Thursday 31 December 2015

حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے

1 comments
حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
’نماز کیا ہے؟‘ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ یہ بندۂ مومن کا اپنے خالق و مالک اور پروردگار کی بارگہ بے کس پناہ میں اپنی عبودیت اور اس کے ذکر کا ایسا اَرفع اِظہار ہے، جو رب ذوالجلال کی نگاہ میں غایت درجہ حسین اور اسی قدر اُسے پسند ہے۔ تاجدارِ کائنات  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اَقدس کے مطابق ’نماز دین کا ستون ہے‘ گویا نماز نہ ہو تو دین بے بنیاد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دین کی عمارت کو قائم رکھنے اور منہدم ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے نظام صلوٰۃ کا قیام ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ہر دور میں ہر اُمت پر فرض رہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز کے فیوض و برکات اور فوائد و حسنات دنیا و آخرت کے لحاظ سے بے پناہ ہیں لیکن اس کے حقوق یا تقاضے بھی متعدد ہیں، جن کو پورا کیے بغیر نماز بے اثر رہتی ہے۔

نماز نہ صرف اِنفرادی بلکہ اِجتماعی عبادت ہے اور اِقامتِ صلوٰۃ ایک بندہ مومن کی جب کہ مسجد مسلم معاشرے کی شناخت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ مومن اور کافر کے مابین فرق صرف نماز کا ہے۔ لہٰذا حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نظامِ صلوٰۃ کا قیام لازمی ہے اور جس معاشرے میں یہ نظام اپنی روح اور تمام تر تقاضوں کے ساتھ قائم کر دیا جائے وہ معاشرہ عرفانِ خدا و معرفتِ نفس، علم و حکمت، اُخوت و محبت، آزادی و مساوات، عدل و اِحسان، ایثار و قربانی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔