فتح مکہ تاریخ و اسباب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : فتح مکہ 20 رمضان المبارک سنہ 8 ہجری میں ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 8 سال قبل اسی شہر پاک مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے ۔ صرف 8 سال بعد اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی طاقت اور غلبہ عطاء فرمایا کہ وہی مکہ مکرمہ جہاں سے غریب اور نادار مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے آج محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شان شوکت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔
مکہ مکرمہ کون سی تاریخ میں فتح ہوا ؟ امام بیہقی نے ۱۳ رمضان ، امام مسلم نے ۱۶ رمضان ، امام احمد نے ۱۸ رمضان بتایا ، مگر محمد بن اسحٰق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰ رمضان ۸ ھ کو مکہ فتح ہوا ۔ (شرح الزرقانی ، باب غزوۃ الفتح الأعظم ،ج۳،ص۳۹۶۔۳۹۷،چشتی)
فتح مکہ کی پیشین گوئیاں اور بشارتیں قرآن کریم کی چند آیتوں میں مذکور ہیں ان میں سے سورہ نصر بھی ہے ۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا : اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ ۙ۔ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۙ ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ۔ (پ30،النصر:1۔3)
ترجمہ : جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
فتح مکہ کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر عفو و درگزر اور رحم و کرم کا جو اعلان و اظہار فرمایا تاریخ عالم میں کسی فاتح کی زندگی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی ۔ غور فرمائیے کہ اشرافِ قریش کے ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھر کی بارش کرچکے تھے ، وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بارہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قاتلانہ حملے کئے تھے، وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک کو شہید ، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا ۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے ۔ وہ سفاک اور درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گلا گھونٹ چکے تھے ۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے ، اور پاپ کے پتلے بھی تھے ، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہو گیا تھا ۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ کے در و دیوار ہل چکے تھے ۔ وہ ستم گار بھی تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور اُن کی ناک کان کاٹنے والے ، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے ، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے ۔ وہ بے رحم بھی تھے جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پر وانوں حضرت بلال ، حضرت صہیب، حضرت عمار ، حضرت خباب، حضرت خبیب ، حضرت زید بن دشنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا ، کسی کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا تھا ۔ یہ تمام جور و جفا اور ظلم و ستم گاری کے پیکر ، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ، ظلم و عدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے شرمناک مظالم اور خوفناک جرموں کے پہاڑ بن چکے تھے ، آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کوؤں کو کھلا دی جائیں گی اور انصار و مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کر کے تہس نہس کردیں گی ، مگر ان سب مجرمین کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کر معاف فرما دیا کہ انتقام تو کیسا ؟ بدلا تو کہاں کا ؟ آج تم پر کوئی ملامت بھی نہیں۔ اے آسمان بول ! اے زمین بتا ! اے چاند و سورج تم بولو ! کیا تم نے روئے زمین پر ایسا فاتح اور رحم دل شہنشاہ کبھی دیکھا ہے ؟ یا کبھی سنا ہے ؟ سن لو تمہارے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور کوئی فاتح نہ ہوا ہے نہ ہوگا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہر کمال میں بے مثل و بے مثال ہیں ۔
مسلمانو ! یہ ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ حسنہ اور سیرت مبارکہ ۔ لہٰذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ اور سیرت مقدسہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے بدلہ اور انتقام لینے کا جذبہ اپنے دل سے نکال کر اپنے دشمنوں کو درگزر کرنے اور معاف کر دینے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ لوگوں کی تقصیرات اور خطاؤں کو معاف کر دینا ، یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی ہے اور یہی امت کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم بھی ہے ۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے : ”صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ کَ” ۔ یعنی جو تم سے تعلق کاٹے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردیا کرو اور جو تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تم اس کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرو اور قرآن مجید میں بھی عفوِتقصیر اور دشمنوں سے درگزر کردینے والوں کے بڑے بڑے درجات و مراتب بیان کیے گئے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ۔ (پ4،اٰل عمران:134)
یعنی لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردینے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں اور بڑے درجات والے ہیں ۔
فتح مکہ کے اسباب اور نتائج
ہجرت کے آٹھویں سال رَمَضانُ المبارَک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال نہیں نہیں ملتی ، اس فتح کا پس منظر و سبب کیا تھا اور نتائج کیا رونما ہوئے اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکۂ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین ، شریف ، محترم ، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے یَک لخت آپ کے مخالف ہوگئے ، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھوجانے کا ڈر ہوا ، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پُکار پرلَبَّیک کہہ دیں تو 14 صدیاں بعد تو کیا قیامت تک صحابیِ رسولِ آخرُالزّماں کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے ، ہر کلمہ گو انہیں رضی اللہُ عنہم کہہ کر یاد کرے گا ، قراٰن (وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ) ۔ کا مُژدہ سنائے گا ، بہر کیف یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا ، (جن کے مقدر میں تھا انہوں نے لَبَّیک بھی کہا) اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں ، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا ، جب کفارِ مکہ کا ظلم و ستم ساری حدیں پار کر گیا اور اللہ کریم نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کر گئے تاکہ آزادی کے ساتھ اپنے ربِّ کریم کی عبادت کریں ۔ لیکن افسوس کہ کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ آئے اور مسلمانوں کو مدینۂ منورہ میں بھی اذیت دینے کے درپے رہے ، ان کی انہی کارستانیوں کے سبب غزوۂ بدر ، اُحُد ، خندق اور کئی سرایا کا وقوع ہوا ، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا ، مسلمان مکۂ مکرمہ میں بیتُ اللہ شریف کی زیارت کےلیے بے قرار تھے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 1400 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن کی ہمراہی میں ادائیگی عمرہ کےلیے مکۂ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے ، کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سے کام لیا اور پُراَمْن مسلمانوں کو مکۂ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا ، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا ۔ ظاہری طور پر اس معاہدہ کی اکثر شرائط مسلمانوں کے حق میں بہت سخت تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں میں حکمت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کے بھیجے ہوئے حکیمِ کائنات ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب شرائط منظور فرمالیں ، ان شرائط میں یہ بھی تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ موقوف رکھیں گے ، اس کے ساتھ ساتھ معاہدے میں ایک بات یہ طے پائی کہ عرب کے دیگر قبائل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں فریقوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں باہمی امداد کا معاہدہ کر لیں ۔ عرب کے دو قبیلے خزاعہ اور بنوبکر آپس میں دشمن تھے اور ان میں بہت عرصے سے لڑائیاں جاری تھیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور بنوبکر نامی قبیلے نے قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا ۔ اب چونکہ صلح کے معاہدے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے حملے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے بنوبکر کی ایک شاخ بَنُو نُفاثہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کفارِ قریش کے ساتھ مل کر بنوخزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا ۔ (مدارج النبوۃ، 2/281،چشتی)
یہ واضح طور پر صلح حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس میں بنوخزاعہ کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس واقعے کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے قریش کی طرف پیغام بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کر لیں : (1) خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا (یعنی ان کے قتل کا بدلہ) دیں (2) بنو نفاثہ کی حمایت سے دست بر دار ہو جائیں (3) اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا ۔ قرطہ بن عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے ۔ (شرح الزرقانی علی المواھب،3/384،چشتی)
دس 10رمضان المبارک 8 ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کےلیے امان ہے ، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کےلیے امان ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہو جائے گا اس کےلیے امان ہے ۔ مزید فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کےلیے بھی امان ہے ۔ (معرفۃ السنن والآثارللبیہقی،13/293، 294، حدیث:18231، 18236،چشتی)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبۂ مقدّسَہ کو بُتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے ، اور باہر تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد کفارِ قریش سے ارشاد فرمایا : بولو! تم کو کچھ معلوم ہے ؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟
کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے : اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے بھائی کے بیٹے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا : لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم آزاد ہو۔ بالکل غیر متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ (بخاری، 1/156، حدیث: 397، سبل الھدیٰ والرشاد،5/242)
اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آ آ کر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے ، فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے تھے ۔ (امتاع الاسماع، 8/388،چشتی)
حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ سردارانِ قریش میں سے تھے ۔ پہلے اس خوف سے اپنے گھر میں بند ہو گئے تھے کہ کہیں مجھے قتل نہ کر دیا جائے کیونکہ حالتِ کفر میں انہوں نے اسلام کی بہت زیادہ مخالفت کی تھی ۔ انہوں نے اپنے بیٹے جو مسلمان تھے ، ان کے ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں امان کا پیغام بھیجا تو آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں امان عطا فرما دی اور اس کے بعد وہ ایمان لے آئے ۔ (المغازی للواقدی، 2/846، 847)
حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ یہ بھی قریش کے سرداروں میں سے تھے ۔ حضرت سیّدُنا عثمان بن عفان رضی اللہُ عنہ کے رضاعی بھائی تھے ۔ یہ پہلے اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گئے تھے ، اس لیے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ جہاں ملے قتل کر دیا جائے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کےلیے امان طلب کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں امان عطا فرمائی اور بیعتِ اسلام لے لی ، یوں یہ بھی مسلمان ہو گئے اور ایسے زبردست مسلمان ہوئے کہ پھر کوئی ایسی بات ان سے سرزد نہیں ہوئی جو ان کے دین کو داغدار کرے ۔ (المغازی للواقدی، 2/856،چشتی)
حضرت امیر معاویہ اور ان کے والدِ محترم حضرت ابوسفیان رضی اللہُ عنہمما سمیت کئی اہم شخصیات فتحِ مکہ کے موقع پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں ، جن میں سے چند نام یہ ہیں : حضرت ابو قحافہ ، حضرت حکیم ابن حزام ، حضرت جبیر ابن مُطعِم ، حضرت عبدالرحمٰن ابن سَمُرہ ، حضرت عَتَّاب بن اَسِید ، حضرت عَتَّاب بن سُلَیم اور حضرت عبداللہ بن حکیم رضی اللہُ عنہم ۔ (اسدالغابۃ، 3/602، سیر اعلام النبلاء، 3/217، 575، 576، 4/233، 267) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment