Friday 14 October 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 32

0 comments
خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 32
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ ۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۔ (الكوثر آیت نمبر 1 تا 3)
 ترجمہ : بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے ۔ سو آپ اپنے رب کی رضا کےلیے نماز پڑھتے رہیے اور قربانی کرتے رہیں ۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل ہے ۔

اس آیت کے شروع میں لفظ ” انا “ ہے اور یہ جمع کا لفظ ہے اور اس لفظ سے کبھی جمعیت مراد ہوتی ہے اور کبھی تعظیم مراد ہوتی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ واحد ہے ، اس لیے اس سے جمعیت مراد نہیں ہو سکتی ، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جو کوثر عطا فرمائی ہے ، اس میں کئی افراد وسیلہ ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اہلِ مکہ میں رسول بنا کر بھیجنے کی دعا کی : (البقرہ : ١٢٩) ۔ اے ہمارے رب ! ان میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیج ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی : اے میرے رب ! مجھے امت احمد میں سے بنا دے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کی آمد کی بشارت دی : (الصف : ٦) ۔ اور میں اپنے بعد ایک آنے والے رسول کی تم کو بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ۔

لفظ ” انا “ میں جمع کے لفظ کی دوسری وجہ تعظیم ہے یعنی آپ کو کوثر عطا کرنے والا تمام آسمانوں اور زمینوں کا خالق اور مالک ہے اور جب آپ کو عطا کرنے والا اس قدر عظیم ہے تو اس کا عطیہ بھی بہت عظیم ہوگا ۔

کوثر کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب !بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کرکے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا ، آپ کو حسنِ ظاہر بھی دیا حسنِ باطن بھی عطا کیا ، نسبِ عالی بھی ، نبوت بھی ، کتاب بھی ، حکمت بھی ، علم بھی ، شفاعت بھی ، حوضِ کوثر بھی ، مقامِ محمود بھی ، امت کی کثرت بھی ، دین کے دشمنوں پر غلبہ بھی ، فتوحات کی کثرت بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جن کی انتہاء نہیں ۔ (تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۳-۴۱۴،چشتی)

اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوثر عطا کر دی ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہم آپ کو کوثر عطا کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دی ۔

اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا ان کے نبی اور رسول ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ذات کی وجہ سے ہے جو شانِ محبوبِیّت کی صورت ہے کیونکہ یہاں یہ فرمایا ’’اَعْطَیْنٰكَ‘‘  ہم نے آپ کو عطا فرمائی،یہ نہیں  فرمایا کہ ’’اَعْطَیْنَا الرَّسُوْلَ‘‘ یا ’’اَعْطَیْنَا النَّبِیَّ‘‘ ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا کسی عبادت اور ریاضت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان پر یہ عطا اللّٰہ تعالیٰ کے عظیم فضل اور احسان کی وجہ سے ہے کیونکہ یہاں عطا کا ذکر پہلے ہوا اور عبادت کا ذکر بعد میں ہوا ۔

اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر کا مالک بنا دیا ہے تو آپ جسے چاہیں جو چاہیں عطا کر سکتے ہیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مِدحت خود رب تعالیٰ فرماتا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ⬇

اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ساری کثرت پاتے یہ ہیں

ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں

اور فرماتے ہیں : ⬇

اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدّاحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللّٰہ کی

اللہ تعالیٰ نے ماضی کے صیغہ سے فرمایا ہے : ہم نے آپ کو کوثر عطا کردی اور مستقبل کے صیغہ سے نہیں فرمایا کہ ہم آپ کو کوثر عطا کریں گے، یہ اس کی دلیل ہے کہ کوثر آپ کو ماضی میں حاصل ہوچکی ہے اور اس میں حسب ذیل فوائد ہیں : ⬇

(١) جس کو ماضی میں بہت عظیم نعمت حاصل ہوچکی ہو، وہ اس سے بہت افضل ہے جس کو مستقبل میں وہ نعمت حاصل ہو، اسی لیے جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے پوچھا گیا : آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا : اس وقت جب حضرت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سننت رمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٩،چشتی)
(٢) گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا : ہم نے آپ کی ولدات سے پہلے ہی آپ کی سعادت کے اسباب مہیا کردیئے تھے تو ہم آپ کی ولادت اور آپ کی عبادت کے بعد آپ کو کب فراموش کرنے والے ہیں۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو کوثر عطا کرین کا ذکر کیا، اس کے بعد آپ کو نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو کوثر عطا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل اور احسان ہے، آپ کسی عبادت اور ریاضت کا معاوضہ نہیں ہے۔
(٤) نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ہم نے کوثر آپ کو دی ہے، یوں نہیں فرمایا کہ ہم نے یہ کوثر نبی کو دی ہے یا رسول کو دی ہے کیونکہ اگر فرماتا : یہ کوثر نبی کو دی ہے تو یوں سمجھا جاتا کہ یہ کوثر نبوت کا مقتضیٰ ہے، سو جو بھی نبی ہوگا اس کو یہ کوثر مل گئی ہوگی اور اگر فرماتا : یہ کوثر رسول کو دی ہے تو یوں سمجھا جاتا کہ یہ کوثر رسالت کا تقاضا ہے، سو جو بھی رسول ہوگا اس کو یہ کوثر مل گئی ہوگی اور جب فرمایا : بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے تو پتا چلا کہ یہ کوثر نہ نبوت کا تقاضا ہے نہ رسالت کا تقاضا ہے، یہ کوثر تو صرف آپ کی ذات کات قاضا ہے۔
(٥) عربی میں ” اعطائ “ اور ” ایتائ “ دونوں کا معنی دینا اور نوازنا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں پر ” اعطائ “ کا لفظ فرمایا ” ایتائ “ کا لفظ نہیں فرمایا کیونکہ ” اعطائ “ کا متبادرمعنی ہے : محض اپنے فضل سے دینا، نیز ” اعطائ “ کا معنی ہے، کسی چیز کا مال کبنا دینا اور ” ایتائ “ سے یہ متابدر نہیں ہوتا، پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو کوثر کا مالک بنادیا ہے، آپ جس کو چاہیں اس کو کوثر میں سے دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں، اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان کو ملک عظیم عطا کیا تو فرمایا :
(ص ٣٩) یہ ہماری عطا ہے ، اب آپ کسی پر احسان کر کے اس کو دے دیں یا روک کر رکھیں۔
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر عطا کی تو آپ کو اس کا مالک بنادیا، چاہے آپ کسی کو دیں یا نہ دیں ۔

لفظ ” کوثر “ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال : ⬇

(١) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :” الکوثر “ جنت میں نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس میں موتی اور یاقوت جاری ہیں، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ (سنن ترمذیرقم الحدیث : ٣٣٦١ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے)
(٢) کوثر سے مراد حوض ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرت یہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ کو اونگھ آگئی ، آپ نے مسکراتے ہوئے سربلند کیا اور فرمایا : ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے پڑھا :” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انا اعطینک الکوثر۔ فضل الربک وانحر۔ ان شائنک ھوالابتر۔ “ پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ عمل ہے، آپ نے فرمایا : یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب عزو جل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں خیر کثیر ہے اور یہ وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت وارد ہوگی، اس کے برتن ستاروں کے عدد کے برابر ہیں، اس پر ان میں سے ایک بندہ وہاں سے نکالا جائے گا، میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ میرا امتی ہے، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا، آپ از خود نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد دین میں کیا نیا کام نکالا تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٠)
اس حدیث سے معترضین یہ استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ” ماکان ومایکون “ کا علم نہیں تھا ورنہ آپ کو از خود معلوم ہوتا کہ یہ شخص آپ کے دین اور آپ کی امت سے نکل چکا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضتر انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ (الوفا ص 810 مطبوعہ مصر 1369 ھ) سو جس شخص نے دین میں نیا کام نکالا اس کا عمل بھی آپ پر پیش کیا گیا تھا، لہٰذا اس حدیث سے آپ کے علم کی نفی نہیں ہوتی، البتہ اس میں آپ کی توجہ کی نفی ہے۔
کوثر سے مراد حوض ہو یا جنت میں نہر، یہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بیان کردہ تفسیر ہے، اس لئے یہ تفسیر تمام اقوال پر راجح اور فائق ہے۔
(٣) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کوثر سے مراد خیر کثیر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر خیر کثیر آپ کو عطا کردی اور اسلام، قرآن، نبوت اور دنیا اور آخرت میں تعریف اور تحسین اور ثناء جمیل خیرات کثیرہ ہیں اور جنت کی سب نعمتیں خیر کثیر ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٤٩٦٦،چشتی)
(٤) عکرمہ نے کہا : کوثر سے مراد نبوت اور کتاب ہے۔
(٥) حسن بصری نے کہا : کوثر سے مراد قرآن ہے۔
(٦) المغیرہ نے کہا : کوثر سے مراد اسلام ہے۔
(٧) الحسین بن الفضل نے کہا : کوثر سے مراد قرآن کو آسان کرنا اور احکام شرعیہ میں تخفیف ہے۔
(٨) ابوبکر بن عیاش نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے اصحاب آپ کی امت اور آپ کے متبعین کی کثرت ہے۔
(٩) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١٠) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١١) ” الکوثر “ سے مراد آپ کے دل کا وہ نور ہے، جس نے آپ کو اللہ کے ماسوا سے سے منقطع کردیا۔
(١٢) کوثر سے مراد شفاعت ہے۔
(١٣) الثعلبی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے معجزات ہیں، جن سے آپ کی امت کو ہدایت حاصل ہوئی۔
(١٤) بلال بن یساف نے کہا : کوثر سے مراد ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ ہے اور ایک قول ہے : کوثر سے مراد دین کی فقہ ہے اور ایک قول ہے : پانچ نمازیں ہیں۔
ان اقوال میں سے صحیح ترین قول اول اور ثانی ہے یعنی کوثر سے مراد جنت میں ایک نہر ہے یا حوض ہے، جو محشر میں قائم ہوگا کیونکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢٠ ص ١٩٤، دارالفکر، بیروت ١٤١٥ ھ)
حوض کوثر کے متعلق یہ ایمان افروز حدیث ہے : حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ باہر نکلے تو آپ نے شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی، پھر آپ منبر پر گئے، پس فرمایا : میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا، اور بیشک اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کو اب بھی ضرور دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور بیشک اللہ کی قسم ! مجھے تم پر یہ خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم (سب) مشرک ہو جاٶ گے لیکن مجھے تم سے یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1344-6590)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٣)(مسند حمد جلد ٤ صفحہ ١٤٨،چشتی)

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ : تو تم اپنے رب کےلیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔ یعنی اے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دونوں جہاں کی بے شمار بھلائیاں عطا کی ہیں اور آپ کو وہ خاص رتبہ عطا کیا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کیا ، تو آپ اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے نماز پڑھتے رہیں جس نے آپ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ، کوثر عطا کر کے عزت و شرافت دی تاکہ بتوں کے پجاری ذلیل ہوں اور بتوں کے نام پر ذبح کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے اوراس کے نام پر قربانی کریں ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے نمازِ عید مراد ہے ۔ (تفسیر مدارک الکوثر الآیۃ: ۲، ص۱۳۷۸)(تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۶-۴۱۷،چشتی)

تکبیر تحریمہ کے بعد رفع یدین کے متعلق ضعیف روایات : ⬇

اللہ تعالیٰ نے آپ کو، کوثر ایسی عظیم نعمت عطا کی ہے تو آپ اس کا شکر ادا کرنے کےلیے ہمیشہ نماز پڑھتے رہیں اور قربانی ادا کرتے رہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ہے کہ وہ آپ کو اس قدر خوش حال کر دے گا کہ آپ قربانی کرتے رہیں گے۔
ایک قول یہ ہے کہ نماز سے مراد عید کی نماز ہے اور ’ دوانحر “ سے مراد عید الاضحیٰ کے دن قربانی کرنا ہے۔
مجاہد، طعاء اور عکرمہ سے روایت ہے کہ نماز سے مراد مزدلفہ میں صبح کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد منی میں قربانی کرنا ہے۔ 
ابوالاحوص سے روایت ہے کہ اونٹ کو نحر کرتے وقت آپ قبلہ کی طرف منہ کریں۔
امام ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ اور امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ سورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل سے فرمایا : یہ کون سا نحیرہ ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے تو حضرت جبریل نے کہا، یہ نحیرہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو یہ حکم دیتا ہیغ کہ جب آپ نماز کی تکبیر تحریمہ پڑھیں تو رفع یدین کریں اور جب رکوع کریں تو رفع یدین کریں اور جب رکوع سے سر اٹھائیں تو رفع یدین کریں کیونکہ یہی ہماری نماز ہے اور آسمانوں کے فرشتوں کی نماز ہے اور ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع یدین ہے ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٤٧٠ المستدرک ج ٢ ص ٥٣٨ ذہبی نے کہا، اس کی سند میں اسرائیل غیر معتمد ہے اور امام نسائی کے نزدیک متروک ہے ۔
حاکم نے ” مستدرک “ میں دار قطنی نے ” الافراد “ میں حضرت امیر کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا ہے، اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، پھر نماز میں اپنے ہاتھوں کو اپنے سینہ پر رکھیں ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٥٣٧ حافظ ذہبی نے اس سے سکوت کیا ہے ۔
حافظ جلال الدین سیوطی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پہلی روایت کے متعلق کہا ہے : اس کو امام ابن ابی حاتم نے اور حاکم نے ” مستدرک “ میں سند ضعیف سے روایت کیا ہے اور ابن کثیرنی اس حدیث کے متعلق کہا : یہ شدید منکر ہے بلکہ امام دین جوزی نے اس کو موضوعات میں درج کیا ہے اور حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کی دوسری حدیث کے متعلق حافظ جلال الدین سیوطی نے کہا : اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم حاکم نے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترک رفع یدین اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر دلائل شرح صحیح مسلم، جلد اول میں ملاحظہ فرمائیں۔
اور زیادہ مشہور یہ ہے کہ ” نحر “ کا لفظ اونٹوں کو نحر کرنے میں استعمال ہوتا ہے، نہ کہ ان معانی میں اور قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد زکاۃ کا ذکر کیا جاتا ہے اور قربانی کرنا اور اونٹوں کو نحر کرنا زکاۃ کے معنی کے قریب ہے، بہ خلاف ان مذکورہ معانی کے علاوہ ازیں مکہ کے مشرکین بتوں کے آگے سجدہ رکتے تھے اور ان کے لئے اونٹوں کو نحر کرتے تھے تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس آیت کو اس پر محمول کیا جائے کہ آپ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر نماز پڑھیں اور اس کی رضا کے لئے قربانی کریں۔ (روح المعانی جز ٣٠ ص ٤٤٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
الکوثر : ٣ میں فرمایا : بےآپ کا دشمن ہی بےنسل ہے۔ 
” شانی “ اور ” ابتر “ کے معنی 
اس آیت میں ” شانی “ اور ” ابتر “ کے دو لفظ ہیں، علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
’ دشنا “ کا معنی ہے : کسی شخص سے بغض کی بناء پر اس کو ناپسند کرنا، قرآن مجید میں ہے : شنان قوم “ (المائدہ : ٨) کسی قوم کی دمشنی اور اس سے بغض ” شانئک “ کا معنی ہے : آپ سے بغض رکھنے والا آپ کا دشمن۔ (المفردات ج ١ ص 352)
” ابتر “ کا لفظ ” بتر “ سے بنا ہے، اس کا معنی ہے : جس کی جڑ کٹی ہوئی ہو، پھر اس کا اسعتمال اس شخص کے لئے ہونے لگا، جس کے بعد اس کی نسل جاری نہ ہو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کام سے پہلے اللہ کا ذکر نہ کیا جائے وہ ” ابتر “ ہے یعنی ناتمام اور نامکمل ہے ۔ (تلخیص الحبیرج ۃ ص 76) قرآن مجید میں ہے :” ان شانئک ھوالابتر۔ “ (الکوثر : ٣) یعنی جس کا ذکر اس کے بعد نہ چلے، اس کی وجہ یہ تھی کہ کفار کا زعم تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر منقطع ہوجائے گا، جب آپ کی عمر خت مہو جائے گی کیونکہ آپ کی نسل منقطع ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا : جس کا ذکر منقطع ہوگا، وہ آپ کا دشمن ہے اور رہے آپ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورفعنالک ذکر۔ (الانشراح : ٤) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کردیا۔ 
کیونکہ آپ تمام مئومنین کے بہ منزلہ باپ ہیں اور تمام مئومنین حکماً آپ کی اولاد ہیں، اللہ عزوجل نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٤٦ )
الکوثر : ٣ کا شان نزول 
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کے شان نزول میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : جس شخص نے آپ کو ابتر کہا تھا، وہ العاص بن وائل السہمی تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٩٥٥٣ )
ابن زید نے کہا، وہ شخص یہ کہتا تھا کہ (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جڑ کٹ گئی اور ان کی نسل آگے نہیں چلے گی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٩٥٥٨ )
شمر بن عطیہ بیان کرتے ہیں کہ عقبہ بن ابی معیط یہ کہتا تھا کہ (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسل باقی نہیں رہے گی اور وہ ابتر ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٩٥٥٩ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب کعب بن اشرف مدینہ آیا تو قریش اس کے پاس گئے اور کہا : ہم حرم کا انتظام اور حفاظت کرنے والے ہیں اور زمزم کے پانی پلانے والے ہیں اور تم اہل مدینہ کے سردار ہو، یہ بتائو کہ ہم بہتر ہیں یا یہ شخص جو اپنی قوم سے کٹ چکا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہم سے افضل ہے ؟ کعب بن اشرف نے کہا، بلکہ تم اس سے افضل ہو، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٩٥٦٢ )
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩٩١ ھ لکھتے ہیں : امام حمد بن سعد اور امام ابن عسا کرنے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت قاسم تھے، پھر حضرت زینب تھیں، پھر حضرت عبداللہ تھے، پھر حضر ام کلثوم تھیں، پھر حضرت افطمہ تھیں، پھر حضرت رقیہ تھیں، پس حضرت قاسم (رض) فوت ہوگئے اور وہ مکہ میں سب سے پہلے آپ کی اولاد میں سے فوت ہونے والے تھے، پھر حضرت عبداللہ (رض) فوت ہوگئے، اس وقت العاص بن وائل السہبی نے کہا، ان کی نسل منقطع ہوگئی اور یہ ابتر (جڑ کٹے) ہیں، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :” ان شانئک ھوالابتر۔ “ (اکلوثر : ٣) ۔ (الدرالمنثور ج ٨ ص ٥٩٥ داراحیاء التراث العربی، بیروت) (الطبقات الکبریٰ ج ١ ص 106، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ تاریخ دمشق الکبیرج ٣ ص 69 داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ،چشتی)
امام بیہقی نے ” دلائل النبوۃ “ میں محمد بن علی سے روایت کیا ہے، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیٹے حضرت قاسم (رض) اتنی عمر کو پہنچ گئے کہ وہ سواری پر سوار ہو سکیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا، اس وقت عاص بن وائل نے کہا : (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آج صبح ابتر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے سورة الکوثر نازل فرمائی ۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص 289، الدرالمنثور ج ٨ ص 595)
امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ ابوجہل نے آپ کو ابتر کہا تھا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٩٥١٦، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
شمر بن عطیہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط یہ کہتا تھا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ جڑ کٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :” ان شانئک ھوالابتر۔ “ (الکوثر : ٣) (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٩٥١٧ مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ جب آپ کے صاحبزادے حضرت قاسم (رض) فوت ہوئے تو العاص بن وائل، ابوجہل، عقبہ بن ابی معیط اور کعب بن اشرف تمام دشمنان مصطفیٰ نے آپ کو ابتر (مقطوع النسل) کہا، جب کسی شخص کا بیٹا فوت ہوجائے تو اس کے ہم وطن اور رشتہ دار اس کی تعزیت کرتے ہیں اور اس کو تسلی دیتے ہیں، یہ کیسے ہم وطن اور شرتہ دار تھے، جو ایسے رنج و غم کے موقع پر آپ کو تسلی دینے کے بجائے آپ کو عطنے دے رہے تھے اور آپ کو ابتر کہہ رہے تھے، اس جاں کا وہ وقت میں آپ کو صرف رب ذوالجال نے تسلی دی اور فرمایا : بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔ سو آپ اپنے رب کی رضا کے لئے نماز پڑھتے رہیے اور قربانی کرتے رہیں۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بےنسل ہے۔ (الکوثر : ٣-١)
اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے مدافعت فرمانا : کفار نے جب آپ کو طعنہ دیا کہ آپ ابتر ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے بالواسطہ مدافعت کی اور فرمایا : بیشک آپ کا دشمن ہی ابتر (مقطوع النسل) ہے اور یہی محبین کا طریقہ ہے کہ جب ان کے محبوب کو کوئی عطنہ دے تو وہ اپنے محبوب کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور یہاں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا اور اس کی قرآن مجید میں اور بھی کئی مثالیں ہیں، جب کفار نے آپ کی شان میں یہ بدگوئی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا :
(سبائ : ٨-٧) اور کفار نے کہا : آئو ہم تمہیں ایسا شخص بتائیں، جو تمہیں یہ خبر دے رہعا ہے کہ جب تم پورے پورے ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو پھر تمہاری ضرور نئی تخلیق کی جائے گی۔ اس نے یا تو اللہ پر جھوٹا بہتان لگایا ہے یا یہ دیوانہ ہے۔
جب کفار نے آپ کو جھوٹا اور دیوانہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً آپ کی مدافعت کی اور فرمایا :
(سبا : ٨) بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہے، وہ عذاب میں اور دور کی گم راہی میں ہیں۔ 
اسی طرح جب ولید بن مغیرہ نے آپ کو دیوانہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مدافعت میں فرمایا :
(اقلم : ٢) آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔ اور القلم : ١٣-٨) میں ولید بن مغیرہ کی مذمت میں اس کے نو عیوب بیان فرمائے اور نواں عیب یہ بیان کیا کہ وہ بد اصل ہے۔
اسی طرح منکرین نے آپ کے متعلق کہا :
لست مرسلاً (الرعد : ٤٣) آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت میں فرمایا :
(یٰسین : ٣-١) یٰسین۔ قرآن حیم کی قسم۔ بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ 
(الصفت : ٣٦) کیا ہم شاعر دیوانے کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں۔
(الصفت : ٣٧) (نہیں نہیں) بلکہ وہ تو سچا دین لے کر آئے ہیں اور انہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی۔ پھر آپ کے دشمنوں کو وعید سنائی ،
(الصفت : ٣٨) بیشک تم ضرور درد ناک عذاب کو چکھنے والے ہو۔ اسی طرح کفار کے اس قول کو نقل فرمایا :
(الفرقان : ٧) اس رسول کو کیا ہوا کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے۔ تو اللہ نے ان کے رد میں فرمایا :
(الفرقان : ٢٠) ہم نے آپ سے پہلے جن رسولوں کو بھی بھیجا وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے۔
جب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنی قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور فرمایا : اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے گھوڑ سواروں کا ایک لشکر ہے، جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟ سب نے کہا، کیوں نہیں ! ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا، آپ نے فرمایا : تب میں تم کو یہ خبر دیتا ہوں کہ اگر تم اسی طرح اللہ کے ساتھ شرک کرتے رہے تو تم پر بڑا عذاب آئے گا، یہ سن کو ابولہب نے کہا :” تبالک “ تمہارے لئے ہلاکت ہو، کیا تم نے اس لئے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ جب ابولہب نے آپ سے کہا :” تبالک “ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت اور ابولہب کی مذمت میں پوری سورت نازل فرما دی :
(اللہب : ٥-١) ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے۔ اسے اس کے مال اور اس کی کمائی نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ وہ عنقریب زبردست شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔ اور اس کی بیوی (بھی) ، لکڑیوں کا گھٹا اٹھانے والی۔ اس کی گردن میں درخت کی چھال کی بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ 
انبیاء سابقین کا خود اپنی مدافعت کرنا 
پہلے نبیوں کی شان میں اگر کافر کوئی ناگفتنی بات کہتا تو وہ خود اپنی مدافعت کرتے تھے۔ 
حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق ان کی ناگفتنی بات کو اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا : (الاعراف : ٦٠) حضرت نوح کی قوم کے سرداروں نے کہا، بیشک ہم تم کو ضرور کھلی ہوئی گم راہی میں دیکھتے ہیں۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے خود اپنی مدافعت فرمائی۔(الاعراف : ٦٠) حضرت نوح نے کہا : اے میری قوم ! مجھ میں کوئی گم راہی نہیں ہے، لیکن میں رب العلمین کی طرف سے رسول ہوں۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے متعلق بدگوئی کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا : (الاعراف : ٦١) حضرت نوح نے کہا، اے میری قوم ! مجھ میں کوئی گم راہی نہیں ہے، لیکن میں رب العلمیٰ کی طر سے رسول ہوں۔ 
حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے متعلق بدگوئی کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا :
(الاعراف : ٦٦) حضرت ھود کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا : بیشک ہم تم کو بےوقوفی میں دیکھتے ہیں اور بیشک ہم تم کو ضرور جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ 
تب حضرت ھود نے ازخود اپنی مدافعت فرمائی : (الاعراف : ٦٧) حضرت ھود نے کہا، اے میری قوم ! مجھ میں کوئی کم عقلی نہیں ہے لیکن میں رب العلمین کی طرف سے رسول ہوں۔ 
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام محبوبیت 
یہ تو انبیاء سابقین تھے، لیکن جب محبوب رب العلمین کو مبعوث فرمایا اور کفار نے آپ کی شان میں بدگوئی کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ خود اپنی مدافعت فرمائیں بلکہ جیسے ہی کسی نے آپ کی شان کے خلاف کوئی بات کہی تو اللہ تعالیٰ نے فوراً کا رد فرمایا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے چند دن آپ پر وحی نازل نہیں فرمایء تو کافروں نے کہا، (سیدنا) محمد کو اس کے رب نے چھوڑ دیا اور اس سے بےزار ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں فوراً سورة الضحیٰ نازل ہوئی جس میں یہ آیات ہیں : ⬇
(الضحیٰ : ٣-١) چاشت کے وقت کی قسم ۔ اور رات کی قسم جب وہ پھیل جائے ۔ آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے بےزار ہوا ہے۔ 
اسی طرح جب کافروں نے آپ کو ابتر کہا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت میں پوری سورة کوثر نازل فرما دی ۔

اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ : بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے ۔

شانِ نزول : جب نبی کریم صَلَّی  اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے فرزند حضرت قاسم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہوا تو کفار نے آپ کو اَبتر یعنی نسل ختم ہو جانے والا کہا اور یہ کہا کہ اب اُن کی نسل نہیں رہی ،ان کے بعد اب ان کا ذکر بھی نہ رہے گا اوریہ سب چرچا ختم ہوجائے گا اس پر یہ سورۂ  کریمہ نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کفار کا بالغ رد فرمایا اور اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی  اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، بیشک تمہارا دشمن ہی ہر بھلائی سے محروم ہے نہ کہ آپ ، کیونکہ آپ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، آپ کی اولاد میں بھی کثرت ہوگی اور آپ کی پیروی کرنے والوں سے دنیا بھر جائے گی ، آپ کا ذکر منبروں پر بلند ہوگا ، قیامت تک پیدا ہونے والے عالِم اور واعظ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے رہیں گے اور آخرت میں آپ کےلیے وہ کچھ ہے جس کا کوئی وصف بیان ہی نہیں کر سکتا تو جس کی یہ شان ہے وہ اَبتر کہاں ہوا ، بے نام و نشان اور ہر بھلائی سے محروم تو آپ کے دشمن ہیں ۔ (تفسیر مدارک الکوثر الآیۃ: ۳، ص۱۳۷۸،چشتی)(تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۱۷)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ اس سورت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عاص بن وائل شقی نے جو صاحبزادہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے انتقالِ پُر ملال پر حضور کو اَبتر یعنی نسل بُریدہ کہا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : ’’اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ بیشک ہم نے تمہیں خیرِ کثیر عطا فرمائی ۔ کہ اولاد سے نام چلنے کو تمہاری رفعت ِذکر سے کیا نسبت ، کروڑوں صاحبِ اولاد گزرے جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا ، اور تمہاری ثنا کا ڈنکا تو قیامِ قیامت تک اَکنافِ عالَم و اطرافِ جہاں میں بجے گا اور تمہارے نامِ نامی کا خطبہ ہمیشہ ہمیشہ اَطباقِ فلک آفاقِ زمین میں پڑھا جائے گا ۔ پھر اولاد بھی تمہیں وہ نفیس و طیب عطا ہوگی جن کی بقاء سے بقائے عالَم مَربوط رہے گی اس کے سوا تمام مسلمان تمہارے بال بچے ہیں اور تم سا مہربان ان کے لیے کوئی نہیں ، بلکہ حقیقتِ کار کو نظر کیجیے تو تمام عالَم تمہاری اولادِ معنوی ہے کہ تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ، اور تمہارے ہی نور سے سب کی آفرینش ہوئی ۔ اسی لیے جب ابو البشر آدم تمھیں یاد کرتے تو یوں کہتے : ’’یَا اِبْنِیْ صُوْرَۃً وَاَبَایَ مَعْنًی‘‘ اے ظاہر میں میرے بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ ۔ پھر آخرت میں جو تمہیں ملنا ہے اس کا حال تو خدا ہی جانے ۔جب اس کی یہ عنایت ِبے غایت تم پر مبذول ہو تو تم ان اَشقیاء کی زبان درازی پر کیوں ملول ہو بلکہ ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ‘‘ رب کے شکرانہ میں اس کےلیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔ ’’اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘‘ جو تمہارا دشمن ہے وہی نسل بریدہ ہے کہ جن بیٹوں پر اُسے ناز ہے یعنی عمرو و ہشام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وہی اُس کے دشمن ہو جائیں گے اور تمہارے دین ِحق میں آکر بوجۂ اختلافِ دین اس کی نسل سے جدا ہو کر تمہارے دینی بیٹوں میں شمار کیے جائیں  گے ۔ پھر آدمی بے نسل ہوتا تو یہی سہی کہ نام نہ چلتا ۔ اس سے نامِ بد کا باقی رہنا ہزار درجہ بدتر ہے ۔ تمہارے دشمن کا ناپاک نا م ہمیشہ بدی ونفرین کے ساتھ لیا جائے گا ، اور روزِ قیامت ان گستاخیوں کی پوری سزا پائے گا ۔ وَ الْعِیَاذُ بِاللّٰہ تعالٰی ۔ (فتاویٰ رضویہ ، ۳۰ / ۱۶۷-۱۶۸)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام اتنا بلند ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے گستاخ کو اس کی گستاخی کا جواب خود رب تعالیٰ دیتا ہے ۔ (مزید حصہ نمبر 33 میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔