Sunday, 9 April 2023

غزوہ بدر الکبریٰ حصّہ سوم

غزوہ بدر الکبریٰ حصّہ سوم

غزوہ بدر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم غیب : بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غیب کی خبر دینے سے متاثر ہو کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اور آج کا نام نہاد مسلمان انکار کرتا ہے : امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام محمد بن اسحاق نے بیان کیا کہ جس شخص نے عکرمہ سے سنا اس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے (جنگ بدر میں) عباس بن عبد المطلب کو گرفتار کیا وہ ابو الیسر کعب بن عمرو تھے ۔ ان کا تعلق بنو سلمہ سے تھا ۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا : اے ابو الیسر ! تم نے اس کو کیسے گرفتار کیا تھا ؟ انہوں نے کہا اس معاملہ میں ایک ایسے شخص نے میری مدد کی تھی جس کو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا نہ اس کے بعد ، اس کی ایسی ایسی ہیئت تھی ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمہاری مدد ایک مکرم فرشتے نے کی تھی ۔ اور عباس سے فرمایا اے عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن الحارث کا فدیہ بھی دو اور اپنے حلیف عتبہ بن حجدم کا فدیہ بھی دو جن کا تعلق بنوالحارث بن فہر سے ہے ۔ عباس نے ان کا فدیہ دینے سے انکار کیا اور کہا میں اس غزوہ سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا ، یہ لوگ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لائے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہارے معاملہ کو خوب جاننے والا ہے اگر تمہارا دعویٰ بر حق ہے تو اللہ تم کو اس کی جزا دے گا ۔ لیکن تمہارا ظاہر حال یہ ہے کہ تم ہم پر حملہ آور ہوے ہو سو تم اپنا فدیہ ادا کرو ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سے بیس اوقیہ سونا (بطور مال غنیمت) وصول کرچکے تھے ۔ عباس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بیس اوقیہ سو نے کو میرے فدیہ میں کاٹ لیجیے ۔ آپ نے فرمایا نہیں ! یہ وہ مال ہے جو اللہ نے ہمیں تم سے لے کردیا ہے ۔ عباس نے کہا میرے پاس ارمال تو نہیں ہے ، آپ نے فرمایا وہ مال کہاں ہے جو تم نے مکہ سے روانگی کے وقت ام الفضل کے پاس رکھا تھا اس وقت تم دونوں کے پاس اور کو نہیں تھا ۔ اور تم نے یہ کہا تھا کہ اگر میں اس مہم میں کام آگیا تو اس مال میں سے اتنا فضل کو دینا ، اتنا قثم کو دینا اور اتنا عبداللہ کو دینا ۔ تب عباس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میرے اور ام الفضل کے سوا اس کو اور کو نہیں جانتا اور اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ (مسند احمد ج 1، ص 353، طبع قدیم، دار الفکر مسند احمد ج 1 رقم الحدیث :3310 طبع جدید، دارالفکر شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ امام محمد بن اسحاق اور عکرمہ کے درمیان راوی مجہول ہے ۔ (مسند احمد ج 1، رقم الحدیث :3310، مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ، 1416 ھ،چشتی)
حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے اور اس کے باقی تمام رجال ثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج 2، ص 86)
امام محمد بن سعد متوفی 230 نے اس حدیث کو دو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور یہ دونوں سندیں متصل ہیں ۔ (طبقات کبری ج 4، ص 9-10، 10-11، مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت، 1418 ھ)(طبقات کبری ج 13-14، 15، مطبوعہ دار صادر بیروت، 1388 ھ)
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری نتوفی 405 ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا، حافظ ذہبی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی ۔ (المستدرک ج 3، ڈ 324، مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ)
امام ابو نعیم الاصبہانی المتوفی 430 ھ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (دلائل انبوۃ ج 2، ص 476، رقم الحدیث :409، مطبوعہ دارالنفائس، بیروت)
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن العساکر، المتوفی 571 ھ نے بھی اس کو روایت کیا ہے  ۔ تہذیب تاریخ و مشق، ج 7، ص 233، مطبوعہ دار احیاء اتراث العربی، بیروت ۔ مختصر تاریخ ومشق، ج 11، ص 330-329 ۔
علامہ ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن عبداللہ السہیلی المتوفی 571 ھ نے اس لا ذکر کیا ہے ۔ الروض الائف، ج 2، ص 93، مطبوہ ملتان ۔
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے اس حدیث کو زہری اور ایک جماعت سے روات کیا ہے ۔ دلائل النبوۃ، ج 3، ص 143-142 ۔
حافظ ابن کثیر، متوفی 774 ھ نے بھی اس کا از محمد بن اسحاق ازابی نجیح از عطا از ابن عباس ذکر کیا ہے اور یہ بھی سند متصل ہے ۔ السیرۃ النبویہ، ج 3، ص 402، مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، 1417 ھ -
البدایہ والنہایہ، ج 3، ص 699، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1393 ھ،
تفسیر ابن کثیر، ج 3، ص 349، مطبوعہ ادارہ الاندلس بیروت 1375 ھ،
علامہ محمد بن یوسف شامی متوفی 942 ھ نے بھی اس کا اپنی سیرت میں ذکر کیا ہے سیل الھدیٰ والرشاد ج 4، ص 69 ۔
نفسرین نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے، علامہ ابوالحسن بن محمد مادردی، متوفی 450 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ النکت والعیون، ج 2، ص 334-333، موسسہ الکتب الثقافیہ، بیروت، امامالحسین بن مسعود الفراء البغوی، متوفی 516، نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ، اس کے آخر میں ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے رسول ہیں ، بے شک آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اس بات پر اللہ کے سوا اور کوئی نطلع نہیں تھا ۔ معالم التنزیل، ج 2، ص 220، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ ۔
امام حاکم اور امام بیہقی کی روایت میں بھی یہی الفاظ میں ۔
علامہ جار اللہ محمود بن عمر زمحشری، متوفی 568 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ الکشاف ج 2، ص 238، مطبوعہ ایران ۔
امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی 469 ھ نے کلبی کی روایت سے اس کا ذکر کیا ہے ۔ اسباب النزول، ص 245، رقم الحدیث 489 ۔
امام فخرالدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھنے اس کا ذکر کیا ہے ۔ تفسیر کبیر، ج 5، ص 513، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ۔
بیروت 1415 ھ ۔
علامہ ابوالفرج محمد بن علی جوزی متوفی 577 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ زادالمسیر، ج 3، ص 383، مطبوعہ مکتب اسلانی بیروت، 1407 ھ ۔
علامہ ابوعبداللہ بن محمد قرطبی 668 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ الجامع لا حکام القران جز 8، ص 409، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ ۔
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685، نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ انوارالتنزیل مع الکازرونی، ج 3 ص 123، مطبوعہ دارالفکربیروت ۔
علامہ علی بن محمد خازن متوفی 725 ھ نے اس کا ذکر کیا ھے ۔ لباب التاویل، ج 2، ص 411، مطبوعہ پشاور ۔
علامہ نطام الدین حسین بن محمد قمی متوفی 728 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ غرا ئب القرآن، ج 3، ص 421، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1416 ھ ۔
علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی 754 نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ البحرالمحیط، ج 5، ص 355، مطبوعہ 1412 ھ ۔
شیخ محمد بن علی شوکانی متوفی 1250 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ فتح القدیر، ج 3 ص 421، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ۔
شیخ سلیمان بن عمرالمعروف بالجمل متوفی 1204 ھ نے اس کاذ کر کیا ہے ۔ المفتوحات الالھیہ، ج 2 ص 258، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کرا چی ۔
علامہ سید محمودآلوسی نے اس کاذ کر کیا ہے ۔ روح المعانی، ج 10، ص 37-36، مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی، بیروت ۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1396 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ معارف القرآن، ج 4 ص 290، مطبوعہ ادارت المعارف کراچی، 1397 ھ ۔
شیعہ مفسرین میں سے سید محمد حسین طباطبائ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ المیزان، ج 9، ص 142، مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ، طہران ۔
شیخ فضل بن حسن طبرسی متوفی اصاد قین، ج 4، ص 215، مطبوعہ ایران ۔
غیر مقلدین میں سے نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔ فتح البیان، ج 5، ص 218۔ 217، مطبوعہ المکتبہ العصریہ، بیروت، 1412 ۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم غیب کا ثبوت ہے، اور یہ علم غیب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ عزو جل کی عطا سے حاصل ہوا تھا ۔ فقیر چشتی نے اس کے ثبوت میں اس قدر حوالہ جات اس لیے ذکر کیے ہیں تا کے یہ ظاہر ہو جائے کہ ہر مکتب فکر کے قدیم اور جدید علما اسلام کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم ٖغیب مسلم اور غیر نزاعی ہے ۔ اللہ تعالیٰ منکرین علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت عطاء فرمائے کافر علم غیب مان کر مسلمان ہوئے یہ کفر کے فتوے لگاتے ہیں ۔

علم غیب پر اعتراض نمبر 1 : مشکوٰۃ باب الاعلان النکاح کی پہلی حدیث ہے کہ حضور علیہ السلام ایک نکاح میں تشریف لے گئے جہاں انصار کی کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بدر کے مقتولین کے مرثیہ کے گیت گانے لگیں ان میں سے کسی نے یہ مصرعہ پڑھا : وفینا نبی یعلم ما فی غد ، ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ۔ وہ ہی گائے جاؤ جو پہلے گا رہی تھیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب نہیں تھا اگر ہوتا تو آپ ان کو یہ کہنے سے نہ روکتے ۔ سچی بات سے کیوں روکے ۔

اس اعتراض کا جواب : سب سے پہلے تو غور کرنا چاہیے کہ یہ مصرع خود ان بچیوں نے تو بنایا ہی نہیں ۔ کیونکہ بچیوں کو شعر بنانا نہیں آتا ۔ اور نہ کسی مفر و مشرک نے بنایا ۔ کیوں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نبی نہیں مانتے تھے لا محالہ یہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا شعر ہے ۔ معترضین بتائیں وہ شعر بتانے والے صحابی رضی اللہ عنہ معاذ اللہ مشرک ہیں یا نہیں ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہ تو اس شعر بنانے والے کو برا کہا نہ شعر کی مذمت کی ۔ بلکہ ان کو گانے سے روکا ۔ کیوں روکا ؟ چار وجہ سے : ⬇

(1) یہ کہ اگر کوئی ہمارے سامنے ہماری تعریف کرے ۔ تو بطور انکسار کہتے ہیں ۔ ارے میاں یہ باتیں چھوڑو وہ ہی بات کرو ۔ یہ بھی انکسارا فرمایا ۔

(2) یہ کہ کھیل کود ، گانے بجانے کے درمیان نعت کے اشعار پڑھنے سے ممانعت فرمائی اس کےلیے ادب چاہیے ۔

(3) یہ کہ علم غیب کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ناپسند فرمایا ۔

(4) یہ کہ مرثیہ کے درمیان نعت ہونا نا پسند فرمایا ۔ جیسا کہ آج کل نعت خواں کرتے ہیں کہ نعت و مرثیہ ملا ملا کر پڑھتے ہیں ۔

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لکرامۃ نسبۃ علم الغیب الیہ لانہ لا یعلم الغیب الا اللہ وانما یعلم الرسول من الغیب ما اعلمہ او لکرامۃ ان یذکر فی النار ضرب الدف واثناء مرثیۃ القتلی لعلو منصبہ عن ذالک ۔
ترجمہ : منع فرمایا کہ علم کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ۔ کیونکہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وہ ہی غیب جانتے ہیں جو اللہ تعالٰی بتائے یا یہ پسند کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر دف بجانے میں یا مقتولین کے مرثیے کے درمیان کیا جاوے کہ آپ کا درجہ اس سے اعلٰی ہے ۔

اشعتہ اللمعات میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : گفتہ اند کہ منع آنحضرت ازیں قول بجھت آں است کہ دروے اسناد علم غیب است بہ آنحضرت رانا خوش امدو بعضے گویند کہ بجھت آں است کہ ذکر شریف دے در اثنا لہو مناسب نہ باشد ۔
ترجمہ : شارحین نے کہا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اس کو منع فرمانا اس لیئے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ہے ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناپسند آئی اور بعض نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر شریف کھیل کود میں مناسب نہیں ۔

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چُھپا تم پہ کروڑوں درود

محترم قارئینِ کرام : ’’غیب ‘‘ وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اور ہم اپنے حواس جیسے دیکھنے ، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں ۔

لفظ نبی کا معنیٰ ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں

چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ ۔
ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥٤٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،چشتی)(النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ (مصر)(کتاب الشفاء (اردو) جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور (پاکستان)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور (پاکستان)

شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔
ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری (متوفی ١٠٦٩) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

معلوم ہوا کہ لفظ نبی کا ترجمہ غیب کی خبریں بتانے والا یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔

غیب کی دو قسمیں ہیں

(1) جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو ۔ یہ علم غیب ذاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں غیرُاللہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔

(2) جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، گزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی غیرُاللہ کیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے ۔ (تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱/۲۶،چشتی)

اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کےلیے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عِظام علیہم الرحمہ پر ’’غیب ‘‘ کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں

(1) مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمْ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الْخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤْمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ۔ (پ 4 ، ال عمران : 179)
ترجمہ : اللہ مسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔

مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمْ عَلَیۡ : اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر (ابھی) تم ہو ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، یہ حال نہیں رہے گا کہ منافق و مومن ملے جلے رہیں بلکہ عنقریب اللہ تعالیٰ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ذریعے مسلمانوں اور منافقوں کو جدا جدا کردے گا ۔ اس آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ہم اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے ، قرآن کے امام و پیشوا ہونے پر راضی ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معافی چاہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے ؟ کیا تم باز آؤ گے ؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸)

(2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿26﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ﴿27﴾ ۔ (پ 29 ، الجن:26 ، 27)
ترجمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

(3) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ۔ ﴿24﴾ (پ 30 ، التکویر : 24)
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا’’تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا’’سالم مولی شیبہ ہے ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف توبہ کرتے ہیں ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱/۵۱، الحدیث : ۹۲،چشتی)

دوسری روایت یوں ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سورج ڈھلنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھی ، پھر منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے امور ہیں ۔ پھر فرمایا’’جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا ، پس لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا’’ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰،چشتی)

آیت میں فرمایا گیا کہ’’ اے عام لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے اوران برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ، انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے ۔ اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ ہے ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ’’ اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا ، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے ۔

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا ، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)

سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کےلیے روشن فرمائی جیسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیئے روشن کی تھی ۔ (حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶/۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹،چشتی)

حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔ (معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳/۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتّٰی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا ۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۲ )

مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ ارشاد فرمایا ، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا اس میں وہ سب کچھ ہم سے بیان فرما دیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا اور ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعۃ، ص ۱۵۴۶، الحدیث: ۲۵ (۹۲ ۲۸ ))

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے ، ناگاہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے فرمایا : اے احد !ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : لو کنت متخذاً خلیلاً، ۲/۵۲۴، الحدیث : ۳۶۷۵)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اہلِ بدر کے گرنے یعنی مرنے کی جگہیں دکھائیں اور فرمایا :کل فلاں شخص کے گرنے یعنی مرنے کی یہ جگہ ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : جو نشان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس کےلیے لگایا تھا وہ اسی پر گرا ۔ (مسلم ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶(۲۸۷۳))

حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو ایسی قبروں کے پاس سے گذرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو ، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا ۔ (بخاری، کتاب الوضوئ، ۵۹-باب، ۱/۹۶، الحدیث: ۲۱۸)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : صلح حدیبیہ سے واپسی پر ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اونٹ مُنتَشِر ہو گئے ، سب اپنے اپنے اونٹ واپس لے آئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی نہ ملی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ وہاں سے اونٹنی لے آؤ ، تو میں نے اونٹنی کو اسی حال میں پکڑ لیا جیسا مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ (معجم الکبیر، ۱۰/۲۲۵، الحدیث: ۱۰۵۴۸)

محترم قارئین : ان قرآنی آیات و اَحادیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علمِ غیب پہ اعتراض کرنا منافقین کا طریقہ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...