فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 3
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی کُنیت ابو تُراب
حضرت سَہْل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت علی مولا رضی اللہ عنہ ایک روزشہزادیٔ کونین حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پھر مسجِد میں آکر لیٹ گئے ۔ (ان کے جانے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (گھر تشریف لائے اور) بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے اُن کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسجِد میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اورمُلاحَظہ فرمایا کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پر سے چادرہٹ گئی ہے ، جس کی وجہ سے پیٹھ مِٹّی سے آلودہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پیٹھ سے مِٹّی جھاڑ نے لگے اور دو مرتبہ فرمایا : قُمْ اَبَا تُرَابٍ یعنی اٹھو ! اے ابو تُراب ۔ (بُخاری جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۶۹ حدیث نمبر۴۴۱)
اُس نے لقبِ خاک شَہَنْشاہ سے پایا
جو حیدرِ کَرّار کہ مولی ہے ہمارا
عَنْ أَبِيْ حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ إِِسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا۔ فَقَالَ لَهُ : أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِيْ. فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِإِنْسَانٍ : انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَهُ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أَبَا التُّرَابِ. قُمْ أَبَاالتُّرَابِ! مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا ، جب ان کو ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا ؟ انہوں نے کہا ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے ؟ عرض کیا میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں ؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے) ! اٹھو ، اے ابو تراب اٹھو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب المساجد، باب نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الحديث رقم : 430، و البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، 5 / 2316، الحديث رقم : 5924، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الحديث رقم : 2409، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الحديث رقم : 4137، و الحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 211،چشتی)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے ۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے ۔ اس پر حضرت سہل رضی اللہ عنہ ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا ۔ میں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب ! اٹھو ، اے ابو تراب ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1358، الحديث رقم : 3500، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 368، الحديث رقم : 6925، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 167، الحديث رقم : 5879، و الروياني في المسند، 2 / 188، الحديث رقم : 1015، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 150، الحديث رقم : 183، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 296، الحديث رقم : 852،تحفة الأحوذي، 10 / 144،چشتی)
عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الحديث رقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101)
عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ ۔
ترجمہ : حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا ۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے ۔ (البزار في المسند، 4 / 248، الحديث رقم : 1417،چشتی)(والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101)
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا لقب اسد اللہ یعنی شیرِ خدا ہے اور یہ لقب آپ کی بہادری کی وجہ سے آپ کو دیا جاتا ہے ۔ جیسے ہمارے ہاں رستمِ زمان ، شیرِ پاکستان ، شیرِ بنگال وغیرہ کے القاب ہیں ۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے شیرخدا یعنی اللہ تعالیٰ کا شیر کہتے تھے ۔
اسد اللہ کے معنیٰ
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لقب خدا کا شیر ، شیر خدا ، چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب ۔
اسد اللہ کے انگریزی معنی
Lion of God (as the appelation of the fourth orthodox Caliph, Hazrat Ali)
اسد اللہ سے متعلق اشعار
تھی ہربر اسد اللہ کو کہاں بات کی تاب
شیر جھپٹا تو گریزاں ہوا وہ خانہ خراب
کھینچیں گے جو تیغیں اسد اللہ کے پیارے
خوں کا ابھی مینھ برسے گا دریا کے کنارے
رستے میں ابھی تھا اسد اللہ کا جایا
جو چاند محرم کا فلک پر نظر آیا
شجاعت میں آپ رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بے مثل تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کو باروئے خبیر شکن ، پنجہ شیر افگن عطا فرمایا ۔ بارگاہ نبوت سے آپ رضی اللہ عنہ کو اسداللہ کا لقب عطا ہوا ۔ غزوہ بدر ، غزوہ احد غزوہ خندق ، غزوہ خیبر سے شہادت تک قدم قدم پر آپ رضی اللہ عنہ نے فقیدالمثال شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔ فاتح خیبر ، حیدر کرار ، صاحب ذو الفقار ، شیریزداں ، شاہ مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا ، میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجواں افراد کےلیے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا ۔ أخرجہ ابن عساکر ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے) دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا ، یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا ، اور اس کے بعد لوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ (اپنی جگہ سے) نہ ہٹا، یہاں تک کہ چالیس ( 40) افراد نے اسے اٹھایا ۔ (ابن عساکر نے اس روایت کی تصحیح کی ہے) ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے ! جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا ، چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے ، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم و دانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب کو دیکھ لے ! (کہ ان میں سب کے جلوے ہیں ) . (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی جلد 1 صفحہ 75،چشتی)
قوَّتِ حیدری رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جھلک
غزوۂ خیبر میں ایک یہودی نے حضرتِ حیدرِ کَرّار رضی اللہ عنہ پر وار کیا ، اِسی دَوران آپ رضی اللہ عنہ کی ڈھال گر گئی ، تو آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر قَلعے کے دروازے تک پَہُنچ گئے اور اپنے ہاتھوں سے قَلعے کا پھاٹک اُکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بنالیا ، وہ کِواڑ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں برابر رہا اور آپ رضی اللہ عنہ لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا۔یہ کواڑ اتنا وزنی تھا کہ جنگ کے بعد 40 آدمیوں نے مل کر اُٹھانا چاہا تو وہ کامیاب نہ ہوئے ۔ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی جلد ۴ صفحہ ۲۱۲،چشتی)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇
شیرِ شمشِیر زَن شاہِ خیبر شِکَن
پَر تَوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشش شریف)
کسی اورنے بھی کیا خوب کہا ہے : ⬇
علی حیدر تری شوکت تری صَولت کا کیا کہنا
کہ خطبہ پڑھ رہا ہے آج تک خیبر کا ہر ذرّہ
شیر خدا ( شیرِ خُدا ) ۔ { شے + رے + خُدا } ( فارسی )
تفصیلات : فارسی سے مرکبِ اضافی ہے۔ فارسی میں اسم ‘شیر’ بطور مضاف کے ساتھ کسرۂ اضافت لگا کر فارسی میں اسم خاص ‘خدا’ بطور مضاف الیہ ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم علم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے 1611ء کو “کلیاتِ قلی قطب شاہ” میں تحریراً مستعمل ملتا ہے ۔
معانی
مترادفات
اسم معرفہ ( مذکر – واحد)
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کا لقب ، اسد اللہ
شاہِ مرداں ، شیرِ یزداں قوتِ پروردگار
لَا فَتٰي اِلَّا عَلِي لَا سَيْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعین
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام
شیر شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پر تو دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
جنگ خیبر میں جب گھمسان کی جنگ ہونے لگی تو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال کٹ کر گرپڑی تو آپ نے جوش جہاد میں آگے بڑھ کر قلعہ خیبر کا پھاٹک اکھاڑ ڈالا اوراس کے ایک کواڑ کو ڈھال بنا کراس پر دشمنوں کی تلواروں کو روکتے تھے ۔ یہ کواڑ اتنا بھاری اور وزنی تھا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد چالیس آدمی ملکر بھی اس کو نہ اٹھا سکے ۔ (زرقانی جلد ۲ صفحہ ۲۳۰،چشتی)
کیا فاتح خیبرکے اس کارنامہ کو انسانی طاقت کی کار گزاری کہا جاسکتا ہے ؟ ہرگز ہرگز نہیں ۔ یہ انسانی طاقت کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ روحانی طاقت کا ایک شاہکار ہے جو فقط اللہ والوں ہی کا حصہ ہے جس کو عرف عام میں کرامت کہا جاتا ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری شہرۂ آفاق ہے ، عرب و عجم میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے رعب و دبدبہ سے آج بھی بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں ۔ جنگ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرما دیا تھا اس لیے اس میں حاضر نہ ہو سکے باقی تمام غزوات و جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ جنگ بدر میں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسود بن عبد الاسد مخزومی کو کاٹ کر جہنم میں پہنچا یا تو اس کے بعد کافروں کے لشکر کا سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر میدان میں نکلا اور چلاّ کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، اشراف قریش میں سے ہمار ے جوڑ کے آدمی بھیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا ۔ اے بنی ہاشم ! اُٹھو اور حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰ نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ رضی ﷲ عنہم دشمن کی طرف بڑھے ۔ لشکر کے سردار عتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہوا اور ذلت کے ساتھ مارا گیا،ولید جسے اپنی بہادری پر بہت بڑا ناز تھا وہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا آگے بڑھا اور ڈینگیں مارتا ہوا آپ پر حملہ کیا مگر شیر خدا علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیر میں اسے مار گرایا اور ذوالفقار حیدری نے اس کے گھمنڈ کو خاک و خون میں ملا دیا۔اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کو زخمی کر دیا ہے تو آپ نے جھوٹ کر اس پر حملہ کیا اور اسے بھی جہنم پہنچا دیا ۔
جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانو! تمہارے نبی قتل کر دئیے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہانتک کہ اِدھر اُدھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے ۔حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آسمان پر اُٹھالیا ۔اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاؤں یہانتک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حفاظت فرمائی ۔میں دوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کیلئے آنے لگے۔آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دئیے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا ۔اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا ۔اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا انہ منی وانا منہ۔یعنی’’ بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا وانا منکما ۔یعنی’’میں تم دونوں سے ہوں۔‘‘سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاکر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا شہید ہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہا گھس جانا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرنا آپ کی بے مثال بہادری اور انتہائی دلیری کی خبر دیتا ہے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ کے عشق اور سچی محبت کا بھی پتہ دیتا ہے ۔
حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ وُد (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے ۔جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے ﷲ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں۔اس نے کہاہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ﷲ و رسول (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچادیا ۔
محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ عمرو عبدِ وُد میدان میں اس طرح پر نکلا کہ لوہے کے زر ہیں پہنے ہوئے تھا اور اس نے بلند آواز سے کہا ۔ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ۔اس آواز کو سن کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور مقابلہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ یہ عَمرو بن عبدِ وُد ہے ۔دوسری بار عَمرو نے پھر آواز دی کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرنی شروع کی ۔کہنے لگا تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہوکہ جو بھی تم میں سے مارا جاتا ہے وہ سیدھے اس میں داخل ہو جاتا ہے ۔میرے مقابلہ کیلئے کسی کو کیوں نہیں کھڑا کرتے ہو ۔دوبارہ پھر حضرت علی نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی مگر آپ نے پھر وہی فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تیسری بارعَمرو نے پھر وہی آواز دی اور کچھ اشعار بھی پڑھے۔ راوی کا بیان ہے کہ تیسری بار حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم !میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلوں گا۔آپ نے فرمایا کہ یہ عَمرو ہے ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا چاہے عَمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تیسری بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو اجازت دیدی ۔حضرت علی چل کر اس کے پاس پہنچے اور چند اشعار پڑھے ۔ عَمرو نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی ہوں۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ہو؟آپ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں۔اس نے کہاں اے میرے بھائی کے بیٹے !تیرے چچاؤں میں سے ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے زیادہ ہیں میں تیرا خون بہانے کو برا سمجھتا ہوں۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا مگر خدا کی قسم میں تیرا خون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔ یہ سن کر وہ غصہ سے تلملا اُٹھا ۔گھوڑے سے اتر کر آگ کے شعلہ جیسی سونت لی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف لپکااور ایسا زبر دست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی یہانتک کہ آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نعرۂ تکبیر سناجس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اسے جہنم میں پہنچادیا ۔شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال سے پکار اُٹھا :⬇
شاہ مرداں شیر یزداں قوتِ پروردگار
لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادروں کے باد شاہ، خدا کے شیر اور قوت پِروردگار ہیں ۔انکے سوا کوئی جوان نہیں اورذوالفقا ر کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ۔
اسی طرح جنگ خیبر کے موقع پر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شجاعت اور بہادری کے وہ جو ہر دکھائے ہیں جس کاذکر ہمیشہ باقی رہے گا اور لوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ پیدا کرتارہے گا ۔ خیبر کا وہ قلعہ جو ’مرَحَّب کاپایہ تخت تھااس کافتح کرنا آسان نہ تھا ۔ اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا اوردوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا لیکن فاتح خیبر ہو نا تو کسی اور کےلیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے ان حضرات سے وہ فتح نہ ہوا جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر ﷲ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص ﷲ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور ﷲ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں ۔ (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم) ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس خوشخبری کو سن کر صحابۂ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی اس لئے کہ ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کل صبح ہمیں جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم ﷲ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور ﷲ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے ۔اس لئے کہ وہ صحابی تھے ان کا یہ عقیدہ ہر گز نہیں تھا کہ کل کیا ہوے والا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کی کیا خبر؟ بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ﷲ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا۔جب صبح ہوئی تو تمام صحابۂ کرام رضوا ن ﷲ علیہم اجمعین امیدیں لیے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آج کس کو سرفراز فرماتے ہیں ۔ سب کی ارمان بھری نگاہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : این علی بن ابی طالب۔یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلالائے ۔جب حضرت علی رضی ﷲ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔فبصق رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی عینیہ فبرأ۔اور ان کی آنکھیں اس طرح اچھی ہو گئیں گویا دکھتی ہی نہ تھیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تم اُن کو اسلام کی طرف بلاؤ اور پھر بتلاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں ۔خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا۔(بخاری ،مسلم)
اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مقابلہ کرنے کےلیے مُرَحُّبْ یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کلا ۔ مُرَحُّبْ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا۔حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھالیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا ۔اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا ۔جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اُٹھا نہ سکے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 114،چشتی)
ابن عساکر نے ابو رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جنگ خیبر میں قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لے کر اس کو ڈھال بنالیا وہ پھاٹک ان کے ہاتھ میں برابر رہا اور وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا ۔ اس کے بعد پھاٹک کو آپ نے پھینک دیا ۔ لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کئی آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر وہ نہیں پلٹا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 114)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہنے کا سبب
جب قُریش مبتَلائے قَحْط ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت ابوطالِب پرتخفیفِ عِیال (یعنی بال بچّوں کا بوجھ ہلکا کرنے) کے لئے حضرت مولا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی بارگاہِ ایمان پناہ میں لے آئے ، حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کِنارِ اقدس (یعنی آغوش مبارَک) میں پَروَرِش پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں ہوش سنبھالا ، آنکھ کُھلتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جمالِ جہاں آرا دیکھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کی باتیں سنیں ، عادتیں سیکھیں ۔ تو جب سے اِس جنابِ عِرفان مآب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ہوش آیا قَطْعًا یقیناً ربّ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ہی جانا ، ایک ہی مانا ۔ ہرگز ہرگز بُتوں کی نَجاست سے ان کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا ۔ اسی لئے لَقَبِ کریم ’’کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ ‘‘ ملا ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۸ صفحہ ۴۳۶)
علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتا ہے کہ : مولا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہنے کی وجہ علماء نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ خوارج اپنی خباثت سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو سود اللہ وجہہ سے یاد کرتے تھے اسی لیے اہل سنت و جماعت نے کرم اللہ وجہہ مقرر کیا ۔ (فتاوی رشیدیہ صفحہ ۱۰۹)
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح المغیث میں ایک دوسری وجہ لکھی ہے کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے کبھی بت کو سجدہ نہیں کیا اس لیئے ان کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں : وفی ”تاریخ إربل“ لابن المستوفی عن بعضہم أنہ کان یسأل عن تخصیصہم علیا ب " کرم اللہ وجہہ " فرأی فی المنام من قال لہ: لأنہ لم یسجد لصنم قط․ (فتح المغیث : ۲/۱۶۴ بحوالہ الیواقیت الغالیہ: ۲/ ۲۴۴،چشتی)
دس سال کی عمر میں شجرِ اسلام کے سائے میں آ گئے ، نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے لاڈلی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہی کی زَوجِیّت میں آئیں ۔ بڑے شہزادے حضرتِ سیِّدنا امام حَسَن مُجتَبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی نسبت سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی کُنْیَت ’’اَبُوالحَسَن‘‘ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’ابُو تُراب ‘‘ کُنیْت عطا فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۲)
حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی ، شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو یہ کُنْیَت اپنے اصلی نام سے بھی زیادہ پیاری تھی ۔ (بُخاری جلد ۲ صفحہ ۵۳۵ حدیث نمبر ۳۷۰۳)
حضرات اہل بیت کرام و صحابۂ عظام رضی اللہ عنہم کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ کہا جاتا ہے ، حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ اس عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہا جاتا ہے ، اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ) فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف (رضی اللہ عنہم) ۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ’’کرم اللہ وجہہ ۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف رضی اللہ عنہم ہے ۔ جب وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں ، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹا دیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگا دیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو بزرگ و باکرامت بنایاہے) کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ 85) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment