Tuesday 11 October 2022

خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 30

0 comments
خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 30
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ کی خوشی میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے گلیوں اور بازاروں میں چراغاں کرنا اور سجاوٹ کرنا ، نیز گنبدِخضرا ، مسجدِنبوی اور خانۂ کعبہ کی شبیہ بنانا  شرعاً جائز و مستحسن ہے ، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ عزوجل کی رحمت ہیں اور اللہ عزوجل نے اپنی رحمت پر خوشی منانے کاحکم ارشاد فرمایا ہے ۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ عزوجل کی نعمت بھی ہیں اوراللہ عزوجل نے اپنی نعمت کا چرچا کرنے کا حکم قرآنِ کریم میں دیا ہے اور خوشی کرنے کے انداز کا دار و مدار عرف پر ہے ۔ ہمارے زمانہ میں چونکہ خوشی کے موقع  پر (مثلاً : شادی ، سالگرہ اور 14 اگست کے موقعوں پر) لائیٹنگ کی جاتی ہے ، گھروں اور گلیوں وغیرہ کو سجایاجاتاہے ، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جن کے صدقہ تمام نعمتیں ملی ہیں ، اُن کی ولادت کی خوشی میں بھی اگر چراغاں کیا جائے ، تویہ بالکل جائز ہے ۔

قرآن کریم میں ہے : وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔ (پاره 30 سورۃ الضحی،آیت11)

ایک اورمقام پرفرمایا : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کےليے ۔ (پاره 17 سورۃالانبیاء،آیت107)

اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی کرنے کا حکم ہے ۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا  ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔ (پاره 11 سورہ یونس آیت58)

حضرت ابوالعاص کی والدہ بیان کرتی ہیں : شھدت آمنۃ لما ولدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فلما ضربھا المخاض نظرت إلی النجوم تدلی ، حتی إنی أقول لتقعن علی، فلما ولدت ، خرج منھا نور أضاء لہ البیت الذی نحن فیہ والدار، فما شیء أنظر إلیہ ، إلا نور ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے موقع پر میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھی ، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کا وقت قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ ستارے اتنے قریب ہو گئے کہ میں نے کہا کہ ستارے مجھ پر گر جائیں گے ، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ہوئی تو ایسا نور نکلا جس سے ہمارا کمرہ اور پورا گھر روشن ہو گیا ، پس میں جس چیزکی طرف بھی دیکھتی نور ہی نظر آتا ۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،باب الیاء،أم عثمان بنت ابی العاص جلد 25 صفحہ 147 مطبوعه القاھرہ،چشتی)

حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1367ھ) فرماتے ہیں : روضہ منورہ کی صحیح نقل بنا کر بقصد تبرک رکھنا جائز ہے ۔ جس طرح کاغذ پر اس کا فوٹو بہت سے مسلمان رکھتے ہیں ، یونہی اگر پتھر وغیرہ کی عمارت بنائیں ، تو اس میں اصلاً حرج نہیں ۔ جانور کی تمثال حرام و ناجائز ہے ۔ غیر ذی روح کی تصویر میں کوئی قباحت نہیں ۔ نقشہ نعلین مبارک کو ائمہ و علماء جائز بتاتے اور اس کے مکان میں رکھنے کو سبب برکت جانتے ہیں ۔ شبیہ روضہ کا بھی وہی حکم ہے ۔ (فتاوٰی امجدیہ جلد 4 صفحہ 25 مکتبہ رضویہ ،کراچی)

اور پھر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کی خوشی میں چراغاں کرنے کو اچھا سمجھتے ہیں اورجس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہی ہوتا ہے ، لہذا ولادت پاک کی خوشی میں چراغاں کرنا بھی اچھا ہے۔درمختار میں ہے : للعرف۔وقال علیہ الصلاۃ والسلام :ما رآہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن۔
ترجمہ : (اور حمام کو اجارہ پر دینا جائز ہے) عرف کی وجہ سے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشادفرمایا : جس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ كے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے ۔ (درمختار مع رد المحتار کتاب الاجارہ جلد 6 صفحہ 52 دارالفکر بیروت،چشتی)

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اور رحمت الہٰی کے نزول کا سبب ہے ۔ ایک اور مقام پر فرماتے  ہیں : قرآن کریم  میں ارشاد  ہوا ، رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ۔ اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے کہ رب تعالیٰ نے اس پر احسان جتایا ہے ، اس کا چرچا کرنا اسی آیت پر عمل ہے ۔ آج کسی کے فرزند پیدا ہو تو ہر سال تاریخِ پیدائش پر سالگرہ کا جشن کرتا ہے ۔ کسی کو سلطنت ملی تو ہر سال اس تاریخ پر جشن جلوس مناتا ہے ، تو جس تاریخ کو دنیا میں سب سے بڑی نعمت آئی اس پر خوشی منانا کیوں منع ہو گا ؟ ۔ (جاء الحق صفحہ 221 مکتبہ اسلامیہ لاھور)

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عیدِ میلادُ النَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر جو چراغاں کرنا ہو ، اس میں ڈائریکٹ مین تاروں سے بجلی حاصل نہ کی جائے ، بلکہ اپنے میٹروں سے بجلی لی جائے ۔ اس طرح بجلی لینا عرفاً چوری کہلاتا اور قانوناً جرم بھی ہے ۔ لہٰذا ایسا کرنا ، ناجائز ہے ۔

چراغاں اور سجاوٹ کرنے میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو مال خرچ ہو ، وہ اسراف میں بالکل بھی داخل نہیں ، کیونکہ نیکی کے کاموں میں مال جتنا بھی خرچ کیاجائے ، اس کواسراف نہیں کہا جا سکتا ۔

تفسیر کشاف اور تفسیر مدارک التنزیل میں ہے : لا خیر فی الإسراف ، لا إسراف فی الخیر ۔
ترجمہ : اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں ۔ (تفسیر کشاف سورۃ الفرقان  الآیۃ 67 جلد 3 صفحہ 293 دارالکتاب الاعرابی بیروت)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الررحمہ (متوفی 1340ھ) فرماتے ہیں : علماء فرماتے ہیں : لَاخَیْرَ فِی الْاِسْرَافِ وَلَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْرِ ، یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں ۔ جس شے سے تعظیمِ ذکر شریف مقصود ہو ، ہر گز ممنوع نہیں ہوسکتی ۔ امام غزالی علیہ الرحمہ نے اِحیاءُ العلوم شریف میں سید ابوعلی رود باری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا کہ ایک بندہ  صالح نے مجلسِ ذکر  شریف ترتیب دی اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں ۔ ایک شخص ظاہر بین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے ۔ بانیِ مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جا کر فرمایا کہ جو شمع مَیں نے غیرِ خدا کےلیے روشن کی ہو وہ بجھا دیجیے ۔ کوششیں کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی ۔ (احیاء علوم الدین الباب الاول جلد 2 صفحہ 20 دارالمعرفۃ بیروت)

قرآن و سنت میں میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے سے ان گنت دلائل موجود ہیں ۔ مگر جن کے دلوں پر مہریں لگی ہیں ان منکرین کےلیے لاکھ دلائل بھی کم ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں ابو لہب نے لونڈی کو آزاد کیا ، تو اس کو بھی اس کی وجہ سے فائدہ پہنچا ، یہ مشہور واقعہ ہم مکمل حوالہ جات کے ساتھ عرض چکے ہیں جو کہ بخاری شریف میں اس طرح ہے : جب ابو لہب مر گیا ، تو اس کے بعض گھر والوں نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا ۔ پوچھا گیا کیا گزری ؟ ابو لہب بولا ، تم سے جدا ہو کر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی، ہاں مجھے اس کلمے کی انگلی سے پانی ملتا ہے ، کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 153 مطبوعہ دارالفکر بیروت)

بخاری شریف کی اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں : سب سے پہلے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دودھ پلایا ، وہ ابو لہب کی باندی ثویبہ تھی ، جس شب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، ثویبہ نے ابولہب کو بشارت پہنچائی کہ تمہارے بھائی حضرت عبد اللّٰه کے گھر فرزند پیدا ہوا ہے ، ابو لہب نے اس مژدہ پر اس کو آزاد کرکے حکم دیا کہ جاؤ دودھ پلاؤ ۔ حق تعالیٰ نے اس خوشی و مسرت پر جو ابو لہب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر ظاہر کی ، اس کے عذاب میں کمی کر دی اور دو شنبہ کے دن اس پر سے عذاب اٹھا لیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔ اس حدیث میں میلاد شریف پڑھوانے والوں کےلیے حجت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی رات میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور خوب مال و زر خرچ کریں ۔ مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابولہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن کریم میں نازل ہو چکی ہے ، جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کو دودھ پلانے کی خاطر آزاد کر دیا ، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ 33,34، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز،چشتی)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں : سال میں دو محفلیں کرتا ہوں محفلِ میلاد اور دوسری ذکرِ شہداء اور لنگر بھی ۔ (فتاویٰ عزیزی صفحہ 199 مترجم اردو)

حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی (1054۔ 1131ھ) قطب الدین احمد شاہ ولی اللّٰه محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم دہلوی علیہما الرّحمہ فرماتے ہیں : میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا ، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا ، تو میں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیے ۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خوش و خرم تشریف فرما ہیں ۔ (الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ 40)

برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللّٰه محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے ۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159۔ 1239ھ) خاندان ولی ﷲ کے آفتابِ روشن شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی (1745۔ 1822ء) رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں : اور ماہِ ربیع الاول کی برکت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے ۔
جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے ۔ (فتاوٰي عزیزی جلد 1 صفحہ 163،چشتی)

محدث ابن جوزی رحمة اللّٰه علیہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں : مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر ، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں ۔ (المیلاد النبوی صفحہ 5)

 امام ابن حجر شافعی رحمة اللّٰه علیہ ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں : محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے ۔ (فتاوی حدیثیہ صفحہ 129)

امام جلال الدین سیوطی رحمة اللّٰه علیہ ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں : میرے نزدیک میلاد کےلیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔
جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے ۔ (حسن المقصد فی عمل المولد الہاوی للفتاوی جلد 1 صفحہ 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمة اللّٰه علیہ (م 923ھ) فرماتے ہیں : ربیع الاول میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں ۔
محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے ۔ اللّٰه تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہِ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے ۔ (مواہب الدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 27،چشتی)

میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسلمانوں کے اظہار فرحت و سرور سے عبارت ہے ۔ ماہِ ربیع الاوّل میں یومِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اظہار مسلمان مختلف طریقوں سے کرتے ہیں ۔ اس دن فقراء و مساکین کو صدقہ و خیرات تقسیم کیا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و خصائل اور مختلف معجزات ، کرامات اور واقعات کا ظہور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے وقت ہوا ، کا ذکر مختلف محافل میں کیا جاتا ہے ۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : لَقَدْ مَنَّ ﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے ۔ (سورہ آل عمران ، 3: 164)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت اللہ کی انہی نعمتوں میں سے ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ ﷲِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَهَا ۔
ترجمہ : یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں ۔ (سور النخل ، 16: 83)

اور اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں ۔ (سورہ الضحیٰ ، 93: 11)

پھر ارشاد ہوتاہے : وَاذْکُرُوْا نِعْمَةَ ﷲِ عَلَیْکُمْ ۔
ترجمہ : اور ﷲ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے ۔ (سورہ المائدة ، 5: 7)

مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں نعمت سے مراد بعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے اور بعثت سے پہلے ولادت کا ہونا لازمی امر ہے اس لیے کہ اگر پیدا ہی نہ ہوئے تو بعثت کہاں سے ہوتی ؟ لہٰذا اگر بعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قرآن نعمت فرما رہا ہے تو ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بعثت سے بڑھ کر نعمت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ بِفَضْلِ ﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔
تجمہ : فرما دیجے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں ، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں ۔ (سورہ یونس ، 10: 58)

اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل و رحمت کے حصول پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے ۔ مفسرین کرام کے نزدیک لفظ فضل اور رحمۃ سے مراد ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جب پیر کے روزے کی بابت سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : فِیهِ وُلِدْتُ وَ فِیهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ ۔
ترجمہ : اس دن میں پیدا ہوا اور اس دن قرآن مجھ پر نازل ہوا ۔ (مسلم الصحیح ، 2 : 820 ، رقم : 1162،چشتی)

المختصر یہ کہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ۔ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ کے الفاظ سے قرآن ہمیں خوشی و فرحت کے اظہار کا حکم دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود ان واقعات و کرامات کو بیان بھی کیا ہے جو ان کی ولادت کے موقع پر ظاہر ہوئے تھے اور ان کا ذکر احادیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کی بشارات کتبِ سماویہ میں بھی موجود ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنا بیان اس کی تصریح بھی کرتا ہے : اَنَا دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِیمَ وَبِشَارَةُ عِیسَی وَرُؤْیَا أُمِّيَ الَّتِي رَأَتْ حِیْنَ وَضَعْتْنِي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَائَتْ لَھَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ ۔
ترجمہ : میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ علیہما السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کے خواب ہوں جو انہوں نے مجھے جنتے ہوئے دیکھے کہ ان سے ایک نور خارج ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ۔ (ابن حبان، الصحیح ، 14: 6404)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری جو عیسیٰ علیہ السلام نے دی قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے : وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ۔
ترجمہ : اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ہے ۔ (سورہ الصف، 61: 6)

لہٰذا قرآن پاک و احادیث میں میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اظہار خوشی منانے کے حوالے سے کئی دلائل مذکور ہیں جن کا تفصیلی ذکر ہم سابقہ مضامین میں کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ اور جو لوگ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منانے کو بدعت کہتے ہیں ان کی باتیں جھوٹ و افترا کا پلندہ ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ۔

محفلِ میلاد کی اصل یہ ہے کہ لوگ جمع ہو کر جس قدر ہو سکے قرآن پڑھتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حالات و واقعات اور ولادت کے وقت جو حق کے نشانات ظاہر ہوئے ان کا بیان کرتے ہیں ۔ پھر ان کےلیے قالین بچھائے جاتے ہیں ، وہ کھاتے پیتے اور چلے جاتے ہیں ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے یہ اچھی بدعت ہے جس پر عمل پیرا ہونے والے کو ثواب دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم و تکریم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت و باسعادت پر خوشی و مسرت کا اظہار ہے اور سب سے پہلے محفلِ میلاد منعقد کرنے والا اربل کا بادشاہ ملک مظفر ابوسعید کو کبری علیہ الرحمہ بن ز ید الدین علی بن بکتگین ایک نیک دل سخی بادشاہ تھا ۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں فرمایا ہے کہ وہ ربیع الاول میں عظیمُ الشّان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا ۔ بہت زندہ دل ، بہادر ، جوان ، عقل مند عالم و عادل تھا ۔ اللہ اس پر رحم کرے اور اس کی قبر کو عزت دے ۔ اس باشاہ کےلیے حافظ ابو الخطاب بن دحیہ علیہ الرحمہ نے ایک ضخیم کتاب میلادُ النَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موضوع پر لکھی تھی جس کا نام ،،التنویر في مولد البشیر النذیر،، صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رکھا ۔ اس کے صلہ میں بادشاہ نے شیخ کو ایک ہزار دینار بطور انعام دیے ، اس بادشاہ کا دور حکومت طویل ہے ۔ 630 ھ کو جبکہ اس نے فرنگیوں کے شہر عکا کا محاصرہ کر رکھا تھا اس وقت وفات پائی ۔ سبط ابن الجوزی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’مراۃ الزمان‘‘ میں ایک شخص کا بیان نقل کیا جو المظفر کی منعقد کی گئی ایک محفل میلاد میں شریک تھا کہ اس نے اس محفل میلاد کے موقع پر دستر خوان پر پانچ ہزار سر بھنی ہوئی بکریوں کے اور دس ہزار بھنی ہوئی مرغیاں دیکھیں ۔ کہا کہ اس موقع پر بڑے بڑے علماء و صوفیاء حاضر تھے ، بادشاہ ان کو خلعت دیتا اور صوفیاء کےلیے ظہر سے فجر تک محفلِ سماع کا بندوبست کرتا اور ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا اور ہر سال فرنگیوں کو دو لاکھ دینار ادا کر کے قیدی چھڑواتا ، ہر سال حرمین شریفین اور حجاز مقدس کےلیے آب رسانی کی سکیموں پر تیس ہزار دینار صرف کرتا یہ سب ان صدقات کے علاوہ ہیں جو وہ پوشیدہ دیتا تھا ۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون جو ملک الناصر صلاح الدین کی بہن تھی ، کا بیان ہے کہ بادشاہ کی قمیض ایسی تھی جو پانچ درہم کے برابر بھی نہ تھی ۔ کہتی ہیں میں نے اس پر بادشاہ سے جھگڑا کیا اور ناراض ہوئی تو بادشاہ نے کہا ’’میرا پانچ درہم کا لباس پہننا اور باقی سب کچھ صدقہ کردینا اس سے بہتر ہے کہ میں قیمتی لباس پہنوں اور فقراء و مساکین کو نظر انداز کردوں‘‘ ۔ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہمارے اسلاف کا عمل ہر لحاظ سے ہمارے لیے قابل فخر و تقلید ہے ۔

میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عید کیوں کہا جاتا ہے ؟
بخاری و مسلم اور دیگر کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے : عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْیَهُودِ قَالَ لَهُ:یَا أَمِیرَالْمُؤْمِنِینَ ، آیَةٌ فِي کِتَابِکُمْ تَقْرَؤُنَهَا، لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَهُودِ نَزَلَتْ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیدًا. قَالَ: أَيُّ آیَةٍ؟ قَالَ: {الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِینًا} قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ، وَالْمَکَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِیهِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ یَوْمَ جُمُعَةٍ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا : اے امیر المومنین ! ایک آیت آپ حضرات اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں ، اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے ۔ فرمایا کہ وہ کونسی آیت ہے ؟ کہا : {آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا} ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اس دن کو جانتے ہیں اور اس جگہ کو جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر یہ آیت نازل ہوئی جب کہ آپ جمعہ کے روز عرفات میں مقیم تھے ۔ (بخاري، الصحیح، 1: 45، رقم: 45،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ اس کے نزول کا دن جمعہ اور تاریخ 9 ذی الحجہ (یوم الحج) ہے مقصد یہ کہ ہم اس آیت کی اہمیت اس کے نزول کے دن سے جانتے ہیں اور اس کی خوشی منانے سے غافل نہیں ہیں ۔ ہم تو پہلے سے اس دن کو یوم حج ہونے اور یوم جمعہ ہونے کی وجہ سے یوم عید یعنی خوشی کا دن سمجھتے ہیں گویا ہر جمعہ کو یوم عید قرار دیا گیا ہے اور سال میں تقریباً 52 جمعے ہوتے ہیں اور یوم حج (یوم عرفہ) عید الفطر اور عید الاضحی کو ملا کر تقریباً 55 عیدیں حدیث سے ثابت ہو گئیں ۔ ایک عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ کیا یہ خوشی کا دن نہیں جس میں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تشریف آوری ہوئی ؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امتیوں نے درخواست کی کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ آسمان سے ہم پر کھانے مائدہ اتارے چنانچہ ہم اس نزولِ مائدہ کے دن کو عید کے طور پر منائیں گے ۔ پھر مائدہ اترا اور آج تک عیسائی اسے عید کا دن مناتے ہیں ۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے ۔ قرآن نے اس کی مخالفت نہیں کی ۔ نہ اسے برا قرار دیا تو کیا مائدہ نازل ہونے کا دن عید اور رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزول کا دن یوم عید نہیں ؟

لہٰذا قرآن ، بائبل ، زبانِ انبیاء علیہم السلام و زبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش مبارک کا ذکر ثابت ہے ۔ ولادت با سعادت کے متعلق احادیث میں جو کچھ آیا ہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا ہے ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اٹھتے بیٹھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوے دیکھتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گن گاتے ، نظم و نثر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و مناقب سنتے سناتے تھے اور میلاد میں یہی کچھ تو بیان ہو تاہے ۔

سیرت طیبہ کی کوئی معتبر کتاب پڑھیے ، بخاری ، مسلم ، سننِ اربعہ اور دیگر مستند کتب احادیث میں ’’فضائل سید المرسلین‘‘ کا باب ، شعر و شاعری کا باب نکال کر دیکھیے ، یہی عیاں ہوتا ہے کہ محفلِ میلاد میں وہی کچھ بیان ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے ہوتا تھا ۔ صحابی رضی اللہ عنہ تو دور کی بات کوئی قابلِ ذکر امام ، مصنف ، محدث ، فقیہہ اور قابل ذکر عالم ایسا نہیں جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد ، ولادت اور فضائل کا ذکر نہ کیا ہو حتی کہ حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ ، مودودی کی ’’تفہیم القرآن‘‘ کی آخری جلد ، ’’سیرت سرور عالم‘‘ ، ادریس کاندھلوی دیوبندی کی ’’سیرت المصطفیٰ‘‘ میں بھی یومِ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عید کا دن (خوشی کا دن) ہی قرار دیا گیا ہے ۔ ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلادُ النَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امتِ مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔ (مزید حصّہ نمبر 31 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔