Tuesday, 24 October 2017

انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء

انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء ۔ بیان غزالی زماں استاذی المکرّم علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

انباء الا ذکیاء بحیاۃ الانبیاء ۔ بیان غزالی استاذی المکرّم علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفیٰ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ
مجھ سے سوال کیا گیا کہ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مزار پر انوار میں زندہ ہیں مگر ایک حدیث یہ بھی وارد ہے کہ
’’کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے لیکن اللہ تعالیٰ مجھ پر میری روح کو واپس کر دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روح مقدس بعض اوقات آپ سے جدا ہوجاتی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کس طرح مطابقت ہو گی؟
یہ ایک بہترین سوال ہے۔ جس میں غور وخوض کی ضرورت ہے۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا اپنی قبر انور میں زندہ ہونا اور اسی طرح باقی کل انبیاء علیہم السلام کا زندہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو علم قطعی کے ساتھ ہمیں معلوم ہے۔ اس لئے کہ اس پر ہمارے نزدیک قطعی دلیلیں قائم ہو چکی ہیں اور اس بارے میں روایتیں متواتر ہو چکی ہیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء علیم السلام کے ان کی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ تالیف فرمایاہے۔
حیات انبیاء علیہم السلام پر دلالت کرنے والی حدیثوں میں سے بعض احادیث حسب ذیل ہیں۔
(۱) صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَیْلَۃً اُسْرِیَ بِہٖ مَرَّ بِمُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ
ترجمہ: بے شک نبی ﷺ معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر اس حال میں گزرے کہ وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
(۲) ابونعیم نے ’’حلیہ‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ:
اَنَّ النَّبِیَّ ا مَرَّ بِقَبْرِ مُوْسٰی ں وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْہِ
(ترجمہ) تحقیق نبی اکرمﷺ موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
(۳) ابویعلی نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے کتاب حیاۃ الانبیاء میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیَائٌ فِیْ قُبُوْرِہِمْ یُصَلُّوْنَ
(ترجمہ) انبیاء کرام علیہم السلام اپنی نورانی قبروں میں زندہ ہیں اور وہاں نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
حلیہ میں ابونعیم نے یوسف بن عطیہ سے روایت کی انہوں نے ثابت بنانی رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ وہ حُمید طویل سے فرمارہے تھے۔
’’آپ کو کوئی ایسی حدیث بھی ملی ہے، جس میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی دوسرے کا نماز پڑھنا بھی مذکور ہو۔‘‘
حُمید نے کہا نہیں!یعنی قبر میں نماز پڑھنے کی حدیث صرف انبیاء علیہم السلام کے متعلق وارد ہوئی ہے۔
(۴) ابوداؤد اور بیہقی نے اوس بن اوس ثقفی سے روایت کی ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا دِن سب دِنوں سے افضل ہے۔ لہٰذا اس دِن بہت کثرت کے ساتھ تم مجھ پر درود بھیجا کرو۔ کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! وصال کے بعد جب آپ بوسیدہ ہوجائیں گے تو اس وقت ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔‘‘
(۵) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور اصبہانی نے ترغیب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا بُلِّغْتُہٗ
(ترجمہ) جس نے مجھ پر درود بھیجا، میری قبر کے نزدیک میں اُسے سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر درود بھیجا دور سے، وہ مجھے پہنچادیا جاتا ہے۔‘‘
(۶) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سید عالمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
اِنَّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ قَائِمٌ عَلٰی قَبْرِیْ مَا مِنْ اَحَدٍ یُّصَلِّی عَلَیَّ صَلٰوۃً اِلاَّ بَلَغَنِیْہَا
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی اسماع (یعنی سب کی آوازیں سننے کی طاقت) عطا فرمائی ہے اور وہ میری قبرِ انور پر مقرر ہے۔ تو کوئی درود بھیجنے والا کسی وقت، کہیں سے مجھ پر درود نہیں بھیجتا، مگر وہ فرشتہ اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(۷) امام بیہقی نے ’’حیاۃ الانبیاء‘‘ میں اور امام اصبہانی نے ’’ترغیب‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ حضورﷺ نے فرمایا
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِائَۃً فِی الْجُمُعَۃِ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الْاٰخِرَۃِ وَثَلٰثِیْنَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا ثُمَّ وَکَّلَ اللّٰہُ بِہٖ مَلَکًا یُّدْخِلْہُ عَلَیَّ فِیْ قَبْرِیْ کَمَا یُدْخَلُ عَلَیْکُمُ الْہَدٰیَا اِنَّ عِلْمِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ کَعِلْمِیْ فِی الْحَیَاۃِ
(ترجمہ) جمعہ کے دِن اور جمعہ کی رات جس نے ایک سو مرتبہ مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس کی ایک سو حاجتیں پوری فرمائے گا۔ ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی پھر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقر کردیا ہے جو اس تحفہ درود کو میری قبرِ انور میں میرے سامنے اس طرح پیش کرتاہے، جیسے تمہارے سامنے تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ بے شک میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا جیسا کہ حیاتِ دنیا میں ہے۔
بیہقی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں
یُخْبِرُنِیْ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ بِاِسْمِہٖ وَنَسَبِہٖ فَاَثْبُتُہٗ عِنْدِیْ فِیْ صَحِیْفَۃِ بَیْضَائَ
(ترجمہ) وہ فرشتہ مجھے خبر دیتا ہے ان سب لوگوں کی، جو مجھ پر درود بھیجتے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ اور ان کے نسبوں کے ساتھ تو میں سب کچھ سپید کتابچہ میں لکھ لیتا ہوں۔‘‘
(۸) امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَا یُتْرَکُوْنَ فِیْ قُبُوْرِہِمْ بَعْدَ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً وَّلٰکِنَّہُمْ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ یَدَی اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی حَتّٰی یُنْفَخَ فِی الْقُبُوْرِ
(ترجمہ) بے شک انبیاء علیہم السلام چالیس راتوں کے بعد اپنی قبروں میں نہیں چھوڑے جاتے اور لیکن وہ اللہ سبحانہ کی بارگاہِ اقدس میں نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ صور پھونکا جائے۔ (یعنی قیامت تک)
اور روایت کی سفیان ثوری نے ’’الجامع‘‘ میں انہوں نے کہا کہ ہمارے شیخ نے ہمیں فرمایا کہ حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اپنی قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھالیا جاتا ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا کہ موت کے بعد انبیاء علیہم السلام کے زندہ ہونے کے متعلق بہت سے شواہد ہیں یہ کہہ کر انہوں نے واقعۂ معراج میں انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی ملاقات کا ذکر کیا اور حضور کا انبیاء کے ساتھ کلام کرنا اور انبیاء کا حضور سے کلام کرنا بیان کیا۔
(۹) امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا
وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ فِیْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْاَنْبِیَائِ فَاِذَا مُوْسٰی قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فَاِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌکَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ شَنوئَ ۃَ وَ اِذَا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ وَاِذَا اِبْرَاہِیْمُ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ صَاحِبُکُمْ یَعْنِیْ نَفْسَہٗ فَحَانَتِ الصَّلوٰۃُ فَأَمَمْتُہُمْ
(ترجمہ) بے شک میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں دیکھا۔ ناگہاں موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور میں نے اچانک دیکھا کہ وہ دبلے پتلے گھنگریالے بالوں والے ہیں۔ گویا کہ وہ قبیلۂ شنوء ہ کے آدمیوں میں سے ہیں اور عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہارے صاحب (یعنی خود حضور ں کی ذاتِ مقدسہ) بہت زیادہ مشابہ ہیں۔ پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے ان کی امامت کی۔
(۱۰) امام بیہقی نے روایت کی
اَنَّ النَّاسَ یُصْعَقُوْنَ فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ
(ترجمہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (نفخۂ اولیٰ کے وقت) تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جو ہوش میں آؤں گا۔
امام بیہقی اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حدیث کا مضمون اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے، جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بعد الوفات انبیاء علیہم السلام کی رُوحیں ان کی طرف لوٹا دی گئی ہوں اور شہداء کی طرح یقینی طور پر زندہ ہوں تاکہ نفخ صور کے وقت ان پر بے ہوشی طاری ہونا ممکن ہو اور دنیا میں زندہ رہنے والے لوگوں کی طرح وہ بھی بے ہوش ہوجائیں۔ اس بے ہوشی کو کسی اعتبار سے بھی ہم موت قرار نہیں دے سکتے۔ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وقتی طور پر ان کے احساس اور شعور پر مدہوشی کا ایک حجاب آجائے گا۔
بیہقی کا بیان ختم ہوا۔
(۱۱) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابویعلی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیَنْزِلَنَّ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ ثُمَّ لَاِنْ قَامَ عَلٰی قَبْرِیْ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ لَاُجِیْبَنَّہٗ
(ترجمہ) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا فرماتے تھے قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ عیسیٰ بن مریم ضرور (آسمان سے) نازل ہوں گے۔ اس کے بعد اگر وہ میری قبر پر آکر ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکاریں تو میں انہیں ضرور جواب دوں گا۔‘‘
(۱۲) ابونعیم نے دلائل النبوۃ میں سعید بن مسیب سے روایت کی کہ میں نے واقعہ حرہ کے موقع پر دیکھا۔ جب کہ مسجد نبوی میں میرے سوا کوئی دوسرا نہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہوتا مجھے حضورﷺ کی قبر مبارک سے اذان کی آواز آتی تھی۔
(۱۳) اسی طرح ابن سعد نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ ایامِ حرہ میں جب لوگ قتل ہورہے تھے تو وہ مسجد نبوی کے اندر تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا تو میں قبر مبارک سے اذان کی آواز سنتا تھا۔
(۱۴) امام دارمی نے اپنی مسند میں فرمایا کہ مروان بن محمد نے سعید بن عبدالعزیز سے روایت کی کہ جن ایام میں حرہ کا واقعہ پیش آیا اُن دِنوں مسجد نبوی میں نہ اذان ہوئی نہ تکبیر کہی گئی۔ ان ایام میں سعید بن مسیب مسجد نبوی میں مقیم رہے۔ قبرِ انور سے جب ایک آواز آتی تو انہیں نماز کا وقت معلوم ہوجاتا۔
ان روایات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور باقی تمام انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تو شہداء کرام کے حق میں فرمایا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ۔
(ترجمہ) اور نہ گمان کرو ان لوگوں کو جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مُردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں۔انبیاء علیہم السلام تو شہداء کے مقابلہ میں زندہ ہونے کے زیادہ مستحق ہیں اس لئے کہ وہ شہداء کی نسبت بہت زیادہ بزرگی اور عظمت والے ہیں۔ ہر نبی میں شہادت اور نبوت دونوں صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا آیت کے عموم میں پایا جانا ظاہر ہے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...