Thursday 27 April 2023

ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ اوّل

0 comments

ضرورتِ مرشد و شرائطِ مرشد حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں ہے ؟ موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور  دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے ۔ اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے ، جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کےلیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث ۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے ، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں ۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے ۔ بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے ، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اور اللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے ۔ پس جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم و اولیاٸے کاملین علیہم الرحمہ کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا ، کیا دے گا اور کیا لے گا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ۔
ترجمہ : وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بڑے عہد کو توڑا اور جس نے پورا کیا وہ عہد جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو بہت جلد اللہ اُسے بڑا ثواب دے گا ۔ (سورہ فتح  آیت نمبر 10)

اس سے پہلی آیات میں حضورِ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت اور اس کے مَقاصِد بیان ہوئے اور اس آیت میں  یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیشک جولوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں  وہ تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں  کیونکہ رسول سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرنا ہے جیسے کہ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جن ہاتھوں  سے انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا ، ان پر اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت ہے تو جس نے عہد توڑا اور بیعت کو پورا نہ کیا وہ اپنی جان کے خلاف ہی عہد توڑتا ہے کیونکہ اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اسے عظیم ثواب دے گا ۔ (تفسیرکبیر سورہ الفتح الآیۃ : ۱۰، ۱۰ / ۷۳،چشتی)(جلالین الفتح الآیۃ : ۱۰، ص۴۲۳-۴۲۴)(مدارک، الفتح الآیۃ : ۱۰ صفحہ ۱۱۴۲)

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی  ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا ۔
ترجمہ : بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو اُن کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اُتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا ۔ (سورہ فتح  آیت 18)

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔ (صحیح بخاری)

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پیری مریدی کے ثبوت پر  مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے :  یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ۔
ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے ۔ (سورہ بنی اسراٸیل آیت نمبر 71)

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا نے فرمایا : اس سے مراد وہ پیشوا ہے جس کی دعوت پر دنیا میں  لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت دی ہو یا باطل کی ۔ (تفسیر خازن، الاسراء الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۸۳)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہو گی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور اُنہیں  اُسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں  کے پیروکارو ۔ (تفسیر مدارک الاسراء الآیۃ: ۷۱، ص۶۳۲)

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔ اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے ۔

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں : ⬇

پہلی شرط  : سنی صحیح العقیدہ ہو ۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے ۔

تیسری شرط :  فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔

چوتھی شرط  : اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک متصل یعنی ملا ہوا ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۰۳،چشتی)

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔ اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں ، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ ( عوارف المعارف)

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ)

میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ : اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔ اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔     (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا  رشید احمد گنگوہی کہتے  ہیں کہ : مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ۔ (امداد السلوک صفحہ ۶۷ مولف رشید گنگوہی ادارۂ اسلامیات انار کلی لاہور)

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے ۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے ؟

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ، روزہ رکھو ، زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے : ⬇

ترجمہ :  پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے ۔

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ : اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے ۔

مرید بننے کے فوائد :  علامہ عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ : سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے ۔ (میزان الشریعة الکبریٰ جلد 1 صفحہ 53)

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ، جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد  کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔

جامِع شرائط پیر صاحب کے  ہاتھ  پر بیعت ہو جانے کے بعد کسی دوسرے پیر صاحب سے بیعت نہیں ہونا چاہیے ، البتہ حصولِ برکت کےلیے بوقتِ ضرورت ”طالِب“ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن طالِب ہونے کے بعد ،  جو بھی برکات حاصل ہوں ، انہیں اپنے پیر صاحب کا ہی فیضان سمجھے ۔

بَیْعَت کی دو قسمیں ہیں

(1) بَیْعَتِ بَرَکت

(2) بَیْعَتِ اِرادَت

بیعت برکت : یعنی صرف تبرک کیلئے بَیْعَت ہو جانا، آج کل عام بَیْعَتیں یہی ہیں ۔ وہ بھی نیک نیتوں کی ، ورنہ بہت سے لوگوں کی بَیْعَت دنیاوی اَغراضِ فاسدہ کیلئے ہوتی ہے ۔

بیعتِ ارادت : اعلیٰ حضرت ، امام اَہلسنّت الشاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، بَیْعَتِ اِرادَت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختْم کر کے خود کو شَیخ و مرشِد ہادی برحق کے بالکل سِپُرد کر دے ، اسے مُطْلَقاً اپنا حاکم و مُتَصَّرِف جانے ، اس کے چلانے پر راہِ سُلوک چلے ، کوئی قدم بِغیر اُس کی مَرَضی کے نہ رکھے ۔ اس کےلیے مرشِد کے بعض اَحکام ، یا اپنی ذات میں خود اسکے کچھ کام ، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعالِ خِضَر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مَثْل سمجھے اپنی عقْل کا قُصور جانے ، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے ، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے ۔

حضرت خِضَر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران جو باتیں صادِر ہوتی تھیں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جن پر اعتراض تھا پھر جب حضرتِ خِضَر علیہ السلام اس کی وجہ بتاتے تھے تو ظاہر ہوجاتا تھا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کیا) غرض اسکے ہاتھ میں مردہ بَدَستِ زندہ ہو کر رہے ۔

یہ بَیْعَتِ سالکین ہے ۔ یہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تک پہنچاتی ہے ۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لی ہے ۔ (فتاوی افریقہ صفحہ نمبر ۱۴۰،چشتی)

ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر سے مُرید نہیں ہو سکتے چنانچہ حضرتِ علی بن وفار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس طرح جہان کے دو معبود نہیں ، ایک شخص کے دو دِل نہیں ، عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں اسی طرح مُرید کے دو شیخ نہیں ۔ (سنن کبری الباب الثامن صفحہ ۳۴۶)

البتہ دوسرے جامع شرائط پیر سے بیعتِ برکت کرتے ہوئے طالِب ہونے میں حرج نہیں ہے ۔ اِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جوشخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پر بیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پر بیعت نہ چاہیے ۔ اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لَا یُفْلِحُ مُرِیدٌ بَیْنَ شَیْخَیْنِ جو مُرید دو پیروں کے دَرمیان مشترک ہو وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اس سے کشُودِ کار (یعنی مطلب کا حصول) بھی ہو چکا ہو ، حدیث میں اِرشاد ہوا : مَنْ رُزِقَ فِيْ شَيْءٍ فَلْيَلْزَمْهُ جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے وہ اس کو لازم پکڑے ۔ (شعب الایمان جلد دوم باب التوکل والتسلیم)

دوسرے جامع شرائط سے طلبِ فیض میں حرج نہیں اگرچہ وہ کسی سلسلۂ صریحہ کا ہو مگر اپنی اِرادت شیخِ اوّل ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو اسے بھی اپنے شیخ ہی کا فیض جانے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۶ صفحہ نمبر ۵۷۹،چشتی)

ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر صاحب سے مرید ہونے کے متعلق امام عبدالوہاب شعرانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 973ھ/1565ء) اپنی کتاب”المِنَن الکبریٰ“ میں لکھتے ہیں : كان سيدي علي بن وفاء رضي اللہ تعالى عنه يقول : كما لم يكن للعالم إلهان ، ولا للرجل قلبان ، ولا للمرأة زوجان ، كذلك لا يكون للمريد شيخان ۔

ترجمہ : میرے سردار حضرت علی بن وفا رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کائنات کے دو خدا نہیں ، کسی  شخص کے دو دِل نہیں  اور عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں ہوسکتے ، اسی طرح ایک مُرید کے دو شیخ (پِیر) بھی نہیں ہو سکتے ۔ (المنن الکبریٰ  الباب الثامن صفحہ 395 مطبوعہ دارالتقویٰ دِمِشق،چشتی)

امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں : جو شخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پربیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پربیعت نہ چاہیے ۔اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لایفلح مرید بین شیخین ۔
ترجمہ : جو مرید دو پیروں کے درمیان مشترک ہو ، وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اُس سے کُشُوْد کَار (منازلِ سُلوک کا دروازہ کھلنا) بھی ہو چکا ہو ۔ حدیث میں ارشاد ہوا : من رزق فی شئی فلیلزمہ ۔
ترجمہ : جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے ، وہ اُسے لازم پکڑ لے ۔ (البتہ)دوسرے جامع شرائط  (پیر صاحب) سے طلبِ فیض میں حرج نہیں ، اگرچہ  وہ کسی سلسلہ صریحہ کا ہو اور اُس سے جو فیض حاصل ہو ، اُسے بھی اپنے شیخ کا ہی فیض جانے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 579 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں : مرید تو ایک کا ہو چکا ، ایک مرید کے دو پیر نہیں ہوتے ، ہاں دوسرے سے طالب ہو سکتا ہے اور اس کے بتانے پر ریاضت و مجاہدہ کرے اور سلوک کی راہیں طے کرے اور جو کچھ فیوض حاصل ہوں ، اُن کو پیر ہی سے ملنا تصور کرے اور اُس کو واسطہ جانے ۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 352 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

مُرشِد عربی کے لفظ ’اَرشَدَ‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ سیدھا راستہ دکھانے کے ہیں ۔ اصطلاحاً مُرشِد اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور شریعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق نہ صرف خود زندگی گزار رہا ہو بلکہ دوسروں کو بھی راہِ ہدایت کی طرف بلاتا ہو ۔ اگر کوئی شخص خود احکامِ الٰہیہ کا تارک ہو تو وہ بھلا دوسروں کو راہِ ہدایت کیسے دکھا سکتا ہے ؟ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ۔

ترجمہ : جسے ﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے ، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کےلیے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے ۔ (الْكَهْف، 18: 17)

درج بالا آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اوامر و نواہی ، حلال و حرام اور حدوداللہ کی تمیز نہ کرے وہ نہ مرشِد ہو سکتا ہے اور نہ مرشَد (مرید) ہونے کا اہل ہے ۔

لہٰذا جو شخص صوم و صلاۃ کا تارک اور جاہل ہو اسے مرشد بنانا جائز نہیں ۔ احکامِ الٰہیہ کا تارک شخص ہوا میں اڑ کے دکھائے یا پانی کی سطح چلنے کا دعویٰ کرے اس سے ہدایت کی امید رکھنا بے سود ہے ۔ دین کے فروغ کےلیے کوشاں افراد کی ہی مالی مدد کی جانی چاہیے ۔

امام احمدرضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بیسویں صدی عیسو ی کی ایک عظیم علمی ، تحقیقی شخصیت گزری ہے ، آپ اپنے دور کے تقریبا تمام متداولہ علوم و فنون سے خاطر خواہ حصہ رکھتے تھے ، آپ نے مختلف علوم وفنون پر سیکڑوں تصنیفات چھوڑی ، فقہ و فتاوی میں آپ اپنے ہم عصر علما پر فوقیت رکھتے تھے ، آپ کے فتاوی کا مجموعہ ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، جس کے مطالعہ سے فقہ وفتاوی میں آپ کی گرفت اور تبحر علمی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ، آپ نے اپنے فتاوی میں ہر طرح کے مسائل کا احاطہ کیا ہے ’’نقاء السلافۃ فی احکام البیعۃ والخلافۃ‘‘ نامی رسالہ جو آپ کے فتاوی کے مجموعہ میں موجود ہے ، اس میں بیعت وخلافت کے مسائل پر ، جس عمدگی کے ساتھ آپ نے گفتگو فرمائی ہے ، وہ آپ ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے ، جس کے مطالعے کے بعد آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ آپ عارف باللہ ہونے کے ساتھ ، گروہ صوفیہ کے ترجمان اور صف شکن مجاہد تھے ـ اسی مذکورہ رسالے کی روشنی میں ، افادۂِ عام کے پیش نظر ، بیعت وارادت اور خلافت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے ـ سب سے پہلے شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے تعلق سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا کیا خیال ہے ملاحظہ فرمائیں : شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت میں باہم اصلا کوئی تخالف نہیں ، اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تونرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بددین ، شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال ہیں ، اور طریقت حضور کے افعال ، اور حقیقت حضور کے احوال ، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال ۔ (فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۶۰)

اے عزیز من شریعت قال ہے

اور طریقت فعل ، حقیقت حال ہے

معرفت اس حال کا انجام ہے

جو خدا کا فضل اور احسان ہے

(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار صفحہ ۶۶ مطبوعہ شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد)

بیعت کی اہمیت و ضرورت

کسی نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گروہ میں اٹھیں گے ، تو پھر بیعت کرنے اور کسی سلسلے میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟

اس سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا : قرآن وحدیث میں شریعت ، طریقت ، حقیقت سب کچھ ہے ، ان میں سے سب سے زیادہ ظاہر وآسان مسائل شریعت ہیں ، ان کی تو یہ حالت ہے کہ اگر ائمہ مجتہدین ان کی شرح نہ فرماتے ، تو علما کچھ نہ سمجھتے ، اور علمائے کرام ، اقوال ائمہ مجتہدین کی تشریح و توضیح نہ کرتے ، تو ہم لوگ ارشادات ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے اور اب اگر اہل علم ، عوام کے سامنے مطالب کتب کی تفصیل اور صورت خاصہ پر حکم کی تطبیق نہ کریں ، تو عام لوگ ہرگز ہرگز کتابوں سے احکام نکال لینے پر قادر نہیں ، ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے ، اس لیے یہ سلسلہ مقرر ہے کہ عوام ، آج کل کے اہل علم و دین کا دامن تھا میں ، اور وہ تصانیف علمائے ماہرین کا ، اور وہ مشائخ فتاویٰ کا اور وہ ائمہ ہدیٰ کا ، اور وہ قرآن و حدیث کا ، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا ، وہ اندھا ہے ، جس نے دامن ہادی ہاتھ سے چھوڑا ، عنقریب کسی عمیق کنویں میں گرا چاہتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۲ ۔ ۴۶۱،چشتی)

اس کے بعد مزید گفتگو کرتے ہوئے صاحب فتاوی نے احکامِ شریعت کے توارث اور ائمہ مجتہدین کی ضرورت کو ثابت کیا اور پھر آگے یوں تحریر فرمایا  جب احکام شریعت میں یہ حال ہے ، تو صاف روشن ، کہ دقائق سلوک اور حقائق معرفت ، بے مرشد کامل ، خود بخود قرآن و حدیث سے نکال لینا کس قدر محال ہے ۔ یہ راہ سخت باریک اور بے شمع مرشد نہایت تاریک ہے ، بڑے بڑوں کو شیطان لعین نے اس راہ میں ایسا مارا ، کہ تحت الثرٰی تک پہنچادیا ، تیری کیا حقیقت کہ بے رہبر کامل ، اس راہ میں چلے اور سلامت نکل جانے کا ادعا کرے ، ائمہ کرام فرماتے ہیں : آدمی اگر چہ کتنا ہی بڑا عالم ، زاہد ، کامل ہو اس پر واجب ہے کہ (وہ کسی ) ولی عارف کو اپنا مرشد بنائے ، بغیر اس کے ہرگز چارہ نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۳،چشتی)

مزید اپنے موقف کی تائید میں امام شعرانی قدس سرہ کی تصنیف میزان الشریعہ ۔۔۔ کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے : فعلم من جمیع ماقررناہ وجوب اتخاذ الشیخ لکل عالم طلب الوصول الی شہود عین الشریعۃ الکبرٰی ولواجمع جمیع اقرانہ علی علمہ وعملہ وزہدہ و ورعہ ولقبوہ بالقطبیۃ الکبرٰی فان لطریق القوم شروطا لایعرفہا الا المحققون منہم ….الخ ۔
ترجمہ : معلوم ہواان تمام بحثوں سے جس کو ہم نے ثابت کیا ہے ، کہ شیخ کا پکڑنا واجب ہے ، ہر اس عالم کےلیےجس کو عین شریعت کبریٰ کے مشاہدہ تک پہنچنا مطلوب ہے ، اگر چہ اس کے تمام ہم عصر ، اس کے علم و عمل او رزہد و ورع پر جمع ہو جائیں اور اس کو قطبیت کبریٰ کا لقب دیں ، اس لیے کہ اس قوم (یعنی صوفیہ) کے طریق کی کچھ شرطیں ہیں ، جن کو سوائے محققین صوفیہ کےکوئی نہیں پہچان سکتا ۔ (المیزان الکبریٰ فصل: ان القائل کیف الوصول الخ مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۲، بحوالہ فتاوی رضویہ ،ج:۲۱ ،ص: ۶۴، ۴۶۳)

لیکن کوئی پست ہمت ہو ، جو معرفت اور مشاہدہ ربانی کے جام سے سیرابی کا حوصلہ نہ رکھتا ہو،تو اس کے تعلق سے آپ تحریر کرتے ہیں : یہ اس کے لیے ہے جو اس راہ کا چلنا چاہے اور ہمت پست ، کوتاہ دست لوگ ،اگر سلوک نہ بھی چاہیں ، تو اُنہیں توسل کےلیے شیخ کی حاجت ہے ، یوں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو بس تھا ۔ قال اللہ تعالی : الیس ﷲ بکاف عبدہ ۔ کیاخدا اپنے بندوں کو کافی نہیں ۔ مگر قرآن عظیم نے حکم فرمایا : وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف وسیلہ ، مشائخ کرام ، سلسلہ بہ سلسلہ، جس طرح اللہ عزوجل تک بے وسیلہ (رسول) رسائی محال قطعی ہے ، یوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک رسائی بے وسیلہ (مرشد ) دشوار عادی ہے ۔ (فتاوی رضویہ ج:۲۱،ص:۴۶۴)

پھر متعدد احادیث اوراقوال ائمہ سے اپنے مذکورہ موقف کی تائید کرتے ہوئے، بیعت کی اہمیت وضرورت اور شیخ کی دستگیری ، سلاسل و اسانید اولیاے کرام کے فیوض و برکات پر نہایت مدلل گفتگو فرمائی ہے ، جس کا مطالعہ اہل علم کےلیے نہایت مفید ہے ۔

خلافت و جانشینی کابیان

خلافت و جانشینی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے خلافت کی تقسیم کرتے ہوئے جواباً تحریر فرمایا : خلافت حضرات اولیائے کرام نفعناﷲ ببرکاتہم فی الدنیا والاخرۃ ۔ (اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں ہم کو ان کی برکات سےنفع پہنچائے) دو طرح ہے : عامہ اور خاصہ ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۷)

خلافت عامہ کا بیان : عامہ یہ کہ مرشد، مربی اپنے مریدین، اقارب او ر اجانب سے جس جس کو صالح ارشاد ولائق تربیت سمجھے اپنا خلیفہ ونائب کرے اور اسے اخذ بیعت وتلقین اذکار و اشغال، اوراد واعمال ، اور تربیت طالبین ، وہدایت مسترشدین کےلیے مثال خلافت کرامت فرمائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۴۶۷) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔