Saturday 26 December 2015

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبّت رسول ﷺ سبحان اللہ

0 comments
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبّت رسول ﷺ سبحان اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔ آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصولِعلم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔ اسی سلسلے میں اُنہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ اُس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ قریب ہے۔ یہ نبی دینِ ابراہیمی کے داعی ہوں گے۔ اور پھر غموریا کے اُس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہرِ دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔ پادری اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، تلاشِ حق کے مسافر نے غموریا کو خدا حافظ کہا اور سلمان فارسی شہرِ نبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے لیکن تلاشِ حق کے مسافر کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتشِ شوق اور بھی تیز ہو گئی۔ یہ تاجر اُنہیں مکہ لے آئے، جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اور اُنہیں مدینہ (جو اُس وقت یثرب تھا) کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی ۔ ۔ ۔ یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا۔

غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیں، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا اَوجِ ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اپنے یہودی مالک کو کسی سے باتیں کرتے ہوئے سنا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا، اور تلاشِحق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں یہ فرما کر واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسولِ ذی حشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔

دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی ۔ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے۔

حاکم، المستدرک، 3 : 698، رقم : 26544
بزار، المسند، 6 : 463 - 465، رقم : 32500
طبرانی، معجم الکبير، 6 : 222 - 224، رقم : 46065
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 75 - 580
ابونعيم، دلائل النبوه، 1 : 40

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔