خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 28
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذکر و نعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور قرآن کریم : ﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جب بھی روئے خطاب ہوا تونام لینے کی بجائے کبھی يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہا اور کبھی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ اور کبھی یٰسین کے لقب سے پکارا ۔ اِسی طرح کلامِ مجید میں کہیں وَالضُّحَى کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رُخِ اَنور کی قسم اٹھائی اور کہیں وَاللَّيْلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم اٹھائی ۔ ہمہ قرآن دَر شانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مصداق پورا قرآن حکیم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدح اور نعت ہی تو ہے ۔ اِس کے پیرایۂ اِظہار میں نعت ہی کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ قرآن حکیم کی درج ذیل آیات سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شرف و فضیلت اور رِفعت و عظمت کا پہلو اُجاگر ہو رہا ہے جب کہ نعت کا موضوع بھی یہی قرار پاتا ہے ۔ اگر کوئی اِعتراض کرے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعت پڑھنا اور سننا (معاذ ﷲ) ناجائز ہے تو یہ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیے گئے مضمون کے اِنکار کے مترادف ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرحِ صدر، رفعِ بارِ غم اور رِفعتِ ذکر کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے : وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ ۔
ترجمہ : اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا ۔(پ30، الم نشرح:4)
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمُار فضائل و خصائص سے نوازا۔ اُن میں ایک فضیلت حضور سیّدُالمرسلین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذِکر ِ مبارَک کی بلندی ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی ہے۔ رحمت ِ دوعالم، نورِ مجسّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل علیہ السَّلام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بُلندی یہ ہے کہ جب میرا ذِکْر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔ اورحضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ”اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ“ کے ساتھ ”اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ“پکارتاہے۔(تفسیر بغوی، پ30، الم نشرح:4، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 469)،چشتی)(تاویلات اہل السنہ، پارہ نمبر 30 سورہ الم نشرح : 4 ،ج5،ص489)
اِس رفعت ِ ذکر کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے چند بیان کی جاتی ہیں:رفعتِ ذکر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا،اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان نہ لے آئے ، یونہی آپ کے راستے سے ہٹ کر چلنے والے کی اطاعت بھی بارگاہِ خداوندی میں مقبول نہیں کہ اب وہی اطاعت، اطاعتِ الٰہی کہلانے کی مستحق ہے جو اطاعتِ رسول کی صورت میں ہو جیسا کہ فرمایا:(مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ) جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔( پ5،النساء:80) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اورسرور عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں ۔ اِرشاد فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO ۔ (الأحزاب، 33 : 56)
ترجمہ : بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے بارے میں فرمایا : وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔
ترجمہ : اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اِس لیے کہ ﷲ کے حکم سے اُس کی اِطاعت کی جائے، اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ﷲ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور ﷲ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ۔ (سورہ النساء، 4 : 64)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنی اِطاعت قرار دیا : مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاO ۔
ترجمہ : جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بے شک اُس نے ﷲ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے رُوگردانی کی تو ہم نے آپ کو اُن پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo ۔ (سورہ النساء، 4 : 80) ۔ (چشتی)
تورات و انجیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرئہ اَوصاف کے ضمن میں فرمایا : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO ۔
ترجمہ : (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اﷲ لوگوں کو اَخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اَوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اُس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (سورہ الأعراف، 7 : 157)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِسالتِ عامہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا : قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔
ترجمہ : آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ۔ (الأعراف، 7 : 158)
معرکۂ بدر میں کفار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى ۔
ترجمہ : اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) ﷲ نے مارے تھے ۔ (سورہ الانفال، 8 : 17)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنی اُمت پر رؤوف و رحیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کےلیے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (سورہ التوبه، 9 : 128)
اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی یوں قسم اٹھاتا ہے : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ۔ (الحجر، 15 : 72)
ترجمہ : (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمر مبارک کی قسم! بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں ۔
ﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشقت میں پڑنا گراں گزرا تو فرمایا : طه ۔ مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى ۔
ترجمہ : طٰہٰ (اے محبوبِ مکرّم!) ۔ ہم نے آپ پر قرآن (اِس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں ۔ (سورہ طٰهٰ، 20 : 1، 2)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمۃً للعالمینی کو درج ذیل آیت میں بیان فرمایا : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔
ترجمہ : اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر ۔ (سورہ الأنبياء، 21 : 107)
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اَمرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا ۔ (سورہ النور، 24 : 63)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ایمان والوں کی جانوں سے زیادہ قریب قرار دیتے ہوئے فرمایا : النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
ترجمہ : یہ نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اَزواجِ (مطہرات) ان کی مائیں ہیں ۔ (سورہ الأحزاب، 33 : 6)
اللہ تعالیٰ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاہد، مبشر، نذیر، داعی اور سراجِ منیر بنا کر بھیجا۔ اِرشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۔ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ۔ (سورہ الأحزاب، 33 : 45، 46)
ترجمہ : اے نبی (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اُس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے) ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِن بے مثال شانوں کو ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۔ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اَعمال و اَحوالِ اُمت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تاکہ (اے لوگو!) تم ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) ﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو ۔ (الفتح، 48 : 8، 9)
ایک مقام پر ﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بہ طریقِ نعت یوں بیان فرمائی : يس ۔ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ ۔ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۔
ترجمہ : یاسین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) ۔ حکمت سے معمور قرآن کی قَسم ۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں ۔ (سورہ يٰسين، 36 : 1 - 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیتے ہوئے فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ۔
ترجمہ : اے (حبیب !) بے شک جو لو گ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے، پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اُس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عن قریب اسے بہت بڑا اَجر عطا فرمائے گا ۔ (سورہ الفتح، 48 : 10)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اونچی آواز کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسروں کی مثل پکارنے پر اَعمال کے ضائع ہو جانے کی وعید سناتے ہوئے فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۔ (سورہ الحجرات، 49 : 2)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیء مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے پست آواز رکھنے کو تقویٰ کا معیار قرار دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ۔
ترجمہ : بے شک جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (اَدب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو ﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے، ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اَجرِ عظیم ہے ۔ (سورہ الحجرات ، 49 : 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعۂ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ۔
ترجمہ : وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ (سورہ بني اسرائيل، 17 : 1)
سورۃ النجم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعہ معراج کو تفصیلاً نہایت ہی حسین پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىO مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىO وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىO ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىO وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىO ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىO وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىO عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىO إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىO ۔ (النجم، 53 : 1 - 18)
ترجمہ : قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اُترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا اِرشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو اُنہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھاo اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o سِدرۃ المنتہیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت الماویٰ ہےo جب نورِ حق کی تجليّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلقِ عظیم کو یوں بیان فرمایا : وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ۔
ترجمہ : اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزيّن اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں) (القلم، 68 : 4)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا : لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ۔
ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قسم اٹھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم یا اِبراہیم علیہما السلام) کی قسم اور (اُن کی) قسم جن کی ولادت ہوئی (سورہ البلد، 90 : 1 - 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسموں اور چند دیگر خصائل کا تذکرہ یوں فرمایا : وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىO وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىO أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىO وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىO وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىO فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْO وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ اَنور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کردیا)o اور (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا او رنہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت ) ہےo اور آپ کا رب عن قریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیاo اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی دید کی لذت سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیاo سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے دَر کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں ۔ (الضحي، 93 : 1 - 11)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیرِ کثیر عطا کیے جانے کا ذکر یوں فرمایا : إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ۔ (الکوثر، 108 : 1 - 3)
ترجمہ : بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکر ہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا ۔
رفعتِ ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بھی ہے کہ ذکر ِ خدا کے ساتھ ذکرِ مصطفیٰ کیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اَذان میں،اِقامت میں،نماز میں،تشہّد میں ،خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکرشامل کردیا ہے۔اس حوالے سے صرف چند آیاتِ قرآنی ملاحظہ فرمائیں : ٭آپ سے جنگ خدا سے جنگ ہے(بقرہ: 278 ،279) ٭ آپ کی اطاعت خُدا کی اطاعت ہے(النساء:80) ٭ آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے(النساء: 14) ٭ آپ کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے(انفال:13) ٭آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(النساء:61) ٭ آپ کی طرف ہجرت خدا کی طرف ہجرت ہے(النساء:100) ٭آپ پر ایمان لانا خدا پر ایمان لانے کی طرح ضَروری ہے(النساء:136) ٭ آپ سے مقابلہ خدا سے مقابلہ ہے(مائدہ:33) ٭ آپ سے دوستی خدا سے دوستی ہے(مائدہ:56) ٭ آپ سے منہ پھیرنا خدا سے منہ پھیرنا ہے(انفال:20) ٭ آپ کے بلانے پر حاضِر ہونا خدا کے بلانے پر حاضر ہونا ہے یا بالفاظِ دیگر آپ کا بلاوا خدا کا بلاوا ہے(انفال:24) ٭ آپ سے خیانت خداسے خیانت ہے(انفال:27) ٭ آپ کی طرف سے کسی شے سے بَراءَت کا اظہار خدا کی طرف سے بَراءت کا اظہار ہے(توبہ:1) ٭ آپ سے معاہدہ خدا سے معاہدہ ہے(توبہ:7) ٭ آپ کی محبت خدا کی محبت ہے(توبہ:24) ٭ آپ کا کسی شے کو حرام قرار دینا خدا کا حرام قرار دینا ہے(توبہ:29) ٭ آپ سے کُفر کرنا خدا سے کفر کرنا ہے(توبہ:54) ٭ آپ کی عطا خدا کی عطا ہے اور آپ کا فضل و کرم خدا کا فضل و کرم ہے(توبہ:59) ٭ آپ کی رضا خدا کی رضا ہے اور آپ کو راضی کرنا خُدا کو راضی کرنا ہے(توبہ:62) ٭ آپ کا کسی کو مال دینا، غنی کرنا خدا کا غنی کرنا ہے(توبہ:74) ٭ آپ سے جُھوٹ بولنا خدا کی بارگاہ میں جھوٹ بولنا ہے(توبہ:90) ٭ آپ کی خیر خواہی خدا کی خیر خواہی ہے(توبہ:91) ٭ آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(نور:48) ٭ آپ کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے(احزاب:22) ٭ آپ کی رضا چاہنا خدا کی رضا چاہنا ہے(احزاب:29) ٭ آپ کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہے (احزاب:36) ٭ آپ کوایذا خدا کوایذا ہے(احزاب:57) ٭ آپ پر پیش قدمی خدا پر پیش قدمی ہے(حجرات:1) ٭ آپ کی مدد خدا کی مدد ہے۔ (سورہ حشر:08)
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کہ حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
بخدا خدا کا یہی ہے در ، نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں
ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رفعت پر یہ اُمور بھی دلالت کرتے ہیں:٭آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر زمین پر بھی ہے اور آسمانوں پر بھی ٭آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر انسان بھی کرتے ہیں، فرشتے بھی، جنّات بھی اور دیگر مخلوقات بھی ٭آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر پتّھروں نے بھی کیا اور درختوں نے بھی ٭دنیا کے ہر کونے میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکر کرنے والے موجود ہیں۔چنانچہ دنیا کے ایک کنارے سے فَجْر کی اَذانیں شُروع ہوتی ہیں اوردنیا کے آخری کنارے تک دی جاتی ہیں اور ابھی اگلی جگہوں پر فجر کی اَذان نہیں ہوتی کہ پہلی جگہ ظہر کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور ہر اذان میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اور رسالت کی گواہی پڑھی جاتی ہے اور یوں دنیا کا کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں جہاں ہر وَقْت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ مبارک نہ لیا جارہا ہو۔ یہی حال قرآنِ مجید کی تلاوت کا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر وقت تلاوتِ قرآن جاری رہتی ہے اور لاکھوں مسلمان ہروقت تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں اور قرآن ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معمور ہے تو ہر وقت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر تلاوتِ قرآن کی صورت میں بھی جاری ہے۔ درود ِ پاک کی صورت میں ذکر ِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان تو یہ ہے کہ ہر آن، ہر لمحہ دنیا میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دُرود و سلام پڑھا جارہا ہے اور اگر درود پڑھنے والا کوئی انسان نہ بھی ہو تو فرشتے تو ہر آن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پڑھ رہے ہیں اور یہ فرشتے زمین کی گہرائیوں سے لے کر عرش کی بُلندیوں تک موجود ہیں اور معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے ۔ (چشتی)
فرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ ، عرش پہ طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگا ئیے تیری ہی داستان ہے
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ مبارَک عرش وکرسی پر لکھا ہوا ہے، سِدْرَۃُ المُنتہیٰ اور جنّتی درختوں کے پتّوں پر نقش ہے، جنّت کے محلّات پر کندہ ہے ۔ تمام انبیا و رسول علیہم الصلوٰۃ والسلام آپ کا ذکر کرتے رہے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کا اپنی اپنی امّت سے وعدہ لیتے رہے۔ہر آسمانی کتاب میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر موجود ہے ۔ سوانح نگاری کی دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر لکھی گئیں ، بیانِ فضائل میں دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل کے متعلّق تحریر کی گئیں ۔ نظم کی صورت میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ کلام یعنی نعتیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لکھی گئیں ۔ سب سے زیادہ زَبانوں میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ (مزید حصّہ نمبر 29 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment