Tuesday 11 April 2023

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 4

0 comments
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 4
نوٹ : یہ مضمون ہم نے آخر میں پیش کرنا تھا مگر بہت سے علماۓ کرام نے حکم فرمایا شہادت پر پہلے مضمون پوسٹ کر دیں اُن کے حکم پر یہ مضمون پیشِ خدمت ہے دعاٶں کی درخواست ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ چار سال نو ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے ۔ 17 یا 19 رمضان المبارک 40 ہجری 660 عیسوی کو جب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کوفہ کی مسجد میں پڑھا رہے تھے تو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم ملعون آپ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہوا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کئی زخم آئے جس کے نتیجے میں 19 یا 21 رمضان المبارک کو جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ صحیح روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کوفہ کی جامع مسجد میں چالیس ہجری سترہ رمضان بروز جمعۃ المبارک نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ انیس رمضان المبارک کو شہید ہو گئے ۔ کفن دفن حضرت حسن، حسین ، حنیفہ اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے کیا اور باقی لوگ بھی ساتھ تھے ۔ جنازہ حضرت امامِ حسن بن علی بن ابی طالب نے پڑھایا اور آپ رضی اللہ عنہ کو گورنر ہاؤس کے پاس کوفہ میں ہی دفن کیا گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کو خفیہ رکھا گیا کیونکہ خارجیوں کے بے حرمتی کرنے کا ڈر تھا ۔ (البدایۃ والنھایۃ، 7 : 330، 331، مکتبۃ المعارف بیروت)

دوسری روایت کے مطابق : خوارج نے حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان صحضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ایک ہی دن مقرر کیا ، منصوبہ سازوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے قتل کا ذمہ عبد الرحمن ابن ملجم پر ڈالا ، اس بد بخت نے رمضان المبارک کے مہینے میں 21 رمضان المبارک صبح فجر کے وقت امیر المؤمنین اسد الغالب ، حیدر کرار سلسلہ تصوف کے امام ، دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی مسجد میں نماز کےلیے جاتے ہوئے شہید کر دیا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ان (حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما)دو پیش روؤں کی طرح اسلام کے خلیفہ چہارم بھی جام شہادت نوش کر کے سرفرازی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے ۔ (البدایہ والنہایہ :۷/۳۲۶،مجمع الزوائد:۹/۱۳۹،طبقات ابن سعد :۳/۲۳)

خوارج میں سے ایک نامراد عبدالرحمن بن ملجم مرادی تھا ۔ اس نے برک بن عبد اللہ تمیمی خار جی اور عمر وبن بکیر تمیمی خارجی کو مکہ مکرمہ میں جمع کرکے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے قتل کا معاہدہ کیا اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قتل کے لئے ابن ملجم آمادہ ہوا اور ایک تاریخ معین کرلی گئی ۔ مستدرک میں سُدی سے منقول ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم ایک خارجی عورت قطام نامی پر عاشق تھا۔ اس ناشاد کی شادی کا مہرتین ہزار درہم اورحضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو قتل کرنا قرار پایا ۔ چنانچہ فرزدق شاعر نے کہا : ⬇

فَلَمْ  اَرَ مَھْرًا  سَاقَہٗ ذُوْ سَمَاحَۃٍ         
      کَمَھْرِ قِطَامِ بَیْنَا غَیْرِ مُعْجَمٖ           
ثَلَاثَۃُ  اٰلَافٍ  وَّ  عَبْدٌ   وَّ  قِیْنِۃٌ        
         وَ ضَرْبُ عَلِیٍّ بِالْحُسَامِ الْمُصَمَّمٖ
فَلَا مَھْرَ اَعْلٰی مِنْ عَلِیٍّ وَّاِنْ عَلَا        
  وَلَافِتْکَ اِلَّا دُوْنَ فِتْکِ ابْنِ مُلْجَمٖ

اب ابن ملجم کوفہ پہنچا اور وہاں کے خوارج سے ملا اور انہیں درپردہ اپنے ناپاک ارادہ کی اطلاع دی ، خوارج اس کے ساتھ متفق ہوئے ۔ شب جمعہ 17رمضان المبارک 40ھ؁ کو امیر المومنین حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سحر کے وقت بیدار ہوئے، اس رمضان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ دستو ر تھا کہ ایک شب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس افطار فرماتے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہ فرماتے تھے کہ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے وقت میرا پیٹ خالی ہو ۔ آج کی شب تو یہ حالت رہی کہ باربار مکان سے باہر تشریف لائے اور آسمان کی طرف نظر فرماتے اور فرماتے کہ بخدا !مجھے کوئی خبر جھوٹی نہیں دی گئی یہ وہی رات ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے ۔ صبح کو جب بیدار ہوئے تو اپنے فرزند ارجمند امیر المومنین امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:آج شب میں نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور عرض کیا :یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے آرام نہ پایا۔فرمایا : انہیں بد دعا کرو ۔ میں نے دعا کی کہ یارب ! عزوجل مجھے ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرما اور انہیں میری جگہ ان کے حق میں برا دے ۔ (تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ فصل فی مبایعۃ علی رضی اللہ عنہ الخ ، صفحہ ۱۳۸،چشتی)(الصواعق المحرقۃ الباب التاسع الفصل الخامس صفحہ ۱۳۳۔۱۳۵)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم 17رمضان المبارک سن 40 ہجری کو جب بیدار ہوتے ہیں تو اپنے شہزادہ گرامی سیدالاصفاء راکب دوش مصطفی جناب حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سناتے ہیں ۔ آج رات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے عرض کیا ہے کہ لوگوں کے نامناسب رویے سے سخت نزع کی صورت پیدا ہو چکی ہے ۔ جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی (رضی اللہ عنہ) تم اللہ عزوجل سے دعا کرو، لہٰذا میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا مانگی۔ اے اللہ! مجھے ان سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے۔ اس طرح گفتگو ہو رہی تھی کہ کوفہ کی جامع مسجد کے موذن نے صدائے مدینہ لگاتے ہوئے صلوٰۃ صلوٰۃ کی آواز لگائی تو مولیٰ مشکل کشاء علی المرتضیٰ شیر خدا وجہہ الکریم جانب مسجد روانہ ہوئے‘ اتنے میں سامنے سے ابن منجم آ گیا‘ اس نے اچانک آپ پر تلوار سے بھرپور وار کیا۔ آپ کا سراقدس پیشانی سے کن پٹی تک کٹ گیا اور تلوار دماغ تک جا پہنچی۔ لوگ جمع ہوگئے اور قاتل کو پکڑ لیا گیا، زخم اگرچہ بہت گہرا تھا، مگر آپ مزید دو تین دن دنیا میں تشریف فرما رہے۔ اکیسویں شب آپ کی شہادت عمل میں آئی۔ ابن منجم کو لوگوں نے پکڑ لیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے آگ میں جلا دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوفہ کی جامع مسجد کے اندر آپ پر حملہ ہوا تھا لیکن تاریخ الخلفاء میں طبقات ابن سعاد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حملہ نماز میں لوگوں کو جگاتے ہوئے ہوا تھا۔ ان دنوں حالات ناگفتہ بہ تھے، سخت نزع اور اختلافات اور خوارج نے جو بغاوت مچا رکھی تھی لیکن ان نامساعد حالات میں بھی مولی مشکل کشاء کرم اللہ وجہہ الکریم فجر کی نماز میں جگانے کیلئے تشریف لے گئے ۔

قربان جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غیب دانی پر، علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمة اللہ علیہ مسند امام احمد اور حاکم سے اس صحیح سند کے ساتھ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) دو قسم کے لوگ انتہائی بدبخت ہیں، ایک تو آل ثمود ہیں جنہوں نے اللہ کے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، دوسرے وہ جو تمہاری سر پر تلوار مار کو تمہاری داڑھی کو خون آلود کر دے گا۔ تو میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مولا مشکل کشاء کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تمہارے سر پر تلوار ماری جائیگی اور تمہاری داڑھی خون سے رنگین ہو جائیگی اور وہی ہوا ۔ آپ کی شہادت کیوں عمل میں آئی، ابن منجم جو آپ کا قاتل تھا، وہ ایک عورت پر عاشق تھا، وہ عورت خوارج سے تعلق رکھتی تھی، اسکا نام حسطام تھا، اس نے اپنے عاشق سے کہا کہ میرا مہر سن لو، اگر وہ لا سکتے ہو تو میں شادی کروں گی۔ کہا تین ہزار درہم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا سر۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ شہوت بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہے ، واقعی شہوت آدمی کو اندھا کر دیتی ہے، عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر، اس نے اتنا گھناؤنا فعل کیا ۔ قتل کی واردات اور ایسے عظیم الشان انسان کو قتل کیا کہ اس وقت روئے زمین پر صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے افضل زندہ نہیں تھا ، ان کو اس ظالم نے ایک عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر شہید کر دیا ، اپنے انجام کو بھی نہیں سوچا ۔ مٶرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی ۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا ۔ بعد میں اس پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔ باغی پارٹی کے بقیہ ارکان بدستور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد و پیش میں موجود رہے تاہم ان کی طاقت اب کمزور پڑ چکی تھی ۔ تین خارجی ، ابن ملجم ، برک بن عبداللہ ، عمرو بن بکر تیمی ۔ یہ تینوں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا حضرت علی ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے ۔ انہوں نے اپنی طرف سے اپنی جانوں کو اللہ تعالی کے ہاتھ فروخت کیا، خود کش حملے کا ارادہ کیا اور تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ ابن ملجم کوفہ آ کر دیگر خوارج سے ملا جو خاموشی سے مسلمانوں کے اندر رہ رہے تھے۔ اس کی ملاقات ایک حسین عورت قطامہ سے ہوئی ، جس کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے ۔ ابن ملجم ا س کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اسے نکاح کا پیغام بھیجا ۔ قطامہ نے نکاح کی شرط یہ رکھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ ایک خارجی شبیب نے ابن ملجم کو روکا بھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اسلام کےلیے خدمات کا حوالہ بھی دیا لیکن ابن ملجم نے اسے قائل کر لیا ۔ اس نے نہایت ہی سادہ منصوبہ بنایا اور صبح تاریکی میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجد کی طرف آ رہے تھے تو اس نے آپ پر حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا ۔ اس کے بقیہ دو ساتھی جو حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے روانہ ہوئے تھے ، ناکام رہے ، برک بن عبداللہ ، جو حضرت معاویہ کو شہید کرنے گیا تھا ، انہیں زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہوں نے اسے پکڑ لیا ۔ حضرت عمرو اس دن بیمار تھے ، اس وجہ سے انہوں نے فجر کی نماز پڑھانے کےلیے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا ۔ خارجی عمرو بن بکر نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دھوکے میں خارجہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوا اور مارا گیا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا ۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں ، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں ۔ یہاں فقیر تارخ طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہے : ⬇

آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا : میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔
(تیسرے بیٹے) محمد بن حنفیہ سے فرمایا : میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی ؟
میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا ۔
پھر حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے فرمایا : میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے ۔ پھر خاص طور پر امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میرے بیٹے ! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا ۔ جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی : ⬇

بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں ۔ حسن بیٹا ! میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے ۔ (تاریخ طبری جلد 3/2 صفحہ 355)

اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غرباء و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا : تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی کے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ۔۔۔پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری ، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں ۔ (تاریخ طبری جلد 3/2 صفحہ 356)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے ۔ ان وصیتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی ۔

اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وصیت فرمائی، اسے بھی پڑھتے چلیے : بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔
حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ باؤلے کتے ہی کا کیوں نہ ہو ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-356)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ابن ملجم کو طلب کیا تو اس نے آپ کو ایک آفر کی : کیا آپ مجھے ایک اچھا کام کرنے دیں گے؟ وہ یہ ہے کہ میں نے اللہ سے عہد کیا تھا اور میں اسے ضرور پورا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ عہد میں نے حطیم (خانہ کعبہ) کے قریب کیا تھا کہ میں علی اور معاویہ دونوں ہی کو ضرور قتل کروں گا یا خود اس کوشش میں مارا جاؤں گا۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں معاویہ کو قتل کر دوں۔ میں آپ سے اللہ کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں انہیں قتل نہ کر سکا یا قتل کر کے زندہ بچ گیا تو آپ کے پاس آ کر آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں گا۔”حضرت حسن نے فرمایا: “میں اس کام کے لیے تمہیں ہرگز نہ چھوڑوں گا کہ تم آگ کو اور بھڑکاؤ ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-356)

اس کے بعد آپ نے اسے قتل کر دیا۔ پھر لوگ اس کی لاش کو چمٹ گئے اور اس کی بوٹیاں کر کے آگ میں ڈال دیں۔افسوس کہ اس معاملے میں وہ اتنے جذباتی تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل نہ کر سکے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور باغیوں کی حالت کیا تھی ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہاد ت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین حصوں میں تقسیم تھے : ⬇

1 ۔ ایک مختصر گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، لیکن معاملات پر بڑی حد تک باغی چھائے ہوئے تھے ۔ مخلصین میں حضرت ابن عباس ، حسن ، حسین ، ابو ایوب انصاری ، زیاد بن ابی سفیان اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہم نمایاں تھے ۔

2 ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بڑا گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جن میں حضرت علی کے بڑے بھائی عقیل رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے ۔

3 ۔ تیسرا گروہ غیر جانبدار تھا ۔ یہ مسلمانوں کے خلاف کسی کاروائی میں شریک نہ ہونا چاہتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد موجود باغیوں کو پسند نہ کرتے تھے ۔ ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے لوگ شامل تھے ۔

دوسری طرف باغیوں کی قوت اب بڑی حد تک کمزور پڑ چکی تھی کیونکہ خوارج کی صورت میں ان کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا اور بقیہ باغیوں کے بڑے بڑے لیڈر جنگ جمل ، صفین اور جنگ مصر میں مارے جا چکے تھے ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ صحابہ کرام کے تینوں گروپوں کو اکٹھا کر کے ان باغیوں پر ایک فیصلہ کن ضرب لگائی جاتی ، جس سے ان کا زور ٹوٹ جاتا ۔

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ مزید رہتے تو یہ کام کر گزرتے لیکن اللہ تعالی نے یہ سعادت آپ کے بیٹے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کےلیے لکھ رکھی تھی جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پیش گوئی فرما چکے تھے : میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے ۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن حدیث نمبر 2704)

آپ رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ کے اندر اندر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کر کے اپنے نانا اور والد کے مشن کو پورا کر دیا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تاثرات کیا : ⬇

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر عالمِ اسلام میں کہرام مچ گیا اور سب ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہایت دکھ کا اظہار کیا ۔ یہاں فقیر چشتی خاص طور پر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے تاثرات پیش کر رہا ہے ، جن پر دشمنانِ اسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا الزام عائد کیا ہے : ⬇

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر خود ان پر حملہ آور ہونے والے خارجیوں نے دی ۔ ایک خوارجی کہنے لگا : میرے پاس ایسی خبر ہے جس کے سننے سے آپ خوش ہو جائیں گے اور اگر میں آپ سے وہ خبر بیان کروں گا تو آپ کو بہت فائدہ پہنچے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیان کرو ۔ وہ بولا : آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔ آپ نے فرمایا : کاش ! تمہارے بھائی کو ان پر قدرت نہ نصیب ہو ۔ (تاریخ طبری۔40H/3/2-357،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مسائل پیش ہوتے تھے ، وہ ان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ان کی رائے مانگا کرتے تھے ۔ جب ان کے پاس ان کی شہادت کی اطلاع پہنچی تو فرمایا : فقہ اور علم ، ابن ابی طالب کی شہادت کے ساتھ چلا گیا ۔ (ابن عبدالبر۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ 2/52)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ملی تو رونے لگے ۔ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا : آپ اب ان کے متعلق رو رہے ہیں جبکہ زندگی میں ان سے جنگ کر چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : افسوس! تمہیں علم نہیں کہ آج کتنے لوگ علم و فضل اور دین کی سمجھ سے محروم ہو گئے ہیں ۔ (ابن کثیر(701-774ھ/ع1302-1373)۔(البدایہ و النہایہ۔ 11ج/ص129)(تحقیق: الدکتور عبداللہ بن محسن الترکی) قاہرہ: دار ہجر)

ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑے اصرار کے ساتھ ضرار صدائی سے کہا : میرے سامنے علی کے اوصاف بیان کرو ۔ انہوں نے نہایت بلیغ الفاظ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی تعریفیں کیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سنتے رہے اور آخر میں رو پڑے ۔ پھر فرمایا : اللہ ابو الحسن (علی) پر رحم فرمائے، واللہ وہ ایسے ہی تھے ۔ (ابن عبد البر 463/107 ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ 2/53۔ باب علی)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ایک لڑکے نے دی تو آپ نے ایک شعر پڑھا : وہ دور تھے ، ان کی شہادت کی خبر ایک لڑکا لے کر آیا ۔ افسوس ! کہ اس کے منہ میں کسی نے مٹی نہ بھر دی ۔ (تاریخ طبری۔ 3/2-258)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم و فضل کی قائل تھیں اور متعدد موقعوں پر آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ریفر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں علی بہتر جانتے ہیں ۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔حدیث276،چشتی)

حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے مزار پرانور کے بارے میں مورخین کے مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول کے مطابق خارجیوں کی طرف سے قبر مبارک کی بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر آپ کی قبر کو ظاہر نہیں کیا گیا، چھپ کر آپ کو دفن کیا گیا تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ مولی مشکل کشاء علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے جسم مبارک کو آپ کے شہزادہ گرامی سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفے سے مدینہ منورہ منتقل کر دیا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ لے جانے کےلیے آپ کے جسم اقدس کو اونٹ پر سوار کیا گیا اور اس کو لے جانے لگے تو رات کے وقت وہ اونٹ مبارک لاش لے کر غیب ہو گیا ، پھر کچھ بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا ۔ اہل عراق کا عقیدہ ہے کہ آپ بادلوں میں پوشیدہ ہیں ۔ یہ بھی قول ملتا ہے کہ تلاشِ بسیار کے بعد اونٹ سرزمین بنو طے میں مل گیا ، آپ رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر کو وہیں دفن کیا گیا ، یعنی وہی مزار ہے ، کوفے میں بھی عالیشان مزار ہے ۔ (تاریخ الخلفا و ازالة الخفا) ۔ (مزید حصّہ نمبر 4 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔