عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت اور آداب
محترم قارئینِ کرام : کسی بزرگ کی یاد منانے کےلیے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے ۔ بزرگانِ دین اولیاءِ کرام علیہم الرحمہ کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یاد منانا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لیے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہے ۔ بزرگانِ دین کے اعراس میں ذکرُ اللہ ، نعت خوانی اور قرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل سابقہ مضامین میں ذکر کیے جا چکے ہیں ۔ جو لوگ اپنے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کےلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد پاک ہے : وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ان کے بعد آئے ، عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو ، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔ (سورۃ الحشر ،آیت 10)
اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے ، سلف کے لیے بھی کرے ، دوسرے یہ کہ بزرگان دین خصوصاً صحابہ کرام و اہل بیت کے عرس ، ختم، نیاز ، فاتحہ اعلی چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کےلیے دعا ہے ۔ (تفسیر نور العرفان)
بخاری شریف میں ہے : ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم ۔
ترجمہ : ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں ۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ نے فرمایا : ہاں ملے گا ۔ (صحیح بخاری ، جلد1 ، صفحہ 186 مطبوعہ کراچی)
ردالمحتار میں ہے کہ : صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أوصوما أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الھدایۃ ۔
ترجمہ : ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں صراحت فرمائی ہے کہ انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کےلیے کر سکتا ہے ۔ نماز ہو ،روزہ ہو ، صدقہ ہو یا کچھ اور ۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ پشاور )
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)
عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھے اور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا ۔ (بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے ۔ (بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔ (اشرف السوانح جلد اول ، دوم صفحہ نمبر 226)
مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)
اولیاء اللّٰہ علیہم الرحمہ کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اوررفعِ حاجات کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبورپرجاتے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی حاجات کےلیے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ اس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی علیہ الرحمہ سے نقل فرماتے ہیں : میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔ (ردالمحتار مقدمة الکتاب مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل 1/135)
جناب مودودی صاحب لکھتے ہیں : الاحقاف صحرائے عرب (الربع الخالی) کے جنوب مغربی حصہ کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا۔ اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ان کا اصل وطن الاحقاف تھا۔ جہاں سے نکل کر وہ گردوپیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور قوموں پر چھا گئے۔ آج کے زمانہ تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے۔ موجودہ شہر سے تقریبا 152 میل کے فاصہ پر شمال کی جانب میں حضرت موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ھود کے نام سے ہی مشہور ہے۔ ہر سال پندرہ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ قبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی روایات اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہیں ۔ الاحقاف کی موجودہ حالت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمند رکھنے والی طاقت ور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگ زار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا ۔ 1843 ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارہ پر پہنچ گیا ۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے ۔ اس میں جگہ جگہ ایسے سفید قطعے ہیں جن میں کوئی چیز گرجائے تو وہ ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے ۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل سفوف کی طرح ہے ۔ میں دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا جل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔
مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو : Arabia And The Isles Harold ingrams, London, 1946 ۔ (تفہیم القرآن، ج 4، ص 615، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، مارچ 1983 ء)
سید ابوالاعلی مودودی کے اس اقتباس سے جہاں الاحقاف کی تاریخی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے، وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبیوں اور مقدس اور برگزیدہ بندوں کا عرس منانا صرف اہل سنت بریلی مکتبہ فکر کی اختراع نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان بزرگوں کا عرس کا عرس مناتے ہیں ۔ عرس کی معنوی اصل یہ ہے ۔
امام محمد بن عمر الواقد متوفی 2074 ھ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرتے تھے، جب آپ گھاٹی میں داخل ہوتے تو بہ آواز بلند فرماتے : السلام علیکم، کیونکہ تم نے صبر کیا، پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ! پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما ہر سال اسی طرح کرتے تھے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (کتاب المغازی، جلد 1 صفحہ 313 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1404 ھ،چشتی)(دلائل النبوۃ، ج 3، ص 308، مطبوعہ بیروت)(شرح الصدور، ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت 404)(در منثور، ج 4، ص 568)(مصنف عبدالرزاق، 573 قدیم رقم الحدیث جدید 6745)
اور عرس کی لفظی اصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر آ کر سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور جب مردہ یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو اس کی قبر وسیع اور منور کردی جاتی ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس کی طرح سوجاؤ جس کو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا ۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1073، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
اس حدیث میں مومن کےلیے عروس کا لفظ وارد ہے اور عروس کا لفظ عرس سے ماخوذ ہے اور یہ عرس کی لفظی اصل ہے ۔ عرس کی حقیقت یہ ہے کہ سال کے سال صالحین اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے ۔ ان پر سلام پیش کیا جائے اور ان کی تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں اور اتنی مقدار سنت ہے ، اور قرآن شریف پڑھ کر اور صدقہ و خیرات کا انہیں ثواب پہنچانا یہ بھی دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے اپنی حاجات میں اللہ سے دعا کرنے اور شفاعت کرنے کی درخواست کرنا اس کا ثبوت امام طبرانی کی اس حدیث سے ہے جس میں عثمان بن حنیف نے ایک شخص کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے دعا کرنے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المعجم الصغیر، ج 1، ص 1184 ۔ 183، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، 1388ھ)(حافظ منذری متوفی 656 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ الترغیب والترہیب، ج 1، ص 474 ۔ 476،چشتی)(اور شیخ ابن تیمیہ متوفی 728 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ فتاوی ابن تیمیہ، ج 1، ص 274 ۔ 273)
اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں ۔ (المصنف، ج 12، ص 32، مطبوعہ کراچی)(حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے ، فتح الباری، ج 2، ص 495 ۔ 496، مطبوعہ لاہور)
تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام کا عرس منانا یعنی تاریخ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ : حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۱۵)
ترجمہ : اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔
عرس منانا بلاشبہ جائز و درست ہے چاہے انبیائے کرام کا ہو یا اولیائے عظام کا ۔ تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام کا عرس منانا یعنی تاریخِ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۔ (سورہ مریم آیت ۱۵)
ترجمہ : اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا ۔
معلوم ہوا کہ کسی نبی علیہ السلام کے جانب منسوب بزم کو عرس لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔ جیسا کہ ایک واقعہ حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں ذکر کیا ہے : جس میں ماہ ربیع الاول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی جانب منسوب ہونے والے بزم کو عرس ہی تحریر فرمایا ہے اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں مذکور واقعہ کو خود فتاویٰ رضویہ شریف میں نقل کیا ہے تحریر فرماتے ہیں حضرت میر سید عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری رحمۃ اللہ علیہ درماہ ربیع الاول بجہت عرس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ازدہ جا استدعا آمدہ کہ بعد از نماز پیشین حاضر شوند ہر دہ استدعا را قبول کردند۔ حاضران پرسیدند اے مخدوم ہر دہ استدعا را قبول فرمود و ہر جا بعد از نماز پیشین حاضر باید شد چگونہ میسر خواہد آمد ۔ فرمود کِشن کہ کافر بود چند صد جا حاضر می شد ، اگر ابوالفتح دہ جا حاضر شود چہ عجب بعد از نماز پیشین از ہردہ جا چوڈول رسید مخدوم ہر بارے از حجرہ بیرون می آمد بر چوڈول سوار میشد و می رفت ونیز ودر حجرہ حاضر می ماند۔ خرد مندا تو ایں رابر تمثیل حمل مکن یعنی مپندار کہ تمثیلہائے شیخ بچندیں جاہا حاضر شدہ است ۔ لا واللہ بلکہ عین ذات شیخ بہر جا حاضر شدہ بود ، ایں خود دریک شہر و یک مقام واقع شد۔ و ذات ایں موحد خود در اقصائے عالم حاضر است خواہ علویات خواہ سفلیات ۔
ترجمہ : ماہ ربیع الاول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عرس پاک کی وجہ سے مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری قدس سرہ ، کی دس جگہ سے دعوت آئی کہ بعد نماز ظہر تشریف لائیں ۔ حضرت نے دسوں دعوتیں قبول کیں ۔ حاضرین نے پوچھا : حضور نے دسوں دعوتیں قبول فرمائی ہیں اور ہر جگہ نماز ظہر کے بعد پہنچنا ہے یہ کیسے میسر ہوگا ؟ فرمایا : کِشن جو کافر تھا سیکڑوں جگہ حاضر ہوتا تھا اگر ابو الفتح دس جگہ حاضر ہو تو کیا عجب ہے ؟ نماز ظہر کے بعد دسوں جگہ سے پالکی پہنچی ، مخدوم ہر بار حجرہ سے آتے ، سوار ہو جاتے ، تشریف لے جاتے اور حجرہ میں بھی موجود رہتے ۔ اے عقل مند ! اسے تمثیل پر محمول نہ کرنا ، یعنی یہ نہ سمجھنا کہ شیخ کی مثالیں اتنی جگہوں میں حاضر ہوئیں ۔ یہ تو ایک شہر اور ایک مقام میں واقع ہوا خود اس موحد کی ذات عالم کے سروں میں موجود ہے خواہ علویات ہوں خواہ سفلیات ۔ (سبع سنابل سنبلۂ ششم درحقائق وحدت الخ مکتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور صفحہ ۱۷۰)۔(فتاویٰ رضویہ جلد نہم صفحہ ١٥٢)
اور فتاوی رضویہ میں کوئی ایسی عبارت جو اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی جس میں انبیاء علیہم السلام کے عرس کو ناجائز کہا ہو کبھی نظر سے نہ گزری البتہ ایک بدمذہب کی عبارت عرس کے عدمِ جواز پر سائل نے سوال کے ساتھ بھیجا ہے جو فتاوی رضویہ جلد ٢٩ میں ہے اور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا رد کیا ہے جو عبارت عرس کے عدمِ جواز پر ہے وہ بدمذہب کی عبارت ہے اور اس کے بعد میں اس کے رد پر جو عبارت ہے وہ حضور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ہے ۔
اِنتباہ : عوام عرس سے بزرگان دین کی سالانہ فاتحہ خوانی وغیرہ ہی سمجھتی ہے اور اکثر عرس کا استعمال بزرگان دین ہی کے سالانہ فاتحہ خوانی پر ہی مستعمل ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی جانب منسوب مجلس و محافل کو دیگر ناموں سے یاد کرنا ہی بہتر ہے مثلاً ذکر یا محفل وغیرہ اگرچہ عرس کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں لیکن عرفاً قباحت ہے اس لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف منسوب مجلس کو عرس کہنے سے احتراز کرنا بہتر ہے ۔
ہر سال صالحین کے مزارات کی زیارت کے لیے جانا ، ان کو سلام پیش کرنا اور ان کی تحسین کرنا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔ اور ان کے لیے ایصال ثواب کرنا اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، اور ہمارے نزدیک عرس منانے کا یہی طریقہ ہے ۔ باقی اب جو لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافات کرلیے ہیں ، وہ بزرگان دین کی نذر اور منت مانتے ہیں اور ڈھول ، باجوں گا جوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں ناچتے گاتے ہوئے اوباش لڑکے چادر لے کر جاتے ہیں اور چادر چڑھانے کی بھی منت مانی جاتی ہے اور مزارات پر سجدے کرتے ہیں اور مزار کے قریب میلہ لگایا جاتا ہے اور مزامیر کے ساتھ گانا بجانا ہوتا ہے اور موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو یہ تمام امور بدعت سیئہ قبیحہ ہیں ۔ علماء اہل سنت و جماعت ان سے بری اور بیزار ہیں ۔ یہ صرف جہلاء کا عمل ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔ عُرس کا مسئلہ قرآن وحدیث ، صحابۂ کرام اور اولیاء صالحین کے عمل سے واضح ہو چکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں ۔ ہاں غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا ، ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔
کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللہ عزوجل کا نام لیکر ذبح کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہو جائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا ، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کر دیا جاتا ہے ، اور ذبح کے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کےلیے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں ۔
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اپنی کتاب جاءالحق میں تحریر فرماتے ہیں کہ”عرس” کے لغوی معنیٰ شادی کے ہیں،اسی لیے دولہا اور دلہن کو عروس کہتے ہیں،بزرگان دین کی تاریخ وفات کو "عرس "اس لیے کہتے ہیں کہ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر میں ہے کہ جب نکیریں میت کا امتحان لیتے ہیں اور جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں : نم كنومة العروس الذى لا يوقظه الا احب اهله ۔
جب بندہ قبر میں مکمل جواب دے دیتا ہے ، تو حکم ہوتا ہے کہ سوجا جیسے عروس یعنی دولہا سوتا ہے، چونکہ اللہ کے نیک اور متقی بندوں کو قبر میں اللہ کے فضل سے خوشی ہی خوشی رہتی ہے، اس لیے اولياے کرام كے روز وفات کو "عرس” کہا جاتا ہے، جس کی تائید حدیث شریف سے ہو رہی ہے ۔
صدرالافاضل حضرت سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : بزرگان دین کے مزارات اور ان کے وفات کے دن زیارت ، حصول برکت اور ایصال ثواب کےلیے سالانہ حاضر ہونے کو عرس کہتے ہیں”
حضرت ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ ان النبى كان ياتى قبور الشهداء باحد على راس كل حول فيقول السلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار
اس حدیث سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہدائے کرام کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے،ٹھیک اسی طرح مسلمان ہر سال بزرگان دین کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں، لہٰذا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔ ان تمام امور سے یہ بات واضح ہو گئی کہ "عرس” ایک مقدس عمل ہے ، جو خیر و برکت کا ذریعہ ہے ۔
اسی لیے "عرس” میں کسی بھی ناجائز اور غیر شرعی امر کا ارتكاب بلا شبہ جرم عظیم اور قابل گرفت ہے ، لیکن بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج لوگوں نے عرس کے نام پر عجیب و غریب رسمیں ایجاد کر لی ہیں،اور طرح طرح کے غیر شرعی امور کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں،جس سے مخالفین اہل سنت والجماعت کو انگشت نمائی کا موقع میسر ہوتا ہے ، اور اس امر کے ارتکاب کرنے والوں کو موردِ الزام نہ ٹھرا کر امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر طعن و تشنیع کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ہی ان بدعات کو فروغ دیا ہے ، مگر آئے دیکھتے ہیں کہ ان غیر شرعی رسومات کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا مؤقف کیا ہے ؟
بعض لوگ جب کسی بزرگ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں تو جانے یا انجانے میں قبر کا سجدہ کر لیتے ہیں۔
سجدہ بھی ایک عظیم الشان عمل ہے،جو اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی ہو یا سجدہ تعبدی دونوں حرام ہے بلکہ اگر غیر اللہ کو بہ نیت عبادت سجدہ کیا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
لو كنت آمراحدا ان يسجد لاحد لامرت المرأة ان تسجد لزوجها
اگر میں کس کو کسی مخلوق کے سجدہ کرنے کہ حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔
امام اہلسنت فرماتے ہیں کہ روضه انور کا نہ ہی طواف کرو اور نا ہی سجدہ کرو اور نا ہی اتنا جھکو کی رُکوع کے برابر ہو جائے ۔ (فتویٰ رضویہ)
عصر حاضر میں بہت سارے مقامات پر عریانیت کا بازار گرم ہے،مجھے یہ تحریر کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بعض مقدس مقامات اور مزارات بھی انہی حرکات میں ملوث ہیں ، ان غلط کاموں اور برائیوں کو بڑاھنے میں عورتوں کا ہجوم اور اُن کا مردوں کے بیچ انا پیٹرول سے کم کام نہیں کرتا ، ان تمام امور کا احساس ہر سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کو ضرور ہو رہا ہوگا، مگر اصلاح کرے کون ؟ ان کی خود اصلاح ہو جائیگی ۔ ایسے حالات میں کیا عورتوں کو مزارات پر شرکت کی اجازت ہو سکتی ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے "ان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لعن زوارات القبور ، اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی اُن عورتوں پر جو مزارات پر حاضری دیتی ہیں ۔
اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مقدس مزارات پر چادر پوشی بھی یقیناً جائز و مستحسن ہے ، اس امر کا قطعی انکار نہیں ، لیکن جس طرح چادر پوشی کا عموماً رواج ہے وہ یقینا درست نہیں ، جس طریقے سے غیر مسلم اپنے رسومات میں ناچتے گاتے ڈھول باجے کے ساتھ اپنی مورتی کی آخری رسم ادا کرنے کےلیے جلوس کی ایک شکل نکالتے ہیں ، بالکل اسی کی مشابہت رکھتے ہوئے اعراس میں بھی ہو رہا ہے (الا ما شاء اللہ) آخر ہم کیوں شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے قوم کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے "من تشبہ بقوم فہوا منھم ” جو جس قوم سے مشابہت رکھتا ہے وہ اسی میں سے ہے۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کے تارک ہوکر صاحب مزار سے فیض پانے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا کہ جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تو تو شریعت کے حدود میں رہکر عرس منانے کہ حکم دیا ہے،اگر اس کے بر عکس کوئی کام کرتا ہے تو یہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تعلیمات نہیں ، مروجہ اعراس میں غیر شرعی رسومات کو ترجیح دے کر اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے جہاں ایسے عرس منعقد ہوتے ہیں ، تو ایسے عرس کا خدا ہی نگہباں ہے ۔ ہم بزرگوں کے اعراس اس لیے مناتے ہیں کہ ان کو اللہ رب العزت کا قرب حاصل ہے ، تو ان کی قربت کی بنا ہمیں بھی اللہ کا قرب حاصل ہو جاٸے گا اور یہ ہمارے لیے بخشش کا سبب ہو سکتا ہے ، تو اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے محبت کی بنا پر ہم عرس کی تقریبات کرتے ہیں ، مگر محبت کا تقاضہ تو یہ ہے "ان المحب لمن یحب مطیع ” انسان جس سے محبت کرتا اس کا فرمانبردار ہوتا ہے ، اب اولیاء کاملین علیہم الرحمہ سے محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کی اُن کے اقوال افعال پر عمل کیا جائے ، اس نقطے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنا محاسبہ کریں ہمیں اولیاءکاملین سے محبت ہے یہ اندھی تقلید ۔ بالآخر اراکین اعراس سے مہذبانہ انداز میں ایک درد دل رکھتے ہوئے گزارش پیش کرتا ہوں کہ خدارا شریعت کے خلاف ہونے والے تمام رسومات پر سختی سے روک لگائی جائے ، اگر آپ اس فعل حسن میں متحرک و فعال ہوگئے تو میرا یقین ہے کہ عرس "عرس”کی طرح ہوگا ، شریعت کے حدود میں ہوگا ۔ اگر آپ متحرک ہو گئے تو آپ کے ذریعے اہلسنت و جماعت پر اُنگلیاں اٹھانے والے دیابنہ وہابیہ کے سر خم ہو جائینگے ، کیوں کی عموماً عرس کی خرافات ہی کی وجہ سے وہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا یہی مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی پہچان ہے ؟ جہاں غیر اللہ کو سجدہ کیا جاتا ہے ، جہاں چادر پوشی کے نام پر شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے ، جہاں پر ہماری مائیں اور بہنیں مزارات پر حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کے متضاد عمل کرتے ہیں ، قومِ مسلم کے نوجوان تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وہ سپاہی ہیں جس کی وجہ سے اسلام کی سر بلندی ہوتی ہے ، اسلامی تاریخ روشن و تابناک ہوتی ہے، ایک جزی اعتبار سے قوم کی مستورات کی عزت و آبرو آپ کے سپرد ہے ، آپ اُنہی شیاطین کے مکر و فریب سے نجات دلا سکتے ہیں ، آپ ہی تھے جب میدان عمل و جہاد میں ہوتے تو کفار و مشرکین کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی تھی اور لوگوں کو یہ کہنا پڑتا تھا : ⬇
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
کل وہ ہمارے ہی اسلاف تھے جنہوں نے شریعت کی حدود میں رہ کر وہ نمایاں کارنامے انجام دیے کہ تاریخ کے صفحات ان کے کارناموں سے مزین ہیں ، ایک ہم ہیں جو فرائض و واجبات اور شریعت کے اصول و ضوابط کو ترک کرکے محض مستحبات کے عامل ہیں ، جہل و غباوت کے اس دلدل سے اپنے آپ کو منزہ کرکے شریعت کی پاسداری میں مصروف عمل ہو جائیں ، ورنہ مستقبل میں تاریکی اور ذلت و رسوای کے سوا کچھ میسر نہ ہوگا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment