غزوہ بدر الکبریٰ حصّہ دوم
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ بدر کے روز نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ قبہ میں تشریف فرماتھے اور دعا مانگ رہے تھے : اللھم انی انشدک عہدک و وعدک اللھم ان شئت لم تعبدبعد الیوم ۔
اے اللہ ! میں تجھے اس عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں جو تونے میرے ساتھ کیا ہے ۔
اے اللہ : اگر تو اسے پورا نہیں کرے گا تو پھر تاابد تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ حضرت صدیق اکبر نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ہاتھوں سے پکڑا اور عرض کی یارسول اللہ ! یہ کافی ہے ۔ آپ نے اپنے رب پر اصرار کی حد کردی ہے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس وقت زرہ پہن رکھی تھی آپ اس حالت میں نکلے کہ یہ آیت پڑھ رہے تھے ، سیھزم الجمع ویولّون الدبر بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھیٰ وامر ، عنقریب پسپاہوگئی یہ جماعت اورپیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ ان کے وعدے کا وقت روز قیامت ہے اور قیامت بڑی خوفناک اور تلخ ہے ۔ (الصحیح البخاری ۵۱۹۲،۳۵۹۳،۵۷۸۴۔الرحیق المختوم ج۱ص۹۷۱۔ الرسالۃ المحمدیۃ ج۱ص۷۷۱۔الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ج۷۱ ص۶۶۔السیرۃ الحلبیہ فی سیرۃ الامین ج۲ص۵۰۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۷۲)
دو 2 ہجری، 17رمضان المبارک جمعہ کا بابرکت دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا، قرآنِ مجید میں اسے ”یوم الفرقان“فرمایا گیا ۔ (در منثور ،4/72،پ 10،الانفال تحت الآیہ:41) اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس صرف 2 گھوڑے،70 اونٹ، 6 زرہیں(لوہے کا جنگی لباس) اور 8 تلواریں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس 100گھوڑے، 700 اونٹ اور کثیر آلاتِ حرب تھے ۔ (زرقانی علی المواھب، 2/260،چشتی)(معجم کبیر، 11/133، حدیث 11377)(مدارج النبوۃ،2/81)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نےاپنے چند جانثاروں کے ساتھ بدر کے میدان کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرماتے : یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ راوی فرماتے ہیں: ویسا ہی ہواجیسا فرمایا تھا اور ان میں سے کسی نےاس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا ۔ (مسلم ص759، حدیث: 4621)
کیا شان ہے ہمارے نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی ، کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے ایک دن پہلے ہی یہ بتادیا کہ کون کب اور کس جگہ مرے گا ۔
اس رات اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ جاتی رہی اور اگلی صبح بارش بھی نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم گئی اور پانی کی کمی دور ہو گئی ۔ ( الزرقانی علی المواہب ،2/271)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے تمام رات اپنے ربّ عَزَّ وَ جَلَّ کے حضور عجزو نیاز میں گزاری ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،3/49) ۔ اور صبح مسلمانوں کو نمازِ فجر کےلیے بیدار فرمایا، نماز کے بعدایک خطبہ ارشاد فرمایا جس سے مسلمان شوق ِ شہادت سے سرشار ہوگئے ۔ (سیرت حلبیہ، 2/212)
حضور رحمتِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے پہلے مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار کی طرف دیکھا اور دعا کی کہ یا رب ! اپنا وعدہ سچ فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے ، اگرمسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 750، حدیث:4588)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ، اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہو گئی ۔ (پ 9،الانفال:9۔ پ4،اٰل عمران 124،125)
نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ و اٰلہٖ وسَلَّم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی ۔ (درمنثور ،4/40،پ 9،الانفال الآیہ:17)
جانثار مسلمان اس دلیری سے لڑے کہ لشکرِ کفار کو عبرتناک شکست ہوئی، 70 کفار واصلِ جہنم اور اسی قدر (یعنی70) گرفتار ہوئے ۔ (مسلم ، ص750، حدیث:4588) جبکہ 14مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ (عمدۃ القاری 10/122،چشتی)
غزوۂ بدر میں مسلمان بظاہر بے سروسامان اور تعداد میں کم تھے مگر ایمان و اخلاص کی دولت سے مالامال تھے ، ان کے دل پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عشق و محبت اور جذبہ ٔاطاعت سے لبریز تھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مدد اور پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی دعائیں ان کے شاملِ حال تھیں۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے اس معرکے کو یاد گار اور قیامت تک کے مسلمانوں کےلیے مشعلِ راہ بنادیا ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا کفارکی قتل گاہوں کی خبر دینا
جنگ سے ایک دن پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے میدان جنگ کا معائنہ کیا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ جب گزرتے تو فرماتے : ھذامصرع فلان غدا ان شاء اللہ ، یہ کل فلاں کی جائے قتل ہوگا اگر اللہ نے چاہا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے کفار کے نام لے لے کر بتایا ، جنگ کے اختتام پر ان مرداروں کی لاشیں اسی جگہ پرہی تھیں جہاں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان لگایاتھا ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ، فوالذی بعثہ باحق مااخطأواالحدود التی حدھا ۔ (الصحیح المسلم ۲۰۴۷۔مسند ابی یعلی ۰۴۱۔ نسائی ۴۷۰۲۔مسند احمد ۲۸۱۔صحیح ابن حبان ۲۲۷۴۔مصنف ابن ابی شیبہ۰۸۴۔السیرۃ النبویۃ عرض وقائع ج۳ ص۹۸،چشتی)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا وہ ان حدود سے کچھ بھی آگے پیچھے نہ تھے جن کی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نشان دہی فرمائی تھی ۔
شہداء بدر کے اسماء
اس عظیم معرکے میں کتنے خوش نصیبوں کو خلعت شہادت سے سرفراز کیا گیا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اسحاق کا قول یہ ہے کہ ان کی تعداد گیرارہ تھی لیکن واقدی نے مغازی میں ذکرکیاہے کہ عبداللہ بن جعفر نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ میں نے زھری سے سوال کیاکہ کتنے مسلمان بدرمیں شھید ہوئے ۔ آپ نے کہا چودہ ۔ جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے ۔ پھر انہیں شمار کیا ۔ (مغازی للواقدی ۱/۴۴۱،۵۴۱)
جمہور علماء مغازی اور سیر اور محدثین نے اسی قول کوترجیح دی ہے ۔ اور وہ چودہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام درج ذیل ہیں : ⬇
(1) عبیدہ بن الحارث (2) عمیر بن ابی وقاص(3) عمیربن حمام (4) سعد بن خیثمہ (5) ذوالشمامین بن عمربن نضلہ خزاعی (6) مبشربن عبدالمنذر (7) ماقل بن بکیر اللیشی (8) مہجع (حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام)(9) صفوان بن بیضاء الفہری (10) یزیدبن حارث خزرجی (11) رافع بن معلی (12) حارث بن سراقہ (13) عوف بن عفراء (14) معوذبن عفراء ۔ (رضی اللہ عنہم) ، الروض الانف فی شرح غریب السیرمیں بھی ان شھدائے بدر کے نام اور کس صحابی کو کس کافر نے شھید کیا مفصلا ذکر فرمائے ہیں ۔ (الروض الانف فی غریب السیر ج۳ ص۴۶۱) ، شھدائے بدرکی تعداد کو ایک اور جگہ پر یوں ذکر کیا گیا ہے ، اماالمسلمون فاستشھدمنھم یوم بدراربعۃ عشر ۔ (مع المصطفیٰ ج۱ص۳۴۲) ، بہرحال مسلمان توان میں سے بدر کے دن چودہ شہید کردئے گئے تھے ۔
شرکاءِ بدر کی فضیلت
غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کو اللہ تعالی نے عظیم نے مرتبہ عطافرمایااور بدری باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، اسی لیے خلفائے راشدین بدری صحابہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ رفاعہ بن رافع زرقی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں (ان کے والد اھل بدر میں سے ہیں) کہ جبرئیل امین نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے عرض کی : ماتعدّون اھل بدرفیکم قال من افضل المسلمین او کلمۃ نحوھا قال وکذلک من شھد بدرا من الملائکۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم۲۹۶۳،چشتی) ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابہ میں اہل بدر کا کیا مرتبہ ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مسلمانوں میں افضل یا اس کی مثل کوئی کلمہ ۔ جبریل نے کہا یونہی فرشتوں میں سے بدر کے میدان میں حاضر ہونے والے فرشتے باقی ملائکہ سے افضل ہیں ۔
حضرت حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ میدان بدر میں شھید ہو گئے توان کی والدہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں۔اگر حارثہ جنت میں ہے تومیں صبرکروں گی اور اگر جنت میں نہیں توآپ بتائیں میں کیا کروں ؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تیرے لئے ہلاکت ہو ، انہ فی جنۃ الفردوس ۔ (الصحیح البخاری رقم۳۸۶۳) ۔ بیشک وہ جنت الفردوس میں ہے ۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے طویل واقعے میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لعل اللہ اطلع علی اھل بدرفقال اعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ ۔ (الصحیح البخاری رقم ۴۸۶۳) ، اہل بدر کی فضیلت کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی معیت میں اسلام کی سربلندی وسرفرازی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور ان صحابہ کی اس وقت کی کاوشوں سے دین کی جڑیں مضبوط سے مضبوط ترہوگئیں اور کفر کے دل میں ہمیشہ کےلیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کارعب ڈال دیا ۔
جنگ بدر تاریخ اسلام کا پہلا اور عظیم الشان معرکہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی ایک قلیل جماعت کو ان کی بے سروسامانی کے باوجود مشرکین کے ایک بڑے اور ہر طرح کے جنگی آلات سے لیس گروہ پر ایک روشن فتح عطا فرمائی تھی جسے مورخین نے ”غزوہ بدر الکبری“ اور غزوہ ب سے موسوم کیا ہے مگر قرآن کریم میں اسے یوم الفرقان (یعنی حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان حد فاصل کھینچنے والے دن) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
غزوہ بدر وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ تھی جس نے امت اسلامیہ کی تفسیر اور دعوت اسلام کے مستقبل کا فیصلہ ہوا اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی بھی فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں وہ سب اسی ”فتح مبین“ کی مرہون منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی ۔
معرکہ بدر کے اسباب
مکہ مکرمہ میں اسلام کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا کفار و مشرکین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہوگئے پھر جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھتا گیا ان ریشہ دوانیاں بھی بڑھتی رہیں۔ دامن اسلام سے وابستہ ہونے والوں پر نت نئے مظالم ڈھائے گئے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو اپنا گھر بار،قیمتی مال و متاع چھوڑ کر پہلے حبشہ پھر مدینہ کی جانب ہجرت کرنا پڑا ، ہجرت کے بعد بھی ظلم وزیادتی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اور زور پکڑ گیا، کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو زیارتِ کعبہ سے روکا، املا کِ مومنین ضبط کیں، مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی تیاری کی، اسلام کے خلاف ماحول سازی کی، رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، اہلِ ایماں پر ستم ڈھائے کہ وہ دین سے باز آجائیں … اِسی کے نتیجے میں اسلام کی پہلی جنگ ”بدر“ کے میدان میں ہوئی۔ماہِ رمضان کے شروع میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہلِ قریش کا تجارتی مال و اسباب سے بھرا ہوا قافلہ شام سے مکہ آرہا ہے اس کے ساتھ تیس یا چالیس آدمی خاص اہلِ قریش کے ہیں جن کا سردار ابو سفیان ہے اور اس کے ہمراہیوں میں عمرو بن العاصی و محزمۃ بن نوفل ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانانِ مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے اس قافلے کی طرف پیش قدمی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (ابن خلدون /اول/۷۱)
اتفاق سے یہ خبر رفتہ رفتہ ابو سفیان تک پہنچ گئی اس نے مسلمانوں سے ڈر کر ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ تمہارا قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور انکے تابعین کی وجہ سے معرض زوال میں ہے ، دوڑو اور اپنے قافلے کو بچاؤ ۔ چنانچہ اہلِ مکہ یہ سنتے ہی سب کے سب نکل کھڑے ہوئے سوائے چند افراد کے جن میں ابو لہب بھی تھا ۔ ابو سفیان اپنے قافلے کو ساحل کے ساتھ ساتھ لے کر مکہ کی جانب چلا تو راستے میں اہلِ مکہ بھی مل گئے اس نے خوش ہو کر کہا چلو واپس چلو ہمارا قافلہ صحیح و سالم بچ آیا مگر ابو جہل نے ابو سفیان کے مشورے کو رد کر دیا اور فوج کو بدر تک جانے پر اصرار کیا۔ اس نے بڑے تکبر اور غضب سے کہا، خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے ہم بدر تک جائیں گے اور تین دن وہاں ٹھہریں گے اور اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں گے کھلائیں گے اور شراب نوشی کریں گے اور گلوکارائیں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور عرب ہمارے متعلق اور ہماری پیش قدمی سے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے ۔ (سبل الہدی و الرشاد، ۴:۲۹،چشتی)
جب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی پیش قدمی ، ان کی تعداد اور ان جنگی تیاریوں کے بارے میں پتا چلا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین و انصار کو جمع کر کے مشورہ کیا ۔ پہلے مہاجرین نے نہایت خوبصورتی اور بسر و چشم ہر حکم بجالانے کا اقرار کیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے انصار کی طرف رخ کیا ان میں سے حضرت سعد بن معاذ نے نکل کر عرض کیا ”اے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دریا میں کودنے کوفرمائیں گے تو ہم اس میں بھی غوطہ لگا دیں گے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اللہ کے نام پر ہمارے ساتھ چلیے ، ہم ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ سن کر خوش ہوگئے اور یہ ارشاد فرمایا : کہ تم لوگوں کو بشارت ہو،کہ اللہ جل شانہٗ نے مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔“(طبقات ابن سعد، ۱:۳۱۵)
رمضان المبارک سن ہجری بروز جمعہ اشراق کے بعد کفار کی فوج اپنے دلدلی حصہ زمین سے اسلامی فوج کی طرف بڑھی اور بدر کی بے شجر وادی میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، ایک جانب لوہے میں ڈھکے ہوئے سرتا پا مسلح فنِ جنگ کے خوب ماہر قہر مجسم ایک ہزار قریشی سرداروں ، پہلوانوں اور نامور بہادروں کی پیش قدمی ہے تو دوسری جانب ۳۱۳ اسلامی لشکر کے افراد کہ جن کے پاس مکمل جنگی سازو سامان بھی نہیں ہے اکثر کے لباس بھی پھٹے پرانے ہیں۔ تمام ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ قریشی لشکر اسلامی لشکر کا صفایا چند لمحوں میں بڑی آسانی سے کردے گا ۔ سب سے پہلے مغرور سردارعتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولیدکے ساتھ آگے بڑھا اور بڑے زعم سے مبارزت طلب کی، انصار اصحاب میں سے حضرات عوف، معاذ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مقابلہ کےلیے آگے بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ ہم انصار مدینہ سے مقابلہ نہیں چاہتے تم ہمارے جوڑ کے نہیں مہاجرین میں سے کسی کو جرات ہو تو آ گے آئے ، تب چیلنج دینے والے اس مغرور کے سردار کے ایک فرزند (جو مسلمان ہو چکے تھے) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چاہا کہ اپنے کافر باپ کا مقابلہ کریں مگر حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کو روک دیااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے محترم چچا اسد اللہ و اسد الرسول حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عبیدہ ابن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو آگے بھیجا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے شیبہ بن ربیعہ کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسی آنِ واحد میں ولید بن عتبہ کا خاتمہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ اور حضرت عبیدہ کے باہم مقابلے میں حضرت عبیدہ کے پاؤں کٹ گئے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عتبہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔(تاریخ طبری، ۱:۱۷۹،چشتی)
تین ممتاز و معزز و نامور سردارانِ قریش کے اس طرح مارے جانے پر کفار کی فوج میں صف ماتم بچھ گئی اور عجیب ہیبت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اسلامی لشکر میں فرطِ فرحت و تشکر سے احد…احد …اور اللہ اکبر…اللہ اکبر … اللہ اکبر…. کے فلک بوس نعرے گونجنے لگے جو کفار کے حق میں جگر شگاف تھے۔ بعد ازاں کفار نے اپنے مقام سے تیر برسائے جن سے حضرت مہجع بن صالح اور حضرت حارثہ بن سراقہ شہید ہو گئے۔ اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔لشکر اسلام کے علم بردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی بھائی جو مشرک تھا عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت سیدنا فارقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا ۔ میدانِ کارزار کا ایسا ہولناک منظر تھا کہ گویا زمین پر زلزلہ تھا، پہاڑ لرز رہے تھے، اور آسمان پھٹ رہا تھا، حضور انور و اقدس سپہ سالارِ لشکر اسلام علیہ افضل التحیاۃ والصلوٰۃ والسلام داخل عریش ہوئے اور دونوں مبارک ہاتھوں کو پھیلا کر حق تعالیٰ جلِ جلالہٗ عم نوالہٗ سے نہایت خلوص و عجز سے عرض کرنے لگے ”یا الٰہ العالمین، یا ذوالجلال والاکرام اگر آج اس میدان میں یہ نہتے مسلمان کٹ جائیں اور مٹ جائیں توپھر تیری عبادت کرنے والے بندے دنیا میں کوئی باقی نہ رہیں گے، یا الٰہی تیری عبادت کرنے والے ان نہتے مسلمانوں کو آج فتح سے نواز، اے مولیٰ تیرا وہ وعدہ کہ مسلمانوں کو فتح سے سرخرو فرمائے گا اب پورا فرما…الخ ۔ (سیرت ابن ہشام، ۲:۶۲۷ و مسلم ۲:۹۳،چشتی)
چنانچہ اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مختصر سی جماعت نے جو تعداد اور ساز و سامان دونوں لحاظ سے دشمن سے کم تھی ایسی جرأت،ہمت اور استقلال سے مقابلہ کیا اور اپنے امیر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ایسی اطاعت کی اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایسے بروقت اور بر محل ماہرانہ فیصلے فرمائے کہ جن سے جنگ کا نتیجہ حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کے حق میں نکلا اس جنگ میں ستر کافر مارے گئے۔ ستر گرفتار ہوئے اور چودہ مسلمان مقام شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دعا قبول کر لی اور کفا ر کو ذلیل و خوار کر دیا۔
شہداء و شرکائے بدر کی فضیلت
رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے : جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا آپ اہلِ بدر کو مسلمانوں میں کیسا سمجھتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا! سب مسلمانوں سے افضل سمجھتا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کا درجہ بھی ملائکہ میں ایسا ہی سمجھاجاتا ہے ۔ (بخاری کتاب المغازی باب الشھود الملٓئکۃ بدرا،چشتی)(فتح الباری، ۷:۳۶۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے روایت کیا کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اہلِ بدر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ہے اب تم جو چاہو سو کرو۔“(ابو داؤدشریف، ۲:۲۹۱۔۲۹۲، مطبوعہ امدادیہ ملتان
اندلس کے مشہور سیاح محمد بن جبیر (متوفی ۲۷ شعبان ۶۱۴ھ) نے بدر کے حال میں یوں لکھا ہے : اس موضع میں کھجور کے بہت باغات ہیں۔ اور آبِ رواں کاایک چشمہ ہے۔موضع کا قلعہ بلند ٹیلے پر ہے۔ اور قلعہ کاراستہ پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ وہ قطعہ زمین نشیب میں ہے جہاں اسلامی لڑائی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت اور اہلِ شرک کو ذلت دی۔ آج کل اس زمین میں کھجور کا باغ ہے اور اس کے بیچ میں گنج شہیداں ہے۔ اس آبادی میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف جبل الرحمۃ ہے۔ لڑائی کے دن اس پہاڑ پر فرشتے اترے تھے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جبل الطبول ہے۔ اس کی قطع ریت کے ٹیلے کی سی ہے۔ کہتے ہیں ہر شب جمعہ کواس پہاڑ سے نقارے کی صدا آتی ہے۔ اس لیے اس کا نام جبل الطبول رکھا ہے۔ ہنوز نصرت نبوی ا کا یہ بھی ایک معجزہ باقی ہے۔ اس بستی کے ایک عرب باشندے نے بیان کیا کہ میں نے اپنے کانوں سے نقاروں کی آواز سنی ہے اور یہ آوا زہر جمعرات اور دو شنبے کو آیا کرتی ہے اس پہاڑ کی سطح کے قریب حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے تشریف رکھنے کی جگہ ہے اور اس کے سامنے میدانِ جنگ ہے ۔ (سیرت رسول عربی:۱۳۷ و رحلۃ ابن جبیر: ۱۹۲)
معرکہ بدر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے کئی معجزات ظاہر ہوئے، میدانِ جنگ میں اپنی صفوں کو لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میدان کے وسط میں تشریف لائے اور جنگ سے ایک روز قبل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے عصائے مبارکہ سے مختلف لکیریں میدان میں کھینچتے ہوئے فرمایا: ”کل یہاں عتبہ بن ربیعہ کی موت ہوگی، اور یہاں اس دور کے فرعون ابو جہل کی موت واقع ہوگی، الغرض مشرکین کی موت اور ان کے مقتل کی جیسی نشاندہی فرمائی گئی تھی اس سے ہٹ کر وقوع نہ ہوا ۔ (مسلم شریف، ۲:۱۰۲)
حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک زنگ آلود پُرانی تلوار تھی جو ٹوٹ گئی تو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میدان سے ایک سوکھی جنگلی جلانے والی لکڑی اپنے دست مبارک سے اٹھا کر انہیں دے دی اور ارشاد فرمایا: ”جاؤ اس سے لڑو“ وہ لکڑی حضرت عکاشہ کے ہاتھ میں ایک سفید چمکدار فولادی تیز تلوار بن گئی اور عرصہ دراز تک (۱۱ہجری) ان کے پاس رہی۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بھی حضور ا نے کھجور کی سوکھی شاخ دی جو کہ فوراً ایک تیز دھار تلوار بن گئی۔ حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک خزرجی انصاری و حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زخمی آنکھوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے لعابِ دہن سے تندرست کر دیا۔(ابن کثیر،۲:۴۴۶۔۴۴۷،چشتی)
کفر و اسلام کے پہلے معرکہ میں نہ صرف رسول عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں اور حربی امور کی ماہرانہ اصول اجاگر ہوئے ۔ بلکہ اس عظیم معرکے میں مجاہدین اسلام کےلیے بہت سے قیمتی اسباب پوشیدہ ہیں ۔ غزوہ بدرمیں ابتداء سے آخر تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دفاع ، حملہ اور دوسرے اہم مراحل میں لشکر اسلام پر مکمل کنٹرول قائم رکھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ جہاد و شہادت کو اجاگر کیا اور ہر حال میں امیر کی اطاعت کا حکم دیا ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان جہاد میں جتنے بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔ یہ تمام ”اطاعت امیر“ کا نتیجہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس ”تین سو تیرہ“ کے بظاہر معمولی لشکر نے وہ غیر معمولی کام کر دکھایا جو تاریخ اسلام کے ماتھے کا ”جھومر“ ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جذبہ جہاد اور جذبہ اطاعت اس قدر موجزن تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی مایوس نہ کیا۔بلکہ ان کی نصرت کے لیے فرشتوں کے غول کے غول بھیج کر فتح و نصرت کو مسلمانوں کی جھولی میں لا ڈالا ۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
معرکہ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ محض وسائل اور سپاہیوں کی کثرت فتح و نصرت کےلیے کافی نہیں ۔ بلکہ ایمان کی قوت اور جذبہ جہاد و شوق شہادت کی بدولت کوئی بھی اقلیت اکثریت پر غالب آ سکتی ہے ۔ بس پختہ ارادوں کی ضرورت ہے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment