Sunday 23 April 2023

ماہِ شوالُ المکرم کے فضائل و مسائل اور تاریخی واقعات

0 comments
ماہِ شوالُ المکرم کے فضائل و مسائل اور تاریخی واقعات
محترم قارئین کرام : ماہِ شوالُ المکرم عربی سال کا دسواں مہینہ ہے ، ہم اہل اسلام کے نزدیک اس کی حیثیت بڑی نمایاں ہے ، اس کی پہلی تاریخ کو نماز دوگانہ ادا کی جاتی ہے ، بہتر سے بہتر بدلے کی اللہ رب العالمین سے توقع ہوتی ہے ، تشکر و امتنان سے نگاہیں جھکی ہوتی ہیں ، بس ایک عجیب سماں ہوتا ہے ، جس سے روح تازہ ہوتی ہے ۔ اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول” سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے ۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کےلیے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے ۔ اس لیے اس کا نام شوال رکھا گیا ۔ اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے ۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا ۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی ۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا ۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کےلیے منتخب فرمایا ۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی ۔ (فضائل ایام و الشہور صفحہ ٤٤٣)(غنیہ الطالبین صفحہ ٤٠٥)(مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٣)

اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلیے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی ۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کےلیے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا ۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤)(عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
 

یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان ۔ (مشکوٰۃُ المصابیح صفحہ ١٨٣)
ترجمہ : جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کےلیے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے اور عید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتیو ! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہو جاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہو کر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ”مغفور” ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)

حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے : اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو معاف کر دیا ۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)

رمضانُ المبارک کے ساتھ شوال کے چھ روزوں کا اہتمام سال بھر کے روزوں کے ثواب کو آسان کر دیتا ہے ۔ غور کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے متعینہ روزوں میں سے روزہ اجر و ثواب کے اعتبار سے رمضان کے روزوں کی برابری رکھتا ہے ، اس ابہام کی تھوڑی سی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ رمضان کا ہر روزہ دوسرے دس روزوں کے برابر ہے اس طرح تیس روزے تین سو دنوں یعنی پورےدس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے اور پھر شوال کے چھ روزوں کو ملا لیا جائے تو پورے تین سو ساٹھ دنوں (ایک سال) کے روزوں کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے ۔ حدیثِ ثوبان کا مفہوم بھی کچھ اسی طرح ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَشَهْرٌ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ فَذَلِكَ تَمَامُ صِيَامِ السَّنَةِ ۔ (مسند احمد :۵؍۲۸۰)(سنن ابن ماجہ : الصیام ح: ۱۷۱۵،چشتی)(ابن خزیمہ: ح: ۲۱۱۵)
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک مہینہ کا روزہ دس مہینوں کے برابر ہوا ، اور پھر عید الفطر کے بعد کے چھ روزے ملا کر سا ل بھر کے روزوں کے برابر ہوئے ۔

حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۱۶۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک عظیم ساتھی حضرت اسامہ بن زید حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوال کے روزوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا : شوال کے روزے رکھو چنانچہ انہوں نے تاحیات شوال کے روزوں کا اہتمام کیا ۔ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، كَانَ يَصُومُ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صُمْ شَوَّالًا» فَتَرَكَ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَصُومُ شَوَّالًا حَتَّى مَاتَ ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نبر ۱۷۴۴)
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے رجال کو ثقات میں شمار کر کے اس کی سند میں محمد بن ابراہیم اور اسامہ بن زید کے درمیان موجود انقطاع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مگر یہی حدیث مسند ابی یعلیٰ موصلی میں محمد بن اسحاق عن ابی محمد بن اسامہ عن جدہ اسامہ کے طریق سے موصولاً موجود ہے ۔ اس طرح حدیث متصل و مقبول ہوئی ۔

شوال کی اس لحاظ سے بھی بڑی حیثیت ہے کہ یہ اشہر حج میں سے ہے ۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : أَشْهُرُ الحَجِّ : شَوَّالٌ ، وَذُو القَعْدَةِ ۔ (صحیح بخاری تعلیقاً: کتاب الحج)
ترجمہ : حج کے وہ مہینے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیاہے وہ شوال ، ذوالقعدہ و ذوالحجہ ہیں ۔

سيدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مانند ہے ۔ 
(صحیح مسلم :1164 الصیام،چشتی)(سنن ابوداود :2433الصوم)(سنن الترمذی:759 الصوم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اسکے بعد شوال میں چھ (6) روزے رکھے تو اس نے گویا زمانہ بھر (ہمیشہ یا سال بھر) روزے رکھے ۔ (صحیح مسلم2758 کتاب الصیام)

مسلمان کی طبعیت جب صالح و صاف ہو جائے تو اس کا دل عبادت کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے ۔ روزہ باطنی طہارت کا اکسیری نسخہ ہے لیکن یہ اخلاص ، حسن نیت اور اس کے متقاضی پروٹوکول کے ساتھ مشروط ہے ۔ تو جس نے انتیس یا تیس روزے رمضان میں رکھ لیے ، اب اس کا دل شوال کے چھ روزوں کی طرف راغب ہو گا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر ۔
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے ۔

پورے سال کے روزوں کا ثواب اس لیے مل گا کہ رمضان میں ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہو جاتا ہے ، رمضان ایک ماہ کا ثواب دس گناہ کیا جائے تو دس ماہ کے روزے ہو گئے ، شوال کے چھ روزوں کا دس گناہ ساٹھ ہو گیا ، یوں ایک سال مکمل ہو جاتا ہے ۔ امام ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے بھی یہی لکھا ہے ۔ رمضان المبارک کےروزے دس گنا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ۔

شوال کے چھ روزوں میں ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ اگر رمضان میں کسی کے روزے میں کچھ کمی یا نقص رہ گیا ہو تو اس سے اللہ کریم پورا فرما دے گا۔ مثلا کسی نے سحور میں تاخیر کر دی ، یا افطار میں جلدی کر دی ، یا کسی اور وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہو گیا لیکن اسے شعور و سمجھ نہ ہو تو اب یہ چھ روزے اس کمی کو پورا کر دیں ۔ لہٰذا ان میں نیت بھی یوں کی جا سکتی ہے کہ میرا سب سے پہلا رہنے والا روزہ ، میں اس کی قضا کی نیت کرتا یا کرتی ہوں ، یوں قضا بھی ہو جائے گی اور اگر روزے پورے ہوئے تو نفل کا ثواب مل جائے گا ۔

ایک روایت ہے کہ روزِ حشر اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ، اگر تو مکمل ہوں گی تو مکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تواس کے نوافل ہوں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے ۔ ( سنن ابوداود حدیث نمبر 733 )

یہ چھ روزے مسلسل رکھیں ، یا وقفے کے ساتھ ، دونوں طرح جائز و درست ہیں، سنت پوری ہو جائے گی لیکن ماہِ شوال کے اندر مکمل کر لیں ۔ یہ روزے فقط مستحب عمل ہے۔ جو نہ رکھے اسے اذیت نہ دی جائے لیکن جس کی صحت اچھی ہے ، جسم سلامت ہے وہ اس سعادت سے محروم نہ رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کوشش کیا کریں ہر پیر اور جمعرات کو بھی روزہ رکھیں ، یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے ۔

مسلمانوں کو ان کے نیک اعمال پر اللہ تبارک و تعالی اپنےفضل وکرم سے کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے ۔ مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ۔ (الانعام آیت نمبر 160)
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اسکے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزاملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا ۔

اسی قاعدے کے مطابق ایک مہینے رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینوں کے برابر ہو گئے ، یوں گویا رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے والا پورے سال روزہ رکھنے کے اجر کا مستحق ٹھہرا ، دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول رہا تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی فرض روزے کے ساتھ گزاری ، اس اعتبار سے یہ چھ روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، گو ان کی حثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ صِيَامُ السَّنَةِ» ، يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ ۔
ترجمہ : رمضان المبارک کےروزے دس ماہ اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ۔ (صحیح ابن خزیمہ :2115،چشتی)(النسائی الکبری:2873)

یہ چھ روزے متواتر رکھ لیے جائیں یا ناغہ کرکے دونوں طرح جائز ہیں تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں ، اسی طرح جنکے فرض روزے بیماری یاسفر وغیرہ یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں ان کےلیے اہم یہ ہے کہ پہلے وہ فرض روزوں کی قضا کریں ۔ اس بارے میں بعض علما کی رائے یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا پہلے دی جائے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ۔ لیکن اس بارے میں راجح موقف یہی ہے کہ بہتر تو یہی ہے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ یہ فرض ہیں ، البتہ دلائل کی بنیاد پر یہ گنجائش موجود ہے کہ رمضان کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھے جا سکتے ہیں ۔ رمضان کے روزوں کی قضاء فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کی جا سکتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں عورتیں حتی کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء عموماً گیارہ ماہ بعد ماہِ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے ۔

شوال کے چھ روزے رکھنے کے متعدد فوائد علماء نے ذکر کیا ہے ، جیسے :
{1} رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پورے سال فرض روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے ۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے ، {2} رمضان سے قبل وبعد شعبان و شوال کے روزے فرض نماز سے قبل وبعد والی موکدہ سنتوں کے مشابہ ہیں جنکا فائدہ یہ ہے کہ فرض عبادتوں میں جو کمی واقع ہوئی ہے قیامت کے دن سنتوں سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا جیسا کہ بہت سی حدیثوں میں اسکا ذکر وارد ہے ۔ {سنن الترمذی:413} ۔ اور یہ بھی امر واقع ہے کہ ہم میں سے ہر شخص سے روزے کے حقوق میں کوتاہی ہوتی ہے ، کوئی اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرپاتا کسی کو زبان پر قابو نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ ۔ {3} رمضان کے روزے رکھ لینے کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کرنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی ایک اہم علامت ہے ، کیونکہ جب اللہ تعالی بندے کی کسی نیکی کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیکی کی تو فیق بخشتا ہے جس طرح اگر کوئی شخص کسی کے یہاں مہمان ہو پھر اگر رخصتی کے وقت میزبان دوبارہ آنے کی دعوت دے اور اس پر اصرار کرے تو یہ اس کا مطلب ہے کہ مہمان کی آمد پر اسے خوشی اور اسکی آمد قبول ہے ، اسی طرح اگر ایک نیکی کے بعد بندے کو اسی قسم کی یا کسی اور قسم کی نیکی کی توفیق مل جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی یہ نیکی اللہ تعالی کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی ہے جس طرح کہ اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد پھر گناہ کے کام کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا یہ نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک مردود ہے "إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ " اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے ۔ {4} رمضان المبارک سے متعلق یہ ارشاد نبوی ہے کہ : ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ {صحیح مسلم } نیز جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھ لیا اسکے تمام سابقہ گناہ معاف کردئے گئے ۔ {صحیح بخاری ومسلم} اور روزے دار عید کے دن بے حساب اجر سے نوازے جاتے ہیں {ان شاء اللہ تعالی} لہذا یہ عظیم الہی نعمت اس بات کی حقدار ہے کہ اس پر باری تعالی کا شکر ادا کیا جائے جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں قدم جب طول قیام کی وجہ سے سوج جاتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب تھا : کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ۔ {صحیح بخاری ومسلم} ۔ معلوم ہوا کہ گناہوں کی معافی بندے سے شکریہ کا مطالبہ کرتی ہے ، اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں کے بعد جن کی وجہ سے بندے کے گناہ معاف ہوئے ہیں شوال کے روزے رکھنا اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنا ہے اسکے برخلاف رمضان کا مہینہ گزرتے ہی دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ آنا ان بدبخت لوگوں میں شامل ہونا ہے جن سے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ(28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ ۔ {ابراہیم 29،28}
ترجمہ : کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ {5} رمضان المبارک کے بعد شوال اور اسکے بعد کے مہینوں میں نیک عمل خاص کر وہ نیک اعمال جنکا رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے جیسے: روزہ ،قیام اللیل ،تلاوت قرآن ،اور صدقہ وغیرہ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بندہ جب تک زندہ ہے اسکے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ۔ {الحجر :99}
ترجمہ : اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں ، یہاں تک آپ کو موت آجائے ۔
اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ اس پر مداومت کی جائے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :جو عمل برابر کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو ۔ {صحیح بخاری ومسلم}
لہذا رمضان کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کا معنی یہ ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد بھی بندہ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہے ، کسی عالم نے کیا خوب کہا کہ "وہ لوگ بہت ہی برے ہیں جو اللہ تعالی کے حق کو صرف رمضان میں پہچانتے ہیں حلانکہ اللہ تعالی کے نیک بندے پورے سال اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں ۔ {لطائف المعارف}

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا من شَوَّالٍ كان كَصِيَامِ الدَّهْرِ ۔
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے ۔ (رواه مسلم ، كتاب الصيام ، الحديث1164،چشتی)

زمانہ جاہلیت میں شوال کے مہینے میں شادی بیاہ کو منحوس سمجھتے تھے ۔ جو کہ سراسر غلط ہے ، بلکہ بعض علماء نے تو اس مہینے میں شادی بیاہ کو مستحب فرمایا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اسی مہینے میں فرمایا۔ اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی ، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : تَزَوَّجَنِى رَسُولُ اللَّهِ فِى شَوَّالٍ وَبَنَى بِى فِى شَوَّالٍ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور میری رخصتی شوال میں ہوئی ” وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ : اور وہ اپنی عورتوں کی رخصتی شوال میں مستحب قرار دیتی تھیں ۔ (صحیح مسلم)

ماہِ شوال میں کئی تاریخی جنگیں بھی ہوئیں جن میں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانی دیکر اسلام کو سربلند کیا، اور اللہ کی مدد سے فتح و ظفر کے جھنڈے بھی گاڑ دیے ۔

جنگ بدر میں مشرکین مکہ کی زبردست شکست کی وجہ سے پورا مکہ بدل کی آگ میں جل رہا تھا۔ معرکہ بدر کے ایک سال بعد ١٥ شوال ٣ ہجری کو ابوسفیان ٣ ہزار فوج جن میں سات سو زرہ پوش تین ہزار  اونٹ دو سو گھوڑے اور آلات حرب و ضرب سے لیس ہوکر مسلمانوں پر حملے کا ارادہ بنا لیا، اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی سات سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں ١۰۰ زرہ پوش تھے، ان کو  لے کر میدان احد پہنچ گئے۔ یہ تاریخ اسلام کی دوسری جنگ تھی جو احد پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی اس وجہ سے اسے جنگ احد کہا جاتا ہے۔ جو مورچہ بندی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی تھی اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان شریف اسی جنگ میں شہید ہوئے اس جنگ میں ۷۰ مسلمان شہید ہوئے اور ٣۰ مشرکین جہنم رسید ہوئے۔ اس جنگ میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کس کو فتح ملی کیونکہ دونو طرف سے کافی جانی نقصان ہوا ۔ (مواہب اللدنیہ شرح زرقانی ج ۲،چشتی)(مدارج النبوت ج ۲)

پانچ ہجری شوال ذیقعدہ کے مہینے میں مشرکینِ مکہ کےسر پر پھر جنگ کا بھوت سوار ہو گیا ، اس بار ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں کے ساتھ بھی اتحاد کر کے  ان کو بھی جنگ کےلیے راضی کر لیا ، اور ایک بہت بڑی فوج کھڑی کر لی ، اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے ۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں ٤٠٠٠ پیدل فوجی ، ٣۰۰ گھڑ سوار اور ١٥۰۰ کے قریب اونٹ سوار شامل تھے ۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے  ١۰۰۰ سوار انینہ کی قیادت میں تھے ۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے ٤۰۰ ، بنی شجاع کے ۷۰۰ ، اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے ۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی ۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلیے مدینہ روانہ ہو گئی ۔ (سیرت ابن ہشام)
مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی (یہ خندق بیس دن میں کھود کر مکمل ہوئی ۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی ، سوا دو سے ڈھائی میٹر گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار چھلانگ لگا کر بھی پار نہیں کر سکتا تھا) ۔ مسلمانوں کی تعداد ٣۰۰۰ کے قریب تھی ۔ (سیرت ابن ہشام)
اس جنگ میں چھ مسلمان شہید ہوئے اور ۸ مشرکین ہلاک ہوئے اللہ کے فضل و کرم سے اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اس ذکر اللہ پاک نے سورہ احزاب کی کئی آیتوں میں فرمایا ہے ۔

جنگ حنین چار شوال ۸ ہجری کو لڑی گئی ، "حنین” شہر طائف کے قریب ایک علاقے کا نام ہے ۔ یہ جنگ اسی زمین پر لڑی گئی۔ اس لیے یہ جنگ "غزوہ حنین” کے نام سے مشہور ہوئی ، قرآن میں اسے ”یومِ حنین“ سے تعبیر کیا گیا ہے ، قبیلہ ثقیف اور قبیلہ ہوازن یہ دونوں قبیلے بڑے جنگجو اور کافی بہادر تھے ۔ انہیں غلط فہمی ہوئی کہ کہیں مسلمان ہم چڑاہی نہ کردیں اس لیے انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ بنا لیا ۔ اس کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہوئی تو آپ  ١۲ ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر حنین پہنچے ۔ اس قدر زبردست لشکر دیکھ کر صحابہ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا "آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے” لیکن اللہ پاک نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس طرح کے فخریہ بول کو پسند نہیں فرمایا ۔ جس کا اثر یہ ہوا دشمن نے نہایت ہی چلاکی سے حملہ کیا جس ١۲ ہزار مسلم لشکر میں بھگدڈ مچ گئی ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پائے استقامت میں ذرہ برا بر لغزش نہیں آئی ، اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو پکارا ! پھر چند سیکنڈوں میں جنگ کا نقشہ بدل گیا اور مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگے اور اللہ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی ۔ (صحیح بخاری)
سورہ توبہ ایت نمبر ۲٦ میں بھی اللہ پاک نے اس کا ذکر فرمایا ہے ۔

اس ماہ میں کئی جلیل القدر ہستیوں کا یوم ولادت اور یوم وصال بھی ہے

یکم شوّالُ المکرّم

عُرس حضرت عَمرو بن عاص صحابیِ رسول ، حضرت سیّدُنا عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا وِصال یکم شوّالُ المکرّم 43 ہجری کو ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو عُمّان کا عامل بنایا ، آپ بہترین سپہ سالار ، فاتحِ مصر اور گورنرِ مصربھی تھے ۔

یکم شوّالُ المکرّم

عُرس امام بخاری امیرُالمؤمنین فِی الحدیث ، محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا وِصال یکم شوّالُ المکرّم 256 ہجری کو ہوا ، آپ ایک لاکھ احادیثِ صحیحہ کے حافظ اور قراٰنِ کریم کے بعد صحیح ترین کتاب “ صحیح بخاری “ کے مصنف ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ، 5 / 546)

پانچ شوّالُ المکرّم

عُرس خواجہ عثمان ہاروَنی حضرت خواجہ سیّد عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا وِصال5 شوّالُ المکرّم 617طہجری کو ہوا ، آپ عابد و زاہد ، ولیِ کامل اور حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مرشدِ گرامی ہیں ۔

دس شوّالُ المکرّم

یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت
                                                                                                                            امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ باسعادت 10 شوّالُ المکرّم 1272 ہجری کو ہوئی ، آپ عالمِ باعمل ، مفتیِ اسلام ، ولیِ کامل ، زبردست عاشقِ رسول اور “ فتاویٰ رضویہ “ سمیت کئی کتب کے مصنف ہیں ۔

پندرہ شوّالُ المکرّم

عُرس حضرت امیر حمزہ و شہدائے اُحد رضی اللہ عنہم

پندرہ 15 شوّالُ المکرّم 3 ہجری کو غزوۂ اُحُد وقوع پذیر ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت 70 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا ۔

عُرس شہدائے حُنین رضی اللہ عنہم

شوّالُ المکرّم 8 ہجری میں غزوۂ حُنین رونما ہوا جس میں 4 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔

عُرس اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا سَودہ بنتِ زَمعہ رضی اللہ عنہا

شوّالُ المکرّم 54ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکِ حیات اُمُّ المؤمنین حضرت سَودہ بنتِ زَمعہ رضی اللہ عنہا کا وِصال شوّالُ المکرّم 54 ہجری میں مدینۂ منوّرہ میں ہوا ، آپ حسنِ ظاہری و باطنی سے مالا مال اور خاندانِ قریش کی معزز خواتین میں سے ایک تھیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔