Monday, 23 October 2017

(5) عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں

(5) عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ رضی الله عنه أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ سَـلَامٍ رضی الله عنه کَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ : اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَإِذَا خَرَجَ سَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَعَوَّذَ مِنَ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
 وفي رواية : عَنْ عَلْقَمَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ کَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ صَلَّی اﷲُ وَمَـلَاءِکَتُهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وفي رواية : عَنْ إِبْرَاهِيْمَ رضی الله عنه کَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَالَ : بِسْمِ اﷲِ وَالصَّـلَاةُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ وَإِذَا دَخَلَ بَيْتًا لَيْسَ فِيْهِ أَحَدٌ قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
ترجمہ : حضرت محمد بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب کبھی مسجد میں داخل ہوتے تھے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتے اور پھر کہتے : ’’اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘‘ (اے اللہ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے) اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو تب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتے اور پھر شیطان مردود سے پناہ مانگتے (ان کا یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ہمیشہ ہوا کرتا تھا).اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوتے تھے، تو کہتے تھے : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ صَلَّی اﷲُ وَمَـلَاءِکَتُهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم .‘‘ (اے نبی محتشم! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکات ہوں، (ہمیشہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور اس کے فرشتوں کی طرف سے بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و برکات ہوں۔اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوتے تو کہتے : ’’بِسْمِ اﷲِ وَالصَّـلَاةُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے نام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے ساتھ (میں اس مسجد میں داخل ہوتا ہوں). اور جب کسی ایسے گھر میں داخل ہوتے جس میں کوئی بھی نہ ہوتا تو کہتے : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ‘‘ (آپ پر سلامتی ہو).اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
21-23 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 298، الرقم : 3416-3418.


عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا ذکر کریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔اِس حدیث کو امام بخاری نے الآدب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَمْشِي مَعْ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدَاه، فَقَامَ فَمَشٰی. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ چل رہا تھا کہ اُن کی ٹانگ سن ہو گئی اور وہ بیٹھ گئے، پھر اُنہیں کسی نے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو. تو انہوں نے کہا : یا محمداہ! (اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم!) اُن کا یہ کہنا تھا کہ وہ (ٹھیک ہو گئے اور) اُٹھ کر چلنے لگ گئے۔اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : مُحَّمَدٌ صلی الله عليه وآله وسلم، فَذَهَبَ خَدِرُهُ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
وفي رواية : عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ صلی اﷲ عليک وسلم، فَقَالَ : فَقَامَ فَکَأَنَّمَا نُشِّطَ مِنْ عِقَالٍ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو اُنہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو، تو اُس شخص نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ لگایا تو اُسی وقت اُس کے پاؤں کا سن ہونا جاتا رہا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اُنہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہوگئی، تو اس سے کسی شخص نے کہا : لوگوں میں سے جو شخص تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کر، تو اس نے کہا : یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم. راوی بیان کرتے ہیں : پس وہ شخص یوں اُٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر مستعد ہو گیا ہو.‘‘ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الأدب المفرد / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 141.142، الرقم : 168.170،172.

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا کَانَ يَخْتَلِفُ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ، وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ ابْنَ حُنَيْفٍ، فَشَکٰی ذَالِکَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلِّ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلٰی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذَکَّرْ حَاجَتَکَ، وَرُحْ حَتّٰی أَرُوْحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ، ثُمَّ أَتٰی بَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ص، فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتّٰی أَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ص، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَی الطُّنْفُسَةِ، فَقَالَ : حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَهُ وَقَضَاهَا لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ : مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ، حَتّٰی کَانَ السَّاعَةَ وَقَالَ : مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَةٍ فَاذْکُرْهَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَقَالَ لَهُ : جَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، مَا کَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتّٰی کَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : وَاﷲِ مَا کَلَّمْتُهُ، وَلٰـکِنِّي شَهِدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَتَاهُ ضَرِيْرٌ، فَشَکٰی إِلَيْهِ ذِهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَتَصْبِرُ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَيْسَ لِي قَاءِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ، فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ اُدْعُ بِهٰذِهِ الدَّعَوَاتِ. قَالَ ابْنُ حُنَيْفٍ : فَوَاﷲِ، مَا تَفَرَّقْنَا، وَطَالَ بِنَا الْحَدِيْثُ، حَتّٰی دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : وَالْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ.
ترجمہ : حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا رہا لیکن حضرت عثمان صاُس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی حاجت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص (عثمان) بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنے مسئلہ کی بابت شکایت کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے اﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، یا محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اور پھر اپنی حاجت کو یاد کرو۔ (اور یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ آ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان صنے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری کیا حاجت ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کر دیا۔ پھر اُنہوں نے اُس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک بتایا کیوں نہیں؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور حضرت عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے، اگر آپ میرے مسئلہ کے بارے میں حضرت عثمان سے بات نہ کرتے تو وہ میری حاجت پر غور کرتے نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا میں نے ان سے تمہارے بارے میں بات نہیں کی۔ بلکہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی ختم ہو جانے کا شکوہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تو صبر کر. اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو (اور اسے یہی عمل تلقین فرمایا)، حضرت ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اُسے کبھی اندھا پن تھا ہی نہیں۔اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 183، الرقم : 508، وأيضًا في الدعائ / 320، الرقم : 1050، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 167، والمنذري في الترغيب والترهيب،1 / 32، 274، الرقم : 1018، والسبکي في شفاء السقام / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 201.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه … وَحَمَلَ خَالِدُ بْنُ وَلِيْدٍ رضی الله عنه حَتّٰی جَاوَزَهُمْ وَسَارَ لِجِبَالِ مُسَيْلَمَةَ وَجَعَلَ يَتَرَقَّبُ أَنْ يَصِلَ إِلَيْهِ فَيَقْتُلَهُ ثُمَّ رَجَعَ ثُمَّ وَقَفَ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَدَعَا الْبِرَازَ. وَقاَلَ : أَنَا ابْنُ الْوَلِيْدِ الْعُوْدِ، أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ. ثُمَّ نَادٰی بِشِعَارِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَکَانَ شِعَارُهُم يُوْمَءِذٍ ’’يَا مُحَمَّدَاه‘‘. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَاللَّفْ
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ ’’(جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت حذیفہص کی شہادت کے بعد) حضرت خالد بن ولیدص نے (اسلامی لشکر کا) عَلم سنبھالا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے مستقر پہاڑ کی طرف چل دیئے اور وہ اِس انتظار میں تھے کہ مسیلمہ تک پہنچ کر اُسے قتل کر دیں. پھر وہ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہو کر دعوتِ مبارزت دی اور بلند آواز سے پکارا : میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامر و زید کا بیٹا ہوں. پھر اُنہوں نے مسلمانوں کا مروجہ نعرہ بلند کیا اور اُن دنوں اُن کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ ( یا محمد! مدد فرمائیے) تھا۔اِس حدیث کو امام طبری اور ابن کثیر نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 281، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 324.

عَنْ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے تو ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لیے سیرابی کی دعا فرمائیں کیوں کہ وہ (قحط سالی کے باعث) تباہ ہو گئی ہے تو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو کہ (دشمن تمہاری جان لینے کے درپے ہیں ان سے) ہوشیار رہو، ہوشیار رہو. پھر وہ صحابی حضرت عمرص کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمرص رو پڑے اور کہا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ کوئی کام میرے بس میں نہ رہے۔اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے۔امام عسقلانی نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام / 130، والهندي في کنز العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية في اقتضاء الصراط المستقيم / 373، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 167، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 484.(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...