Monday, 3 October 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 26

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 26
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں بھی میلاد منانا چاہتا ہوں مگر ؟ : منکرینِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فقیر کی بعض پوسٹوں کے نیچے ایک کمنٹ بار بار کیا عنوان یہ تھا میں بھی میلاد منانا چاہتا ہوں مگر ؟ حدیث وفقہ کی کتابوں کی ایک فہرست تیار کی اور اس کے اوپر لکھا مجھے ان کتابوں میں عید میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی فضیلت نہیں ملی لہٰذا یہ عید میلاد بدعت ہے ۔ منکرینِ میلاد کی بُغضِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کی گئی اس محنت کا جواب پشِ خدمت ہے : ⬇

جنابِ من ان تمام کتابوں میں کون سی ایسی کتاب ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہو کہ حدیث کی کتابوں میں جس چیز کے فضائل نہیں وہ بدعت ہے ؟

ان تمام کتابوں میں چشمہ لگانے کی فضیلت کہیں بھی نہیں تو کیا قرآن پڑھتے وقت چشمہ لگانا بدعت یے ؟

بدعت کیا ہے ؟

بدعت صرف وہ نئے اعمال ہیں جو سنت کے خلاف ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : من سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجر من عمل بھا ۔
ترجمہ : جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پرعمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنة حسنة ۲/ ۳۴۱۔چشتی)۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 1،حدیث 208)

معلوم ہوا دین مین اچھا کام ایجاد کرنے کا ثواب بھی ہے اور اسے پھیلانا بھی ثواب ہے ۔

روی ابن مسعودرضی ﷲ عنہ مرفوعاً وموقوفاً ماراٰہ المسلمون حسنًا فھو عند ﷲ حسن ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی الله عنه نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد اورخود ان کے قول سے مروی ہوئی کہ : اہل اسلام جس چیز کو نیک جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی نیک ہے ۔ (المستدرک للحاکم, کتاب معرفۃ الصحابۃ, ۳/ ۷۸)

معلوم ہوا جس کام کو اہل اسلام نیک جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی نیک ہے ۔

شریعت کا یہ قاعدہ ہے کو جس چیز کے متعلق شریعت میں منع نہ کیا گیا ہو وہ جائز و مباح ہے ۔ اور یہ وہابیہ دیابنہ کی خود ساختہ شریعت ہے کہ جو قرآن و حدیث میں نہیں اس سے صاف انکار کر دو ۔ (معاذ الله)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعة حسنة وان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحة ۔
ترجمہ : اگر وہ بدعت شریعت کے پسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی، اور اگر وہ شریعت کے ناپسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التراویح ۱۱/ ۱۲۶)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فلیس کل ما ابدع منھیابل المنھی بدعة تضاد سنة ثابتة و ترفع امرا من الشرع بقاء علته ۔ (احیاء العلوم، 3:2،چشتی)
ترجمہ : ہر بدعت منع نہیں ہوتی بلکہ منع صرف وہی بدعت ہوتی ہے جو سنت ثابتہ کی الٹ ہو اور سنت کی علت کے ہوتے ہوئے امر شریعت کو ختم کر دے ۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعلی ھذا التاویل یحمل الحدیث الآخر کل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشریعة و يوافق السنة ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، 106:1)
ترجمہ : ان دلائل کے بناء پر حدیث “کل محدثة بدعة” کی وضاحت یوں ہوگی کہ اس سے مراد وہ نیا کام ہوگا جو اصول شریعت کے خلاف ہو اور سنت سے کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو ۔

مفتی حرمین علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد من قوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه ماینا فیه اولا یشھد له قواعد الشرع والادلة العامة ۔
ترجمہ : یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں ۔ (مجموعہ فتاوٰی، کتاب الحظر والاباحة، ۲/۹)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں : اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه ۔
ترجمہ : با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں، بدعت مباحہ، بدعت مکروہہ ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (ہدیہ المھدی صفحہ نمبر 117)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں حسن بھوپالی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والتی لا ترفع شیئا منھا فلیست من البدعة بل ھی مباح الاصل ۔ (ہدیة المہدی ،117)
ترجمہ : جس بدعت سے کسی سنت کا رد نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

کیا جو کام صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہ کیا وہ بدعت ہے ؟

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : القائل ان ذالك بدعة لم یکن فی صحابة فلیس کل ما یحکم باباحة منقولا عن اصحابه رضی الله تعالى عنه انما المحذور بدعة تراغم سنة مامور الیھا ۔ (احیاء علوم دین ، 223/2)
ترجمہ : یہ کہنا کہ یہ بات بدعت ہے کیونکہ صحابہ کے زمانے میں نہیں تھی، یہ بات صحیح نہیں کیونکہ کل مباحات صحابہ سے منقول نہیں ۔ بدعت وہ ہے جو سنت کے خلاف ہو جس کو شریعت میں منع نہیں کیا گیا اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ثم الثابت بعد ھذا نفی المندوبیة اما ثبوت الکراھة فلا الا ان يدل دليل آخر ۔ (فتح القدیر 466/1)
ترجمہ : یعنی (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے) نہ کرنے سے اس قدر ثابت ہوا کہ مندوب نہیں، رہا کراہت کا ثبوت تو جب تک دلیل نہ دی متحقق نہیں ہوتا ۔

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمیع ما ابتدعه العلماء والعارفون ممالم تصرح الشریعة بالا مربه لا یکون بدعة الا ان خالف صریح السنة فان لم یخالفھا فھوا محمود ۔ (تفسیر روح البیان، 257/4،چشتی)
ترجمہ : یعنی وہ سب کام جن کو علماء و عارفین نے نکالا ہے اور جن کے امر کی شرع میں تصریح نہیں وہ بدعت نہیں البتہ بدعت وہ کام ہیں جو صریح سنت کے خلاف ہو اور اگر خلاف نہ ہوں تو وہ اچھے ہیں ۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لایدل علی المنع ۔
ترجمہ : فعل تو جواز کے لئے دلیل ہوتا ہے اور نہ کرنے سے منع نہیں سمجھا جاتا ۔ (فتح الباری، 155/10)

ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد من قوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه ماینا فیه اولا یشھد له قواعد الشرع والادلة العامة ۔
ترجمہ : یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں ۔ (مجموعہ فتاوٰی ، کتاب الحظر والاباحة، ۲/۹۔چشتی)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں : اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه ۔
ترجمہ : با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں ، بدعت مباحہ ، بدعت مکروہہ ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (ہدیہ المھدی صفحہ 117)

آگے حسن بھوپالی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والتی لا ترفع شیئا منھا فلیست من البدعة بل ھی مباح الاصل ۔ (ہدیة المہدی صفحہ 117)
ترجمہ : جس بدعت سے کسی سنت کا رد نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعة حسنۃ وان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحة ۔
ترجمہ : اگر وہ بدعت شریعت کے پسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی ، اور اگر وہ شریعت کے ناپسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التراویح ۱۱/ ۱۲۶،چشتی)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فلیس کل ما ابدع منھیا بل المنھی بدعة تضاد سنة ثابتة و ترفع امرا من الشرع بقاء علته ۔ (احیاء العلوم، ٣/٢)
ترجمہ : ہر بدعت منع نہیں ہوتی بلکہ منع صرف وہی بدعت ہوتی ہے جو سنت ثابتہ کی الٹ ہو اور سنت کی علت کے ہوتے ہوئے امر شریعت کو ختم کر دے ۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعلی ھذا التاویل یحمل الحدیث الآخر کل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشریعة و يوافق السنة ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، 106:1)
ترجمہ : ان دلائل کے بناء پر حدیث “کل محدثة بدعة” کی وضاحت یوں ہوگی کہ اس سے مراد وہ نیا کام ہوگا جو اصول شریعت کے خلاف ہو اور سنت سے کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو ۔

منع کرنے کی دلیل لاؤ

یہ اصول جو ایجاد کیا گیا ہے کہ جو امر قرآن و حدیث میں نہیں وہ حرام ، ناجائز وغیرہ وغیرہ یہ کوئی شرعی اصول نہیں . کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، اس پوسٹ میں ان کے اسج اصول کا جنازہ نکالا گیا ہے . اصح اصول یہ ہے کہ جو شخص جس فعل کو ناجائز وحرام یا مکروہ کہے اس پر واجب کہ اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے اور جائز ومباح کہنے والوں کو ہرگز دلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا یہی جواز کی دلیل کافی ہے ۔

قد فصلا لکم ما حرم علیکم ۔ ( قرآن 119/6)
ترجمہ : وہ (الله) تم سے مفصل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا ۔

اب جب الله نے تمام حرام چیزوں کو واضح پہلے ہی کر دیا تو یہ نجدی چینخ چینخ کر میلاد کو کس دلیل سے حرام کہتے ہیں ؟

جی اس کی اصل یہ حدیث ہے : الحلال مااحل الله فی کتابہ والحرام ماحرّم ﷲ فی کتابه وماسکت عنه فھو مما عفاعنه ۔
ترجمہ : الله تعالی نے جواپنی کتاب میں حلال کردیا وہ حلال ہے اور جوحرام فرمادیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے ۔ (جامع الترمذی، ابواب اللباس، باب ماجاء فی لبس. ۱/ ۲۰۶چشتی)

جس چیز پر کتاب میں خاموشی اختیار کی گئی وہ معاف ہے ، سوال ہے کہ میلاد کا حرام ہونا قرآن سے ثابت کر دیں ورنہ چور بن کر کوتوال کو نہ ڈانٹیں ۔

ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لایدل علی المنع ۔
ترجمہ : فعل تو جواز کے لئے دلیل ہوتا ہے اور نہ کرنے سے منع نہیں سمجھا جاتا ۔ (فتح الباری ، 155/10)

ولیس الاحتیاط فی الافتراء علی الله تعالی باثبات الحرمة والکراھة الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحة التی ھی الاصل ۔
ترجمہ : حرام اور مکروہ قرار دینے میں الله تعالی پر افتراء باندھنے میں احتیاط نہیں ہے ان دونوں حکموں کے لئے دلیل چاہئے بلکہ احتیاط اباحت میں ہے جو اصل حکم ہے ۔ (الصلح بین الاخوان)

علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھو الصحۃ واما القول بالفساد والکراہة فیحتاج الی حجة ۔
ترجمہ : مسلمہ بات ہے کہ ہر مسئلہ میں اصل صرف اباحت ہے فساد اور کراہت کے حکم کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔ (الاقتداء بالمخالف)

کل ماعدم فیہ المدرک الشرعی للحرج فی فعلہ وترکہ فذلک مدرک شرعی لحکم الشارع بالتخییر ۔ (مسلم الثبوت المقالة الثانیه، الباب الثانی صفحہ ۲۴،چشتی)
ترجمہ : کسی کام کے کرنے میں اور نہ کرنے میں حرج کے مسئلہ میں کوئی شرعی دلیل نہ ہو تو یہ خود شرعی دلیل ہے کہ شرعا اختیار ہے ۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ثم الثابت بعد ھذا نفی المندوبیة اما ثبوت الکراھة فلا الا ان يدل دليل آخر ۔ (فتح القدیر 466/1)
ترجمہ : یعنی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے) نہ کرنے سے اس قدر ثابت ہوا کہ مندوب نہیں ، رہا کراہت کا ثبوت تو جب تک دلیل نہ دی متحقق نہیں ہوتا ۔

لایلزم منہ ان یکون مکروھا الابنھی خاص لان الکراھة حکم شرعی فلابدله من دلیل ۔
ترجمہ : اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مکروہ ہوگا مگر کسی نہی خاص کے ساتھ کیونکہ کراہت حکم شرعی ہے اس کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ (ردالمحتار، مطلب بیان السنۃ والمستحب الخ، ۱/۴۸۳،چشتی)

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ رسالہ اقتداء بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھوالصحة واما القول بالفساد اوالکراھة فیحتاج الٰی حجة من الکتاب والسّنّة او اجماع الامة ۔
ترجمہ : یقینی بات ہے کہ اصل ہر مسئلہ میں صحت ہے اورفساد یاکراہت ماننا یہ محتاج اس کا ہے کہ قرآن یاحدیث یااجماع امت سے اس پر دلیل قائم کی جائے ۔ (رسالہ الاقتداء بالمخالف)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وایں دلیل ست برآنکہ اصل در اشیاء اباحت است ۔
ترجمہ : یہ دلیل ہے اس بات پر ہےکہ اشیاء میں اصل اباحت (جائز ہونا) اباحت (جائز ہونا) ہے ۔ (اشعۃ اللمعات تحت حدیث ۴۲۲۸ ۳/ ۵۰۶)

لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلابدلھا من دلیل خاص ۔
ترجمہ : ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت نہیں ہوتا کیونکہ اس کیلئے خاص دلیل کی ضرورت ہے ۔ (البحرالرائق، باب العیدین ۲/۱۶۳)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : نہ کردن چیزے دیگر است ومنع فرمودن چیزے دیگر ۔
ترجمہ : نہ کرنا اور چیز ہے اور منع کرنا اور چیز ۔ (تحفہ اثنا عشریہ باب دہم درمطا عن الخ، ص۲۶۹)

پھر کیسی جہالت ہے کہ نہ کرنے کو منع کرنا ٹھہرا رکھا ہے ۔

شیخ الکل غیر مقلد وہابی حضرات نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں : او مدہوش بے عقل ، اللہ عز و جل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جائز نہ کہنا اور بات ہے اور ناجائز کہنا اور بات، یہ بتاؤ کہ تم جو ناجائز کہتے ہو خدا اور رسول نے ناجائز کہاں کہا ہے ۔ (فتاوی نذیریہ) ۔

جشنِ میلادُالنّبی منانا بدعت آخر کیوں ؟

محترم قارٸینِ کرام : فقیر اپنے قریبی مین بازار میں جشنِ آمد مُصطٰفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تیاری کے سلسلے میں رنگ برنگی لیڈ لائٹس و دیگر اشیا خریدینے میں مصروف تھا ایک صاحب فقیر کی جانب متوجہ ہوگئے ۔ کُچھ دِیر وہ صاحب میری جانب دِیکھتے رَہے اور پھر میرے قریب چلے آئے اور یُوں گُویا ہُوئے کیا آپ کا نام ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی ہے ؟
اُن صاحب کے مُنہ سے اپنا نام سُن کر مجھے مزید حیرت ہوئی ۔ اور اب مُجھے اس بات کا قوی یقین ہو چلا کہ ضرور یہ صاحب میرے شناسا ہونگے ۔ ورنہ میرا نام کیسے پُکارتے میں نے خندہ پیشانی سے مُسکراتے ہوتے جواب دِیا ۔ جی ہاں فقیر کا یہی نام ہے مگر آپ کون ہیں ؟

وہ صاحب ایک دم مُسرت سے بانہیں پھیلائے میری جانب بڑھے اور مُجھ سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہنے لگے چشتی صاحب یُوں اچانک سرِ راہ آپ سے مُلاقات ہو جائے گی کبھی سُوچا بھی نہیں تھا ۔ فقیر نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اُن کے ہاتھ میں تھمایا اور الوداع ہُو گئے ۔ اگلے دِن دوپہر میں مجھے ایک گُمنام نمبر سے کال رِیسیو ہوئی جسے میں نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر اَٹیند نہیں کیا چند ایک مِس کالوں کے بعد اگلے چند منٹوں میں مجھے اُسی نمبر سے ایک میسج موصول ہوا جس میں لکھا تھا کل مین بازار میں آپ سے ملاقات ہوٸی تھی پڑھھ کر فقیر نے کال بیک کی تو دوسری جانب سے اسی نوجوان کی آواز سُنائی دِی ۔ ڈاکٹر صاحب ابھی آپ کہاں ہیں میں نے بتایا کہ اس وقت میں اپنی لاٸیبریری میں موجود ہُوں اُنہوں نے پتہ معلوم کرنے کے بعد کہا کہ اس وقت میں آپ کے نزدیکی علاقے میں ختم بُخاری کی محفل میں موجود ہُوں اگر اِجازت ہُو تو یہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ کی لاٸیبریری آجاؤں ؟
فقیر نے کہا اِس میں پُوچھنے والی کیا بات ہے ۔ جب جی چاہے تشریف لاٸیں ۔ کُچھ لمحے اِنتظار کے بعد ایک کار فقر کے گھر گیٹ پر آکر رُکی جِس میں سے وہی نوجوان برآمد ہُوا ۔ فقیر نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور اُسے لے کر لاٸیبریری میں آگیا ۔ اُس نوجوان کی آمد کے ساتھ ہی میں اُس کی خاطر مدارت میں لگ گیا اور وہ مُجھے کہنے لگا ڈاکٹر صاحب میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دِیا ۔ آپ شائد کسی تقریب کی تیاری میں مصروف تھے ۔ فقیر نے اُسے بتایا کہ یہ کوئی دُنیاوی تقریب کی تیاری تُو ہے نہیں جو آج شروع اور آج ہی خَتم ہوجائے گی بلکہ عیدِ مِیلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تیاری ہے جو 12 ربیع الاول تک جاری رہے گی ان شاء اللہ ۔

نوجوان : اس کا مطلب ہے کہ تُم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کے جشن کی تیاری کر رَہے تھے ؟
فویر نے کہا ۔ تُم بالکل ٹھیک سمجھے ہُو ۔ میں اپنے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یومِ ولادت کی خُوشی میں اپنے گھر پر چراغاں کررہا ہُوں ۔

نوجوان : ڈاکٹر صاحب یہ تُو بِدعت ہے ۔ فقیر نے کہا بِدعت ہے مگر وہ کیسے ؟ نوجوان کے جواب سے فقیر حیرت زدہ رِہ گیا ۔

نوجوان : ڈاکٹر صاحب سیدھی سی بات ہے جو کام نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہُو نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ہو اُسے بدعت نہیں تو کیا سُنت کہیں گے ؟

فقیر نے نوجوان سے کہا میں نے تُم سے ایک سوال کیا تھا لیکن تُم نے مزید ایک سوال اور داغ دِیا ۔ لیکن خیر میں تُمہاری بات سمجھ گیا ہُوں ۔ تُمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یا صحابہ کرام رِضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں نہ پایا جائے وہ بدعت ہے اور ایسے کام کو نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن اس طرح کے تو ہزاروں کام ہیں جو آج تمام مسلمان کرتے ہیں ۔ اور اُنہیں کوئی بدعت کا نام نہیں دِیتا جیسے کہ ہوائی سفر یا مسجد کی توسیع یا قرآن مجید میں اعراب کا اضافہ وغیرہ وغیرہ ۔

نوجوان : لیکن ڈاکٹر صاحب یہ بھی تو دیکھیں کہ کوئی بھی مسلمان اِنہیں دین کا حِصہ سمجھ کر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ہَوائی جہاز میں سفر کرتے ہُوئے ثواب کی نیت رکھتا ہے اور نہ ہی ٹرین یا کار میں سفر کرنے کو ثواب کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔

فقیر نے کہا لگتا ہے تُم کوئی ایسی کتاب پڑھ کر آرہے ہُو جس میں میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ممانعت لکھی ہے کیا تُم مجھے اپنی معلومات کا ماخذ بتانا پسند کرو گے تاکہ میں جان سکوں کہ تُم کس قبیل کے لوگوں کی کتابیں آجکل پڑھ رہے ہُو ؟

نہیں چشتی صاحب نہ ہی میں کسی خاص فرقہ کی کتابیں پڑھ رہا ہوں اور نہ ہی فرقہ واریت پر یقین رکھتا ہوں البتہ میری معلومات کا ذریعہ کُچھ وڈیو کلپس ہیں جن کے لنکس گاہے بگاہے میرا ایک دوست بقول اُس کے وہ ثواب کی نیت سے مجھے ای میل کے ذریعہ بھیجتا رِہتا ہے ۔ اچھا اُن مولوی صاحب کا نام کیا ہے ؟ جو اُن وڈیوز میں بیان کرتے ہیں ۔ فقیر نے اگلا سوال دہرایا ۔

نوجوان : چشتی صاحب نام تُو مجھے یاد نہیں ہیں البتہ دونوں ہی زبردست عالمِ دین ہیں اُن میں سے ایک عالم دِین ہمیشہ سُرخ رنگ کا رومال سر پہ لیے ہُوتے ہیں اور اُن کی داڑھی کافی بڑی اور خوبصورت دِکھائی دیتی ہے وہ دیکھنے میں بالکل عربی عالم محسوس ہُوتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے عالمِ دین تقابلِ ادیان میں خاص مہارت رکھتے ہیں اور ہمیشہ جالی والی ٹوپی میں ہی نظر آتے ہیں اور اُن کے جلسہ میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں اور ماشاءَ اللہ دونوں ہی علمائے کرام میڈیا کے ذریعہ زبردست تبلیغی خِدمات سر انجام دے رَہے ہیں ۔
اچھا تو کیا کہتے ہیں یہ علمائے کرام اپنی وڈیوز میں ؟ فقیر نے اگلا سوال پیش کرتے ہوئے استفسار کیا ۔

نوجوان : وہ کہتے ہیں کہ جس کام کی قرآن میں اصل موجود نہ ہو یا دُورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں موجود نہ ہو اور بعد میں ثواب کی نیت سے کیا جائے تو ایسا عمل بدعت اور ناجائز ہے ۔

فقیر نے کہا اچھا جناب اب میرے کُچھ سوالات ہیں جنہیں میں چاہونگا کہ تُم بغور سُنو اور ہر سوال کے اِختتام پر اس کا جواب مجھے خُوب سوچ سمجھ کر دو تاکہ ہم کسی نتیجے پر پُہنچ سکیں ۔ سب سے پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے آج جو خَتم بُخاری کی مِحفل اٹینڈ کی ہے تو آپ وہاں کس اِرادے سے گئے تھے ؟

نوجوان کہنے لگا سیدھی سی بات ہے میں اس جلسہ میں حُصولِ ثواب کی نیت سے گیا تھا اور اس کے ذریعہ سے مُجھے کافی علمی مسائل بھی سیکھنے کو مِلے ہیں ۔

فقیر نے کہا ویسے تو میں بھی ایسی محافل کو حُصولِ خیر و برکت کا ذریعہ مانتا ہُوں لیکن جو قواعد ابھی تُم نے بدعت ہونے کےلیے ثابت کیے ہیں اُس کی روشنی میں تو آپ کا یہ عمل بھی بدعت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی ختم بُخاری کی مجلس اٹینڈ نہیں کی کیونکہ بُخاری تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں تھی ہی نہیں ۔

فقیر نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاکے بنائے گئے تھے تو کیا دنیا بھر میں مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تھا ۔ اور احتجاج کی نوعیت کیا تھی اور کیا تُم اس احتجاج میں شریک ہُوئے تھے اور کیوں ہُوئے تھے ؟

نوجوان : جی ہاں ڈاکٹر صاحب اُس گُستاخ کارٹونسٹ کے خلاف الحمدُللہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا پاکستان بھر میں مسلمانوں نے نہ صرف بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ کئی دِن احتجاجاً اپنے کاروبار کو بھی بند رکھا اور مُجھے اس بات کی بھی بے حد خوشی تھی کہ تمام مسلمانوں نے اِس میں بھرپور یکجہتی کا مُظاہرہ کیا تھا اور ہر مکتبِ فکر کے علماءَ اس میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چل رہے تھے اور سبھی مسلمان صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مُحبت اور حصولِ ثواب کےلیے ایسا کر رہے تھے ۔ لیکن آخر آپ یہ بات مُجھ سے کیوں پُوچھ رہے ہیں اس کا میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کیا تعلق ہے ؟

فقیر نے کہا تعلق ہے جناب تبھی تو پوچھ رَہا ہُوں جیسا کہ ابھی تُم نے مجھے بتایا کہ: ⬇

نمبر (ایک) تُم نے یہ احتجاج گُستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف رِیکارڈ کروایا تھا ۔

نمبر (دو) مُحبتِ رسول صلی اللہُ علیہ وسلم میں یہ عمل کیا ۔

نمبر (تین) اسے ثواب اور نیکی کا ذریعہ سمجھتے ہو ۔

نمبر (چار) اس کےلیے ہڑتال کی کال کو بھی جائز اور مستحسن عمل سمجھتے ہو ۔

نوجوان کہنے لگا : جی ہاں اس میں کیا شک ہے ۔ دُنیا کے کسی بھی خطہ میں بسنے والا کوئی بھی مسلمان ایسی گُستاخی بھلا کس طرح برداشت کر سکتا ہے ۔

فقیر نے کہا نہیں جناب مُجھے بھلا اس میں کیا شک ہو سکتا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہُو رہا ہے کہ اگر میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جلوس صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ نہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں تھا اور نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہِ اجمعین کے زمانے میں تھا اور مسلمان اسے ثواب کا ذریعہ سمجھ کر کرتے ہیں تو یہ تمام علتیں تو اس جلوس میں بھی نظر آرہی ہیں کہ ابوجہل اور دوسرے کُفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی میں ہی بے شُمار مرتبہ گُستاخیاں کی تھیں لیکن نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہِ اجمعین نے اس طرح کا کوئی جُلوس اُن کُفار بد اطوار کی گُستاخیوں کے جواب میں نِکالا نہ ہی اُس کےلیے اپنی دوکانوں کو بند کیا یعنی کوئی ہڑتال بھی نہیں کی اور نہ کافروں کے خِلاف نعرے بازی کی لیکن آپ نے یہ سب کُچھ صرف مُحبت میں ہی نہیں کیا بلکہ اس پر ثواب کی اُمید بھی رکھتے ہیں جو کہ نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہ اجمعین کے عمل سے ثابت ہے اور نہ ہی جب کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی تعلیمات مسلمانوں کو دِیں تو جب اس طرح کے جلوس بدعت نہیں تو یہ تلوار صرف عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے ہی کیوں ہے ۔ کیا آپ کے پاس اس کا کوئی عقلی یا نقلی ثبوت ہے ؟

نوجوان نے جواب دیا : نہیں میرے پاس آپ کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔

فقیر نے کہا اچھا چلیں اسے چھوڑیں ابھی کُچھ دیر پہلے آپ نے بتایا تھا کہ آپ کا دوست آپ کو دینی جذبے کے تحت حصول ثواب کی خاطر وڈیو بھیجتا ہے تُو کیا آپ کا وہ دوست ایسے کام کو دین کا حصہ اور ثواب کا ذریعہ نہیں سمجھ رہا جو صحابہ رِضوان اللہ اجمعین نے کبھی انجام دِیا ہی نہیں کیا یہ بدعت کے زُمرے میں نہیں آتا کہ اس میں بھی دینی خدمت اور ثواب کی نیت بدعت کے زمرے میں آجائے گی دونوں میں ہی وہی جذبہ موجود ہے اور طریقہ کا ثبوت یہاں بھی مفقود ہے ۔ پھر آپ جِن علما کہلانے والوں سے مُتاثر ہُو کر عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوس پر بدعت کا لیبل لگانے پر مصر ہیں آپ ہی کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اُن کے اپنے اعمال تضادات کا شکار ہیں ۔

نوجوان کہنے لگے وہ کیسے مفتی صاحب میں سمجھا نہیں وہ تو خالصتاً شریعت کی پاسداری کرتے ہیں اور سُنت کو بدعت پر مقدم رکھنے والے لوگ ہیں آپ کی یہ بات مجھے بالکل ہضم نہیں ہُو رہی لیکن ایک بات کا اعتراف میں ضرور کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ آپ سے مُلاقات کے بعد میری معلومات میں کافی اضافہ ہو رہا ہے اور مجھے ایک ہی سوال کی کئی جہتیں آپ کی گُفتگو کے ذریعہ نظر آرہی ہیں ۔

فویر نے جواباً کہا یہ تو آپ کا اعلیٰ ظرف ہے جو فقیر کی باتوں کو آپ اتنے غور سے سُن بھی رہے ہیں اور اُس پر غُور بھی کر رہے ہیں ورنہ ہم مسلمانوں میں سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے برداشت کا مادہ ہی خَتم ہو چُکا ہے کوئی کسی کی بات سننے کےلیے تیار نہیں چاہے سامنے والے کے پاس لاکھ عقلی اور نقلی دلائل ہُوں ہم ایک دوسرے کی بات بھی تحمل سے نہیں سُن سکتے میں سچ کہتا ہُوں کہ اگر آپ کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اب تک مجھ پر کئی بار لاحول پڑھ کر رُخصت ہو گیا ہوتا ۔

نوجوان کہنےلگا ۔ اچھا ڈاکٹر أاحب ابھی آپ تضادات کی بات کررہے تھے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہُوں کیونکہ آپ کے اِس جملے نے میرے اندر عجیب سی بے چینی پیدا کردی ہے ۔

فقیر نے کہا دیکھیں آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ وہ دونوں حضرات قاطعِ بدعات اور شریعت اور سُنت کے حامی ہیں اور ہر ایسی بات کو گُناہ جانتے ہیں جو اسلاف رحمُ اللہ اجمعین کے زمانے کے بعد دین میں پیدا ہوئی ہُوں اور وہ اُنہیں ناجائز اور گُناہ میں شامل کرتے ہیں جبکہ آپ نے اُن دونوں حضرات کا جو حُلیہ اور جو طریقۂ تبلیغ ابھی بیان کیا ہے وہ نہ صرف تضادات کا شکار ہے بلکہ اُن کے بیان کردہ اصول کی روشنی میں بدعت اور ناجائز نظر آرہا ہے جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اُن میں سے ایک عالم صاحب عرب شریف کی طرز پر سر ڈھانپتے ہیں تُو دوسرے سر پر جالی والی ٹوپی رکھتے ہیں اب آپ خود ہی کہیے کیا وہ اپنا سر رومال اور ٹوپی سے اس لیے ڈھانپتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیشہ اپنا سرمُبارک ڈھانپ کر رکھا یا یونہی شوق میں اپنا سر ڈھانپ کر رکھتے ہیں ؟

نجان نےکہا ۔ مفتی صاحب یہ تُو اچھی بات ہُوئی نا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سُنت کی پاسداری میں کتنے مستعد ہیں اِس میں آپ کو تضاد کہاں نظر آگیا ؟

فقیر نے جواب دیا کہ تضاد ہے جناب لیکن آپ کی آنکھوں پر اُن کی مُحبت کی جو پٹی چَڑھی ہے وہ آپ کو یہ تضاد نہیں دِکھا پارہی ۔ دِیکھو صحاح ستہ کی تمام کُتب کو کھول کر دِیکھ لو کوئی ایک حدیث مجھے ایسی دِکھادو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی عمامہ کے بجائے کوئی جالی دار ٹوپی یا آج کل عرب شریف میں رائج یہ سُرخ رومال کبھی اپنے سر مُبارک پر باندھا ہُو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیشہ عمامہ شریف ہی سر پر سجایا اور صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اتباع اور اطاعت میں ہمیشہ عمامہ شریف ہی اپنے سروں پہ سجایا تھا پھر جب صحابہ کرام رِضوان اللہ اجمعین کے مُبارک دور تک نہ ہی ٹوپی تھی اور نہ ہی یہ رُومال تھا تو مجھے بتاؤ کہ یہ سب سُنت کی پاسداری ہے یا بدعت ہے ؟
کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے لیے بدعت جاٸز و حلال کر لی جائے اور دوسروں کےلیے ناجاٸز و حرام بنا دی جائے اور دوسری بات یہ بھی دِیکھو کہ جو یہ مولوی صاحبان الیکٹرانک میڈیا کو اپنے بیانات کےلیے استعمال کر رہے ہیں کیا اس طرح کی وڈیوز دین کی خدمت اور ثواب کی نیت سے سے شائع کر رہے ہیں یا یہ اپنا شغل پُورا کر رہے ہیں یقیناً یہ سب کُچھ وہ دین کی خِدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر حصول ثواب کی نیت سے ہی کر رہے ہُوں گے شغل میلہ کےلیے تو ہرگز نہیں کر رہے ہونگے تُو کیا یہ بدعت ہے یا طریقہ ٔ سُنت ہے ؟

نوجوان کہنے لگا ۔ ڈاکٹر صاحب آپ کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم سب ہی بدعت کے چُنگل کا شکار ہیں اور کوئی بھی راہِ سُنت پر نہیں چل پارہا یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس مرض میں گرفتار ہیں جو صبح شام بدعت بدعت کا نعرہ لگاتے ہیں ۔

فقیر جواباً عرضکیا دیکھیں بات دراصل یہ نہیں ہے کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر ہماری منشا کیا ہے اگر اللہ تالیٰ کی رضا مقصود ہے تو دِین اسلام اتنا تنگ نظر نہیں کہ آپ کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی محروم کر دے جیسے خَتم بُخاری کا جلسہ مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں قائم کیا جاتا ہے اور ڈھیروں خیر و نیکیوں کا مخزن ہے اسی طرح میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محافل ہُوں یا جشنِ میلاد کا جلسہ دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں جب عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت پر انعام ہو تو اُسے عید کا دِن بنا دیا جائے تو کیا جس کے صدقے ہمیں یہ زندگی عطا فرمائی گئی جو باعثِ تخلیق کون و مکاں ہو اُس سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہوگی کیا ہمیں اس نعمت کا شُکر ادا نہیں کرنا چاہیے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دُنیاوی آمد کو نا صرف اپنی سب سے بڑی نعمت کہا بلکہ مومنین پر اِس احسان کو جتایا بھی جب کہ اپنی اور کسی نعمت کو اس طرح نہیں جتایا ۔ اور جہاں تک بات ہے کسی نئے طریقہ کی تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں یہ طریقہ قرآن و حدیث سے ٹکرا تو نہیں رہا اسی لیے آقائے نامدار ہم غریبوں کے غمخوار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا مفہوم ،، جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تُو اُسے اس کا ثواب ملے گا اور اس کا بھی ثواب ملے گا جو (بعد والے) اُس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں کُچھ کمی نہ ہوگی ۔ (صحیح مدلم ، سنن ابو داؤد شریف) ۔ (اس کی تفصیل ہم عرض کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله)

حضرت ابو سلمہ رضی اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ایسے نئے کام کی وضاحت جو کتاب و سنت میں نہ ہو کہ متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اس امر محدث کے بارے میں عابدین و مومنین کو غور و فکر کرنا چاہیے ۔

اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نئے کام کو بُرا سمجھنے کی بجائے مجتہدین اور اہل اللہ سے اُس کے متعلق معلوم کیا جائے گا اور وہ اِس پر اپنا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیں گے ناکہ ہر نئی چیز پر ڈائریکٹ بدعت اور ناجائز کا فتویٰ صادر کر دیا جائے کیونکہ دینِ اسلام بنی نوع انسان کی آسانی کےلیے آیا ہے نہ کہ مسلمانوں کےلیے مشکلات پیدا کرنے کےلیے ورنہ جس قسم کے فتوٰی آج کل کے ماڈرن مولوی حضرات مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں ان کی روشنی میں تو خُود یہ مولوی صاحبان بھی بدعتی ہیں اور اگر ہر نئی چیز بدعت کے زمرے میں شامل کر دی جائے اور بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ میں تمیز روا نہ رکھی جائے تو تمام مسلم اُمہ ایک ایسی پریشانی میں مُبتلا ہو سکتی ہے جس کا حل ان جیسے کسی نام نہاد مولویوں کے پاس بھی نہیں ہو گا کیونکہ سب پر قانون کا اطلاق ایک جیسا ہونا چاہیے نا کہ خود کےلیے وہی چیز حلال کرلی جائے جو دوسرے مسلمانوں کےلیے حرام تفویض کر دی جائے ۔ ہاں اس سے بہتر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اس دِن کو اپنے طریقہ سے منالیں اور دوسرے مسلمانوں کیےلیے اپنی رائے کُشادہ رکھیں جس کا جی چاہے جشنِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے کو اپنے گھر میں درود و نوافل کے ساتھ گُزارے اور جو جشنِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوس میں شریک ہوکر اس دِن کو منانا چاہے اُس کے جذبات کا بھی احترام کیا جائے ۔

نوجوان کہنے لگا ۔ ڈاکٹر صاحب آپ کی باتوں نے اگرچہ میرے تمام شکوک رفع کردیے ہیں لیکن ایک آخری سوال اور معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ سُنا ہے کہ بارہ ربیعُ الاول وفاتُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دِن ہے تو اس دِن مسلمانوں کا خُوشی منانا کیسا ؟

فقیر نے جواباً عض کیا جب ہم تاریخِ اسلام کا مُطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ اور وصالِ ظاہری دونوں ہی اس ماہ مُبارک میں وقوع پذیر ہُوئی ہیں جن کی تاریخ الگ الگ ہے ۔ لیکن یہاں مسلمانوں کی نیت دیکھی جائے گی کیونکہ تاریخوں میں اختلاف اپنی جگہ سہی مگر تمام مسلمانوں نے اس دِن یعنی بارہ ربیع الاوّل کو کثرتِ روایات کی وجہ سے میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے چُن لیا ہے بس جب اُمت کا اجماع اس تاریخ پر ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ ولادت با سعادت کس دِن ہوئی اللہ کریم دِلوں کے بھید خُوب جانتا ہے کہ کون اس دِن کو کیوں اور کیسے منا رہا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وصالِ ظاہری کوئی غم منانے کا دِن نہیں ہے بلکہ انعام اور اجر دیے جانے کا دِن ہے شرفِ مُلاقات ایزدی کا دِن ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اُس دِن اپنی تکلیف کا احساس صرف اس لیے کر رہے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ اب وہ ظاہری جلوؤں میں کیسے گُم رہیں گے کس کے انتظار میں صبح کا انتظار کریں گے کہ جس سے شرفِ مُلاقات اور رُخِ زیبا کے دیدار کی تمنا لیے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جانب دُوڑے چلے جاتے تھے ۔ وہ والضحیٰ کا حسین چہرہ اب نظر نہیں آئے گا اور وہ جانتے تھے کہ اب وہ جانِ جاناں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کب نظر آئے گا جس کو دوران نماز بھی وہ تکا کرتے تھے ۔ نہ کہ وہ اس لیے غمزدہ تھے کہ خُدانخواستہ اُن کا نبی زندہ نہ رَہا تھا کیونکہ ہر صحابی رضی اللہ عنہُ کا یہ عقیدہ تھا کہ ہر نبی علیہ السلام اپنی اپنی قبر میں زندہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہی کہ وہ انبیا علیہم اسلام کے جسموں کو کھائے ۔

نوجوان کہنے لگا ۔ مفتی صاحب سمجھ نہیں آتا کہ آپ کا شُکریہ کس طرح ادا کروں آپ نے اپنا اتنا قیمتی وقت دے کر جو اسلامی زاویہ مجھے آج دِکھایا ہے مرتے دَم تک اِس گُفتگو کو نہیں بھول پاؤں گا اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جتنے بھی سال میں جشنِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سعادت سے محروم رہا ہوں اس کے ازالہ کی بھی کوشش کرونگا اور آپ کے پیغام کو مرتے دَم تک عام کرتا رہونگا ۔ اور  میں ہمیشہ یہ دُعا بھی کرتا رَہونگا کہ اللہ کریم تمام مسلمانوں کو یہ عید کا دِن نہایت ادب و احترام سے منانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوجوان کی دُعا پر میرے مُنہ سے خود بخود یہ جُملہ ادا ہو گیا آمین بِجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ اے کاش یہ آمین فرشوں کی آمین سے مِل گیا ہو اور نوجوان کی دُعا تمام مسلمانوں کے حق میں قبول کی جا چُکی ہُو ۔ اور اس طرح تمام مسلمان اس خوشی کی گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہُوں ۔ (مزید حصّہ نمبر 27 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...