Tuesday, 24 October 2017

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم قرآن وحدیث کی روشنی میں

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم قرآن وحدیث کی روشنی میں

اللہ تعالی نے حضرات انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ و السلام کو ساری کائنات میں سب سے افضل اور بزرگ بنایاہے ،انہیں بلندوبالادرجات اور عظیم کمالات عطافرمائے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃو السلام کا سردار وتاجدار بنایا ،اور سلسلۂ نبوت ورسالت آپ کی ذات اقدس پر ختم فرمادیا۔ اہل اسلام کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اپنے مزارات میں زندہ ہیں، اس کا ثبوت کتاب وسنت سے ملتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشادگرامی ہے : وَمَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا أَنْ تَنْکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللَّہِ عَظِیمًا۔
ترجمہ : تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو تکلیف دو اور نہ یہ درست ہے کہ تم کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرو، یقینا یہ اللہ کے پاس بڑا گناہ ہے ۔ (سورۃ الاحزاب۔53)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنے کی سخت ممانعت فرمائی ،وصالِ اقدس کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح کرنا‘کسی شخص کے لئے جائز نہیں رکھا۔
یہ فقہ اسلامی کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ کسی شخص کی موت واقع ہوجائے تو اس کا رشتۂ نکاح منقطع ہوجاتاہے، عدت گزارنے کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ کسی اورشخص سے نکاح کرلے ۔ اس کے برخلاف کوئی شخص زندہ ہوتو کسی اور کو اس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، آیت مذکورہ میں بیان کردہ تاکیدی ممانعت اس بات کا واضح ثبوت اور روشن دلیل ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد برزخ میں خصوصی شان کے ساتھ حیات ہیں ، اس سلسلہ میں متعدد مرفوع احادیث مبارکہ موجودہیں ۔

سنن ابن ماجہ میں حدیث پاک ہے:عن أبی الدرداء قال قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم:۔ ۔ ۔ إن اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء . فنبی اللہ حی یرزق.
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام علیھم السلام کے اجسام کو متغیر کردے تو اللہ کے نبی حیات ہیں ،رزق پاتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، باب ذکر وفاتہ ودفنہ ،صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر1706)
لہذا اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں اور رزق پاتے ہیں ، یہ حدیث پاک کلمات کے مختصر سے فرق کے ساتھ سنن ابو داؤد شریف ،سنن نسائی،مستدرک علی الصحیحین ، مسند امام احمد،مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبری للنسائی،معجم کبیر طبرانی،معجم اوسط طبرانی،بیہقی شب الایمان،صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمۃ،سنن صغری للبیھقی،جامع الأحادیث،الجامع الکبیر للسیوطی،سنن دارمی،کنز العمال، جامع الأحادیث اور الجامع الکبیر للسیوطی میں موجودہے۔(سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-۔سنن نسائی، باب إکثار الصلاۃ علی النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الجمعۃ،حدیث نمبر: 1385-۔سنن ابن ماجہ، باب فی فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1138-۔مستدرک علی الصحیحین ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر980-۔مسند امام احمد، حدیث أوس بن أبی أوس الثقفی، حدیث نمبر16592-۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج2،ص389-۔سنن کبری للنسائی، حدیث نمبر16592-۔معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر588-۔معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر4936-۔بیہقی شب الایمان، حدیث نمبر2894-۔صحیح ابن حبان، باب الأدعیۃ، حدیث نمبر912-۔صحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1638-۔سنن صغری للبیہقی، باب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر607-۔جامع الأحادیث، حدیث نمبر8441-۔الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر1790-۔سنن دارمی، حدیث نمبر1624-۔کنز العمال، حدیث نمبر2202-)
سنن ابو داؤد شریف میں مذکورہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں :عن اوس بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم، و فیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃ، فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ ، فان صلاتکم معروضۃ علی قالوا: یا رسول اللہ و کیف تعرض صلا تنا علیک و قد ارمت؟ فقال : ان اللہ عز و جل حرم علی الارض اجساد الانبیاء ۔
ترجمہ: سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن وصال فرمائے اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں پر بے ہوشی طاری ہوگی۔

لہٰذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے،راوی کہتے ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !آپ کی بارگاہ میں ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ وصال فرماکر آپ پر ایک عرصہ بیت گیاہوگا؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیاہے کہ انبیاء کرام کے اجسام کو متغیرکرے۔ (سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-)

صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:عن سلیمان التیمی سمعت انسا یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مررت علی موسی و ہو یصلی فی قبرہ و زاد فی حدیث عیسی مررت لیلۃ اسری بی ۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جبکہ وہ اپنے مزار میں نماز ادا کررہے تھے۔(مسلم شریف، 165، فضائل موسی)

نیزمسند ابو یعلی میں حدیث پاک ہے :عن انس بن مالک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں، اپنے مزارات میں نماز ادا کرتے ہیں۔ (مسند ابو یعلی ،حدیث 3331 مسند انس رضی اللہ عنہ)

امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:و رجال ابی یعلی ثقات۔
ترجمہ: مسند ابو یعلی کی حدیث شریف کے تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔(مجمع الزوائد‘ باب ذکر الانبیائ‘ ج 8 ص 210)

61ھ میں جب یزیدی لشکر نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو مسجدنبوی شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، ان دنوں حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ روضۂ اطہرسے اذان اور اقامت کی آواز سنتے تھے ، جیساکہ سنن الدارمی میں روایت ہے :

عن سعید بن عبد العزیز قال : لما کان أیام الحرۃ لم یؤذن فی مسجد النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- ثلاثا ولم یقم ، ولم یبرح سعید بن المسیب المسجد ، وکان لا یعرف وقت الصلاۃ إلا بہمہمۃ یسمعہا من قبر النبی -صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ : حضرت سعیدبن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا:جب واقعۂ حرہ رونماہوا تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ مسجدہی میں رہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ روضۂ اطہرسے اذان واقامت کی آواز آیاکرتی جس کی وجہ سے وہ نماز کا وقت معلوم کرتے تھے ۔ (سنن الدارمی ، کتاب المقدمہ ، باب مااکرم اللہ تعالی نبیہ بعد موتہ،حدیث نمبر:94)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وصال اقدس کے بعد وہی ہے جو وصال اقدس سے پہلے تھی،امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں رقم فرمایا :اذ لا فرق بین موتہ وحیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ احوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ،وذلک عندہ جلی لا خفاء بہ۔
ترجمہ: امت کا مشاہدہ فرمانے کے لئے اور ان کے حالات ،نیتیں،ارادے اور دلی کیفیات کو جاننے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور وصال مبارک میں کوئی فرق نہیں۔اور یہ ساری چیزیں آپ پر بالکل عیاں ہیں جس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں۔(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص195)
اسی وجہ سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خلیفہ ابو جعفرمنصورکو یہی فرمایا تھا کہ جب بارگاہ اقدس میں حاضرہوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب ہی رخ کرکے دعا کریں،سبل الہدی والرشاد میں روایت ہے:

ولما ناظر أبو جعفر المنصور عبد اللہ بن محمد بن عباس ثانی خلفاء بنی العباس مالکا فی مسجدہ علیہ الصلاۃ والسلام قال لہ مالک: یا أمیر المؤمنین لا ترفع صوتک فی ہذا المسجد، فإن اللہ تعالی أدب قوما فقال: (لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی) وإن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا، فاستکان لہا أبو جعفر، وقال لمالک: یا أبا عبید اللہ أأستقبل القبلۃ وادعوا أم استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فقال لہ: لم تصرف وجہک عنہ وہو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم إلی اللہ تعالی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ، فإنہ تقبل بہ شفاعتک لنفسک قال اللہ تعالی: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم)
ترجمہ :اور جب بنی عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور عبد اللہ بن محمد بن عباس نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں مناظرہ کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ان سے فرمایا:اے امیر المؤمنین!اپنی آواز کو اس مسجد میں بلند نہ کرو!کیونکہ اللہ تعالی نے ایک بہترقوم کو ادب سکھاتے ہوئے (قرآن کریم میں )فرمایا:"اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو!"بیشک آپ کی ظاہری حیات طیبہ میں جس طرح آپ کاادب واحترام لازم تھا آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی اسی طرح ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے! تو خلیفہ ابو جعفر باادب ہوگئے اور امام مالک سے دریافت کرنے لگے:اے ابو عبید اللہ!بوقت حاضری ‘میں قبلہ کی جانب رخ کروں اور دعا کروں یا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب رخ کروں؟تو آپ نے فرمایا:آپ اپنے چہر ہ کو حضور کی بارگاہ سے کیسے پھیر سکتے ہو؟جبکہ آپ کی ذات گرامی ہی قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں آپ کے لئے اور آپ کے� والد حضرت آدم علیہ السلام کے لئے وسیلہ ہے۔ہر حال میں آپ حضور کی جانب ہی رخ کریں!اور آپ سے شفاعت طلب کریں!اللہ تعالی تمہارے حق میں سفارش قبول کرے گا،کیونکہ یہی وہ ذات بابرکت ہے جس کے طفیل تمہارے حق میں تمہارا معروضہ قبول کیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم۔۔۔۔)(سبل الہدی والرشاد،جماع أبواب بعض ما یجب علی الانام من حقوقہ علیہ الصلاۃ والسلام،ج11،ص423)

ان روایتوں سے واضح ہوتاہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحیات ہیں ، نماز ادافرماتے ہیں ۔ مذکورہ احادیث شریفہ حیات کے متعلق واضح دلیل ہیں ، حیات کے متعلق واضح کلمات وارد ہونے کے باوجود اس کی تاویل کرنا،اس کا کوئی اور مطلب بیان کرنا حدیث پاک کا مفہوم تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور بلاکسی دلیل ظاہر حدیث سے انحراف ہے ۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالاحدیث پاک میں ’’حیات ‘‘کی ایک علامت ذکر فرمائی کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام نماز ادافرماتے ہیں۔

صحیح ابن حبان کی طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:فلما دخل صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس و اسری بہ اسری بموسی حتی راہ فی السماء السادسۃ و جری بینہ و بینہ من الکلام ما تقدم ذکرنا لہ ۔
ترجمہ:جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے پھر آپ آسمانوں پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آسمانوں پر تشریف لائے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان گفتگو ہوئی (صاحب کتاب کہتے ہیں) جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔ (صحیح ابن حبان فصل اول حدیث نمبر:50)

اسی روایت میں مذکور ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ،تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ،چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ،پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ،چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
مذکورہ احادیث شریفہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ‘باحیات ہیں ،جس طرح دنیا میں نماز پڑھتے تھے اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں ،ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔

علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی رملیہ کے حوالہ سے مواہب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ہے :و فی الفتاوی الرملیۃ : الانبیاء و الشہداء و العلماء لا یبلون والانبیاء والشہداء یاکلون فی قبورہم و یشربون و یصلون و یصومون و یحجون۔
ترجمہ: فتاویٰ رملیہ میں ہے کہ حضرات انبیاء ، شہداء اور علماء کے اجسام مبارکہ وصال کے بعد بوسیدہ نہیں ہوتے، انبیاء کرام اور شہدائے عظام اپنے مزارات میں کھاتے پیتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ (شرح الزرقانی علی المواھب‘ ج 7 ص 369)

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حیات انبیاء سے متعلق دلائل ذکرکرنے کے بعد تحریر فرمایا:فحصل من مجموع ہذا النقول والأحادیث أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ وأنہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی أقطار الأرض وفی الملکوت وہو بہیئتہ التی کان علیہا قبل وفاتہ لم یتبدل منہ شیء وأنہ مغیب عن الأبصار کما غیبت الملائکۃ مع کونہم أحیاء بأجسادہم فإذا أراد اللہ رفع الحجاب عمن أراد إکرامہ برؤیتہ رآہ علی ہیئتہ التی ہو علیہا لا مانع من ذلک ولا داعی إلی التخصیص برؤیۃ المثال.
ترجمہ: ان حادیث شریفہ اور منقول روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہراور روح مقدس کے ساتھ زندہ ہیں اور یقینا تصرف فرماتے ہیں ، زمین میں اور عالم ملکوت میں جہاں چاہتے ہیں اس حالت وکیفیت کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں جس حالت وکیفیت میں آپ وصال اقدس سے پیشترتھے ‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی ، حقیقت یہ ہے کہ آپ عام نگاہوں سے روپوش ہیں جس طرح فرشتے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں حالانکہ وہ اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں ، جب اللہ تعالی آپ کے دیدار سے کسی کو مشرف فرماناچاہتاہے تو اس سے حجاب اُٹھادیتاہے ، وہ آپ کو اس ہیئت پردیکھتاہے جس ہیئت پر آپ ہیں ، اس کے لئے کوئی امر مانع نہیں اور دیدکو مثالی شکل سے خاص کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(الحاوی للفتاوی ، العجاجۃ الزرنبیۃ فی السلالۃ الزینبیۃ)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری نے شرح شفا میں لکھا ہے :انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ کسائر الانبیاء فی قبورھم وھم احیاء عند ربھم وان ۔
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہرمیں زندہ ہیں جیساکہ تمام انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام اپنے مزارات میں اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کی ارواح مقدسہ کا تعلق عالم علوی وعالم سفلی سے اسی طرح رہتاہے جیساکہ وہ دنیا میں تھے ، لہذا وہ قلب کے اعتبارسے عرشی ہیں اور قالب کے لحاظ سے فرشی ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی ارباب کمال کے احوال کو بہتر جاننے والاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض )

مذکورہ آیات مبارکہ ، احادیث شریفہ ، فرمودات عالیہ اور اعلامِ امت ‘ ائمۂ حدیث وفقہ کی تصریحات سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہر میں زندہ وحیات ہیں ۔ اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سب کو عقائد حقہ پرثابت قدم اور اسلامی تعلیمات کا پابند بنائے ۔ اٰمین ۔ دعا گو و طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

1 comment:

  1. بہت مفید سلسلۂ مضامین ہے۔۔۔اگر بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کے جوابات بھی شامل فرما دیں تو مزید فائدہ مند ہو جائے گا

    ReplyDelete

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...