Saturday 29 April 2023

عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت اور آداب

0 comments
عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت اور آداب
محترم قارئینِ کرام : کسی بزرگ کی یاد منانے کےلیے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے ۔ بزرگانِ دین اولیاءِ کرام علیہم الرحمہ کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یاد منانا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لیے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہے ۔ بزرگانِ دین کے اعراس میں ذکرُ اللہ ، نعت خوانی اور قرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل سابقہ مضامین میں ذکر کیے جا چکے ہیں ۔ جو لوگ اپنے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کےلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد پاک ہے : وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔ (سورۃ الحشر ،آیت 10)

اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے ، سلف کے لیے بھی کرے ، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیت کے عرس ، ختم، نیاز ، فاتحہ اعلی چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کےلیے دعا ہے ۔ (تفسیر نور العرفان)

بخاری شریف میں ہے : ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم ۔
ترجمہ : ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں ۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ نے فرمایا : ہاں ملے گا ۔ (صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)

ردالمحتار میں ہے کہ : صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ ۔
ترجمہ : ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کےلیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور )

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)

عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھے اور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا ۔ (بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے ۔ (بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔ (اشرف السوانح جلد اول ، دوم صفحہ نمبر 226)

مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)

اولیاء اللّٰہ علیہم الرحمہ کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اوررفعِ حاجات کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبورپرجاتے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی حاجات کےلیے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ اس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی علیہ الرحمہ سے نقل فرماتے ہیں : میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔ (ردالمحتار مقدمة الکتاب مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل 1/135)

جناب مودودی صاحب لکھتے ہیں : الاحقاف صحرائے عرب (الربع الخالی) کے جنوب مغربی حصہ کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا۔ اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ان کا اصل وطن الاحقاف تھا۔ جہاں سے نکل کر وہ گردوپیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور قوموں پر چھا گئے۔ آج کے زمانہ تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے۔ موجودہ شہر سے تقریبا 152 میل کے فاصہ پر شمال کی جانب میں حضرت موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ھود کے نام سے ہی مشہور ہے۔ ہر سال پندرہ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ قبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی روایات اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہیں ۔ الاحقاف کی موجودہ حالت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمند رکھنے والی طاقت ور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگ زار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا ۔ 1843 ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارہ پر پہنچ گیا ۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے ۔ اس میں جگہ جگہ ایسے سفید قطعے ہیں جن میں کوئی چیز گرجائے تو وہ ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے ۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل سفوف کی طرح ہے ۔ میں دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا جل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔
مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو : Arabia And The Isles Harold ingrams, London, 1946 ۔ (تفہیم القرآن، ج 4، ص 615، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، مارچ 1983 ء)

سید ابوالاعلی مودودی کے اس اقتباس سے جہاں الاحقاف کی تاریخی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبیوں اور مقدس اور برگزیدہ بندوں کا عرس منانا صرف اہل سنت بریلی مکتبہ فکر کی اختراع نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان بزرگوں کا عرس کا عرس مناتے ہیں ۔ عرس کی معنوی اصل یہ ہے ۔

امام محمد بن عمر الواقد متوفی 2074 ھ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرتے تھے، جب آپ گھاٹی میں داخل ہوتے تو بہ آواز بلند فرماتے : السلام علیکم، کیونکہ تم نے صبر کیا، پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ! پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (کتاب المغازی، جلد 1 صفحہ 313 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1404 ھ،چشتی)(دلائل النبوۃ، ج 3، ص 308، مطبوعہ بیروت)(شرح الصدور، ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت 404)(در منثور، ج 4، ص 568)(مصنف عبدالرزاق، 573 قدیم رقم الحدیث جدید 6745)

اور عرس کی لفظی اصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر آ کر سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور جب مردہ یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو اس کی قبر وسیع اور منور کردی جاتی ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس کی طرح سوجاؤ جس کو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا ۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1073، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

اس حدیث میں مومن کےلیے عروس کا لفظ وارد ہے اور عروس کا لفظ عرس سے ماخوذ ہے اور یہ عرس کی لفظی اصل ہے ۔ عرس کی حقیقت یہ ہے کہ سال کے سال صالحین اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے ۔ ان پر سلام پیش کیا جائے اور ان کی تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں اور اتنی مقدار سنت ہے ، اور قرآن شریف پڑھ کر اور صدقہ و خیرات کا انہیں ثواب پہنچانا یہ بھی دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے اپنی حاجات میں اللہ سے دعا کرنے اور شفاعت کرنے کی درخواست کرنا اس کا ثبوت امام طبرانی کی اس حدیث سے ہے جس میں عثمان بن حنیف نے ایک شخص کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے دعا کرنے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المعجم الصغیر، ج 1، ص 1184 ۔ 183، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، 1388ھ)(حافظ منذری متوفی 656 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ الترغیب والترہیب، ج 1، ص 474 ۔ 476،چشتی)(اور شیخ ابن تیمیہ متوفی 728 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ فتاوی ابن تیمیہ، ج 1، ص 274 ۔ 273)

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں ۔ (المصنف، ج 12، ص 32، مطبوعہ کراچی)(حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے ، فتح الباری، ج 2، ص 495 ۔ 496، مطبوعہ لاہور)

تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام کا عرس منانا یعنی تاریخ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ :  حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۱۵)
ترجمہ : اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔

عرس منانا بلاشبہ جائز و درست ہے چاہے انبیائے کرام کا ہو یا اولیائے عظام کا ۔ تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام کا عرس منانا یعنی تاریخِ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۔ (سورہ مریم آیت ۱۵)
ترجمہ : اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔

معلوم ہوا کہ کسی نبی علیہ السلام کے جانب منسوب بزم کو عرس لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔ جیسا کہ ایک واقعہ حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں ذکر کیا ہے : جس میں ماہ ربیع الاول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی جانب منسوب ہونے والے بزم کو عرس ہی تحریر فرمایا ہے اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں مذکور واقعہ کو خود فتاویٰ رضویہ شریف میں نقل کیا ہے تحریر فرماتے ہیں حضرت میر سید عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری رحمۃ اللہ علیہ درماہ ربیع الاول بجہت عرس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ازدہ جا استدعا آمدہ کہ بعد از نماز پیشین حاضر شوند ہر دہ استدعا را قبول کردند۔ حاضران پرسیدند اے مخدوم ہر دہ استدعا را قبول فرمود و ہر جا بعد از نماز پیشین حاضر باید شد چگونہ میسر خواہد آمد ۔ فرمود کِشن کہ کافر بود چند صد جا حاضر می شد ، اگر ابوالفتح دہ جا حاضر شود چہ عجب بعد از نماز پیشین از ہردہ جا چوڈول رسید مخدوم ہر بارے از حجرہ بیرون می آمد بر چوڈول سوار میشد و می رفت ونیز ودر حجرہ حاضر می ماند۔ خرد مندا تو ایں رابر تمثیل حمل مکن یعنی مپندار کہ تمثیلہائے شیخ بچندیں جاہا حاضر شدہ است ۔ لا واللہ بلکہ عین ذات شیخ بہر جا حاضر شدہ بود ، ایں خود دریک شہر و یک مقام واقع شد۔ و ذات ایں موحد خود در اقصائے عالم حاضر است خواہ علویات خواہ سفلیات ۔
ترجمہ : ماہ ربیع الاول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عرس پاک کی وجہ سے مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری قدس سرہ ، کی دس جگہ سے دعوت آئی کہ بعد نماز ظہر تشریف لائیں ۔ حضرت نے دسوں دعوتیں قبول کیں ۔ حاضرین نے پوچھا : حضور نے دسوں دعوتیں قبول فرمائی ہیں اور ہر جگہ نماز ظہر کے بعد پہنچنا ہے یہ کیسے میسر ہوگا ؟ فرمایا : کِشن جو کافر تھا سیکڑوں جگہ حاضر ہوتا تھا اگر ابو الفتح دس جگہ حاضر ہو تو کیا عجب ہے ؟ نماز ظہر کے بعد دسوں جگہ سے پالکی پہنچی ، مخدوم ہر بار حجرہ سے آتے ، سوار ہو جاتے ، تشریف لے جاتے اور حجرہ میں بھی موجود رہتے ۔ اے عقل مند ! اسے تمثیل پر محمول نہ کرنا ، یعنی یہ نہ سمجھنا کہ شیخ کی مثالیں اتنی جگہوں میں حاضر ہوئیں ۔ یہ تو ایک شہر اور ایک مقام میں واقع ہوا خود اس موحد کی ذات عالم کے سروں میں موجود ہے خواہ علویات ہوں خواہ سفلیات ۔ (سبع سنابل سنبلۂ ششم درحقائق وحدت الخ مکتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور صفحہ ۱۷۰)۔(فتاویٰ رضویہ جلد نہم صفحہ ١٥٢)

اور فتاوی رضویہ میں کوئی ایسی عبارت جو اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی جس میں انبیاء علیہم السلام کے عرس کو ناجائز کہا ہو کبھی نظر سے نہ گزری البتہ ایک بدمذہب کی عبارت عرس کے عدمِ جواز پر سائل نے سوال کے ساتھ بھیجا ہے جو فتاوی رضویہ جلد ٢٩ میں ہے اور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا رد کیا ہے جو عبارت عرس کے عدمِ جواز پر ہے وہ بدمذہب کی عبارت ہے اور اس کے بعد میں اس کے رد پر جو عبارت ہے وہ حضور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ہے ۔

اِنتباہ : عوام عرس سے بزرگان دین کی سالانہ فاتحہ خوانی وغیرہ ہی سمجھتی ہے اور اکثر عرس کا استعمال بزرگان دین ہی کے سالانہ فاتحہ خوانی پر ہی مستعمل ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی جانب منسوب مجلس و محافل کو دیگر ناموں سے یاد کرنا ہی بہتر ہے مثلاً ذکر یا محفل وغیرہ اگرچہ عرس کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں لیکن عرفاً قباحت ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف منسوب مجلس کو عرس کہنے سے احتراز کرنا بہتر ہے ۔

ہر سال صالحین کے مزارات کی زیارت کے لیے جانا ، ان کو سلام پیش کرنا اور ان کی تحسین کرنا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔ اور ان کے لیے ایصال ثواب کرنا اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، اور ہمارے نزدیک عرس منانے کا یہی طریقہ ہے ۔ باقی اب جو لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافات کرلیے ہیں ، وہ بزرگان دین کی نذر اور منت مانتے ہیں اور ڈھول ، باجوں گا جوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں ناچتے گاتے ہوئے اوباش لڑکے چادر لے کر جاتے ہیں اور چادر چڑھانے کی بھی منت مانی جاتی ہے اور مزارات پر سجدے کرتے ہیں اور مزار کے قریب میلہ لگایا جاتا ہے اور مزامیر کے ساتھ گانا بجانا ہوتا ہے اور موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو یہ تمام امور بدعت سیئہ قبیحہ ہیں ۔ علماء اہل سنت و جماعت ان سے بری اور بیزار ہیں ۔ یہ صرف جہلاء کا عمل ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔ عُرس کا مسئلہ قرآن وحدیث ، صحابۂ کرام اور اولیاء صالحین کے عمل سے واضح ہو چکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں ۔ ہاں غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا ، ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔

کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللہ عزوجل کا نام لیکر ذبح کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہو جائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا ، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کر دیا جاتا ہے ، اور ذبح کے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کےلیے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں ۔

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اپنی کتاب جاءالحق میں تحریر فرماتے ہیں کہ”عرس” کے لغوی معنیٰ شادی کے ہیں،اسی لیے دولہا اور دلہن کو عروس کہتے ہیں،بزرگان دین کی تاریخ وفات کو "عرس "اس لیے کہتے ہیں کہ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر میں ہے کہ جب نکیریں میت کا امتحان لیتے ہیں اور جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں : نم كنومة العروس الذى لا يوقظه الا احب اهله ۔
جب بندہ قبر میں مکمل جواب دے دیتا ہے ، تو حکم ہوتا ہے کہ سوجا جیسے عروس یعنی دولہا سوتا ہے، چونکہ اللہ کے نیک اور متقی بندوں کو قبر میں اللہ کے فضل سے خوشی ہی خوشی رہتی ہے، اس لیے اولياے کرام كے روز وفات کو "عرس” کہا جاتا ہے، جس کی تائید حدیث شریف سے ہو رہی ہے ۔

صدرالافاضل حضرت سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : بزرگان دین کے مزارات اور ان کے وفات کے دن زیارت ، حصول برکت اور ایصال ثواب کےلیے سالانہ حاضر ہونے کو عرس کہتے ہیں”
حضرت ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ ان النبى كان ياتى قبور الشهداء باحد على راس كل حول فيقول السلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار
اس حدیث سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہدائے کرام کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے،ٹھیک اسی طرح مسلمان ہر سال بزرگان دین کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں، لہٰذا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔ ان تمام امور سے یہ بات واضح ہو گئی کہ "عرس” ایک مقدس عمل ہے ، جو خیر و برکت کا ذریعہ ہے ۔
اسی لیے "عرس” میں کسی بھی ناجائز اور غیر شرعی امر کا ارتكاب بلا شبہ جرم عظیم اور قابل گرفت ہے ، لیکن بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج لوگوں نے عرس کے نام پر عجیب و غریب رسمیں ایجاد کر لی ہیں،اور طرح طرح کے غیر شرعی امور کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں،جس سے مخالفین اہل سنت والجماعت کو انگشت نمائی کا موقع میسر ہوتا ہے ، اور اس امر کے ارتکاب کرنے والوں کو موردِ الزام نہ ٹھرا کر امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر طعن و تشنیع کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ہی ان بدعات کو فروغ دیا ہے ، مگر آئے دیکھتے ہیں کہ ان غیر شرعی رسومات کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا مؤقف کیا ہے ؟
بعض لوگ جب کسی بزرگ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں تو جانے یا انجانے میں قبر کا سجدہ کر لیتے ہیں۔
سجدہ بھی ایک عظیم الشان عمل ہے،جو اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی ہو یا سجدہ تعبدی دونوں حرام ہے بلکہ اگر غیر اللہ کو بہ نیت عبادت سجدہ کیا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
لو كنت آمراحدا ان يسجد لاحد لامرت المرأة ان تسجد لزوجها
اگر میں کس کو کسی مخلوق کے سجدہ کرنے کہ حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔
امام اہلسنت فرماتے ہیں کہ روضه انور کا نہ ہی طواف کرو اور نا ہی سجدہ کرو اور نا ہی اتنا جھکو کی رُکوع کے برابر ہو جائے ۔ (فتویٰ رضویہ)

عصر حاضر میں بہت سارے مقامات پر عریانیت کا بازار گرم ہے،مجھے یہ تحریر کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بعض مقدس مقامات اور مزارات بھی انہی حرکات میں ملوث ہیں ، ان غلط کاموں اور برائیوں کو بڑاھنے میں عورتوں کا ہجوم اور اُن کا مردوں کے بیچ انا پیٹرول سے کم کام نہیں کرتا ، ان تمام امور کا احساس ہر سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کو ضرور ہو رہا ہوگا، مگر اصلاح کرے کون ؟ ان کی خود اصلاح ہو جائیگی ۔ ایسے حالات میں کیا عورتوں کو مزارات پر شرکت کی اجازت ہو سکتی ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے "ان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لعن زوارات القبور ، اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی اُن عورتوں پر جو مزارات پر حاضری دیتی ہیں ۔

اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مقدس مزارات پر چادر پوشی بھی یقیناً جائز و مستحسن ہے ، اس امر کا قطعی انکار نہیں ، لیکن جس طرح چادر پوشی کا عموماً رواج ہے وہ یقینا درست نہیں ، جس طریقے سے غیر مسلم اپنے رسومات میں ناچتے گاتے ڈھول باجے کے ساتھ اپنی مورتی کی آخری رسم ادا کرنے کےلیے جلوس کی ایک شکل نکالتے ہیں ، بالکل اسی کی مشابہت رکھتے ہوئے اعراس میں بھی ہو رہا ہے (الا ما شاء اللہ) آخر ہم کیوں شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے قوم کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے "من تشبہ بقوم فہوا منھم ” جو جس قوم سے مشابہت رکھتا ہے وہ اسی میں سے ہے۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کے تارک ہوکر صاحب مزار سے فیض پانے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا کہ جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تو تو شریعت کے حدود میں رہکر عرس منانے کہ حکم دیا ہے،اگر اس کے بر عکس کوئی کام کرتا ہے تو یہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تعلیمات نہیں ، مروجہ اعراس میں غیر شرعی رسومات کو ترجیح دے کر اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے جہاں ایسے عرس منعقد ہوتے ہیں ، تو ایسے عرس کا خدا ہی نگہباں ہے ۔ ہم بزرگوں کے اعراس اس لیے مناتے ہیں کہ ان کو اللہ رب العزت کا قرب حاصل ہے ، تو ان کی قربت کی بنا ہمیں بھی اللہ کا قرب حاصل ہو جاٸے گا اور یہ ہمارے لیے بخشش کا سبب ہو سکتا ہے ، تو اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے محبت کی بنا پر ہم عرس کی تقریبات کرتے ہیں ، مگر محبت کا تقاضہ تو یہ ہے "ان المحب لمن یحب مطیع ” انسان جس سے محبت کرتا اس کا فرمانبردار ہوتا ہے ، اب اولیاء کاملین علیہم الرحمہ سے محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کی اُن کے اقوال افعال پر عمل کیا جائے ، اس نقطے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنا محاسبہ کریں ہمیں اولیاءکاملین سے محبت ہے یہ اندھی تقلید ۔ بالآخر اراکین اعراس سے مہذبانہ انداز میں ایک درد دل رکھتے ہوئے گزارش پیش کرتا ہوں کہ خدارا شریعت کے خلاف ہونے والے تمام رسومات پر سختی سے روک لگائی جائے ، اگر آپ اس فعل حسن میں متحرک و فعال ہوگئے تو میرا یقین ہے کہ عرس "عرس”کی طرح ہوگا ، شریعت کے حدود میں ہوگا ۔ اگر آپ متحرک ہو گئے تو آپ کے ذریعے اہلسنت و جماعت پر اُنگلیاں اٹھانے والے دیابنہ وہابیہ کے سر خم ہو جائینگے ، کیوں کی عموماً عرس کی خرافات ہی کی وجہ سے وہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا یہی مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی پہچان ہے ؟ جہاں غیر اللہ کو سجدہ کیا جاتا ہے ، جہاں چادر پوشی کے نام پر شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے ، جہاں پر ہماری مائیں اور بہنیں مزارات پر حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کے متضاد عمل کرتے ہیں ، قومِ مسلم کے نوجوان تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وہ سپاہی ہیں جس کی وجہ سے اسلام کی سر بلندی ہوتی ہے ، اسلامی تاریخ روشن و تابناک ہوتی ہے، ایک جزی اعتبار سے قوم کی مستورات کی عزت و آبرو آپ کے سپرد ہے ، آپ اُنہی شیاطین کے مکر و فریب سے نجات دلا سکتے ہیں ، آپ ہی تھے جب میدان عمل و جہاد میں ہوتے تو کفار و مشرکین کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی تھی اور لوگوں کو یہ کہنا پڑتا تھا : ⬇

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

کل وہ ہمارے ہی اسلاف تھے جنہوں نے شریعت کی حدود میں رہ کر وہ نمایاں کارنامے انجام دیے کہ تاریخ کے صفحات ان کے کارناموں سے مزین ہیں ، ایک ہم ہیں جو فرائض و واجبات اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے محض مستحبات کے عامل ہیں ، جہل و غباوت کے اس دلدل سے اپنے آپ کو منزہ کرکے شریعت کی پاسداری میں مصروف عمل ہو جائیں ، ورنہ مستقبل میں تاریکی اور ذلت و رسوای کے سوا کچھ میسر نہ ہوگا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ دوم

0 comments
ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ دوم
کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں ۔صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت و جماعت سے وابستہ ہو ، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو ۔ عقائد کے دلائل اور تمام احکامِ شرعیہ کا عالم ہو حتیٰ کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو) ۔ علم کے مطابق عمل کرتا ہو ۔ فرائض ، واجبات ، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو ، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو ۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کےلیے علماء کی تنقیص کرتے ہیں ، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ (فتاویٰ افریقہ صفحہ 147۔ 146 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا ۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل ۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر ۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے ۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے ۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار ، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے ۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے ۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجیے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا ۔

انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت وجماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں ۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ ننگِ ملت ، ننگ دیں ، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں ۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں ۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں، قطب عالم  ، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔

ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے ، شیطانی عادات و اطوار ، یزیدی رسوم و رواج ۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی ، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی ۔ باطل اعمال اور عقیدے ، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے ۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے ، قبروں اور مزاروں کی تجارت ۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش ۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ ۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے ۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال ، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا ۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں ۔ اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے ۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں ۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو ۔ پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا ۔

مرشد (شیخ طریقت) کی ضرورت

دنیا کے ہر کام ، ہر فن اور پیشہ کی طرح فن روحانیت یعنی سلوک الی اللہ طے کرنے اور حق تعالیٰ کا قرب و معرفت حاصل کرنے کےلیے استاد کی ضرورت ہے ۔ علم تصوف کی اصطلاح میں ایسے روحانی استاد کو شیخ (مرشد) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔

لفظ شیخ کی اصل

لفظ شیخ کی اصل یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الشیخ فی قبیلۃ کالنبی فی امۃ ’’ اپنے قبیلہ میں شیخ اسی طرح ہے جس طرح ایک نبی اپنی امت میں ہے ۔ (حدیث امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ)

امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں کہ : جاننا چاہیے کہ شیخ بننے اور حق کی طرف خلق کو دعوت دینے کا مقام بہت عالی ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ۔ ’’الشیخ فی قبیلۃ کالنبی فی امۃ‘‘۔ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہے ۔ (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۲۲۴)

جس طرح اللہ عزوجل تک پہنچنے کےلیے پیغمبر کی ضرورت ہے اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے کےلیے مرشد (شیخ طریقت) کی حاجت ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کسی وقت بھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہوتی ۔ آج بھی بندگان خدا ایسے ہیں جن کی ذات اور صفات سے ان مبارک سلسلوں (سلاسل تصوف) کی آبرو قائم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو ااتَّقُو اللّٰہَ وَ کُونُوْ ا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۔ (سورۃ توبہ:آیت۱۱۹)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو ۔

محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صادقین ہر دور میں موجود رہیں گے اسی لیے ان کی رفاقت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ بالکل ختم ہوجائیں تو پھر یہ آیت قرآنی ساقط العمل ہوجائے گی اور یہ قرآن کی شان کے خلاف ہے ۔

صاحب ’’کتاب اللمع‘‘ لکھتے ہیں کہ : قرآن مجید کے الفاظ صادقین ، مقربون ، متوکلین ۔ مخلصین، سارعین الی الخیرات ، اولیاء ، ابرار ، اور شاہدین سے صوفیاء (اہل اللہ) ہی مراد ہیں ۔ اور اہل طریقت کی حقانیت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جناب خضر علیہ السلام سے یوں مستدعی ہونا ۔ ھل اتبعک علی ان تعلمنی مما علمت رشدا ۔ آیا میں آپ کی پیروی کروں اس شرط پر کہ آپ اپنے خداداد علم سے مجھے اصلاح و تقویٰ کی تعلیم دیں ۔ کسی دنیاوی غرض پر مبنی نہ تھا ۔ بلکہ یہ واقعہ اس بات پر دلالت ہے کہ جس طرح علمِ شریعت حاصل کرنا فرض ہے اسی طرح علم حقیقت و معرفت حاصل کرنا بھی فرض ہے ۔ اور یہ علم (سلوک و معرفت) کسی شیخ کامل کی صحبت اور اس کی رشدو ہدایت ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔

ضرورت شیخِ طریقت

قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ نے ضرورت شیخ کو یوں بیان فرمایا ہے :
یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمنُو اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْ آ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْ فِی سَبِیلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن ۔ (سورۃ مائدہ۔آیت۳۵)
ترجمہ : اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور تلاش کرو وسیلہ اس تک رسائی کے لیے اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔

اس آیتِ مبارکہ سے دو باتوں کا حکم نازل ہوا ۔ اول ۔ حق تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنا ۔ اور دوسرا ۔ اس تک رسائی کرنے کےلیے وسیلہ تلاش کرنا ۔
وسیلہ سے مراد وہ ہادی ، مرشد یا پیر ہے جس نے راہ سلوک طے کیا ہوا ہو ۔ راستے کے نشیب و فراز سے واقف ہو اور خدا رسیدہ ہو ۔ بعض لوگ لفظ وسیلہ سے مراد ایمان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث ہمارے پاس موجود ہے لہذا ان سے بڑھ کر کون وسیلہ ہوگا ۔ ان کا یہ فرمان بالکل درست ہے لیکن قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی تو کسی عالم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ عالم یا مولوی وسیلہ ہے قرآن و حدیث کا علم سمجھانے میں ۔ جیسا کہ ہم اسی مضمون کے شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ ہر کام کےلیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ استاد وسیلہ ہوگا ۔ اس وسیلے کے بغیر کوئی فن نہیں سیکھا جا سکتا ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : فَسْءَلُوْ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن ۔ (سورۃ النحل آیت ۴۳)
ترجمہ : اہل ذکر یعنی جاننے والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ۔

اللہ تعالیٰ نے خود وسیلہ پکڑنے اہل ذکر سے پوچھنے اور صادقین کے پاس بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے۔بہرحال وسیلہ عقلاً ونقلاً ضروری ہے اور تمام مفسرین خواہ مقتدمین ہوں یا متاخرین کے وسیلہ کا مطلب شیخ طریقت ہے کیونکہ یا ایھاالذین امنوا کا خطاب ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو ایمان لاچکے ہیں ۔ حضرت شاہ عبدالرحیم ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس اللہ اسرارہم جو اہل طریقت میں مقبول ہیں وسیلہ سے مراد شیخ طریقت لیتے ہیں ۔ اس کے سوا نہ اللہ جل شانہ تک رسائی اور قرب حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی راستہ کا علم ممکن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کامل مکمل کی ایک التفات سے اس قدر تصفیہ باطن ہوتا ہے کہ ریاضات کثیرہ سے بھی نہیں ہو سکتا۔ اور تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے لیے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ اللہ رب العزت کی نعمتوں کے ادائے شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے عقائد فرقہ ناجیہ اہلسنت والجماعت کی آراء کے مطابق احکام شریعہ بجا لاتا رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ بلند درجہ صوفیا کے سلوک کے موافق اپنے نفس کا تصفیہ و تزکیہ کرے ۔ (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۷۱)
اگر ان دو امور میں پختہ ہوجاؤ تو پھر کوئی غم نہیں ایک تو صاحب شریعت علیہ وآلہ الصلوٰ ۃ والتسلیمات کی متابعت اور دوسری شیخ طریقت سے محبت و اعتقاد۔ آگاہ رہیں اور التجا تضرع کریں کہ ان دو دولتوں میں فتور نہ آنے پائے پھر جو کچھ ہو آسان ہے اوراس کی تلافی ممکن ہے ۔(مکتوبات شریف دفتر سوم مکتوب ۱۳،چشتی)

کاملوں سے ملتا ہے یہ گوہر میاں
کاغذوں میں ہے بھلا ہمت کہاں

قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ نے منصب نبوت کی یوں وضاحت فرمائی ہے : ھُوَالَّذَیْ بَعَثَ فِیْ الاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ آیاتہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلَّھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃِ ۔ (سورۃ جمعہ آیت ۲)
ترجمہ : اللہ وہ ہے جس نے بھیجا ان پڑھوں کے درمیان پیغمبر انہی میں سے جو پڑھتا ہے ان لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب و حکمت ۔

کتاب کے ساتھ معلم کتاب یعنی سکھانے والے کو استاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ نسخہ کے ساتھ طبیب کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

جو لو گ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کی موجودگی میں شیخ کی کیا ضرورت ہے ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کی موجودگی میں نبی یا رسول کی کیا ضرورت تھی ۔ چنانچہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ضرورت تھی آج ہمیں بھی وہی ضرورت درپیش ہے ۔ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہدایت ناممکن تھی اب بھی نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہدایت نا ممکن ہے ۔ حیرت ہے کہ علمائے ظاہر لوگوں کے درمیان تو اپنی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن ایسے شیخ کامل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو ان سے کئی گنا زیادہ عبادات ، مجاہدات و ریاضات کرکے ذات حق کے قرب ومعرفت کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔ (تذکرہ نقشبندیہ خیریہ صفحہ ۵۰،چشتی)

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۶۹۹۔۷۶۷ء)۸۰۔۱۵۰ہجری ۔ نے بہ ہمہ علم و تفقہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ پہلے تصوف او ر صوفیاء کی مخالفت میں مشغول تھے ۔ لیکن بعد میں حضرت بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر حلاوتِ ایمان نصیب ہوئی ۔ جو شخص احکام شریعت ان سے دریافت کرنے آتا تو خود بتا دیتے لیکن جب کوئی شخص راہ حقیقت دریافت کرنے آتا تو حضرت شیخ بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیج دیتے ۔ یہ دیکھ کر ان کے شاگرد وں کو غیرت آئی اور عرض کیا کہ آپ اتنے بڑے عالم ہو اکر ایک صوفی کے حوالے کیوں کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے احکام کا علم ہے اور ان کو خود اللہ کا علم ہے ۔ اس لیے طالبان حق کو ان کے پاس بھیجتا ہوں ۔

سلطان العارفین حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس کا کوئی امام نہ شیطان اس کا امام ہو تاہے ۔ (من لیس لہ شیخ فشیخہ ابلیس) ۔ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قول ان الفاظ میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کیا ہے ۔ من لم یکن لہ استاذ فامامہ الشیطان ۔ (رسالہ قشیریہ صفحہ ۳۳۸،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی علیہ الرحمۃ حاشیہ قول الجمیل میں فرماتے ہیں کہ : وسیلہ سے مراد ارادت و بیعت مرشد کی ہے ۔ (القول الجمیل شرح شفاء العلیل)

حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : کمالات باطنی حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اس لیے پیر کامل کی تلاش بھی ضروریات دین میں سے ہے کیونکہ وصول الی اللہ پیر کامل کے توسط کے بغیر نادرات میں شامل ہے ۔ (ارشاالطالبین)

حضرت علامہ اسمعیل علیہ الرحمۃ آیت’’یا ایھا الذین امنو ا اتقواللہ و کونو مع الصادقین‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : صادقین وہ لو گ ہیں جو وصول الی اللہ کے طریق کے رہنما ہیں جب سالک ان کی صحبت میں شامل ہو جاتا ہے تو ان کی محبت و تربیت قوت و ولایت سے سیر الی اللہ اور ترک ماسوا کے مراتب پر پہنچ جاتا ہے ۔ (تفسیر روح البیان)

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ : شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے باطنی امراض کا علاج ان سے کرانا چاہیے ۔ (مکتوباتِ ربانی مکتوب ۲۳۰ دفتر اول)
وہ لوگ جو اس امت کے اولیاء کی صحبت میں زندگانی گزارتے ہیں وہ بھی ان رذائل سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ (مکتوباتِ ربانی دفتر سوم مکتوب ۲۴)

اہل اللہ قلبی امراض کے طبیب ہیں باطنی امراض کا ازالہ ان بزرگوں کی توجہ سے وابستہ ہے ان کا کلام دوا اور ان کی نظر شفاء ہے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے ۔ ھم قوم لا یشقی جلیسھم ۔ (بخاری و مسلم) ’’ یہ ایسی قوم ہے جن کا ہم نشین بد نصیب نہیں ہوتا‘‘۔ (مکتوبات دفتر اول مکتوب ۱۰۹)
پس کامل بنانے والے شیخ کی صحبت کبریت احمر ہے اس کی نظر دوا اور اس کی باتیں شفاء ہیں ۔ (مکتوبات ربانی دفتر اول مکتوب۲۳،چشتی)

مشائخ نقشبندیہ سے نسبت ان سے عقیدت اور ان کی متابعت دین و دنیا دونوں میں باعث سعادت ہے ۔ ابو الکلام آزاد ان عظیم ہستیوں سے اپنی ارادت ان الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں : یہی نسبت اور ارادت ایک دولت ہے جو ہم بے مائیگان کا ر اور تہی دستان راہ کے لیے توشہ آخرت اور وسیلہ نجات ثابت ہو۔ اگر اس کے دامن تک ہاتھ نہ پہنچ سکا تو اس کے دوستوں کا دامن پکڑ سکتے ہیں ۔ اللہ اس راہ میں ثبات و استقامت ورزی عطا فرمائے اور اس کے دوستوں کی محبت و ارادت سے ہمارے قلوب ہمیشہ معمور اور آباد رہیں‘‘ *۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : یَوْمَ نَدْ عُوْ ا کُلَّ اُنَاس بِاِ مَامِھِمْ ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر71)
ترجمہ : قیامت میں ہم سب کو امام کے ساتھ بلائیں گے اگر شیخ طریقت یا پیر و مرشد نہ ہو تو کس کے ساتھ اٹھیں گے ۔

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : شیخ اپنے مرید کو اپنی باطنی قوت سے علم الہی سکھاتاہے اور شیخ کا کلام مرید کے باطن کو معمور کردیتا ہے اور اس کو قرب الہی پر چلا دیتا ہے ۔ (ترجمہ عوارف المعارف)

اسی لیے ان ہدایت یافتہ حضرات کی پیروی کا حکم اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے : اُولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم اقتدہ ۔ (سورۃ انعام آیت ۹۱)
ترجمہ : یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی تو تو بھی ان ہدایت یافتہ کی پیروی کر ۔

بزرگان دین اپنے پیروکاروں کے قلب و دماغ اور رگ و رشتے میں اللہ کی عبادت اور بندگی کا ایسا داعبہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کی نظر وں سے ماسویٰ اللہ معدوم ہو جاتاہے ۔ اور وہ ہر لمحہ دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھتے اور مشاہدہ حق میں مشغول رہتے ہیں اور سالکان طریقت اپنے مرشد کامل کے روئے انور میں نور حق کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔

عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇

فیض حق اندر کمال اولیاء نور حق اندر جمال اولیاء
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا اور نشیند در حضور اولیاء
چوں شوی دور از حضور اولیاء در حقیقت گشتہ دور از خدا
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

تصورِ شیخ

بعض نادان لوگ تصورِ شیخ کو شرک کہتے ہیں حالانکہ یہ شرک نہیں اس کے شرک نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی تعلیم صلف صالحین سے چلی آتی ہے اور مشائخ طریقت نے اس کو ہدایت و رہنمائی کا ایک ذریعہ سمجھا ہے اس میں نہ شیخ کی عبادت ہوتی ہے اور نہ ہی شیخ کا ذکر ہوتا ہے بلکہ اپنے دل کے پراگندہ خیالات کو ایک طرف باندھ لینا ہے اور شیخ کو اپنے اور اللہ کے درمیان ہادی اور رابطہ سمجھنا ہے جیسے کعبہ عابدو معبود کے درمیان رابطہ ہے نماز ، زکوۃ یہ سب عابدو معبود کے درمیان رابطہ ہیں اسی طرح مرشد مرید اور اللہ کے درمیان رابطہ ہے اللہ تعالیٰ جو کچھ دیتا ہے مرشد کے ہاتھ سے دیتا ہے اس لیے مرید صادق کے لیے لازم ہے کہ با ادب بیٹھ کر اپنے مرشد کی تصویر کو دل میں پکائے اور نعمت فیض حاصل کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ شیخ مظہر حق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے میرے فیض دینے کے واسطے مقرر کیا ہے ۔

بیعت کی اہمیت

امت مسلمہ کے اولیاء اللہ میں بیعت کا طریقہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔درویشی یا فقیری تب تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی شیخ وقت کی بیعت نہ کی جائے کیونکہ طریقت کی خاردار راہ میں سالک کو قدم قدم پر قطاع الطریق کے ہاتھے چڑھنے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے ۔ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الرفیق ثم الطریق (پہلے ہم سفر بعد سفر) ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۲)

حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ (۶۷۲ھ/۱۲۷۳ء) فرماتے ہیں : ⬇

یار باید راہ تنہا مرد از سر خود اندردیں صحرا مرو
ہر کہ او بے مرشدے در راہ شد او زغولاں گمراہ درچاہ شد
گر نہ باشد سایہ پیرائے فضول پس تیرا سر گشتہ دارد بانگ غول

بیعت کا لفظ بیع سے بنا ہے جس کے معنی بیچنا یا فروخت کر دینا ۔ چونکہ مرید شیخ طریقت کے ہاتھ پر بِک جاتا ہے لہذا اس سے بیعت ہو گیا ۔ اصطلاحی طور پر بیعت اس تغیر حال کو کہتے ہیں کہ بندہ شیخ یا مرشد کے واسطہ سے اپنا سب کچھ اپنی مرضی سے چھوڑ کر اپنے مالک و خالق کی رضا کو اپنا نصب العین قرار دے۔ اس سلسلہ میں مرشد یا شیخِ طریقت کچھ حکم دے تو اس پر چوں چراں عمل کرے ۔

حیاتِ بشری کے ایک ایک لمحہ میں شیخ مرید کا خضر راہ ہوتا ہے اور مرید بھی اپنے علم و عقل اور انا و خودی سے دست بردار ہو کر شیخ کے سامنے ایسی مکمل سپردگی کرتاہے کہ کسی معاملہ میں وہ صاحب اختیار نہیں رہتا ۔ شیخ کے سامنے مرید کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو غسال کے ہاتھ میں مردہ کی ہوتی ہے جس طرح چاہے الٹتا پلٹتا رہے ۔ (لطائف اشرفی جلد اول صفحہ ۱۷۴،چشتی)(جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۴۱)

بیعت جب کسی شیخ کامل کے دست حق پر کی جاتی ہے تو بمعہ آداب و شرائط وہ سلسلہ شیخ کے کامل توسط سلسلہ بہ سلسلہ جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہوئی اللہ رب العزت پر ختم ہوتی ہے۔ اگر بیعت کرنے والا اپنے اس عہد پر قائم رہے تو اللہ رب العزت کی طرف سے انتہائی انعامات و مراتب سے نوازا جاتا ہے ۔

مرید کا لفظ ارادہ سے بنا ہے۔ جس کے معنی ہیں قصد کرنا اس کا ماخذ یہ آیت ہے ۔ یریدون وجہ اللّٰہ اولئک ھم الفائزون ۔ لہٰذا مرید کے معنی ہوئے ارادہ کر نے والا چونکہ مرید اللہ کی رضا کا طالب ہو کر شیخ کے پاس جاتا ہے لہٰذا سے مرید کہتے ہیں اور مرید بننے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اللہ سے عہد کرنا کہ مولیٰ میں تیرا بندہ فرمانبردار بنوں گا ۔ مگر چونکہ اللہ جل شانہ تک ہماری رسائی نہیں تو اس کے کسی نیک بند ے (شیخ طریقت ) کے ہاتھ یہ عہد کرتے ہیں جیسے جب خدا کو سجدہ کرنا ہو تو کعبہ کو سامنے لے کر سجدہ کر لیتے ہیں ۔ کعبہ قبلہ نماز ہے۔ اور پیرومرشد قبلہ عہدو پیمان ہوتا ہے ۔ (اسرار الاحکام)

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رہبر کامل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ اور انہوں نے زمانہ رسالت میں مختلف اوقات میں مختلف مقاصد کےلیے بیعتیں کیں ۔ اولاً اسلام لاتے وقت حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی پھر خاص معاہدوں کےلیے بیعت جیسے حدیبیہ کے مقام پر ’’بیعت الرضوان‘‘ پھر خلفاء راشدین کے ہاتھوں پر بیعت کی لہذا حضرا ت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی مریدینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور اب صرف بیعت توبہ کی جاتی ہے جو دراصل ان تمام امور پر منحصر ہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ اَنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہ ۔ یَدُ اللّٰہِ فَوقَ اَیْدِ یْھِمْ فَمَن نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہٖ وَمَن اَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیہُ اللّٰہ فَسَیُوتِیہِ اجراً عَظِیْمَا۔(سورۃ فتح ۱۰)
ترجمہ : جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے سو جو عہد شکنی کرتاہے تو وہ اپنی ذات کے نقصان پر عہد توڑتا ہے ۔ اور جس نے پورا کیا اس کو جس پر اللہ سے عہد کیا تھا سو عنقریب ان کو اجر عظیم عنایت کرے گا ۔

بیعت چند قسم کی ہوتی ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پہلی بیعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ شریف پر تھی ۔ پھر خاص موقعوں پر بیعت خاضہ ہوئیں۔پھر خلفاء راشدین کے ہاتھ پر بیعت دو بیعتوں پر مشتمل تھی بیعت سلطنت اور بیعت طریقت خلفاء راشدین کے زمانہ تک ہر سلطان شیخ بھی ہوتا تھا کیونکہ ان کی خلافت خلافتِ راشدہ تھی ان کے بعد سلاطین اس پائے کے نہ رہے لہٰذا ان سے صرف سلطنت کی وفاداریاں کی بیعت کی گئی جسے آج کے دور میں ’’حلف وفاداری‘‘ کہتے ہیں ۔ اور مشائخ عظام سے بیعت طریقت ہوئیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ایک مشہور حدیث نقل فرمائی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگ بیعت کرتے تھے کبھی ہجرت اور جہاد پر اور گاہے اقامت ارکان اسلام یعنی صوم و صلٰوۃ حج پر ، گاہے ثبات و قرار پر ، معرکہ کفار میں کبھی سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک پر کبھی بد عت سے بچنے اور عبادات کے شائق اور حریص ہونے پر اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند محتاج مہاجرین سے بیعت کی اس بات پر کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کریں ۔ (قول الجمیل فی شرح شفاء العلیل صفحہ ۱۳،چشتی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلیفۃ اللہ تھے ۔ معلم قرآن و حدیث تھے اور امت کا تزکیہ فرمانے والے تھے۔ اس لیے ان کا فعل ان کے خلفاء کے واسطے ہو گیا ۔ (قول الجمیل فی شرح شفاء العلیل صفحہ ۱۴)

اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد باوجود دین کامل و مکمل ہونے کےلیے جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت و توحید کی ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اتبعو ا با لذین من بعدی ابو بکر و عمر ۔
ترجمہ : میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی تابعداری کرو ۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ ، اور علی رضی اللہ عنہ) کی بیعت فقط خلافت کی بیعت نہیں کی بلکہ باطنی امور میں بھی بیعت کی تھی ۔

مفسر قرآن علامہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ بالصراحت فرماتے ہیں : حضرت مجدد رضی اللہ عنہ فرمودہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت ابو بکر و عمروعثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کردند مقصود ازیں بیعت فقط امور دنیا نبود بلکہ کسب کمالات باطنی ہم بود ۔ (ارشاد الطالبین صفحہ ۱۲۵)
ترجمہ : حضرت مجدد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر ، عمر ، عثمان ، اور علی رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کی بیعت کی اس بیعت کا مقصد صرف امور دنیا ہی نہ تھا ۔ بلکہ کمالات باطنی کا حصول بھی تھا ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ : خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد ملوک و سلاطین میں بیعت یعنی بیعت توبہ و تقویٰ معدوم ہوگئی تو حضرات صوفیا نے فرصت کو غنیمت جان کر سنیت بیعت اختیار کی ۔ چنانچہ توبہ اور ترک معاصی کا عزم کرنا اور تقوی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا امر مخفی ہے اور پوشیدہ ہے تو بیعت کو اس کے قائم مقام کر دیا ۔ (القول الجمیل صفحہ ۱۷)

صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان علم و تفقہ اور زُہد و ورع میں کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ ہو وہ پیرومرشد (شیخ طریق) سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے بہ ہمہ علم و تفقہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ۔ ان سے خرفہ خلافت پایا تھا اور تلقین ذکروفکر حاصل کی تھی ۔ نیز انہوں نے تبرکاً خرقہ اجازت حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے پہنا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم صفحہ ۲۳۲،چشتی)

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ہبیرہ بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ارادت تھی ۔ آپ نے ان کی بیعت بھی کی تھی اوران سے خرقہ اجازت بھی پایا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم صفحہ ۲۳۲)

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کر کے ان سے خرقہ اجازت حاصل کیا تھا ۔ (جواہر غیبی چہارم ص۲۳۲)

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۔۱۸۹ ہجری) ۷۴۹۔۸۰۴ء۔ نے حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کی تھی اور ان سے خرقہ اجازت پایا تھا ۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۳۔۱۸۳ ہجری) ۷۳۱۔۷۹۹ء حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ (م۔۲۳۷ ہجری) ۸۵۱ء کے مرید تھے ۔ 

ان شواہد کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سالک کےلیے مرشد یا شیخ طریقت کی تلاش ضروری اور لازمی ہے کیونکہ شیخ یا مرید کے بغیر تربیت و تزکیہ اخلاق نا ممکن ہے ۔ جس طرح امت ہدایت و رہنمائی کےلیے نبی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح طالب بھی شیخ کا محتاج ہوتا ہے ۔ نبوت کے بعد نیابت سے فاضل کوئی درجہ نہیں ہے اور یہ نیابت خلق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر حق تعالیٰ کی دعوت دینا ہے ۔ اس سے مراد یہی نیابت ہے ۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الشیخ فی قومہ کا لنبی فی امتہٖ ’’ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ۔

شیخ طریقت کی تلاش و جستجو میں طالب کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ہر انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیدے ۔ بلکہ جس طرح جسمانی بیماری کےلیے کسی حاذق طبیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح باطنی یا روحانی بیماریوں کےلیے بھی مرشد کامل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر نیم حکیم جان کےلیے خطرہ ہوتا ہے تو ناقص شیخ طالب کے ایمان کےلیے خطرہ ہوتا ہو ۔ نیم حکیم مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر سکتا اسی طرح ناقص شیخ تربیتِ سالک نہیں کر سکتا ۔ اس لیے بیعت کرنے والے کو کسی مرشد کامل جو کی صحیح جانشینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو کی بیعت کرنی چاہیے ورنہ بجائے فائدہ کے نقصان و ضرر کا احتمال زیادہ ہے ۔ مرید کامل ہی اس کو واصل بااللہ کر سکتا ہے ۔ عارف کامل حضرت میاں محمد بخش علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ⬇

مرد ملے تے درد نہ چھوڑے اوگن دے گن کر دا
کامل لوگ محمد بخشا لعل بنان پتھر دا

پیر ناقص کی مثال ایسی ہے کہ وہ مریض جو طبیب ناقص سے علاج کرائے ۔ وہ درحقیقت اپنے مرض میں زیادتی کر رہا ہے اگر چہ ابتدا میں اس کی دو ا قدرے تخفیف کر دے مگر فی الحقیقت وہ عین ضرر و نقصان ہے ۔(مکتوبات شریعت دفتر اول مکتوب ۶۱)
دوسری جگہ فرماتے ہیں : دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس شخص پر افسوس جس نے اس میں کچھ نہ کمایا اور جاننا چاہیے کہ زمین کو خالی رکھنا دو طرح پر ہے پہلے یہ کہ اس میں کچھ نہ بوئے اور دوسرا یہ کہ اس میں خبیث اور ردّی تخم ڈالے اور بیج ضائع کرنے کی یہ دوسری قسم ضرر فساد میں پہلی قسم سے بہت زیادہ ہے جیسا کی مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔ بیج کی خرابی اور فساد یہ ہے کہ انسان پیر ناقص سے طریقہ اخذ کرے اور اس کے راستے پر چلے کیونکہ پیر ناقص اپنی خواہش نفس کا تابع اور پیروکار ہوتا ہے۔ اور جس چیز میں ہوائے نفس کی آمیزش ہو تو وہ خواہش نفس کی ہی معاونت کرے گی ۔ اس طرح تاریکی پر تاریکی میں اضافہ ہوگا ۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ پیر ناقص اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں اور نہ پہنچانے والوں راستوں میں تمیز نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ وہ خود اب تک غیر واصل ہے تو طالب کو بھی گمراہی میں ڈال دے گا ۔ جس طرح خود گمراہی میں پڑا ہے ۔ (مکتوبات دفتر مکتوب اول ۲۳)

شیخ کامل کا انتخاب

آج کل زندگی کے ہر شعبہ میں مکار اور گند م نما جو فروشوں کی اکثریت ہے۔ اور اصل و نقل کی تمیز جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آجکل خالص اور ضروریاتِ زندگی اور ادویات ملنا بھی محال ہے ۔ لیکن دنیا کے کام چل رہے ہیں ۔ اسی طرح جب یہ مسلمہ بات ہے کہ زمانہ اہل اللہ کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتا ۔ (تفصیل پہلے گزر چکی ہے) تو انتخاب شیخ اگرچہ مشکل مسئلہ ہے لیکن شیخِ کامل سے روحانی فیض حاصل کرنے کی خاطر تصوف میں آداب و شرائط مقرر کیے گئے ہیں ۔ جن پر عمل کر نے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔ پھر اس بارے میں قرآن و حدیث اور اولیائے ربانی کے اپنے ارشادات بھی موجود ہیں جس سے ولی کامل کی پہچان آسان ہو جاتی ہے اس بارے میں اہل تصوف کی ہدایت یہ ہے کہ مجذوبوں اور مغلوب الحال درویشوں کو ہرگز شیخ نہیں بننا چاہیے اگرچہ یہ لوگ واصل باللہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ تربیت ، مشیحیت اور پیری کے لیے یہ لوگ بالکل موزوں نہیں ہوتے ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۳،چشتی)

حضرت غوثُ الاعظم شیخ عبدالقاد ر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے طالب کےلیے ایک تیر بہ ہدف دعا کا طریقہ یوں بتلایا ہے کہ طالب نصف شب کو جاگ کر دو رکعت نماز پڑھے سجدہ کرے اور آہ وزاری کے ساتھ یہ دعا پڑھے : یا رب دلنی علی عبد من عبادک المقربین ید لنی علیک و یعلمنی طریق الوصول الیک ۔
ترجمہ : اے میرے ربّ! مجھے اپنے مقرب بندوں میں سے کسی بندے کی طرف رہنمائی کر جو مجھے تیری طرف رہنمائی کرے اور تجھ تک پہنچنے کا طریقہ بتلادے ۔
اللہ تعالیٰ اس دعا کے نتیجہ میں اسے اپنے اولیاء اللہ میں سے ضرور کسی شیخ کی طرف رہنمائی کر ے گا جو اس کا رہبر ہو ۔ (جواہر غیبی کنز چہارم صفحہ ۲۳۱)

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ فرماتے ہیں : نعمتیں عطا کرنے والے رب کے ادائے شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے عقائد ناجیہ اہل سنت و جماعت کے مطابق صحیح اور درست رکھے ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس بلند مرتبہ گروہ کے مجتہدین کی آراء کے مطابق احکامِ شرعیہ بجا لاتا رہے ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ بلند درجہ گروہ صوفیہ کے سلوک کے موافق اپنے نفس کا تصفیہ و تزکیہ کرے ۔ (مکتوبات شریف۔ دفتر اول مکتوب ۷۱،چشتی)
شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے باطنی امراض کا علاج اس سے کرانا چاہیے اور جب تک شیخ کامل نہ ملے ان احوا ل کو ’’لا‘‘ کے نیچے لا کر نفی کریں اور معبود برحق کا جو بے چوں و بے چگوں ہے اثبات کرے ۔ (مکتوبات ربانی دفتر اول مکتوب ۲۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج کل جو بیعت رائج ہے اسے بیعتِ تبرک کہتے ہیں جو نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ایسا کوئی حکم شرعی کہ جس کو نہ کرنے پر گناہ یا آخرت میں مواخذہ ہو ۔ ہاں ! اگر کوئی جامع شرائط پیر مل جائے تو ہاتھ دے کر اس کا مرید ہونا ایک نیک عمل اور باعث خیر و برکت اور بہت سے دینی و دنیاوی فائدے کا حامل ہے ۔

بعض لوگ اپنے من پسند پیروں اور ان کے صاحبان ثروت مریدین کو خوش کرنے کےلیے ” من لا شیخ لہ فشیخه الشیطٰن” یعنی جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے ، سے مراد آج کل کی مروجہ پیری ، مریدی لیتے ہیں ، اور اپنی اس جاہلانہ فکر کو بڑے دهڑلے سے اپنی تقریر و تحریر یہاں تک کہ جلسہ و جلوس کے پوسٹرز کے ذریعے خوب پھیلاتے ہیں تا کہ عوام کی خاطر خواہ بهیڑ اکٹھی ہو جائے ، ان کے مخصوص پیر صاحب ان سے خوش ہو جائیں اور صلے میں مولوی صاحب کو “طوقِ خلافت” عطا فرما دیں ۔

حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ : پہلے یہ ذہن نشین کر لیں کہ یہ کوئی حدیث نہیں بلکہ حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے ۔ واضح رہے کہ اس شیخ سے مراد ، مرشدِ عام ہے نہ کہ مرشدِ خاص ، اور مرشدِ عام درج ذیل ہیں : ⬇

1 ۔ کلام خدا

2 ۔ کلام رسول

3 ۔ کلام ائمہ شریعت و طریقت

4 ۔ کلام علمائے ظاہر و باطن

اس سلسلہ صحیحہ پر کہ : عوام کا ہادی ، کلامِ علما ۔ علما کا رہ نما ، کلامِ ائمہ ۔ ائمہ کا مرشد ، کلامِ رسول ۔ رسول کا پیشوا ، کلامِ خدا ” سنی صحیح العقیدہ کہ ائمہ کرام کو مانتا ، تقلید ائمہ ضروری جانتا ، اولیائے کرام کا سچا معتقد ، تمام عقائد میں راہ حق پر مستقیم وہ ہرگز بے پیر نہیں ، وہ چاروں مرشدانِ پاک یعنی کلام خدا و رسول ، ائمہ کرام و علمائے ظاہر و باطن اس کے پیر ہیں ۔ اگر چہ بظاہر کسی خاص بندہء خدا کے دست (ہاتھ ) مبارک پر شرف بیعت سے مشرف نہ ہوا ہو ۔ (نقاء السلافة فی احکام البیعة والخلافة صفحہ 40)
ایک دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : جہنم سے نجات اور چهٹکارے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرشد جاننا کافی ہے ۔ (فتاوی افریقہ صفحہ 136) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 27 April 2023

ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ اوّل

0 comments

ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں ہے ؟ موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور  دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے ۔ اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے ، جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کےلیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث ۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے ، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں ۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے ۔ بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے ، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اور اللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے ۔ پس جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم و اولیاٸے کاملین علیہم الرحمہ کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا ، کیا دے گا اور کیا لے گا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ۔
ترجمہ : وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بڑے عہد کو توڑا اور جس نے پورا کیا وہ عہد جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو بہت جلد اللہ اُسے بڑا ثواب دے گا ۔ (سورہ فتح  آیت نمبر 10)

اس سے پہلی آیات میں حضورِ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت اور اس کے مَقاصِد بیان ہوئے اور اس آیت میں  یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیشک جولوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں  وہ تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں  کیونکہ رسول سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرنا ہے جیسے کہ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جن ہاتھوں  سے انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا ، ان پر اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت ہے تو جس نے عہد توڑا اور بیعت کو پورا نہ کیا وہ اپنی جان کے خلاف ہی عہد توڑتا ہے کیونکہ اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اسے عظیم ثواب دے گا ۔ (تفسیرکبیر سورہ الفتح الآیۃ : ۱۰، ۱۰ / ۷۳،چشتی)(جلالین الفتح الآیۃ : ۱۰، ص۴۲۳-۴۲۴)(مدارک، الفتح الآیۃ : ۱۰ صفحہ ۱۱۴۲)

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی  ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا ۔
ترجمہ : بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو اُن کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اُتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا ۔ (سورہ فتح  آیت 18)

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔ (صحیح بخاری)

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پیری مریدی کے ثبوت پر  مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے :  یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ۔
ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے ۔ (سورہ بنی اسراٸیل آیت نمبر 71)

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا نے فرمایا : اس سے مراد وہ پیشوا ہے جس کی دعوت پر دنیا میں  لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت دی ہو یا باطل کی ۔ (تفسیر خازن، الاسراء الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۸۳)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہو گی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور اُنہیں  اُسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں  کے پیروکارو ۔ (تفسیر مدارک الاسراء الآیۃ: ۷۱، ص۶۳۲)

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔ اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے ۔

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں : ⬇

پہلی شرط  : سنی صحیح العقیدہ ہو ۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے ۔

تیسری شرط :  فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔

چوتھی شرط  : اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک متصل یعنی ملا ہوا ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۰۳،چشتی)

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔ اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں ، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ ( عوارف المعارف)

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ)

میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ : اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔ اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔     (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا  رشید احمد گنگوہی کہتے  ہیں کہ : مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ۔ (امداد السلوک صفحہ ۶۷ مولف رشید گنگوہی ادارۂ اسلامیات انار کلی لاہور)

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے ۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے ؟

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ، روزہ رکھو ، زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے : ⬇

ترجمہ :  پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے ۔

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ : اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے ۔

مرید بننے کے فوائد :  علامہ عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ : سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے ۔ (میزان الشریعة الکبریٰ جلد 1 صفحہ 53)

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ، جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد  کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔

جامِع شرائط پیر صاحب کے  ہاتھ  پر بیعت ہو جانے کے بعد کسی دوسرے پیر صاحب سے بیعت نہیں ہونا چاہیے ، البتہ حصولِ برکت کےلیے بوقتِ ضرورت ”طالِب“ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن طالِب ہونے کے بعد ،  جو بھی برکات حاصل ہوں ، انہیں اپنے پیر صاحب کا ہی فیضان سمجھے ۔

بَیْعَت کی دو قسمیں ہیں

(1) بَیْعَتِ بَرَکت

(2) بَیْعَتِ اِرادَت

بیعت برکت : یعنی صرف تبرک کیلئے بَیْعَت ہو جانا، آج کل عام بَیْعَتیں یہی ہیں ۔ وہ بھی نیک نیتوں کی ، ورنہ بہت سے لوگوں کی بَیْعَت دنیاوی اَغراضِ فاسدہ کیلئے ہوتی ہے ۔

بیعتِ ارادت : اعلیٰ حضرت ، امام اَہلسنّت الشاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، بَیْعَتِ اِرادَت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختْم کر کے خود کو شَیخ و مرشِد ہادی برحق کے بالکل سِپُرد کر دے ، اسے مُطْلَقاً اپنا حاکم و مُتَصَّرِف جانے ، اس کے چلانے پر راہِ سُلوک چلے ، کوئی قدم بِغیر اُس کی مَرَضی کے نہ رکھے ۔ اس کےلیے مرشِد کے بعض اَحکام ، یا اپنی ذات میں خود اسکے کچھ کام ، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعالِ خِضَر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مَثْل سمجھے اپنی عقْل کا قُصور جانے ، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے ، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے ۔

حضرت خِضَر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران جو باتیں صادِر ہوتی تھیں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جن پر اعتراض تھا پھر جب حضرتِ خِضَر علیہ السلام اس کی وجہ بتاتے تھے تو ظاہر ہوجاتا تھا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کیا) غرض اسکے ہاتھ میں مردہ بَدَستِ زندہ ہو کر رہے ۔

یہ بَیْعَتِ سالکین ہے ۔ یہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تک پہنچاتی ہے ۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لی ہے ۔ (فتاوی افریقہ صفحہ نمبر ۱۴۰،چشتی)

ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر سے مُرید نہیں ہو سکتے چنانچہ حضرتِ علی بن وفار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس طرح جہان کے دو معبود نہیں ، ایک شخص کے دو دِل نہیں ، عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں اسی طرح مُرید کے دو شیخ نہیں ۔ (سنن کبری الباب الثامن صفحہ ۳۴۶)

البتہ دوسرے جامع شرائط پیر سے بیعتِ برکت کرتے ہوئے طالِب ہونے میں حرج نہیں ہے ۔ اِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جوشخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پر بیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پر بیعت نہ چاہیے ۔ اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لَا یُفْلِحُ مُرِیدٌ بَیْنَ شَیْخَیْنِ جو مُرید دو پیروں کے دَرمیان مشترک ہو وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اس سے کشُودِ کار (یعنی مطلب کا حصول) بھی ہو چکا ہو ، حدیث میں اِرشاد ہوا : مَنْ رُزِقَ فِيْ شَيْءٍ فَلْيَلْزَمْهُ جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے وہ اس کو لازم پکڑے ۔ (شعب الایمان جلد دوم باب التوکل والتسلیم)

دوسرے جامع شرائط سے طلبِ فیض میں حرج نہیں اگرچہ وہ کسی سلسلۂ صریحہ کا ہو مگر اپنی اِرادت شیخِ اوّل ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو اسے بھی اپنے شیخ ہی کا فیض جانے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۶ صفحہ نمبر ۵۷۹،چشتی)

ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر صاحب سے مرید ہونے کے متعلق امام عبدالوہاب شعرانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 973ھ/1565ء) اپنی کتاب”المِنَن الکبریٰ“ میں لکھتے ہیں : كان سيدي علي بن وفاء رضي اللہ تعالى عنه يقول : كما لم يكن للعالم إلهان ، ولا للرجل قلبان ، ولا للمرأة زوجان ، كذلك لا يكون للمريد شيخان ۔

ترجمہ : میرے سردار حضرت علی بن وفا رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کائنات کے دو خدا نہیں ، کسی  شخص کے دو دِل نہیں  اور عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں ہوسکتے ، اسی طرح ایک مُرید کے دو شیخ (پِیر) بھی نہیں ہو سکتے ۔ (المنن الکبریٰ  الباب الثامن صفحہ 395 مطبوعہ دارالتقویٰ دِمِشق،چشتی)

امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں : جو شخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پربیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پربیعت نہ چاہیے ۔اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لایفلح مرید بین شیخین ۔
ترجمہ : جو مرید دو پیروں کے درمیان مشترک ہو ، وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اُس سے کُشُوْد کَار (منازلِ سُلوک کا دروازہ کھلنا) بھی ہو چکا ہو ۔ حدیث میں ارشاد ہوا : من رزق فی شئی فلیلزمہ ۔
ترجمہ : جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے ، وہ اُسے لازم پکڑ لے ۔ (البتہ)دوسرے جامع شرائط  (پیر صاحب) سے طلبِ فیض میں حرج نہیں ، اگرچہ  وہ کسی سلسلہ صریحہ کا ہو اور اُس سے جو فیض حاصل ہو ، اُسے بھی اپنے شیخ کا ہی فیض جانے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 579 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں : مرید تو ایک کا ہو چکا ، ایک مرید کے دو پیر نہیں ہوتے ، ہاں دوسرے سے طالب ہو سکتا ہے اور اس کے بتانے پر ریاضت و مجاہدہ کرے اور سلوک کی راہیں طے کرے اور جو کچھ فیوض حاصل ہوں ، اُن کو پیر ہی سے ملنا تصور کرے اور اُس کو واسطہ جانے ۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 352 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

مُرشِد عربی کے لفظ ’اَرشَدَ‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ سیدھا راستہ دکھانے کے ہیں ۔ اصطلاحاً مُرشِد اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور شریعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق نہ صرف خود زندگی گزار رہا ہو بلکہ دوسروں کو بھی راہِ ہدایت کی طرف بلاتا ہو ۔ اگر کوئی شخص خود احکامِ الٰہیہ کا تارک ہو تو وہ بھلا دوسروں کو راہِ ہدایت کیسے دکھا سکتا ہے ؟ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ۔

ترجمہ : جسے ﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے ، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کےلیے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے ۔ (الْكَهْف، 18: 17)

درج بالا آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اوامر و نواہی ، حلال و حرام اور حدوداللہ کی تمیز نہ کرے وہ نہ مرشِد ہو سکتا ہے اور نہ مرشَد (مرید) ہونے کا اہل ہے ۔

لہٰذا جو شخص صوم و صلاۃ کا تارک اور جاہل ہو اسے مرشد بنانا جائز نہیں ۔ احکامِ الٰہیہ کا تارک شخص ہوا میں اڑ کے دکھائے یا پانی کی سطح چلنے کا دعویٰ کرے اس سے ہدایت کی امید رکھنا بے سود ہے ۔ دین کے فروغ کےلیے کوشاں افراد کی ہی مالی مدد کی جانی چاہیے ۔

امام احمدرضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بیسویں صدی عیسو ی کی ایک عظیم علمی ، تحقیقی شخصیت گزری ہے ، آپ اپنے دور کے تقریبا تمام متداولہ علوم و فنون سے خاطر خواہ حصہ رکھتے تھے ، آپ نے مختلف علوم وفنون پر سیکڑوں تصنیفات چھوڑی ، فقہ و فتاوی میں آپ اپنے ہم عصر علما پر فوقیت رکھتے تھے ، آپ کے فتاوی کا مجموعہ ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، جس کے مطالعہ سے فقہ وفتاوی میں آپ کی گرفت اور تبحر علمی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ، آپ نے اپنے فتاوی میں ہر طرح کے مسائل کا احاطہ کیا ہے ’’نقاء السلافۃ فی احکام البیعۃ والخلافۃ‘‘ نامی رسالہ جو آپ کے فتاوی کے مجموعہ میں موجود ہے ، اس میں بیعت وخلافت کے مسائل پر ، جس عمدگی کے ساتھ آپ نے گفتگو فرمائی ہے ، وہ آپ ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے ، جس کے مطالعے کے بعد آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ آپ عارف باللہ ہونے کے ساتھ ، گروہ صوفیہ کے ترجمان اور صف شکن مجاہد تھے ـ اسی مذکورہ رسالے کی روشنی میں ، افادۂِ عام کے پیش نظر ، بیعت وارادت اور خلافت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے ـ سب سے پہلے شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے تعلق سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا کیا خیال ہے ملاحظہ فرمائیں : شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت میں باہم اصلا کوئی تخالف نہیں ، اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تونرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بددین ، شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال ہیں ، اور طریقت حضور کے افعال ، اور حقیقت حضور کے احوال ، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال ۔ (فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۶۰)

اے عزیز من شریعت قال ہے

اور طریقت فعل ، حقیقت حال ہے

معرفت اس حال کا انجام ہے

جو خدا کا فضل اور احسان ہے

(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار صفحہ ۶۶ مطبوعہ شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد)

بیعت کی اہمیت و ضرورت

کسی نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گروہ میں اٹھیں گے ، تو پھر بیعت کرنے اور کسی سلسلے میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟

اس سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا : قرآن وحدیث میں شریعت ، طریقت ، حقیقت سب کچھ ہے ، ان میں سے سب سے زیادہ ظاہر وآسان مسائل شریعت ہیں ، ان کی تو یہ حالت ہے کہ اگر ائمہ مجتہدین ان کی شرح نہ فرماتے ، تو علما کچھ نہ سمجھتے ، اور علمائے کرام ، اقوال ائمہ مجتہدین کی تشریح و توضیح نہ کرتے ، تو ہم لوگ ارشادات ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے اور اب اگر اہل علم ، عوام کے سامنے مطالب کتب کی تفصیل اور صورت خاصہ پر حکم کی تطبیق نہ کریں ، تو عام لوگ ہرگز ہرگز کتابوں سے احکام نکال لینے پر قادر نہیں ، ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے ، اس لیے یہ سلسلہ مقرر ہے کہ عوام ، آج کل کے اہل علم و دین کا دامن تھا میں ، اور وہ تصانیف علمائے ماہرین کا ، اور وہ مشائخ فتاویٰ کا اور وہ ائمہ ہدیٰ کا ، اور وہ قرآن و حدیث کا ، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا ، وہ اندھا ہے ، جس نے دامن ہادی ہاتھ سے چھوڑا ، عنقریب کسی عمیق کنویں میں گرا چاہتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۲ ۔ ۴۶۱،چشتی)

اس کے بعد مزید گفتگو کرتے ہوئے صاحب فتاوی نے احکامِ شریعت کے توارث اور ائمہ مجتہدین کی ضرورت کو ثابت کیا اور پھر آگے یوں تحریر فرمایا  جب احکام شریعت میں یہ حال ہے ، تو صاف روشن ، کہ دقائق سلوک اور حقائق معرفت ، بے مرشد کامل ، خود بخود قرآن و حدیث سے نکال لینا کس قدر محال ہے ۔ یہ راہ سخت باریک اور بے شمع مرشد نہایت تاریک ہے ، بڑے بڑوں کو شیطان لعین نے اس راہ میں ایسا مارا ، کہ تحت الثرٰی تک پہنچادیا ، تیری کیا حقیقت کہ بے رہبر کامل ، اس راہ میں چلے اور سلامت نکل جانے کا ادعا کرے ، ائمہ کرام فرماتے ہیں : آدمی اگر چہ کتنا ہی بڑا عالم ، زاہد ، کامل ہو اس پر واجب ہے کہ (وہ کسی ) ولی عارف کو اپنا مرشد بنائے ، بغیر اس کے ہرگز چارہ نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۳،چشتی)

مزید اپنے موقف کی تائید میں امام شعرانی قدس سرہ کی تصنیف میزان الشریعہ ۔۔۔ کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے : فعلم من جمیع ماقررناہ وجوب اتخاذ الشیخ لکل عالم طلب الوصول الی شہود عین الشریعۃ الکبرٰی ولواجمع جمیع اقرانہ علی علمہ وعملہ وزہدہ و ورعہ ولقبوہ بالقطبیۃ الکبرٰی فان لطریق القوم شروطا لایعرفہا الا المحققون منہم ….الخ ۔
ترجمہ : معلوم ہواان تمام بحثوں سے جس کو ہم نے ثابت کیا ہے ، کہ شیخ کا پکڑنا واجب ہے ، ہر اس عالم کےلیےجس کو عین شریعت کبریٰ کے مشاہدہ تک پہنچنا مطلوب ہے ، اگر چہ اس کے تمام ہم عصر ، اس کے علم و عمل او رزہد و ورع پر جمع ہو جائیں اور اس کو قطبیت کبریٰ کا لقب دیں ، اس لیے کہ اس قوم (یعنی صوفیہ) کے طریق کی کچھ شرطیں ہیں ، جن کو سوائے محققین صوفیہ کےکوئی نہیں پہچان سکتا ۔ (المیزان الکبریٰ فصل: ان القائل کیف الوصول الخ مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۲، بحوالہ فتاوی رضویہ ،ج:۲۱ ،ص: ۶۴، ۴۶۳)

لیکن کوئی پست ہمت ہو ، جو معرفت اور مشاہدہ ربانی کے جام سے سیرابی کا حوصلہ نہ رکھتا ہو،تو اس کے تعلق سے آپ تحریر کرتے ہیں : یہ اس کے لیے ہے جو اس راہ کا چلنا چاہے اور ہمت پست ، کوتاہ دست لوگ ،اگر سلوک نہ بھی چاہیں ، تو اُنہیں توسل کےلیے شیخ کی حاجت ہے ، یوں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو بس تھا ۔ قال اللہ تعالی : الیس ﷲ بکاف عبدہ ۔ کیاخدا اپنے بندوں کو کافی نہیں ۔ مگر قرآن عظیم نے حکم فرمایا : وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف وسیلہ ، مشائخ کرام ، سلسلہ بہ سلسلہ، جس طرح اللہ عزوجل تک بے وسیلہ (رسول) رسائی محال قطعی ہے ، یوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک رسائی بے وسیلہ (مرشد ) دشوار عادی ہے ۔ (فتاوی رضویہ ج:۲۱،ص:۴۶۴)

پھر متعدد احادیث اوراقوال ائمہ سے اپنے مذکورہ موقف کی تائید کرتے ہوئے، بیعت کی اہمیت وضرورت اور شیخ کی دستگیری ، سلاسل و اسانید اولیاے کرام کے فیوض و برکات پر نہایت مدلل گفتگو فرمائی ہے ، جس کا مطالعہ اہل علم کےلیے نہایت مفید ہے ۔

خلافت و جانشینی کابیان

خلافت و جانشینی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے خلافت کی تقسیم کرتے ہوئے جواباً تحریر فرمایا : خلافت حضرات اولیائے کرام نفعناﷲ ببرکاتہم فی الدنیا والاخرۃ ۔ (اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں ہم کو ان کی برکات سےنفع پہنچائے) دو طرح ہے : عامہ اور خاصہ ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۷)

خلافت عامہ کا بیان : عامہ یہ کہ مرشد، مربی اپنے مریدین، اقارب او ر اجانب سے جس جس کو صالح ارشاد ولائق تربیت سمجھے اپنا خلیفہ ونائب کرے اور اسے اخذ بیعت وتلقین اذکار و اشغال، اوراد واعمال ، اور تربیت طالبین ، وہدایت مسترشدین کےلیے مثال خلافت کرامت فرمائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۴۶۷) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 23 April 2023

ماہِ شوالُ المکرم کے فضائل و مسائل اور تاریخی واقعات

0 comments
ماہِ شوالُ المکرم کے فضائل و مسائل اور تاریخی واقعات
محترم قارئین کرام : ماہِ شوالُ المکرم عربی سال کا دسواں مہینہ ہے ، ہم اہل اسلام کے نزدیک اس کی حیثیت بڑی نمایاں ہے ، اس کی پہلی تاریخ کو نماز دوگانہ ادا کی جاتی ہے ، بہتر سے بہتر بدلے کی اللہ رب العالمین سے توقع ہوتی ہے ، تشکر و امتنان سے نگاہیں جھکی ہوتی ہیں ، بس ایک عجیب سماں ہوتا ہے ، جس سے روح تازہ ہوتی ہے ۔ اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول” سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے ۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کےلیے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے ۔ اس لیے اس کا نام شوال رکھا گیا ۔ اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے ۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا ۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی ۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا ۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کےلیے منتخب فرمایا ۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی ۔ (فضائل ایام و الشہور صفحہ ٤٤٣)(غنیہ الطالبین صفحہ ٤٠٥)(مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٣)

اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلیے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی ۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کےلیے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا ۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤)(عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
 

یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان ۔ (مشکوٰۃُ المصابیح صفحہ ١٨٣)
ترجمہ : جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کےلیے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے اور عید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتیو ! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہو جاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہو کر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ”مغفور” ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)

حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے : اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو معاف کر دیا ۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)

رمضانُ المبارک کے ساتھ شوال کے چھ روزوں کا اہتمام سال بھر کے روزوں کے ثواب کو آسان کر دیتا ہے ۔ غور کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے متعینہ روزوں میں سے روزہ اجر و ثواب کے اعتبار سے رمضان کے روزوں کی برابری رکھتا ہے ، اس ابہام کی تھوڑی سی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ رمضان کا ہر روزہ دوسرے دس روزوں کے برابر ہے اس طرح تیس روزے تین سو دنوں یعنی پورےدس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے اور پھر شوال کے چھ روزوں کو ملا لیا جائے تو پورے تین سو ساٹھ دنوں (ایک سال) کے روزوں کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے ۔ حدیثِ ثوبان کا مفہوم بھی کچھ اسی طرح ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَشَهْرٌ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ فَذَلِكَ تَمَامُ صِيَامِ السَّنَةِ ۔ (مسند احمد :۵؍۲۸۰)(سنن ابن ماجہ : الصیام ح: ۱۷۱۵،چشتی)(ابن خزیمہ: ح: ۲۱۱۵)
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک مہینہ کا روزہ دس مہینوں کے برابر ہوا ، اور پھر عید الفطر کے بعد کے چھ روزے ملا کر سا ل بھر کے روزوں کے برابر ہوئے ۔

حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۱۶۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک عظیم ساتھی حضرت اسامہ بن زید حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوال کے روزوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا : شوال کے روزے رکھو چنانچہ انہوں نے تاحیات شوال کے روزوں کا اہتمام کیا ۔ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، كَانَ يَصُومُ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صُمْ شَوَّالًا» فَتَرَكَ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَصُومُ شَوَّالًا حَتَّى مَاتَ ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نبر ۱۷۴۴)
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے رجال کو ثقات میں شمار کر کے اس کی سند میں محمد بن ابراہیم اور اسامہ بن زید کے درمیان موجود انقطاع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مگر یہی حدیث مسند ابی یعلیٰ موصلی میں محمد بن اسحاق عن ابی محمد بن اسامہ عن جدہ اسامہ کے طریق سے موصولاً موجود ہے ۔ اس طرح حدیث متصل و مقبول ہوئی ۔

شوال کی اس لحاظ سے بھی بڑی حیثیت ہے کہ یہ اشہر حج میں سے ہے ۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : أَشْهُرُ الحَجِّ : شَوَّالٌ ، وَذُو القَعْدَةِ ۔ (صحیح بخاری تعلیقاً: کتاب الحج)
ترجمہ : حج کے وہ مہینے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیاہے وہ شوال ، ذوالقعدہ و ذوالحجہ ہیں ۔

سيدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مانند ہے ۔ 
(صحیح مسلم :1164 الصیام،چشتی)(سنن ابوداود :2433الصوم)(سنن الترمذی:759 الصوم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اسکے بعد شوال میں چھ (6) روزے رکھے تو اس نے گویا زمانہ بھر (ہمیشہ یا سال بھر) روزے رکھے ۔ (صحیح مسلم2758 کتاب الصیام)

مسلمان کی طبعیت جب صالح و صاف ہو جائے تو اس کا دل عبادت کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے ۔ روزہ باطنی طہارت کا اکسیری نسخہ ہے لیکن یہ اخلاص ، حسن نیت اور اس کے متقاضی پروٹوکول کے ساتھ مشروط ہے ۔ تو جس نے انتیس یا تیس روزے رمضان میں رکھ لیے ، اب اس کا دل شوال کے چھ روزوں کی طرف راغب ہو گا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر ۔
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے ۔

پورے سال کے روزوں کا ثواب اس لیے مل گا کہ رمضان میں ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہو جاتا ہے ، رمضان ایک ماہ کا ثواب دس گناہ کیا جائے تو دس ماہ کے روزے ہو گئے ، شوال کے چھ روزوں کا دس گناہ ساٹھ ہو گیا ، یوں ایک سال مکمل ہو جاتا ہے ۔ امام ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے بھی یہی لکھا ہے ۔ رمضان المبارک کےروزے دس گنا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ۔

شوال کے چھ روزوں میں ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ اگر رمضان میں کسی کے روزے میں کچھ کمی یا نقص رہ گیا ہو تو اس سے اللہ کریم پورا فرما دے گا۔ مثلا کسی نے سحور میں تاخیر کر دی ، یا افطار میں جلدی کر دی ، یا کسی اور وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہو گیا لیکن اسے شعور و سمجھ نہ ہو تو اب یہ چھ روزے اس کمی کو پورا کر دیں ۔ لہٰذا ان میں نیت بھی یوں کی جا سکتی ہے کہ میرا سب سے پہلا رہنے والا روزہ ، میں اس کی قضا کی نیت کرتا یا کرتی ہوں ، یوں قضا بھی ہو جائے گی اور اگر روزے پورے ہوئے تو نفل کا ثواب مل جائے گا ۔

ایک روایت ہے کہ روزِ حشر اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ، اگر تو مکمل ہوں گی تو مکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تواس کے نوافل ہوں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے ۔ ( سنن ابوداود حدیث نمبر 733 )

یہ چھ روزے مسلسل رکھیں ، یا وقفے کے ساتھ ، دونوں طرح جائز و درست ہیں، سنت پوری ہو جائے گی لیکن ماہِ شوال کے اندر مکمل کر لیں ۔ یہ روزے فقط مستحب عمل ہے۔ جو نہ رکھے اسے اذیت نہ دی جائے لیکن جس کی صحت اچھی ہے ، جسم سلامت ہے وہ اس سعادت سے محروم نہ رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کوشش کیا کریں ہر پیر اور جمعرات کو بھی روزہ رکھیں ، یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے ۔

مسلمانوں کو ان کے نیک اعمال پر اللہ تبارک و تعالی اپنےفضل وکرم سے کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے ۔ مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ۔ (الانعام آیت نمبر 160)
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اسکے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزاملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا ۔

اسی قاعدے کے مطابق ایک مہینے رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینوں کے برابر ہو گئے ، یوں گویا رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے والا پورے سال روزہ رکھنے کے اجر کا مستحق ٹھہرا ، دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول رہا تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی فرض روزے کے ساتھ گزاری ، اس اعتبار سے یہ چھ روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، گو ان کی حثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ صِيَامُ السَّنَةِ» ، يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ ۔
ترجمہ : رمضان المبارک کےروزے دس ماہ اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ۔ (صحیح ابن خزیمہ :2115،چشتی)(النسائی الکبری:2873)

یہ چھ روزے متواتر رکھ لیے جائیں یا ناغہ کرکے دونوں طرح جائز ہیں تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں ، اسی طرح جنکے فرض روزے بیماری یاسفر وغیرہ یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں ان کےلیے اہم یہ ہے کہ پہلے وہ فرض روزوں کی قضا کریں ۔ اس بارے میں بعض علما کی رائے یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا پہلے دی جائے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ۔ لیکن اس بارے میں راجح موقف یہی ہے کہ بہتر تو یہی ہے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ یہ فرض ہیں ، البتہ دلائل کی بنیاد پر یہ گنجائش موجود ہے کہ رمضان کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھے جا سکتے ہیں ۔ رمضان کے روزوں کی قضاء فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کی جا سکتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں عورتیں حتی کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء عموماً گیارہ ماہ بعد ماہِ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے ۔

شوال کے چھ روزے رکھنے کے متعدد فوائد علماء نے ذکر کیا ہے ، جیسے :
{1} رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پورے سال فرض روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے ۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے ، {2} رمضان سے قبل وبعد شعبان و شوال کے روزے فرض نماز سے قبل وبعد والی موکدہ سنتوں کے مشابہ ہیں جنکا فائدہ یہ ہے کہ فرض عبادتوں میں جو کمی واقع ہوئی ہے قیامت کے دن سنتوں سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا جیسا کہ بہت سی حدیثوں میں اسکا ذکر وارد ہے ۔ {سنن الترمذی:413} ۔ اور یہ بھی امر واقع ہے کہ ہم میں سے ہر شخص سے روزے کے حقوق میں کوتاہی ہوتی ہے ، کوئی اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرپاتا کسی کو زبان پر قابو نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ ۔ {3} رمضان کے روزے رکھ لینے کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کرنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی ایک اہم علامت ہے ، کیونکہ جب اللہ تعالی بندے کی کسی نیکی کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیکی کی تو فیق بخشتا ہے جس طرح اگر کوئی شخص کسی کے یہاں مہمان ہو پھر اگر رخصتی کے وقت میزبان دوبارہ آنے کی دعوت دے اور اس پر اصرار کرے تو یہ اس کا مطلب ہے کہ مہمان کی آمد پر اسے خوشی اور اسکی آمد قبول ہے ، اسی طرح اگر ایک نیکی کے بعد بندے کو اسی قسم کی یا کسی اور قسم کی نیکی کی توفیق مل جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی یہ نیکی اللہ تعالی کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی ہے جس طرح کہ اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد پھر گناہ کے کام کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا یہ نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک مردود ہے "إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ " اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے ۔ {4} رمضان المبارک سے متعلق یہ ارشاد نبوی ہے کہ : ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ {صحیح مسلم } نیز جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھ لیا اسکے تمام سابقہ گناہ معاف کردئے گئے ۔ {صحیح بخاری ومسلم} اور روزے دار عید کے دن بے حساب اجر سے نوازے جاتے ہیں {ان شاء اللہ تعالی} لہذا یہ عظیم الہی نعمت اس بات کی حقدار ہے کہ اس پر باری تعالی کا شکر ادا کیا جائے جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں قدم جب طول قیام کی وجہ سے سوج جاتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب تھا : کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ۔ {صحیح بخاری ومسلم} ۔ معلوم ہوا کہ گناہوں کی معافی بندے سے شکریہ کا مطالبہ کرتی ہے ، اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں کے بعد جن کی وجہ سے بندے کے گناہ معاف ہوئے ہیں شوال کے روزے رکھنا اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنا ہے اسکے برخلاف رمضان کا مہینہ گزرتے ہی دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ آنا ان بدبخت لوگوں میں شامل ہونا ہے جن سے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ(28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ ۔ {ابراہیم 29،28}
ترجمہ : کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ {5} رمضان المبارک کے بعد شوال اور اسکے بعد کے مہینوں میں نیک عمل خاص کر وہ نیک اعمال جنکا رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے جیسے: روزہ ،قیام اللیل ،تلاوت قرآن ،اور صدقہ وغیرہ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بندہ جب تک زندہ ہے اسکے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ۔ {الحجر :99}
ترجمہ : اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں ، یہاں تک آپ کو موت آجائے ۔
اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ اس پر مداومت کی جائے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :جو عمل برابر کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو ۔ {صحیح بخاری ومسلم}
لہذا رمضان کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کا معنی یہ ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد بھی بندہ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہے ، کسی عالم نے کیا خوب کہا کہ "وہ لوگ بہت ہی برے ہیں جو اللہ تعالی کے حق کو صرف رمضان میں پہچانتے ہیں حلانکہ اللہ تعالی کے نیک بندے پورے سال اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں ۔ {لطائف المعارف}

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا من شَوَّالٍ كان كَصِيَامِ الدَّهْرِ ۔
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے ۔ (رواه مسلم ، كتاب الصيام ، الحديث1164،چشتی)

زمانہ جاہلیت میں شوال کے مہینے میں شادی بیاہ کو منحوس سمجھتے تھے ۔ جو کہ سراسر غلط ہے ، بلکہ بعض علماء نے تو اس مہینے میں شادی بیاہ کو مستحب فرمایا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اسی مہینے میں فرمایا۔ اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی ، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : تَزَوَّجَنِى رَسُولُ اللَّهِ فِى شَوَّالٍ وَبَنَى بِى فِى شَوَّالٍ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور میری رخصتی شوال میں ہوئی ” وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ : اور وہ اپنی عورتوں کی رخصتی شوال میں مستحب قرار دیتی تھیں ۔ (صحیح مسلم)

ماہِ شوال میں کئی تاریخی جنگیں بھی ہوئیں جن میں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانی دیکر اسلام کو سربلند کیا، اور اللہ کی مدد سے فتح و ظفر کے جھنڈے بھی گاڑ دیے ۔

جنگ بدر میں مشرکین مکہ کی زبردست شکست کی وجہ سے پورا مکہ بدل کی آگ میں جل رہا تھا۔ معرکہ بدر کے ایک سال بعد ١٥ شوال ٣ ہجری کو ابوسفیان ٣ ہزار فوج جن میں سات سو زرہ پوش تین ہزار  اونٹ دو سو گھوڑے اور آلات حرب و ضرب سے لیس ہوکر مسلمانوں پر حملے کا ارادہ بنا لیا، اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی سات سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں ١۰۰ زرہ پوش تھے، ان کو  لے کر میدان احد پہنچ گئے۔ یہ تاریخ اسلام کی دوسری جنگ تھی جو احد پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی اس وجہ سے اسے جنگ احد کہا جاتا ہے۔ جو مورچہ بندی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی تھی اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان شریف اسی جنگ میں شہید ہوئے اس جنگ میں ۷۰ مسلمان شہید ہوئے اور ٣۰ مشرکین جہنم رسید ہوئے۔ اس جنگ میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کس کو فتح ملی کیونکہ دونو طرف سے کافی جانی نقصان ہوا ۔ (مواہب اللدنیہ شرح زرقانی ج ۲،چشتی)(مدارج النبوت ج ۲)

پانچ ہجری شوال ذیقعدہ کے مہینے میں مشرکینِ مکہ کےسر پر پھر جنگ کا بھوت سوار ہو گیا ، اس بار ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں کے ساتھ بھی اتحاد کر کے  ان کو بھی جنگ کےلیے راضی کر لیا ، اور ایک بہت بڑی فوج کھڑی کر لی ، اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے ۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں ٤٠٠٠ پیدل فوجی ، ٣۰۰ گھڑ سوار اور ١٥۰۰ کے قریب اونٹ سوار شامل تھے ۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے  ١۰۰۰ سوار انینہ کی قیادت میں تھے ۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے ٤۰۰ ، بنی شجاع کے ۷۰۰ ، اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے ۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی ۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلیے مدینہ روانہ ہو گئی ۔ (سیرت ابن ہشام)
مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی (یہ خندق بیس دن میں کھود کر مکمل ہوئی ۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی ، سوا دو سے ڈھائی میٹر گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار چھلانگ لگا کر بھی پار نہیں کر سکتا تھا) ۔ مسلمانوں کی تعداد ٣۰۰۰ کے قریب تھی ۔ (سیرت ابن ہشام)
اس جنگ میں چھ مسلمان شہید ہوئے اور ۸ مشرکین ہلاک ہوئے اللہ کے فضل و کرم سے اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اس ذکر اللہ پاک نے سورہ احزاب کی کئی آیتوں میں فرمایا ہے ۔

جنگ حنین چار شوال ۸ ہجری کو لڑی گئی ، "حنین” شہر طائف کے قریب ایک علاقے کا نام ہے ۔ یہ جنگ اسی زمین پر لڑی گئی۔ اس لیے یہ جنگ "غزوہ حنین” کے نام سے مشہور ہوئی ، قرآن میں اسے ”یومِ حنین“ سے تعبیر کیا گیا ہے ، قبیلہ ثقیف اور قبیلہ ہوازن یہ دونوں قبیلے بڑے جنگجو اور کافی بہادر تھے ۔ انہیں غلط فہمی ہوئی کہ کہیں مسلمان ہم چڑاہی نہ کردیں اس لیے انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ بنا لیا ۔ اس کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہوئی تو آپ  ١۲ ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر حنین پہنچے ۔ اس قدر زبردست لشکر دیکھ کر صحابہ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا "آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے” لیکن اللہ پاک نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس طرح کے فخریہ بول کو پسند نہیں فرمایا ۔ جس کا اثر یہ ہوا دشمن نے نہایت ہی چلاکی سے حملہ کیا جس ١۲ ہزار مسلم لشکر میں بھگدڈ مچ گئی ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پائے استقامت میں ذرہ برا بر لغزش نہیں آئی ، اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو پکارا ! پھر چند سیکنڈوں میں جنگ کا نقشہ بدل گیا اور مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگے اور اللہ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی ۔ (صحیح بخاری)
سورہ توبہ ایت نمبر ۲٦ میں بھی اللہ پاک نے اس کا ذکر فرمایا ہے ۔

اس ماہ میں کئی جلیل القدر ہستیوں کا یوم ولادت اور یوم وصال بھی ہے

یکم شوّالُ المکرّم

عُرس حضرت عَمرو بن عاص صحابیِ رسول ، حضرت سیّدُنا عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا وِصال یکم شوّالُ المکرّم 43 ہجری کو ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو عُمّان کا عامل بنایا ، آپ بہترین سپہ سالار ، فاتحِ مصر اور گورنرِ مصربھی تھے ۔

یکم شوّالُ المکرّم

عُرس امام بخاری امیرُالمؤمنین فِی الحدیث ، محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا وِصال یکم شوّالُ المکرّم 256 ہجری کو ہوا ، آپ ایک لاکھ احادیثِ صحیحہ کے حافظ اور قراٰنِ کریم کے بعد صحیح ترین کتاب “ صحیح بخاری “ کے مصنف ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ، 5 / 546)

پانچ شوّالُ المکرّم

عُرس خواجہ عثمان ہاروَنی حضرت خواجہ سیّد عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا وِصال5 شوّالُ المکرّم 617طہجری کو ہوا ، آپ عابد و زاہد ، ولیِ کامل اور حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مرشدِ گرامی ہیں ۔

دس شوّالُ المکرّم

یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت
                                                                                                                            امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ باسعادت 10 شوّالُ المکرّم 1272 ہجری کو ہوئی ، آپ عالمِ باعمل ، مفتیِ اسلام ، ولیِ کامل ، زبردست عاشقِ رسول اور “ فتاویٰ رضویہ “ سمیت کئی کتب کے مصنف ہیں ۔

پندرہ شوّالُ المکرّم

عُرس حضرت امیر حمزہ و شہدائے اُحد رضی اللہ عنہم

پندرہ 15 شوّالُ المکرّم 3 ہجری کو غزوۂ اُحُد وقوع پذیر ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت 70 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا ۔

عُرس شہدائے حُنین رضی اللہ عنہم

شوّالُ المکرّم 8 ہجری میں غزوۂ حُنین رونما ہوا جس میں 4 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔

عُرس اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا سَودہ بنتِ زَمعہ رضی اللہ عنہا

شوّالُ المکرّم 54ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکِ حیات اُمُّ المؤمنین حضرت سَودہ بنتِ زَمعہ رضی اللہ عنہا کا وِصال شوّالُ المکرّم 54 ہجری میں مدینۂ منوّرہ میں ہوا ، آپ حسنِ ظاہری و باطنی سے مالا مال اور خاندانِ قریش کی معزز خواتین میں سے ایک تھیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)