Friday, 18 December 2015

نبی کریم ﷺ کی نعلینِ پاک اور نقش نعلین پاک کے فضائل و برکات

نبی کریم ﷺ کی نعلینِ پاک اور نقش نعلین پاک کے فضائل و برکات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین پاک استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان نعلین پاک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ ان بابرکت نعلین پاک کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
أخرج إلينا أنس نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البُناني بعد عن أنس : أنهما نعلا النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2940
بخاري، الصحيح، 5 : 2200، کتاب اللباس، رقم : 5520
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 177، رقم : 6269 - 6270
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 312، رقم : 5520
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 83، باب في نعل رسول الله، رقم : 78
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک ہیں۔‘‘
2۔ ایک دفعہ حضرت عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے پوچھا کہ ’’میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فإنی رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يلبس النعل التي ليس فيها شعر و يتوضأ فيها فأنا أحب أن ألبسها.
بخاري، الصحيح، 1 : 73، کتاب الوضوء، رقم : 164
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 84، باب فی نعل رسول اﷲ، رقم : 79
بخاري، الصحيح، 5 : 2199، کتاب اللباس، رقم : 5513
مسلم، الصحيح، 2 : 844، کتاب الحج، رقم : 1187
ابوداؤد، السنن، 2 : 150، کتاب المناسک، رقم : 1772
ابن حبان، الصحيح، 9 : 79 : رقم : 3763
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 287، رقم : 1272
بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 37، رقم : 8762
شافعی، السنن المأثوره، 1 : 373، رقم : 503
مالک، المؤطا، 1 : 333، رقم : 733
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 66، 110، رقم : 5338، 5894
ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 74
زرقانی، شرح المؤطا، 2 : 331
مزی، تهذيب الکمال، 19 : 194، رقم : 3709
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں وضو فرماتے تھے لہٰذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
3۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔119)‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی بابت ابوبکر احمد بن امام ابو محمد عبداللہ بن حسین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
و نعلٍ خضَعْنا هيبةً لِبَهائِها
و إنَّا متی نَخضَع لها أبدًا نعلو
فَضَعْها علي أعلَی المَفارِق إنها
حقيقَتُهَا تاجٌ و صورتُها نعلٌ
(ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بلند ترین جگہ پر رکھو کیونکہ درحقیقت یہ (سَر کا) تاج ہیں اگرچہ دیکھنے میں جوتے ہیں۔)
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 470
جب امام فخانی نے پہلی مرتبہ نعلین پاک دیکھے تو بے ساختہ پکار اٹھے :
وَ لو قيل للمجنونِ لَيلیٰ و وَصْلُها
تُريدُ أمِ الدنيا و ما فی زوايها
لقال غُبارُ من ترابِ نِعالها
أحبُّ إلی نفسی و الشفاء لِی بَلائها
(اور اگر لیلیٰ کے مجنوں سے پوچھا جاتا کہ تو لیلیٰ سے ملاقات اور دنیا کے مال و زر میں سے کس چیز کو ترجیح دے گا؟ تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا : ’’اس کی جوتیوں سے اٹھنے والی خاک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اس کی مصیبتیں رفع کرنے کے لئے سب سے بہترین علاج ہے۔‘‘)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء متقدمین و متاخرین نے نعلینِ پاک کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں مثلاً :

امام شہاب الدین احمد مقری ولیہ الرّحمہ نے ’فتح المتعال فی مدح النعال‘ نامی کتاب لکھی۔
علاّمہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے ’نیل الشفاء بنعال المصطفے‘ نامی رسالہ لکھا جو کہ ان کی کتاب ’زاد السعید‘ میں پایا جاتا ہے۔
علاّمہ محمد زکریا کاندھلوی بانی تبلیغی جماعت دیوبندی لکھتے ہیں :

’’نعل شریف کے برکات و فضائل مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ ’زاد السعید‘ کے آخر میں مفصل مذکور ہیں جس کو تفصیل جاننا مقصود ہو، اس میں دیکھ لے۔ مختصر یہ کہ اس کے خواص بے انتہا ہیں، علماء نے بارہا تجربے کئے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے، ظالموں سے نجات اور لوگوں میں ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے، غرض اس کے توسل سے ہر مقصد میں کامیابی ہوتی ہے، طریقِ توسل بھی اسی میں مذکور ہے۔‘‘
نقشِ نعلین پاک کی آزمائی ہوئی فوائد و برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو حصولِ برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیاطین کے شر اورہر حاسد کی نظرِ بد سے حفاظت میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدت دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقش پاک کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نظرِ بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے۔
نقشِ نعلین پاک کے حوالے سے امام ابن فہد مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا، جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
مصر کے ایک فاضل ادیب علامہ شرف الدین طنوبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقش نعلین پاک کے فوائد و برکات کا تذکرہ بڑے ہی محبت بھرے اندازکے ساتھ اپنے ان اشعار میں کیا ہے۔
يا عاشقاً نعل الحبيب وما رأی
تمثالها هنيت بالتمثال
’’اے عاشقِ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے نعل حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کا نقشِ پاک مبارک ہو۔‘‘
ضعه علی خديک ثم علی الحشا
و عليه و إلی الثمک المتول
’’(اے عاشق) اسے اپنے رخسار پر رکھ پھر اسے اپنے پہلو پر رکھ اور اسے اپنے چہرے اور (آنکھوں پر) لگا کر (اظہارِ محبت و عقیدت کر)‘‘
واعکف عليه عسی تفوز بيُمنه
فالسر قد يسری إلی الأشکال
’’نقشِ نعل پاک کے ساتھ تعلق کو پختہ کر یقینا اس کی برکت سے تجھے کامیابی حاصل ہو گی اور خوش ہو جا کہ اس کے ذریعہ تیری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔‘‘
واجعل جبينک فوقه متبرکا
تحوی الفخار و غاية الأمال
’’اپنی جبیں نیاز کو حصول برکت کے لئے نقش نعلین پاک پر جھکا دو، یہی تیرے لئے باعث افتخار ہے اور تمام امیدوں کا بر آنا اس میں پنہاں ہے۔‘‘
واذکر حبيبک إذ بدت آثاره
وکأنه بذل العلی بوصال
’’اپنے محبوب (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو یاد کر جب تو اُن کے آثار کو پائے گویا ان آثار کو پانا ہی بلند مرتبہ اور وصالِ (حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘
إن غاب عنک ولو تعاين شکلها
فاعطف علی تمثالها المتعال
’’اگر تیرے پاس نعلینِ پاک نہ ہو تو اس کے نقش کا تصور کر سکے تو (یہ تمہارے لئے بہتر ہے، لہٰذا) تو اس کے عظیم نقش سے محبت کا اظہار کر۔‘‘
أکرم بتمثال تزايد يُمنه
روت الثقات له جميل فعال
’’نعلین پاک کے نقش کے ساتھ اظہارِ محبت کر اس سے برکات میں اضافہ ہو گا اور مستند علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔‘‘
إن أمسکته حامل بيمينها
رأت الخلاص به و حسن خصال
’’اگر نعلین پاک کا نقش کوئی حاملہ عورت اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اس سے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی اور نیک خصلت والا بچہ پیدا ہو گا۔‘‘
أو من به داء لأصبح ناقها
من ضر أوجاع ومن أوجال
’’اسی طرح اگر کوئی خاتون کسی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کے صدقے سے اس کا درد اور بے چینی دور ہو جائے گی۔‘‘
أو کان فی جيش لأصبح ظاهرا
أو منزل لنجا من الإشعال
’’اور اس طرح اگر وہ نقش کسی لشکر کے پاس ہو تو وہ (دشمن پر) غالب آ جائے گا اور اگر یہی نقش کسی گھر میں ہو تو وہ گھر آگ لگنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
وبه الأمان من العدو بنظرة
والسحر والشيطان ذی الإضلال
’’اور یہی نقش دشمن، نظرِبد، جادو اور گمراہ کرنے والے شیطان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ بنتا ہے۔‘‘
والأمن من غرق ومن باغ ومن
کيد الحسود و سارق ختال
’’اور اسی کی برکت سے انسان ڈوبنے سے، ظالم کے ظلم سے، حاسد کے حسد اور چور کے فریب سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘
فيه تمسک بالحبيب المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم
فعسی به تنجو من الأهوال
’’ اس نقش کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق حبی مضبوط ہوتا ہے اور یقیناً اسی کے ذریعے خطرات سے نجات ملتی ہے۔‘‘
لا يستوی قلب المعذب فی الهوی
لواعج الأدواء و قلب الخال
’’محبت میں گرفتار دل جس کا علاج عشق کی دوا سے کیا جاتا ہے اور محبت سے خالی دل کبھی برابر نہیں ہوتے۔‘‘
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 404، 405
برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بعض واقعات و مشاہدات جن کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں بیان کیا ہے، درج ذیل ہیں :
1۔ شدید درد کا ازالہ
ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ بہت بڑے عالم با عمل اور متقی و پرہیزگار شخص تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک طالب علم کو نعلین پاک کا نقش بنوا دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے گذشتہ رات اس نقش کی ایک حیران کن برکت کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کونسی ایسی عجیب برکت دیکھی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری اہلیہ کو اچانک اتنا شدید درد ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھی پس میں نے نعلین پاک کا یہ نقش اس کے درد والی جگہ پر رکھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی :
’’اللّٰهُمَّ أرِنَا بَرکَة صاحب هٰذا النَعلِ‘‘
’’اے اللہ! آج ہم پر صاحبِ نعل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی برکت و کرامت ظاہر فرمادے۔‘‘
اس طالب علم نے بیان کیا کہ پس اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کو فوراً شفا عطا فرمائی۔
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 466، 467
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 469
2۔ مفتی محمد قصار المغیشی حادثہ میں محفوظ رہے
شہر فاس کے مفتی شیخ محمد قصار کے بچپن کا واقعہ ہے جس کو ثقہ اہل علم نے بیان کیا ہے : وہ یہ کہ بچپن میں مفتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اپنے بعض رشتہ داروں کے ساتھ اپنے گھر کے نچلی منزل میں بیٹھے تھے۔ یہ بھی شہر فاس کی دیگر عام عمارتوں کی طرح ایک بڑی عمارت تھی جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اونچے کمرے تھے۔ ان لوگوں کے سروں کے عین اوپر دیوار پر نقشِ نعلین پاک اس قدر بلندی پرلگا ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہو تو وہ سر کے برابر ہو۔ اللہ کی شان اوپر والی منزل نچلی منزل پر گر گئی اور پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ لوگوں نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کی موت کا یقین کر لیا اور ایک دن سے زائد وہ ملبے تلے دے رہے۔ ایک دن کے بعد لوگ کفن دفن کی غرض سے ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ان تک پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نیچے دبے ہوئے جملہ افراد نقشِ نعلینِ پاک کی برکت سے زندہ و سلامت ہیں اور انہیں کوئی گزند تک نہیں پہنچی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ تھا کہ وہ اس جان لیوا حادثہ میں بال بال بچ گئے، ہوا یوں کہ جب اوپر والی دیوار گرگئی تو وہ ان پر مانند خیمہ ٹھہر گئی۔ دیوار کا اوپر والا حصہ اس جگہ سے جا لگا جس کے نیچے نعلین پاک تھا اور نچلا حصہ زمین میں کھڑا ہو گیا جس کے بعد مٹی پتھر وغیرہ پہاڑ کی طرح اوپر سے نیچے گرتے رہے، یہ لوگ اس کے نیچے محفوظ رہے۔ یوں اللہ سبحانہ و تعالی نے نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کو ہر قسم کی تکلیف اور نقصان سے اپنی حفاظت میں رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال، 470، 471
3۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی کا مشاہدہ
1۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال نصف رمضان کو مجھے ایک پھوڑا نکل آیا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے اس کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف لاحق ہوئی۔ میں اس مرض کے ماہر اطباء اور جراح کے پاس گیا مگر کوئی بھی اس تکلیف کو سمجھ سکا اور نہ کوئی اس کا علاج تجویز کر سکا۔ مجھے شدت تکلیف نے بے چین کیا ہوا تھا۔ پھر جب اچانک مجھے اس نقشِ نعلِ پاک کے فضائل و برکات یاد آئے تو میں نے اس نقش کو جائے تکلیف پر رکھا اور دعا کی :
اللّٰهُمَّ إنِّی أسئلُکَ بِحَقّ نَبِيّکَ مُحَّمَد صلی الله عليه وآله وسلم مَن مشی بالنعل أن تُعَافِينی مِن هٰذا المرض يا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
’’اے اللہ! تجھ سے تیرے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں جو کہ اس نعل مبارک میں چلتے رہے ہیں جس کا یہ نقش ہے۔ اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے پروردگار! مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما۔‘‘
وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے ایک دن کے اندر ایسا افاقہ ہوا گویا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
2۔ اسی طرح ان کی ایک بچی تھی جس کی آنکھیں ایسی خراب ہوئیں کہ اطباء اسکے علاج سے عاجز آگئے ایک دن اس بچی نے ان سے کہا : میں نے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعل پاک کے نقش کے بہت زیادہ فوائد و برکات ہیں مجھے بھی لاکر دیں، پس انہوں نے اس کو نقش مبارک دیا، اس بچی نے نقش کو اپنے آنکھوں پر رکھا تو نقش نعلین پاک کی برکت سے اس کی آنکھوں کی بیماری ختم ہوگئی۔
4۔ امام مقری کا مشاہدہ
1۔ صاحب فتح المتعال امام مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس نقشِ پاک کی فوائد و برکات کا میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ہوا یوں کہ میں ذیقعدہ شریف 1027ھجری کو غرب جزائر میں ایک بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ دریا خوب طغیانی پر تھا۔ سیلاب کے ایک تیز ریلے کے ساتھ جہاز کے کئی تختے ٹوٹ گئے، ہم سب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے اور تمام لوگ اپنی نجات سے مایوس ہوگئے اور موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے کہ میں نے جہاز کے کپتان کے پاس نقش نعلین بھیجا کہ اس کی برکت سے خیر کی امید رکھے چنانچہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر کرم فرمایا اور ہمیں صحیح و سلامت پار لگا دیا اور اسے سمندری سفر کے ماہرین نے بڑی کرامت کی نشانی شمار کیا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 472
2۔ اسی سفر کے دوران راستے میں ایک مقام پر ڈاکوؤں کا قبضہ تھا جو لوگوں کو لوٹتے تھے ان کے پاس بہت سارا اسلحہ اور کثیر لوگ تھے۔ اللہ نے ہمیں اس نقشِ پاک کی برکت سے ان کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور ہم مدینہ منورہ میں صحیح سالم پہنچ گئے۔
3۔ اسی طرح ایک دن ہم دریا میں سفر پر تھے کہ سامنے ایک بہت بڑا پتھر ظاہر ہوا کہ اگر ہماری کشتی اس سے ٹکرا جاتی تو پاش پاش ہو جاتی۔ ہماری کشتی اس پہاڑی نما غار میں گھس گئی۔ اس پتھر نے ہمیں آگے پیچھے دائیں بائیں سے اس طرح گھیر لیا کہ اس پتھر اورہماری کشتی کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت دریا کی موجیں پورے جوبن پر تھیں۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اب تو ہماری کشتی ضرور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تباہ ہو جائے گی۔ پس ہم نے نقش نعلین کے ساتھ توسل کیا تو اللہ نے ہمیں اس مشکل سے رہائی عطا فرمائی۔
4۔ اسی طرح مجھ سے ایک ثقہ شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ اسے ایک شدید مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ نقشِ نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرو، اس نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا اور وہ اس کی برکت سے شفایاب ہوگیا۔
5۔ اسی طرح یہ بھی مجھے بعض قابلِ اعتماد احباب نے بتایا کہ انہوں نے کئی دفعہ ایسے ممالک کا سفر کیا جن کے راستوں پر چوروں، رہزنوں کا ہر وقت خوف رہتا تھا اور عام طور پر ان کی لوٹ مار سے کوئی بھی مسافر نہیں بچتا تھا مگر چونکہ ان کے پاس نقشِ نعلینِ پاک تھا کئی مرتبہ ان کاسامنا چوروں کے ساتھ ہوا لیکن اس نقش کی برکت سے اللہ نے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 474 - 475
اس بحث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان مغحدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور (ﷺ)
تو پھر کہیں گے کہ ہاں، تاجدار ہم بھی ہیں

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...