٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتبِ حدیث و سیر میں درج ہے کہ قبل از اسلام کفار و مشرکین نے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑتے ہی ایمان کی روشنی دل میں اترگئی اور وہ عرض گزار ہوئے : آقا! اب واپس جانے کو جی نہیں چاہتا، مجھے اپنے قدموں میں ہی رہنے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، آدابِ سفارت کا تقاضا ہے کہ تم واپس جاؤ۔ تم ایک سفیر کی حیثیت سے میرے پاس آئے تھے اور سفیر کو روکنا مجھے گوارا نہیں، اس لئے واپس لوٹ جاؤ۔ چنانچہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی تعمیل میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے، لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ واپس آ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ عاطفت میں پناہ لے لی۔
وہ فرماتے ہیں :
بعثتنی قريش إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلمّا رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ألقي في قلبي الإسلام، فقلت : يا رسولَ اﷲ! إني، و اﷲ! لا أرجع إليهم أبداً، فقال رسول اﷲ : إني لا أخيس بالعهد، و لا أحبس البرد، و لکن ارجع، فإن کان في نفسک الذي في نفسک الآن، فارجع.
’’مجھے قریش نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو اِسلام نے میرے دل میں گھر کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزاری : یارسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! اب لوٹ کر کفار کی طرف نہیں جاؤں گا (بلکہ ساری زِندگی آپ کے قرب میں گزار دُوں گا۔) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عہد کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا اور نہ سفیر کو اپنے پاس روکے رکھنا میرے طریق میں سے ہے۔ اِس وقت لوٹ جاؤ، اگر محبت کا یہی عالم برقرار رہا تو پھر واپس چلے آنا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، 3 : 82، کتاب الجهاد، رقم : 22758
نسائي، السنن الکبري، 5 : 205، رقم : 37486
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 48
ابن حبان، الصحيح، 11 : 233، رقم : 54877
حاکم، المستدرک، 3 : 691، رقم : 66538
طحاوي، شرح معاني الآثار، 3 : 7318
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 323، رقم : 8963
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 145، رقم الباب : 9124
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 393، رقم : 1630
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اپنی داستانِ وفا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اُس وقت میں واپس لوٹ آیا لیکن کفار و مشرکین میں میرا جی نہ لگتا تھا، پھر میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اِسلام لے آیا۔
بعثتنی قريش إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلمّا رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ألقي في قلبي الإسلام، فقلت : يا رسولَ اﷲ! إني، و اﷲ! لا أرجع إليهم أبداً، فقال رسول اﷲ : إني لا أخيس بالعهد، و لا أحبس البرد، و لکن ارجع، فإن کان في نفسک الذي في نفسک الآن، فارجع.
’’مجھے قریش نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو اِسلام نے میرے دل میں گھر کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزاری : یارسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! اب لوٹ کر کفار کی طرف نہیں جاؤں گا (بلکہ ساری زِندگی آپ کے قرب میں گزار دُوں گا۔) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عہد کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا اور نہ سفیر کو اپنے پاس روکے رکھنا میرے طریق میں سے ہے۔ اِس وقت لوٹ جاؤ، اگر محبت کا یہی عالم برقرار رہا تو پھر واپس چلے آنا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، 3 : 82، کتاب الجهاد، رقم : 22758
نسائي، السنن الکبري، 5 : 205، رقم : 37486
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 48
ابن حبان، الصحيح، 11 : 233، رقم : 54877
حاکم، المستدرک، 3 : 691، رقم : 66538
طحاوي، شرح معاني الآثار، 3 : 7318
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 323، رقم : 8963
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 145، رقم الباب : 9124
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 393، رقم : 1630
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اپنی داستانِ وفا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اُس وقت میں واپس لوٹ آیا لیکن کفار و مشرکین میں میرا جی نہ لگتا تھا، پھر میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اِسلام لے آیا۔
No comments:
Post a Comment