Sunday 29 October 2017

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اور ان پر اعتراضات کے جوابات

0 comments







































حضرت علی رضی اللہ کی کی شان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی

0 comments
حضرت علی رضی اللہ کی کی شان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی

رافضی شیعہ اور تفضیلی رافضی سنیوں کے لبادے میں چھپے ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایسے الفاظ پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انہوں نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں ہوں لیکن ہم یہاں ان کے ایسے الفاظ پیش کرتے ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی گئی ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنتے تھے اور لوگوں کو فرمائش کرتے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنائیں اگر برائی کرتے تو لوگوں سے ان کی برائی کرنے کو کہتے لیکن ایسی کو ئی روایت نہیں جس میں انہوں نے کسی کو کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برائی کریں ، بلکہ تعریف روایات ہیں اور بہت ہیں میں ان میں سے چند پیش خدمت ہیں ۔

ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد ۷ ص 129 پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول  نقل کرتے ہیں:علی رضی اللہ عنہ مجھ سے بہت بہتر تھے میں صرف ان مخالفت قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلہ پر کرتا ہوں اگر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لیں تو شامیوں میں سے سب سے پہلے میں ان کی بیعت کرلوں گا ۔

ضرار بن ضمرہ ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ نے اس کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوبیاں بیاں کرو اس نے کہا جب آپ تبسم فرماتے تو گویا موتی جھڑتے تھے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کچھ اور بیان کرو ضرار بولا علی رضی اللہ عنہ پر اللہ رحم فرمائے وہ کم سونے والے زیادہ شب بیدار اور رات دن قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمانے لگے بس کرو ضرار خدا کی قسم علی رضی اللہ عنہ ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے (املی شیخ صدوق ص 371 ، حلیۃ الابرار جلد 1 ص 338)

حافظ ابن کثیر  اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ : ابن جریر بیان کیا ہے کہ جب  حضرت معاویہ رضہ کے پاس حضرت علی رضہ کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ رونے لگے آپ کی بیوی نے کہا  آپ اس پر روتے ہیں حالانکہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو جائے تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر علم ، فقہ و  فضل کو کھو دیا ہے ۔

ان روایات سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح ثابت ہوتی ہے ۔

سند أحمد .. أول مسند الكوفيين .. حديث زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه حدثنا ‏ ‏محمد بن بشر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏مسعر ‏ ‏عن ‏ ‏الحجاج ‏ ‏مولى ‏ ‏بني ثعلبة ‏ ‏عن ‏ ‏قطبة بن مالك ‏ ‏عم ‏ ‏زياد بن علاقة ‏ ‏قال ‏ :‏نال ‏ ‏المغيرة بن شعبة ‏ ‏من ‏ ‏علي ‏ ‏فقال ‏ ‏زيد بن أرقم ‏ ‏قد علمت أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كان ‏ ‏ينهى عن سب الموتى فلم تسب ‏ ‏عليا ‏ ‏وقد مات ‏
تخریج حدیث امام احمد
اس روایت میں حجاج بن ایوب مولی بنی ثعلبہ ایک مجہوں حال راوی ہے لہذا یہ روایت کسی صحابی پر الزام بازی کے لئے ہر گز استمعال نہیں ہوسکتی۔پھر  اس روای سے جو روایت ابن مبارک نے کی ہے وہی سند ہے  لیکن وہاں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ  امام احمد کی حدیث میں نال کے الفاظ ہیں (جس کی معنی شکایت کرنے کی ہیں ) اور اسی سند سے حدیث ابن مبارک میں پھر سب  امیر کا الفاظ ہیں چناچہ اسی ہی سند سے روایت کی گئی حدیث میں الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہین اس لئے یہ حدیث خود ہی اختلاف کا شکار ہے اور یہ اس کی ضعف پر دلالت ہے ۔
حدیث مستدرک ، طبرانی وغیرہ
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ثنا رجاء بن محمد العذري ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ثنا شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه أَنَّ المغيرة بن شعبة نَالَ : مِن عَلِيٌّ فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرةُ أَلمْ تَعلم أَن رسولَ اللَّه ﷺ : نهى عن سَبِّ الأَمْوَاتِ ؛ فَلِمَ تَسُبَّ عَلِيًّا وقد مَاتَ؟!”.
تخریج حدیث مستدرک وغیرہ
اس حدیث کی سند جو کہ شعبہ عن مسعر ہے اس میں اسی طرح اختلاف ہے
طبرانی حاکم وغیرہ نے اس حدیث تین مختلف سندوں سے  بیاں کیا ہے جو یہ ہیں
 فَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زياد بن عِلاَقَة ، عن عَمِّهِ ،[أن] المغيرة بن شعبة
وَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ مرةً ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زيادٍ ، عن المغيرة
وَرَوَاهُ جَمْعٌ ، عن مِسعر ، عن مَولَى بني ثعلبة ، عن عَمِّ زياد بن عِلاقة (یعنی قطبہ بن مالک)
اس حدیث کے بارے میں دارالقطنی علل 7/126 #1249 میں فرماتے ہیں

حديث شعبة عن مسعر وهم ، والآخران محفوظان
یعنی حدیث شعبہ عن مسعر مین عیب  پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سفیان اثوری سے روایت کی گئی حدیث میں سب کے الفاظ نہیں ہین جو کہ صحیح ہے اور اس تین سندوں میں بقول دارقطنی عیب ہے ۔
اس کے علاوہ راوی عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ کے بارے میں تقریب 8/8مین حافظ ابن حجر لکہتے ہیں ذكره ابن حبان فى كتاب ” الثقات ” ، و قال : ربما أخط یعنی ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ بہت غلطیان کرنے والا ہے

زیاد بن علاقہ کے بارے میں حافظ تقریب 3/381 میں لکہتے ہیں : سىء المذهب ، كان منحرفا عن أهل بيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم ۔
یع۔ی یہ بدمذہب تھے اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف تھے
اس حدیث کی جتنی سندیں مختلف اتنے ہی الفاظ بھی مختلف ہین چناچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایوں کی خطا شامل ہے
حدیث ابن المبارك اپنی المسند میں نقل کرتے ہیں ان سے پھر طبرانی معجم کبیر 5/168 (4975  حاکم  ابو نعیم وغیرہ نے ابن مبارک سے یہ روایت کی ہے 1/156(253) مستدرک میں ۔
ابن المبارك، ووكيع، عن محمد بن بشرٍ، عن مِسعر عن الحجَّاج مولى بني ثعلبة ،عن قُطْبة بن مالكٍ،قال: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الأُمَرَاءِ عَلِيًّا ، فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : أَمَا لقد عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ e نهى عن سَبِّ الْمَوْتَى فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وقد مَاتَ ۔
تخریج حدیث ابن مبارک
یہاں روایت  شعبہ کے بغیر عن مسعر عن مولی بنی ثعلبہ (حجاج بن ایوب) ہے اس میں پھر مغیرہ رضہ کا نام نہیں ہے بلکہ امیر کا لفظ ہے جس یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر مغیرہ تھے ۔
اور پھر حدیث ابن مبارک کے اسناد بھی ضعیف ہیں کیوں کہ اس میں ایک مجھول راوی ہے یعنی مولی بنی ثعلبہ حجاج بن ایوب .
اس سب سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ روایت راویوں کی خطا ہے اس لئے جتنی اسانید ہیں اتنے اختلاف ہیں پھر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو امام احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں نال مغیرہ یعنی مغیرہ نے شکایت کی یا پھر دوسری حدیث کے الفاظ ہیں سب مغیرہ یعنی مغیرہ نے تنقید کی ۔ ہو سکتا ہے حضرت مغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص نہ لینے  یا پھر فتنہ میں شامل ہونے پر ان پر تنقید کی ہو اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے انہیں یہ کہکر منع کیا کہ وہ وفات پا چکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر تنقید نہ کی جائے اس میں کوئی اسیی بات نہیں ہے کیوں کہ نہ تو اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گستاخی ہوتی اور نہ ان ٘مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ ان سے اختلاف کر رہے ہیں اس سے وہ گناہ گار نہین ہوتے  اور پھر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ فتنہ کے دوران الگ رہے تھے انہوں نے نہ تو علی رضی اللہ عنہ کو سپورٹ کیا تھا نہ ہی معاویہ رضہ کو سپورٹ کیا تھا اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں خاموش ہی رہتے تھے  جیسا کہ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ کوفیون کی شرارتیں وہ برداشت کر لیتے تھے اور ان پر سختی نہیں کرتے تھے

حدیث سنن ابوداود ۔کتاب السنہ باب خلفاء
حدثنا أبو كامل حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا صدقة بن المثنى النخعي حدثني جدي رياح بن الحارث قال كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل قال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير ۔
ریاح بن حارث کھتے ہیں کہ ہم ایک شخص کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے تھے اتنے میں سعید بن زید رضہ آئے ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کو بٹھایا گیا اس دوران اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کہتے ہیں برا بھلا کہنے لگا۔سعید بن زید رضہ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ حضرت علی رضہ کو برا بھلا کہ رہا ہے راوی کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بیٹھے تھے اس پر سعید بن زید نے ان کو زجروتوبیخ کی اور فرمایا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا اور ان کو روکتے نہیں ۔
یہ ابی داؤد کی روایت ہے اس میں میزبان کا نام نہیں لیکن مسند امام احمد کے مطابق یہ حضرت مغیرہ ہیں۔
اس روایت میں حضرت معاویہ کا دور تک زکر نہیں تو ان پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا جہالت ہے ۔
ابی داؤد میں ذکر نہیں کہ میزبا کون تھے تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ پر بہی الزام نہیں لگتا وہ کو ئی اور بہی ہوسکتا ہے۔بلکہ گمان یہی ہے کیوں کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے انہیں راوی جانتا ہوگا۔
مسند امام احمد میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے ۔ پر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واضع لکھا ہے کہ وہ کوفہ میں لوگوں سے نرمی برتتے تھے۔یہ شخص جس نے برا بھلا کہا قیس بن علقمہ تھا اور یہ خوارج میں سے تھا ۔ جس طرح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ شیعان علی رضی اللہ عنہ سے نرمی برتتے تھے بلکل ویسے دوسروں کے ساتھ بھی نرمی کرتے تھے ۔

روایت تاریخ طبری کے ص ۱۸۷ سے ۱۸۸ تک جلد ۴ ۔ ابو مخنف کی روایت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو دوسری باتوں کے ساتھ ان کو اس بات کی وصیت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑنا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی تعریف کرنا۔ آگے راوی کہتا ہے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بہیت اچھے آدمی تھے( کیوں کہ شیعوں سے نرمی برتتے تھے اس لئی راوی نے کہا آدمی اچھے تھے) لیکن وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے۔
اسی صفحہ پر اسی روایت کے آگے لکھا ہے کہ وہ کیا کہتے تھے : حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ان کے الفاظ یہ تھے ۔ یا اللہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیرے کتاب پر عمل کیا تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کی ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہو گئے۔یا اللہ ان کےدوستوں ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور انکے قاتلوں کے لئے بد عا کرتے  تھے۔
اس میں نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے کی بات ہے اور نہ ہی ان کے ساتھیوں کو۔ قاتلوں کو بد دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تو نہیں تھے کہ یہ بد دعا ان کے لئے ہو لیکن ان لوگوں کے لئے تھی جو خود کو شیعہ علی کہتے تھے کیوں کی یہی لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں ملوث تھے اس لئے جب حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہتے تو یہ لوگ بھڑک جاتے اور کہتے ” تم مجرموں کے لئے دعا کرتے ہو اور نیکوں کو بد دعا کرتے ہو۔ ” حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے استمال کئے گئے الفاظ کا مطلب آپ خود جائزہ لیں کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے جو شیعہ راویوں نے لیا ہے۔
وضاحت:حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ۔ اس کے الفاظ آگے راوی نے خود بتا دیئے یہ روی کا کہنا ہے کیوں کہ اکثر لوگ پہلے جملے کو پڑھ کر الزام تراشی کردیتے ہیں حالانکہ راوی نے خود ہی آگے الفاظ نقل کئے ہیں ، مطلب یہ کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے اور قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے ، اسے راوی نے ” حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔
اس روایت میں راوی شیعہ ہیں ابو مخنف  شیعہ خبیث ہے
دوسرا ھشام کلبی ہے جس کے بارے میں تمام علماء رجال کہتے ہیں  یہ امامی شیعہ اور جہوٹا تھا ۔
فضیل بن خدیج یہ اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے اور ابن حجر نے اسے مجہول کہا ہے۔
مروان بن  الحکم یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمزاد تھا ان کے والد الحکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حقیقی چچا تھے ۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کاتب تھا اور اسی کے قتل کے لئے باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سے مطالبہ کیا تھا ۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مدینہ میں گورنر تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کہہ کر پکارتے تھے حالانکہ بیچارے کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضو علیہ السلام نے خود دیا ہے پھر  راویوں نے تو یہاں تک غلو کیا ہے کہ یہ اگر حسنین رضی اللہ عنہما کو مسجد میں  نہ دیکھتے تو ان کے گھر جا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہ آتے لیکن یہ سب صرف غلو ہے ۔

صحیح بخاری میں باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ہے کہ : ان رجل جاء الی سھل بن سعد  فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منبر پر برائی کرتا ہے سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے اس نے کہا کہ انہیں ابو تراب کہتا ہے سہل رضی اللہ عنہ ہنس پڑے کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں یہ سب سے پیارہ تھا۔
یہ حدیث  مختلف جگہوں پر مختلف طریق سے حضرت سہل سے روایت ہے لیکن مفہوم بلکل یہی ہے ۔
اس میں کہیں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کا زکر نہیں ہاں حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے پو چھنے والے نے لفظ ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ) کو بھی برا ہی سمجھا (یعنی سب سے تعبیر کیا) تبھی آپ کو اکہ شکایت کی کیوں کہ اس کو پتا نہیں تھا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پیارہ نام جو رسول اللہ نے خود رکہا تھا یعنی یہ ان کی مناقبت میں سے ہے تبھی امام بخاری نے اس کو مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ذکر کیا ۔

اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ۸۸ یا ۹۰ ھجری میں وفات کر گئے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سہل بن سعد ، التہزیب الکمال میں لکہا ہے کہ صحابہ میں یہ آخری وفات کرنے والے ہیں ) مطلب حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو احادیث سب علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بنی مروان کے دور کی ہوںوہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابا تراب کہتے تھے جسے ناواقف لوگ برائی (سب) سے تعبیر کرتے تھے۔
اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ راویوں نے جو اکثر بھر مار کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کھنے کی وہ لفظ ابو تراب کی وجہ سے ہے۔ جس بعد کے لوگوں نے گالی سمجھ لیا۔

رافضی شیعوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کو چیلینج : ہم یہاں رافضی شیعوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کو چلینج کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ یا خطبہ صحیح روایات سے پیش کریں جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں ہو یا پھر آپ کی بیعزتی کی گئی ہو  یا پھر آپ پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاذاللہ لعنت کی ہو  آپ کے کسی گورنر کا ایسا خطبہ جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جی بھر کر برا بھلا کہا گیا ہو۔

اعتراض : چلو ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت معاویہ تنقید کرتے تھے لیکن حضو ر علیہ اسلام نے تو فرمایا ہے کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کی اس نے مجھ پر تنقید کی۔ روایت ایک مستدرک حاکم ج  س 122 3 ۔ احمد بن كامل القاضى ثنا محمد بن سعد العوفي ثنا يحيى بن ابى بكير ثنا اسرائيل عن ابي اسحاق عن ابي عبد الله الجدلي قال دخلت على ام سلمة رضى الله عنها فقالت لى ايسب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فيكم فقلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبني
یعنی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کیا جاتا ہے میں نے کہا معاذاللہ سبحان اللہ کیا کہتی ہیں آپ انہوں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا اس نے مجھ کو سب کیا ۔
اس روایت میں محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة العوفی جس کے بارے میں خطیب کہتے ہین کہ یہ ضعیف ہین حدیث مین  ،
دوسرے راوی ابی اسحاق عمرو بن عبد الله بن عبيد ہیں جس کے ابن عینیہ کہتے ہیں یہ تشیع کی طرف ہیں اور مدلس ہیں ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتے ہین ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مدلس ہیں اور یہ یہاں پر ابی عبداللہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئے تدلیس ممکن ہے یہاں پر ۔
تیسرے راوی ابی عبداللہ الجدلی ہین  جس کے بارے مین ابن سعد کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور ان میں شد ید شیعت پائی جاتی ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حاسد شیعہ ہے حافظ ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور شیعت میں سخت ہیں مختار کی پولیس کے رکن تھے۔

دوری روایت : أبو جعفر احمد بن عبيد الحافظ بهمدان ثنا احمد بن موسى بن اسحاق التميمي ثنا جندل بن والق ثنا بكير بن عثمان البجلى قال سمعت ابا اسحاق التميمي يقول سمعت ابا عبد الله الجدلي يقول حججت وانا غلام فمررت بالمدينة وإذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وآله فسمعتها تقول يا شبيب بن ربعى فأجابها رجل جلف جاف لبيك يا امتاه قالت يسب رسول الله صلى الله عليه وآله في ناديكم قال وانى ذلك قالت فعلي بن ابي طالب قال انالنقول اشياء نريد عرض الدنيا قالت فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبنى ومن سبنى فقد سب الله تعالیٰ ۔
جندل بن والق : البذار کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہیں ، ابو زرعہ الرازی کہتے ہیں کہ حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ غلطیاں کرتے ہیں اور حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں امام مسلم کہتے ہیں کہ متروک الحدیث (ترک کرنے کے لائق ہیں)
بکیر بن عثمان یہ راوی مجہوں الحال ہیں : ابو عبداللہ الجدلی کی بارے میں آپ پہلی روایت میں پڑھ آئے ہیں کہ اس کی حدیث حجت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ شیعت میں شدید بھی ہو اور بغض رکہنے والا بھی ہو۔پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی کوئی روایت ثابت نہیں جس میں انہون نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا ہو۔یہ روایت تقریبن ہر جگہ پر ابو عبداللہ الجدلی سے ہی روایت ہے جس کا حاسد شیعہ ہو نا سورج کی طرح صاف ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما پر سب و شتم کرواتے کا جواب

0 comments
حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما پر سب و شتم کرواتے کا جواب

رافضی شیعوں اور سنیت کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضہ کو برا بھلا کہتے تھے۔
سب و شتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے اور اس میں تنقید بھی شامل ہے۔  یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی۔
باغی راویوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت عائد کی ہے کہ ان کے زمانے میں وہ اور ان کے مقرر کردہ گورنر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے خطبہ کے دوران معاذ اللہ گالیاں دیا کرتے تھے۔  اس تہمت کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بنو امیہ کے خلاف نفرت پیدا کر کے اپنی پارٹی کے نوجوانوں کو مشتعل کیا جائے۔ اس تہمت کا جھوٹ صرف اتنی سی بات سے واضح ہو سکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی خطیب کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ حرکت کرے تو کیا سننے والے اسے چھوڑ دیں گے؟  ہمارے ہاں تو اس مسئلے پر بارہا کشت و خون کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس دور میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد موجود تھی اور ان کے زمانے میں یہ حرکت کی گئی تو کیا یہ حضرات معاذ اللہ ایسے غیرت مند تھے کہ انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس وقت ان کی غیرت کہاں چلی گئی تھی؟
کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آزادی اظہار کے اس دور میں اگر کوئی حکمران یہ رسم جاری کرے کہ جمعہ کے خطبوں میں منبر پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کے فوت شدہ راہنماؤں کو  گالیاں دی جائیں؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا اس طرح وہ حکمران بغیر کسی مقصد کے اپنے خلاف مزاحمتی تحریک پیدا نہ کرے گا؟ ہم کسی بھی ایسے حکمران کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے جس میں عقل کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر معمولی تدبر، حلم اور سیاست کو  ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ کی جس آگ کو انہوں نے اپنے حلم اور تدبر سے ٹھنڈا کیا تھا، وہ اسے ایک لایعنی  اور فضول حرکت سے دوبارہ بھڑکا دیں۔  پھر یہ حرکت پورے عالم اسلام کی مساجد میں عین جمعہ کے خطبے میں انجام دی جائے اور اس کے رد عمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کی غیرت جوش نہ مارے اور کوئی مزاحمتی تحریک تو کجا یا کم از کم تنقید ہی ان حضرات کی جانب سے سامنے نہ آئے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب و شتم محض باغی راویوں کے ذہنوں میں تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانے کے باغیوں کو بھڑکانے کے لیے روایات کی شکل میں بیان کیا۔
ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عربی میں لفظ ’’سبّ‘‘ کا مطلب صرف گالی دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص ، دوسرے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر تنقید کرے اور اپنے دلائل پیش کرے، تو اسے بھی ’سبّ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔  اس طرح کا ’سبّ‘ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں اور کوئی برا نہیں مانتا۔  صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران لوگوں کو ایک تالاب کا پانی پینے سے منع فرمایا۔  دو افراد نے اس حکم کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر ’سبّ‘ فرمایا۔(  مسلم، کتاب الفضائل، حدیث 706) ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شخص یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ آپ نے انہیں معاذ اللہ گالیاں دی  ہوں گی۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے ان پر تنقید فرمائی ہو گی اور انہیں اپنی اصلاح کا کہا ہو گا۔
ممکن ہے کہ کسی  شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پالیسی پر تنقید کی ہو، تو ان راویوں نے ا س پر یہ بہتان گھڑ لیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت علی کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہم حضرت حسن، حسین  اور حضرت علی کے دیگر بیٹوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے رہتے۔یہاں ہم وہ روایات بیان کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان راویوں نے بات کا بتنگڑ بنا کر اسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے دو گورنر ہیں، جن کے بارے میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف منبر پر سب و شتم کرتے تھے۔ ایک مروان بن حکم اور دوسرے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ۔ ان دونوں سے متعلق روایات کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔
سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے۔۔۔۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
 (1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید  نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
 حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو  نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام  موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ)۔
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت: ۔ حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا  انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا)  اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے،ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں : عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294)
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی ۔ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164)
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا  کہ نہیں ۔ اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے ۔
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی  ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
راوی ابو معاویہ : علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے  اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا  ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ  كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)یعنی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویوں پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر  مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے  ان روایات کی مناسب تعویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو  صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ  روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر مروان بن حکم نے اپنے خطبے میں "ابو تراب" کہہ کر کیا تو اسے ان باغیوں نے "سب و شتم" قرار دے دیا۔صحیح بخاری کی روایت ہے:عبداللہ بن مسلمہ نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ : ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: " امیر مدینہ (مروان بن حکم کے خاندان کا کوئی شخص) منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی  رضی اللہ عنہ کو سبّ کر رہے ہیں۔ " انہوں نے پوچھا : "وہ کیا کہتے ہیں؟" بولا: "وہ انہیں ابو تراب کہہ رہے ہیں۔" سہل یہ سن کر ہنس پڑے اور بولے: "واللہ! یہ نام تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور انہیں اس نام سے زیادہ کوئی اور نام پسند نہ تھا۔ "  میں (ابو حازم) نے ان سے پوچھا: "ابو عباس، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ بولے: علی، فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور مسجد میں سو گئے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ فاطمہ) سے پوچھا: "آپ کے چچا زاد کہاں گئے؟" وہ بولیں: "مسجد میں۔" آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان (حضرت علی) کی چادر ان کی پیٹھ سے الگ ہوئی ہے اور مٹی سے ان کی کمر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ان کی کمر سے مٹی جھاڑ کر دو مرتبہ فرمایا: "ابو تراب (مٹی والے!) اب اٹھ بھی جاؤ۔(بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3500)
صحیح مسلم میں اس روایت کا ایک مختلف ورژن بیان ہوا ہے:قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میں  کسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگر  آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409)۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔  یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگی  کا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔  مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ (  طبری۔ 4/1-263)
اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ (ابن حزم، جمہرۃ الانساب  العرب۔ 38, 87) اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔
غالی راوی ابو مخنف نے تاریخ طبری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعوی کیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب و شتم کرتے تھے لیکن ساتھ خود ہی ان کے الفاظ نقل کر کے اپنا بھانڈہ خود ہی پھوڑ دیا ہےروایت یہ ہے:ابو مخنف نے صقعب بن زہیر سے روایت کی اور انہوں نے شعبی کو کہتے ہوئے سنا: مغیرہ کے بعد ایسا کوئی حاکم ہمارا نہیں ہوا، اگرچہ ان حکام کی نسبت جو پہلے گزرے تھے،  یہ نیک شخص تھے۔ مغیرہ نے سات برس چند ماہ معاویہ کے گورنر کے طور پر کوفہ میں حکومت کی ہے اور بڑے نیک سیرت، امن و عافیت کے خواہش مند تھے۔ مگر علی کو برا کہنا اور ان کی مذمت کرنا، قاتلان عثمان پر لعنت اور ان کی عیب جوئی کرنا، اور عثمان کے لیے دعائے رحمت و مغفرت اور ان کے ساتھیوں کی تعریف  کو انہوں نے کبھی ترک نہیں کیا۔
اس کی چند سطروں بعد ابو مخنف ہی نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ بیان کر دیا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر مشتمل تھا۔ خطبے کے الفاظ خود ابو مخنف کے الفاظ میں ہم یہاں درج کر رہے ہیں، اسے دیکھ کر عربی جاننے والے تمام حضرات خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا سب و شتم کیا گیا ہے:كان في آخر إمارته قام المغيرة فقال في علي وعثمان كما كان يقول، وكانت مقالته: اللهم ارحم عثمان بن عفان وتجاوز عنه، وأجزه بأحسن عمله، فإنه عمل بكتابك، واتبع سنة نبيك صلى الله عليه وسلم، وجمع كلمتنا، وحقن دماءنا، وقتل مظلوما؛ اللهم فارحم أنصاره وأولياءه ومحبيه والطالبين بدمه! ويدعو على قتلته. فقام حجر بن عدي فنعر نعرة بالمغيرة سمعها كل من كان في المسجد وخارجا منه.
مغیرہ نے اپنی امارت کے آخری زمانے میں خطبہ پڑھا اور علی و عثمان کے بارے میں وہ جو بات ہمیشہ کہتے تھے، وہ اس انداز میں کہی: "اے اللہ! عثمان بن عفان پر رحمت فرمائیے  ۔  ان سے درگزر فرمائیے  اور نیک اعمال کی انہیں جزا دیجیے۔ انہوں نے آپ کی کتاب پر عمل کیا اور تیرے نبی کی سنت کا اتباع کیا۔ انہوں نے ہم لوگوں میں اتفاق رکھا اور خونریزی نہ ہونے دی اور  وہ ناحق شہید  کیے گئے۔ اے اللہ! ان کے مدد گاروں، دوستوں، محبوں اور ان کے خون کا قصاص لینے والوں پر رحم فرمائیے ۔ " اس کے بعد آپ نے قاتلین عثمان کے لیے بددعا کی۔ یہ سن کر حجر بن عدی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مغیرہ کی جانب دیکھ کر ایک نعرہ لگایا۔  جو لوگ بھی مسجد میں اور اس کے باہر تھے، انہوں نے اس نعرے کو سنا۔ (طبری۔ 4/1-83)
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو ان باغی راویوں نے  حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم قرار دیا ہے، وہ دراصل قاتلین عثمان کے لیے بددعا تھی۔ ان باغیوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ کھینچ تان کر حضرت علی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت میں ملوث کر دیا جائے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے پر ہونے والی لعنت و ملامت کا رخ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے اور یہ مشہور کر دیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر معاذ اللہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا کرتے تھے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخی کتب میں جہاں جہاں ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کا ذکر ہے، وہ سب کی سب ابو مخنف یا ان کی پارٹی کے لوگوں کی روایت کردہ ہیں۔ ایسی ہر روایت کی سند کو دیکھ کر اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبروں پر برا بھلا کہتے تو یہ ایسی بات تھی  کہ جسے ہزاروں آدمی سنتے۔ ان ہزاروں میں سے کم از کم پچاس سو آدمی تو اسے آگے بیان کرتے۔ پھر ان پچاس سو افراد سے سن کر آگے بیان کرنے والے بھی سینکڑوں  ہوتے جو کہ سو سال بعد ہزاروں ہو جاتے۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ  سوائے اس ایک ابو مخنف اور ان کی پارٹی  کے چند لوگوں کے، کوئی بھی شخص یہ روایات بیان نہیں کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب انہی لوگوں کی گھڑی ہوئی داستان ہے۔
ہاں یہ بات قرین قیاس ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر خطبات میں قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے مکر و فریب اور برائی کو بیان کرتے ہوں گے تاکہ لوگ ان سے محتاط رہیں اور ان کے پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں۔ اس گروہ کی مذمت میں وہ سخت باتیں بھی کہتے ہوں گے، انہیں لعنت ملامت بھی کرتے ہوں گے اور ان کے لیے بددعا بھی کرتے ہوں گے۔ اس سب کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ باغی پارٹی کے پراپیگنڈا کا توڑ کیا جائے۔  ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے خود پر کی گئی تنقید کا ملبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ڈال دیا تاکہ خلفاء اور ان کے گورنروں سے متعلق  غلط فہمیاں پھیلائی جائیں اور ان کے خلاف مزید باغی تحریکیں منظم کی جائیں۔
صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم کیا ہے؟
باغیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر بعض لوگ اس ضمن میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو امیر بنایا تو ان سے پوچھا: "آپ کو کس چیز نے منع کیا کہ آپ ابو تراب پر تنقید نہ کریں؟" انہوں نے کہا: "تین ایسی باتیں ہیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں، ان کے سبب میں انہیں برا نہیں کہتا۔ میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی سرخ اونٹوں سے زیادہ پیاری ہے۔
1۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس وقت فرماتے سنا جب آپ نے کسی غزوے پر جاتے ہوئے علی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ علی نے کہا: 'یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور خواتین کے پاس چھوڑے جا رہے ہیں؟' آپ نے فرمایا: ’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت ختم ہو گئی؟‘
2۔ میں نے یوم خیبر، آپ کو یہ فرماتے سنا: 'کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔' ہم لوگ یہ سن کر انتظار میں رہے (کہ وہ کون ہو گا۔) پھر آپ نے  فرمایا: 'علی کو بلاؤ۔' انہیں بلایا گیا  تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور جھنڈا  انہیں عطا فرما دیا۔ اللہ تعالی نے علی کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔
3۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: "(اے پیغمبر!) آپ فرمائیے کہ آؤ، ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلا لائیں اور تم اپنوں کو۔۔۔" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے اہل و عیال ہیں۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2404)
اس  روایت سے باغیوں کے پراپیگنڈا  سے متاثر بعض لوگ  یہ مطلب نکالتے ہیں کہ حضرت معاویہ، حضرت سعد رضی اللہ عنہما کو ترغیب دلا رہے تھے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کریں۔ یہ مطلب وہی نکال سکتا ہے جو ان حضرات کے کردار سے واقف نہ ہو۔ روایت کے ایک ایک لفظ سے حضرت سعد کی حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لیے محبت ٹپک رہی ہے۔ اگر حضرت معاویہ کا مقصد انہیں ترغیب دلانا ہوتا تو وہ انہیں کوئی سخت جواب دیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کا مقصد  حضرت علی پر تنقید کی ترغیب نہ تھا بلکہ آپ یہ استفسار فرما رہے تھے کہ جب حضرت سعد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ نہیں دیا، تو پھر آپ کی حضرت علی کی پالیسی کے بارے میں رائے کیا تھی، کیا آپ اس پر تنقید کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ میری رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی تاہم ساتھ نہ دینے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
ابو مخنف نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ لعنت بھیجنے کے اس سلسلے کا آغاز معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہوا تھا۔ واقعہ تحکیم کی اطلاع جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت معاویہ، عمرو بن عاص، ابو الاعور اسلمی، حبیب بن مسلمہ، عبدالرحمن بن خالد، ضحاک بن قیس اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔ جب حضرت معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت علی، ابن عباس، اشتر، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔(  طبری۔ 3/2-267)ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ابو مخنف کا جھوٹ ہے اور اس نے ایسا کر کے ان تمام حضرات کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار کیا ہے۔  نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حالت نماز میں لعنت بھیجنے کے عمل کا آغاز فرمایا ہو گا اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جوابی کاروائی کے طور پر ایسا کیا ہو گا۔ یہ سب ابو مخنف جیسے باغی راویوں کی  اپنی ایجاد ہے اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ رہا ہو گا کہ ان بزرگوں سے اپنی نسل کے لوگوں کو بدظن کر کے اپنی باغی تحریک کو تقویت دی جائے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کا شرعی حکم

0 comments
صحابہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کا شرعی حکم

جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، لہذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔(بحوالہ مہر منیر ، مکتوبات مجدد الف ثانی ، الیواقیت والجواہر ، فتاویٰ رضویہ و دیگر کتب اہلسنت)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ، ان حضرات کا ایک ایک عمل احد پہاڑ کے برابر ثواب رکھتا ہے، انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے اعلی وارفع مقام انہی حضرات قدسی صفات کا ہے ، چنانچہ صحابۂ کرام کی تعظیم وتکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایاہے اور بدکلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا چنانچہ  جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:عن عبداللہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ  علیہ وسلم  اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ومن اٰذنی فقداٰذی اللہ ومن اٰذی اللہ یوشک ان یأخذہ۔  ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو ،میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے۔(جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی اور ان کے حق میں بدکلامی موجب لعنت ہے جیساکہ امام طبرانی کی معجم کبیر میں حدیث پاک ہے :عن ابن عباس: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من سب أصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ۔ ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی کرنے والا‘بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم. ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539)اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے :عن ابن عمر یقول:لا تسبوا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ.ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو، ان میںسے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوںمیں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415)

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں۔ تاہم عزت و تکریم میں، جنتی ہونے میں، ادب و احترام میں سب برابر ہیں۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں کھاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا.(العاديات:1 تا 4)
عرجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔

جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا:الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه.(ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا‘‘۔

اسی طرح ارشاد فرمایا:اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم.(مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے۔ قرآن کریم میں ہے:رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.(التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(مومن:7)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی۔ (1) جنگ صفین ۔ (2) جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں:

(1) باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا۔
(2) ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی۔
(3) وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے، یکدم رک گئے۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی شیعہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے۔

صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہ ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ

0 comments
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ

حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے (بحوالہ شرح عقیدہ واسطیہ)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا (البدایہ‘ ج 8ص 131)

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے (بحوالہ الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا (بحوالہ موطا امام مالک)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا (تاج العروس ص 221)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں

0 comments
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں

حضرت امام مالک رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم  ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو برا کہنا ہے۔(صواعق محرقہ ص 102)

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنگ میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی۔(صواعق محرقہ ص 105)

حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں (صواعق محرقہ ص 105)

امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں۔
(صواعق محرقہ ص 106)

حضرت امام اعمش رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ رضی اﷲ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے‘ لوگوں نے پوچھا کیا آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں! خدا کی قسم ان کے عدل کی بات کہہ رہاہوں (العواصم ص 333‘ اور المتقی ص 233)

حضرت عوف بن مالک مسجد میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک شیر کی زبانی آواز آئی جو منجانب اﷲ تھی کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دے دی جائے (بحوالہ طبرانی)

حضرت مجاہد نے کہا کہ اگر تم حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہ مہدی ہیں (البدایہ)

قاضی عیاض رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ آنحضرتﷺ کے صحابی‘ برادر نسبتی‘ اور کاتب وحی ہیں جو آپ کو برا کہے اس پر لعنت ہو (البدایہ)

امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حالات زندگی کو خلفائے اربعہ کی ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ آپ بھی خلیفہ راشد ہیں۔
(تاریخ ابن خلدون‘ ج 2‘ص 1141)

حضرت ملا علی قاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ مسلمانوں کے امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور بے بنیاد ہیں (موضوعات کبیر ص 129)

امام ربیع بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم پر طعن کی جرات کرسکے گا (البدایہ ج 8‘ ص 139)

علامہ خطیب بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ مرتبے میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل ہیں لیکن دونوں رسول اﷲﷺ کے صحابی ہیں بلکہ مملکت اسلامیہ کے دوستوں میں سے ہیں ان کے باہمی اختلافات کے فتنہ کا تمام گناہ سبائی فرقہ پر ہے (البدایہ)

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے اور آپ بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے (البدایہ ج 8‘ ص 126)

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خود اس شخص کو کوڑے مارے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر سب و شتم کیا کرتا تھا (الصارم المسلول)

حضرت معانی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ؟ انہوں نے کہا کیا تم ایک تابعی کا صحابی سے مقابلہ کرتے ہو (البدایہ)

حضرت ابن عمران نے کہا کہ جو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا بھلا کہے اس پر اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت ہو اور اس پر تمام مخلوقات کی لعنت ہو (البدایہ)
حضرت قیصہ بن جابر اسدی فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر محبوب دوست اور ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا ۔
(تاریخ طبریٰ مترجم ج 5ص 175)

حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے پورا کرنے میں خلیفہ عادل ہیں (مکتوبات دفتر اول ص 441)

حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں کبھی بدظنی نہ کرنا اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بدگوئی کرکے ضلالت کا ورطہ نہ لینا۔(ازالۃ الخفاء)

جو شخص حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر طعن کرے‘ وہ جہنمی کتا ہے ایسے خنزیر شخص کے پیچھے نماز حرام ہے ۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی نظرمیں

0 comments
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی نظرمیں

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جب امت میں تفرقہ اور فتنہ برپا دیکھو تو سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی اتباع کرو (بحوالہ البدایہ)

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیںکہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ یقینا فقیہہ ہیں (البدایہ)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ملکی حکومت کو زینت دینے والا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا (بحوالہ تاریخ بخاری)

فاتح عراق و ایران حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے بعد اس دروازے والے (معاویہ) سے زیادہ حق فیصلہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا (البدایہ والنہایہ‘ ج 7‘ص 123)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا‘ حضرات خلفائے راشدین معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل تھے اور معاویہ رضی اﷲ عنہ سرداری کی صفت میں ان حضرات سے بڑھ کر تھے (استعیاب ج 2‘ ص 263)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا رسول کریمﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ سردار کوئی نہیںد یکھا (استعیاب ج 2‘ ص 262)

حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے (بحوالہ شرح عقیدہ واسطیہ)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا (البدایہ‘ ج 8ص 131)

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے (بحوالہ الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا (بحوالہ موطا امام مالک)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا (تاج العروس ص 221)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)

حضرت امام باقر نے کہا کہ امام حسن رضی اﷲ عنہ نے جو کچھ کیا وہ اس امت کے لئے ہر اس چیز سی بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا ۔ (بحارا الانوار‘ ج 10ص 1641)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شان سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
شان سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضورﷺ نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو کسی کام مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا ادعوا معاویہ احضرروہ امرکم فانہ قوی امین۔ یعنی معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلائو اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے۔(تطہیر الجنان)

اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اٹھائے گا تو ان پرنور کی چادر ہوگی۔اہلم من امتی (تطہیر الجنان)

ترجمہ: میری امت میں سے معاویہ رضی اﷲ عنہ سب سے زیادہ بردبار ہے
اللھم املاہ علماء (ابن حجر الاصابہ ج 3ص 413)

اے اﷲ معاویہ رضی اﷲ عنہ کو علم سے بھر دے
یامعاویہ ان ولیت الامر فاتق اﷲ (بخاری جلد 1ص 409)

اے معاویہ رضی اﷲ عنہ تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم اﷲ سے ڈرتے رہنا
اول جیش من امتی یغزو البحر فقد اوجیو (بحوالہ بخاری)

میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ ابن اثیر اور تمام تاریخوں کے مطابق حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری بیڑے کا آغاز کیا اور مسلمان قوم سب سے پہلی مرتبہ بحری جہاد سے سرفراز ہوئی۔وعن ابی الدرداء قال مرائیت احد لعبد رسول اﷲ اشبہ صلاہ برسول من احدکم ہذا یعنی معاویہ (مجمع الزوائد للعلامہ نورالدین)

حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کے بعد حضورﷺ سے زیادہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھانے والا امیر معاویہ کے سوا کوئی نہیں دیکھا۔(تطہیر الجنان)

عبداﷲ بن عمران معاویہ کان یکتب بین یدی رسول اﷲ (منبع الفوائد)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کے سامنے بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی قیام گاہ یعنی آپ کے والد حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کا مکان آنحضرتﷺ کے لئے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی سے پناہ گاہ ثابت ہوتا تھا چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات ابن سعد کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(الاصابہ ج 2ص 179‘ المتقی ص 253)

اور نبی کو جب مشرکین مکہ اذیت و تکلیف پہنچاتے تو آپ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے گر پناہ لیا کرتے تھے اسی احسان کا بدلہ اور شکریہ حضورﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر یہ اعلان فرمایا ’’من دخل دار ابی فہو امن‘‘ یعنی ابتدائے اسلام کی عسرتوں اور پریشانیوں میں جو مکان پناہ گاہ رسولﷺ بنا‘ آج جو شخص بھی اس میں پناہ حاصل کرے گا اسے امان دے دی جائے گی (مسلم شریف)

رسول کریمﷺ نے فرمایا معاویہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو (لسان المیزان) لوگوں کو خبر دی جائے کہ امیر معاویہ جنتی ہیں (بحوالہ طبرانی)
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ بارہ خلفاء میں شامل ہیں جن کی بشارت رسول کریمﷺ نے دی (تطہیر الجنان ص 15)

خود امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ وضو کرو جب ہم وضو کرچکے تو آپ نے فرمایا اے معاویہ! اگر تو خلیفہ بنایا جائے تو اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا عدل کرنا (تطہیر الجنان)

رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو نصیحت فرمائی‘ اے معاویہ جب تو ملک کا والی ہوجائے تو رعایا سے حسن سلوک کرنا (تطہیر علی العواصم ص208)

حضرت شاہ ولی اﷲ رحمتہ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ہدایت یافتہ اور ذریعہ ہدایت فرمایا اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کا خلیفہ بننا تھا اور نبی امت پر شفیق ہے (از الۃ الخلفاء ‘ ج 1ص 573)

نبی کریمﷺ نے فرمایا ! اے اﷲ معاویہ کو ملکوں کی حکومت عطا فرما۔
(کنز العمال‘ ج 1‘ ص 19)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اور رسول خداﷺ کی ملاقات جنت کے دروازہ پر ہوگی (لسان المیزان ص  25)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر جبرئیل امین علیہ السلام نے سلام بھیجا (البدایہ والنہایہ)

سیدنا امیر معاویہ کے بارے میں جبرئیل امین نے خیر کی وصیت کی (البدایہ والنہایہ)
معاویہ کے لشکر کو بشارت جنت خود رسول خدا نے دی (مجمع الزوائد‘ ج 9 ص 357)

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں کبھی ان کے حق میں دعا کررہے ہیں ۔ مگر پروپیگنڈہ سے متاثر سنی نادان لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومت چھین لی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور امیر معاویہ کے (لشکر کے) مقتول جنتی ہیں مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ تھی۔ حضورﷺ دعا فرما رہے ہیں اے اﷲ معاویہ کو ہدایت پر رکھ‘ ہلاکت سے بچا اور دنیا اور آخرت میں اس کے گناہ بخش دے۔ پھر بھی بدبخت لوگ شبہ کرتے ہیں کہ معاویہ کے حق میں دعا بھلا کیسے قبول ہوتی ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں معاویہ جنتی ہیں اور یار لوگ یہ بات ناپسند کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ نادان لوگ غیر شعوری طور پر حضورﷺ کی مخالفت پر کیوں اتر آئے ہیں۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 24 October 2017

سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّم

0 comments
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہیں،جواب آیا حبیب کو حبیب کے پاس داخل کردو حبیب حبیب کا مشتاق ہے ۔(تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 436 )الحمد للہ جو عقیدہ صدیق اکبر و صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے وہی ہمارا ہے

غیر مقلد وہابیوں کے امام مل گئے

0 comments





لیجیئے جناب ہمارے امام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کہنے والے وہابیوں کے جھوٹے امام مل گئے جیسے امام جھوٹے ویسے وہابی جھوٹے . غیر مقلد کہتے ہیں ہمارے امام صرف محمد الرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں غیر مقلد وہابی آئمہ اسلام علیہم الرّحمہ سے متنفر کرنے کےلیئے لوگوں کو جھوٹ بولتے ہیں مگر خود ان کے کتنے امام ہیں پڑھیئے ثبوت حاضر ہیں .

انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء

0 comments
انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء ۔ بیان غزالی زماں استاذی المکرّم علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء ۔ بیان غزالی استاذی المکرّم علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفیٰ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ
مجھ سے سوال کیا گیا کہ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مزار پر انوار میں زندہ ہیں مگر ایک حدیث یہ بھی وارد ہے کہ
’’کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے لیکن اللہ تعالیٰ مجھ پر میری روح کو واپس کر دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روح مقدس بعض اوقات آپ سے جدا ہوجاتی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کس طرح مطابقت ہو گی؟
یہ ایک بہترین سوال ہے۔ جس میں غور وخوض کی ضرورت ہے۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا اپنی قبر انور میں زندہ ہونا اور اسی طرح باقی کل انبیاء علیہم السلام کا زندہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو علم قطعی کے ساتھ ہمیں معلوم ہے۔ اس لئے کہ اس پر ہمارے نزدیک قطعی دلیلیں قائم ہو چکی ہیں اور اس بارے میں روایتیں متواتر ہو چکی ہیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء علیم السلام کے ان کی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ تالیف فرمایاہے۔
حیات انبیاء علیہم السلام پر دلالت کرنے والی حدیثوں میں سے بعض احادیث حسب ذیل ہیں۔
(۱) صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَیْلَۃً اُسْرِیَ بِہٖ مَرَّ بِمُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ
ترجمہ: بے شک نبی ﷺ معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر اس حال میں گزرے کہ وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
(۲) ابونعیم نے ’’حلیہ‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ:
اَنَّ النَّبِیَّ ا مَرَّ بِقَبْرِ مُوْسٰی ں وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْہِ
(ترجمہ) تحقیق نبی اکرمﷺ موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
(۳) ابویعلی نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے کتاب حیاۃ الانبیاء میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیَائٌ فِیْ قُبُوْرِہِمْ یُصَلُّوْنَ
(ترجمہ) انبیاء کرام علیہم السلام اپنی نورانی قبروں میں زندہ ہیں اور وہاں نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
حلیہ میں ابونعیم نے یوسف بن عطیہ سے روایت کی انہوں نے ثابت بنانی رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ وہ حُمید طویل سے فرمارہے تھے۔
’’آپ کو کوئی ایسی حدیث بھی ملی ہے، جس میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی دوسرے کا نماز پڑھنا بھی مذکور ہو۔‘‘
حُمید نے کہا نہیں!یعنی قبر میں نماز پڑھنے کی حدیث صرف انبیاء علیہم السلام کے متعلق وارد ہوئی ہے۔
(۴) ابوداؤد اور بیہقی نے اوس بن اوس ثقفی سے روایت کی ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا دِن سب دِنوں سے افضل ہے۔ لہٰذا اس دِن بہت کثرت کے ساتھ تم مجھ پر درود بھیجا کرو۔ کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! وصال کے بعد جب آپ بوسیدہ ہوجائیں گے تو اس وقت ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔‘‘
(۵) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور اصبہانی نے ترغیب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا بُلِّغْتُہٗ
(ترجمہ) جس نے مجھ پر درود بھیجا، میری قبر کے نزدیک میں اُسے سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر درود بھیجا دور سے، وہ مجھے پہنچادیا جاتا ہے۔‘‘
(۶) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سید عالمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
اِنَّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ قَائِمٌ عَلٰی قَبْرِیْ مَا مِنْ اَحَدٍ یُّصَلِّی عَلَیَّ صَلٰوۃً اِلاَّ بَلَغَنِیْہَا
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی اسماع (یعنی سب کی آوازیں سننے کی طاقت) عطا فرمائی ہے اور وہ میری قبرِ انور پر مقرر ہے۔ تو کوئی درود بھیجنے والا کسی وقت، کہیں سے مجھ پر درود نہیں بھیجتا، مگر وہ فرشتہ اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(۷) امام بیہقی نے ’’حیاۃ الانبیاء‘‘ میں اور امام اصبہانی نے ’’ترغیب‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ حضورﷺ نے فرمایا
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِائَۃً فِی الْجُمُعَۃِ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الْاٰخِرَۃِ وَثَلٰثِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا ثُمَّ وَکَّلَ اللّٰہُ بِہٖ مَلَکًا یُّدْخِلْہُ عَلَیَّ فِیْ قَبْرِیْ کَمَا یُدْخَلُ عَلَیْکُمُ الْہَدٰیَا اِنَّ عِلْمِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ کَعِلْمِیْ فِی الْحَیَاۃِ
(ترجمہ) جمعہ کے دِن اور جمعہ کی رات جس نے ایک سو مرتبہ مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس کی ایک سو حاجتیں پوری فرمائے گا۔ ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی پھر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقر کردیا ہے جو اس تحفہ درود کو میری قبرِ انور میں میرے سامنے اس طرح پیش کرتاہے، جیسے تمہارے سامنے تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ بے شک میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا جیسا کہ حیاتِ دنیا میں ہے۔
بیہقی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں
یُخْبِرُنِیْ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ بِاِسْمِہٖ وَنَسَبِہٖ فَاَثْبُتُہٗ عِنْدِیْ فِیْ صَحِیْفَۃِ بَیْضَائَ
(ترجمہ) وہ فرشتہ مجھے خبر دیتا ہے ان سب لوگوں کی، جو مجھ پر درود بھیجتے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ اور ان کے نسبوں کے ساتھ تو میں سب کچھ سپید کتابچہ میں لکھ لیتا ہوں۔‘‘
(۸) امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَا یُتْرَکُوْنَ فِیْ قُبُوْرِہِمْ بَعْدَ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً وَّلٰکِنَّہُمْ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ یَدَی اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی حَتّٰی یُنْفَخَ فِی الْقُبُوْرِ
(ترجمہ) بے شک انبیاء علیہم السلام چالیس راتوں کے بعد اپنی قبروں میں نہیں چھوڑے جاتے اور لیکن وہ اللہ سبحانہ کی بارگاہِ اقدس میں نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ صور پھونکا جائے۔ (یعنی قیامت تک)
اور روایت کی سفیان ثوری نے ’’الجامع‘‘ میں انہوں نے کہا کہ ہمارے شیخ نے ہمیں فرمایا کہ حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اپنی قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھالیا جاتا ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا کہ موت کے بعد انبیاء علیہم السلام کے زندہ ہونے کے متعلق بہت سے شواہد ہیں یہ کہہ کر انہوں نے واقعۂ معراج میں انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی ملاقات کا ذکر کیا اور حضور کا انبیاء کے ساتھ کلام کرنا اور انبیاء کا حضور سے کلام کرنا بیان کیا۔
(۹) امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا
وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ فِیْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْاَنْبِیَائِ فَاِذَا مُوْسٰی قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فَاِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌکَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ شَنوئَ ۃَ وَ اِذَا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ وَاِذَا اِبْرَاہِیْمُ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ صَاحِبُکُمْ یَعْنِیْ نَفْسَہٗ فَحَانَتِ الصَّلوٰۃُ فَأَمَمْتُہُمْ
(ترجمہ) بے شک میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں دیکھا۔ ناگہاں موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور میں نے اچانک دیکھا کہ وہ دبلے پتلے گھنگریالے بالوں والے ہیں۔ گویا کہ وہ قبیلۂ شنوء ہ کے آدمیوں میں سے ہیں اور عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہارے صاحب (یعنی خود حضور ں کی ذاتِ مقدسہ) بہت زیادہ مشابہ ہیں۔ پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے ان کی امامت کی۔
(۱۰) امام بیہقی نے روایت کی
اَنَّ النَّاسَ یُصْعَقُوْنَ فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ
(ترجمہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (نفخۂ اولیٰ کے وقت) تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جو ہوش میں آؤں گا۔
امام بیہقی اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حدیث کا مضمون اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے، جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بعد الوفات انبیاء علیہم السلام کی رُوحیں ان کی طرف لوٹا دی گئی ہوں اور شہداء کی طرح یقینی طور پر زندہ ہوں تاکہ نفخ صور کے وقت ان پر بے ہوشی طاری ہونا ممکن ہو اور دنیا میں زندہ رہنے والے لوگوں کی طرح وہ بھی بے ہوش ہوجائیں۔ اس بے ہوشی کو کسی اعتبار سے بھی ہم موت قرار نہیں دے سکتے۔ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وقتی طور پر ان کے احساس اور شعور پر مدہوشی کا ایک حجاب آجائے گا۔
بیہقی کا بیان ختم ہوا۔
(۱۱) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابویعلی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیَنْزِلَنَّ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ ثُمَّ لَاِنْ قَامَ عَلٰی قَبْرِیْ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ لَاُجِیْبَنَّہٗ
(ترجمہ) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا فرماتے تھے قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ عیسیٰ بن مریم ضرور (آسمان سے) نازل ہوں گے۔ اس کے بعد اگر وہ میری قبر پر آکر ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکاریں تو میں انہیں ضرور جواب دوں گا۔‘‘
(۱۲) ابونعیم نے دلائل النبوۃ میں سعید بن مسیب سے روایت کی کہ میں نے واقعہ حرہ کے موقع پر دیکھا۔ جب کہ مسجد نبوی میں میرے سوا کوئی دوسرا نہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہوتا مجھے حضورﷺ کی قبر مبارک سے اذان کی آواز آتی تھی۔
(۱۳) اسی طرح ابن سعد نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ ایامِ حرہ میں جب لوگ قتل ہورہے تھے تو وہ مسجد نبوی کے اندر تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا تو میں قبر مبارک سے اذان کی آواز سنتا تھا۔
(۱۴) امام دارمی نے اپنی مسند میں فرمایا کہ مروان بن محمد نے سعید بن عبدالعزیز سے روایت کی کہ جن ایام میں حرہ کا واقعہ پیش آیا اُن دِنوں مسجد نبوی میں نہ اذان ہوئی نہ تکبیر کہی گئی۔ ان ایام میں سعید بن مسیب مسجد نبوی میں مقیم رہے۔ قبرِ انور سے جب ایک آواز آتی تو انہیں نماز کا وقت معلوم ہوجاتا۔
ان روایات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور باقی تمام انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تو شہداء کرام کے حق میں فرمایا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ۔
(ترجمہ) اور نہ گمان کرو ان لوگوں کو جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مُردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں۔انبیاء علیہم السلام تو شہداء کے مقابلہ میں زندہ ہونے کے زیادہ مستحق ہیں اس لئے کہ وہ شہداء کی نسبت بہت زیادہ بزرگی اور عظمت والے ہیں۔ ہر نبی میں شہادت اور نبوت دونوں صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا آیت کے عموم میں پایا جانا ظاہر ہے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)