ایک یہودی عالم اور حسرتِ دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد کسی ایک جمعرات کی صبح کو ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک سفید ریش بوڑھا آیا۔ اس نے اپنی سواری کو مسجد کے دروازے پر باندھا اور یہ کہتے ہوئے اندر داخل ہوا :
السلام عليکم و رحمة اﷲ! هل فيکم محمد رسول اﷲ؟
’’تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت نازل ہو، کیا تم میں اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔‘‘
ابن عساکر، تاريخ، 1 : 342
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
أيها السائل عن محمد (صلی الله عليه وآله وسلم)! ماذا تريد منه؟
’’اے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھنے والے! تجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کام ہے؟‘‘
اس نے کہا کہ میں یہودی علماء میں سے ہوں اور اَسی (80) سال سے تورات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور میں اس ذکر سے متاثر ہو کر آیا ہوں۔ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
و قد جئتُ أطلب الإسلام علی يده.
’’اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کیلئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو وصال ہو چکا ہے۔ اس پر اس عالم نے افسوس کا اظہار شروع کر دیا اور کہا :
هل فيکم قرابة محمد؟
’’کیا تم میں ان کی اولاد ہے؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس لے جاؤ۔ وہاں جا کر اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں میں سے کسی کپڑے کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت سیدۂ عالم رضی اﷲٰ عنہا نے اپنے شہزادے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا :
هاتِ الثوب الذی توفی فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجآء، فأخذه الحبر و ألقاه علي وجهه وجعل يستنشق ريحه، و يقول : بأبي و أمي من جسد نشف فيه هذا الثوب.
’’وہ کپڑا لاؤ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقتِ وصال پہنا ہوا تھا۔ جب وہ کپڑا لایا گیا تو اس عالم نے اسے اپنے چہرے پر ڈال لیا۔ وہ اس کی خوشبو کو سونگھتا اور خوشبو سونگھتے ہوئے بار بار کہتا کہ اس صاحبِ ثوب پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا :
صف لی صفة رسول اﷲ حتی کأنی أنظر إليه.
’’حضور کے اوصافِ جمیلہ کا تذکرہ اس طرح کرو کہ گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
یہ بات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
فبکی علیّ بکاء شديداً و قال : واﷲ! لإن کنتَ مشتاقاً إلی محمد صلی الله عليه وآله وسلم فأنا أشوق إلی حبيبی منک.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ شدت کے ساتھ رو پڑے اور کہنے لگے : اے سائل خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا جس قدر تجھے اشتیاق ہے مجھے اس سے کہیں بڑھ کر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کا شوق ہے۔‘‘
ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 342، 343
بعد ازاں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ اور سراپا مبارک کا ذکر بڑی تفصیل سے فرمایا، جس کی من و عن تصدیق اس یہودی عالم نے سابقہ کتب سماوی کی روشنی میں کی اور مسلمان ہو گیا۔
No comments:
Post a Comment