Saturday 12 December 2015

اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ) اور تعریف بدعت

0 comments
اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ) اور تعریف بدعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔

شاطبی، الإعتصام، 2 : 111

علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔

بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة رقم : 3103
نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506
 شاطبي، الاعتصام، 2 : 115

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔