Saturday 26 December 2015

حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی محبّت رسول ﷺ اور تمنائے شہادت

0 comments
حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی محبّت رسول ﷺ اور تمنائے شہادت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غزوۂ بدر کے موقع پر ایک کم سن نوجوان مجاہدینِ اسلام کی صفوں میں چھپتا پھر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف بندی کے دوران اس نوجوان کو دیکھ کر فرمایا : بیٹا! ابھی تمہاری عمر لڑنے کی نہیں ہے، اس لئے تم واپس چلے جاؤ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم سن کر وہ نوجوان جو کم عمری کے باوجود دل میں شہادت کی شدید آرزو رکھتا تھا آبدیدہ ہوگیا، اور عرض پرداز ہوا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت کا طلب گار ہوں، شاید میرا لہو اللہ کی راہ میں کام آجائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کا جذبۂ ایمان دیکھ کر اُسے اجازت مرحمت فرما دی اور اسے تلوار بھی عطا کی۔ تاریخ اس نوجوان کو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا تو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دشمن پر ٹوٹ پڑے، آخر دادِ شجاعت دیتے ہوئے فقط سولہ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور اپنا نام محبّان مصطفیٰ کی فہرست میں لکھوانے کی سعادت حاصل کی۔

ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 2149
حاکم، المستدرک، 3 : 208، رقم : 34864
سهيلي، الروض الانف، 3 : 4164
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 4 : 5287
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 697
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 7394
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 869
ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 4 : 9725
مروزي، السنة، 1 : 1047
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 380

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔