میلاد النبی صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و بارک وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ماہِ ربیع الاول شریف وہ نورانی مہینہ ہے، جس کی آغوش میں نورِ مبین کے جلوے قیامت تک چمکتے رہیں گے۔ بموجب فرمانِ خداوندی ’’وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ۔(ابراہیم: ۵) آج ہمیں اس مبارک دن کی یاد تازہ کرنی ہے جو سید ایام اللہ یعنی یوم ولادت حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے۔
یہ وہ مبارک دن ہے، جس میں خدا کے سب سے پہلے اور آخری نبی جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔ اس مضمون میں ہمیں سب سے پہلے حضور ﷺ کی خلقت، ولادت اور بعثت پر روشنی ڈالنی ہے۔
تشریح
عالم اجسام میں جلوہ گر ہونے سے پہلے ذات پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کا عدم سے وجود میں جلوہ گر ہونا خلقت محمدی ہے اور اس دار دنیا میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیدا ہونا ولادت محمدی ہے اور چالیس سال کی عمر شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وحی نبوت سے مشرف ہو کر لوگوں کو دین حق کی طرف بلانے پر مامور ہونا بعثت محمدی ہے۔ اب اس اجمالی گفتگو کے بعد تفصیل کی طرف آئیے اور سب سے پہلے خلقت محمدی کا بیان قرآن اور حدیث کی روشنی میں سنیئے۔
خلقت محمدی ﷺ
اجسام سے قبل عالم امر میں ذواتِ انبیاء علیہم السلام کا موجود ہونا نص قرآن سے ثابت ہے، جس کا مقتضا یہ ہے کہ ذات محمدی ﷺ بطریق اولیٰ عالم ارواح میں موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشَّاہِدِیْنَ۔ فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔ (اٰل عمران: ۸۱۔ ۸۲)
ترجمہ: ’’اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ دیا میں نے تم کو کتاب اور حکمت سے پھر آئے تمہارے پاس رسول معظم جو تصدیق کرنے والے ہیں اس چیز کی جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے، فرمایا کیا تم نے اس شرط پر میرے عہد کو قبول کر لیا۔ سب نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو اب گواہ ہو جاؤ اور میں تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ پھر جو کوئی پھر جائے اس کے بعد تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْھَدَہُمْ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا۔ (اعراف: ۱۷۲)
ترجمہ: ’’اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب! بولے کیوں نہیں (بیشک تو ہمارا رب ہے) ہم اقرار کرتے ہیں۔‘‘
تمام نفوس بنی آدم سے پہلے حضور ﷺ کے نفس قدسی نے ’’بَلٰی‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار فرمایا اور باقی تمام نفوس بنی آدم نے حضور ﷺ کے اقرار پر اقرار کیا، اس واقعہ کا مقتضی بھی یہی ہے کہ ذات پاک مصطفوی علیہ التحیۃ والثنا مخلوق ہو کر عدم سے وجود میں جلوہ گر ہو چکی تھی۔ نیز فرمایا
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا۔ (احزاب: ۷)
ترجمہ: ’’اور جب لیا ہم نے نبیوں سے ان کا اقرار اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ سے جو بیٹا ہے مریم کا اور لیا ہم نے ان سے پکا اقرار۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جس عہد اور اقرار کا بیان ہے وہ تبلیغ رسالت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں دیگر انبیاء علیہم السلام سے تبلیغ رسالت پر عہد لیا وہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی یہ عہد و اقرار کرایا۔ یہ واقعہ بھی عالم ارواح کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حضور ﷺ کی خلقت اس وقت نہ ہو گئی ہوتی تو اس عہد و اقرار کا ہونا کس طرح متصور ہوتا۔
رہا یہ امر کہ خلقت محمدی تمام کائنات اور خصوصاً جمیع انبیاء کرام علیہم السلام کی خلقت سے پہلے ہے تو اس مضمون کی طرف قرآن کریم کی بعض آیات میں واضح ارشادات پائے جاتے ہیں اور احادیث صحیح میں تو صراحتاً وارد ہے کہ حضور ﷺ اول خلق ہیں اور تمام انبیاء علیہم السلام سے پہلے حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ مخلوق ہوئی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ۔ (البقرۃ: ۲۵۳)
’’یہ سب رسول ہیں فضیلت دی ہم نے ان کے بعض کو بعض پر، بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجے بلند کئے۔‘‘
جن کے درجے بلند کئے وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ حضور ﷺ کے درجوں کی بلندی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ درجاتِ خلقت میں بھی حضور ﷺ کا درجہ سب سے بلند ہے اور آپ سب سے پہلے مخلوق ہو کر سب کی اصل ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ
’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو اے محمد مصطفی ﷺ مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کیلئے۔‘‘
یہ آیت کریمہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور ﷺ تمام عالموں کے لئے رحمت ہیں۔ اس آیت میں اَلْعٰلَمِیْنَ اسی طرح اپنے عموم پر ہے جیسے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ میں۔ یہ صحیح ہے کہ بعض مواقع میں اَلْعٰلَمِیْنَ قرائن خارجیہ کی وجہ سے مخصوص ہے لیکن اس آیت کریمہ میں کوئی دلیل خصوص نہیں پائی جاتی۔ بعض قرائن خارجیہ اس کے عموم کی تائید کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ حضور ﷺ کا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن ہونا جہت رسالت سے ہے یعنی حضور ﷺ رسول ہونے کی وجہ سے رحمت ہیں لہٰذا رحمت کا عموم رسالت کے عموم کے عین مطابق ہو گا۔ حضور ﷺ جس کے لئے رسول ہوں گے، اسی کے لئے رحمت قرار پائیں گے۔ اب یہ معلوم کر لیجئے کہ حضور ﷺ کس کے لئے رسول بن کر تشریف لائے؟ تو مسلم شریف کی حدیث میں وارد ہے، ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً۔‘‘ ’’میں ساری مخلوق کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
جب وہ ساری مخلوق کے لئے رسول ہوئے تو رسول عالمین قرار پائے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ آپ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن ہوں۔ ثابت ہوا کہ جس طرح حضور ﷺ کی رسالت تمام عالمین کے لئے عام ہے، اسی طرح آپ کی رحمت بھی تمام جہانوں کے لئے عام اور ماسوی اللہ کو محیط ہے۔
رہا یہ شبہ کہ کفار و مشرکین وغیرہ بدترین لوگوں کے لئے حضور ﷺ رحمت نہیں۔ اس لئے کہ وہ عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ظہورِ رحمت کے مراتب ہر ایک کے حق میں متفاوت ہیں۔ روح المعانی میں اسی آیت کے تحت مرقوم ہے، ’’لَا فَرْقَ بَیْنَ الْمُؤْمِنِ وَالْکَافِرِ مِنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ فِیْ ذَالِکَ وَالرَّحْمَۃُ مُتَفَاوِتَۃٌ۔‘‘ حضور ﷺ سب کے لئے رحمت ہیں۔ اس بات میں مومن و کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مگر رحمت ہر ایک کے حق میں مختلف اور متفاوت ہے کہ ان کا مبتلائے عذاب ہونا اس لئے ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حضور کی رحمت سے منہ پھیرا، ورنہ حضور ﷺ کی رحمت میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، ’’وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ‘‘ میری رحمت ہر شیٔ پر وسیع ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی کفار مبتلائے عذاب ہوں گے۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کے رحمن و رحیم ہونے پر کچھ فرق آئے گا؟ یا کل شیٔ کے عموم سے انہیں خارج سمجھا جائے گا۔ معاذ اللّٰہ، ثم معاذ اللّٰہ نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ یہی کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو ہر شئے پر وسیع ہے مگر بعض افراد اپنی عدم اہلیت کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں کہ رحمت خداوندی سے فائدہ اٹھائیں۔ معلوم ہوا کہ کسی کا رحمت سے فائدہ نہ اٹھانا رحمت کے عموم کے منافی نہیں ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور ﷺ بلا استثناء تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں اور عالم ماسوی اللہ کو کہتے ہیں تو یہ بات بخوبی روشن ہو گئی کہ حضور ﷺ ہر فرد عالم کے لئے رحمت ہیں اور حضور ﷺ کے رحمت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ مرتبہ ایجاد میں تمام عالم کا موجود ہونا بواسطہ وجود سید الموجودات ﷺ کے ہے اور حضور ﷺ اصل ایجاد ہیں۔ حضور ﷺ کے بغیر کوئی فرد ممکن موجود نہیں ہو سکتا۔ وجود نعمت ہے اور عدم اس کی ضد۔ کل موجودات نعمت وجود میں حضور ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو ذات کسی کے وجود کا سبب اور واسطہ ہو وہ یقینا اس کے لئے رحمت ہے۔ رحمت کی حاجت ہوتی ہے اور جس چیز کی حاجت ہو وہ محتاج سے پہلے ہوتی ہے چونکہ تمام عالمین اپنے وجود میں حضور ﷺ کے محتاج ہیں اس لئے سب سے پہلے حضور ﷺ کا وجود ضروری ہو گا۔ نیز یہ کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عالمین کے وجود کا سبب اور ان کے موجود ہونے کا واسطہ ہیں تو اس وجہ سے بھی حضور ﷺ کا عالمین سے پہلے موجود و مخلوق ہونا ضروری ہے کیونکہ سبب اور واسطہ ہمیشہ پہلے ہوا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اسی آیت سے حضور ﷺ کا اصل کائنات ہونا بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ صاحب تفسیر عرائس البیان نے جلد ۲ صفحہ ۵۲ و صاحب تفسیر روح المعانی نے صفحہ ۹۶ پارہ ۱۷ پر اسی آیت کے ذیل میں نہایت تفصیل سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اصل کا وجود فرع سے پہلے ہوتا ہے۔ اس لئے ذات پاک محمدیہ ﷺ کی خلقت اصل کائنات ہونے کی حیثیت سے کل موجودات اور عالمین سے پہلے ہے۔ الحمدللّٰہ! خوب واضح ہو گیا کہ خلقت محمدی ﷺ تمام موجودات عالم سے پہلے ہے۔
تیسری آیت جس سے حضور ﷺ کی اولیت خلقت کی طرف واضح اشارہ پایا جاتا ہے۔ آیت کریمہ ’’وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ ہے۔ یعنی ’’میں سب سے پہلا مسلم ہوں۔‘‘
صاحب عرائس البیان فرماتے ہیں ’’وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اِشَارَۃٌ اِلٰی تَقَدُّمِ رُوْحِہٖ وَجَوْہَرِہٖ عَلٰی جَمِیْعِ الْکَوْنِ‘‘ اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح پاک اور جوہر مقدس جمیع کون یعنی تمام ماسوی اللہ پر مقدم ہے۔ (عرائس البیان جلد ۱ صفحہ ۲۳۸)
ظاہر ہے کہ اختیاری یا غیر اختیاری اسلام سے تو عالم کا کوئی ذرہ خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ۔‘‘ (اٰل عمران: ۸۳)
پھر سب اسلام لانے والوں سے پہلے حضور ﷺ اسی وقت ہو سکتے ہیں۔ جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب سے پہلے ہوں۔ لہٰذا اس آیت سے بھی حضور نبی کریم ﷺ کی خلقت تمام کائنات سے پہلے معلوم ہوئی۔
اس آیت کے بعد احادیث میں مضمون کو ملاحظہ فرمایئے
(۱) حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما
حضرت امام عبد الرزاق صاحب مصنف نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت جابر فرماتے ہیں ’’میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے خبر دیں کہ وہ پہلی چیز کون سی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے پیدا فرمایا؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا، اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا نہ جنت تھی نہ دوزخ نہ فرشتہ تھا نہ آسمان نہ زمین تھی نہ سورج نہ چاند نہ جن نہ انسان جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے حصے سے لوح، تیسرے حصے سے عرش اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے اور دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے مومنین کی آنکھوں کا نور بنایا اور دوسرے سے ان کے دلوں کا نور پیدا کیا جو معرفت الٰہی ہے اور تیسرے سے ان کا نور انس پیدا کیا اور وہ توحید ہے (جس کا خلاصہ ہے ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘)
مواہب اللدنیہ جلد اول صفحہ ۹۔ سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۳۰، زرقانی جلد اول صفحہ ۴۶‘‘
یہ حدیث مصنف عبد الرزاق سے جلیل القدر محدثین جیسے امام قسطلانی شارح بخاری و امام زرقانی اور امام ابن حجر مکی اور علامہ فارسی اور علامہ دیار بکری نے اپنی تصانیف جلیلہ افضل القریٰ، مواہب اللدنیہ مطالع المسرات خمیس اور زرقانی علی المواہب میں نقل فرما کر اس پر اعتماد اور اس سے مسائل کا استنباط کیا۔
امام عبد الرزاق صاحب مصنف جو اس حدیث کے مخرج ہیں وہ امام احمد بن حنبل جیسے اکابر ائمہ دین کے استاد ہیں۔ تہذیب التہذیب میں ان کے متعلق لکھا ہے
وَقَالَ اَحْمَدُ بْنُ صَالِحِ الْمِصْرِیْ قُلْتُ لاَِحْمَدَ بْنِ حَنْبَلَ رَاَیْتَ اَحَدًا اَحْسَنَ حَدِیْثًا مِّنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ قَالَ لَا ………( تہذیب التہذیب صفحہ ۳۱۱ جلد ۶)
امام احمد بن صالح مصری کہتے ہیں ’’میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ آپ نے حدیث میں کوئی شخص عبد الرزاق سے بہتر دیکھا؟ انہوں نے فرمایا نہیں‘‘ امام عبد الغنی نابلسی رضی اللہ عنہ حدیقہ ندیہ میں اس حدیث کی تصحیح فرماتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں ’’قَدْ خُلِقَ کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ نُّوْرِہٖ ا کَمَا وَرَدَ بِہِ الْحَدِیْثُ الصَّحِیْحُ‘‘ اسی حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دلائل النبوۃ میں تقریباً اسی طرح روایت فرمایا ہے۔ مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں علامہ فارسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’قَدْ قَالَ الْاَشْعَرِیْ اِنَّہٗ تَعَالٰی نُوْرٌ لَیْسَ کَالْاَنْوَارِ وَالرُّوْحُ النَّبَوِیَّۃُ الْقُدْسِیَّۃُ لُمَّۃٌ مِّنْ نُّوْرِہٖ وَالْمَلٰئِکَۃُ شَرَرٌ تِلْکَ الْاَنْوَارِ وَقَالَ ا اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ وَمِنْ نُوْرِیْ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَّغَیْرَہٗ مِمَّا فِیْ مَعْنَاہُ‘‘ یعنی عقائد میں اہل سنت کے امام سیدنا ابو الحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نور ہے کہ کسی نور کی مثل نہیں اور حضور ﷺ کی روح مقدسہ اسی نور کی چمک ہے اور فرشتے انہی انوار سے جھڑے ہوئے پھول ہیں اور رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا فرمایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی۔
اس حدیث کے علاوہ اور بھی حدیثیں اس مضمون میں وارد ہیں۔
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ میں فرمایا ’’درحدیث صحیح واردشد کہ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۲)‘‘ پھر حدیث جابر کا مضمون بیان فرمایا۔ کثیر التعداد جلیل القدر ائمہ کا اس حدیث کو قبول کرنا، اس کی تصحیح فرمانا، اس پر اعتماد کر کے اس سے مسائل کا استنباط کرنا اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے۔ خصوصاً سیدنا عبد الغنی نابلسی رضی اللہ عنہ کا حدیقہ ندیہ کے مبحث ثانی نوع ستین من آفات اللسان فی مسئلۃ ذم الطعام میں اس حدیث کے متعلق ’’اَلْحَدِیْثُ الصَّحِیْحُ‘‘ فرمانا صحت حدیث کو زیادہ واضح کر دیتا ہے۔ ان مختصر جملوں سے ان حضرات کو مطمئن کرنا مقصود ہے جو اس حدیث کی صحت میں متردد رہتے ہیں۔
اس حدیث میں نور کی اضافت بیانیہ ہے اور نور سے مراد ذات ہے (زرقانی جلد اول صفحہ ۴۶) حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے نور پاک یعنی ذاتِ مقدسہ کو اپنے نور یعنی اپنی ذاتِ مقدسہ سے پیدا فرمایا، اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ذات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات کا مادہ ہے یا نعوذ باللہ! حضور کا نور اللہ کے نور کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ہے۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا
اگر کسی ناواقف شخص کا یہ اعتقاد ہے تو اسے توبہ کرنا فرض ہے۔ اس لئے کہ ایسا ناپاک عقیدہ خالص کفر و شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ بلکہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ذاتی تجلی فرمائی جو حسن الوہیت کا ظہور اول تھی۔ بغیر اس کے کہ ذاتِ خداوندی نورِ محمدی کا مادہ یا حصہ اور جزو قرار پائے۔ یہ کیفیت متشابہات میں سے ہے جس کا سمجھنا ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا قرآن و حدیث کے دیگر متشابہات کا سمجھنا۔ البتہ نکتے اور لطیفے کے طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح شیشہ آفتاب کے نور سے روشن ہو جاتا ہے لیکن آفتاب کی ذات یا اس کی نورانیت اور روشنی میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی اور ہمارا یہ کہنا بھی صحیح ہوتا ہے کہ شیشے کا نور آفتاب کے نور سے ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا نور اللہ تعالیٰ کی ذات سے پیدا ہوا اور آئینہ محمدی نور ذاتِ احدی سے اس طرح منور ہوا کہ نورِ محمدی کو نورِ خداوندی سے قرار دینا صحیح ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات پاک یا اس کی کسی صفت میں کوئی نقصان اور کمی واقع نہیں ہوئی۔ شیشہ سورج سے روشن ہوا اور اس ایک شیشے سے تمام شیشے منور ہو گئے۔ نہ پہلے شیشے نے آفتاب کے نور کو کم کیا نہ دوسرے شیشوں نے پہلے شیشے کے نور سے کچھ کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیضان وجود اللہ تعالیٰ کی ذات سے حضور ﷺ کو پہنچا اور حضور ﷺ کی ذات سے تمام ممکنات کو وجود کا فیض حاصل ہوا۔
اس کے بعد اس شبہ کو بھی دور کرتے جایئے کہ جب ساری مخلوق حضور ﷺ کے نور سے موجود ہوئی تو ناپاک، خبیث اور قبیح اشیاء کی برائی اور قباحت معاذ اللہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہو گی۔ جو حضور ﷺ کی شدید توہین ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ آفتاب وجود ہیں اور کل مخلوقات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آفتاب وجود سے فیضان وجود حاصل کر رہی ہے۔ جس طرح اس ظاہری آفتاب کی شعاعیں تمام کرئہ ارضی میں جمادات و نباتات اور کل معدنیات جملہ موالید اور جواہر اجسام کے حقائق لطیفہ اور خواص و اوصاف مختلفہ کا اضافہ کر رہی ہیں اور کسی کی اچھی بری خاصیت کا اثر شعاعوں پر نہیں پڑتا نہ کسی چیز کے اوصاف و اثرات سورج کے لئے قباحت یا نقصان کا موجب ہو سکتے ہیں۔ دیکھئے زہریلی چیزوں کا زہر اور مہلک اشیاء کی یہ تاثیرات معدنیات و نباتات وغیرہ کے الوان طعوم و روائح کھٹا میٹھا مزا، اچھی بری بو سب کچھ سورج کی شعاعوں سے برآمد ہوتی ہے لیکن ان میں سے کسی چیز کی کوئی صفت سورج کے لئے عار کا موجب نہیں کیونکہ یہ تمام حقائق آفتاب اور اس کی شعاعوں میں انتہائی لطافت کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور اس لطافت کے مرتبے میں کوئی اثر برا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ جب وہ لطیف اثرات اور حقائق سورج اور اس کی شعاعوں سے نکل کر اس عالم اجسام میں پہنچتے اور رفتہ رفتہ ظہور پذیر ہوتے ہیں تو ان میں بعض ایسے اوصاف و خواص پائے جاتے ہیں جن کی بناء پر انہیں قبیح ، ناپاک اور برا کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان برائیوں کا کوئی اثر سورج یا اس کی شعاعوں پر نہیں پڑ سکتا۔ اسی طرح عالم اجسام میں کثیف اور نجس چیزوں کا کوئی اثر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک پر نہیں پڑ سکتا۔
اس کے بعد یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ سورج کی شعاعیں ناپاک گندی چیزوں پر پڑنے سے ناپاک نہیں ہو سکتیں تو انوارِ محمدی کی شعاعیں عالم موجودات کی برائیوں اور نجاستوں سے معاذ اللہ کیونکر متاثر ہو سکتی ہیں۔ نیز یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور میں حقائق اشیاء پائی جاتی ہیں اور حقیقت کسی چیز کی نجس اور ناپاک نہیں ہوتی۔ نجاستیں مٹی میں دب کر مٹی ہو جانے کے بعد پاک ہو جاتی ہیں۔ نجاستوں کا جو کھاد کھیتوں میں ڈالا جاتا ہے اسی کے نجس اجزاء پودوں کی غذا بن کر غلہ اناج، پھول اور پھل سبزیوں اور ترکاریوں کی صورت میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اور وہی اجزاء غلیظہ غلہ اور پھل بن کر ہماری غذا بن جاتے ہیں۔ جنہیں پاک سمجھ کر ہم کھاتے ہیں اور کسی قسم کا تردد دل میں نہیں لاتے۔ ثابت ہوا کہ ناپاکی کے اثرات صور و تعینات پر آتے ہیں جو محض امور اعتباریہ ہیں حقیقتیں ناپاک نہیں ہوا کرتیں۔ اس لئے کل مخلوق کا نور محمدی ﷺ سے موجود ہونا کسی اعتراض کا موجب نہیں۔
تقسیم نور
حدیث جابر رضی اللہ عنہ میں جو بار بار تقسیم نور کا ذکر آیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ نور محمدی تقسیم ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب نورِ محمدی کو پیدا فرمایا تو اس میں شعاع در شعاع بڑھاتا گیا اور وہی مزید شعاعیں تقسیم ہوتی رہیں۔ اس مضمون کی طرف علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ فرمایا۔ دیکھئے (زرقانی علی المواہب جلد اول ص ۴۶) رہا یہ شبہ کہ نورِ محمدی سے روح محمدی مراد ہے، لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور ہونا ثابت نہ ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں ’’نُوْرُ نَبِیِّکَ مِنْ نُّوْرِہٖ‘‘ وارد ہے۔ جس طرح ’’نُوْرِہٖ‘‘ میں اضافت بیانیہ اور لفظ نور سے اللہ تعالیٰ مراد ہے، اسی طرح ’’نُوْرُ نَبِیِّکَ‘‘ میں اضافت بیانیہ ہے اور لفظ نور سے ذات پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ مراد ہے۔ لہٰذا ذاتِ محمدی کو لفظ نور سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ صرف روح پاک نور ہے، جسم اقدس نور نہیں تو یہ بے خبری پر مبنی ہے جسم اقدس کی لطافت اور نورانیت پر انشاء اللہ ہم آئندہ گفتگو کریں گے، سردست اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث جابر میں تمام اشیاء سے پہلے جس نورِ محمدی کی خلقت کا بیان ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک کا نور ہے اور وہ اس لطیف حقیقت کو بھی شامل ہے جسے حضور ﷺ کے نورانی اور پاکیزہ اجزائے جسمیہ کا جوہر لطیف کہا جا سکتا ہے، اس لئے کہ وہ نور پاک آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں بطور امانت رکھا گیا ہے۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں ’’وَفِی الْخَبْرِ لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی اٰدَمَ وَجَعَلَ اَوْ دَعَ ذٰلِکَ النُّوْرَ نُوْرُ الْمُصْطَفٰی فِیْ ظَہْرِہٖ فَکَانَ شِدَّۃً یَّلْمَعُ فِیْ جَبِیْنِہٖ الخ‘‘ زرقانی علی المواہب جلد اول ۴۹۔ مواہب اللدنیہ جلد اول ۱۰۔
ترجمہ: ’’حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو نورِ مصطفی ﷺ کو ان کی پشت مبارک میں رکھ دیا اور نور پاک ایسا شدید چمک والا تھا کہ باوجود پشت آدم میں ہونے کے پیشانی آدم علیہ السلام سے چمکتا تھا اور آدم علیہ السلام کے باقی انوار پر وہ غالب ہو جاتا تھا۔
یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ پشت آدم علیہ السلام میں ان کی تمام اولاد کے وہ لطیف اجزائے جسمیہ تھے جو انسانی پیدائش کے بعد اس کی ریڑھ کی ہڈی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہی اس کے اجزائے اصلیہ کہلائے جاتے ہیں۔ نہ صرف آدم علیہ السلام بلکہ ہر باپ کے صلب میں اس کی اولاد کے ایسے ہی لطیف اجزائے بدنیہ موجود ہوتے ہیں جو اس سے منتقل ہو کر اس کی نسل کہلاتی ہے اولاد کے ان ہی اجزائے جسمیہ کا آباء کے اصلاب میں پایا جانا باپ بیٹے کے درمیان ولدیت اور ابنیت کے رشتہ کا سنگ بنیاد اور سبب اصلی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت میں قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کے اجزائے اصلیہ رکھ دئیے۔ یہ اجزاء روح کے اجزاء نہیں، نہ روح کا کل ہیں۔ کیونکہ ایک بدن میں ایک روح سما سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ ایک بدن میں روح کا پایا جانا بداھتہً باطل ہے۔ لہٰذا آدم علیہ السلام کی پشت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مبارک نہیں رکھی تھی بلکہ جسم اقدس کے جوہر لطیف کی نورانی شعاعیں رکھی گئی تھیں جو نورِ ذاتِ محمدی ﷺ کی شعاعیں تھیں۔
ارواحِ بنی آدم کا ان کے آباء کے اصلاب میں نہ رکھا جانا صحیحین کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ استقرار حمل سے چار مہینے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو چار باتیں لکھنے کے لئے بھیجتا ہے اور وہ چار باتیں لکھ دیتا ہے۔ اس کا عمل، عمر، رزق اور دوزخی یا جنتی ہونا، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ مشکوٰۃ ص ۲۰
معلوم ہوا کہ اولاد کی روحیں باپ کے صلب میں نہیں رکھی جاتیں بلکہ شکم مادر میں پھونکی جاتی ہیں۔
ایک شبہ کا ضروری ازالہ
شاید کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت مبارک سے ان کی قیامت تک پیدا ہونے والی تمام اولاد کو باہر نکال کر ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا تھا۔ معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم کی ارواح آدم علیہ السلام کی پشت میں تھیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پشت آدم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی ارواح نہیں نکالی گئی تھیں بلکہ وہ ان کے اشخاص مثالیہ تھے جو مثالی صورتوں میں ان کی پشت مبارک سے بہ قدرت ایزدی ظاہر کئے گئے تھے کیونکہ ہم ابھی حدیث صحیحین سے ثابت کر چکے ہیں کہ ماؤں کے پیٹ میں نفخ روح کیا جاتا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ نورِ محمدی اپنی عزت و کرامت کے مقام میں جلوہ گر رہا اور پشت آدم علیہ السلام میں اجزائے جسمانیہ کے جوہر لطیف کے انوار رکھے گئے تھے جو اصلاب طاہرہ اور ارحام طیبہ میں منتقل ہوتے رہے۔
تطبیق
بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نورِ محمدی ﷺ آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں رکھا گیا اور بعض روایات میں وارد ہے کہ نورِ محمدی ﷺ پیشانی آدم علیہ السلام میں جلوہ گر تھا۔ جیسا رازی کی تفسیر کبیر میں ہے۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ وہ نور مبارک پشت آدم ہی میں تھا لیکن اپنے کمال نورانیت اور شدت چمک کی وجہ سے پیشانی آدم علیہ السلام میں چمکتا تھا۔
الحمدللہ! ہمارے اس بیان سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بدن مبارک بھی نور تھا۔
صاحب روح المعانی حضور ﷺ کے اول خلق ہونے کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں ’’وَلِذَا کَانَ نُوْرُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَّلُ الْمَخْلُوْقَاتِ فَفِی الْخَبَرِ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْرَ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ‘‘ (تفسیر روح المعانی پ ۱۷ صفحہ ۹۶)
ترجمہ: ’’چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وصول قبض میں واسطہ عظمیٰ ہیں اسی لئے حضور ﷺ کا نور اول مخلوقات ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے، سب سے پہلی وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ تیرے نبی کا نور ہے اے جابر۔‘‘
اس حدیث جابر مذکورہ کو مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب نشر الطیب کے ۶ پر تفصیل سے لکھا ہے
(۲) حدیث حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امام احمد، بیہقی و حاکم نے حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’بے شک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر میں تھے یعنی ان کا ابھی پتلا بھی نہ بنا تھا۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا۔ مشکوٰۃ شریف میں بھی یہ حدیث بروایت شرح السنہ مذکور ہے۔ مواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۶
ایک شبہ کا ازالہ
اگر یہ شبہ کیا جائے کہ خاتم النبیین کے معنی دنیا میں تمام نبیوں کے آخر میں آنے والا نبی، یہ معنی دنیا میں متحقق ہو سکتے ہیں، عالم ارواح میں اس معنی کا ثابت ہونا ممکن نہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ حضور کا خاتم النبیین ہونا علم الٰہی میں مقدر تھا یا یہ کہنا پڑے گا کہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنی قطعاً آخری نبی ہیں … اور حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبیین ہو چکا تھا نہ یہ کہ میرا خاتم النبیین ہونا علم الٰہی میں مقدر تھا کیونکہ علم الٰہی میں تو ہر چیز مقدر تھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ آخر النبیین ہونے کا ثبوت اور ظہور دو الگ مرتبے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں ختم نبوت کے منصب پر اپنے حبیب ﷺ کو فائز فرما دیا۔ بایں معنی کہ سب نبیوں کے بعد ان کا سردار بن کر جانے والا نبی یہی محبوب ہے۔ اگرچہ جانے کا موقع ابھی نہ آیا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ بادشاہ کسی کو امیر جہاد مقرر کر دے تو اس امارت کا ظہور جہاد پر جانے کے بعد ہی ہو گا۔ اس کا منصب جلیل پہلے ہی سے ثابت ہو گیا۔ اسی طرح یہاں سمجھ لیں کہ منصب خاتم النبیین کا ثبوت حضور اکرم ﷺ کے لئے پہلے سے ثابت تھا لیکن اس کا ظہور دنیا میں تشریف لانے کے بعد ہوا۔
اس بیان سے ایک اصول ظاہر ہو گیا کہ ثبوت کمال کے لئے اسی وقت ظہور لازم نہیں۔ اسی لئے اہل سنت کا مسلک ہے کہ حضور سید عالم ﷺ تمام کمالاتِ محمدیت کے ساتھ متصف ہو کر پیدا ہوئے لیکن ان کا ظہور اپنے اپنے اوقات میں حسب حکمت و مصلحت خداوندی ہوا۔
No comments:
Post a Comment