Sunday 16 April 2023

فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12

0 comments
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے  فیصلے : ایک قاضی اور جج کی زندگی میں  بسا اوقات ایسے پیچیدہ مقدمے بھی آجاتے ہیں جن کا حل انتہائی مشکل اور دشوار نظر آتا ہے ۔ دَر اَصل اس طرح کے  مقدمات  اس بات کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں کہ قاضی کن صلاحیتوں کا حامل ہے اور عقل و دانش کے کس بلند رُتبے پر فائز ہے ، آئیے ! شیرِ خدا حضرت سیدنا مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے کچھ دل چسپ اور مشکل فیصلوں کو  ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے  کہ آپ کے  فیصلوں نے کس طرح پریشان حالوں کی پریشانی حل  کی ، دُکھیاروں  کا دکھ دور کیا اور آزمائش میں گِھر جانے والوں  کو آزمائش سے نکالا ۔ قاضی جب تک دونوں فریق کی بات نہ سن لے فیصلہ نہ کرے ۔

حدثنا هناد، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، عن سماك بن حرب، عن حنش، عن علي، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم : إذا تقاضى إليك رجلان، فلا تقض للاول، حتى تسمع كلام الآخر، فسوف تدري، كيف تقضي "، قال علي : فما زلت قاضيا بعد. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن ۔
ترجمہ : علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس دو آدمی فیصلہ کےلیے آئیں تو تم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو عنقریب تم جان لو گے کہ تم کیسے فیصلہ کرو ۔ علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اس کے بعد میں برابر فیصلے کرتا رہا ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔ (جامع الترمذي 1331 علي بن أبي طالب إذا تقاضى إليك رجلان فلا تقض للأول حتى تسمع كلام الآخر فسوف تدري كيف تقضي) (سنن ابی داود/ الأقضیة 6 (3582)(تحفة الأشراف: 10081) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حنش“ ضعیف ہیں، دیکھیے : الإرواء رقم: 2600)

اور اگر دوسرا فریق خاموش رہے ، عدالت کے سامنے کچھ نہ کہے ، نہ اقرار کرے نہ انکار یا دوسرا فریق عدالت کی طلبی کے باوجود عدالت میں بیان دینے کےلیے حاضر نہ ہو تو کیا دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ قرینِ صواب بات یہی ہے کہ اس صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجاز ہو گی ۔

باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ

محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان  رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔

آیئے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے :

شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)

شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)

شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)

شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)

اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں :

(1) خوب وعظ کہنا ۔

(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔

(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔

(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)

اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔

اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔

لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فَدَک دینے سے انکار فرما دیا تھا : ⬇

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ عُمَرُ : يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو دَاوُد : وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ ۔ (سنن ابی داؤد الجزء الثالث حدیث نمبر 2972 صفحہ نمبر 253،چشتی)
ترجمہ اردو : مغیرہ کہتے ہیں` عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے ، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے ، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں : تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا ، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی ، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی ، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی ۔

ترجمہ انگلش :
Narrated Umar ibn Abdul Aziz: Al-Mughirah (ibn Shubah) said: Umar ibn Abdul Aziz gathered the family of Marwan when he was made caliph, and he said: Fadak belonged to the Messenger of Allah ﷺ, and he made contributions from it, showing repeated kindness to the poor of the Banu Hashim from it, and supplying from it the cost of marriage for those who were unmarried. Fatimah asked him to give it to her, but he refused. That is how matters stood during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ till he passed on (i. e. died). When Abu Bakr was made ruler he administered it as the Prophet ﷺ had done in his lifetime till he passed on. Then when Umar ibn al-Khattab was made ruler he administered it as they had done till he passed on. Then it was given to Marwan as a fief, and it afterwards came to Umar ibn Abdul Aziz. Umar ibn Abdul Aziz said: I consider I have no right to something which the Messenger of Allah ﷺ refused to Fatimah, and I call you to witness that I have restored it to its former condition; meaning in the time of the Messenger of Allah ﷺ. Abu Dawud said: When Umar bin Abd al-Aziz was made caliph its revenue was forty thousand dinars, and when he died its revenue was four hundred dinars. Had he remained alive, it would have been less than it.(Chishti)

عَن المغيرةِ قَالَ: إِنَّ عمَرَ بنَ عبد العزيزِ جَمَعَ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لسبيلِه فَلَمَّا وُلّيَ أَبُو بكرٍ علم فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ثُمَّ اقْتَطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وعمَرَ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ۔ (حدیث مشکوٰۃ)
ترجمہ : روایت ہے حضرت مغیرہ سے ۱؎  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مروان کی اولاد کو جمع فرمایا ۲؎  جب آپ خلیفہ ہوئے پھر فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تھا جس سے آپ خرچ فرماتے تھے اور اس سے بنی ہاشم کے بچوں پر لوٹاتے تھے اسی میں سے اور اسی سے ان کی بیوگان کا نکاح کرتے تھے۳؎ اور حضرت فاطمہ نے آپ سے سوال کیا تھا کہ یہ انہیں دے دیں تو انکار فرمادیا تھا ۴؎ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی شریف میں اسی طرح رہا حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی راہ تشریف لے گئے پھر جب ابوبکر صدیق خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے اس میں وہ ہی عمل کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی شریف میں کرتے تھے حتی کہ آپ بھی اپنی راہ گئے پھر جب حضرت عمر ابن خطاب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے اس میں وہ ہی کام کیے جو ان دونوں بزرگوں نے کیے تھے ۵؎ حتی کہ وہ بھی اپنی راہ گئے پھر اسے مروان نے بانٹ لیا ۶؎ پھر وہ عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو میں سمجھتا ہوں کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب فاطمہ کو نہ دیا اس میں میرا حق نہیں کہ تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اسے اسی حال کی طرف لوٹاتا ہوں جہاں پر وہ تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکروعمر کے زمانہ میں ۷؎ ۔ (سنن ابوداؤد،چشتی)۔(تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 466 مطبوعہ پرودریسو بکس اردو بازار لاہور)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : ۱؎ خیال رہے کہ مغیرہ تین ہیں : ایک صحابی،دو تابعی مغیرہ ابن شعبہ صحابی ہیں جن کے حالات بارہا بیان ہوچکے اور اکثر صرف مغیرہ کہنے سے یہ ہی مراد ہوتے ہیں۔دوسرے مغیرہ ابن زید موصلی یہ تابعی ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منکرالحدیث ہیں۔تیسرے مغیرہ ابن مقسم کوفی نابینا تھے،فقہی ومتقی تھے،۱۳۳ھ؁ میں ان کی وفات ہوئی۔یہاں یہ تیسرے مغیرہ مراد ہیں نہ کہ مغیرہ ابن شعبہ صحابی کیونکہ حضرت مغیرہ صحابی کا انتقال   ۵۰ھ؁  پچاس ہجری میں ہوا اور عمر ابن عبدالعزیز  ۹۹     ؁ ننانوے ہجری میں والی بنے تو یہ واقعہ حضرت مغیرہ صحابی کیسے بیان کرسکتے ہیں۔(مرقات)مگر حضرت شیخ کو یہاں سخت دھوکا لگا کہ وہ مغیرہ ابن شعبہ فرماگئے،یہاں تیسرے مغیرہ یعنی ابن مقسم کوفی مراد ہیں۔

۲؎  آپ عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان ابن حکم ہیں،قرشی ہیں،اموی ہیں،تابعی ہیں،آپ کی کنیت ابوحفص ہے،آپ کی والدہ لیلی بنت عاصم ابن عمرابن خطاب ہیں یعنی حضرت عمرفاروق کی پوتی،سلیمان ابن عبدالملک کے بعد خلیفہ ہوئے،    ۹۹ھ؁  میں اور     ۱۰۱؁  ایک سو ایک میں وفات پائی،مدت خلافت کل دو سال پانچ مہینہ،عمر شریف چالیس سال ہوئی یا اس سے بھی چند ماہ کم،متقی زاہد شب بیدار،بہت ہی خوفِ خدا رکھنے والے بزرگ تھے،جب آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے آپ کے زمانہ خلافت کے حالات پوچھے گئے تو فرمانے لگیں کہ خلیفہ بننے کے بعد کبھی غسل جنابت نہ کیا،رات کا اکثر حصہ آہ وزاری میں گزارتے تھے۔

۳؎ یعنی باغ فدک کی آمدنی سے حضور انور یہ کام کرتے تھے اولًا اپنے گھر بار پر خرچ،پھر فقراءواقارب پر خرچ فرماتے۔یعود کے معنی ہیں باربار ان پر خرچ فرمانا یہ فرق ہے عائدہ اور فائدہ کے درمیان،فائدہ ایک بارنفی اور عائدہ بار بارنفی۔

۴؎ یعنی حضرت فاطمہ زہرا نے حضور کی زندگی پاک میں باغ فدک حضور سے مانگا۔آپ نے تملیک سے انکار فرمادیا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے تھے کہ باغ میرے بعد وقف رہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کا متروک مال وقف ہوتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ حضرت علی نے بھی اسے اپنی خلافت میں تقسیم نہ فرمایا۔

۵؎  یعنی حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق نے صرف متولی ہونے کی حیثیت سے اس باغ کی آمدنی کا انتظام فرمایا،کسی نے اسے اپنی ملکیت قرار نہ دیا۔حضرات امہات المؤمنین نے عثمان غنی کو حضرت صدیق اکبر کے پاس طلب میراث کے لیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے منع فرمادیا وہ حدیث سنا کر کہ حضرات انبیاءکرام کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(دیکھو اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح)جناب فاطمہ زہرا نے صدیق اکبر سے میراث مانگی تو آپ نے وہ ہی حدیث سناکر تقسیم میراث سے انکار فرمادیا جسے حضرت زہرا نے قبول فرمایا اور اس کے متعلق کبھی ذکر تک نہ کیا ، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سرکار فرمان مصطفی سن کر ناراض ہوتیں۔فغضبت کے معنی ہیں کچھ اور ہیں جو  ان شاء اللہ اپنے مقام پر بیان ہوں گے بہرحال یہ باغ وقف رہا ۔

۶؎  یعنی مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا یہ ہی صحیح ہے۔مرقات نے فرمایا کہ مروان کی یہ تقسیم خلافت عثمانی میں ہوئی محض غلط ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان و علی زندہ ہوں اور مروان کی یہ حرکت دیکھ کر خاموش رہیں اور حضرت علی اپنے دور حکومت میں اس کی یہ تقسیم قائم رکھیں مرقات نے یہ سخت غلطی کی ہے۔اشعۃ اللمعات نے یہ ہی فرمایا کہ مروان کی یہ حرکت اپنے دور حکومت میں تھی۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے،یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا،یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہذا مروان صحابی نہیں۔

۷؎ یعنی اس باغ میں میرا کچھ حصہ نہیں یہ اسی طرح وقف رہے گا جیسے ان حضرات کے زمانہ میں وقف تھا۔چنانچہ آپ نے تمام بنی امیہ سے وہ باغ واپس لے کر ویسے ہی وقف قرار دے دیا۔یہ عدل و انصاف آپ کے انتہائی تقویٰ،طہارت خوفِ خدا کی دلیل ہے۔ خیال رہے کہ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں باغ فدک حضرت علی و عباس کی تولیت میں دے دیا تھا ، یہ دونوں حضرات متولی تھے نہ کہ مالک ، پھر ان دونوں نے اس کی تقسیم چاہی تو جناب فاروق نے فرمایا کہ تقسیم کیسی یہ تمہاری ملکیت نہیں صرف تولیت ہے ، یہ قصہ بخاری شریف وغیرہ میں بہت تفصیل سے مذکور ہے ۔ خیال رہے کہ حضرت علی و عباس نے ملکیت کی تقسیم نہ چاہی تھی بلکہ تولیت کی تقسیم کی خواہش کی تھی حضرت عمر نے اس کو بھی قبول نہ فرمایا تاکہ آگے چل کر یہ تقسیم ملکیت کا ذریعہ نہ بن جائے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا متروکہ مال سارے مسلمانوں کے نفع پر خرچ ہوگا مگر اس کا انتظام یا بادشاہ کرے گا یا جسے بادشاہ اسلام مقرر فرمادے ۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر 5 حدیث نمبر 4063،چشتی)

یمن کے ایک آدمی نے اپنے لڑکے کو سفر پر بھیجا تو اس کے ساتھ ایک غلام بھی  روانہ کیا ، راستے میں کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا ، کوفہ پہنچ کر غلام نے دعویٰ کردیاکہ یہ لڑکا میرا غلام ہے اور میں اس کا آقا ہوں ، یہ کہہ کر اس نے لڑکے کو بیچنا چاہا ، جب یہ مقدمہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے خادم سےفرمایا : کمرے کی دیوار میں دو بڑے سوراخ بناؤ اور ان دونوں سے کہو : اپنے اپنے سر ان سوراخوں سے باہر نکالیں ، جب دونوں نے اپنے سر سوراخوں سے باہر نکال لئے ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  خادم سے فرمایا : رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تلوار لے آؤ ، خادم تلوار لایا تو آپ نے خادم سے کہا : غلام کا سر کاٹ ڈالو ، یہ سنتے ہی غلام نے فوراً اپنا سر پیچھے کر لیا جبکہ لڑکا اسی طرح کھڑا رہا ، یوں آپ کی حکمتِ عملی  سے معلوم ہو گیا  کہ “ غلام کون ہے ؟ ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 124،چشتی)

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو چوری کے  الزام  میں لایا گیا ساتھ گواہی دینے کےلیے دو گواہ بھی موجود تھے ، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  دوسرے کام کی طرف متوجہ ہو گئے پھر آپ نے جھوٹے گواہوں کے بارے میں فرمایا : جب میرے پاس جھوٹا گواہ آیا ہے تو میں نے اسے سخت سزا دی ہے ، (کچھ دیر بعد )آپ نے ان دونوں گواہوں کو طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں جھوٹے گواہ پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں لہذا آپ نے ملزم کو بری کردیا ۔ (مصنف ابی شیبہ ، 14 / 548 ، رقم : 29426) 17)

ایک  مرتبہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ  کے پاس 3 آدمی آئے اور کہنے لگے : ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں ، ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا (2 / 1) ہے دوسرے کا حصہ تہائی (3 / 1) ہے اور تیسرے آدمی کا حصہ سب اونٹوں میں نواں (9 / 1) ہے ، آپ ہمارے درمیان اونٹ تقسیم کیجیے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں  کاٹنا نہ پڑے ۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے بیتُ المال سے ایک اونٹ منگوایا ، اب 18 اونٹ ہو گئے پہلا شخص جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 کے آدھے یعنی 9 اونٹ دے دیے ، دوسرا شخص جس کا حصہ تہائی تھا اسے 18 کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دیے ، پھر تیسرا شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں نواں تھا اسے کل اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 18 میں سے 2 اونٹ دےدیے اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حسن تدبیر سے ایک مشکل مسئلے کا فیصلہ کر دیا اور 9 ، 6 ، اور 2 اونٹ ملاکر کل 17 اونٹ ان تینوں میں تقسیم بھی کر دیے اور کسی اونٹ کو کاٹنا بھی نہ پڑا ، ایک اونٹ جو باقی بچا اسے بیتُ المال میں واپس پہنچا دیا گیا ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 126)

دو شخص صبح کے وقت کھانا کھانے کےلیے بیٹھے تھے ، ایک کے پاس 5 روٹیاں جبکہ دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں ، اتنے میں ادھر سے ایک شخص گزرا ، ان دونوں نے اس کو بھی اپنے ساتھ بٹھالیا اور تینوں نے وہ  آٹھ روٹیاں مل کر کھالیں ، تیسرے شخص نے جاتے ہوئے 8 درہم ان دونوں کو دیے اور کہا : میں نے تمہارے ساتھ جو کھانا کھایا ہے اس کی یہ قیمت ہے تم اسے آپس میں تقسیم کرلو ، اب ان دونوں میں تقسیم پر جھگڑا ہوا ۔ 5 روٹیوں والے شخص نے کہا : میں 5 درہم لوں گا  کہ میری روٹیاں 5 تھیں اور تم 3 درہم لوکہ  تمہاری روٹیاں 3 تھیں ، دوسرے نے کہا : نہیں ! رقم آدھی آدھی تقسیم ہوگی ، دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے (مشورہ دیتے ہوئے) 3 روٹی والے شخص سے فرمایا : تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ اس کی روٹیاں زیادہ تھیں ، وہ کہنے لگا : میں صرف انصاف والی بات کو قبول کروں  گا ، آپ نے فرمایا : انصاف یہی ہے کہ تم ایک درہم لو اور تمہارا ساتھی 7 درہم لے ، اس نے حیرت سے کہا : میرے  ساتھی نے  مجھے 3 درہم دینے چاہے لیکن میں راضی نہیں ہوا ، آپ نے یہی مشورہ دیا مگر میں نے قبول نہیں کیا اور اب آپ یہ فرمارہے ہیں کہ انصاف کے طریقے پر میرا حق ایک درہم بنتا ہے آپ مجھے سمجھائیے کہ میرا حق ایک درہم کیسے ہے ؟ پھر میں ایک درہم قبول کرلوں گا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :  8 روٹیوں کے 24 حصے تم تین آدمیوں نے کھائے ، یہ پتہ نہیں کہ  کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ کھایا ؟ اس لیے یہ سمجھ لو کہ سب نے برابر برابر کھایا ہے (یعنی ہر ایک نے آٹھ حصے کھائے) تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 حصوں میں سے آٹھ حصے کھا لیے ، تمہارا ایک حصہ باقی رہا ، اور تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 حصوں  میں سے 8 حصے کھائے اس کے 7 حصے باقی رہے ، تیسرے شخص نے تمہارے روٹیوں میں سے ایک حصہ کھایا اور تمہارے ساتھی کے سات حصے کھائے ، اب انصاف کے مطابق تم کو ایک درہم اور تمہارے ساتھی کو 7 درہم ملیں گے ، تفصیل سننے کے بعد اس جھگڑنے والے شخص کو ایک درہم  لینا پڑا ۔ (استیعاب جلد 3 صفحہ 207)

ایک شخص نے مرتے وقت اپنے دوست کو 10 ہزار دیے اور وصیت کی : جب تم میرے لڑکے سے ملاقات کرو تو اس میں سے جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا ، اتفاق سے کچھ روز بعد اس کا لڑکا وطن واپس آگیا ، اس موقع پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے پوچھا : بتاؤ ! تم مرحوم کے لڑکے کو کتنا دوگے ؟ اس نے کہا : ایک ہزار ، آپ نے فرمایا : اب تم اس کو 9 ہزار دو ، اس لیے کہ جو تم نے چاہا وہ 9 ہزار ہیں اور مرحوم نے یہی وصیت کی تھی کہ جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 125) ۔ (مزید حصّہ نمبر 13 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔