Monday 14 December 2015

اِمام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ) اور تعریف و اقسام بدعت

0 comments
اِمام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ)
اور تعریف و اقسام بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاويٰ ’’الحاوی للفتاوٰی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات، البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة الله عليه في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال : والطريق في ذلک أن نعرض البدعة علي قواعد الشريعة فإذا دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة أوفي قواعد التحريم فهي محرمة أو الندب فمندوبة أو المکروه فمکروهة أو المباح فمباحة، وذکر لکل قسم من هذه الخمسة أمثلة إلي أن قال : و للبدع المندوبة أمثلة، منها أحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في العصر الأول، ومنها التراويح والکلام في دقائق التصوف وفي الجدل، ومنها جمع المحافل للإستدلال في المسائل إن قصد بذلک وجه اﷲ تعالي.

بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحۃ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب ’’القواعد الاحکام‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے اور فرماتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم بدعت کو شریعت کے قواعد پر پیش کریں اگر وہ بدعت قواعدِ ایجاب کے تحت داخل ہو تو واجب ہے اور اگر قواعد تحریم کے تحت داخل ہو تو حرام ہے اور اگر قواعدِ اِستحباب کے تحت داخل ہو تو مستحب ہے اور اگر کراہت کے قاعدہ کے تحت داخل ہو تو مکروہ اور اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے اور انہوں نے ان پانچ اقسام کی مثالیں بیان کی ہیں جیسے کہ بدعت مندوبہ کی مثال سرائے اور مدارس وغیرہ کا تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو پہلے زمانے میں نہیں ہوا جیسے کہ نماز تراویح اور علم التصوف کے متعلق گہری معلومات اور مجادلہ سے متعلق معلومات وغیرہ اور اسی میں سے رضائے الٰہی کے لئے مسائل میں استدلال کے لئے محافل کا انعقاد کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

سيوطي، الحاوي للفتاويٰ، 1 : 192
سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں نماز تراویح کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

عن عمر أنه قال في التراويح : نعمت البدعة هذه(1) والتي ينامون عنها أفضل فسماها بدعة. يعني بدعة حسنة. و ذلک صريح في أنهالم تکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و قد نص علي ذلک الإمام الشافعي و صرح به جماعات من الأئمة منهم الشيخ عز الدين بن عبد السلام حيث قسم البدعة إلي خمسة أقسام و قال : ومثال المندوبة صلاة التراويح و نقله عنه النووي في تهذيب الأسماء و اللغات، ثم قال و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي عن الشافعي قال : المحدثات في الأمور ضربان، أحدهما ما أحدث مما خالف کتابا أو سنة أو أثرا أو اجماعا فهذه البدعة الضلالة. والثاني ما أحدث من الخير و هذه محدثة غير مذمومة و قد قال عمر في قيام شهر رمضان : نعمت البدعة هذه. يعني أنها محدثة لم تکن.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بارے میں فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں یہ حصہ اس سے بہتر ہے آپ نے اسی وجہ سے اسے بدعت کا نام دیا یعنی بدعت حسنہ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز آقا علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھی۔ اور اس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے نص پیش کی ہے اور پھر ائمہ کی جماعتوں نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے ایک شیخ عز الدین بن عبد السلام ہیں جنہوں نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جیسے مندوب کی مثال نماز تراویح ہے اور ان سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ امام بیہقی نے بھی اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ امام شافعی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا محدثات الامور کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک احداث ایسا ہے جو کہ کتاب، سنت، اثر صحابہ (یعنی قول صحابہ) اور اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسرا احداث جو کہ خیر میں سے ہے اور یہ احداث غیر مذموم ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں قیام (یعنی نماز تراویح) کے بارے میں کہا ’’نعمتِ البدعَۃ ھَذِہِ‘‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے، یعنی یہ ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہیں تھا۔

مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340
سيوطي، الحاوي للفتاوي، 1 / 348

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔