Monday 28 December 2015

دور سے سننا مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments
دور سے سننا مستند دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں۔’’ یہ تو مختصر کلام ہے سند میں، باقی رہا متن‘‘ سواولاً معارض ہے دوسری احادیث صحیحہ کے ساتھ چنانچہ مشکوٰۃ میں نسائی اور دارمی سے بروایت ابن مسعود یہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ ان للّٰہ ملٰئکۃ سیا حین فی الارض یبلغون من امتی السلام
او ر یہی حدیث حصن حصین میں بحوالہ مستدرک حاکم و ابن حبان بھی مذکور ہے اور نیز مشکوٰۃ میں بیہقی سے بروایت ابوہریرہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
اور نسائی کی کتاب الجمعہ میں بروایت اوس ابن اوس یہ حدیث مرفوع ہے
’’فان صلٰو تکم معروضۃ علی‘‘ یہ سب حدیثیں صریح ہیں عدم السماع عن بعید میں اور ظاہر ہے کہ جلا ء الافہام ان کتب کے برابرقوۃ میں نہیں ہوسکتی لہٰذا اقویٰ کو ترجیح ہو گی۔ (بوا درالنوادر جلد اول صفحہ ۲۰۵)

اقول: سند میں جو کلام فرما یا تھا اس کی حقیقت واضح ہوچکی اب متن میں جو کچھ ارشاد فرما یا ہے اس کا حال بھی ناظرین پر کھل جائے گا۔
تھانوی صاحب کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جلاء الافہام کی حدیث بلغنی صوتہ حیث کان ان تینوں صحیح حدیثوں کے معارض ہے جو تھانوی صاحب نے نقل فرمائی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جلاء الافہام کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ہر ایک درود پڑھنے والے کے درود کی آواز سن لیتے ہیں۔

اور ان تینوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ درود جو دور سے پڑھا جائے اسے حضور کے سامنے فرشتے پیش کرتے ہیں ۔ فرشتوں کا عرض و ابلاغ عدم سماع میں صریح ہے اور سماع عدم سماع کے معارض ہے لہٰذا جلاء الافہام کی حدیث ان تینوں صحیح حدیثوں کے معارض قرار پائی یہ تینوں حدیثیں جن کتابوں میں پائی جاتی ہیں چونکہ جلاء الافہام ان کے برابر قوت میں نہیں لہٰذا ان ہی تینوں حدیثوں کو ترجیح ہو گی جو اقویٰ ہیں اور جلاء الافہام کی حدیث ساقط الاعتبار ہو گی۔ میں عرض کر وں گا کہ نسائی اور دارمی کی حدیث بروایت ابن مسعود ’’ان للّٰہ ملئکۃ سیا حین فی الارض یبلغون من امتی السلام‘‘ اور اسی طرح نسائی کی دوسری حدیث بروایت اوس بن اوس ’’فان صلٰوتکم معروضۃ علی‘‘ میں صرف اتنا مذکورہے کہ ملائکۃ سیاحین فی الارض‘‘حضور ﷺ کی خدمت میں امت کا سلام پہنچاتے ہیں اور امت کا درودبارگاہ رسالت میں پیش ہو تا ہے ملائکہ کے اس عرض و تبلیغ کو تھانوی صاحب کا عدم سماع میں صریح قرار دینا یقینا ظلم صریح ہے کیونکہ سابقاً نہایت تفصیل کے ساتھ ہم یہ بیان کر چکے ہیں۔ کہ عرض و تبلیغ کا علم اور لاعلمی ’’سماع ‘‘ یا عدم سما ع سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ فیض الباری کی عبارت ناظرین کے سامنے آچکی ہے ۔جس میں صاف مو جو د ہے کہ عرض صلوٰۃ علم کے منافی نہیں۔

ایک فرشتہ ساری مخلوق کی آوازیں سنتا ہے
پھر جذب القلوب اور جلاء الافہام سے ایک حدیث ہدیہ ناظرین ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’من صلی علی عند قبری وکل اللّٰہ بہ ملکا یبلغنی‘‘ جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری قبر انور پر ایک فرشتہ مقر ر کیا ہو ا ہو تا ہے جو اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے۔ اگر تبلیغ ملائکہ عدم سمع میں صریح ہو تو اس حدیث سے لازم آئے گا کہ جو درود قبر انور پر پڑھا جاتا ہے۔ حضور ﷺ اسے بھی نہیں سنتے جو با لا تفاق باطل ہے۔ جب یہ فرشتوں کا پہنچا نا عدم سما ع کے معنی میں نہ ہو ا تو تعارض باقی نہ رہا۔ عدم تعارض کی صورت میں ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ رہی حدیث بیہقی بروایت ابو ہریرہ جسے تھانوی صاحب نے مشکوٰۃ شریف سے نقل فرمایا ہے تو درحقیقت اس مسئلہ میں تھانوی صاحب کے استدلال کی جان یہی ایک حدیث ہے۔

تھانوی صاحب کی پیش کر دہ حدیث پر کلام
جس طرح تھانوی صاحب نے ہماری پیش کر دہ حدیث کی سند پر اور متن پر کلام کیا ہے۔ ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ تھانوی صاحب کے دعویٰ کی بنیا دی حدیث کے متن و اسناد پر ہم بھی کلام کریں۔ متن حدیث پر ہمارا کلام گذشتہ صفحات پر ناظرین کرام نے ملاحظہ فر ما لیا ہو گا۔ اب اس کی اسناد پر کلام کر تے ہیں۔

تھانوی صاحب نے بیہقی کی اس حدیث کو بروایت ابو ہریرہ مشکوٰۃ سے نقل کیا ہے۔ جس میں سند مذکور نہیں ہے۔ ہم اس حدیث کو خود امام بیہقی کی تصنیف رسالہ ’’حیاۃ الانبیاء ‘‘ سے مع سند نقل کرتے ہیں۔ اور امام بیہقی نے نیز ان کے رسالہ ’’حیاۃ الانبیاء ‘‘ کے شارح نے اس کی سند پر جوکلا م کیا ہے ۔ اسے بھی بلفظہٖ نقل کر تے ہیں۔
اخبرنا علی بن محمد بن بشر ان انباء ابو جعفر الرازی ثنا عیسیٰ بن عبداللّٰہ الطیالسی ثنا العلاء بن عمر و الحنفی ثنا ابو عبد الرحمٰن عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ عَن النَّبی ﷺ قَالَ مَن صَلّٰی عَلی عِندَ قَبرِی سمِعتُہ وَمَن صَلی علی نَائیا اُبلغِتُہ۔ ابو عبدالرحمٰن ھذا ھو محمد بن مروان السدی فیما اریٰ و فیہ نظر (رسالہ حیات الانبیاء للبیھقی صفحہ ۱۲)

حدیث حضرت ابو ہریرہ پر اما م بیہقی کی جرح
دیکھئے امام بیہقی نے اس حدیث کے راوی ابو عبدالرحمن کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ میرے نزدیک ابو عبدالرحمن ہی محمد بن مروان سدی ہے اور اس میں نظر ہے وفیہ نظر الفاظ جرح میںسے ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال جلد اول صفحہ ۳ (طبع مصر)

حدیث ابوہریرہ پر شارح حیات الانبیاء کی جرح
اس حدیث کے تحت محمد بن محمد انحانجی البوسنوی شارح حیات الانبیاء فرماتے ہیں
حدیث ابی ہریرۃ ہٰذا نسبہ السیـوطی فی الخصائص الکبریٰ الی الاصبہانی فی الترغیب والترہیب ونسبہ فی الجامع الصغیرالی البہیقی ومحمد بن مروان السدی الصغیر ضعیف اتہم بالکذب وقد ذکر الحافظ الذہبی ہذا الحدیث فی میزان الاعتدال فی ترجمۃالسدی المذکور (حیاۃ الانبیاء للبیھقی مع شرح صفحہ ۱۴)
ترجمہ: ابوہریرہ کی اس حدیث کو سیوطی نے خصائص کبریٰ میں اصبہانی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’ الترغیب والترہیب‘‘ میں اس کی روایت کی ہے اور جامع صغیر میں بیہقی کی طرف منسوب کیا ہے اور ابو عبدالرحمن محمد بن مروان السدی الصغیر ضعیف ہے ۔ متہم بالکذب ہے اور حافظ ذہبی نے اس حدیث (ابوہریرہ) کو میزان الاعتدال میں اسی سدی مذکور کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے ۔

ناظرین کرام غور فرمائیں ۔ تھانوی صاحب کے دعوے کی سب سے بڑی دلیل حدیث ابوہریرہ تھی۔ جس کی سند کا یہ حال ہے کہ اس کے راوی ابو عبدالرحمن محمد بن مروان السدی الصغیر پر خود امام بیہقی نے وفیہ نظر کہہ کر جرح کی پھر ان کے رسالہ حیات الانبیاء کے شارح نے اسے ضعیف اور متہم بالکذب کہا اور امام ذہبی کے حوالہ سے یہ بتایا کہ انہوں نے میزان الاعتدال میں اسی کے تذکرہ میں تھانوی صاحب کی پیش کردہ حدیث کو ذکر کیا ہے ۔

حدیث ابوہریرہ پر امام ذہبی کی جرح
اب میزان الاعتدال اصل کتاب کو ملاحظہ فرمایئے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں۔ (محمد بن مروان) السدی الکوفی وھوالسدی الصغیر عن ہشام بن عـروۃ و الاعـمـش تـرکـوہ واتہمہ بعضہم بالکذب وھو صاحب الکلبی قال البخاری سکتو اعنہ وھو مولی الخطابیین لا یکتب حدیثہ البتۃ وقال ابن معین لیس بثقۃ وقال احمد ادرکتہ وقد کبر فترکتہ قال العلاء بن عمرو الحنفی حدثنامحمد بن مروان عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ مرفو عامن صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ انتہٰی (میزان الاعتدال جلد ثالث صفحہ ۱۳۲ طبع مصر)
محمد بن مروان السدی کوفی ہے اور وہ سدی صغیر ہے وہ ہشام بن عروہ اور اعمش سے روایت کرتا ہے ۔ محدثین نے اسے ترک کردیا ہے اور بعض نے اسے متہم بالکذب کہا اور وہ صاحب کلبی ہے ۔ بخاری نے کہا۔ سکتواعنہ اور وہ مولائے خطابئین ہے اس کی حدیث یقینا نہیں لکھی جاتی اور ابن معین نے کہا وہ ثقہ نہیں ہے۔ امام احمد نے کہا میں نے اسے پایا وہ بوڑھا ہوگیا تھا میں نے اسے ترک کر دیا۔ علاء بن عمرو الحنفی نے کہاہم سے محمد بن مروان نے حدیث بیان کی۔ اس نے اعمش سے روایت کی اعمش نے ابو صالح سے ابو صالح نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جس نے میری قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھا میں اسے سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے درود پڑھا وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ انتہیٰ‘‘ (میزان الاعتدال جلد ۳ صفحہ ۱۳۲)

میزان الاعتدال سے علامہ ذہبی کا جو بیان ہم نے نقل کیا ہے۔ اس سے یہ شبہ بھی دور ہوگیا کہ امام بیہقی نے فیما اریٰ فرمایا ہے جو تردد کا مظہر ہے میں عرض کروں گا کہ اگر فی الواقع یہ محل تردد ہوتا تو امام ذہبی اس کو ظاہر فرمادیتے لیکن انہوں نے اس کے ترجمہ میں بعینہا اسی روایت کو نقل کرکے اس شبہ کی جڑکاٹ دی اور حقیقت حال کو بے نقاب کردیا ۔

ہمارے ناظرین نے تھانوی صاحب کی جرح بھی دیکھی۔ اب ان کی پیش کردہ روایت پر ہماری جرح بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہماری پیش کر دہ حدیث کی سند میں کسی راوی کو تھانوی صاحب متہم بالکذب ثابت نہیں کر سکے مگر ان کی پیش کر دہ حدیث کی سند میں محمد بن مروان کو ہم نے متہم بالکذب ثابت کر دیا۔ اگرچہ جرح رواۃ کے باب میں صحت روایت کا معیار اپنے مسلک کی روشنی میں ہم نے یہاں بیان نہیں کیا لیکن تھانوی صاحب کے پیش کر دہ معیار پر تو یقینا محل گفتگو باقی نہیں رہا ۔ اور یہ بات صاف ہو گئی کہ تھانوی صاحب نے سمعتہ کا ابلغتہ سے تقابل کر کے ابوہریرہ کی جس حدیث کو عدم سماع میں صریح قرار دیاتھا۔ وہ حدیث صحیح نہیں اور اس کی صحت پر انہوں نے اپنے احتمالا ت اور تاویلات کی جتنی عمارت قائم کی تھی وہ سب منہدم ہو کر رہ گئی۔

اس کے بعد جناب تھانوی صاحب نے ثانیا کی بجائے ثالثاًفرما کر ’’بلغنی صو تہ‘‘کو محتمل تاویل قرار دیا ہے۔ اور صوتہ کی تاویل صلٰوتہ کے ساتھ فرمائی ہے اور اس احتمال تاویل کی دلیل ان ہی احادیث منقولہ بالا کو قرار دیا ہے۔ لیکن ناظرین کرام نے سمجھ لیا ہو گا کہ احادیث منقولہ بالا احتمال تاویل کی دلیل اس وقت تک ہو سکتی ہیں۔ جبکہ تبلیغ و عرض ملائکہ عدم سماع پر مبنی ہو حالانکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ عرض و تبلیغ لا علمی کو مستلزم نہیں۔ حضور ﷺ قبر انور کا درود سماع فرماتے ہیں اور ملائکہ کی تبلیغ بھی بارگاہ رسالت میں پیش ہو تی ہے۔ معلوم ہو ا کہ فرشتوں کا درود و سلام بارگاہ اقدس میں پہنچانا یا پیش کر نا علم و سماع کے منافی نہیں۔

جب یہ منافات ختم ہو گئی تو ان احادیث کا احتمال تاویل کے لئے دلیل قرار پانا بھی ختم ہو گیا۔ جب دلیل نہ رہی تو احتمال تاویل خود باطل ہو گیا ۔ ایسی صورت میں ’’بلغنی صوتہ کو بلغنی صلٰو تہ کے ساتھ مؤول کر نا قطعاًباطل قرار پا یا ۔

جواب لکھنے کے بعد تھانوی صاحب اس حدیث کا ایک اور جواب تحریر فرماتے ہیں بعد تحریر جواب ہذا بلا تو سط فکر قلب پروار د ہو ا کہ اصل حدیث میں صوتہ نہیں ہے بلکہ صلٰوتہ ہے کاتب کی غلطی سے لا م رہ گیا ہے۔

اقول: یہ جو اب واقعی بہترین جو اب ہے کیونکہ اس پر کسی قسم کا نقص منع یا معارضہ وارد نہیں ہو سکتا ۔ الہامات کا جواب الہام ہی سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں اب تک اس باب میں کوئی الہا م نہیں ہوا۔ مگر تھانوی صاحب کے جواب کی داد دئیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ کہ جب کسی بات کا جو اب نہ ہو سکے تو اسے کاتب کی غلطی قرار دے کر اپنے الہام کو اس کی دلیل میں پیش کر دیا جائے۔

سمع و بصر خارق للعادۃ
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لو گ نبی کریم ﷺ کے خارق للعادۃ سننے اور دیکھنے کا انکار اس قدر شدت کے ساتھ کیوں کرتے ہیں۔ جب کہ عام اولیاء کرام جو قرب نوافل کے درجہ پر فائز ہو تے ہیں ۔ ان کے لئے بخاری شریف کی حدیث میں وارد ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِیْ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُبِیْ
اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں اس حدیث کی تشریح کر تے ہوئے فرماتے ہیں
فاذا صار نور جلال اللّٰہ سمعا لہ سمع القریب والبعید واذا صار ذٰلک النور بصرا لہ رأی القریب والبعید(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۶۸۸ طبع مصر)

اللہ کے جلال کا نو ر جب بندے کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ قریب اور دور کی چیزوں کو سنتا ہے اور یہی نور جلال جب بندے کی بصر ہو جا تا ہے تو وہ قریب اور دور کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔

دور کی چیزوں کو دیکھنا اور سننا جب اولیاء کرام کے لئے دلیل شرعی سے ثابت ہے تو نبی کریم ﷺ جو ولایت کاملہ کی صفت سے متصف ہیں، کی ذات مقدسہ سے یہ کمال کیسے منفی ہو سکتا ہے؟

گزشتہ صفحات میں ناظرین کر ام پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی قبر انور پر ایک فرشتہ مقر ر فرمایا۔ جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی طاقت دی گئی ہے۔ وہ سب کا درود سنتا ہے اور بارگاہ اقدس میں پہنچا تا ہے۔ تمام آوازوں کو سننے کی صفت اگر غیراللہ کیلئے محال قرار دی جائے تو آخرفرشتہ بھی تو غیراللہ ہے۔ اس کو یہ صفت کیسے عطاہوگئی اور اگر ممکن ہے تو رسول اللہ ﷺ کے حق میں اس امکان کا عقیدہ کیوں ضلالت قرار پایا حالانکہ حضور ﷺ کیلئے ایسے باطنی کا ن اور آنکھیں ثابت ہیں جو ماورائے عالم اجسام کا ادراک کرتے ہیں۔

باطنی آنکھیں اور کان
دیکھئے جب حضور ﷺ کا شق صدر مبارک ہو ا تو جبرائیل علیہ السلام نے قلب انور کو زم زم کے پانی سے دھوتے ہوئے فرمایا۔
قلب سدید فیہ عینان تبصران واذنان تسمعان (فتح الباری جلد ۱۳ص۱۰ ۴)
اس قلب اطہر میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں دوکان ہیں جو سنتے ہیں ۔

قلب اطہر کے ان کا نوں اور آنکھوں کا دیکھنا اور سننا عالم محسوسات سے وراء الوراء خرق عادت کے طو ر پر ہے ۔ جیسا کہ خود حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
انی اری مالا ترون واسمع مالا تسمعون

دائمی سمع و بصر
قلب اطہر کی سمع و بصر عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ اس لئے کہ جب ظاہر ی سمع و بصر کی بینائی اور شنوائی عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے تو قلب اطہر کی یہ صفت بطریق اولیٰ دائمی ہو گی ۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں

’’بدانکہ وے ﷺ مے بیندو مے شنود کلام ترازیر ا کہ وے متصف است بصفات اللہ تعالیٰ ویکے از صفات الہٰی آن است کہ ’’انا جلیس من ذکرنی‘‘ مر پیغمبر را ﷺ نصیب و ا فراست ازیں صفت (مدارج النبوۃ جلد دوم ص۸۸۷)

ترجمہ: جاننا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلا م بھی سنتے ہیں۔ اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ متصف ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کا ہم نشین ہو ں جو مجھے یاد کرے اور آنحضرت ﷺ کو اس صفت سے پوار پورا حصہ ملا ہے۔

یہ عبارت بھی اس باب میں صریح ہے کہ نبی اکرم ﷺ دور و نزدیک کی سب آوازوں کو سنتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تھانوی صاحب کے نزدیک درود شریف میں معاذ اللہ ایسی کو ن سی قباحت پائی جا تی ہے کہ حضور ﷺ سب آوازیں سنیں اور درود شریف ہی کی آواز نہ سنیں؟

اس کے بعد حضر ت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کا بیان بھی سننے اور دیکھنے کے قابل ہے ۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ … وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاکی تفسیر میں فرماتے ہیں
’’یعنی و باشد رسول شمابر شما گواہ زیر ا کہ او مطلع است بنو رِنبوت بر رتبہ ہر متدین بدین خود کہ در کدام درجہ از دین من رسیدہ و حقیقت ایمان اوچیست و حجابیکہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است پس او شنا سد گناہا ن شمار او درجات ایمان شمار او اعمال نیک و بد شمار ا و اخلاص و نفاق شمارا لہٰذا شہادت او در دنیا بحکم شرع در حق امت مقبول و واجب العمل است ۔ (تفسیر عزیزی جلد اول ص ۵۸۹)
اس عبارات سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو نورنبوت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ یہ علم و ادراک اور تحمل شہادت و ادائے شہادت و غیرہ تمام امور اسی پر مبنی ہیں چو نکہ نور نبوت دائمی ہے اور اس سے متعلقہ امور کی انجام دہی بھی عارضی نہیں۔ اس لئے حضور ﷺ کے اس باطنی دیکھنے اور سننے کو عارضی کہنا انتہائی نادانی ہو گا۔

جب علی الدوام و علی الاستمرا رحضور ﷺ سب کچھ دیکھ رہے رہیں او ر سب کچھ سن رہے ہیں تو قبر انور سے دور رہ کر جو شخص درود شریف پڑھے اس کے درود کانہ سننا کیا معنی رکھتا ہے۔

عقل سلیم کی روشنی میں بھی دور سے درود شریف سننے کا استحالہ قابل تسلیم نہیں ہو سکتا ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قبر انور پر جو درود پڑھا جاتا ہے، اسے حضور ﷺ ضرور سنتے ہیں۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ قبر انور پر درود پڑھنے والے کی آواز کس ذریعہ سے حضور ﷺ کو پہنچتی ہے۔ جس طرح عادتاً دور کی آواز کا حضور ﷺ تک پہنچنا محال عادی ہے بالکل اسی طرح قبرا نور پر صلوٰۃ وسلام کا حضور ﷺ کی سمع اقدس تک پہنچ جا نا بھی یقیناً محال عادی ہے کیونکہ قبر انور میں جس مقام پر رسول اللہ ﷺ جلوہ گر ہیں وہاں نہ دنیا کی کوئی ہو ا پہنچ سکتی ہے۔ نہ عالم اسباب کے مطابق کسی آواز و غیرہ کا پہنچنا ممکن ہے ۔ اس کے باو جو د بھی حضو ر ﷺ قبر انور میں درود و سلام کی آوازیں سن لیتے ہیں تو اگر اسی طرح بعید کی آوازیں بھی سن لیں تو کون سا استحالہ لازم آتاہے؟

سمع و بصر، تصرف و ادراک دلیل حیات ہے
الغرض سمع و بصر علم و ادراک بغیر حیات کے ممکن نہیں حیات ہی ایسی صفت ہے جو ان اوصاف کے وجو د کا سبب ہے۔ اسی طرح تصرف و عمل بھی دلیل حیات ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے اعمال مثلاً نماز پڑھنا ، حج کر نا ، تلبیہ کہنا ملکو ت سموات والارض میں سیر کر نا اور تصرف فرمانا ایک ایسی حقیقت ثابتہ ہے ۔ جس کا انکار نہیں ہو سکتا۔ بخاری شریف میں وادی ارزق کا واقعہ کسی اہل علم سے مخفی نہیں۔ حیات کے بغیر یہ امور کس طرح انجام پذیر ہو سکتے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام امور مذکورہ بالا سے متعلق احادیث و روایات کو جمع کر کے ارشاد فرمایا
فحصل من مجموع ھذہ النقول والا حادیث ان النبی ﷺ حی بجسدہ و روحہ و انہ یتصرف و یسیر حیث شاء اللّٰہ فی اقطار الارض وفی الملکوت وھو بھیئتہ التی کان علیھا قبل و فاتہ لم یتبدل منہ شیء وانہ مغیب عن الابصارکما غیبت الملائکۃ مع کو نھم احیاء باجسادھم فاذا اراد اللّٰہ رفع الحجاب عمن اراد اکر امہ برؤیتہ رآہ علی ھیئتہ التی ھو علیھا لامانع من ذلک ولا داعی الی التخصیص برؤیۃ المثال (الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ ص۲۶۵)
ان نقول اور احادیث کے مجموعہ کا ماحصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ تصرف فرماتے ہیں اور اقطار زمین و عالم ملکوت میں جہاں چاہتے ہیں تشریف لے جا تے ہیں اور اپنی اسی ہیئت پر ہیں۔ جس پر وفات سے پہلے تھے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ ہماری آنکھوں سے اس طرح غائب کر دیئے گئے جس طرح فرشتے اپنے اجساد کے ساتھ زندہ ہونے کے باوجود ہماری آنکھوں سے غائب کر دیئے گئے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی روئیت کے ساتھ کسی کو عزت و ا کرام عطا فرما نا چاہتا ہے تو اس سے حجاب کو اٹھا لیتا ہے اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسی ہیئت پر دیکھتا ہے جس پر حضور ہیں۔ کوئی امر اس سے مانع نہیں ہے اور رؤیت مثال کی تخصیص کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
یہاں یہ شبہ وارد نہ کیا جائے کہ اگر یہ رؤیت حضور ﷺ کی ذات مقدسہ کی واقعی رؤیت ہے تو لازم آتا ہے کہ دیکھنے والے سب صحابی ہو جائیں۔ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ جب عالم ملک سے عالم ملکوت کی طرف رحلت فرما گئے تو اب یہ رؤیت رؤیت ملکوتی ہو گی اور صحابیت کے لئے عالم ملک یعنی اس جہاں میں رؤیت معتادہ کے ساتھ دیکھنا شرط ہے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس جواب کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے، جن میں یہ وارد ہوا کہ عالم ملکوت میں حضور ﷺ کی ساری امت حضور ﷺ کے سامنے پیش کی گئی۔ حضور ﷺ نے ساری امت کو دیکھا اور ساری امت نے حضور ﷺ کو دیکھا۔ اس کے باوجود بھی تمام امت کے لئے صحابیت ثابت نہیں ہوئی۔ صرف اس لئے کہ یہ رؤیت عالم ملکوت میں تھی جو صحابیت کا فائدہ نہیں دیتی۔ (دیکھیے الحاوی للفتاوی جلد نمبر ۲، ص ۲۶۵، ۲۶۶، طبع مصر)

حیات برزخی
بعض لو گ کہہ دیتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات پر جتنی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سب سے حیات برزخی ثابت ہو تی ہے۔ حیات حقیقی جسمانی کا ثبوت نہیں ہوتا۔

میں عرض کر وں گا کہ جس شخص نے حیات کے معنی کو صحیح طو ر پر سمجھ لیا۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ارواح تو پہلے ہی زندہ ہیں ۔ اب وفات کے بعد اگران کی زندگی کا صرف یہی مفہوم ہو کہ عالم برزخ میں ان کی روحیں زندہ ہیں تو اس حیات بعد الوفات کا کوئی ماحصل نہیں نکلتا جب تک کہ حیات جسمانی کا قول نہ کیا جائے ہاں اس اعتبار سے اس کو برزخی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انبیاء کرام و مقربین عظام جنہیں حیات حقیقی عطا ہوئی ہے عالم برزخ میں رونق افروز ہیں اور برزخ ان کی ذوات قدسیہ اور حیات طیبہ کے لئے بمنزلہ ظرف مکان کے ہے۔

بعدالموت انبیاء لوازمات حیات سے خالی ہو تے ہیں؟
اگر انبیاء علیہم السلام کی زندگی حقیقی اور جسمانی ہو تو اس کے لوازمات کا پایا جانا بھی ضروری ہے ۔ قاعدہ ہے۔ اذا ثبت الشیء ثبت بجمیع لوازمہ لیکن یہ حقیقت ناقابل انکار ہے۔ کہ انبیاء علیہم السلام کے لئے جسمانی اور حقیقی زندگی کے لوازمات بالکل منتفی ہیں۔ نہ وہ جسمانی غذا کھاتے ہیں نہ ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ نہ پانی پیتے ہیں نہ ان کا جسم متحرک ہو تا ہے نہ کسی قسم کا جسمانی فعل ان سے سرزد ہو تا ہے۔ ایسی صورت میں حقیقی اور جسمانی حیات کیسے تسلیم کی جائے؟

اس اعتراض کا جوا ب
اس کا جو اب یہ ہے کہ ہم نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ مع ارواح طیبہ کے بلا شائبہ مجاز حقیقتاً زندہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم انہیں عالم برزخ میں بھی تسلیم کرتے ہیں اور حیات حقیقی جسمانی کے لوازمات و مناسبات ہر عالم میں یکساں نہیں ہوا کرتے عالم کے بدل جا نے سے لو ازمات و مناسبات کی نوعیت میں بھی تبدیلی واقع ہو جا تی ہے۔

لوازمات حیات ہر عالم میں متفاوت ہو تے ہیں
دیکھئے بچہ پیدا ہو نے سے پہلے ماں کے پیٹ میں جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ ہو تا ہے اور پیدا ہو نے کے بعد بھی وہ زندہ رہتا ہے لیکن دونوں حالتوں میں لوازمات حیات یکساں نہیں۔ با و جو دیکہ حیات ہر حال میں یکساں ہے۔ بس اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی حیات کو بھی سمجھ لیجئے کہ وہ قبل الوفات اور بعد الوفات دونوں حالتوں میں حقیقی جسمانی ہے لیکن دنیا میں اور برزخ میں لوازمات حیات یکساں نہیں ہیں عالم برزخ میں انبیاء علیہم السلام اور شہداء کرام رزق دیئے جاتے ہیں ۔ کھاتے پیتے ہیں ۔ فرحت و سرور پاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس تمام لوازمات و مناسبات حیات حقیقی انہیں حاصل ہیں لیکن ان کی نوعیت اسی طرح بدلی ہوئی ہے۔ جس طرح پیدا ہو نے والے بچے کے لو ا زمات حیات کی نو عیت ماں کے پیٹ میں اور پیدائش کے بعد اس عالم میں بدلی ہوئی ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام کے لو ا زمات حیات
اس سے بھی زیادہ روشن مثال عیسیٰ علیہ السلام کا وجو د گرامی ہے کہ وہ بالاتفاق اور بالا جماع اب تک آسمانوں پر زندہ ہیں اور اسی جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔ جو انہیں دنیا میں حاصل تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ آسمانوں پر ان کیلئے وہ لوازمات حیات مفقو د ہیں ۔ جو اس عالم میں حاصل تھے۔ مثلاً دنیاوی غذا کھانا ، پانی پینا دنیاوی لباس و غیرہ پہننا وغیر ذالک

جب عیسیٰ علیہ السلام کیلئے اس عالم دنیا کے لو ا زمات کے بغیر آسمانوںپر حیات حقیقی جسمانی حاصل ہے تو دیگر انبیاء علیہم السلام و شہدا کرام کو عالم برزخ میں لوازمات دنیویہ کے بغیر جسمانی حقیقی حیات کیوں حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اصل بات یہ ہے کہ جسم کے ساتھ روح کا تعلق جو حیات جسمانی کیلئے سبب ظاہری ہے ہر عالم میں یکساں نہیں ہو تا جیسا عالم ہو گا۔ جسم کے ساتھ روح کا تعلق بھی ویسا ہی ہو گا۔ تعلق روح کی نوعیت بدلنے سے لو ازمات کی نو عیت بدل جا تی ہے لیکن سطحی نظر رکھنے والے لو گ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور شکو ک و شبہات میں مبتلا ہو کر حقیقت ثابتہ کا انکار کر بیٹھتے ہیں ۔

حیات انبیا ء علیہم السلام کے مسئلہ پر اجمالی نظر
انبیاء علیہم السلام کی حیات کے دلائل اور متعلقہ مسائل پر تفصیلی گفتگو ناظر ین کرام ملاحظہ فرما چکے اب اس مسئلہ کو ایک اجمالی نظر کے ضمن میں ہم اپنے ناظر ین کرام کی خدمت میں پیش کر نا چاہتے ہیں۔

ارشاد خدا وندی ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ المَوْتِ‘‘کے پیش نظر انبیاء علیہم السلام قانون موت سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا۔ ’’اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ‘‘رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ انی مقبوض بنابریں جو شخص انبیاء علیہم السلام کے حق میں موت اور قبض روح کا مطلقاً انکار کر ے، وہ نصوص قرآنیہ اور احادیث متواتر ہ کا منکر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے۔

مو ت اور قبض روح کے معنی
انبیاء علیہم السلام کی موت اور قبض روح کے معنیٰ مطلقاً یقینا و ہی ہیں جو آج تک ساری امت نے سمجھے یعنی بدن اقدس سے روح مبارک کا نکل کر رفیق اعلیٰ کی طرف جا نا انبیاء علیہم السلام کی موت ہے پھر اس کے بعد ان کی حیات کے معنیٰ یہ ہیں کہ اجساد مقدسہ سے باہر نکلی ہوئی ارواح طیبہ اپنے تمام اوصاف و کمالات سابقہ کے ساتھ رفیق اعلیٰ سے دوبارہ اجسام شریفہ میں لوٹ آتی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے ان کی حیات اور آثار حیات عادۃ ہم سے مستور رہتے ہیں اور ہماری نظروں سے وہ اس طرح غائب کر دئیے جاتے ہیں۔ جس طرح ملائکہ ہماری نظروں سے غائب کر دئیے گئے ہیں۔
پھر خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے بارے میں مزید اتنی بات کہنی پڑے گی کہ حضور ﷺ کا وصف حیات بالنسبتہ الی الممکنات بالذات ہے اور یہ وصف حضور ﷺ کے فضائل و کمالات میں سے ہے۔ لہٰذا کسی دوسرے کیلئے حیات بالذات کا وصف ثابت نہیں۔

اجمالی نظر کی تفصیلی جھلک
اس اجمالی نظر کی تفصیلی جھلک سامنے لانے سے پہلے ہم اپنے ناظرین کرام کو یاد دہانی کر انا چاہتے ہیں کہ گزشتہ صفحات میں ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ حقیقی نبوت و رسالت کا وصف نبی کے جسم و روح دونوں کے مجموعے کیلئے حاصل ہے۔ خالی جسم اور فقط روح کے لئے حقیقی نبوت و رسالت کا وصف حاصل نہیں۔ خالی جسم سے مراد وہ جسم ہے جس میں نہ روح ہو نہ حیات اگر کسی جسم سے روح نکل گئی ہو لیکن اس میں حیات حقیقی مو جو د ہو تو اس جسم کو خالی جسم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس پر بھی مجمو عہ کا حکم لگایا جائے گا۔ اس لئے کہ روح کا اصل مفاد حیات کے سوا کچھ نہیں جب حیات مو جو د ہے۔ تو گویا روح مو جو د ہے۔

اس کے ساتھ ہی اتنی بات اور بھی شامل کر لیجئے کہ مو صوف کے بغیر صفت کا وجود ایسا ہی ہے جیسے کہ عین کے بغیر معنیٰ یا جو ہر کے بغیر عرض۔

سب جانتے ہیں کہ رسالت و نبوت صفت ہے اور نبی و رسول مو صوف جب مو صوف کے بغیر صفت کی بقاء محال ہے تو نبی اور رسول کے وفات پا جا نے کے بعد اس کی نبوت و رسالت کیونکر باقی (۱) رہے گی۔ حالانکہ ہر نبی کی نبوت اس کی وفات کے بعد باقی رہتی ہے۔ بالخصوص ہمارے نبی کریم ﷺ کی نبوت تو قیامت تک باقی رہے گی کیونکہ حضو ر ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اس اشکال کا حل بعض لو گوں نے یو ں پیش کیا کہ نبوت و رسالت روح کی صفت ہے اور وفات کے بعد روح باقی ہے۔ لہٰذا نبوت و رسالت بھی باقی ہے لیکن ہم بتا چکے ہیں کہ روح نبی کی نبوت حکمی ہے حقیقی نہیں۔ اور ہمارا کلام حقیقی و صف نبوت و رسالت میں ہے۔

بعض بد مذہب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ حقیقی وصف نبوت و رسالت حضور ﷺ کی حیات نبوی تک تھا۔ وفات کے بعد حکمی رسالت باقی رہ گئی لیکن اہل حق جمہور امت مسلمہ کا مذہب مہذب یہی ہے کہ بعد الوفات بھی نبی کی حقیقی نبوت و رسالت باقی رہتی ہے۔

اس قول پر مذکورہ بالا اشکال بہت قوی ہوجا تاہے ۔
اس قو ل کے قائلین کے ایک گروہ نے موت اور قبض روح کے معنیٰ میں تصرف کیا اور یہ کہا کہ نبی کی موت کے وقت اس کی روح قبض ہو کر بدن سے باہر نہیں نکلتی بلکہ اسے سمیٹ کر نبی کے قلب مبارک میں محفوظ و مستور کر دیا جا تا ہے۔ پھر بعد از دفن اسے تمام جسم میں پھیلایا دیا جا تا ہے ۔ اور اس طرح نبی جسم اور روح کا مجموعہ ہی رہتا ہے ۔ اس کی حقیقی نبوت و رسالت بھی باقی رہتی ہے اور وہ بعد الوفات اپنی قبر میں زندہ بھی رہتا ہے۔

لیکن ہمارے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی موت کے یہ معنیٰ بیان کر نا کہ ان کی روحیں ان کے ابدان شریفہ سے با ہر نہیں نکالی جا تیں بلکہ انہیں سمیٹ کر اور قبض کر کے ان کے قلوب مبارکہ کے اندر ہی محفوظ کر دیا جا تا ہے ۔ قطعاً غلط اور باطل محض ہے۔

مو ت اور قبض روح کے الفاظ قرآن و حدیث میں وارد ہیں۔ الفاظ قرآن وحدیث کے ایسے معنیٰ بیان کرنا جو نہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوں نہ صحابہ کرام سے نہ امت مسلمہ میں سے کسی نے وہ معنیٰ بیان کئے ہو ں ایسے معنیٰ الفاظ قرآن و حدیث کے بیان کر نا بہت بڑی جرأت اور دین میں فتنہ عظیم کا دروازہ کھولنا ہے درحقیقت اسی کا نام بدعت سیئہ ہے ۔ جس کے متعلق ارشاد ہو ا
کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ
آب حیات میں یہی مسلک اختیار کیا گیا ہے اور روشن چراغ پر ہانڈی رکھنے کی مثال دی گئی ہے۔ (دیکھئے آب حیات ص۱۶۰)

ہمارا مسلک
ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر نبی کی روح مبارک عندالوفات جسم شریف سے قبض ہو کر باہر نکلتی ہے اور رفیق اعلیٰ کی طرف جا تی ہے۔ جیسا کہ صحیحین و دیگر کتب حدیث میں وارد ہے کہ وفات شریف کے وقت رسول اللہ ﷺ کا آخری کلا م ’’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی‘‘تھا ۔ چنا نچہ علماء محدثین نے اسی حدیث کو ارواح انبیاء علیہم السلام کے اعلیٰ علیین کی طرف صعود کر نے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔(اعتراضات کے جوابات آنے والے مضمون میں)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔