اسلام اور عیسائیت ایک تحقیقی مضمون
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام اور عیسائیت کا تقابل کرنے سے پہلے اسلام اور عیسائیت کے معنی سمجھ لینا ضروری ہے۔
عیسائیت کا مفہوم
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ لفظ عیسائیت کا مفہوم ایک ایسے اضافی معنی کے سوا کچھ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیح ابن مریم کی ذات سے نسبت رکھنے پر دلالت کرتے ہیں۔
اسلام کے معنی
اس کے برخلاف اسلام کے معنی ہیں ’’گردن نہادن بطاعت‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنا سر جھکا دینا۔ سر جھکانا، خوف اور طمع و محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گویا لفظ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ان تینوں حالتوں میں بندے کو صرف خدا کے سامنے جھکنا چاہئے۔
یہاں اتنی بات اور ذہن نشین کر لی جائے کہ خوف، طمع اور محبت تینوں میں اصل محبت ہے کیونکہ محبت کی وجہ سے محبوب کی ناراضگی اور جدائی کا خوف پیدا ہوتا ہے اور اسی محبت کے باعث محبوب کے وصال اور اس کی خوشنودی کی طمع پیدا ہوتی ہے۔ محبت نہ ہو تو نہ خوف ہو نہ طمع۔
اسلام کی روح محبت ہے جس کے باعث مسلم اپنے محبوبِ حقیقی کے سامنے جھک کر مسلم قرار پاتا ہے اور انسانیت کی اصل بھی انس و محبت ہے جس کا حامل ہو کر وہ انسان کہلاتا ہے۔
اسلام اور انسانیت کا تلازم
ان مختصر جملوں سے اہل فہم پر روشن ہو گیا ہو گا کہ اسلام انسانیت کے لئے لازم اور انسانیت اسلام کے لئے ملزوم ہے۔ مزید وضاحت کے لئے یوں کہیئے کہ بنی نوع آدم کے سلسلہ کو بہ نظر بصیرت دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ انسانیت سے اسلام جدا نہیں ہوتا اور اسلام سے انسانیت علیحدہ نہیں ہوتی۔ ابھی معلوم ہو چکا ہے کہ محبت محبوب کے سامنے اہل محبت کا سر جھکا دیتی ہے۔ اسلام اس معنی کا آئینہ دار ہے جس طرح اسلام کے لفظ سے محبت کے معنی مفہوم ہوتے ہیں اسی طرح لفظ انسان بھی محبت کے معنی دیتا ہے۔
لفظ انسان کی تحقیق
اہل لغت کا قول ہے کہ انسان ’’اَنَسَ‘‘ یا ’’نَسِیْ‘‘ سے مشتق ہے۔ انس کے معنی ہیں وہ مانوس ہوا اور نسی کے معنی ہیں وہ بھول گیا۔
غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انسیت بھولنے کے بغیر نہیں ہوتی اور بھولنا انسیت کے بغیر نہیں پایا جاتا کیونکہ جب کسی کو کسی سے انسیت ہو گی تو اس کی پوری توجہ اور کامل التفات اسی کی طرف ہو گا جس سے وہ مانوس ہے۔ ایسی صورت میں اپنے مانوس یعنی محبوب کے غیر سے توجہ اور التفات کا زائل ہونا ضروری ہے اسی کو نسیان اور بھولنا کہتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی چیز کو بھولتا ہے تو اس کی پوری توجہ کسی دوسری چیز کی طرف ہوتی ہے اور کسی چیز کی طرف کامل توجہ اور التفات کا ہونا انس ہے۔ معلوم ہوا کہ انس بغیر نسیان کے نہیں ہوتا اور نسیان بغیر انس کے نہیں پایا جاتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت میں نسیان اور محبت ہے۔
محبت اور انس کس کے لئے ہے
اب یہ معلوم کرنا چاہئے کہ محبت کس کی ہے اور نسیان کس کاہے۔ انسان حسن ازل کا آئینہ اور شانِ خالقیت کا نمونہ ہے تو گویا وہی احسن الخالقین اور رب کائنات اس کے لئے بمنزلہ اصل ہے اور یہ بمنزلہ فرع۔
لہٰذا جس طرح فرع اپنی اصل کی طرف مائل اور اس سے مانوس ہوتی ہے اسی طرح انسان اللہ تعالیٰ سے مانوس ہے۔ جب اس کا محبوب اللہ تعالیٰ ہوا تو ضروری ہو گا کہ یہ ما سوی اللہ کو بھول جائے۔ کیونکہ ما سوائے محبوب سے نسیان کا ہونا انسیت کے لوازمات سے ہے۔ جیسا کہ میں ابھی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
ایک سوال کا جواب
یہاں ایک سوال کا جواب دیتا جاؤں اور وہ یہ کہ اگر آپ فرمائیں کہ ماسوی اللہ کو بھول جانا انسانیت کے لوازمات سے ہے تو دنیا میں انسان کے لئے کوئی مقام نہ رہے گا نہ وہ کاروبار کر سکے گا نہ اپنی زندگی کے ضروریات و لوازمات مہیا کر سکے گا کیونکہ یہ سب چیزیں ما سوی اللہ ہیں۔ تو میں جواباً عرض کروں گا کہ جب کوئی کام خواہ وہ زندگی کے لوازمات سے ہو یا کوئی دوسرا کاروبار ہو محبوب کے حکم کو بجا لانے کے لئے کیا جائے گا تو وہ محبوب کے ما سویٰ کی یاد نہ ہو گی بلکہ محبوب ہی کی یاد قرار پائے گی کیونکہ محبوب کے حکم کا بجا لانا یہی لوازماتِ محبت سے ہے۔ ہاں جب محبوب کے احکام کو بھلا کر کوئی کام کیا جائے تو وہ ما سوائے محبوب کی یاد اور محبوب کا بھولنا قرار پائے گا۔ اہل محبت کی شان تو یہ ہے کہ ’’دل بہ یار ودست بہ کار‘‘ خلاصہ یہ کہ دنیا کا جو کام خدا کے حکم کی تعمیل میں ہو گا وہ خدا کی یاد ہو گی اور جو کام اس کے حکم کو پس پشت ڈال کر کیا جائے گا وہ اس کی طرف سے غافل ہونے اور اسکے بھولنے کے مترادف قرار پائے گا۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اسلام کے معنی میں محبت پائی جاتی ہے اسی طرح لفظ انسان بھی محبت کے معنی دیتا ہے۔ رہا خوف و طمع تو وہ دونوں لوازمات محبت سے ہیں کیونکہ محبت ہوتی ہے تو محبوب کی ناراضگی کا خوف اور اس کی خوشنودی کی طمع ضرور ہوتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اسلام کے پورے معنی انسانیت میں پائے جاتے ہیں اور انسانیت کے معنی مکمل طور پر اسلام میں موجود ہیں۔ اس لئے ایک دوسرے سے جدا ہونا ممکن نہیں۔
اسلام اور انسانیت کی وسعت
اسلام کی وسعت کو سمجھنے کے لئے انسانیت کی وسعت معلوم کر لینا ضروری ہے۔ وسعت انسانیت کا یہ عالم ہے کہ ایک فرد انسان اٹھارہ ہزار عالم کی حقیقتوں کا اجمالی طور پر مجموعہ ہے۔ تمام عالم خلق کی حقیقتیں انسان کے جسم میں پائی جاتی ہیں اور عالم امر کے حقائق روح انسانی میں مضمر ہیں۔ یہ مجموعہ کائنات اور خلاصۂ موجودات جب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکائے گا تو اس کے دامن انسانیت سے لپٹے ہوئے اٹھارہ ہزار حقائق کائنات کے ذرے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے۔
سر کا جھکنا ایک علامت ہے اور دل کا جھکنا حقیقت ہے۔ کوئی علامت حقیقت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا جس شخص کا دل اللہ تعالیٰ سے باغی ہو اس کا سر جھکنا بالکل بے معنی اور ناقابل اعتبار ہے۔ اسلام کے معنی اور اس کی وسعت کو انسانیت کے معنی اور اس کی وسعت کے سامنے لایا جائے تو میری بات اور زیادہ روشن ہو جائے گی کہ اسلام اور انسانیت چولی دامن کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔
صداقت اسلام کی دلیل
جب اسلام کے معنی رب تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے ہوئے اور انسانیت کو اسلام نے اللہ تعالیٰ کے در پر جھکا دیا تو اس سے بڑھ کر صداقت اسلام کی اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے۔ گویا ’’اسلام‘‘ اپنے سچا ہونے کی دلیل آپ ہے۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلت باید از وے رومتاب
اسلام کے بعد عیسائیت
اب عیسائیت کی طرف آیئے تو ہر شخص جانتا ہے کہ لفظ عیسائیت یا مسیحیت میں بجز ایک معنی اضافی کے اور کچھ نہیں رکھا۔ ایسی صورت میں اسلام کے ساتھ عیسائیت کے تقابل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسلام انسان کا پیدائشی دین ہے
لطیفہ کے طور پر میرا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلام بنی نوع انسان کا اصلی اور پیدائشی دین ہے کیونکہ اسلام کے معنی ہیں زمین پر سر رکھنا اور انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ سر کے بل پر پیدا ہوتا ہے۔ گویا وہ زبانِ حال سے اعلان کرتا ہے کہ میں اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور اپنا سر اپنے رب کے سامنے رگڑتا ہوا دنیا میں آیا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ‘‘ یعنی ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا لیں یا نصرانی یا مجوسی۔
ایک اور سوال کا جواب
یہاں اور بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض بچے پاؤں کے بل پیدا ہوتے ہیں پھر یہ کہ سر کے بل پیدا ہونے والوں کے حق میں آپ کا یہ کہنا کہ یہ خدا کے سامنے سر جھکا کر پیدا ہوتے ہیں اور ان کا پیدائشی دین اسلام ہے ایک دعویٰ بلا دلیل ہے کیونکہ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کا سر میرے معبود کے سامنے ہے۔ آگ، پانی، چاند، سورج، پتھروں، درختوں اور لات و منات کے پجاری کہہ سکتے ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے کا یہ سر ہمارے معبودوں کے سامنے ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاذ و نادر کسی بچے کا پاؤں کے بل پیدا ہو جانا ولادت کے قانونِ عام کا مناقض نہیں ہو سکتا بلکہ وہ بجائے خود کالعدم ہے اور پیدا ہونے والے بچے کا سر معبودانِ باطلہ کے سامنے جھکا ہوا ہونا اس لئے باطل ہے کہ پیدا ہونے والے شب و روز، بحرو بر، کوہ بیاباں اور مختلف مقامات میں پیدا ہوتے ہیں مگر اس وقت وہاں پیدا ہونے والے بچے کے سامنے مشرکین کے معبودانِ باطلہ موجود نہیں ہوتے جن کے سامنے پیدا ہونے والے بچے کے سر کو تسلیم کیا جائے۔ مگر حق تعالیٰ معبودِ حقیقی زمان و مکان سے پاک اور مبرا ہونے کے باوجود ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے ’’اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘‘ جہاں منہ کرو وہیں اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ ’’وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ‘‘ تم جہاں ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ پیدا ہونے والے بچے کا سر کسی معبود باطل کے سامنے جھکا ہوا نہیں بلکہ اسی معبودِ برحق کے سامنے جھکا ہے جو قید زمان و مکان سے پاک اور بے نیاز ہو کر ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر بچہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہوا اس کے سامنے سر جھکاتا ہوا پیدا ہوتا ہے اور یہی اسلام ہے۔
اسلامی تعلیمات صداقت اسلام کی روشن دلیل ہیں
اس کے بعد اسلامی تعلیمات کی طرف آیئے تو صداقت اسلام کا آفتاب اور بھی زیادہ چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ حدیث شریف میں ہے
’’بنی الاسلام علٰی خمس شہادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ واقامۃ الصلٰوۃ وایتاء الزکٰوۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔‘‘ یعنی اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے (۱) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے عبد مقدس اور اس کے رسول برحق ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ دینا (۴) رمضان کا روزہ رکھنا اور (۵) استطاعت والے کے لئے کعبہ کا حج کرنا۔
حقیقت شہادت
شہادت بظاہر زبان سے ادا کی جاتی ہے مگر اس کی حقیقت بڑی وزنی ہے۔ دیکھئے اگر کسی غریب آدمی سے کسی بڑے امیر آدمی یا کسی حاکم کے خلاف گواہی دلوائی جائے تو وہ گواہی دینے سے پہلو تہی کرے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ شہادت ان تمام طاغوتی طاقتوں کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اور باغی ہیں۔ اس کا پس منظر نہایت دہشت ناک ہے۔ عظیم ترین مصائب و آلام اس کے نتائج کے طور پر سامنے آنے والے ہیں۔ جس پر تاریخ اسلام گواہ ہے۔ اس وزنی حقیقت کو سامنے رکھ کر جو شخص کلمۂ شہادت پڑھے گا اس کے دل میں بہت بڑی قوت اور عظیم الشان طاقت موجود ہو گی۔ وہ اپنے دل میں یہ بات طے کر لے گا کہ اگر مصائب و آلام کے پہاڑ بھی مجھ پر گرا دئیے جائیں تو میں اپنی شہادت سے رو گردانی نہ کروں گا۔ دراصل یہی قوت کلمۂ شہادت کی حقیقت ہے۔
ارکانِ اسلام کا نماز میں پایا جانا
نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ پر الگ الگ تبصرہ کیا جائے تو بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہو گی۔ اجمالاً اتناعرض کیے دیتا ہوں کہ ان پانچوں کو اللہ تعالیٰ نے نماز میں رکھ دیا اور نماز کو پانچوں کا حسین مجموعہ قرار دے دیا۔ غور فرمایئے نماز میں تشہد موجود ہے۔ ہر نمازی قعدہ میں کہتا ہے ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ نماز خود نماز ہے، زکوٰۃ بھی نماز میں موجود ہے اس لئے کہ ستر عورت کے بغیر نماز نہیں ہوتی جس کپڑے سے بدن چھپایا جائے گا وہ مال ہے تو گویا مال خرچ کئے بغیر نماز نہ ہو گی یہ زکوٰۃ کی حقیقت ہے۔ روزہ بھی نماز میں ہے اور وہ اس طرح کہ نمازی جب نماز شروع کرتا ہے اور تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھتا ہے تو وہ سلام پھیرنے تک نہ پانی پی سکتا ہے نہ کھانا کھا سکتا ہے نہ کوئی اور ایسا کام کر سکتا ہے جس سے روزہ جاتا رہے۔ معلوم ہوا کہ نمازی جتنی دیر تک نماز پڑھے گا اتنی دیر تک اسے روزہ دار رہنا بھی ضروری ہو گا۔ یہ روزہ کی اجمالی حقیقت نماز میں رکھ دی گئی۔ اسی طرح حج کی لطیف حقیقت کی چمک بھی نماز میں نظر آتی ہے جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے فرمایا کہ اے میرے بندو! تمام اطراف زمین سے سمٹ کر ہر نماز کے وقت تم کعبہ تو نہیں جا سکتے مگر کعبہ کی طرف منہ کر کے تو کھڑے ہو سکتے ہو یعنی جس طرح کعبہ کے بغیر حج نہیں ہو سکتا اسی طرح بغیر کعبہ کے نماز بھی نہیں ہو سکتی۔ الغرض نماز میں کعبہ مطہرہ کی طرف منہ کر کے ارکانِ صلوٰۃ ادا کرنا حج کی جھلک ہے جو نماز میں پائی جاتی ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
اس مقام پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ نماز میں جب تمام ارکانِ اسلام آ گئے تو بس نماز ہی کافی ہے۔ کلمۂ شہادت، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی کیا ضرورت رہی۔ میں کہوں گا کہ نماز میں تمام ارکان و عبادات کی روح کا آ جانا اس لئے نہیں کہ نماز کے علاوہ اور سب عبادتیں ترک کر دی جائیں بلکہ اس لئے ہے کہ نماز کی روح اور اس کے دل کا رابطہ ہر عبادت کے ساتھ قائم ہو جائے تاکہ جب بھی کسی عبادت کا وقت آئے نمازی کو اس کے ادا کرنے میں تامل نہ ہو۔
اسلام میں توحید کی تعلیم
اسلام نے خدا تعالیٰ کی توحید کی تعلیم اس حسن و خوبی کے ساتھ دی کہ عقل سلیم کی روشنی میں اس سے بہتر ذاتِ باری تعالیٰ کے متعلق کوئی تعلیم تصور میں نہیں آ سکتی۔ قرآن فرماتا ہے ’’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ۵لا وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo‘‘ اے نبی! فرما دو اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس نے کسی کو نہیں جنا، نہ وہ کسی سے جنا گیا، اس کا کوئی مثل نہیں، وہ اپنی شان الوہیت میں یکتا و بے نظیر ہے۔‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت اسلام نے عبدہٗ ورسولہٗ سے زیادہ نہیں بتائی بلکہ ان کی الوہیت کا ابطال کیا۔
اسلام میں رسالت کا پاکیزہ تصور
توحید کے بعد رسالت و نبوت کے بارے میں جو پاکیزہ نظریات پیش کئے ہیں وہ بھی اپنی نظیر آپ ہیں۔
اسلام نے عقائد و اعمال اور مکمل دستور العمل قرآن میں پیش کیا
مقدس اسلام نے جزا و سزا، دوزخ و جنت، حسن و قبح، حرام و حلال، پاک و ناپاک حتیٰ کہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق جزئیات تک کی تفصیلات اور مکمل ہدایات پیش کیں اور قرآن مجید ایک جامع کتاب ہمارے سامنے پیش کی جو انسانیت کے لئے مکمل دستور العمل اور حیات بعد الموت کے تمام مراحل میں مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ جس میںشک و شبہ اور تحریف و تبدیل کے لئے قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ثابتہ ہے کہ جس کا اعتراف کئے بغیر چارہ کار نہیں۔
اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت
اب اس کے مقابلہ میں عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس کا کوئی ایک نظریہ بھی اسلام کے نظریات کے سامنے اس قابل نہیں کہ عقل سلیم کی روشنی میں اسے قبول کر لیا جائے۔
لفظ عیسائیت یا مسیحیت سے جو معنی مفہوم ہوتے ہیں وہ خود بتا رہے ہیں کہ اس میں کوئی ٹھوس حقیقت موجود نہیں ہے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس لفظ کا مفاد محض ایک اضافی معنی ہیں جن کا تصور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال اور ان کی سیرت طیبہ کے احوال اور تعلیمات کے موجود ہوئے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ مدعیانِ مسیحیت کے پاس بھی حضرت مسیح کی کوئی ایسی سیرت موجود نہیں جو مسیحیت کے معنی کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہو۔
عیسائیت میں نہ کوئی علمی نظریہ ہے نہ عملی پروگرام
عیسائیت میں بنی نوع انسان کے لئے نہ کوئی علمی نظریہ ہے نہ عملی پروگرام۔ حیاتِ انسانی کے کسی شعبہ کے لئے کوئی ضابطہ عیسائی پیش نہیں کر سکتے۔
عیسائیت کے بنیادی نظریات
مسیحیت یا عیسائیت کے نام سے آج تک جو بنیادی نظریات عیسائیوں نے پیش کئے ہیں وہ صرف دو ہیں ’’تثلیث‘‘ اور ’’کفارہ‘‘
تثلیث
تثلیث کے متعلق ان کا قول ہے کہ اب، ابن اور روح القدس۔ تینوں کا مجموعہ خدا ہے یہ تین بھی ہیں اور تینوں مل کر ایک بھی اس کی دلیل میں ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کو پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے قرآن بھی تثلیث کی تعلیم دیتا ہے قرآن میں سب سے پہلے بسم اللہ ہے جس میں اللہ ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ تین کا ذکر ہے۔ یہ تینوں مل کر ایک بھی ہیں اور تین بھی مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ قرآن نے ایک ذات واجب الوجود کے تین نام بتائے ہیں ہر نام اس کی جداگانہ شان کا مظہر ہے کیونکہ وہ صفاتِ کمالیہ سے متصف ہے کوئی ذات اپنی شان یا صفت کے ساتھ مرکب نہیں ہوا کرتی نہ کوئی ذات اپنی صفات سے مل کر مجموعہ قرار پاتی ہے اور یہ ایسی کھلی ہوئی روشن بات ہے کہ جو معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی بلا تامل سمجھ سکتا ہے مگر عیسائیوں کی سمجھ پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی واضح بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
کفارہ
یہی حال کفارہ کے مسئلہ کا ہے۔ اس اجمال کا مختصر بیان یہ ہے کہ عیسائی آدم و حوا علیہما السلام اور ان کی نسل کے فرد کو گناہ گار مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ نبیوں اور رسولوں کے بارے میں بھی ان کا اعتقاد ہے کہ کوئی نبی اور رسول گناہ سے پاک نہیں۔ لوط علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام اور بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام پر انہوں نے بدترین گناہوں کا الزام لگایا۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ کی ابتدا عورت سے ہوئی کیونکہ جنت میں خدا کے حکم کی خلاف ورزی کا پہلا گناہ حوا نے کیا۔ پھر آدم کو اس درخت سے کھانے کی ترغیب دی جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں روکا تھا۔ جب نسل آدم گناہ گار ٹھہری تو اب نسل انسانی کو گناہ سے نجات دلانے کے لئے ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے کہ جو خود گنہگار نہ ہو اور ایسا شخص جو گناہوں سے پاک ہو سوائے مسیح کے دوسرا نہیں ہو سکتا کیونکہ سب آدم و حوا کے بیٹے ہیں۔ صرف مسیح علیہ السلام ابن اللہ ہیں جو خدا کا بیٹا ہونے کی وجہ سے گناہ اور معصیت سے پاک ہیں۔
عدل اور رحم
خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے مسیح سے کہا کہ میں عادل بھی ہوں اور رحیم بھی، عدل چاہتا ہے کہ گناہگاروں کو سزا دوں اور رحم کا تقاضا ہے کہ انہیں معاف کر دوں لیکن سزا دیتا ہوں تو میرا رحم جاتا ہے اور معاف کرتا ہوں تو عدل باقی نہیں رہتا۔ اب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اے پیارے بیٹے مسیح! گناہ گاروں کے گناہوں کا بوجھ تیرے سر پر رکھ کر صرف تجھ ہی کو سزا دے دوں۔ تو صلیب پر چڑھ جا اور تین دن تک (معاذ اللہ) لعنت کی موت مردہ رہ کر گناہ گاروں کے گناہوں کا کفارہ کر دے تاکہ میری صفت عدل و رحم دونوں قائم رہیں اور بنی نوع انسان کی نجات بھی ہو جائے۔
اسلام اور کفارہ
اسلام نے اس نظریہ کو بھی مردود قرار دیا اور جس طرح تثلیث کے مقابلہ میں توحید کی ٹھوس حقیقت پیش کی تھی اسی طرح یہاں بھی کفارہ کے مقابلہ میں جزا و سزا کا ناقابل تردید نظریہ پیش فرمایا اور قرآن کریم میں واضح اعلان کر دیا کہ ’’وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْـرٰی‘‘ کوئی شخص کسی کا بار قطعاً نہیں اٹھائے گا۔ یہ کیسی نامعقول بات ہے کہ گناہ گار گناہ کرے اور بے گناہ کو سزا دی جائے۔ رہا یہ امر کہ آدم و حوا اور ان کی پوری نسل گناہ گار ہے تو قرآن نے جا بجا اس کی بھی تردید فرمائی جس طرح ایک کے گناہ کی سزا دوسرے کو دینا سراسر ظلم ہے اسی طرح ماں باپ کا گناہ وراثت کے طور پر اولاد میں منتقل ہونابھی باطل اور نامعقول ہے۔ اسلام نے رسل و انبیاء علیہم السلام کو قرآن مجید میں عبادِ صالحین اور عبادِ مخلصین قرار دیا۔ عیسائیوں نے آیاتِ قرآنیہ سے انبیاء علیہم السلام کا گناہ گار ہونا ثابت کرنے کی سعی ناتمام کی ہے۔ وہ آیات ہرگز اس دعویٰ کی دلیل نہیں بلکہ عیسائیوں کی کج فہمی ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے آیاتِ قرآنیہ کو ایک صریح بطلان دعوے کے ثبوت میں پیش کر دیا۔ ان شاء اللہ دوسرے موقع پر ان آیات کی مکمل تشریح کی جائے گی۔
سزا رحم کے اور معافی عدل کے منافی نہیں
رہا یہ امر کہ سزا رحم کے خلاف ہے اور معاف کرنا عدل کے منافی ہے تو یہ بھی نادانی و جہالت پر مبنی ہے۔ رحم سے عدل کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ظلم سے عدل کا دامن داغدار ہوتا ہے پھر یہ کہ عدل کو رحم کے منافی قرار دے کر بھی عیسائیت کو سہارا نہیں ملتا کیونکہ جب سزا دینا رحم کے خلاف ہے تو دوسروں کے گناہوں کی سزا مسیح علیہ السلام کو دینا بھی رحم کے خلاف ہو گا بلکہ یہاں تو یہ خلاف اور زیادہ قوی ہو جائے گا کیونکہ جب گناہ گار کو سزا دینا رحم کے خلاف ہے تو بے گناہ کو سزا دینا سراسر ظلم ہو گا پھر سمجھ میں نہیں آتا عیسائی بے گناہ مسیح علیہ السلام کو سزا دینے کا اعتقاد کیوں رکھتے ہیں؟
کفارہ صرف عیسائیوں کا ہوا یا تمام بنی آدم کا
اس کے علاوہ میں دریافت کروں گا کہ مسیح کا مصلوب ہو کر (معاذ اللہ) لعنت کی موت مرنا تمام بنی آدم کا کفارہ کہو تو سب کی نجات ہو گی۔ اب عیسائیت قبول کرنے کی کیا ضرورت رہی۔ کوئی مسیحی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا مسلمان، جب تمام بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا تو مسیحیت بالکل بے معنی اور غیر ضروری ہو گئی۔ آپ بلا وجہ کروڑوں روپیہ صرف کر کے عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس دردِ سر میں مبتلا ہیں اور اگر صرف عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ہوا تو غیروں کے گناہوں کا کیا ہو گا۔ سزا ملے گی یا معافی؟ جس کو بھی اختیار کرو گے وہی اعتراض وارد ہو گا کہ سزا کی صورت میں رحم نہ رہے گا اور معافی کی صورت میں عدل کا خاتمہ ہو جائے گا اور حسب سابق دوبارہ کفارہ کے لئے یسوع مسیح کے بعد خدا کے دوسرے بیٹے کی ضرورت ہو گی پھر اس کفارہ پر بھی یہی اشکال وارد ہو گا جسکو حل کرنے کے لئے تیسرے کفارہ کا قول کرنا پڑے گا اور اس طرح نہ کفارے ختم ہوں گے نہ خدا کے بیٹے۔ ایسی صورت میں تمام بنی نوع انسان کے لئے یسوع مسیح کا نجات دہندہ ہونا باطل قرار پائے گا اور عیسائیت بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
کفارہ کا نظریہ انتہائی خطرناک ہے
کفارہ کا نظریہ بجائے خود مضحکہ خیز ہونے کے علاوہ بنی نوع انسان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس لئے کہ کفارہ پر ایمان لانے کے بعد انسان خواہ کتنے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کے دل میں سزایابی کا تصور نہیں آ سکتا کیونکہ اس قسم کا تصور کفارہ پر ایمان لانے کے قطعاً منافی ہے۔ جب گناہوں اور جرائم کی سزا کا تصور بھی جرم و گناہ قرار پایا تو بنی نوع انسان کا کسی قسم کے جرم و گناہ سے محفوظ رہنا ممکن نہیں رہا بلکہ دنیا کا کوئی گناہ اس صورت میں گناہ نہیں رہتا کیونکہ گناہ وہی کام ہو سکتا ہے جس پر کوئی سزا ہو سکے۔ جب سزا کا تصور نہ رہا تو گناہ اور معصیت کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ چلو چھٹی ملی، نہ قتل و غارت پر کوئی پکڑ رہی، نہ ظلم و جور پر کوئی گرفت، زنا، چوری، حرام خوری سب کچھ کئے جایئے۔ کسی کو پوچھنے کا حق نہیں کہ تونے یہ کام کیوں کیا؟
اس اعتقاد کے بعد عیسائیوں کا اپنی حدود مملکت میں جرائم کے لئے سزاؤں کے قوانین وضع کرنا عیسائیت کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
قرآن کا توراۃ و انجیل کی تصدیق کرنا موجودہ توراۃ و انجیل کے غیر محرف ہونے کی دلیل نہیں ۔
اسلام جس طرح انبیاء سابقین علیہم السلام کی عزت و عظمت کا ضامن ہے اسی طرح کتب سماویہ کا بھی مصدق ہے اور تورات و انجیل کا نام لے کر قرآن نے ان کی تصدیق کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی تحریفات بھی اس تصدیق کے ماتحت ہیں کیونکہ قرآن کریم نے اہل کتاب کی تحریفات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے ’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ‘‘ (مائدہ: ۱۳) دوسری جگہ فرمایا ’’وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (بقرۃ: ۴۲) اس کے علاوہ دیگر آیاتِ قرآنیہ میں بھی یہ مضمون وارد ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی اس تحریف کے سامنے جب تورات و انجیل کی قرآنی تصدیق کو رکھا جائے تو صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم نے اصل تورات و انجیل کی تصدیق کی ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تحریفات کی ہرگز تصدیق نہیں کی۔ البتہ ان کی تحریفات کے واقعی تحریفات ہونے پر ضرور مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے۔
حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کا جزو نہیں بلکہ نورِ ذات کا جلوہ ہیں
آخر میں یہ مسئلہ بھی صاف کر دوں کہ حضور ﷺ کو خدا کے نور سے مخلوق ماننے کا یہ مطلب نہیں کہ (معاذ اللہ) حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کا جزو ہیں بلکہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے نورِ ذات کا جلوہ ہیں بلا تشبیہ جس طرح آئینہ میں سورج کی روشنی اس کے انوار کا جزو نہیں ہوتی بلکہ ایک تجلی ہوتی ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ نورِ ذات کی تجلی اور اس کا جلوہ ہیں۔ حضور ﷺ نے خود فرمایا ’’انا مراۃ جمال الحق‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے جمال کا آئینہ ہوں۔ البتہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقانیم ثلاثہ میں سے ایک اقنوم مانتے ہیں اور ’’اب وابن وروح القدس‘‘ تینوں کو اجزاء قرار دے کر ان کے مجموعہ کو خدا کہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خدائے قدوس کے لئے اس کے نورِ ذات کا جلوہ ماننا اسلام ہے اور اس کے لئے جز ثابت کرنا عیسائیت ہے۔
پڑھ کر بہت خوشی ہوئ۔
ReplyDeleteمزید توقعات کی امید رکھتا ہوں۔ الھم زد فزد آمین
ReplyDelete