خطبات و مقالاتِ فیض میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ نمبر 25
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا بدعت ہے ؟ ۔ عیدِ میلادُالنُبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو ہر سال اِس طرح دھوم دھام سے عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کبھی نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں ، عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دین میں نئی ایجاد ہے ، یہ حرام ہے ، بدعت ہے ۔ (استغفراللہ)
جواب : بدعت کا مطلب ہے ایسا نیا کام (اچھا یا بُرا) جو آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ظاہری زندگی کے بعد ایجاد ہوا ہو ۔ اِن 1400 سال کے دوران دینِ اسلام میں بہت سے نئے کام ایجاد ہو چکے ہیں ۔ اِسی لیے بدعت کی 2 اقسام ہیں (1) بدعتِ حسنہ (2) بدعتِ سیئہ ۔ اگر بدعت (نیا کام) سے دینِ اسلام کو فائدہ ہوتا ہو دینِ اسلام کی تبلیغ میں مدد ملتی ہو تو وہ بدعت اچھی اور جائزہو گی ، ایسی بدعت کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں ۔ اگر بدعت (نیا کام) سے دینِ اسلام کو نقصان ہوتا ہو یا وہ خلافِ شریعت ہو تو ایسی بدعت کو بدعتِ سیئہ کہتے ہیں اور وہ ناجائز ہوگی ۔ یاد رکھیں بدعتِ حسنہ جائز ہے اور اِس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حدیثِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی جیسا کہ ہم تفصیلاً عرض کر چکے ہیں ۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اُس کا ثواب ملے گا اور جو اُس (نئے اچھے طریقے) پر عمل کرے اُسے بھی ثواب ملے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب زکوۃ جلد 2 صفحہ705 حدیث 1017)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہِ خلافت سے پہلے رمضان میں نمازِ تراویح با جماعت طریقے سے نہیں پڑھی جاتی تھی ، چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ تراویح کی باقاعدہ جماعت کا حکم دیا اور تراویح کی جماعت دیکھ کر خوش ہو کر فرمایا : یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔ (بخاری شریف کتاب الصلاۃالتراویح جلد 2 صفحہ 707 حدیث1906)(موطا امام مالک کتاب الصلاۃ جلد 1 صفحہ 114 حدیث 250)
ایسے بہت سے نئے کام (بدعاتِ حسنہ) ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تو اپنی ظاہری زندگی میں نہیں کئے لیکن صحابہ کرام ، تابعین رضی اللہ عنہم اور علمائےاسلام نے بعد میں شروع کیے ۔ مثلا ً نمازِ جمعہ میں 2 اذانیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہِ خلافت میں شروع ہوئیں ، پہلے ایک اذان ہوتی تھی ۔ قرآن پر زبر زیر پیش اور نقطے بہت عرصے بعد حجاج بن یوسف نے لگوائے ۔ اِسی طرح قرآن کے 30 پارے ، قرآنی سورتوں کی ترتیب بھی بدعتِ حسنہ ہے ۔ چھ (6) کلمے بھی بعد میں بنے ۔ مدرسّے بھی بہت بعد میں بنے ۔ مساجد کے مینار گنبد محراب بھی بعد میں ایجاد ہوئے ۔ حدیث کی کتابیں اور احادیث کی اقسام بھی بعد میں بنیں ۔ یہ سب بدعاتِ حسنہ ہیں ۔ اِسی طرح مزید ایسے بہت سے نئے کام ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہیں کیے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بعد میں شروع کیے ۔ اور مزید بہت سے نئے کام ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہیں کیے لیکن بعد میں محدثین و اولیاء کرام علیہم الرحمہ نے شروع کیے ۔ اِن سب مثالوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دینِ اسلام کی سربلندی کےلیے کوئی اچھا کام جس مرضی دور میں شروع ہو وہ جائز اور اچھا ہی ہوتا ہے ۔ جب اِن سب پر کوئی اعتراض نہیں تو عیدِ میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بدعت بدعت کے فتوے لگانا شدید گمراہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی ہے ۔ جہاں تک بات ہے کچھ لوگوں کی غیر شرعی حرکتوں کی تو چند لوگوں کی فضول حرکتوں کو جواز بنا کر میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے کچھ دہشت گردوں کو بنیاد بنا کر اسلام پر شدت پسندی کا لیبل چسپاں کر دیا جائے ۔ یاد رکھیے فرد کے غلط طریقہ عمل سے عمل کی حیثیت مشکوک نہیں ہوتی ۔ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا میلاد منانا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے ۔ القرآن سورہ یونس:58 "(اے محبوب) تم فرماؤ کہ اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (کے نزول) کے سبب اِنہیں چاہیےکہ خوشی منائیں ،کہ وہ (خوشی منانا) اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں"۔ سوچیں ! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اِس دنیا میں آمد ہمارے لیے اللہ کا سب سے بڑا فضل نہیں ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رحمۃللعالمین (تمام عالم کے لیے رحمت) نہیں ؟ ۔ القرآن سورہ الانبیاء:107 " اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا "۔ اب فیصلہ کریں ! کیا میلاد منانا قرآن سے ثابت نہیں ؟
بدعت کا حقیقی تصور
ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے : ⬇
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ ۔
ترجمہ : جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718)(ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول ﷲ ﷺ ، 1 : 7، رقم : 14،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ ۔
ترجمہ : جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور، 2 : 959، رقم : 2550)(ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606)
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ ۔
ترجمہ : جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234)(دارقطنی، السنن، 4 : 227، رقم : 81)
مغالطہ کا اِزالہ اور فَیُوَ رَدٌّ کا درست مفہوم
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْهُ اور مَا لَيْسَ فِيْهِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے ، اور مَا لَيْسَ مِنْهُ کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو ۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْهُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْهِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جا سکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو ۔ اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو ، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے ۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فيه فهو ردّ ميں فهو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْهُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْهُ فِيهِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو ۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کےلیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے : 1 ۔ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو ۔ 2 ۔ یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے ۔
مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب ، میلاد اور دیگر سماجی ، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے ۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر قرآن و سنت کی نص نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہو جائیں گے ۔
کسی کام کے ناجائز ہونے کا دار و مدار اس بات پر نہیں کہ یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان نے نہیں کیا بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر منع فرمایا ہے تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا تو جائز ہے ۔ کیونکہ فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ ترجمہ : تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں ۔ یعنی ہر چیز مباح اور حلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کر دے تو وہ منع ہے ، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی نہ کہ نئے ہونے سے ۔ یہ قاعدہ قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہا سے ثابت ہے ۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اِنْ تَسْـٸَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ - عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے ۔ (پ7، المائدہ:101)
صدر الافاضل حضرت علّامہ سیّد محمد نعیمُ الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا حرام وہ ہے جس کو اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو کلفت میں نہ پڑو ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ 224)
حدیثِ پاک میں ہے : الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفٰی عنہ ۔
ترجمہ : حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرما دیا اور جس پر خاموشی فرمائی وہ معاف ہے ۔ (جامع ترمذی جلد 3 صفحہ 280 حدیث:1732)
چونکہ محافلِ دینیہ منعقد کر کے عیدِ میلاد منانے کی ممانعت قرآن و حدیث ، اقوالِ فقہا نیز شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں ، لہٰذا جشنِ ولادت منانا بھی جائز ہے اور صدیوں سے علما نے اسے جائز اور مستحسن قرار دیا ہے ۔
شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ربیعُ الاوّل چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے لہٰذا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ اس کی راتوں میں صدقات اور اچّھے اعمال میں کثرت کرتے ہیں ۔ خصوصاً ان محافل میں آپ کی میلاد کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرتے ہیں ۔ محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرّب ہے کہ اس کی وجہ سے یہ سال امن کے ساتھ گزرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارَک کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدّت کی جس کے دل میں مرض ہے ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 27)
شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محفلِ میلاد کا انعقاد تمام عالَمِ اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے ۔ اس کی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہار اور اس موقع پر خُصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر ظاہر ہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خُصوصی معمول ہے ۔ (ماثبت بالسنہ صفحہ نمبر 102،چشتی)
امام جمالُ الدّین الکتانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن نہایت ہی معظّم ، مقدّس اور محترم و مبارَک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود پاک اتّباع کرنے والے کےلیے ذریعۂ نجات ہے جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کر لیا ۔ لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق خرچ کرنا نہایت مناسب ہے ۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 1 صفحہ 364،چشتی)
اور یہ کہنا کہ ’’ہرنیا کام گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں کیونکہ بدعت کی ابتدائی طور پر دو قسمیں ہیں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ ۔ بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد ، جلوس ، سالانہ قراءَت کی محافل کے پروگرام ، ختم بخاری کی محافل وغیرہ ۔
بدعتِ سیّئہ وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو جیسے غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعدِ سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں ۔ اور کل بدعۃ ضلالۃ کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے ۔ (اشعۃ اللمعات مترجم جلد 1 صفحہ 422)
بلکہ حدیث پاک میں نئی اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت ہے ۔ مسلم شریف میں ہے : مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘ ۔
ترجمہ : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی ۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 394 حدیث:1017)
جشنِ ولادت منانا بھی ایک اچّھا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہیں بلکہ عین قرآن و سنّت کے ضابطوں کے مطابِق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوشی کا حکم خود قرآنِ پاک نے دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ (پ11، یونس :58)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠ ۔ (پ30، والضحٰی:11)
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا یومِ میلا د روزہ رکھ کر مناتے چنانچہ آپ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا : اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 455 حدیث : 2750،چشتی)
خلاصۂِ کلام یہ کہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر خوشی منانا ، مختلف جائز طریقوں سے اِظہارِ مَسرّت کرنا اور محافلِ میلاد کا انعقاد کر کے ذکرِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہوئے ان پر مسرت و مبارک لمحات کو یاد کرنا جو سرکارِ کُل عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت ہے بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے ۔
مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل ، مثال ، ذکر ، معرفت یا حوالہ ۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ ۔ قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین ، واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے ۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَـلَالَۃٌ، سے بھی یہی بدعت مراد ہے ، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا ۔ یہی اِحداث فی الدین ، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا ۔ ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے ۔
مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلادُالنّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سرا سر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے ۔ (مزید حصّہ نمبر 26 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment