Thursday, 13 April 2023

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 6

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 6
جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم:22995، مصر: مؤسسة قرطبة)(نسائي، السنن الکبری، کتاب الخصائص، باب قول النبي من کنت ولیه فعلي ولیه، 5: 130، رقم: 8467، بیروت: دار الکتب العلمیة،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومن مناقب أمیر المؤمنین علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 3: 119، رقم: 4578، بیروت: دار الکتب العلمیة)

اس حدیث مبارکہ کو اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک سو ترپن (153) طرق ہیں ۔

علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ ولسم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ ﴿ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد 4 صفحہ 333﴾

اس حدیث  کو بیان کرنے والے مشہور صحابۂ کرام و تابعین عظام

    1 ابو اِسحاق

    2 اَصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ

    3 ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ

    4 ابو بردہ رضی اللہ عنہ

    5 بریدہ رضی اللہ عنہ

    6 ابو بریدہ رضی اللہ عنہ

    7 انس بن مالک رضی اللہ عنہ

    8 براء بن عازب رضی اللہ عنہ

    9 ثابت بن ودیعہ انصاری رضی اللہ عنہ

    10 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما

    11 جریر رضی اللہ عنہ

    12 ابو جعفر رضی اللہ عنہ

    13 ابو جنیدہ جندع بن عمرو بن مازن رضی اللہ عنہ

    14 حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ

    15 حبیب بن بدیل رضی اللہ عنہ

    16 حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ

    17 حسن بن حارث رضی اللہ عنہ

    18 حسن بن حسن رضی اللہ عنہ

    19 خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

    20 رفاعہ بن ایاس ضبی رضی اللہ عنہ

    21 ریاح بن حارث رضی اللہ عنہ

    22 ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ

    23 زاذان ابو عمر رضی اللہ عنہ

    24 زاذان بن عمر رضی اللہ عنہما

    25 زر بن حبیش

    26 زیاد بن ابی زیاد

    27 زیاد بن حارث

    28 زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

    29 زید بن شراحیل

    30 زید بن یثیع رضی اللہ عنہ

    31 ابو زینب رضی اللہ عنہ

    32 سالم رضی اللہ عنہ

    33 ابو سریحہ رضی اللہ عنہ

    34 سعد رضی اللہ عنہ

    35 سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

    36 سعد بن عبیدہ رضی اللہ عنہ

    37 سعید بن وہب رضی اللہ عنہ

    38 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

    39 سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ

    40 سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ

    41 ابو طفیل رضی اللہ عنہ

    42 طلحہ رضی اللہ عنہ

    43 طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما

    44 عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم

    45 عبد الاعلی بن عدی اللہ

    46 عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ

    47 عبد الرحمن بن سابط رضی اللہ عنہ

    48 عبد الرحمن بن عبد الرب انصاری رضی اللہ عنہ

    49 عبد اللہ بن بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ

    50 عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

    51 عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

    52 عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

    53 عبد اللہ بن محمد بن عاقل

    54 عبد اللہ بن یامیل رضی اللہ عنہ

    55 عبید بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ

    56 عطیہ عوفی رضی اللہ عنہ

    57 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

    58 علی بن حسین رضی اللہ عنہما

    59 عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

    60 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ

    61 عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ

    62 عَمرو ذی مر رضی اللہ عنہ

    63 عَمرو بن ذی مر رضی اللہ عنہ

    64 عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

    65 عَمرو بن میمون رضی اللہ عنہ

    66 ابو عَمرہ بن محصن رضی اللہ عنہ

    67 عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ

    68 عمیر بن سعید

    69 عمیرہ بن سعد رضی اللہ عنہ

    70 سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا

    71 ابو فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ

    72 قیس بن ثابت

    73 مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ

    74 محمد بن حنفیہ

    75 محمد بن علی

    76 میمون ابو عبد اللہ رضی اللہ عنہ

    77 ناجیہ بن عمرو

    78 نعمان بن عجلان رضی اللہ عنہ

    79 ابو نعیم

    80 ابن واثلہ رضی اللہ عنہ

    81 ہشام بن عتبہ

    82 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

    83 ابو یزید اودی

    84 یزید بن عمر بن مورق رضی اللہ عنہ

قرآن مجید کی آیات کے بعد احادیث کا درجہ ہے اور احادیث میں سب سے زیادہ مستند حدیث متواتر حدیث کہلاتی ہے اور متواتر نص قرآنی کی مانند ہے اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں ـ مذکورہ حدیث پاک حدیث متواتر کے زمرے میں آتی ہے ـ

حدیث متواتر کی تعریف

حدیث متواتر کی تعریف میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : متواتر وہ حدیث ہوتی ہے جس کے روای اس کثرت کے ساتھ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے اور یہ کثرت ابتداء سے لے کر انتہاء تک برابر رہے اور برابری کا مطلب یہ ہے کہ روایوں کی تعداد کم نہ ہو یہ مطلب نہیں کہ زیادہ نہ ہو جبکہ زیادتی اس باب میں اولی اور بہتر ہے ـ تو یہ حدیث بھی متواتر کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس کے طرق بے تحاشا ہیں ـ (ابن عقدہ نے ’کتاب الموالاۃ‘ میں حدیث غدیر کے 101 رُواۃ کا ذکر کیا ہے)

عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه ۔

(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اﷲ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔

شعبہ ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959)(محاملي، امالي : 85)(ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096)(نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164)(ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132)(ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463)(ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222) ۔ ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے  (حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593)(خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108)

یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :ن (ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072)

یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052)(طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80) (ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375)(ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114)

یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143)(ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے ۔

یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457)(حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904)

یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359)(حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946)

یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646،چشتی)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106)

طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049)‘ میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے ۔

ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178)‘ میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ، حضرت عمر بن خطاب ، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے ۔

ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی ’تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61)‘ میں روایت کی ہے ۔

ابن اثیر نے ’اسد الغابہ (3 : 412)‘ میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

ہیثمی نے ’موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204)‘ میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (7 : 74)‘ میں کہا ہے : ’’ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔‘‘

    البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ۔

عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي .

ترجمہ : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ پھر فرمایا : بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے ۔

)ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712،چشتی)(نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86)(نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484)

احمد بن حنبل کی ’المسند (4 : 437، 438)‘ میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)

ابن کثیر نے امام احمد کی روایت ’البدایہ والنہایہ (5 : 458)‘ میں نقل کی ہے ۔

احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060 ۔

ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 1217 ۔

حاکم نے ’المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579 ۔ میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے ۔

ابن حبان نے ’الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929)‘ میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے ۔

ابو یعلی نے ’المسند (1 : 293، رقم : 355)‘ میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

طیالسی کی ’المسند (ص : 111، رقم : 829)‘ میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے ؟ (ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 29)(محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129،چشتی)(هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203)(حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444)(نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں)

عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اﷲ و رسوله ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون ، موسیٰ کی جگہ پر تھے ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث ’السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121)‘ ميں روايت کي ہے ۔)(نسائي نے يہ حديث ’خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضی اللہ عنہ (صفحہ : 32، 33، رقم : 91)‘ میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے)(ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386،چشتی)(مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901)

حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم : ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ

وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالین صفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ، مددگار ، آزاد شُدہ غلام ، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی ، اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۲۵)

مولىٰ کا صحیح مطلب

علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه) ۔ ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح،چشتی)

یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے ۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔

سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔

وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔

من کنت مولاہ فعلی مولاہ

ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصؤد تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔

رافضیوں کے عقیدے کا رد

غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عداوت رکھے ۔

شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰذا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں ) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے مولا ہیں فلہزا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰزا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام امت کے لئے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔

روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد روایت ہٰزا کے معنی ومفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں۔

یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کے لئے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ۔

قال لزید انت اخونا و مولانا

آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔

مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول

روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے

مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں

النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ ( جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے ) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کئے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث ج۴ ص۲۳۱،چشتی)
اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔

اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ؛ مولا ؛ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔

مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصآل مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (البدائیہ لابن کثیر ج۵ ص۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بحوالہ بخاری شریف،چشتی)

اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں۔ لہٰزا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟

(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کردیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرائت کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی۔ لہٰزا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔

(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا ۔

(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب فرمایا۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔

(6) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت لینے سے نکار کردیا۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ ۔

وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ ج۷ ص ۲۲۵ ۔ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)

اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ ۔ ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔ ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں ) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔۔۔۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گئے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لیے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی ص۱۸۱۔ طبع مصر ۔ تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)

مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرمالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔

(7) امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، زکوۃ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح ( اور افصح الناس ) تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)

اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کےلیے نصِ صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صادر ہوا اس کا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کردیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (مزید حصّہ نمبر 7 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...