Sunday 16 April 2023

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13

0 comments
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہنا حصّہ اوّل : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متلعق مشکل کشا کا لفظ نہ معلوم کس وجہ سے لوگوں کو گراں ہوتا ہے ، زمانہ سابق میں یہ لفظ مبزلہ لقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کےلیے مستعمل ہوتا تھا ، یہ لفظ عربی حلال المعاقد کا ترجمہ ہے حسب معنی لغوی خصوصیت ذاتِ خداوندی کے ساتھ نہیں رکھتا معانی شرعیہ کے اعتبار سے مشکل قسیم مجمل و متشابہ ہوتا ہے جس کا مصداق ہر فقیہ صاحب الرائے ہو سکتے ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بوقت ارسال یمن جبکہ انہوں نے عرض کی کہ میں حدیث السن ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھ کو قاضی اور حاکم بنا کر بھیجتے ہیں ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سینہ مرتضویہ پر دست مبارک مارا ۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مشکلات کے حل کرنے میں زمانہ صحابہ رضی اللہ عنم میں بھی مشہور ہوگئے تھے تاکہ سخت فیصلہ میں یہ مثل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشہور ہے ۔ ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا ، پیاسے کو پانی پلانا ، بیمار کو دوا دینا ، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔
قرآن پاک کی روشنی میں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورہ التوبة 9 : 74)
ترجمہ : اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (سورہ التوبة 9 : 59)
ترجمہ :  اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا ۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے ، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے ۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدة 5 : 2)
ترجمہ : نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔

یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنة ۔ (ديلمی مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702،چشتی)
ترجمہ : جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
ترجمہ : جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کےلیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض ﷲ علی لسان رسوله ماشاء ۔ (بخاری، الصحيح 5 : 2243، رقم : 5681)
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے ۔

حضرت فراس بن غنم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أسال يا رسول ﷲ ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين ۔ ( بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512 )
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ ۔

پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے ۔

’الفتاح‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ۔ اب ذرا دیکھیے یہی اسماء حسنی بندوں کےلیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً ۔ الْعَالِمُوْنَ ۔(العنکبوت، 29 : 43)’’علم والے بندے‘‘ ۔ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۔ (يوسف 12 : 22)’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘ ۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ (طه 20 : 68) ’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن کریم میں متعدد نام جہاں اپنے لیے استعمال فرمائے ہیں بعینہ وہی اسمائے وصفی اپنے بندوں کے لیے بھی استعمال فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر شرک کا دشمن اور توحید کا حامی کون ہو سکتا ہے ؟ ایسا کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں شرک برائی ہے اور اللہ تعالیٰ برائی کا نہ مرتکب ہو سکتا ہے نہ اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ہے۔ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo(النحل، 16 : 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘
اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں بس اتنا فرق ملحوظ رکھیں کہ اللہ اپنی شان کے مطابق حاکم ہے بالذات و بالاستقلال۔ بندے اس کی عطا سے اور اس کے بنانے سے حاکم ہیں بندوں کے تمام کمالات اس کی عطا اور خیرات ہے جبکہ اس کے تمام کمالات ذاتی ہیں کسی کی عطا سے نہیں ۔

مولا کا مطلب : اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ التحريم 66 : 4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
یہاں پر مولا مدد گار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا) کون کون ہیں : اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نیک مسلمان ، تمام فرشتے ۔
یہ کہنا جہالت ہے کہ اللہ ہی مولا ہے جب صالح مومنین نبی پاک کے مدد گار ہیں جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار ہیں تو یہ نیک مسلمان اور جبریل علیہ السلام اللہ تو نہیں اہل ایمان ہیں مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ ﷲِ ۔
اس نے کہا : اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں ؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا) ، مالک۔ سردار ، انعام کرنیوالا ، آزاد کرنیوالا ، مدد گار ، محبت کرنیوالا ، تابع (پیروی کرنے والا ، پڑوسی ،ابن العم (چچا زاد ، حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) ، عقید (معاہدہ کرنے والا ) ، صھر (داماد، سسر) ، غلام ، آزاد شدہ غلام ، جس پر انعام ہوا ۔
جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔ هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ۔ (سورہ الشعراء، 26 : 79)’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘
کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤ گے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ :وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ۔ (الشعراء، 26 : 80)’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
مومن حاجت روا مشکل کشا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنه ۔ (ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)
’’ جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کےلیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘ ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670،چشتی)
’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس ﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر ﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره ﷲ فی الدنيا والآخرة وﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل ﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت ﷲ يتلون کتاب ﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم ﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)
’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کےلیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من ولا ه ﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب ﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس ۔ (ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948،چشتی)
’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق ﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)
’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ
1 : عمدہ ترکی نسل کے گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔
2 : چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔
3 : باریک کپڑا نہیں پہنے گا۔

(ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394،چشتی)
’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘
خلاصہ کلام : اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہٰذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطا سے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مستقل اور ذاتی ہیں مخلوق کی صفات عارضی اور عطائی ہیں تمام صفات میں یہی اصول پیش رہے بادشاہی حکم (حاکم) گواہ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ اللہ ہے نبی ولی اور دیگر مخلوق اپنی حیثیت رکھتی ہیں ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھانا ظلم ہے ۔ بندہ کو بندہ کی حیثیت میں مانو اللہ تعالیٰ کو اس کی حیثیت و شان کے مطابق ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی  حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعثِ تکوین کائنات فخر موجودات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیُّ مَوْلَاهُ ۔
ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکا مولا ہیں ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور دعا سے انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی تھی ، اسی طرح وہ بارگاہ مرتضوی رضی اللہ عنہ سے بھی رجوع کرتے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور دعا سے مشکل کشائی ہو جاتی ۔

اللہ رب العزت نے اپنے خاص دوستوں کو ایسی شان و مرتبہ سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنی خداداد طاقت کے ذریعے لوگوں کے احوال سے نہ صرف آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی اور حاجت روائی بھی فرماتے ہیں ۔

کیا کسی انسان کو اللہ کے سوا حاجت روا کہا جا سکتا ہے ۔ کیا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاجت روا کہنے سے شرک تو لازم نہیں آتا ؟

یہ وہ سوال ہے جو ایک طبقہ ہر اس موقع پر داغ دیتا ہے جب ان کے سامنے کسی مقبول خدا کی کوئی کرامت پیش کی جاتی ہے اور اس پر وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار نہیں ۔ مثلاً : وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ ﷲِ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ۔
ترجمہ : اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی ولی ہے نہ مددگار ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 107)

وَمَا النَّصُر اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰه ۔
ترجمہ : اللہ کی بارگاہ کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں ۔ (سورہ اٰل عمران آیت نمبر ۱۲۶)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا ۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے ۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں ، جن ہوں یا انسان ، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا : اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 55)
ترجمہ : بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں ۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ التحريم آیت نمبر 4)
ترجمہ : بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں ۔

یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن ۔ (سورہ البقرة)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر ۔

بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا ۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں ۔

اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے ؟

اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘ ، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے ۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھیے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجیے ۔

بخاری و مسلم کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة ۔
ترجمہ : جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا ۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں ۔ لیکن ہمارے یہ نادان دوست اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی ، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو ۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے ۔

 ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کےلیے ہوتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ ۔ (الترغيب والترهيب 3 : 390،چشتی)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کےلیے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کےلیے ان سے رجوع کریں ۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں ۔

علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :

خاکی و نوری نہاد ، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دلِ بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کارکشا ، کارساز

حضرت امام یوسف النبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے سیدنا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں : ایک حبشی غلام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا ۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے ؟ غلام کہنے لگا ’’یعسوب المسلمین‘‘ ختنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زوج بتول مولا علی رضی اللہ عنہ نے کاٹا ہے ۔ ابن الکواء رضی اللہ عنہ نے پوچھا : انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے ؟ حبشی کہنے لگا میں ان کی مدح کیوں نہ کروں ، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کی یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے اور جا کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً غلام کو طلب فرمایا اور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا ، کچھ دعائیہ کلمات پڑھے ۔ اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹادو ، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا ۔ (جامع کرامات اولیا و جلد اول صفحہ 423،چشتی)

حضرت علامہ امام تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ ’’طبقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ایک مرتبہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے دونوں شہزادوں نے رات کی تاریکی میں کسی کو درد بھری آواز میں شعر پڑھتے سنا :

يا من يجيب دعاء المضطر فی الظلم
يا کاشف الضر والبلوی مع السقم

ان کان عفوک لا يرجوه ذو خطاء
فمن يجود علی العاصين بالنعم

ترجمہ : اے وہ ذات اقدس جو تاریکیوں میں مضطرب و بے قرار انسان کی پکار سنتی ہے ۔ اگر خطا کار تیری بخشش کے امیدوار نہ ہوں تو پھر گناہ گاروں پر تیرے سوا نعمتوں کی بارش کون برسائے گا ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اشعار سنے تو حکم دیا اس شخص کو تلاش کیا جائے ۔ لوگ اسے ڈھونڈ کر لے آئے ، وہ پہلو گھسیٹتا ہوا آپ کے سامنے حاضر ہو گیا ، آپ نے فرمایا : تجھے کیا مصیبت پیش آئی ذرا بیان تو کرو ۔ وہ شخص کہنے لگا : میں عیش و نشاط اور گناہوں میں مبتلا تھا ، میرے والد مجھے نصیحت فرماتے ہوئے کہتے : بیٹا خدا سے ڈرو ، اس کی گرفت بڑی سخت ہے۔ ایک دفعہ جب انہوں نے بار بار نصیحتیں کیں تو مجھے غصہ آگیا اور میں آپے سے باہر ہو گیا اور طیش میں آکر انہیں پیٹ ڈالا ۔ میرے والد نے کہا میں تیری شکایت کعبۃ اللہ جا کر دربار خداوندی میں کروں گا ، چنانچہ وہ کعبہ گئے اور جب واپس آئے تو میرا دایاں پہلو مفلوج ہو چکا تھا ۔ اب مجھے اپنے کیے پر سخت ندامت ہوئی ۔ میں نے اپنے والد سے معافی مانگی اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ آخر کار انہوں نے وعدہ فرما لیا کہ وہ اللہ کے گھر جا کر میرے حق میں دعا کریں گے ۔ میں نے انہیں سفر کےلیے اونٹنی پیش کی جس پر سوار ہوکر وہ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے لیکن اونٹنی بھاگ کھڑی ہوئی اور وہ چٹان سے گر کر فوت ہوگئے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تمہارا باپ راضی ہوگیا تھا تو اللہ کریم بھی راضی ہے ۔ اس نے کہا قسم بخدا میرے والد راضی ہوگئے تھے ۔ یہ سن کر حضرت حیدر کرار اٹھے ، کئی رکعت نوافل ادا کیے اور دعا فرمائی ۔ پھر فرمایا : تجھے مبارک ہو کھڑا ہو جا ، وہ اٹھا اور بالکل صحیح سلامت چلنے لگا ۔ وہ شخص صحت یاب ہو چکا تھا ۔

تاجدار اقلیم ولایت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ظاہری حیات مبارکہ میں پیش آنے والے ایسے کئی واقعات تو کتابوں میں منقول ہیں مگر کتب صوفیاء میں بے شمار ایسے واقعات اور مکاشفات بھی موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کے روحانی فیوضات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے کمالات دراصل کمالاتِ نبوت کا ہی تسلسل ہیں کیونکہ ہر ولی کی کرامت دراصل نبی علیہ السلام کے معجزات کا تسلسل شمار ہوتی ہے ۔ ان کرامات کا منبع اور سرچشمہ بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ اقدس ہوتی ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہادی عالم اور مشکل کشاء ہیں اکابرین دیوبند

اکابرین کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشکل کشاء کہا ہے ۔

دور کر دل سے حجاب جہل و غفلت میرے رب
کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے رب
ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے
(کلیاتِ امدادیہ صفحہ نمبر 103ط مطبوعہ دار الاشاعت کراچی،چشتی)

ظاہر ہے کہ جب خود "مشکل کشاء" کی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے خلفاء و مریدین کو اس میں کیا عذر لاحق ہوسکتا ہے ۔

مشکل کشاء اور پیر دستگیر

دیوبندیوں کے امام جناب محمد سرفراز خان صفدر کے چھوٹے بھائی جناب صوفی عبدالحمید خان سواتی صاحب نے تو ’’فوائد عثمانی‘‘ کا حوالہ صحیح سمجھ کر نقل کیا ہے جس سے ایک صوفی بزرگ مولانا عثمان کو "مشکل کشاء" اور "پیر دستگیر" کہا گیا ہے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس صوفی بزرگ کے لئے حسب ذیل القابات میں نہ صرف "مشکل کشاء" بلکہ "دستگیر" کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔

ملاحظہ فرمائیں : الہی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشاء ، سید الاولیاء، سندالاتقیاء ، زبدۃالفقہاء، راس العلماء ، رئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین ، قبلۃ السالکین ، امام العارفین ، برہان المعرفہ ، شمس الحقیۃ ، فرید العصر ، وحیدالزمان ، حاجی الحرمین الشریفین ، مظہر فیض الرحمن پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (فیوضات حسینی ص 68۔ مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ1387ھ)

شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ : کیونکہ دعوات میں توسل کرنا خواہ اعمال صالحہ سے ہو یا عابدین صالحین سے ، اولیاء اللہ سے ہو یا انبیاء اللہ سے ، ملائکہ مقربین سے ہو یا اسماء و صفات و افعال الٰہیہ سے ایجابت دعاء میں بہت زیادہ مفید اور موثر اور سلف صالحین کا محمول بہ امر ہے ۔ اس لئے ان شجروں کو اسی طریق توسل پر ترتیب دیا گیا ہے ، مناسب یہ ہے کہ احباب روزانہ کم از کم ایک مرتبہ جونسا بھی شجرہ پسند خاطر ہو پڑھ لیا کریں اپنے لئے اور اس ناکارہ ننگ خاندان کے لئے بھی دعاء کریں ۔ امید قوی ہے کہ اس طریقہ پر دعاء قبول ہوگی ۔ (سلاسل طیبہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)

آگے تمام شجروں میں مختلف الفاظ سے اور ایک شجرہ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ : ’’ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ۔ یا اللہ ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ، اور صالحین علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ و واسطے سے کرم فرما ۔ (سلاسلِ طیّبہ صفحہ 14 شیخ الاسلام دیوبند)

ایصال ثواب جائز،دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ ( فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)

قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)

دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء:اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا۔(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)

دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136) کیوں جی یہ شرک نہیں ہے ؟؟

ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2) کیوں جی دیوبندیو یہاں شرک ہوا کہ نہیں ؟

اگر یہی الفاظ مسلمانان اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟ ۔ (مزید حصّہ نمبر 14 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔