Sunday 13 December 2015

علامہ ابو عبد اﷲ محمد بن خلفہ الوشتانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 828 ھ) اور تعریف و اقسام بدعت

0 comments
علامہ ابو عبد اﷲ محمد بن خلفہ الوشتانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 828 ھ)
اور تعریف و اقسام بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ ابوعبداللہ محمد بن خلفہ وشتانی مالکی صحیح مسلم کی شرح ’’اکمال اکمال المعلم‘‘ میں حدیث شریف ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

لفظ سنت کی تعبیر کچھ اس طرح ہے کہ سنت کا لفظ جو ’’شرُّ‘‘ کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہ مجازی طور پر استعمال ہوا ہے جو کہ مجاز کے مقابلہ میں ہے۔ جیسے اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے ’’ومکروا و مکر اﷲ واﷲ خیر الما کرین‘‘ (آل عمران، 3 : 54) اور اسی طرح بدعت حسنہ سنت مستحسنہ میں داخل ہے جیسے رمضان المبارک میں قیام کرنا آذان کے لئے منار اور مساجد کے دروازوں پر جانا اور امام کے آنے پر کھڑا ہونا اور اسی طرح صبح کے وقت ایک دوسرے کو سلام کرنا یہ اور اس جیسے دوسرے امور عبادت پر مددگار ہیں اور شرع ان کی تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، وعلی رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے اور اس امر پر اتفاق ہے کہ تیونس کے عظیم امام (شارع کہتا ہے کہ) میرے گمان میں وہ شیخ البرجینی تھے جب وہ جامع مسجد کی طرف آئے تو ایک عورت نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس کے قیدی بیٹے کے لئے دعا کریں اس زمانے میں مؤذن مینار میں حاضر ہوکر اذان دیتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ میں لوگ کتنا عجیب معاملہ کرتے ہیں یعنی مینار پر حاضر ہونا تیرے بیٹے کے معاملے سے بھی زیادہ عجیب تر ہے شیخ نے اس چیز کا انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ اُن کا انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ تحضیر بدعت مستحسنۃ میں سے ہے شرع نے اس کے اعتبار اور ظاہری مصلحت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا ہے مزید کہا کہ جب انہیں انکار نہیں ہے تو پھر اس پر شیوخ کا اجماع ہے۔ جیسے قیام رمضان اور تلاوت کے لئے مجتمع ہونا اور بلاشبہ اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ یہ بدعت ہے لیکن یہ بدعت مستحسنۃ ہے اور اذان و اقامت کا اعتبار اس کے بدعت حسنہ ہونے کی گواہی ہے کیونکہ اذان دخول وقت کا اعلان ہے اور اقامت نماز میں حاضر ہونے کا اعلان ہے۔ اسی طرح تحضیر نماز کے قریب آنے کا اعلان ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ میں ’’بدعت سیئہ‘‘ کی اِقتداء شرط نہیں ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کا اپنے بھائی کو قتل کرنا تو اس قاتل پر ہر اس قتل کا بوجھ بھی ہوگا جو بعد میں ہوگا کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس نے قتل کا آغاز کیا۔

مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
وشتاني، إکمال إکمال المعلم، 7 : 109

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔