Saturday 15 April 2023

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 10

0 comments

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 10

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب حصّہ دوم : رافضی اور تفضیلی لوگ صدیق اکبر اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہما میں قدم اسلام کا موازنہ لے کر بیٹھ گئے مگر علماء کا یہ لکھنا کے صدیق اکبر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلان نبوت سے پہلے شام کے تجارتی سفر کے دوران ہی ایمان لے آئے تھے اس وقت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی نہیں ہوئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 30)

اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

اور یہ بھی فرمائیے کہ مستدرک میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ ابوبکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر تھے آپ ان سے ہر معاملے میں مشورہ لیتے تھے آپ اسلام میں ان کے ثانی تھے غار میں ان کے ثانی تھے بدر کے دن عرش میں ان کے ثانی تھے اور قبر میں ان کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے آگے کسی کو نہیں سمجھتے تھے اصل الفاظ یہ ہیں : كَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ الْوَزِيرِ، فَكَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْغَارِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْعَرِيشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْقَبْرِ ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ يُقِدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 66 مطبوعہ دار الكتب العلمية - بيروت،چشتی)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یہ تمام یکتائیاں آپ کو نظر کیوں نہ آئیں ؟

اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام اولین و آخرین میں سے ولایت میں سب سے افضل ہیں : فهو افضل اوليائ من الاولین و الاٰخرین وقد حكى الاجماع على ذالك ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 61)

عین ممکن ہے کہ کسی کی رگ رافضیت پھڑک اٹھے اور ہم پر مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص کے انکار کا الزام لگا دے بدگمانی اور جان بوجھ کر الزام تراشی ان لوگوں کی عادت ہے لہٰذا ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص میں آل رسول کا جد امجد ہونا اقضی الصحابہ ہونا مولائے جمیع مومنین ہونے کا خصوصی اعلان خیبر کے دن جھنڈا عطا ہونا مسجد شریف میں سے جنابت کی حالت میں گزرنے کی اجازت کا ہونا لايئودى عنى الا انا او على کا اعزاز انت منی بمنزلة ہارون من موسی وغیرہ شامل ہیں بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے خلفاء کی تعداد تیرہ بتائی ہے : لَقَدْ كَانَتْ لَهُ ثَلَاثَةَ عَشَرَ مَنْقَبَةً، مَا كَانَتْ لِأَحَدٍ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ۔ (المعجم الأوسط نویسنده : الطبراني جلد : 8 صفحه : 212 مطبوعہ دار الحرمين - القاهرة)

یہ باتیں آپ کی فضیلت کا ثبوت ہے لیکن افضلیت کا ثبوت نہیں ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل ایسے بھی ہیں جنہیں روافض نے آپ رضی اللہ عنہ کے خصائص بناکر مشہور کر دیا ہے اور ہمارے بھولے بھالے سنی بھی تحقیق کیے بغیر سر مارتے چلے جاتے ہیں مثلا مشہور کر دیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مولود کعبہ ہیں حالانکہ حضرت حکیم بن حزام ضی اللہ عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے تھے امام حاکم لکھتے ہیں : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «§وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ ۔
ترجمہ : حضرت مصعب بن عبداللہ نے حکیم بن حزام کا نسب بیان کیا اور فرمایا کہ ان کی والدہ ام فاختہ بنت زہیربن اسد بن عبدالعزی تھیں انہوں نے حکیم کو کعبہ میں جنم دیا جبکہ حاملہ تھیں ان کو کعبہ کے اندرونی حصہ میں پیدائش کا درد ہوا تو حکیم کو کعبہ کے اندر ہی جنم دیا انہوں نے اسے بغل میں لے لیا اور حوض زمزم کے پاس آکر کپڑوں کو دو یا حکیم سے پہلے بھی کسی نے کعبہ میں جنم نہ لیا تھا اور ان کے بعد بھی کوئی کعبہ میں پیدا نہ ہوا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)
یہ بات نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الحاکم وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ۔
ترجمہ : حاکم کہتا ہے کہ آخری جملہ بولنے میں مصعب کع وہم ہوا ہے تواتر کے ساتھ اخبار موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے امید المومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه : 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور وہ جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ روایت علماء کے نزدیک ضعیف ہے ۔
وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔ (تهذيب الأسماء واللغات نویسنده : النووي، أبو زكريا جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًّا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔
ترجمہ : شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام کے سوا کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور مستدرک حاکم میں جو لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ ضعیف ہے  ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي نویسنده : السيوطي، جلال الدين جلد : 2 صفحه : 880 مطبوعہ دار طيبة)

عبدالرحمٰن محمد سعید دمشقی لکھتے ہیں : مجھے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں کوئی چیز نہیں ملی بلکہ حضرت حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا ثابت ہے حاکم کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایت کے بعد یہ لکھا ہے کہ حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا تواتر سے ثابت ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم اس متواتر روایت کو پیش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے حاکم پر جو تساہل میں اور تشیع میں مشہور ہے کہ انہوں نے اس تواتر کا دعوی کیسے کر دیا ۔ كان اللائق به ان يأتى بتلك الرواية المتواترة الخ ۔ (احادیث یحتج بھا الشیعة صفحہ 122) ۔ اس کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا کعبہ شریف میں پیدا ہونا بے شمار کتب میں مذکور ہے مثلا : ⬇
صحیح مسلم رقم الحدیث3869
معرفت الصحابہ لابی نعیم جلد 2صفحہ 70
سیر اعلام النبلا جلد 3 صفحہ 46
الاعلام جلد 2 صفحہ 259
نصب الرایہ جلد 4 صفحہ 2
الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب علم لصاحب المشکوة 591
کتاب المجر صفحہ 176
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر صفحہ 397
تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 182
ازالۃ الخفاء جلد 2 صفحہ 291
فیض القدیر جلد 2 صفحہ 37
ہم نے صرف نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا جاؤ آسمان علم و فقر کے ان درخشندہ ستاروں پر جاکر فتوی بازی کرو جن کی مثال کبھی نہ لا سکو گے ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ : صرف مولا علی رضی اللہ عنہ علم کا دروازہ ہیں حالانکہ فبايهم اقتديتم اهتديتم وغیرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم بھی علم کا دروازہ ہے ان میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم و فضل کی بنا پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا امام بنایا گیا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 678)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بچا ہوا سارا علم پی لیا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 2190)(صحیح بخاری رقم الحدیث 82،3681،7006، 7027،7032،چشتی)(ترمزی رقم الحدیث 2284)(مستدرک للحاکم رقم الحدیث 4552)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاری ہیں حضرت زید بن ثابت کا سب سے زیادہ علم میراث کے ماہر ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حلال اور حرام کا علم رکھتے ہیں مولا علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی ہیں یہ سب باتیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہیں اور ترمذی جلد 2 صفحہ 219 پر موجود ہے اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے بڑے حافظ الحدیث ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث119،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس کو دین کی فقہ اور حکمت عطا ہوئی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 57)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3760)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہمراز ہیں جس سے ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3761)

اسی لیے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب العلم کی شرح میں لکھا ہے کہ ای باب من ابواب العلم یعنی مولا علی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے لہٰذا باب العلم ہونا مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا ثبوت ضرور ہے مگر یہ افضلیت کا ثبوت نہیں ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کردیا گیا ہے کہ : صرف حضرے علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام انبیاء و صحابہ تابعین رضی اللہ عنہم بلکہ تمام اولیاء کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ۔ اس شخص کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ہو یا جس نے صحابی کو دیکھا ہو  (ترمذی رقم الحدیث3858)

پھر مولا علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت کیوں نہ ہوگا لیکن یہ آپ کا خاصہ نہیں ثانیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اور وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ کر مسکراتے تھے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3668)

کعبہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے قرآن شریف کے صحیفے میں دیکھ کر پڑھنا ہزار گناہ زیادہ صاحب رکھتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 2218،چشتی)(مشکوۃ رقم الحدیث2167)

ماں باپ کی طرف محبت کی نظر سے صرف ایک مرتبہ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ (مشکاۃ صفحہ 421)

اور اللہ کے ولی کی نشانی ہی یہ ہے کہ جب اسے دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث4119)

لہٰذا اس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کا خاصہ نہیں ان تمام احادیث میں وجہ اشتراک محض عبادت ہے ورنہ مقام اور مرتبے کا فرق اپنی جگہ مسلم ہے ۔

یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے حالانکہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس طرح اپنی نعت سنانے کا حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا اسی طرح ایک دن پوچھا قلت فى ابى بكر شئيا کیا تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منقبت لکھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا سناؤ میں سننا چاہتا ہوں انہوں نے وہ منقبت سنائی ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4468،4518،چشتی)

یہ صدیق اکبر ضی اللہ عنہ کا خاصہ ہے ۔

مستدرک میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک زبردست قول موجود ہے کہ جب صالحین کا ذکر ہو تو عمر کی بات ضرور کرو ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4578)

خود مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر ۔ (معجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث5549)(تاریخ الخلفاء صفحہ 94)

بلکہ تمام صالحین کے بارے میں فرمایا کہ ذکر الصالحین کفارۃ یعنی صالحین کا تذکرہ گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث 4331)

لہٰذا اس حدیث میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہاں پر رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں ۔

داماد رسول ہونا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس پوری کائنات میں واحد ایسی شخصیت ہیں جنہیں کسی نبی کی دو شہزادیوں کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے ہاں اس میں ایک پہلو سیدہ النساء علی ابیہا و علیہا الصلاۃ وسلام کی جہت سے خاصیت کا موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اسے ہم آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خصائص میں بیان کرتے ہیں ۔

اسی طرح علی منی وانا من علی کو بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہی الفاظ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔ (ترمذی رقم الحدیث3775)

یہی الفاظ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں اور کتاب وہی ہے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3759)(مشکوۃ رقم الحدیث 6157)
یہی الفاظ پورے قبیلہ اشعری کے بارے میں بھی موجود ہیں : الاشعریون هم منی وانا منھم ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث2486)(صحیح مسلم رقم الحدیث6408)
یہی الفاظ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں کہ : جلیبیب منی وانا من جلیبیب جلیبیب منی وانا من جلیبیب ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث6358)

بلکہ اہل علم کی توجہ کےلیے عرض ہے کہ : ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم منھم کے لفظ پر غور فرمائیے اور اس کے برعکس إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ پر بھی غور فرمائیں بعض احادیث مثلا من غش فلیس منی جیسے الفاظ پر غور فرما لیجئے ان شاء اللہ العزیز سینہ کھل جائے گا اور آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کس طرح بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے تاہم اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ضرور موجود ہے مگر یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں اور نہ ہی افضلیت کا ثبوت ہے ۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بھائی قرار دیا تھا یہ آپ کا خاصہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صدیق اکبر کو بھی اپنا بھائی قرار دیا ہے ولکن اخی و صاحبی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3656)(صحیح مسلم رقم الحدیث6172)

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اشر کنا یا اخی دعائک یعنی اے میرے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث1498)(ترمزی رقم الحدیث1980،چشتی)(مشکواۃ المصابیح رقم الحدیث2248)

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھائی قرار دیا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 318)

لہٰذا یہ بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خاصہ نہیں ہاں مواخات مدینہ کی خصوصی جہت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو اخوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے ۔

مواخات کا یہ مخصوص گوشہ چچازاد بھائی ہونے کے سبب اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاشانہ اقدس میں پرورش پانے کے سبب اور دیگر فضائل کی وجہ سے ہے نہ کہ افضلیت کی وجہ سے ان سب فضیلتوں کے پیش نظر مولا علی رضی اللہ عنہ ہی اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بھائی بنتے تو بات سجتی تھا ۔ لہٰذا اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی پیاری فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کی افضلیت کا ثبوت نہیں اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بلکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں حدیث شریف میں ہے کہ : آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار ۔ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے  ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3784)(صحیح مسلم رقم الحدیث 235،236،237،238،239)(نسائی رقم الحدیث5019)

اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں فرمایا کہ : فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ۔
یعنی جس نے ان سے محبت رکھی پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ (ترمذی رقم الحدیث 3862،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث 16808)(مشکوۃ رقم الحدیث 6014)

اسی طرح کی احادیث کو پس پشت ڈال کر خوارج والی منافقت کے سوا باقی ہر طرح کی منافقت کو روا کر دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح خروج منافقت ہے اسی طرح رافضیت بھی منافقت ہے اور جمیع صاحب اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت صحیح ایمان ہے ۔

فقیر نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل اہل سنت کی کتب میں درج ہیں انہیں روافض و تفضیلیوں نے متفق علیہ بنا ڈالا اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل خواہ کتنی کثرت اور کتنی ہی قوت سے کتب اہل سنت میں موجود ہوں اور صرف فضیلت پر ہی نہیں بلکہ افضلیت پر دلالت کر رہے ہوں انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو افضلیت بنا ڈالتے ہیں اور جب ہم افضلیت کی نفی کرتے ہیں تو اسے فضیلت کی نفی پر محمول کرتے ہیں ان کا یہ فریب خود سمجھ لو ۔

دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں بغض علی رضی اللہ عنہ منافقت ہے وہاں حد سے زیادہ حبِ علی رضی اللہ عنہ بھی سراپا بے ایمانی ہے اور تباہی ہے اور ان عاشقوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود بے زار ہیں اس موضوع پر مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے ارشادات موجود ہیں  ان نام نہاد عاشقوں کے ہاں محبت اور بغض کا معیار بھی عجیب ہے ایک عشق کہتا ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات چھیڑ دے اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے اگر آپ نے اس ظالم کی بات مان لی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر خیر کرنا چھوڑ دیا تو دوسرا عشق بولے گا کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت میں اور علم میں خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے  اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو تیسرا عاشق بولے گا جو شخص کھل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافہ ثلاثہ سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو چوتھا عاشق بولے گا جو شخص خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبرا نہیں بولتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو اب بھی آپ کچے پکے عاشق ہیں اصل عاشق وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو نفسِ خدا نفسِ رسول جبریل کا استاد وحی کا صحیح حقدار تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور صحیح معنی میں حجت اللہ علی الخلق اصلی قرآن کا جامع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشکل کشا مانے اور تقیے کی باریکیوں کو سمجھے لے ۔ ہمارے مذکورہ الفاظ قابل غور اور معنی خیز ہیں ہر کس و ناکس ان کے پس منظر میں پوشیدہ شیعہ عقائد کو نہیں سمجھ سکتا اور جس شخص کا مطالعہ نہیں ہے وہ پاٹے خان نہ بنے اور اس پر قیاس آرائی اور طبع آزمائی نا فرمائے ہم دعوے کے ساتھ یہ بات عرض کر رہے ہیں کہ جو شخص شیعہ مذہب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ خود شیعہ ہے یا پھر اس نے اس مذہب کا مطالعہ ہی نہیں کیا ۔

شیعوں کی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں : شیعہ وہ ناپاک مخلوق ہیں جو عام مسلمانوں کو دھوکا دینے کےلیے ہر وقت علی علی اور دیگر اہلبیت رضی اللہ عنہم کا دم بھرتے ہیں مگر درحقیقت ان کا سینہ بغضِ اہلبیت رضی اللہ عنہم سے بھرا ہوا ہے ۔ ایک طرف تو یہ شیعہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اتنا غلو کرجاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ اللہ عزوجل سے بھی بڑھا دیتے ہیں جبکہ خود اہلبیت پاک رضی اللہ عنہم کی گستاخیوں سے ان کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ہم شیعوں کی معتبر تفاسیر و دیگر کتب سے ان کی ان گستاخیوں کو پیش کر رہے ہیں پڑھیں اور فیصلہ خود کریں : ⬇

پہلے یہ پڑھیں کہ کس طرح شیعہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی بڑا درجہ دے رہے ہیں ۔

شیعوں کا مشہور عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی سے کہا اے علی! تم کچھ ایسی فضیلتوں کے مالک ہو جن سے میں محروم ہوں۔ مثلا فاطمہ تمہاری بیوی ہے جبکہ میں ایسی بیوی سے محروم ہوں، تمہارے دو بیٹے حسن اور حسین ہیں جبکہ میں ایسے مقام و مرتبے والے بیٹوں سے محروم ہوں، خدیجہ تمہاری ساس ہے جبکہ میری ایسی کوئ ساس نہیں اور میں تمہارا سسر ہوں جبکہ میرا ایسا کوئ سسر نہیں، جعفر تمہارا بھائ ہے جبکہ میرا ایسا کوئ بھائ نہیں، فاطمہ ہاشمیہ تمہاری ماں ہے جبکہ میری ماں کا مقام انکے مثل نہیں ۔ (بحار الانوار جلد 39، ص 89، طبع ایران)

دیکھا آپ نے کس طرح اس شیعہ عالم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک پر بہتان باندھ کر مولا علی کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے افضل دکھانے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔ معاذ اللہ

آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ شیعہ حضرات کس طرح مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا بغض اپنے سینوں میں سموۓ ہوۓ ہیں ۔ شیعوں کی ایک معتبر تفسیر "تفسیر القمی" میں درج ہے کہ : شیعوں کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مولا علی رضی اللہ عنہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں اور انہوں نے اس رشتے سے انکار کر دیا تھا اور وجہ یوں بتائ تھی کہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ کی شادی علی سے کرنے کا ارادہ کیا تو فاطمہ کو بتایا تو فاطمہ کہنے لگیں : آپ کو اپنی مرضی کا زیادہ حق ہے لیکن قریش کی عورتوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ توند (بڑے پیٹ) والے ، لمبی لمبی کہنیوں والے ، کنپٹی پر سے گنجے ہیں ۔ بدن پر چربی چڑھی ہوئی ہے ، آنکھیں ابھری ہوئی ہیں ، اونٹ کی طرح ان کے مونڈھے لٹکے ہوۓ ہیں ، دانت باہر نکلے ہوۓ ہیں اور دار و درم سے بالکل خالی ہیں ۔ (تفسیر القمی، جلد 2، صفحہ نمبر 336)

دیکھا آپ نے ان ناپاک لوگوں نے کیسے جنابِ خاتونِ جنت پر بہتان باندھا ہے کہ وہ مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما میں عیب نکالتی تھیں ۔ فیصلہ آپ کا کہ کیا وہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں پرورش پائی ہو ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پسند میں عیب نکال سکتی ہے ؟ ۔ معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے تو مولا علی رضی اللہ عنہ میں کوئی عیب نہ نکالا بلکہ یہ خود شیعوں کا بغض ہے جو جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ میں عیب و نقائص تلاش کر رہے ہیں ۔

اب ذرا یہ ملاحظہ کیجۓ کہ شیعہ علماء نے کس طرح مولا علی رضی اللہ عنہ کو بزدل ثابت کیا ہے چنانچہ مجلسی کی روایت ہے کہ : جب حضرت فاطمہ نے صدیق و فاروق سے فدک کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے سخت گفتگو کی تو حضرت علی نے اس سلسلے میں انکی کوئ مدد نہیں کی ۔ اس پر حضرت فاطمہ نے کہا : اے ابنِ ابی طالب ! تو نے یوں اپنے آپ کو چھپا لیا جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ، پیٹ کے بچے کی طرح تو بیٹھا رہا ، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ۔ (حق الیقین، صفحہ 403،چشتی)(الامالی ص 295)

کلینی لکھتا ہے کہ : علی اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی عمر سے نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن آپ سے ڈرتے تھے اس لیے اپنے چچا عباس کو وکیل بنایا کہ وہ ام کلثوم کی شادی عمر سے کردیں ۔ (حدیقة الشیعة از المقدس اردبیلی، صفحہ نمبر 277)

قارئین کرام ذرا توجہ فرمائیں کہ وہ علی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کا شیر کہیں، وہ علی جو ایک ہاتھ سے خیبر کا دروازہ اکھاڑ دیں، وہ علی جس کے نام سے آج بھی خیبر کے قلعوں میں زلزلہ آجاتا ہے۔ اس علی کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں کہ وہ بزدل تھے ۔

اب ذرا ملاحظہ ہو کہ خود مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ شیعوں کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے ۔ ⬇

ایک موقع پر حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اہلِ عراق (شیعوں) کو مخاطب کرکے کہا : میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ دشمن قوم تم پر غالب آجاۓ گی، اسلۓ نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پرست ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے باطل پر تم سے زیادہ تیز گام ہے اور تم میرے حق میں سست گام اور کوتاہ خرام ہو۔ قومیں اپنے حکام کے ظلم سے ڈرتی ہیں اور میرا حال یہ ہے کہ اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں، میں نے جہاد پر تم کو ابھارا مگر تم اپنی جگہ سے ہلے نہیں، تمہیں رازدارانہ انداز میں بلایا، اعلانیہ دعوت دی مگر تم میں ذرا حرکت نہیں ہوئ، نصیحتیں کیں مگر تمہارے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ (مسند علی ابن ابی طالب)

یہ تھی شیعہ قوم جو مولا علی سے محبت کا دعوی تو کرتے، جنگ و جدل میں جینے مرنے کی باتیں کرتے مگر جب جنگ کا موقع آتا تو حیلے بہانے تراش کر مولا علی کا ساتھ چھوڑ دیتے ۔ مزید مکمل عبارات کےساتھ پڑھیں : ⬇

وعنه، عن ابن علوان، عن جعفر، عن أبيه، عن علي عليه السلام: إنه كان إذا أراد أن يبتاع الجارية يكشف عن ساقيها فينظر إليها ۔
ترجمہ : امام باقر عليه السلام سے مروی ہے کہ حضرت علی عليه السلام جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرتے تھے تو وہ کنیز کی ٹانگوں کو ظاہر کرتے اور اس کا معائنہ کرتے ۔ (شیعہ کتاب قرب الاسناد الحميري القمي الصفحة ١٠٣،چشتی)

محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن محمد بن سنان، عن عمار بن مروان، عن المنخل ابن جميل، عن جابر بن يزيد، عن أبي جعفر عليه السلام قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا أبا جعفر وأني لي هذا ؟ فقال أبو جعفر عليه السلام: ذاك أمير المؤمنين ۔
ترجمہ : امام باقر عليه السلام سے روایت ہے کہا اے جابر کیا تمہارے پاس ایسا گدھا ہے جو تمہین مشرق سے مغرب تک صرف ایک دن میں لے جائے؟ جابر نے کہا نہیں ابو جعفر عليه السلام آپ پر قربان جاؤں ایسا گدھا کہاں سے ملے گا؟ امام باقر عليه السلام نے کہا وہ امیر المومنین علی عليه السلام ہیں ۔ (شیعہ کتاب الاختصاص الشيخ المفيد الصفحة ٣٠٣) ۔ یہی روایت علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی بیان کی ہے : الاختصاص : ابن أبي الخطاب عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن المنخل بن جميل عن جابر بن يزيد عن أبي جعفر عليه السلام قال: قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا با جعفر وأنى لي هذا؟ فقال أبو جعفر: ذاك أمير المؤمنين عليه السلام ۔ (شیعہ کتاب بحار الأنوار العلامة المجلسي ج ٢٥ الصفحة ٢٣٠،٢٢٩)

ان الله لا يستحيي ان يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها” کی آیت کے تحت علامہ قمی اپنی تفسیر قمی میں لکھتے ہیں : قال وحدثني أبي عن النضر بن سويد عن القسم بن سليمان عن المعلى بن خنيس عن أبي عبد الله عليه السلام ان هذا المثل ضربه الله لأمير المؤمنين عليه السلام فالبعوضة أمير المؤمنين عليه السلام وما فوقها رسول الله صلى الله عليه وآله ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا اس مثال میں الله نے امیر المومنین علی عليه السلام کی مثال بیان کی ہے پس بعوضة یعنی مچھر سے مراد امیر المومنین علی عليه السلام ہیں اور مافوقھا یعنی حقارت میں مچھر سے زیادہ سے مراد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ (شیعہ کتاب تفسير القمي علي بن إبراهيم القمي ج ١ الصفحة ٦٢،چشتی)

علامہ سید الخوئی کے نزدیک علی بن ابراہیم قمی کی نقل کی ہوئی سند کے سارے راوی ثقہ ہیں اور تفسیر قمی کی تمام روایات صحیح ہیں ۔ ولذا نحكم بوثاقة جميع مشايخ علي بن إبراهيم الذين روى عنهم في تفسيره مع انتهاء السند إلى أحد المعصومين عليهم السلام. فقد قال في مقدمة تفسيره ۔ (ونحن ذاكرون ومخبرون بما ينتهي إلينا، ورواه مشايخنا وثقاتنا عن الذين فرض الله طاعتهم..) فإن في هذا الكلام دلالة ظاهرة على أنه لا يروي في كتابه هذا إلا عن ثقة، بل استفاد صاحب الوسائل في الفائدة السادسة في كتابه في ذكر شهادة جمع كثير من علماءنا بصحة الكتب المذكورة وأمثالها وتواترها وثبوتها عن مؤلفيها وثبوت أحاديثها عن أهل بيت العصمة عليهم السلام أن كل من وقع في إسناد روايات تفسير علي بن إبراهيم المنتهية إلى المعصومين عليهم السلام، قد شهد علي بن إبراهيم بوثاقته، حيث قال: (وشهد علي بن إبراهيم أيضا بثبوت أحاديث تفسيره وأنها مروية عن الثقات عن الأئمة عليهم السلام ۔ (شیعہ کتاب معجم رجال الحديث العلامة الخوئي جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٤٩،چشتی)

علي بن إبراهيم، عن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة قال: قيل لأبي عبد الله (عليه السلام): إن الناس يروون أن عليا (عليه السلام) قال على منبر الكوفة: أيها الناس إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم تدعون إلى البراءة مني فلا تبرؤوا مني، فقال: ما أكثر ما يكذب الناس على علي (عليه السلام)، ثم قال: إنما قال: إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم ستدعون إلى البراءة مني وإني لعلى دين محمد، ولم يقل: لا تبرؤوا مني ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام سے کہا گیا کہ لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام نے منبر کوفہ پر کہا لوگوں عنقریب تم سے کہا جائے گا کہ مجھے گالی دو تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے براءت ظاہر کرنے کو کہیں تو نہ کرنا امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا لوگوں نے حضرت علی عليه السلام پر کیسا جھوٹ بولا ہے پھر فرمایا حضرت علی عليه السلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ تم سے مجھے گالی دینے کو کہا جائے تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے برءات کو کہا جائے تو میں دین محمد پر ہوں یہ نہیں فرمایا کہ تم مجھ سے اظہار برءات نہ کرنا ۔ (کتاب الكافي الشيخ الكليني ج ٢ الصفحة ١٣٤)

علة الصلع في رأس أمير المؤمنين ” ع “، والعلة التي من أجلها سمى الأنزع البطين ۔
حدثنا أبي ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا أحمد بن إدريس ومحمد بن يحيى العطار جميعا عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري باسناد متصل لم احفظه، ان أمير المؤمنين ” ع ” قال: إذ أراد الله بعبد خيرا رماه بالصلع فتحات الشعر عن رأسه وها أنا ذا ۔
حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني رضي الله عنه قال: حدثنا الحسن بن علي العدوي، عن عباد بن صهيب، عن أبيه، عن جده، عن جعفر بن محمد ” ع ” قال: سأل رجل أمير المؤمنين ” ع ” فقال: أسألك عن ثلاث هن فيك أسألك عن قصر خلقك، وكبر بطنك، وعن صلع رأسك؟ فقال أمير المؤمنين ” ع ” ان الله تبارك وتعالى لم يخلقني طويلا ولم يخلقني قصيرا ولكن خلقني معتدلا أضرب القصير فأقده وأضرب الطويل فأقطه، وأما كبر بطني فان رسول الله صلى الله عليه وآله علمني بابا من العلم ففتح ذلك الباب الف باب فازدحم في بطني فنفخت عن ضلوعي ۔
ترجمہ : کیا وجہ ہے کہ امیر المومنین علی عليه السلام کے سر کے اگلے حصہ پر بال نہ تھے اور کیا وجہ ہے کہ ان کو الانزع البطین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
امیر المومنین علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب الله کسی بندے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سر کے بال اڑا دیتا ہے اور یہ دیکھو میں ایسا ہی ہوں ۔
ایک شخص نے حضرت علی عليه السلام سے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جو آپ میں موجود ہیں یہ بتایے آپ کا قد کیوں چھوٹا ہے؟ اور پیٹ کیوں بڑا ہے؟ اور سر کے سامنے کے بال کیوں نہیں ہیں؟ حضرت علی عليه السلام نے جواب دیا الله نے نہ مجھے بہت طویل بنایا اور نہ بہت فقیر بلکہ میرے قد کو مستدل بنایا تاکہ میں اپنے سے پستہ قد کے دو ٹکڑے لمبائی میں کر دوں اور اپنے سے دراز قد کی ٹانگوں پر قطا لگا دوں اب سوال یہ ہے کہ میرا پیٹ کیوں بڑا ہے تو سن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے بہت سے باب تعلیم کیے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے اور سینے میں گنجائش نہ پا کر پیٹ میں اتر آئے ۔ (شیعہ کتاب علل الشرائع الشيخ الصدوق ج ١ الصفحة ١٥٩)

اسی طرح کی بات علامہ مجلسی شیعہ نے اپنی کتاب بحار الالنوار میں بھی لکھی ہے : جناب فاطمہ زہرا عليه السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی رائے سب سے اولی ہے لیکن قریش کی عورتیں تو علی عليه السلام کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کا پیٹ نکلا ہوا ہے ہاتھ لمبے ہیں ان کے جوڑوں کی ہڈیاں بہت چوڑی ہیں سر کے اگلے حصہ کے بال بھی نہیں ہیں آنکھیں بڑی بڑی ہیں شیروں اور درندوں جیسے ہاتھ پاؤں ہیں ہر وقت ہنستے رہتے ہیں پھر ان کے پاس نہ مال ہے نہ دولت و حشمت بالکل مفلس اور فقیر ہیں ۔ (کتاب بحار الأنوار العلامة المجلسي ج ٣ الصفحة ١٣١)

اللہ تعالیٰ مسلکِ حق اہلِسنت و جماعت پر رہتے ہوۓ تمام صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی غلامی میں ہمیں موت عطا کرے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 11 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔