Monday 31 October 2022

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1

0 comments
حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی عبدالقادر ، کنیت : ابو محمد، لقب : محی الدین ، پیرانِ پیر دستگیر ، شیخ الشیوخ ، محبوبِ سبحانی ، قندیلِ لامکانی ، قطبِ ربانی وغیرہ ۔ عامۃ المسلمین میں آپ "غوث الاعظم" کے نام سے مشہور ہیں ۔ والد ماجد کا نام حضرت سیّد ابو صالح موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا آپ "نجیب الطرفین" سیّد ہیں ۔ والد ماجد کی طرف سے سلسلۂ نسب سیدنا امام حسن بن علی المرتضیٰ سے اور والدہ ماجدہ کی طرف سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملتا ہے ۔

تاریخِ ولادت : حضور سیّدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ یکم رمضان المبارک 471 ھجری میں عالم قدس سے عالم امکانی میں تشریف لائے ۔

تحصیلِ علم : اٹھارہ سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد تشریف لے گئے ۔ آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی ، علِم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیر کےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پیشین گوئیاں

طبقات کبری ، بہجۃ الاسرار ، قلائد الجواہر ، نفحات الانس ، جامع کرامات اولیاء ، نزہۃ الخاطر الفاتر اور اخبار الاخیار کتب میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے واقعات اس طرح مذکور ہیں : ⬇

محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی ولادت کی شب مشاہدہ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک جماعت کے ساتھ آپ کے گھر جلوہ افروز ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اولیاء کرام بھی حاضرہیں ، حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں اس خوشخبری سے سرفراز فرما رہے ہیں : یا ابا صالح ! اعطاک اللہ ابنا وھو ولیی ومحبوبی ومحبوب اللہ تعالی ، وسیکون لہ شان فی الاولیاء والاقطاب کشأنی بین الانبیاء والرسل ۔
ترجمہ : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا فرزندِ صالح سرفراز فرمایا ہے جو میرا مقرب ہے ، وہ میرا محبوب اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور عنقریب اولیاء اللہ اور اقطاب میں ان کی وہ شان ظاہر ہوگی جو انبیاء اور مرسلین میں میری شان ہے ۔ (تفریح الخاطر،المنقبۃ الثانیۃ صفحہ 57)

حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے اور سبھی نے آپ کویہ بشارت دی کہ تمام اولیاء کرام تمہارے فرزندار جمند کے مطیع ہوں گے اور ان سب کی گردنوں پر ان کا قدم ہوگا ۔

جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله . ترجمہ : میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔

حضرت شیخ عقیل سنجی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں ؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے ۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا ۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ، میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔

سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرتبہ غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔ منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں ۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں ۔ (تلخيص بهجة الاسرار)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بشارت : جن مشائخ علیہم الرحمہ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر” اور “نزہۃ الخواطر” میں صاحبِ کتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت دی ، چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂِ مبارک تک تفصیل سے خبر دی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خبر دی ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۸)

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : آپ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا ، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین ، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ’’ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے کہنے کا حکم ہوگا ۔ ( سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۷)

شیخ ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “ عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قَدَمِيْ هٰذِهٖ عَلٰي رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيِّ اللّٰهِ ، یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے ۔ (بهجة الاسرار، ذکر اخبار المشايخ عنه بذالک صفحہ ۱۴)

بیعت وخلافت : حضورِ پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا ۔

سیرت و خصائص

امام الائمہ ، شیخ الاسلام ، محی الدین ،سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قطبِ ربانی ، غوثِ صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاقِ حسنہ اور فضائلِ حمیدہ کی تعریف و توصیف میں کل اولیاء اللہ کے تذکرے بھرے ہوۓ ہیں ۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے کوئی بھی ولی اللہ آپ کا ہم پلہ نہیں ہوا ۔ قدرت نے آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق و محامد سے متصف فرمایا تھا کہ آپ کے معاصرین آپ کی تحسین کیے بغیر نہیں رہتے تھے ۔اپنے تو اپنے غیر مسلم بھی آپ کے حسنِ سلوک کےگرویدہ تھے ۔ آپ اسلامی اخلاق اور انسانی اوصاف کے پیکر تھے ۔ شیخ حراوہ فرماتے ہیں : میں نے اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کوئی کریم النفس ، رقیق القلب، فراخ دل اور خوش اخلاق نہیں دیکھا"۔آپ اپنے علوِّ مرتبت اور عظمت کے باوجود ہر چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے تھے۔سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔کمزوروں اور مسکینوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے۔لیکن اگر کوئی بادشاہ یا حاکم آجاتا توآپ مطلقاً تعظیم نہ فرماتے اور نہ ہی ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر گئے، نہ عطیات قبول کئے۔مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ مروت سے پیش آتے۔سچائی اور حق گوئی کادامن کبھی نہیں چھوڑا خواہ کتنے ہی خطرات کیوں نہ درپیش ہوتے، مگر سچ کہنے سے کبھی بھی چوکتے نہیں تھے۔ حاکموں کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے اور کسی کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بلکہ مصلحت و خوف کو پاس تک بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ آپ معروف کا حکم دیتے اور منکرات سے روکتے تھے۔آپ کے اعلائے کلمۃ الحق نے سلاطین اور امراء کے محلات میں زلزلہ ڈال دیا تھا۔حضور پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مجسمہ ایثاروسخاوت تھے۔دریا دلی کا یہ عالم تھاکہ جوکچھ پاس ہوتاسب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرمادیتے ۔

عفو و کرم کے پیکر جمیل تھے ۔ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور فوراً امداد پر کمر بستہ ہوجاتے، مگر خود اپنے معاملے میں کبھی بھی غصہ نہیں آتا۔لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے۔نہایت رقیق القلب تھے۔حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ باتفاق علماء واولیاء مادرزاد یعنی پیدائشی ولی تھے۔ مناقب غوثیہ میں شیخ شہاب الدین سہروردی سے منقول ہے :کہ سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادت کے وقت غیب سے پانچ عظیم الشان کرامتوں کا ظہور ہوا ۔

اوّل : شب ولادت آپ رضی اللہ عنہ کے والد سیّد ابو صالح نے خواب میں دیکھا کہ آقائے دو جہاں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ہیں ارشاد فرماہے ہیں : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تجھے فرزند عطا کیا ہے وہ میرا محبوب ہے اور خدا پاک و برتر کا محبوب ہےاور تمام اولیاء و اقطاب میں اس کامرتبہ بلند ہے ۔

دوئم : جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شانہ مبارک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک کا نقش موجود تھا، جو آپ رضی اللہ عنہ کے ولی ہونے کی دلیل ہے ۔

سوئم : آپ کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے عالم خواب میں بشارت دی کہ جو لڑکا تمہارے ہاں پیدا ہوا ہے سلطانِ الاولیا ہوگا ۔

چہارم : آپ کی ولادت کی شب صوبہ گیلان میں تقریباً گیارہ صد لڑکے پیدا ہوئے جو سب کے سب مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے ۔ اس رات تمام علاقہ گیلان میں کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی ۔

پنجم : یہ کہ آپ رمضان المبارک کے مہینہ کی چاند رات کو پیدا ہوئے۔ دن کے وقت مطلق دودھ نہیں پیتے تھے البتہ افطار سے لے کر سحری تک والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے تھے۔ ولادت کے دوسرے سال ابر (بادل) کی وجہ سے رویت ہلال کے متعلق کچھ شبہ پڑگیا تھا لیکن جب وقت سحرکے بعد جناب غوث الاعظم نے والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا تو آپ کی والدہ سمجھ گئیں کہ آج رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے انہوں نے لوگوں کو یہ خبر سنائی اور بعد میں معتبر شہادتوں سے اس قیاس کی تصدیق بھی ہو گئی ۔

جائے ولادت : حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں : ⬇

انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال

حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا سن ولادت و وصال : ⬇

حضرت قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں میں گیارہ ربیع الثانی 470 ھجری کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی ۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الثانی 561 کو 91 سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے ۔

زمانۂ رضاعت

سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے۔ شب ولادت کی صبح رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لئے ہوئے تھی گویا یکم رمضان المبارک اس دنیائے رنگ و بو میں آپ کی آمد کا پہلا دن تھا۔ حضرت نے روز اول ہی روزہ رکھ کر ثابت کردیا کہ آپ جن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے ان کی سعادت کسبی نہیں وہبی تھی۔ پورے رمضان شریف میں یہ حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ جس وقت افطار کا وقت ہوتا دودھ لے لیتے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتے چلاتے تھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خود بھی ایک شعر میں اپنے زمانہ رضاعت کے روزوں کا ذکر کیا ہے : ⬇

بداية امری ذکره ملاء الفضا
وصومی في مهدی به کان

’’میرے زمانہ طفولیت کے حالات کا ایک زمانہ میں چرچا ہے اور گہوارہ میں روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔

آغاز تعلیم

جیلان میں ایک مقامی مکتب تھا ۔ جب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھا دیا ۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہو گئی ۔ (تذکرہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ طالب ہاشمی صفحہ 35 ، 36)

اعلیٰ تعلیم کا حصول

حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ 488 ھجری میں 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا ۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے ۔ بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو گئے ۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا ۔

علم قرات ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم لغت ، علم شریعت ، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ماہ ذی الحجہ 496 ھجری میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے ۔ سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا ۔ آپ علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇

درست العلم حتی صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی

ترجمہ : میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا ۔

مسند تدریس

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی اپنے جدِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان : تعلموا العلم وعلموا الناس ۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو سے عبارت تھی ۔ تصوف و ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلقِ خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے درس و تدریس اور کارِ افتاء سے پہلو تہی نہ کی ۔

آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور اس کےلیے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا ۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ، مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی ۔

شیخ موفق الدین ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں : ہم 561ھ میں بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اتباع شریعت

سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی ۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت کےلیے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے ۔

مسند وعظ و ارشاد

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے ۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں ۔

تمام مے کدہ سیراب کردیا جس نے
وہ چشم یار تھی، جام شراب تھا، کیا تھا ؟

آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر تنبیہ فرماتے ۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : ⬇

آپ رحمۃ اللہ علیہ خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفرِ محبت صفحہ 62 تا 64،چشتی)

سلسلہ

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و افکارکی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے ۔

بچپن کے ایام

تمام علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں ۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی بھی دودھ نہیں پیتے تھے اور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی کہ ’’سادات کے گھر انے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا ۔

بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ : جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا تھا اے برکت والے ، میری طرف آ جا ۔

ولایت کا علم

ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کےلیے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ مکتب بھی سْنا کرتے تھے کہ ’’اللہ کے ولی کےلیے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔

پرورش وتحصیلِ علم

آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہء نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہء نسب حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔ اٹھارہ (18) سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے ۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیرکےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔

ریاضت و مجاہدات

تحصیلِ علم کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی ۔

1127ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ 40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام کےلیے دور دراز کے سفر کیے اور برِصغیر تک تشریف لے گئے اور ملتان (پاکستان) میں بھی قیام پذیر ہوئے ۔

حلیہ مبارک : جسم نحیف، قد متوسط، رنگ گندمی، آواز بلند، سینہ کشادہ، ڈاڑھی لمبی چوڑی، چہرہ خوبصورت، سر بڑا، بھنوئیں ملی ہوئی تھیں ۔

فرموداتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

اے انسان! اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالٰی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اْس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔

اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔

میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اْس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔

القاباتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

غوثِ اعظم
پیران ِ پیر دستگیر
محی الدین
شیخ الشیوخ
سلطان الاولیاء
سردارِ اولیاء
قطب ِ ربانی
محبوبِ سبحانی
قندیل ِ لامکانی
میر محی الدین
امام الاولیاء
السید السند
قطب اوحد
شیخ الاسلام
زعیم العلماء
سلطان الاولیاء
قطب بغداد
بازِ اشہب
ابوصالح
حسنی اَباً
حسینی اْماً
حنبلی مذہبا ً

علمی خدمات : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے طالبین ِ حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں : ⬇

الفتح الربانی والفیض ِ الرحمانی
ملفوظات
فتوح الغیب
جلاء الخاطر
ورد الشیخ عبدالقادر الجیلانی
بہجۃ الاسرار
آدابِ سلوک و التوصل الیٰ منازلِ سلوک

سیرت غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشد و ہدایت کےلیے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ہرنبی ورسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہر بن کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کْل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعْوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رْشدوہدایت اور احیا دین و ملت کےلیے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ ’’ ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیدا ہوگا ۔ (مشکوٰۃشریف) نیز فرمایاکہ ’’ اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے ‘‘ (سنن ابوداود) حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ’’ علمائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’چالیس ابدال (اولیا) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا ۔ (مشکوۃشریف) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’علماء کی زندگی کے لئے مچھلیاں دْعاکرتی ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’میری اْمت میں ہمیشہ تین سو اولیاء حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے‘‘۔ (مرقاۃ ملاعلی قاری)

علما حق فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے اور اْولیا و علما اِس کا ذریعہ ہیں ‘‘اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصطفویہ کے سامنے علما و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اْصول یہ پیش کردیاہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اْولیا اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اولیا اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیاء اتقیاء اور دیگر اولیاء بھی شامل ہیں۔ اولیا کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل، کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اولیاء کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو جب ہم ولیوں کا تاجدار کہتے ہیں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرناچاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطا فرماتا ہے اْن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث اعظم، غوث الثقلین، امام الطرفین، رئیس الاتقیائ، تاج الاصفیا، قطبِ ربانی، شہبازلامکانی، محی الملت والدین، فخرشریعت وطریقت، ناصرسْنت، عماد حقیقت، قاطع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، قطب الاقطاب، غوث صمدانی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اْم الخیر رحمۃ اللہ علیہا بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان میں دن بھر میں کبھی دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی رؤیت نہ ہوسکی لوگ تردوّمیں تھے لیکن اِس مادر زادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیا۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتاتھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔خواہ کتنی ہی دودہ پلانیکی کوشش کی جاتی یعنی رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے۔ ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکارغوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبہ فلک کو چھوسکتا یا اِس کااندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میںجب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتاتو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہو و لعب سے بازرہو۔جِسے سْن کر میں رُک جایا کرتا تھا اور اپنے گرد و پیش جو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا نہ دِکھائی دیتا تھا جس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا تھا ۔

اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکر کے مجھے متنبہ کر دیتی ہے کہ تم کو اِس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ تم سویا کرو ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھا کہ ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا اے عبدالقادر! تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو تو میںنے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اْوپرایک ہیبت سی طاری ہوگئی۔ مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدنا شیخ ابوصالح رحمۃ اللہ علیہ جن کا لقب’’ جنگی دوست ‘‘ ہے اِس کی وجہ سے ’’قلائدالجواہر‘‘ میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیہ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ وہ آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کی ادائیگی اور مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اْستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اْستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18 پارے زبانی پڑھ ڈالے۔ استاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا....؟ اور کیسے پڑھا...؟ تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر وردکیاکرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سْنتے سْنتے مجھے بھی یاد ہو گئے تھے (یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کر چکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اورپڑھ رہی ہوتی ہے تو اْس کااثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتاہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21 اکیسویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے، جبکہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے صدیوں قبل اِس کا عملی ثبوت دنیاکے سامنے خود پیش کر دیا تھا اِس سے ہم اْمت مسلمہ کو فخرہوناچاہئے کہ موجودہ دنیا کی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہرنہیں ہوسکتی ۔(چشتی)

اور یوں آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طور پر قرآن کریم ختم کیااور چند دوسری دینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں۔ حضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے۔ سرکارغوث اعظم نے528سنہ ھ میں درس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے غوث اعظم ہونے پر تمام اْمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ’’کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں تواتر سے منقول ہیں(نزہۃ الخاطر)۔خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظرآتاہے۔ مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغدادمیں آپ کی مجالس وعظ میں ستر، ستر (70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسدہونے لگاکہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کرگیاہے۔

چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے ۔ (بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی وسیلہ (یعنی ساؤنڈ سسٹم کے بغیر) ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانااور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے جو روزانہ ظاہرہوتی رہتی تھی۔

سیدناعوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اولیاء وصلحاء بھی موجودتھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعداد موجود تھی) دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ۔
ترجمہ : میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے ‘‘ تو مجلس میں موجود تمام اولیاء نے اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اولیاء نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں ۔ حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آقا آپ کا قدم میری گردن پر بھی اور میرے سر پر بھی‘‘ ۔ (اخبار الاخيار، شمائم امدادية، سفينة اوليا، قلائدالجواهرِ، نزهته الخاطر، فتاویٰ افريقه کرامات غوثيہ اعلی حضرت)

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیا کرتے ہیں اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں ۔ (مزید حصّہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday 26 October 2022

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت

0 comments

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حقوق سے مراد : حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری ۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں : (1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد ۔

حقوق اللہ : اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتادیے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا ۔

حقوق العباد : عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کےلیے ضروری یعنی حقوق ۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں ۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ۔ والدین اگر اولاد کےلیے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کےلیے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں دراز گوش پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا : اے معاذ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کرے وہ اس کو عذاب نہ دے ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان کو خوش خبری نہ دو ورنہ وہ اسی پر توکل کرکے بیٹھ جائیں گے (عمل نہیں کریں گے) ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٢٨٥٦‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ سنن ترمذی : ٢٦٥٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٣٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٢٩٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٢١٠‘ مسند ابوعوانہ : ج ١ ص ١٧)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اللہ پر بندوں کے حق کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل اور کرم سے شرک نہ کرنے والوں کےلیے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ عمل کی وجہ سے کسی بندہ کا اللہ پر کوئی حق نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ حدیث بیان کرنے سے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بشارت دے دی تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے موت سے پہلے اس حدیث کو بیان فرمادیا تاکہ علم کو چھپانے پر جو وعید ہے اس میں داخل نہ ہوں ۔

امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اس نے کہا اے اللہ کے نبی مجھ کو وصیت کیجیے آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خواہ تمہیں کاٹ دیا جائے یا جلا دیا جائے اور کسی وقت کی نماز ترک نہ کرو اور شراب نہ پیو کیونکہ وہ برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٠٣٤‘ الترغیب والترہیب ج ١ ص ١٩٥‘ مجمع الزوائد : ج ٤ ص ٢١٧۔ ٢١٦)

(آیت) ” ووصیناالانسان بوالدیہ، حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصالہ فی عامین ان ش کرلی ولوالدیک الی المصیر “۔ (لقمان : ١٤)
ترجمہ : ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے (اور ہم نے یہ حکم دیا کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو میری طرف لوٹنا ہے ۔

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کون لوگ میرے اچھے سلوک کے مستحق ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا پھر تمہاری ماں ‘ کہا پھر فرمایا تمہارا باپ ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٥٤٨‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٩‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٧٠٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٤١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ٥٩٧١‘ سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ٢ شرح السنۃ ‘ رقم الحدیث : ٣٤١٦،چشتی)

قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے شکر کے بعد ماں باپ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ انسان کے حق میں سب سے بڑی نعمت اس کا وجود اور اس کی تربیتت اور پرورش ہے اور اس کے وجود کا سبب حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں ‘ اسی طرح اس کی تربیت اور پرورش میں حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں۔ نیز جس طرح اللہ بندے کو نعمتیں دے کر اس سے اس کا عوض نہیں چاہتا اسی طرح ماں باپ بھی اولاد کو بلاعوض نعمتیں دے دیتے ہیں ‘ اور جس طرح اللہ بندہ کو نعمتیں دینے سے تھکتا اور اکتاتا نہیں والدین بھی اولاد کو نعمتیں دینے سے تھکتے اور اکتاتے نہیں ‘ اور جس طرح بندے گنہ گار ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کرتا ‘ اسی طرح اگر اولاد نالائق ہو پھر بھی ماں باپ اس کو اپنی شفقت سے محروم نہیں کرتے ‘ اور جس طرح اللہ اپنے بندوں کو دائمی ضرر اور عذاب سے بچانے کے لئے ہدایت فراہم کرتا ہے ماں باپ بھی اپنی اولاد کو ضرر سے بچانے کے لئے نصیحت کرتے رہتے ہیں۔
ماں باپ کے ساتھ اہم نیکیاں یہ ہیں کہ انسان ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہے ‘ ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے ‘ ان کے ساتھ سختی سے بات نہ کرے ‘ ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرے ‘ اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق ان پر اپنا مال خرچ کرے ‘ ان کے ساتھ عاجزی اور تواضع کے ساتھ رہے ‘ ان کی اطاعت کرے اور ان کو راضی رکھنے کی کوشش کرے خواہ اس کے خیال میں وہ اس پر ظلم کر رہے ہوں ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے ‘ ماں کے بلانے پر نفل نماز توڑ دے البتہ فرض نماز کسی کے بلانے پر نہ توڑے اگر اس کا باپ یہ کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو اس کو طلاق دے دے ۔

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے انہوں نے مجھ سے کہا اس کو طلاق دے دو ۔ میں نے انکار کیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو طلاق دے دو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٨‘ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣، سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٥٣‘ ٤٢‘ ٢٠)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص نے کہ میری ایک بیوی ہے اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے ‘ تم چاہو تو اس کو ضائع کردو اور تم چاہو تو اس کی حفاظت کرو ‘ سفیان کی ایک روایت میں ماں کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں باپ کا ذکر ہے ‘ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٦)

حافظ عبدالعظیم بن عبد القوی لکھتے ہیں : سب سے پہلے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا اور بیٹے کی باپ کے ساتھ نیکی یہی ہے کہ جس کو باپ ناپسند کرے اس کو بیٹا بھی ناپسند کرے اور جس سے اس کا باپ محبت کرتا ہو اس سے محبت کرے خواہ اس کو وہ ناپسند ہو ‘ یہ اس وقت واجب ہے جب اس کا باپ مسلمان ہو ‘ ورنہ مستحب ہے ۔ (مختصر سنن ابو داؤد جلد ٨ صفحہ ٣٥)

نیز باپ کے ساتھ یہ بھی نیکی ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ نیکی کرے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اور ان کو تحائف بھیجتے تھے ‘ جب بیویوں کی سہیلیوں کا یہ درجہ ہے تو باپ کے دوستوں کا مقام اس سے زیادہ بلند ہے ‘ نیز ماں باپ کی وفات کے بعد ان کےلیے استغفار کرنا بھی ان کے ساتھ نیکی ہے ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا ماں باپ کے فوت ہونیکے بعد میں ان کے ساتھ کس طرح نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی نماز جنازہ پڑھو ‘ ان کےلیے مغفرت کی دعا کرو ‘ انہوں نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے ان کو پورا کرو ‘ ان کے دوستوں کی عزت کرو اور جن کے ساتھ وہ صلہ رحم کرتے تھے ان کے ساتھ صلہ رحم کرو ۔ (عارضۃ الاحوذی جلد ٨ صفحہ ٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)

پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : جو پڑوسی رشتہ دار ہو اس کا ایک حق اسلام ہے اور ایک رشتہ داری کا حق ہے اور ایک پڑوسی کا حق ہے ‘ اور جو پڑوسی اجنبی ہو اس کے ساتھ اسلام اور پڑوسی کا حق ہے ۔

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : مجاہد علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر ایک بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے دوبارہ پوچھا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کےلیے ہدیہ بھیجا یا نہیں ‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ میں نے یہ گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو میرا وارث کر دے گا ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٤٩‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠١٤‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٦٢٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٧٣،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے دوستوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ‘ اور جو شخص اپنے پڑوسیوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ١١٥‘ سنن دارمی ‘ جلد ٢ صفحہ ٢١٥)

امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں ‘ میں ان میں سے کس کے ساتھ ابتداء کروں ‘ فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازہ کے زیادہ قریب ہو۔ اس حدیث کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ (الوسیط ج ٤ ص ٥٠‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠٢٠)

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو ‘ اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ‘ اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ‘ اگر وہ بدحال ہو تو اس پر ستر کرو ‘ اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو ‘ اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو ‘ اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔ (المعجم الکبیر : ج ١٩ ص ٤١٩،چشتی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربا زیادہ کرے۔ پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے ۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : ٣٦١٥‘ کشف الاستار عن زوائد ‘ رقم الحدیث : ١٩٠١‘ مسند احمد ‘ رقم الحدیث : ١٣٦٨)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص پیٹ بھر کر رات گذارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ٧٥١‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١١٩،چشتی)

علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے ‘ بعض علماء نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے ۔ (اکمال اکمال المعلم)

غلاموں اور خادموں کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (یہ) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کردیا ہے ۔ سو جو تم کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ اور ان کے ذمہ ایسا کام نہ لگاؤ جو ان پر بھاری ہو اور اگر تم ان کے ذمہ ایسا کام لگاؤ تو تم ان کی مدد کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٤٣٨٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٧‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٩٠)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم نبی التوبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے غلام کو تہمت لگائی حالانکہ وہ اس تہمت سے بری تھا ‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر حد قائم کرے گا ‘ سوا اس کے کہ وہ بات صحیح ہو ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٤‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٨٥٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٦٠‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٥،چشتی)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے سنا کوئی شخص میرے پیچھے کھڑا یہ کہہ رہا تھا ابو مسعود تحمل کرو ‘ ابو مسعود تحمل کرو ‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ‘ آپ نے فرمایا جتنا تم اس پر قادر ہو اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے ۔ سنن ابوداؤد میں یہ اضافہ ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اللہ کےلیے آزاد ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ میں جاتے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٥٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٩)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے خادم کو دن میں کتنی بار معاف کروں ‘ آپ نے فرمایا ہر دن میں ستر بار ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٥٦)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے خادم کو مارے اور اس کو خدا یاد آجائے تو اس کو مارنا چھوڑ دے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٧،چشتی)

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا وہ ایک تنکے سے زمین کرید رہے تھے انہوں نے کہا اس عمل میں ایک تنکے کے برابر بھی اجر نہیں ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے غلام کو طمانچہ مارا یا پیٹا اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس کو آزاد کردے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٨)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غلام آزاد کیا اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کو عضو دوزخ سے آزاد کر دے گا حتی کہ اس کی فرج کے بدلہ میں اس کی فرج آزاد کردے گا ۔

اسلام میں غلامی کو ختم کرنے کےلیے بہت سے طریقے مقرر کیے گئے قتل خطا کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ‘ قسم توڑنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ظہار کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے ‘ عمدا روزہ توڑنے کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے اور جس کے پاس غلام نہ ہوں تو وہ کفارہ قسم میں تین دن روزے رکھے گا ‘ اور باقی صورتوں میں دو ماہ کے روزے رکھے گا ۔

تمام انسانوں کےلیے حقوق

جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے ۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے ۔

مسلمان اس لیے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں ۔ میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا ۔

والدین کے حقوق

قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ : ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے ۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی ۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے ۔

اولاد کے حقوق

ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش ، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے ۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے ۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے ۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔

عزیزوں اور قرابت داروں کے حقوق

ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے ۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں : جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردیے اور فرمایا : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔

اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں ۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا ، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں ۔

ہمسایوں کے حقوق

ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں ۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہیں ۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے ۔

اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے ۔ لہٰذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے ۔

استادوں کے حقوق

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔

اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا ۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہر شخص یعنی مرد و عورت ، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے ۔

جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہو سکتی ۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں ۔ معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا اور جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کر دیتی ہے وہ بنجر ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہو جاتا ہے ۔ اور اس کا استاد اس کو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرد استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے ۔

غلاموں ، ناداروں ، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے ، مقرر کیے اور ادا کیے ۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر فرمائے ۔

بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے ، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاء کےلیے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کےلیے سب کی رہبری کرتا رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحمتِ عالم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ اور حسنِ سلوک سے محروم نہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے ۔

اسلام میں ہمسایوں کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ہمسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ گئے جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کےلیے لازم اور ضروری قرار پایا ۔

قرآن حکیم میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا : وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 36)

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور بندوں کے آپس میں حقوق یہ ہیں : ⬇

بندوں کے باہمی حقوق

والدین کے ساتھ احسان کرنا

ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے ، نافرمانی سے بچے ، ہر وقت ان کی خدمت کےلیے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدرِ توفیق و استطاعت کمی نہ کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا : اُس کی ناک خاک آلود ہو ۔ کسی نے پوچھا : یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ ارشاد فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر ۔ الخ ، صفحہ ۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱)،چشتی)

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا

ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع، باب من احبّ البسط فی الرزق، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۷)

حضرت جُبَیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا، صفحہ ۱۳۸۳، الحدیث: ۱۸(۲۵۵۶))

صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے ، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا ، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم  واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے ۔ (بہارِ شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۸،چشتی)

ہمسایہ کے حقوق

قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو ، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ سورہ النساء الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی  اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے ، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔(صحیح بخاری، کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۶۰۱۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں ، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من لا يؤمن جاه بَوَايِقَه، 5 : 2240، رقم : 5670)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : الوصاة بالجار، 5 : 2239، رقم : 5669،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا حکم فرمایا ۔ ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ ہمسایہ کون ہے اور کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے ۔

صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں ۔ پس میں ان میں سے کس کےلیے تحفہ بھیجا کروں ؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب : الأدب، باب : حق الجوار فی قرب الأبواب، 5 : 2241، رقم : 5674،چشتی)

یتیموں اور محتاجوں سے حسنِ سلوک کرنا

یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے ، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے ۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کیا ۔ (بخاری کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)

اور مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے اور انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ (بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۳)

پاس بیٹھنے والوں سے حسنِ سلوک کرنا

اس سے مراد بیوی ہے یا وہ جو صحبت میں رہے جیسے رفیق ِسفر ، ساتھ پڑھنے والایا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے حتّٰی کہ لمحہ بھر کےلیے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے ۔

مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا

اس میں مہمان بھی داخل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۴(۴۷)،چشتی)

لونڈی غلام کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا

ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ انہیں اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ، سخت کلامی نہ کرے اور کھانا کپڑا وغیرہ بقدرِ ضرورت دے ۔ حدیث میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے ، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ ، جو لباس تم پہنتے ہو ، ویسا ہی انہیں پہناؤ ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو ۔ (صحیح مسلم کتاب، باب اطعام المملوک مما یاکل۔۔۔ الخ، صفحہ ۹۰۶، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))

کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے ، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہرجانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی ، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ  انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 24 October 2022

انبیاء اور ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم عنِ الخطا نہیں عقیدہ اہلسنّت

0 comments

انبیاء اور ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم عنِ الخطا نہیں عقیدہ اہلسنّت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : وارثِ عُلومِ مِہریہ حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عام طور پر آیہ تطہیر کا یہ مفہوم عوام میں بیان کیا جاتا ہے ، کہ اہل بیت جملہ عیوب اور خطاؤں سے پاک کر دیئے گئے ہیں ، اور یہ بشارت انہیں خداوندِ عالم نے آیہ تطہیر کی صورت میں سنا دی ہے ، لہٰذا نہ ان سے کوئی خطا سرزد ہو سکتی ہے اور نہ وہ کوئی گناہ کر سکتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں گویا یہ گروہ معصوم ہے ، اگر ایسا ہوتا تو ہمیں کیا اعتراض تھا ؟ مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہے ۔ (طریق الفلاح فی مسئلة الکفو للنکاح صفحہ نمبر 2 ، 3 مطبوعہ درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف اسلام آباد)

نوٹ : پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ "مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہے " اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا منتظر ہے ۔

تاجدار گولڑہ حضرت حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا باغِ فدک کا مطالبہ کرتے ہوئے کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں ۔ اور آیت تطہیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ پاک گروہ معصوم ہیں اور اِن سے کسی قسم کی خطا سرزد ہونا نا ممکن ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بمقتضائے بشریت اُن سے کوئی خطا سرزد بھی ہو تو وہ عفو و تطہیر اِلہٰی میں داخل ہوگی ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 46 مطبوعہ گولڑہ شریف)

تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الحاصل آیتِ تطہیر کا مورد خواہ اُمّہاتُ المومنین ہوں فقط یا آل کساء ہوں یا صرف آلِ کساء ہوں ، ایسا ہی تطہیر در رنگ انزالِ شرعیہ ہو یا در صورت عفو و مغفرت ، بہر کیف خطاء کا صدور مطہرین سے ممکن ہے ۔ علاوہ خلفائے ثلاثہ کے اہلبیت پاک علیہم السّلام نے باغِ فَدک کے غیر مورث ہونے کو اپنی طرز سے ثابت کر دکھایا ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ نمبر 217 مطبوعہ گولڑپ شریف،چشتی)

تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خطا کا صدور بہر کیف مطہّرین سے ممکن ہے ۔ البتہ حشر اُن کا آخرت میں مغفرت کاملہ کی صورت میں ہوگا ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 58 مطبوعہ گولڑہ شریف)

علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ان الانبیاء علیھم السلام معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیہ صفحہ نمبر 306)

جامع المعقول والمنقول علامہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الملائکة عباد اللہ تعالی العاملون بامرہ ۔ یرید انھم معصومون ۔
ترجمہ : ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق تمام امور سرانجام دیتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد کی شرح النبراس صفحہ نمبر 287)

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الانبیاء علیہم السلام کلھم منزھون ۔ ای معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں ۔ (منح الروض الازھر صفحہ نمبر 56)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بشر میں انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 187،چشتی)

صدرالافاضل استاذ العلماء حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انبیاء اور فرشتوں علیہم السّلام کے سوا معصوم کوئی بھی نہیں ہوتا ، اولیاء (کو اللہ تَعَالٰی اپنے کرم سے گناہوں سے بچاتا ہے مگر معصوم صرف انبیاء اور فرشتے علیہم السّلام ہی ہیں ۔ (کتاب العقائد صفحہ نمبر 21)

صدرالشریعہ حضرت علاّمہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے ، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ عصمتِ انبیا (علیہم السّلام) کے یہ معنیٰ ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہولیا ، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنہیں محفوظ رکھتا ہے ، اُن سے گناہ ہوتا نہیں ، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں ۔ (بہار شریعت عقیدہ نمبر 16 جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 38 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،چشتی)

مشہور کتاب تعریف الاشیاء میں علامہ میر سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (العصمۃ) ملکۃ اجتناب المعاصی مع التمکن منہا ۔ (تعریف الاشیاء صفحہ ۶۵ طبع مصر)
ترجمہ : گناہ کر سکنے کے باوجود گناہوں سے بچنے کا ملکہ عصمۃ ہے ۔ یہی عبارت اقرب الموارد میں ہے ۔ ملاحظہ ہو اقرب الموارد جلد ۲ صحہ ۹۱ طبع مصر ۔

مفردا ت میں ہے : وعصمۃ الانبیاء حفظہ ایاہم اولا بما خصہم بہ من صفاء الجوہر ثم بما اعطاہم من الفضائل الجسمیۃ والنفسیۃ ثم بالنصـرۃ وتثبیت اقدامہم ثم بانزال السکینۃ علیہم وبحفظ قلوبہم وبالتوفیق (مفرداتِ امام راغب اصفہانی ص ۳۴۱ طبع مصر)
ترجمہ : ’’عصمت انبیاء‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں کو (ہر قسم کی برائی سے) محفوظ رکھنا، اولاً اس صفاء جوہر کی وجہ سے جو انہی کے ساتھ خاص ہے پھر ان کے فضائل جسمیہ اور نفسیہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے پھر اپنی نصرتِ خاص اور انہیں ثابت قدم رکھنے کے ساتھ پھر ان پر سکون و طمانیت نازل فرما کر اور ان کے قلوب کو کجروی سے بچا کر اور اپنی توفیق ان کے شامل حال فرما کر ۔ یہی مضمون دستور العلماء میں ہے ۔ (دستور العلماء جلد ۲ صفحہ ۳۴۵،چشتی)

نبراس میں ہے : العصمۃ ملکۃ نفسانیۃ یخلقہا اللّٰہ سبحانہ فی العبد فتکون سبباً لعدم خلق الذنب فیہ ۔ (نبراس صفحہ ۵۳۲)
ترجمہ : عصمت وہ ملکہ ٔ نفسانیہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندے (نبی) میں پیدا کرتا ہے جو اس میں گناہ پیدا نہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے ۔

شرح عقائد نسفی میں ہے : وحقیقۃ العصمۃ ان لا یخلق اللّٰہ فی عبد الذنب مع بقاء قدرتہ واختیارہ ۔ (شرح عقائد نسفی صحہ ۷۳)
ترجمہ : عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ کرنا ۔

اسی شرح عقائد میں بقول بعض علماء عصمت کی تعریف اس طرح بھی منقول ہے : ھی لطف من اللّٰہ تعالیٰ یحملہ علی فعل الخیر ویزجرہ عن الشر مع بقاء الاختیار تحقیقاً للابتلاء ۔ (شرح عقائد صفحہ نمبر ۷۴،چشتی)
ترجمہ : عصمت ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا لطف ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقدس بندہ (نبی) کو فعل خیر پر برانگیختہ کرتا اور اسے شر سے بچاتا ہے ۔ مع ابقاء اختیار کے تاکہ ابتلاء کے معنی برقرار رہیں ۔

مجمع بحار الانوار میں ہے : والعصمۃ من اللّٰہ دفع الشر (جلد ۲، صفحہ ۳۹۳)
ترجمہ : ’’عصمت من اللہ‘‘ دفع شر ہے ۔

مسامرہ میں ہے : العصمۃ المشترطۃ معناہا تخصیص القدرۃ بالطاعۃ فلا یخلق لہٗ ای لمن وصف بہا (قدرۃ المعصیۃ) ۔ (مسامرہ جلد ۲ صفحہ ۸۱،چشتی)
ترجمہ : عصمت مشترطہ کے معنی ہیں قدرت کا طاعت کے ساتھ خاص کر دینا پس جو شخص اس عصمت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے اس کےلیے معصیت کی قدرت پیدا نہیں کی جاتی ۔

نبوۃ و عصمت کے متعلق ہم نے اکابر علمائے امت کے اقوال نقل کر کے ان کا خلاصہ ترجمہ ہدیہ ناظرین کر دیا ہے اور تفصیلی ابحاث کو صرف اختصار کلام کے لحاظ سے نظر انداز کر دیا ہے ۔

امورِ تبلیغیہ میں کذب عمد سے عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر جمیع اہل ملل و شرائع کا اجماع ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ تبلیغ میں انبیاء علیہم السلام سے عمداً صدور کذب عقلاً محال ہے ۔

شرح مواقف میں اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : اذ لوجاز علیہم التقول والافتراء فی ذالک عقلا لادی الی ابطال دلالۃ المعجزۃ وہو محال ۔ (شرح مواقف جلد ۸ صفحہ ۲۶۳ طبع مصر،چشتی)
ترجمہ : کیوں کہ اگریہ (کذب عمد فی التبلیغ) عقلاً جائز ہو تو دلالت ِ معجزہ کے ابطال کی طرف مودی ہو گا اور وہ محال ہے ۔

البتہ علی سبیل السہو والنسیان ، میں قاضی ابوبکر نے اختلاف کیا ہے مگر ائمہ اعلام اس میں بھی عقلاً عدم جواز ہی کے قائل ہیں۔ رہے باقی ذنوب یعنی کذب فی التبلیغ کے علاوہ تو وہ کفر ہوں گے۔ یا غیر کفر ۔ عصمت عن الکفر پر اجماع امت ہے ۔ عام اس سے کہ قبل النبوۃ یا بعد النبوۃ۔ اس اجماع کے خلاف خوارج کے ایک خاص گروہ ازارقہ کا قول پایا جاتا ہے جو اہل حق کے نزدیک باطل و مردود ہے۔ قائلین تقیہ نے انبیاء علیہم السلام سے خوف کے وقت تقیۃً اظہار کفر کو جائز مانا ہے مگر اہل حق کے نزدیک یہ قول بھی قطعاً باطل ہے کیوں کہ یہ اخفائے دعوت اور ترک تبلیغ رسالت کی طرف مفضی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے حق میں محال ہے ۔

اب ان گناہوں کے متعلق سنئے جو کفر کے ماسوا ہیں تو ان کی دو قسمیں ہیں کبائر و صغائر ۔ ان میں سے ہر ایک کے دو حال ہیں یا ان کا صدور عمداً ہو گا یا سہواً۔ دو کو دو سے ملا کر چار قسمیں حاصل ہوئیں ۔ کبیرہ عمداً، کبیرہ سہواً ، صغیرہ عمداً ، صغیرہ سہواً۔ ان اقسام اربعہ میں سے ہر ایک قبل البعثت ہو گا یا بعد البعثت۔ انبیاء علیہم السلام سے کبائر کا صدور خواہ عمداً ہو یا سہواً بعد النبوۃ شرعاً محال ہے، قول مختار یہی ہے قبل النبوۃ اکثر مشائخ کے نزدیک محال نہیں ۔ اسی طرح عمداً بعد البعثت صغائر کا صدور بھی محال ہے ۔ سہواً میں اختلاف ہے۔ اکثر مشائخ جواز (یعنی امکان) کے قائل ہیں لیکن جو صغائر رذالت و خست اور دناء ۃ کا موجب ہوں بالاتفاق ان کا صدور انبیاء علیہم السلام سے ممکن نہیں ۔ علیٰ ہٰذا القیاس محققین اہلسنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام ان امور سے بھی معصوم ہیں جو موجب نفرت ہوں ۔ جیسے امہات و زوجات کا فجور اور آباء کی دناء ۃ و رذالت ۔ مختصر یہ کہ باب ذنوب میں جمہور اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنی نبوت کے زمانہ میں کبائر سے مطلقاً اور صغائر سے عمداً معصوم ہیں اور انہوں نے اپنے اس دعویٰ پر حسبِ ذیل دلائل قائم کیے ہیں : ⬇

پہلی دلیل : ازروئے قرآن و اجماع انبیاء علیہم السلام کی اتباع فرض ہے۔ کما قال اللّٰہ تعالیٰ: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور گناہ حرام ہے۔ اگر کسی نبی سے گناہ صادر ہو تو اس کی اتباع حرام ہو گی کیوں کہ اس صورت میں وہ گناہ بھی کرنا پڑے گا جو نبی نے کیا ورنہ اس کی اتباع نہ ہو سکے گی اور گناہ حرام ہونے کی وجہ سے نبی کی اتباع بھی حرام ہو گی اور نبی کی اتباع کا حرام ہونا قطعاً باطل ہے ۔ لہٰذا نبی سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل ہو گا ۔

دوسری دلیل : اجماع اور قرآن کی رو سے گناہگار کی شہادت مردود ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو معاذاللہ وہ مردود الشہادۃ قرار پائیں گے اور یہ قطعاً محال ہے ۔ لہٰذا ان سے گناہ کا ہونا بھی محال ہے ۔

تیسری دلیل : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے ۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو انہیں گناہ سے باز رکھنے کےلیے زجر کرنا پڑے گا جو ایذا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ایذا قطعاً حرام ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور ممکن نہیں ۔

چوتھی دلیل : ’’گناہ‘‘ ظلم و معصیت اور موجب ملامت و مذمت ہے اور ظالم و عاصی کے حق میں لعنت او رنار جہنم کی وعید قرآن کریم میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ (پارہ ۲۹ سورۃ جن) نیز فرمایا اَلاَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۸ سورۃ الاعراف) اسی طرح ملامت و مذمت بھی وارد ہے۔ ارشاد فرمایا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ الصف) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے اَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (پارہ ۱ سورۃ بقرۃ) اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو ’’خاکم بدہن‘‘ وہ نار جہنم کے مستحق، ملامت کے حق دار اور ملعون و مذموم ہوں گے جو قطعاً باطل ہے ۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل و مردود ہے ۔

پانچویں دلیل : اگرانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے گناہ صادر ہوں تو وہ اپنی امت کے گناہگاروں سے بھی زیادہ بدحال اور گئے گزرے ہوں گے۔ کیوں کہ بزرگی اور کرامت میں جس قدر زیادہ مرتبہ بلند ہو، گناہ کرنے پر اسی قدر عقلاً و نقلاً زیادہ عذاب کا استحقاق ہوتا ہے۔ نبوت سے زیادہ بلند کوئی مرتبہ نہیں۔ اس لئے نبی کے گناہ کا عذاب تمام گناہگاروں کے عذاب سے زیادہ ہو گا اور یہ ایسی زبوں حالی ہے جو نبی کے حق میں متصور نہیں ۔ لہٰذا گناہ کا صدور بھی کسی نبی سے نہیں ہو سکتا ۔

چھٹی دلیل : ’’گناہ‘‘ اپنے نفس پر ظلم ہے اور ظالم اللہ تعالیٰ کے عہد کو نہیں پا سکتا۔ قرآن مجید میں ہے: لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۱ سورۃ بقرہ) نبوت سب سے بڑا عہد ہے جو کسی ظالم کو نہیں مل سکتا۔ انبیاء علیہم السلام نے جب عہد نبوت کو پا لیا تو ثابت ہو گیا کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں ۔
ساتویں دلیل : انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے عباد مخلصین ہیں جیسا کہ یوسف ں کے حق میں ارشادِ الٰہی وارد ہے۔ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (پارہ ۱۲ سورۃ یوسف) اور موسیٰ ں کے متعلق فرمایا اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً (پارہ ۱۶ سورۃ مریم) اور حضرت ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اِنَّا اَخْلَصْنَا ہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِo وَ اِنَّہُمْ عِنْدَ نَالَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورۃ ص) اَلْمُخْلَصِیْن ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور انہیں ہر چیز سے معصوم کر دیتا ہے جو طاعت ِ خداوندی کے خلاف ہے۔اس لئے مخلصین سے گناہ کا صدور نہیں ہو سکتا اور اسی بناء پر شیطان نے کہا تھا: لَاُ غْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْن (پارہ ۲۳ سورۃ ص) میں سب کو بہکاؤں گا سوا تیرے مخلص بندوں کے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اس کی تکذیب نہیں فرمائی بلکہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (پارہ ۱۴ سورۃ حجر) کہہ کر تصدیق فرمائی۔ ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں اور گناہوں کا ارتکاب ان سے نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ ان کا مصطفیٰ اور اخیار (یعنی برگزیدہ اور پسندیدہ) ہونا ان کی عصمت عن المعصیۃ کو اور بھی زیادہ واضح کر رہا ہے اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ بعض انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام غیر مخلص ہیں اور بعض مخلص غیر انبیاء ہیں ۔ اگر مخلص ہونا عصمت کی دلیل ہے تو غیر مخلص نبی کی عصمت ثابت نہ ہو گی اور مخلص غیر نبی کا معصوم ہونا بھی لازم آ جائے گا۔ حالاں کہ یہ دونوں امر مستدل کے نزدیک باطل ہیں تو میں عرض کروں گا کہ یہ شبہ اس وقت درست ہو سکتا تھا جب کہ انبیاء علیہم السلام کو عام لغوی معنی کے اعتبار سے مخلص کہا جائے لیکن قرآن مجید میں ایسے خاص معنی کے لحاظ سے انبیاء کرام کو مخلص فرمایا گیا ہے جو نبوت کی خصوصیات اور اس کے لوازمات سے ہیں جن کی رو سے ہر نبی کا مخلص ہونا ضروری ہے اور کسی غیر نبی کا مخلص ہونا ممکن نہیں جیسا کہ سورۃ ص کی آیت منقولہ بالا ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ سے واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ ‘‘ فرما کر ’’اَخْلَصَ‘‘ فعل کی اسناد اپنی ذات مقدسہ کی طرف فرمائی ۔ یعنی ہم نے انہیں مخلص بنایا پھر آیۃ مبارکہ میں ان کے مخلص ہونے کا سبب خالصۃً کو قرار دیا گیا ہے اور ’’ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ اس کا بیان ہے ۔ خالصۃً کی تنوین تنکیر برائے تعظیم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ کے سبب مخلص کیا ہے جو آخرت کی یاد ہے اور یاد آخرت سے مراد ان کا انذار و تبشیر ہے جس کا ذکر آیۃ کریمہ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ (پارہ ۷ سورۃ انعام) میں وارد ہے یوں تو ہر ایک یاد آخرت کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے بصیرت و یقین پا کر نعمائے جنت کی خوشخبری سنانے اور عذابِ نار سے ڈرانے پر مامور ہو کر یاد آخرت کرنا ایسی خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ ہے جو نبوت کا خاصہ اور لازمہ ہے۔ نیز اس نوعیت سے بشیر و نذیر ہونا اور آخرت کی دائمی یاد کرنا ہر نبی کےلیے لازم اور نبوۃ کا خاصہ ہے۔ اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ہر نبی مخلص ہونے کی وجہ سے معصوم ہے اور کوئی غیر نبی ان معنی میں مخلص نہیں جو انبیاء مخلصین میں پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا کسی غیر نبی کا معصوم ہونا لازم نہیں آتا ۔

آٹھویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (پارہ ۲۲ سورۃ سبا) وجہ استدلال یہ ہے کہ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے انبیاء علیہم السلام مراد ہیں یا ان کی امت کے مومنین؟ برتقدیر اول ہمارا مدعا ثابت ہے کیوں کہ اتباعِ شیطان ہی گناہ ہے جب وہ اتباع شیطان سے محفوظ رہے تو یہی محفوظیت ان کے حق میں عصمت ہے۔ برتقدیر ثانی انبیاء علیہم السلام کا اتباع شیطان سے محفوظ رہنا بطریق اولیٰ ثابت ہوگا کیوں کہ جس کی امت کے مومنین شیطان کے متبع نہیں وہ نبی کیوں کر اس لعین کا متبع ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کی اتباع سے بچنا تقویٰ ہے اور بدلالت نص قطعی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (پارہ ۲۶ سورۃ الحجرات) تقویٰ معیارِ فضیلت ہے۔ اگر اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے مومنین مراد لے کر انبیاء علیہم السلام سے صدور گناہ کا قول کیا جائے تو غیر نبی کا نبی سے افضل ہونا لازم آئے گا جو بالاتفاق باطل ہے۔ ثابت ہوا کہ بہر تقدیر انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہونا اس آیت کا مفاد ہے ۔

نویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو دو گروہ میں تقسیم فرمایا ’’حزب اللّٰہ اور حزب الشیطان‘‘ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور مانا جائے تو کم از کم صدور معصیت کے وقت تو معاذ اللہ وہ ضرور ہی حزب الشیطان قرار پائیں گے۔ کیوں کہ مطیع حزب اللّٰہ ہیں اور عاصی حزب الشیطان۔ اور حزب الشیطان خاسرین ہیں۔ لقولہٖ تعالیٰ اَلَا اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ المجادلہ) ایسی صورت میں العیاذ باللہ! انبیاء کرام کو خواہ ایک آن ہی کے لئے ہو، خاسرین کہنا پڑے گا جو بداہۃً باطل ہے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور قطعاً ممکن نہیں ۔

علاوہ ازیں بکثرت افرادِ امت زہّاد و عباد زمرہ مفلحین میں داخل ہیں۔ پھر یہ عجیب بات ہو گی کہ افراد امت مفلحون ہوں اور انبیاء خاسرون۔ معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ۔

دسویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ں، حضرت اسحٰق ں، حضرت یعقوب ں و دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق فرمایا اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ (پارہ ۱۷ سورۃ الانبیاء) بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے ۔ ’’الخیرات‘‘ جمع معرف باللام ہے اور ایسی جمع عموم کےلیے ہوتی ہے ۔ لہٰذا وہ فعل اور ترک دونوں سے متعلق سب نیکیوں کو شامل ہو گی۔ فعل سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو عمل اور قول سے حاصل ہوتی ہیں ۔ جیسے نماز روزہ ، حج و زکوٰۃ اور ترک سے وہ نیکیاں مراد ہیں جو کسی کام کو نہ کرنے سے حاصل ہوتی ہیں جیسے جھوٹ، چوری ، غیبت اور زنا نہ کرنا ۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح عبادات فعلیہ کا عمل میں لانا نیکی ہے اسی طرح گناہ کے کاموں کا نہ کرنا (۱) بھی نیکی ہے اور ’’الخیرات‘‘ کا لفظ سب کو شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام گناہ نہ کرنے میں بھی مسارعت کی صفت سے متصف ہیں۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول ’’اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفِیْنِ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورہ ص) میں لفظ ’’مصطفین‘‘ اور ’’اخیار‘‘ دونوں ہر اس فعل اور ہر اس ترک کو شامل ہیں جس میں نیکی، پسندیدگی اور برگزیدگی کے معنی پائے جائیں ۔ اس عموم کی دلیل صحت استثناء ہے ۔ کیوں کہ یہ کہنا جائز ہے کہ ’’فلان من المصطفین الا فی کذا او من الاخیار الا فی کذا‘‘ مستثنیٰ منہ کا عموم صحت استثناء کی شرط ہے ۔ جب یہاں استثناء صحیح ہے تو عموم ثابت ہو گیا اور عموم اس امر کی دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام کل امور میں برگزیدہ اور پسندیدہ ہیں ۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور جائز نہ ہوا ۔

استدراک : یہاں بعض لوگوں نے یہ شبہ وارد کیا ہے کہ اصطفاء صدور معصیّت کے منافی نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۔ پارہ ۲۲ سورۃ فاطر
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مصطفین کو تین قسموں میں منقسم کر دیا۔ ظالم، مقتصد اور سابق ۔ ان اقسام میں ظالم کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اصطفاء کے باوجود بھی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں : ⬇

ایک یہ کہ انبیاء علیہم السلام آیت کریمہ میں مذکور نہیں نہ وہ ’’الذین‘‘ میں شامل ہیں ۔ یہاں غیر انبیاء کا اصطفاء مذکور ہے اور غیر انبیاء کے اصطفاء پر انبیاء علیہم السلام کے اصطفاء کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیوں کہ اصطفاء کے مراتب مختلف ہیں ہر شخص کا اصطفاء اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا حال باقی تمام کائنات سے افضل و اکمل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا اصطفاء بھی کل مخلوقات سے اکمل و اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا غیر انبیاء کے (لغوی) اصطفاء کا صدور ذنب کے منافی نہ ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا اکمل و اعلیٰ اصطفاء بھی صدورذنب کے منافی نہ ہو ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’فمنہم ظالم‘‘ میں ضمیر مجرور ’’مصطفین‘‘ کی طرف نہیں بلکہ ’’عباد‘‘ کی طرف راجع ہے کیوں کہ اقرب مذکورین کی طرف ضمیر کا لوٹنا اولیٰ ہے۔ لہٰذا اقسام ثلٰثہ (جن میں ظالم بھی شامل ہے) مصطفین کے نہیں بلکہ عباد کے ہیں ۔ اس تقدیر پر شبہ مذکور اصل سے ساقط ہو گیا ۔ وللّٰہ الحمد ۔

اس مضمون کے اکثر مطالب اور عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر یہ دس دلیلیں فقیر چشتی نے شرح مواقف کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہیں اور حسب ضرورت دلائل کی قوت کو واضح کرنے کےلیے بعض مقامات پر بسط کے ساتھ کلام کر دیا ہے ۔ اہلِ علم حضرات سے امید ہے کہ وہ ہماری اس جرأت کو ضرورت پر محمول فرمائیں گے جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔

اب ان مخالفین کی طرف آئیے جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد البعثت عمداً صدور کبائر و صغائر کو جائز مانتے ہیں ۔
ان لوگوں کا استدلال قصص انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ جن میں سے بعض قصے قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں منقول ہیں جن سے بظاہر وہم پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے ان کے زمانہ نبوۃ میں گناہوں کا صدور ہوا۔ سب کا اجمالی جواب یہ ہے کہ وہ واقعات اخبار آحاد میں منقول ہیں یا بطریق تواتر۔ پہلی صورت میں واجب الرد ہیں۔ اس لئے کہ کسی راوی کی طرف خطا کا منسوب کر دینا انبیاء علیہم السلام کی طرف گناہ منسوب کرنے سے زیادہ آسان ہے ۔
برتقدیر ثانی چونکہ وہ دلائل عصمت سے متعارض ہیں اس لئے مؤول ہوں گے ۔ وجوہ تاویل، موقع محل اور اقتضاء کلام کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوں گی ۔ مثلاً بعض واقعات کو بشرطِ اقتضاء مقام قبل البعثت پر حمل کیا جائے گا ۔ بعض میں اقتضاء مقام کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام کے ان افعال کو جنہیں منکرین عصمت معصیت قرار دیتے ہیں ’’ترکِ اولیٰ‘‘ کہا جائے گا ۔ بعض مواقع ایسے بھی ہوں گے جہاں موقع محل کی مناسبت سے ان افعال کو صدور صغیرہ سہواً قرار دیا جائے گا ۔ کسی جگہ موہم کلام کو دلیل کی روشنی میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تواضع اور کسر نفسی پر حمل کیا جائے گا ۔
رہا یہ شبہ کہ ان افعال میں بعض ایسے ہیں جن کے لئے لفظ ذنب وارد ہوا ۔ جیسے ’’لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ‘‘ بعض وہ ہیں جن کے ارتکاب کے بعد حضرات انبیاء علیہم السلام نے استغفار فرمایا۔ نیز ان میں بعض ایسے افعال بھی ہیں جنہیں کرنے کے بعد انبیاء علیہم السلام نے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کا اعتراف کیا۔ پھر انہیں کیوں کر ترک اولیٰ یا صغائر صادرہ عن السہو پر حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ترکِ اولیٰ جیسے ہلکے امور کو ذنب سے تعبیر کرنے کی وجہ منصب نبوت کی عظمت اور انبیاء علیہم السلام کے درجات کی رفعت و بلندی ہے اور اسی عظمت و رفعت کے پیش نظر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے صغیرہ صادرہ عن السہو اور خلافِ اولیٰ کاموں پر اعترافِ ظلم کر کے استغفار کیا ۔ تعلیماتِ قرآنیہ کی روشنی میں یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین ۔

یہ بھی حق ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے عاجزی ، تواضع کسر نفسی کےلیے اعترافِ ظلم اور استغفار فرمایا ۔ ان مقدسین کا ایسا کرنا دراصل اپنے رب کی بارگاہ میں تضرع و زاری ہے اور یہ اعتراف و استغفار ان کے انتہائی فضل و کمال پر دال ہے چہ جائیکہ اسے ان کے ظالم و عاصی ہونے کی دلیل بنا لیا جائے ۔ مخالفین کے دلائل کا اجمالی جواب تو ہم دے چکے ۔ عصمت انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو چکا ہے جس کے سبب ان سے صدور گناہ محال ہے ۔ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کی طرح کسی دوسرے کو معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ اور رہی بات بچوں کو معصوم کہنے والی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو معصوم کہنا اس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں شرعی اصطلاح ہے اس لیے بچوں کو معصوم کہنے والے پر کوئی حکم نہیں ۔ عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی ”معصوم“ کہہ دیا جاتا ہے لیکن شرعی اصطلاحی معنیٰ جو اوپر بیان کیے گئے اس سے وہ مراد نہیں ہوتے بلکہ لغوی معنیٰ یعنی بھولا ، سادہ دل ، سیدھا سادھا ، چھوٹا بچہ ، نا سمجھ بچہ ، کم سن ، والے معنیٰ میں کہا جاتا ہے ۔ اس لیے اس معنیٰ میں بچوں کو معصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 23 October 2022

فساد فی الارض اور اس کا شرعی حکم

0 comments
فساد فی الارض اور اس کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفْسِدُوۡا فِی الۡاَرْضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوۡنَ ﴿11﴾ اَلَاۤ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوۡنَ وَلٰکِنۡ لَّا یَشْعُرُوۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 11)
ترجمہ : اورجو اُن سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں ۔ سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں ۔

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب ایمان والوں کی طرف سے ان منافقوں کو کہا جائے کہ باطن میں کفر رکھ کر اور صحیح ایمان لانے میں پس و پیش کر کے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں ا س طرح نہ کہو کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اصلاح کرناہے ۔ اے ایمان والو! تم جان لو کہ اپنی اُسی روش پر قائم رہنے کی وجہ سے یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں اس بات کاشعور نہیں کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کوپہچان سکیں ۔

منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلاح کا نام دیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آزادی کے نام پر بے حیائی ، فن کے نام پر حرام افعال ، انسانیت کے نام پر اسلام کو مٹانا اورتہذیب و تَمَدُّن کا نام لے کر اسلام پر اعتراض کرنا ، توحید کا نام لے کر شانِ رسالت کا انکار کرنا ، قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرنا وغیرہا سب فساد کی صورتیں ہیں ۔

امام ابن جریر(224ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : منافقوں کا فساد یہ تھا کہ وہ اللہ کے دشمنوں کی مدد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابل ان کی پاسداری کرتے تھے اور یہ سب مکاری کرنے کے بعد بھی خود کو صلح والے سمجھتے تھے ۔
علاّمہ ابن کثیر(701ھ) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : قرآن پاک نے کفار سے دوستی اور موالات رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ منافقین چکنی چپڑی باتوں سے ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور پس پردہ کفار سے دوستیوں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ کسی کے ساتھ بگاڑنا نہیں چاہتے اور فریقین (مسلمانوں اور کفار) میں اتفاق رکھنا چاہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر،چشتی)

جلالت العلم ، شیخ السنہ امام جلال الدین سیوطی الشافعی (849ھ) رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امام ابن اسحاق نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے "ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں" کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ (اس سے مراد وہ منافقین ہیں) جو کہتے ہیں ہم ایمان والوں اور اہل کتاب میں صلح کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اللہ نے کہا کہ یہ نری جہالت ہے اور فساد ہے مگر انہیں اس کا شعور نہیں ۔ (تفسیر در منثور)

منافقین اپنے افساد کو اصلاح کیوں کہتے تھے ؟

منافقین کا فساد یہ تھا کہ وہ کفار سے تعاون کرکے اور مسلمانوں کے راز ان پر ظاہر کرکے جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے اور فتنوں کو جگاتے تھے کیونکہ جنگ کے نتیجہ میں زمین پر لہلہاتے ہوئے کھیت اجڑ جاتے تھے ‘ مال اور مویشی ہلاک ہوجاتے تھے اور انسانوں کا قتل ہوتا تھا ‘ یا ان کو فساد یہ تھا کہ وہ زمین پر اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور شریعت کے ساتھ استہزاء کرتے تھے اور اس کے نتیجہ میں زمین پر خوں ریزی ہوتی تھی اور فتنہ اور فساد ہوتا تھا اور چونکہ منافقین کے دلوں میں بیماری تھی ‘ اس لیے وہ اپنے فساد کرنے کو اصلاح اور اپنی شرانگیزی کا کار خیر گمان کرتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : افمن زین لہ سوء عملہ فراہ حسنا ۔ (سورہ الفاطر : 8) 
ترجمہ : تو کیا جس شخص کے لیے اس کا برا کام مزین کردیا گیا تو اس نے اس کو اچھا سمجھا ۔

منافقین کا مقصد یہ تھا کہ ہم تو فساد کرنے سے بہت دور ہیں ‘ کیونکہ ہم اپنے علماء اور پیروں کی پیروی کرتے ہیں ‘ جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) سے تعلیم حاصل کی ہے تو ہم ان کے طریقہ کو کیسے چھوڑیں اور اپنے گلے میں ایک نئے دین کا قلادہ کیسے ڈال لیں ؟ اور ہم مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا کر ان کو کمزور کر رہے ہیں تاکہ یہ نیادین پھلنے پھولنے نہ پائے ‘ لہذا لوگوں کو اس نئے دین سے دور رکھنے کی ہماری یہ کوشش لوگوں کی اصلاح اور ان کی خیرخواہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ان سے کہا گیا : اس طرح ایمان لاؤ ‘ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو انہوں نے کہا : کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟ (سورہ البقرہ : 13)

ایمان لانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا معیار ہونا

علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ” جس طرح اور لوگ ایمان لالئے ہیں “ اس سے مراد اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ‘ اور منافقین نے جو کہا : جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ‘ اس سے ان کی مراد بھی اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ‘ یہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ (جامع البیان ج 1 ص 99‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ،چشتی)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : اس سے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم مراد ہیں ۔ (الجامع الاحکام القرآن ج 1 ص 205 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ 1387 ھ)

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ ” تاریخ ابن عساکر “ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ‘ ہیں ۔ (الدرالمنثور ‘ ج 1 ص 31۔ 30‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ النجفی ایران) 

شیعہ مفسر شیخ فضل بن حسن طبرسی لکھتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ پر نازل شدہ کتاب کی اس طرح تصدیق کرو جس طرح آپ کے اصحاب نے اس کی تصدیق کی ہے ‘ اور ایک یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جو دوسرے یہودی ایمان لائے تھے ‘ ان کی طرح آپ کی تصدیق کرو ۔ (مجمع البیان ج 1 ص 139‘ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ‘ ایران ‘ 1411 ھ،چشتی)

ان تفاسیر سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کیلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان معیار ہے ۔

زندیق کی توبہ کی قبولیت پر دلیل

اس آیت سے زندیق کی توبہ کے مقبول ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے نفاق کی خبر دی اور ان کو قتل کرنے حکم نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے ظاہر اسلام کے قبول کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کے فاسد عقائد کا جو علم تھا اس کے مطابق ان کے ساتھ کفار کا معاملہ کرنے کا حکم نہیں دیا ‘ اور یہ ثابت ہے کہ یہ آیات مدینہ منورہ میں کفار سے قتال کی مشروعیت کے بعد نازل ہوئی ہیں ‘ نیز ” صحیح بخاری “ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا حتی کہ وہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کی گواہی دیں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ ادا کریں ‘ جب وہ ایسا کریں گے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کرلیں گے ‘ البتہ اسلام کا حق لیا جائے گا اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔ (امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ صحیح بخاری ج 1 ص ‘ 8 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ) اور منافقین بہ ظاہر کلمہ پڑھتے تھے ‘ نماز پڑھتے تھے اور زکوۃ ادا کرتے تھے ۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ منافق کا ایمان لانا اور اس کی توبہ مقبول ہے ، اسی پر زندیق کو قیاس کیا گیا ہے ۔ اب ہم پہلے زندیق اور ملحد کی تعریفیں ذکر کریں گے ‘ پھر ان کا شرعی حکم بیان کریں گے ۔

زندیق کی تحقیق اور شرعی حکم

علامہ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے کافروں کی درج ذیل اقسام لکھی ہیں

کافر : جو شخص ظاہرا ایمان نہ لائے ‘ منافق : جو شخص بہ ظاہر ایمان لائے اور حقیقت میں کافر و ‘ مرتد : جو شخص اسلام لانے کے بعد اسلام سے رجوع کرکے کفر کو قبول کرلے ‘ مشرک : جو شخص متعدد خدا مانے ‘ کتابی : جو شخص ادیان سابقہ منسوخہ کا معتقد ہو جیسے یہودی اور عیسائی ‘ دہری : جو شخص دہر کو قدیم مانے اور حوادث کی نسبت دہر کی طرف کرے ‘ معطل : جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم نہ کرے ‘ زندیق : جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اعتراف کرتا ہو ‘ شعائر اسلام کا اظہار کرتا ہو اور اس کے دل میں کفریہ عقائد ہوں ۔ (شرح المقاصد ج 5 ص 227‘ مطبوعہ منشورات الشریف الرضی ‘ ایران ‘ 1409 ھ)

ملحد : جو شخص شریعت مستقیمہ سے کفر کی کسی حجت کی طرف میلان کرے ‘ اس میں وجود باری کو ماننے کی شرط ہے نہ نبوت کے ماننے کی شرط ہے ‘ نہ کفر کو چھپانے کی شرط ہے ‘ نہ پہلے اسلام کو ماننے کی شرط ہے ‘ یہ کفر کی تمام اقسام سے عام ہے ۔ (ردالمختار ج 3 ص 296)

علامہ سید احمد طحطاوی حنفی زندیق کے متعلق لکھتے ہیں : ” فتاوی قاری الھدایہ “ میں لکھا ہے کہ زندیق وہ شخص ہے جو دہر کے قدیم ہونے کا معتقد ہو ‘ خالق اور آخرت پر ایمان نہ لائے اور اس کا اعتقاد ہو کہ اموال اور محرمات مشترک ہیں ‘ اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے کہ زندیق وہ شخص ہے جو خدا کا قائل ہو نہ آخرت کا اور نہ کسی چیز کا حرام سمجھتا ہو ‘ یہ علامہ بیری سے منقول ہے ‘ اور ” فتح القدیر “ میں ہے کہ زندیق کسی دین کا قائل نہیں ہوتا ‘ اور ” حاشیہ ابی سعود “ میں ” ملتقات “ سے منقول ہے کہ زندیق کی تین قسمیں ہیں : (1) زندیق اصلی ‘ یہ وہ عجمی شخص ہے جو اپنے سابق شرک پر قائم ہو ۔ (2) زندیق غیر اصلی وہ شخص ہے جو پہلے مسلمان ہو اور پھر زندیق ہوجائے ‘ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر یہ مسلمان ہوگیا تو فبہا ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا ‘ کیونکہ یہ مرتد ہے ۔ (3) جو شخص پہلے ذمی ہو اور پھر زندیق ہوجائے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ کفر ملت واحدہ ہے اور ظاہر یہ ہے کہ زندیق کی توبہ مقبول ہے اور توبہ اس سے قتل کو ساقط کردیتی ہے ۔ (حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار جلد 2 صفحہ 485‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ ‘ بیروت 1395 ھ،چشتی)
علامہ طحطاوی نے زندیق کی جتنی تعریفیں لکھی ہیں یہ سب اس کے لغوی معنی ہیں اصطلاح شرع میں اس کا وہی معنی ہے جو علامہ تفتازانی نے لکھا ہے ۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : علامہ ابن کمال پاشا نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ لغت میں زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو خالق کی نفی کرے ‘ اور جو متعدد خداؤں کا قائل ہو ‘ اور جو اللہ کی حکمت کا انکار کرے ‘ اور اصطلاح شرع میں زندیق وہ شخص ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اعتراف کرے اور کفر کو مخفی رکھے جیسا کہ ” شرح مقاصد “ میں ہے ‘ زندیق کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ اپنی گمراہی کی طرف دعوت نہیں دیتا تو پھر اس کی تین قسمیں ہیں (زندیق اصلی ‘ غیر اصلی اور وہ زندیق جو پہلے عجمی ہو ‘ ان کی تفصیل علامہ طحطاوی کی عبارت میں گزر چکی ہے) اور اگر زندیق اپنی گمراہی کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو اگر اس نے گرفتار ہونے سے پہلے اپنے اختیار سے توبہ کرلی ہے تو اس کی توبہ قبول ہوگی ورنہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کو قتل کردیا جائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زندیق تو اپنے کفر کو مخفی رکھتا ہے ‘ وہ اپنی گمراہی کی طرف کیسے لوگوں کو دعوت دے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے کفر پر اسلام کا ملمع چڑھا کر اور اپنے عقائد فاسدہ کو عقائد کو عقائد صحیحہ کی صورت میں پیش کرکے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دے گا (جیسے ہمارے زمانہ میں مرزائی ہیں) ۔ (رد المختار ج 3 ص ‘ 296‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت 1407 ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنو یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن ان کو علم نہیں ہے ۔ (سورہ البقرہ : 13)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کی مذمت اور رد

منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور ان کی زیادہ جہالت بیان کی کہ وہ نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کو اپنی جہالت کا علم بھی نہیں اور اس آیت میں قصر قلب ہے اور کئی وجہ سے تاکید ہے ‘ قصر قلب کا تقاضا یہ ہے کہ اصحاب رسول جاہل نہیں ہیں بلکہ یہی جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور خود کو عالم سمجھ رہے ہیں اور اس جملہ کو اللہ تعالیٰ نے ” الا ‘ ان “ اور اسمیت جملہ سے موکد فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جہالت میں رہیں گے اور ان کو اپنی جہالت کا علم نہیں ہوگا اور ایسی جہالت زیادہ لائق مذمت ہے کیونکہ جس شخص کو کسی چیز کا پتا نہ ہو اس میں صرف ایک جہالت ہے ‘ اور وہ بسا اوقات معذور ہوتا ہے اور جب اس کو اس چیز کا پتا چل جائے یا اس کو مسئلہ بتادیا جائے تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے اور اس کو ہدایت سے نفع پہنچتا ہے اور جو شخص جاہل ہو اور وہ اپنی جہالت سے بھی جاہل ہو اس میں دو جہالتیں ہیں : ایک مسئلہ سے جہالت دوسری اپنی جہالت سے جہالت اس کو جہل مرکب کہتے ہیں ۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب وشتم کرنا اللہ کو بہت ناگوار ہے ‘ منافقین نے ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کردی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ جاہل نہیں بلکہ ان کو جاہل کہنے والے خود جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور ان کا جہل دائمی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہل سے براءت کی اور ان کو جاہل کہنے والوں کی مذمت کی ‘ منافقوں نے تو ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تھا لیکن جب تک قرآن مجید پڑھا جاتا رہے گا یہ کہا جاتا رہے گا کہ منافق جاہل ہیں اور دائمی جہل میں گرفتار ہیں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب وشتم کرنے والوں کا رد کرنا چاہیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سنت الہیہ ہے ۔

ہر مسلمان اس بات کا اہل ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر پڑھے اور فیصلہ کر سکے کہ کون ہے جو کفار کی پس پردہ حمایت کرتا ہے ؟ کون ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے مقابل اہلِ کفر کی پاسداری کرتا ہے ؟ کون ہے جو اہلِ کفر سے دوستی رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے خواہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر سَب بکیں ؟ اور یہ سب کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں ہم تو صلح والے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday 21 October 2022

مسجد میں اذان دینے کا شرعی حکم

0 comments
مسجد میں اذان دینے کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اذان دینے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہو جائے کہ جماعت قائم ہونے والی ہے ، اور ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز اتنی دور نہیں جاتی جتنی مسجد سے باہر اور اونچی جگہ پر اذان دینے سے ۔ اذان میں اصل مقصود آواز بلند کرنا اور دور تک آواز پہنچانا ہے ۔ لہٰذا جب لاؤڈاسپیکر سے اذان دی جائے اور ہارن مسجد کے اوپر لگے ہوں ، جیساکہ عام معمول ہے ، تو حدودِ مسجد میں مائک رکھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور جن بعض فقہی عبارتوں میں مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ لکھا گیا ہے ، وہ اس صورت میں ہے جب کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی جارہی ہو ، یا ایسی جگہ اذان دی جارہی ہو جس سے آواز دور نہ پہنچے ۔

واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقًا کما فہِم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہٰذا الأذان؛ بل مقیدًا بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر ۔ إلی قولہ ۔ في الجلابي : أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولی إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم ۔ (إعلاء السنن، أبواب الجمعۃ / باب التأذین عند الخطبۃ ۸؍۸۶-۸۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)
قال في الہندیة : وینبغي أن یوٴذن علی المأذنة أو خارج المسجد ولا یوٴذن في المسجد ۔ (الہندیة: جلد 1 صفحہ 55)

معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے سے مقصود صرف تبلیغِ صوت ہے ، آج کل عام طور پر لاٶڈ اسپیکر پر اذان ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسجد میں اذان دی جائے یا دوسری نیچی جگہ پر رفعِ صوت بہرحال ہو جاتا ہے ۔ اس لیے لاٶڈ اسپیکر پر مسجد میں اذان دینے میں کوئی کراہت معلوم نہیں ہوتی ۔

جمعة المبارک کی اذانِ ثانی میں ایک اصل ہے اور ایک فرع ۔ جہاں تک اصل کا تعلق ہے اس پر تو سب کا اتفاق ہے اور وہ یہ کہ اذان ثانی مطلقاً سنت ہے اور مقصد نماز کی طرف دعوت ہے ۔ اب یہ مسئلہ کہ یہ اذان کہاں دی جائے تو یہ فرع کی حیثیت سے ہے جو حضرات فرماتے ہیں کہ یہ اذان مسجد کے دروازے یا باہر دینی چاہیے تو ان کی دلیل ابوداؤد شریف کی حدیث پاک ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوتے تو ان کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی ۔

فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ "بین ہدیہ" کے الفاظ مبہم ہیں کہ اس سے مراد کتنا دور ہونا چاہیے تو اکثر فقہاء کرام کے نزدیک اس سے مراد عندالمنبر کہا گیا ہے ۔

اسی طرح صاحب فتح القدیر نے "شرح ہدایہ" میں یہی مراد لیا ہے کہ منبر کے قریب ہو ۔

"باب المسجد" کے الفاظ حدیث پاک میں مذکور ہیں لیکن اگر کسی مسجد کا دروازہ مشرق کی جانب نہ ہو تو پھر اس پر عمل کس طرح کیا جائے گا ۔ اس لیے اگر خاص دروازہ مراد ہو تو پھر جو الفاظ سامنے پر دلالت کر رہے ہیں اس پر عمل کرنا درست نہ ہوا لہذا اس بات میں کوئی خاص تنازع کی بات نہیں ہے صرف افضلیت کی بات ہے تو عامۃ المسلمین کا عمل یہی ہے ۔ منبر کے سامنے قریب سے اذان دی جاتی ہے جو لوگ باہر اذان دینے کے قائل ہیں تو ان پر اعتراض نہیں ہے دونوں طریقے جائز ہیں ۔

معاذ اللہ اذان کے الفاظ میں کوئی ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر مسجد میں کھڑے ہو کر اذان دینا ناجائز قرار دیا جا سکے ۔ اس لیے مسجد میں اذان دینے کے جواز کے دلائل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں بھی کہیں مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں کیا گیا ۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہونے تک مسجد سے باہر بلند مقام پر اذان کیوں دی جاتی تھی ؟ اس کو سمجھنے کےلیے اذان دینے کا مقصد سمجھنا ضروری ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ ۔
ترجمہ : اور جب تم نماز کےلیے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں ۔ (سورہ المائدة ، 5 : 58)

دوسرے مقام پر فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔ (سورہ الجمعة ، 62 : 9)

دونوں آیات مبارکہ میں اذان کا مقصد اہل ایمان کو نماز کی طرف بلانا ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی یہی مقصد بیان کیا گیا ہے کہ طویل مشاورت کے بعد لوگوں کو نماز کےلیے جمع کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ اذان دینا تھا جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے : كَانَ المُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلاَةَ لَيْسَ يُنَادَى لَهَا، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ ۔
ترجمہ : مسلمان جب مدینہ منورہ میں آئے تو نماز کےلیے اندازے سے جمع ہو جایا کرتے اور اس کےلیے اعلان نہیں ہوتا تھا ۔ ایک روز انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی ۔ بعض نے کہا کہ ہم نصاریٰ کی طرح ناقوس بجایا کریں اور بعض نے کہا یہودیوں کی طرح سینگھ بنا لو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ہم ایک آدمی کو مقرر نہ کر دیں جو نماز کا اعلان کیا کرے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! کھڑے ہو کر نماز کا اعلان کرو ۔ (صحیح صحیح كتاب الأذان باب بدء الأذان ، 1: 219، رقم: 579، بیروت دار ابن کثیر،چشتی)(صحیح مسلم كتاب الصلاة، بدء الآذان، 1: 285، رقم: 377، بیروت : دار احیاء التراث العربي)

اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کےلیے بلانے کا ایک احسن انداز ہے ۔ لاؤڈ سپیکر کی ایجاد سے پہلے مسجد سے باہر مینارے پر اذان دینے سے اس بلاوے کو زیادہ لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا جو آج لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورا ہو رہا ہے ۔ جن فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے صدیوں پہلے مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ قرار دیا ہے وہ اسی بناء پر کہا ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز کم لوگوں تک پہنچے گی جس سے اذان کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔ اس لیے دورِ حاضر میں مسجد کے اندر کھڑے ہو کر اذان دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد احسن انداز میں پورا ہو رہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 18 October 2022

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

0 comments

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : تحذیرالناس کے مصنف قاسم نانوتوی ہیں جن کو بانی دارالعلوم دیوبند بھی کہا جاتا ہے ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لیے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخِ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا ، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کر دیا ۔ قصہ مختصر اب جانیے کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا ؟ اول تو فقیر قارئین کی معلومات کےلیے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کرتا ہے ۔

آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے : سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھا ہے : اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔

یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برِصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں : ⬇

چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ : جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے ۔ (الاضافات الیومیہ جلد چہارم صفحہ ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷،چشتی)

یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطالِ اغلاطِ قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے ۔ حوالہ کےلیے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ۔ ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت جلد ۳ صفحہ ۳۰۰)

تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں : اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کےلیے مصیبت بن گئی تھی ۔

ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی صفحہ ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ : پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں ۔

اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجیے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے : اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔

اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یوپی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا ۔

یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علماء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی ۔

اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انہیں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ (الاضافات الیومیہ جلد ۴ صفحہ ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷،چشتی)

احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انہوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی طرف سے فتویٰ کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تمام بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن ۔ (کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ ۸۸)(تنبیہ الجہال صفحہ ۱۶،چشتی)

اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں : ⬇

مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ (اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱)

مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی ۔ (محدث اعظم جلد ۱ صفحہ ۱۱۱)

اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کر دی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے صفحہ ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور صفحہ ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ۔ (تفسیر ضیاء القرآن صفحہ ۳۰۸۲)

پیر کرم شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت جلد ۱ صفحہ ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ اس نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے ۔

حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر صفحہ ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی ۔

اب ایک سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے جو کہ قاسم نانوتوی کے معتقدین اور حامیان نظریہ تحذیرالناس بہت زور و شور سے اٹھاتے ہیں ۔ وہ سوال یہ ہے : بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب ''تحذیر الناس'' کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے ؟ ۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا ۔ عبارت تحذیر الناس یہ ہے : ⬇

اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔

جواب : یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں ۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے ۔ اس پر اجماعِ امت ہے ۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے ۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں ۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں ۔ یعنی نبوت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بلا واسطہ ملی ۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں ۔ اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ایمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے ۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا ۔ تو جو بات کفر ہے اس کو قرآن کے معنی بتا دیا ہے ۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا ۔ اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے ۔

''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔ یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟

اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے ۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر'' اور ''بالفرض'' ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا ؟

دیوبندیوں نے تحذیر الناس کی عبارت کو آیۃ کریمہ : لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا ۔ کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا ۔ اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد ۔ اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے ۔

بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کےلیے دس قتل کرتا ہے ، چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے ، ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے ۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کےلیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں ۔ یہ حق ہے ۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے ۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے ۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی ''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے'' ۔ اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں ۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے ۔ اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے ۔

اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر'' اور ''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اس میں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے ۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا ۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے ۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے ۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے ۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں ؟ تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین کیسے ؟

''اگر'' اور "بالفرض'' کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں ۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے ۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے ۔

بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے ۔ اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا ۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے ۔ اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے ۔ اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفرِ صریح ہے ۔

اب مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس کے متعلق انہی کے پیر بھائی مگر مسلک کے لحاظ سے جلیل القدر سنی بزرگ حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق کتاب انوارِ احمدی سے اقتباس پیش کیے جائیں گے جو کہ تنبیہات کے عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں ۔

''مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی دیوبند کے اکا برین میں شامل ہیں ، مولوی قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیرالنا س میں خاتم النبیین کے غلط معانی پیش کرنے کی کوشش کر کے عقیدہ ختم نبوت میں رخنہ اندازی کی نا کا م کوشش کی ، جس کی علمائے اہلسنت ہمیشہ مذمت فرماتے رہے ، زیرِ نظر بحث میں بھی اس کے باطل عقیدہ کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔

عقیدہ خا تم النبیین پر حضرت مولانا محمد انوار اللہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف کتا ب ''انوا ر احمدی'' کے علمی دلائل ، ایمانی شواہد ، اور بصیرت افروز تنبیہا ت کی شاندار بحث پڑھنے سے پہلے جامعہ نظامیہ حیدر آباد کے محترم مولانا عبدالحمید صاحب کا یہ حاشیہ پڑھیے تاکہ بحث کے بنیادی گوشوں سے آپ پوری طرح با خبر ہو جائیں ۔ شیخ الجا معہ تحریر فرماتے ہیں ! ''تحذ یرالناس نامی کتاب میں خاتم النبیین کے مسئلے پر (مو لو ی محمد قاسم نانوتوی بانی دارلعلوم دیوبند) نے ایک فلسفیانہ بحث فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خاتم النبیین ہونا فضلیت کی بات نہیں ۔ کسی کا مقدم زمانے یا متاخر زمانے یعنی اگلے زمانے یا پچھلے زمانے میں پایا جانا فضلیت سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اور اگر بالفرض آپ کے بعد کوئی نبی آجائے تو آپ کی فضلیت پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا ۔ کیو نکہ خاتم النبیین ہونے میں امکان ذاتی کی نفی نہیں یعنی آپ کے بعد کسی نبی کا ہونا ممکن ہے ۔

اس شبہ کا ازالہ حضرت مولانا مرحوم نے اپنے اس مضمو ن میں نہایت وضاحت کے ساتھ کیا ہے کہ : ⬇

خاتم النبیین کا وصف آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاصہ ہے جو آپ کی ذا ت گرامی کے سا تھ مختص ہے کسی اور میں پایا نہیں جا سکتا ۔ خاتم النبیین کا لقب ازل ہی سے آپ کےلیے مقرر ہے اس کا اطلاق آپ کے سوا کسی اور پر نہیں ہو سکتا کیو نکہ خاتم النبیین کا مفہوم جزئی حقیقی ہے ۔ جزئی حقیقی وہ ہے جس کا اطلاق ایک سے زائد پر عقلاً ممتنع ہے لہٰذا ایسی صورت میں کسی اور خاتم النبیین کا ذاتی امکان باقی نہ رہا ۔

اسی مضمون کو حضرت نے تحذیر الناس کے جواب میں پھیلا کر تحریر فرمایا ہے اور اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے کلام قدیم میں خاتم النبیین فرمایا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازل ہی سے اس صفت خاص کے ساتھ متصف ہیں ۔ ایسا کوئی زمانہ نہیں جو باری تعالیٰ کے علم اور کلام پر مقدم ہو ۔ اور اس میں کوئی اور شخص اس وصف سے متصف ہو سکے ۔ پس خا تم النبیین کی صفت مختصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات گرامی میں منحصر ہے کسی دوسرے کا اس صفت کے سا تھ اتصاف محال ہے ۔

مولوی محمد قاسم نانوتوی کی فلسفیانہ بحث بدعت ہے : اس کے بعد حضرت مولانا نے اس با ت پر تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ کر ہر نئی بات کو خواہ حسنہ ہو یا سیہ مستوجب دوزخ قرار دیا کرتے ہیں وہ اس سوال کا جواب دیں کہ کیا خاتم النبیین کی فلسفی بحث بدعت نہیں ہے ۔ جو نہ قرآن میں ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی حدیث وارد ہے ، نہ قرونِ ثلاثہ میں ، صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم نے خاتم النبین پر ایسی کوئی بحث کی ہے ؟

مولوی محمد قاسم نانوتوی کی فلسفیانہ بحث کا نتیجہ : مزید براں اس بدعت قبیحہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قادیانی نے اس فلسفیانہ استدلال سے اپنی نبوت پر دلیل پیش کی ہے اور شہادت میں مصنف تحذیرالناس کا نام پیش کیا ہے ۔ اب یہ مدعی اور گواہ کے ساتھ اسی بارگاہ میں پیش ہو گا جس نے امت کو تعلیم دی ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آوا ز پر بلند مت کر و ۔ بلند کرو گے تو تمہارے سا ر ے اعما ل ضبط کر دئیے جا ئیں گے ۔ (محمد عبد الحمید شیخ جا معہ نظا میہ ، انوارِ احمدی صفحہ ٤۴۲٢،چشتی)

مولوی محمد قاسم نانوتوی کے انکار ختمِ نبوت پر تنبیہا ت : اس حا شیہ کے بعد حضرت مصنف کی وہ زلزلہ فگن تنبیہات ملا حظہ فرمائیں جو لفظ خاتم النبیین کے سلسلے میں تحذیرالنا س کے مصنف کے خلاف انہوں نے صادر فرمائی ہیں : ⬇

پہلی تنبیہ : بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دوسرے کا خاتم النبیین ہونا محال و ممتنع ہے مگر یہ امتنا ع لغیرہ ہو گا نہ بالذات جس سے امکانِ ذاتی کی نفی نہیں ہو سکتی ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ وصف خاتم النبیین خاصہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہے جو دوسرے پر صادق نہیں آ سکتا ۔ اور موضوعلہ ، اس لقب کا ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے کہ عندالاطلاق کوئی دوسرا اس مفہوم میں شریک نہیں ہو سکتا پس یہ مفہوم جزئی حقیقی ہے ۔ (انوار احمدی صفحہ نمبر ٤٢٢۔چشتی)

دوسری تنبیہ : پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل خاتم النبیین کی صفت کے ساتھ ایک ذات کو متصف مان لیا تو اس کے نزدیک محال ہو گیا کہ کوئی دوسری ذات اس صفت کے سا تھ متصف ہو ۔ اور بحسب منطوق لازم الوثوق مایبدل القول لدیابدالآباد تک کےلیے یہ لقب مختص آنحضر ت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کےلیے ٹھہرا تو جزئیت اس مفہوم کی ابدالآباد تک کےلیے ہو گئی ۔ کیونکہ یہ لقب قرآن شریف سے ثابت ہے جو بلا شک قدیم ہے ۔ (انوا ر احمدی صفحہ ۴۳٤)

تیسر ی تنبیہ : اب دیکھا جائے کہ مصدا ق اس صفت کا کب سے معین ہوا ۔ سو ہمارا دعویٰ ہے کہ ابتدائے عالمِ امکان سے جس قسم کا بھی وجود فرض کیا جائے ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس صفتِ مختصہ کے ساتھ متصف ہیں ۔ کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام قدیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خا تم النبیین فر ما چکا ۔ اب کون سا ایسا زمانہ نکل سکے گا ۔ جو اللہ کے وصفِ علم و کلام پر مقدم ہو ؟ ۔ (انوار احمدی صفحہ ٤۴۷،چشتی)

چو تھی تنبیہ : غیر ت عشق محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بڑی چیز ہے ۔ جب اسے جلال آتا ہے تو ایک زلزلہ کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیص ذرا بھی برداشت نہیں ۔ مصنف کتاب با وجودیکہ بہت نرم طبیعت کے آدمی ہیں لیکن اس موقعہ پر ان کے قلم کا جلا ل دیکھنے کے قابل ہے ۔ کسی اور خاتم النبیین کے امکان کے سوال پر ان کے ایمان کی غیرت اس درجہ بے قابو ہو گئی ہے کہ سطر سطر سے لہو کی بوند ٹپک رہی ہے ۔ میدانِ وفا میں عشق کو سر بکف دیکھنا ہو تو یہ سطریں پڑھیے ۔ مصنف کتاب ، تحذیرالناس کے مباحث کا محاسبہ کرتے ہوئے تحریر فرما تے ہیں : اب ہم ذرا ان صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ اب وہ خیالا ت کہاں ہیں جو کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ پڑھ کر ایک عَالَم کو دوزخ میں لے جا رہے تھے ۔ کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قرآن و حدیث میں وارد ہے ؟ یا قرونِ ثلاثہ میں کسی نے کی تھی ۔ پھر ایسی بدعتِ قبیحہ کے مرتکب ہو کر کیا استحقاق پیدا کیا اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہوتی رہے گی اس کا گناہ کس کی گردن پر ہو گا ؟

دیکھیے حضرت جر یر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ! جو شخص اسلام میں کوئی برا طر یقہ نکالے تو اس پر جتنے لوگ عمل کرتے رہیں گے سب کا گناہ اس کے ذمے ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ (رواہ مسلم)

لکھتے لکھتے اس مقام پر عشق و ایمان کی غیرت نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ غیظ میں ڈوبے ہوئے کلمات کا ذرا تیور ملاحظہ فرمائیے ! تحریر فر ما تے ہیں : بھلا جس طرح حق تعالیٰ کے نزدیک صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں ویسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا نقصان تھا ۔ کیا اس میں بھی کوئی شرک و بدعت رکھی تھی جو طرح طرح کے شاخسانے نکالے گئے '' یہ تو بتائیے کہ ہمارے حضرت نے آپ کے حق میں ایسی کون سی بدسلوکی کی تھی جو اس کا بدلہ اس طرح لیا گیا کہ فضیلتِ خاصہ میں بھی مسلم ہونا مطلقًا ناگوار ہے ۔ یہاں تک کہ جب دیکھا کہ خود حق تعالیٰ فرما رہا ہے کہ آپ سب نبیوں کے خاتم ہیں تو کمال تشویش ہوئی کہ فضیلت خاصہ ثابت ہوئی جاتی ہے ۔ جب اس کے ابطال کا کوئی ذریعہ دینِ اسلام میں نہ ملا تو فلاسفہ معاندین کی طرف رجوع کیا اور امکانِ ذاتی کی شمشیر دودم (دودھاری تلوار) ان سے لے کر میدان میں آکھڑ ے ہوئے ۔

پانچویں تنبیہ : افسوس ہے اس دھن میں یہ بھی نہ سوچا کہ معتقدین سادہ لو ح کو اس خاتمِ فرضی کا انتظار کتنے کنوئیں جھنکائے گا ۔ معتقدین سادہ لوح کے دلوں پر اس تقریر نا معقول کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا ۔ چنانچہ بعض اتباع نے اس بنا پر الف لام خاتم النبیین سے یہ بات بنائی کہ حضرت صرف ان نبیوں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد بھی انبیاء پیدا ہو ں گے اور ان کا خا تم کو ئی اور ہو گا ۔

معا ذاللہ اس تقریر نے یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآن کا انکار ہونے لگا ۔ ذرا سوچیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاتم النبیین ہونے کے سلسلے میں یہ سارے احتمالات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے روبرو نکالے جاتے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر کس قدر شاق گزرتا ۔

چھٹی تنبیہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے تورات کے مطالعے کا ارادہ کیا تھا تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حالت کس قدر متغیر ہو گئی تھی کہ چہرہ مبارک سے غضب کے آثار پیدا تھے ۔ اور باوجود اس خُلقِ عظیم کے ایسے جلیل القدر صحابی پر کتنا عتاب فرمایا تھا جس کا بیان نہیں ۔ جو لوگ تقرب و اخلاص کے مذاق سے واقف ہیں وہی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ پھر یہ فرمایا کہ اگر خود حضرت مو سیٰ میری نبوت کا زمانہ پاتے تو سوائے میری اتباع کے ان کےلیے کوئی چارہ نہ ہوتا ۔

اب ہر شخص با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی با اخلاص کی صرف اتنی حرکت اس قدر ناگوار طبع غیور ہوئی تو کسی زید و عمرو کی اس تقریر سے جو خود خاتمیت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں شک ڈال دیتی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیسی اذیت پہنچتی ہو گی ۔ کیا یہ ایذار سانی خالی جائے گی ؟ ہرگز نہیں حق تعالیٰ ار شا د فر ماتا ہے ! اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْ لَہ ، لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا ۔
ترجمہ : جو لو گ ایذا دیتے ہیں اللہ کو اور اس کے اس کے رسول کو ، لعنت کرے گا اللہ ان پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اور تیار کر رکھا ہے ان کےلیے ذلت کا عذاب ۔ (انوا ر احمدی صفحہ نمبر ٥٢٢)

الحمد للہ فقیر نے تعصب سے ھٹ کر حقائق و دلائل کی روشنی میں علمی اور مہذب انداز میں تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے کیے گئے غلط معنیٰ کا رد پیش کیا ہے دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کےلیے ذریعہ ہدایت اور فقیر کےلیے ذریعہ نجات بنائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)