غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم
ایک نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔
اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوئے:إنّ صاحبکم لتُغَسّله الملائکة يعني حنظلة، فسألوا أهله : ماشأنه؟ فسئلت صاحبته فقالت : خرج و هو جنب حين سمع الهائعة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لذالک غسلته الملائکة، وکفي بهذا شرفاً و منزلة عنداﷲ تعالٰي.
ترجمہ:تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کے لئے یہی کافی ہے۔(ابن اثير، اسد الغابة، 2 : 286)(حاکم، المستدرک، 3 : 225، رقم : 34917
ابن حبان، الصحيح، 15 : 495، رقم : 47025)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 15، رقم : 56605
ابن اسحاق، سيرة، 3 : 6312)(ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 723)(ابن کثير، البدايه والنهايه(السيرة)، 4 : 821)(حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 9525)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 1069)(ابو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 11110)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 357)
اسی جذبے کے احیاء کی آج پھر ضرورت ہے۔ اگر ہم جوان نسل میں کردار کی پاکیزگی، تقدس اور ایمان کی حلاوت نئے سرے سے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان میں اس تعلقِ عشقی کو کوٹ کوٹ کر بھرنا ہوگا۔
غزوہ اُحد میں ایک نوجوان صحابی شہید ہوئے جن کا نام حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ تھا.. ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا.. آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے فدا کار اور مخلص مومن تھے.
ان کا والد "ابوعامر" بھی رئیس المنافقین "عبداللہ بن ابیّ" کی طرح قبیلے اور بستی کا ایک معروف آدمی تھا.. وہ عیسائی راہب بن گیا تھا اور اس کی علمی وجاہت اور زہد و تقوٰی کا بڑا چرچا تھا.. اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی چالاکی سے خود کو بڑا درویش ثابت کرکے جہلاء پر اپنا مذہبی تقدس اور رعب قائم کر رکھا تھا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد پر جس طرح عبداللہ بن ابیّ آپکا دشمن بن گیا , اسی طرح ابوعامر راہب بھی آپ کا بدترین دشمن بن گیا.
یہی شخص ہے جس کی سازش سے مدینہ میں مسجد ضرار تعمیر کی گئی تھی.. اسی نے غزوہ اُحد میں وہ گڑھے کھدوائے تھے جن کو گھاس پھوس سے ڈھانپ دیا گیا تھا.. انھی میں سے ایک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر کر زخمی ہو گئے تھے.. جنگِ حنین تک جتنی لڑائیاں ہوئیں , سب میں اس دشمنِ اسلام ابوعامر نے کفار و مشرکین کو اشتعال دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا.. فتح مکہ کے بعد یہ سر زمینِ عرب سے مایوس ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے روم جا پہنچا.. قیصرِ روم کو غزوہ تبوک کے موقع پر عرب پر حملہ کرنے کے لیے بھی اسی نے تیار کیا تھا.. اس بدبخت انسان کے گھر میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جیسا سپوتِ اسلام پیدا ہوا..
غزوہ اُحد میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھاگ کر صفوں کے پیچھے چھپ گیا.. پھرآپ رضی اللہ عنہ نے سردارِ قریش ابوسفیان (جو فتح مکہ پر مسلمان ہو گئے تھے) پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ قتل کر دیتے.. آپ نے ان کے گھوڑے کی ٹانگ کاٹ دی.. گھوڑا اور سوار دونوں گرگئے.. آپ سردارِ قریش ابوسفیان کو قتل کیا ہی چاہتے تھے کہ ان کے محافظین آگے بڑھے اور شداد بن اسود نے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا..
جنگ کے بعد جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا جسدِ اطہر اٹھایا جا رہا تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تازہ پانی کے قطرے ان کے بالوں سے گرتے دیکھے.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ منظر بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اس کے گھر والوں سے معلوم کرو.
معلوم ہوا کہ جنگ سے پہلی رات حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی شبِ عروسی تھی.. اعلانِ جہاد سنتے ہی وہ میدان جنگ کی طرف لپکے کہ مبادا پیچھے رہ جائیں.. غسلِ جنابت فرض تھا لیکن اس خیال سے کہ سبقت الی الجنة سے محروم نہ رہ جائیں ، تیزی سے شریکِ جہاد ہو گئے.. ان کی اہلیہ جمیلہ رضی اللہ عنہا بنت ابیّ (رئیس المنافقین کی ہمشیرہ) مخلص صحابیہ تھیں.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرشتوں نے حنظلہ رضی اللہ عنہ کو جنت کے پانی سے غسل دیا ہے.. اسی لیے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ "غسیل الملائکہ" کہلائے(البدایہ والنہایہ)
حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔
اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوئے:تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کے لئے یہی کافی ہے۔
(ابن اثير، اسد الغابة، 2 : 286)(حاکم، المستدرک، 3 : 225، رقم : 34917)(ابن)(حبان، الصحيح، 15 : 495، رقم : 47025)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 15، رقم : 56605)(ابن اسحاق، سيرة، 3 : 6312)(ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 723)(ابن کثير، البدايه والنهايه(السيرة)، 4 : 821)(حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 9525)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 1069)(ابو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 11110)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 357)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment