گی۔ اور موت و نو م میں استتار ہو گا انقطاع نہ ہو گا اور شاید یہی وجہ معلوم ہو تی ہے کہ ابن صیاد جس کے دجال ہو نے کا صحابہ کرام کو ایسا یقین تھا کہ قسم کھا بیٹھے تھے اپنے نوم کا وہی حال بیا ن کر تا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی نسبت ارشاد فرمایا یعنی بشہادت احادیث وہ بھی یہی کہتا تھا کہ
تنام عینای ولا ینام قلبی (آب حیات ص ۱۶۹)
بارگاہ رسالت میں سو ء ادبی کا انتہائی خوف ناک مظاہرہ ہے اس قائل نے اتنا نہیں سوچا کہ نبی اکرم ﷺ کی روح اقدس ، روح الارواح ہے اور حضور ﷺ کی ذات مقدسہ تمام عالم ممکنات کیلئے منشاء و جو د ہے۔ دجال لعین کیلئے منشائیت ارواح کفار کا قول درحقیقت ایک بنیادی غلطی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال منشاء ارواح کفار نہیں بلکہ منشاء کفر ارواح کفار ہے ، ارواح کفار نے عالم ارواح میں کفر نہیں کیا بلکہ اس عالم تکلیف میں آنے کے بعد ان سے کفر سر ز د ہو ا۔ دجال منشاء ارواح نہیں بلکہ ارواح کفار کے کفر کا منشاء ہے اور کفر خود مو ت ہے ۔
قال اللّٰہ تعالٰی ’’اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی‘‘ ای موتی القلوب وہم الکفار
اس لئے دجال منشاء موت قرار پائے گا اور جو موت کا منشاء ہو ا سے حیات سے کیا واسطہ وہ تو حیات بالذات کی بجائے موت بالذات (۱) سے متصف ہو گا۔ ایسی صورت میں دجال لعین کو متصف بحیات بالذات کہنا اور اس کے حق میں امتناع انفکاک حیات کا قول کر نا قلب مومن پر بہت شاق ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ دجال لعین کی موت اور نو م کا رسول اکرم ﷺ کی موت اور نوم سے پورا پورا تطابق کر نے کیلئے تَنَامُ عَیْنَایَ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ کا وصف نبوت بعینہ دجال لعین کیلئے ثابت کر دیا اور اس کے ثبوت میں خود دجال کے قول کو دلیل بنا یا ۔ ٹھیک ہے دجال کا کمال اسی کے قول سے ثابت ہو سکتا ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ کا قول مبارک دجال کا کمال ثابت کر نے کیلئے کہاں مل سکتا ہے؟
ناظرین کر ام غور فرمائیں کہ یہ اقتباس اس کتاب کا ہے جس کا نام لے کر آج تک ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ ایسی بہترین کتاب حیات النبی کے مسئلہ پر آ ج تک کسی نے نہیں لکھی۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
رسالہ دینیات کا اقتباس
لگے ہا تھوں اس باب میں مو دودی صاحب کا ایک اقتباس بھی ہدیہ ناظرین کر تا جائوں تاکہ اس قسم کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا نظریہ واضح ہو کر سامنے آجائے۔ دیکھیئے رسالہ دینیات میں وہ ارقام فرماتے ہیں۔
پیغمبر کی زندگی دراصل اس کی تعلیم و ہدایت کی زندگی ہے جب تک اس کی تعلیم و ہدایت زندہ ہے۔ اس وقت تک گویا وہ خود زندہ ہے۔ پچھلے پیغمبر مر گئے کیونکہ جو تعلیم انہوں نے دی تھی۔ دنیا نے اس کو بدل ڈالا جو کتابیں وہ لائے تھے۔ ان میں ایک بھی آج اصل صورت میں مو جو د نہیں۔ (رسالہ دینیات ص۷۹)
انبیاء علیہم السلام کی حقیقی مو ت و حیات کے بارے میں اس عبارت سے کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ ہمیں صرف یہ بتا نا مقصود ہے کہ مودودی صاحب نے اس بیان میں انبیاء علیہم السلام کے جس وصف کو ان کے حق میں بمنزلہ موت و حیات کے قرار دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس اقتباس میں ان کی بعض تعبیرات انبیاء کرام علیہ السلام کے حق میں سویٔ ادبی کا حکم رکھتی ہیں۔ مثلاًان کا یہ کہنا کہ پچھلے پیغمبر مر گئے کیونکہ جو تعلیم انہوں نے دی تھی دنیا نے اس کو بدل ڈالا۔
تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات زندہ ہیں
حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی روح اور ان کا خلاصہ وہ عقائد اور اصول دین اور مقاصد کلیہ ہیں جو سب میں قدر مشترک کا حکم رکھتے ہیں۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدیٰ سے تعبیر فرمایا۔ ان کی تعلیمات کی اصل بنیاد یہی ہیں اور وہ سب محفوظ و مو جو د ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ انعام میں اٹھارہ نبیوں کا ذکر فرما کر ارشا د فرمایا
اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰہُمُ اقْتَدِہْ (س: الانعام آیت ۹۰)
یہ وہ لو گ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تو اے محمد ﷺ آپ ان کی سیرت کی اقتداء کر یں۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کو لو گوں نے اس طرح بدل ڈالا کہ وہ بالکل مٹ گئیں اور ان کی لائی ہوئی کوئی چیزاپنی اصل صورت پر باقی نہیں رہی تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا کیونکہ اس ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اصولی طور پر آپ کا راستہ انبیاء سابقین علیہم السلام کے راستے سے جدا نہیں ۔ رہا فروعی اختلاف تو وہ پہلے بھی تھا اور اب بھی اس کے واقع ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں حدیث شریف میں آیا ہے کہ
دینہم واحد وامہاتہم شتّٰی
انبیاء کا دین ایک ہے اور ان کی مائیں مختلف ہیں۔ قرآن بار بار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ وہی دین ہے جس کی وصیت انبیاء سابقین علیہم السلام فرماتے رہے ۔ مختصریہ کہ اگر انبیاء سابقین کی تعلیمات مر دہ قرار دے دی جائیں تو رسول اللہ ﷺ کو ان کی سیرت کی اقتداء کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔ اس حکم سے ثابت ہو تا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اور ان کی کل تعلیمات رسول اللہ ﷺ کے پاس موجو د ہیں اور حضور ﷺ سب کی سیرتوں کے جامع ہیں۔ اسی طرح کتب سابقہ کی تعلیمات کا حامل قرآن مجید ہے ۔ اسی لئے قرآن مجید کو مُھَیمِن کہا گیا ہے۔ جس کے معنیٰ ’’امین‘‘ ہیں یعنی انبیاء سابقین علیہم السلام کی کتابوں کی امانتیں قرآن مجید کے اندر محفوظ ہیں۔ مختصر یہ کہ کتب سابقہ اور انبیاء سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کو بالکل معدوم قرار دینا صحیح نہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اقوام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو گئیں اور ان کے پاس انبیاء علہیم السلام کی تعلیمات کا و جو د باقی نہ رہا ۔ ایسی صورت میں ان تعلیمات کا معدوم ہو جانا ان اقوام کی موت ہوگی جو ان تعلیمات سے محروم ہو گئیں۔ تعلیمات انبیاء علیہم السلام کے فقدان کو انبیاء کی موت قرار دینا انبیاء علیہم السلام کی شان میں سوء ادبی اور گستاخی ہے ۔ سب نبیوں کی صالحیت پاکیزگی نذاروتبشیر اور دعوت الی الحق اور ان کے اصول و عقائد اور دین کا جامع بیان قرآن پاک اور سیرت حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ضمن میں قطعاً محفوظ اور زندہ ہے۔
اس لئے وہ سب انبیاء علیہم السلام اس اعتبار سے بھی یقینازندہ ہیں۔ بااعتبار مذکور اگر مردہ کہا جا سکتا ہے تو انہی اقوام کو جو ان انبیاء علیہم السلام کے دین پر ہونے کا دعویٰ کر نے کے باوجو د ان کی حقیقی تعلیمات سے یکسر خالی ہو چکی تھیں۔ اقوام کی موت کو انبیاء کے سر تھوپنا اور یہ کہنا کہ پچھلے انبیاء مر گئے خوف ناک قسم کی بے باکی اور شان نبوت میں سوء ادبی ہے۔
نعوذ باللّٰہ من ذالک
حیات محمدی کی جامعیت
حضرت محمد ﷺ ؑتمام جہانوں کیلئے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا (الفرقان ۱)
اور خود رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا
ارسلت الی الخلق کافۃ (مسلم شریف)
رسالت رسول اور مرسل الیہ کے مابین ایک علمی اور عملی قسم کا مخصوص رابطہ ہے جس کے بغیر رسالت کا کوئی تصور قائم نہیں ہو سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف جہانوں کے مرسل الیہم کے احوال وکیفیات کے اختلاف اور تفاوت کی و جہ سے اس رابطہ اور تعلق کی نوعیت مختلف اور جداگانہ ہو لیکن فی نفسہ اس تعلق کا وجود رسالت کے لئے ضروری ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تمام جہانوں کے لئے اسی وقت رسول ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ان کا یہ رابطہ ہر جہان والوں کے ساتھ قائم ہو ۔ علمی اور عملی رابطہ ’’حیات کا ‘‘ مقتضی ہے ۔ اس لئے عموم رسالت کے اعتقاد کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ایسی جامع اور کامل حیات کے ساتھ متصف ہیں جو ہر عالم کے حسب حال ہے۔
سردست ہم تینوں عالموں کو سامنے رکھتے ہیں۔ دنیا، برزخ اور آخرت عموم رسالت کا وصف دائمی ہے۔ جب حضور ﷺ دنیا میں جلوہ گر تھے ، تب ہی تینوں جہانوں کے رسول تھے اور برزخ میں جلوہ افروز ہو کر بھی حسب سابق عوالم ثلاثہ کے رسول رہے اور عالم آخرت میںرونق افروز ہونے پر بھی عموم رسالت منفی نہیں ہو سکتا یہ الگ بات ہے کہ کسی وقت آخرت کے سوا کوئی دوسرا عالم باقی نہ رہے کیونکہ یہ عدم بقاء عالم عموم رسالت پر اثر نہیں ڈال سکتا اس کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے چمکتے ہوئے سورج کے سامنے دس آئینے رکھ دئیے جائیں تو سب اس کے نور سے چمک جائیں گے لیکن اگر ان سب کو یا ان میں سے بعض کو اٹھا لیا جائے تو آفتاب کی چمک بد ستور اپنے حال پرباقی رہے گی۔
مختصر یہ کہ حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں ہر وقت ہر عالم کے مناسب حیات کا پا یا جا نا ضروری ہے تاکہ مرسل الیہم کے ساتھ رسالت کا رابطہ قائم ہو سکے ۔ مثلاً اگر حضور ﷺ دنیا میں ہو ں تو دنیا برزخ اور آخرت تینوں جہانوں کے مناسب حیات سے متصف ہوں گے۔ اسی طرح برزخ میں رونق افروز ہوں تو برزخ دنیا اور آخرت کے لائق حیات کے حامل ہوں گے۔ علیٰ ہذا آخرت میں جلوہ گر ہوں تب بھی ایسی حیات سے مو صو ف ہو ں گے جو ہر عالم کے حسب حال ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے باقی مخلوقات کو خاص خاص ماحول کے مناسب حیات بخشی ہے۔ چنانچہ پانی کی مخلوق آگ میں اور ہو ا کی مخلوق پانی میں زندہ نہیں رہ سکتی ۔ حتیٰ کہ جبرائیل علیہ السلا م کیلئے بھی ایک مخصوص ماحول سے آگے زندہ رہنا ممکن نہیں ۔ اس لئے انہوں نے شب معراج عرض کر دیا کہ ’’لَو تَجَاوَزتُ اَنملَۃً لَّا حتَرَقتُ‘‘ یعنی اگر اپنے ماحول سے ذرا بھی آگے بڑھوں جل کر خاک ہو جائوں۔ مگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام خصوصا ً حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسی حیات کا ملہ جامعہ عطا فرمائی گئی جو ہر عالم کے ہر ماحول سے پوری طرح مناسبت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ وہی تعلق نبوت اور رابطہ رسالت ہے جو علم و عمل کی بنیادوں پر قائم ہو تا ہے۔ اور علم و عمل ہی حیات ہے۔ اس لئے جہاں تک ان کے علم و عمل کا تعلق ہوتاہے۔ وہاں تک ان کی حیات پہنچتی ہے۔ دیکھئے قرآن مجید میں ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور اگر تسبیح کی شرط نہ پائی جا تی تو قیامت تک بطن حوت ہی میں ٹھہرے رہتے۔
بخاری شریف میں حدیث مو جو د ہے کہ رسول اللہ ﷺصحابہ کرام علیہم الرضوان کی معیت میں دو قبروں کے پاس سے گزرے ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔ فَسَمِعَ صَوْتَ اِنْسَانَیْنِ یُعَذَّ بَانِ فِیْ قُبُوْرِھِمَا حضور ﷺنے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرگئے۔ صحابہ کرام سے فرمایا یہ دونوں قبروں والے عذاب قبر میں مبتلا ہیں اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں دیئے جارہے۔ ایک ان میں سے پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ دوسرا چغل خور ی کرتا تھا۔ حضور ﷺ نے کھجور کی ایک ٹہنی منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا اور فرمایا جب تک یہ خشک نہ ہو ں ان کی تسبیح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میںتحفیف فرمائے گا۔
رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف فرما تھے اور قبروں والوں کو عالم برزخ میں عذاب ہو رہا تھا۔ حضور ﷺ نے ان کی آواز اپنے مبارک کانوں سے سنی۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ان دونوں کو عذاب کس وجہ سے ہو رہا ہے۔ معلوم ہو ا کہ حضور ﷺ جیسے دنیاوی حیات سے متصف ہیں اسی طرح برزخ والوں کی حیات سے بھی متصف تھے۔ ورنہ اس عالم کی آوازوں کا سننا اور وہاں کے حقائق ور موز کا جاننا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ پھر کھجور کی ٹہنی کے دو ٹکڑے دونوں قبر وں پر رکھ کر ان کی تسبیح کی وجہ سے قبروں والوں کے عذاب میں تخفیف کا اظہار فرمانا اپنے عمل سے انہیں فائدہ پہنچانا ہے۔
اہل برزخ سے یہ علم و عمل کا رابطہ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ برزخ والوں کی حیات بھی حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پائی جاتی تھی۔
اس واقعہ میں ایک اور لطیف اشارہ پا یا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ تھے۔
حضور ﷺ نے ہر دو معذب انسانوں کی آواز سن کر صحابہ کرام کو بتایا پھر اسباب عذاب کا اظہار فرما کر گویا اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے میرے صحابہ عالم دنیا میں اس وقت میں تمہارے ساتھ ہو ں مگر یہ نہ سمجھنا کہ میں اسی عالم میں صرف تمہارے ہی ساتھ ہوں اس کے علاوہ کسی عالم میں کسی کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا میں تمہارے ساتھ ہونے کے با و جو د عالم برزخ میں برزخ والوں کے ساتھ بھی ہو ں اور ان کے حال سے خبردار ہوں اور ان کے دکھ درد میں ان کا حامی و مد دگا ر ہوں۔
نیز یہ کہ میں جس طرح دنیا میں ہو کر برزخ سے دور نہیں اسی طرح جب برزخ میں جلوہ گر ہو ں گا تو تم سے دو ر نہ ہوں گا اور تمہارے حال سے بھی اسی طرح باخبر رہوں گا جیسے اب اہل برزخ کے حال سے باخبر ہوں اور تمہارے دکھ درد میں ایسے ہی تمہارا حامی و مدد گار ہوں گا جیسے دنیا میں ہو کر برزخ والوں کا حامی اور مدد گار ہوں۔
اس کے بعد عالم آخرت کی طر ف آیئے تو آپ کو معلو م ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دنیاوی حیات میں جس طرح عالم برزخ کی حیات کے حامل تھے۔ اسی طرح عالم آخرت کی حیات بھی حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پائی جاتی تھی۔ شب معراج حضور ﷺ کا آسمانوں پر جلو ہ گر ہو نا انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات فرمانا اور سفر معراج میں تمام پیش آنے والے واقعات اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ حضور ﷺ اس دنیاوی حیات کے ضمن میں اخروی حیات سے بھی متصف تھے۔ مختصر یہ کہ جس طرح عالم دنیا میں حضور ﷺ برزخ و آخرت کی حیات سے خالی نہ تھے۔ اسی طرح اب عالم برزخ میں دنیاوی حیات سے بھی خالی نہیں۔ وہو المراد ۔
حیات محمد ی ﷺ کے آفتاب کی شُعاعیں
اس حیثیت سے کہ حضور ﷺ اصل کائنات ہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات مقدسہ آسمان و جو د ممکنات کا چمکتا ہو ا آفتاب ہے۔ مخلوقات کے تمام انواع و ا فراد بمنزلہ آئینوں کے ہیں۔ ہر آئینہ اپنے مقام پر مخصوص کیفیت اور جداگانہ قسم کی استعداد کا حامل ہے۔ اس لئے ہر فرد اپنے حسب حال اس آفتاب حیات سے اکتساب حیات کر رہا ہے۔ خلق و امر، اجسام و ارواح، اعیان و معانی، ارض و سما، تحت و فوق سب کا نور حیات اسی آفتاب حیات محمدی کی شعاعیں ہیں البتہ عالم ممکنات کا اس معدن حیات سے قرب و بعد اور افراد کائنات میں استعداد کی قوت و ضعف مراتب حیات میں ضرور موجب تفاوت ہے نفس حیات سب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن ہر ایک کی حیات اس کے حسب حال ہے۔ مومن ہو یا کافر نیک ہو یا بدہر ایک کا مبداء فیض حضور ﷺ ہی ہیں اور حضو ر ﷺ ہی کے آفتاب حیات سے ہر ایک میں حیات کی روشنی پائی جاتی ہے۔ آفتاب غروب ہوجائے تو تمام آئینے نور سے محروم ہو جائیں آئینوں میں نور کا پا یا جا نا آفتاب کے چمکنے کی دلیل ہے ۔ اسی طرح عالم ممکنات کے کسی ایک ذرہ میں نور حیات کا پا یا جا نا آفتاب حیات محمد ی کے مو جو د ہو نے کی دلیل ہے۔
یو ں سمجھئے کہ ایک بہت بڑا کار خانہ جس میں ہزاروں قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سینکڑوں مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ہر ایک مشین اپنی نوعیت کا جداگانہ کام کر رہی ہے۔ کہیں کپاس صاف ہو رہی ہے۔ کہیں روئی کی گانٹھیں تیار ہو رہی ہیں۔ کوئی مشین سوت کا ت رہی ہے۔ کسی میں کپڑا بنا جا رہا ہے۔ کہیں آٹا پس رہا ہے ۔ پھر وہاں بے شمار بلب لگے ہوئے ہیں۔ ہر بلب جداگانہ پاور کا ہے ۔ ان کا رنگ بھی مختلف ہے۔ پھر کسی مشین سے کہیں پانی گرم ہو رہا ہے، کسی جگہ برف جمائی جارہی ہے ۔ کوئی مشین آگ پیدا کر رہی ہے ۔ کوئی پانی کھینچ رہی ہے ۔ کسی کی رفتار ہلکی ہے کوئی تیز رفتار ہے ۔ ان سب کی حرکت اور ہر ایک کا کام ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن حرکت و عمل کی قوت کا مرکز ایک پاور ہا ئو س ہے جو ہر ایک کو اس کی استعداد اور اس کے حال کے موافق حرکت و عمل کی قوت تقسیم کر رہا ہے۔ اگر پاور ہائو س ختم ہوجائے تو تمام کارخانہ معطل ہو کر رہ جائے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انما اللّٰہ یعطی وانا قاسم و خازن
بے شک اللہ تعالیٰ دیتاہے اور میں تقسیم کر نے والا اور خازن ہو ں ۔
اس تمثیل سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مومنین و شہدا اور انبیاء کی حیات کا تفاوت اسی عمل پر مبنی ہے۔ یہاں اتنی بات اور عرض کر دوں کہ بسا اوقات نفس حیات ہوتی ہے۔ مگر منافع حیات نہیں ہوتے ۔ اس وجہ سے حیات کی نفی کر دی جاتی ہے۔ مگر اس نفی سے نفی حیات مراد نہیں ہوتی بلکہ منافع حیات کا انتفاء مراد ہو تا ہے ۔ ناواقف لوگ اصل حیات کی نفی سمجھ لیتے ہیں۔ اس غلطی میں اکثر لو گ مبتلا ہیں۔ انہیں قرآن مجید کی اس آیت کو دیکھنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰ (س: طٰہٰ آیت ۷۴)
ٍ کافر دوزخ میں نہ مرے گا نہ جئے گا۔ موت کی نفی تو ظاہر ہے ’’ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘مگر حیات کی نفی محض اس لئے فرمائی گئی کہ دوزخ میں منافع حیات منتفی ہوں گے ۔
ایک شبہ کا ازالہ
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کافر بھی قبر میں زندہ ہوتے ہیں تو قبر کی زندگی میں کیا فضیلت ہوئی؟ ان کا جواب بھی گزشتہ بیان میں آ گیا۔ وہ یہ کہ کافر قبر میں زندہ ضرور ہے، مگر معذب ہونے کی وجہ سے منافع حیات سے محروم ہے۔
عذاب قبر
کفار کا قبروں میں زندہ ہو نا اور انہیں عذاب دیاجا نا بے شمار دلائل سے ثابت ہے ۔ سردست ہم ایک روایت اما م جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الحاوی للفتاویٰ سے پیش کرتے ہیں ۔ جو ناظرین کیلئے مزید معلومات کا مو جب ہوگی۔
واخرج ابن ابی الدنیا فی کتاب القبور و الطبر انی فی الاوسط عن ابن عمر قال بینا انا اسیر بجنبات بدراذخرج رجل من حـفرۃ فـی عنقـہ سلسلـۃ فنادانی یا عبداللّٰہ اسقنی و خرج رجل آخر من تلک الحفرۃ فی یدہ سو ط فنادانی یا عبداللّٰہ لا تسقہ فانہ کافر ثم ضربہ بالسوط حتی عادالی حفرتہ فاتیت النبی ﷺفاخبرتہ فقال لی اوقد رایتہ قلت نعم قال ذالک عدواللّٰہ ابوجہل و ذاک عذابہ الی یو م القیامۃ (الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ص ۲۶۸ طبع مصر)
ابن ابی الدنیا نے کتاب القبور میں اور طبرانی نے اوسط میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نواح بدر میں جا رہا تھا کہ اچانک قبر کے ایک گڑھے سے ایک شخص نکلا جس کی گردن میں زنجیر تھی اس نے مجھے آواز دے کر کہا اے عبدا ﷲ! مجھے پانی پلا۔ اسی گڑھے سے ایک اور شخص برآمد ہوا جس کے ہاتھ میں کوڑا تھا اس نے مجھے پکار کر کہا اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا یہ کافر ہے پھر اسے کوڑا مارتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنے گڑھے کی طرف واپس لوٹ گیا۔ عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے یہ واقعہ حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا، کیا تونے اسے دیکھا؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! میں نے اسے دیکھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، وہ اللہ کا دشمن ابوجہل تھا اور وہ اس کا عذاب تھا جو اسے قیامت تک ہوتا رہے گا۔(انتہیٰ) الحاوی للفتاویٰ جلد نمبر ۲ ص ۲۶۸
قرآن وحدیث میں حضور ﷺ کی موت کا بیان اور اس کی حقیقت
اب اس کے بعد ایک مستقل بحث پیش نظر ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں عام نصوص سے بھی انبیاء علیہم السلام اور حضور ﷺ کی موت و وفات ثابت ہے اور خاص رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی ایسی نصوص موجود ہیں جو قطعی طور پر حضور ﷺ کی موت کو ثابت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ (آل عمران ۱۴۴) دوسری جگہ فرمایا۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِتُّوْنَ (الزمر ۳۰) عام نصوص میں کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ (آل عمران ۱۸۵) ایک ہی آیت اثبات مد عا کیلئے کافی ہے پھر عزیر علیہ السلام کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
فَاَمَا تَہُ اللّٰہُ مِأَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ، قَالَ لَبِثْتُ یَوْماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِأَۃَ عَامٍ‘‘ (البقرہ ۲۵۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کو مر نے کے بعد کسی قسم کا علم و ادراک نہیں ہو تا یہی ان کی موت ہے اس کے بعد احادیث کی طرف آیئے تو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے متعلق ارشاد فرمایا۔ انی مقبوض علاوہ ازیں حضور ﷺ کی موت کا واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جس کا انکار کیاجائے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ ’’من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات‘‘ کتب احادیث میں مشہور و معروف ہے۔ ایسی صورت میں حیات انبیاء کا عقیدہ کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
اس کے جواب میں گزارش ہے ۔ کہ ہماری گفتگو اس بات میں نہیں کہ انبیاء علیہم السلام یا خاص طور پر ہمارے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر موت طار ی ہو ئی یا نہیں ۔ ہم سب انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں موت طاری ہو نے پر ایمان رکھتے ہیں۔ گفتگو اس بات میں ہے کہ موت طاری عادی تھی یا حقیقی؟ نیز یہ کہ اس موت کے بعد حیات ملی یانہیں؟ قرآن و حدیث کی تمام نصوص کا مفاد صرف اتنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر موت طار ی ہوئی اور ان کی ارواح مقدسہ ان کے اجسام مطہرہ سے قبض کی گئیں ۔ یہ کس آیت یا حدیث میں آیا ہے کہ قبض روح کے ساتھ حس و ادراک بھی باقی نہ رہا کیا معترض کے نزدیک روح اور حیات میں ملازمۃعقلیہ ہے؟
ہم نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ روح اور حیات کے مابین عقلاً کوئی ملازمہ نہیں صرف ملازمۃ عادیہ ہے جو خرق عادت کے ساتھ منتفی ہو سکتی ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ روح قبض ہو نے کے بعد بھی جسم میں حیات باقی رہے ۔ روح کا قبض ہو نا مضمون نصوص کی صحت کیلئے کافی ہے ۔ یہ ہرگز نہیں کہ قبض روح کے ساتھ علم و ادراک ، قوت و احساس اور سمع و بصر کا منتفی ہو نا بھی مضمون نصوص موت کی صحت کے لئے ضروری ہو۔ ومن ادعٰی فعلیہ البیان لہٰذا قرآن و حدیث کی کوئی نص ہمارے عقیدہ حیات النبی ﷺ کے منافی نہیں بلکہ اگر ادنیٰ تامل سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ انبیاء علیہم السلام کی موت عوام کی موت سے مختلف ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ میں رسول اللہ ﷺ کو اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمانے کیلئے دوسروں سے الگ کر کے ذکر فرمایا ہو ورنہ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ کی بجائے اگر اِنَّکُمْ مَّیِّتُوْنَ فرمایا جا تا تو ا س میں رسول اللہ ﷺ بھی شامل ہو جاتے اور مختصر کلام میں سب کے لئے موت کا حکم ثابت ہو جاتا۔ جیسا کہ اس کے بعد ’’ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ‘‘ (الزمر ۳۱) میں دوسروں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو بھی شامل فرمالیا گیا ہے۔ مگر موت کا حکم لگانے میں اِنَّکَ مَیِّتٌ الگ فرمایا اور اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ (علیحدہ) ارشاد ہوا تاکہ سننے و الے سمجھ جائیں کہ رسول اللہ ﷺ کی موت دوسروں کی موت سے الگ ہے۔
حضور ﷺ کی موت ہماری موت سے بو جوہ ذیل مختلف ہے۔
۱۔ حضور سید عالم ﷺ کو اختیار تھا کہ حضور دنیا میں رہیں یا رفیق اعلیٰ کی طرف تشریف لے جائیں لیکن ہمیں دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف جانے میں کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ ہم موت کے وقت سفرآخرت پر مجبور ہوتے ہیں۔ (بخاری شریف)
۲۔ غسل کے وقت ہمارے کپڑے اتارے جاتے ہیں لیکن رسول اللہ کو انہیں کپڑوں میں غسل مبارک دیا گیا۔ جن میں حضور ﷺ نے وصال فرمایا تھا۔(بخاری شریف)
ٍ۳۔ حضور ﷺکی نماز جنازہ ہماری طرح نہیں پڑھی گئی بلکہ ملائکہ کرام ، اہل بیت عظام اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جماعت کے بغیر الگ الگ حضور ﷺ پر نماز پڑھی اور اس پر معروف دعائیں بھی نہیں پڑھیں بلکہ حضور ﷺ کی تعریف و توصیف کے کلمات طیبات عرض کئے گئے اور درود شریف پڑھا گیا۔(مواہب اللدنیہ)
۴۔ ہماری موت کے بعد جلدی دفن کر نے کا تاکیدی حکم ہے لیکن حضور ﷺ وصال کے بعد سخت گرمی کے زمانہ میں پورے دو دن کے بعد قبر میں دفن کئے گئے۔(زرقانی شریف)
۵۔ حضور ﷺ کا مدفن مبارک بحکم شرع وہی مقام رہا جہاں حضور ﷺ نے وصال فرمایا تھا۔ ہمارے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ (زرقانی شریف)
۶۔ ہماری موت کے بعد ہماری میراث تقسیم ہو تی ہے حضور ﷺ اس سے مستثنٰی ہیں۔ (بخاری شریف)
۷۔ ہمارے مرنے کے بعد ہماری بیویاں ہمارے عقد نکاح سے باہر ہو جاتی ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہمیشہ حضور ﷺ کے نکاح میں باقی ہیں اور ابد تک یہ حکم جار ی رہے گا۔ (قرآن مجید)
ایک شبہ کا ازالہ
بعض لو گ انتہائی دریدہ دہنی کے ساتھ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر حضور ﷺکو تم زندہ مانتے ہو تو نعوذ باللہ صحابہ کرام نے حضور کو زندہ در گور کر دیا؟ نیز یہ کہ حضور ﷺ زند ہ ہیں تو ابوبکرصدیق، عمر فاروق ، عثمان غنی، اور علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خلیفہ کیسے ہو گئے۔
گذشتہ مضامین کو غور سے پڑھا جائے تو اس شبہ کا ازالہ خود بخود ہو جا تا ہے۔ ناظرین کرام ہمارے مضمون میںپڑھ چکے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کیلئے موت عادی اورحیات حقیقی تسلیم کر تے ہیں۔ غسل ، کفن، دفن، خلافت ، سب امور موت عادی کا مقتضی ہیں اور اس ضمن میں حضور ﷺ کے جملہ امتیازی امور حیات حقیقی پر مبنی ہیں اور لوازمات حیات بعد الموت کی نوعیت لو ازمات حیات قبل الموت سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ اختلاف نوعیت ہمارے مدعا کو مضر نہیں۔ البتہ وہ امور جو بمقتضائے حیات حقیقی ہیں منکرین حیات کے انکار کو یقینا باطل قرار دیتے ہیں۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ
رہا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ تو اس کا بھی یہی مقصد ہے اور ابانۃ الروح عن الجسد کے معنی میں حضو ر ﷺ کیلئے اس میں موت کا بیان ہے ۔ ہم نے جس حیات کو روح کے بغیر ثابت مانا ہے۔ اس کی نفی کہاں وارد ہوئی ہے ۔ پھر یہ کہ صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اسی خطبہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
لن یجمع اللّٰہ علیک موتتیناے آقا ﷺ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔
دوسری موت سے حیات بعد الموت کے بعد آپ کو جو حیات ملے گی اس کے بعد آپ پر کوئی موت نہیں آئے گی۔ (دیکھئے قسطلانی جلد ۶ص۴۷۰طبع مصر)(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment