حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی عبدالقادر ، کنیت : ابو محمد، لقب : محی الدین ، پیرانِ پیر دستگیر ، شیخ الشیوخ ، محبوبِ سبحانی ، قندیلِ لامکانی ، قطبِ ربانی وغیرہ ۔ عامۃ المسلمین میں آپ "غوث الاعظم" کے نام سے مشہور ہیں ۔ والد ماجد کا نام حضرت سیّد ابو صالح موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا آپ "نجیب الطرفین" سیّد ہیں ۔ والد ماجد کی طرف سے سلسلۂ نسب سیدنا امام حسن بن علی المرتضیٰ سے اور والدہ ماجدہ کی طرف سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملتا ہے ۔
تاریخِ ولادت : حضور سیّدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ یکم رمضان المبارک 471 ھجری میں عالم قدس سے عالم امکانی میں تشریف لائے ۔
تحصیلِ علم : اٹھارہ سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد تشریف لے گئے ۔ آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی ، علِم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیر کےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پیشین گوئیاں
طبقات کبری ، بہجۃ الاسرار ، قلائد الجواہر ، نفحات الانس ، جامع کرامات اولیاء ، نزہۃ الخاطر الفاتر اور اخبار الاخیار کتب میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے واقعات اس طرح مذکور ہیں : ⬇
محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی ولادت کی شب مشاہدہ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک جماعت کے ساتھ آپ کے گھر جلوہ افروز ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اولیاء کرام بھی حاضرہیں ، حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں اس خوشخبری سے سرفراز فرما رہے ہیں : یا ابا صالح ! اعطاک اللہ ابنا وھو ولیی ومحبوبی ومحبوب اللہ تعالی ، وسیکون لہ شان فی الاولیاء والاقطاب کشأنی بین الانبیاء والرسل ۔
ترجمہ : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا فرزندِ صالح سرفراز فرمایا ہے جو میرا مقرب ہے ، وہ میرا محبوب اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور عنقریب اولیاء اللہ اور اقطاب میں ان کی وہ شان ظاہر ہوگی جو انبیاء اور مرسلین میں میری شان ہے ۔ (تفریح الخاطر،المنقبۃ الثانیۃ صفحہ 57)
حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے اور سبھی نے آپ کویہ بشارت دی کہ تمام اولیاء کرام تمہارے فرزندار جمند کے مطیع ہوں گے اور ان سب کی گردنوں پر ان کا قدم ہوگا ۔
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله . ترجمہ : میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
حضرت شیخ عقیل سنجی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں ؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے ۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا ۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ، میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرتبہ غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔ منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں ۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں ۔ (تلخيص بهجة الاسرار)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بشارت : جن مشائخ علیہم الرحمہ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر” اور “نزہۃ الخواطر” میں صاحبِ کتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت دی ، چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂِ مبارک تک تفصیل سے خبر دی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خبر دی ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۸)
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : آپ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا ، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین ، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ’’ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے کہنے کا حکم ہوگا ۔ ( سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۷)
شیخ ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت : شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “ عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قَدَمِيْ هٰذِهٖ عَلٰي رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيِّ اللّٰهِ ، یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے ۔ (بهجة الاسرار، ذکر اخبار المشايخ عنه بذالک صفحہ ۱۴)
بیعت وخلافت : حضورِ پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا ۔
سیرت و خصائص
امام الائمہ ، شیخ الاسلام ، محی الدین ،سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قطبِ ربانی ، غوثِ صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاقِ حسنہ اور فضائلِ حمیدہ کی تعریف و توصیف میں کل اولیاء اللہ کے تذکرے بھرے ہوۓ ہیں ۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے کوئی بھی ولی اللہ آپ کا ہم پلہ نہیں ہوا ۔ قدرت نے آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق و محامد سے متصف فرمایا تھا کہ آپ کے معاصرین آپ کی تحسین کیے بغیر نہیں رہتے تھے ۔اپنے تو اپنے غیر مسلم بھی آپ کے حسنِ سلوک کےگرویدہ تھے ۔ آپ اسلامی اخلاق اور انسانی اوصاف کے پیکر تھے ۔ شیخ حراوہ فرماتے ہیں : میں نے اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کوئی کریم النفس ، رقیق القلب، فراخ دل اور خوش اخلاق نہیں دیکھا"۔آپ اپنے علوِّ مرتبت اور عظمت کے باوجود ہر چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے تھے۔سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔کمزوروں اور مسکینوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے۔لیکن اگر کوئی بادشاہ یا حاکم آجاتا توآپ مطلقاً تعظیم نہ فرماتے اور نہ ہی ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر گئے، نہ عطیات قبول کئے۔مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ مروت سے پیش آتے۔سچائی اور حق گوئی کادامن کبھی نہیں چھوڑا خواہ کتنے ہی خطرات کیوں نہ درپیش ہوتے، مگر سچ کہنے سے کبھی بھی چوکتے نہیں تھے۔ حاکموں کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے اور کسی کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بلکہ مصلحت و خوف کو پاس تک بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ آپ معروف کا حکم دیتے اور منکرات سے روکتے تھے۔آپ کے اعلائے کلمۃ الحق نے سلاطین اور امراء کے محلات میں زلزلہ ڈال دیا تھا۔حضور پرنور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مجسمہ ایثاروسخاوت تھے۔دریا دلی کا یہ عالم تھاکہ جوکچھ پاس ہوتاسب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرمادیتے ۔
عفو و کرم کے پیکر جمیل تھے ۔ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور فوراً امداد پر کمر بستہ ہوجاتے، مگر خود اپنے معاملے میں کبھی بھی غصہ نہیں آتا۔لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے۔نہایت رقیق القلب تھے۔حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ باتفاق علماء واولیاء مادرزاد یعنی پیدائشی ولی تھے۔ مناقب غوثیہ میں شیخ شہاب الدین سہروردی سے منقول ہے :کہ سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادت کے وقت غیب سے پانچ عظیم الشان کرامتوں کا ظہور ہوا ۔
اوّل : شب ولادت آپ رضی اللہ عنہ کے والد سیّد ابو صالح نے خواب میں دیکھا کہ آقائے دو جہاں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ہیں ارشاد فرماہے ہیں : اے ابو صالح ! اللہ تعالیٰ نے تجھے فرزند عطا کیا ہے وہ میرا محبوب ہے اور خدا پاک و برتر کا محبوب ہےاور تمام اولیاء و اقطاب میں اس کامرتبہ بلند ہے ۔
دوئم : جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شانہ مبارک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک کا نقش موجود تھا، جو آپ رضی اللہ عنہ کے ولی ہونے کی دلیل ہے ۔
سوئم : آپ کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے عالم خواب میں بشارت دی کہ جو لڑکا تمہارے ہاں پیدا ہوا ہے سلطانِ الاولیا ہوگا ۔
چہارم : آپ کی ولادت کی شب صوبہ گیلان میں تقریباً گیارہ صد لڑکے پیدا ہوئے جو سب کے سب مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے ۔ اس رات تمام علاقہ گیلان میں کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی ۔
پنجم : یہ کہ آپ رمضان المبارک کے مہینہ کی چاند رات کو پیدا ہوئے۔ دن کے وقت مطلق دودھ نہیں پیتے تھے البتہ افطار سے لے کر سحری تک والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے تھے۔ ولادت کے دوسرے سال ابر (بادل) کی وجہ سے رویت ہلال کے متعلق کچھ شبہ پڑگیا تھا لیکن جب وقت سحرکے بعد جناب غوث الاعظم نے والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا تو آپ کی والدہ سمجھ گئیں کہ آج رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے انہوں نے لوگوں کو یہ خبر سنائی اور بعد میں معتبر شہادتوں سے اس قیاس کی تصدیق بھی ہو گئی ۔
جائے ولادت : حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں : ⬇
انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال
حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا سن ولادت و وصال : ⬇
حضرت قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں میں گیارہ ربیع الثانی 470 ھجری کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی ۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الثانی 561 کو 91 سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے ۔
زمانۂ رضاعت
سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے۔ شب ولادت کی صبح رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لئے ہوئے تھی گویا یکم رمضان المبارک اس دنیائے رنگ و بو میں آپ کی آمد کا پہلا دن تھا۔ حضرت نے روز اول ہی روزہ رکھ کر ثابت کردیا کہ آپ جن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے ان کی سعادت کسبی نہیں وہبی تھی۔ پورے رمضان شریف میں یہ حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ جس وقت افطار کا وقت ہوتا دودھ لے لیتے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتے چلاتے تھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خود بھی ایک شعر میں اپنے زمانہ رضاعت کے روزوں کا ذکر کیا ہے : ⬇
بداية امری ذکره ملاء الفضا
وصومی في مهدی به کان
’’میرے زمانہ طفولیت کے حالات کا ایک زمانہ میں چرچا ہے اور گہوارہ میں روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔
آغاز تعلیم
جیلان میں ایک مقامی مکتب تھا ۔ جب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھا دیا ۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہو گئی ۔ (تذکرہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ طالب ہاشمی صفحہ 35 ، 36)
اعلیٰ تعلیم کا حصول
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ 488 ھجری میں 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا ۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے ۔ بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو گئے ۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا ۔
علم قرات ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم لغت ، علم شریعت ، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ماہ ذی الحجہ 496 ھجری میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے ۔ سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا ۔ آپ علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇
درست العلم حتی صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی
ترجمہ : میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا ۔
مسند تدریس
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی اپنے جدِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان : تعلموا العلم وعلموا الناس ۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو سے عبارت تھی ۔ تصوف و ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلقِ خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے درس و تدریس اور کارِ افتاء سے پہلو تہی نہ کی ۔
آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور اس کےلیے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا ۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ، مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی ۔
شیخ موفق الدین ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں : ہم 561ھ میں بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اتباع شریعت
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی ۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت کےلیے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے ۔
مسند وعظ و ارشاد
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں ۔
تمام مے کدہ سیراب کردیا جس نے
وہ چشم یار تھی، جام شراب تھا، کیا تھا ؟
آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر تنبیہ فرماتے ۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : ⬇
آپ رحمۃ اللہ علیہ خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفرِ محبت صفحہ 62 تا 64،چشتی)
سلسلہ
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و افکارکی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے ۔
بچپن کے ایام
تمام علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں ۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی بھی دودھ نہیں پیتے تھے اور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی کہ ’’سادات کے گھر انے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا ۔
بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ : جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا تھا اے برکت والے ، میری طرف آ جا ۔
ولایت کا علم
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کےلیے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ مکتب بھی سْنا کرتے تھے کہ ’’اللہ کے ولی کےلیے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔
پرورش وتحصیلِ علم
آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہء نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہء نسب حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔ اٹھارہ (18) سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیلِ علم کےلیے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے ۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیرکےلیے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے ۔
ریاضت و مجاہدات
تحصیلِ علم کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی ۔
1127ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ 40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام کےلیے دور دراز کے سفر کیے اور برِصغیر تک تشریف لے گئے اور ملتان (پاکستان) میں بھی قیام پذیر ہوئے ۔
حلیہ مبارک : جسم نحیف، قد متوسط، رنگ گندمی، آواز بلند، سینہ کشادہ، ڈاڑھی لمبی چوڑی، چہرہ خوبصورت، سر بڑا، بھنوئیں ملی ہوئی تھیں ۔
فرموداتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
اے انسان! اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالٰی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اْس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔
اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔
میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اْس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔
القاباتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
غوثِ اعظم
پیران ِ پیر دستگیر
محی الدین
شیخ الشیوخ
سلطان الاولیاء
سردارِ اولیاء
قطب ِ ربانی
محبوبِ سبحانی
قندیل ِ لامکانی
میر محی الدین
امام الاولیاء
السید السند
قطب اوحد
شیخ الاسلام
زعیم العلماء
سلطان الاولیاء
قطب بغداد
بازِ اشہب
ابوصالح
حسنی اَباً
حسینی اْماً
حنبلی مذہبا ً
علمی خدمات : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے طالبین ِ حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں : ⬇
الفتح الربانی والفیض ِ الرحمانی
ملفوظات
فتوح الغیب
جلاء الخاطر
ورد الشیخ عبدالقادر الجیلانی
بہجۃ الاسرار
آدابِ سلوک و التوصل الیٰ منازلِ سلوک
سیرت غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشد و ہدایت کےلیے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ہرنبی ورسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہر بن کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کْل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعْوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رْشدوہدایت اور احیا دین و ملت کےلیے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ ’’ ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیدا ہوگا ۔ (مشکوٰۃشریف) نیز فرمایاکہ ’’ اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے ‘‘ (سنن ابوداود) حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ’’ علمائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’چالیس ابدال (اولیا) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا ۔ (مشکوۃشریف) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’علماء کی زندگی کے لئے مچھلیاں دْعاکرتی ہیں‘‘ ۔ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’میری اْمت میں ہمیشہ تین سو اولیاء حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے‘‘۔ (مرقاۃ ملاعلی قاری)
علما حق فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے اور اْولیا و علما اِس کا ذریعہ ہیں ‘‘اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصطفویہ کے سامنے علما و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اْصول یہ پیش کردیاہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اْولیا اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اولیا اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیاء اتقیاء اور دیگر اولیاء بھی شامل ہیں۔ اولیا کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل، کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اولیاء کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو جب ہم ولیوں کا تاجدار کہتے ہیں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرناچاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطا فرماتا ہے اْن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث اعظم، غوث الثقلین، امام الطرفین، رئیس الاتقیائ، تاج الاصفیا، قطبِ ربانی، شہبازلامکانی، محی الملت والدین، فخرشریعت وطریقت، ناصرسْنت، عماد حقیقت، قاطع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، قطب الاقطاب، غوث صمدانی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اْم الخیر رحمۃ اللہ علیہا بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان میں دن بھر میں کبھی دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی رؤیت نہ ہوسکی لوگ تردوّمیں تھے لیکن اِس مادر زادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیا۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتاتھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔خواہ کتنی ہی دودہ پلانیکی کوشش کی جاتی یعنی رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے۔ ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکارغوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبہ فلک کو چھوسکتا یا اِس کااندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میںجب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتاتو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہو و لعب سے بازرہو۔جِسے سْن کر میں رُک جایا کرتا تھا اور اپنے گرد و پیش جو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا نہ دِکھائی دیتا تھا جس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا تھا ۔
اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکر کے مجھے متنبہ کر دیتی ہے کہ تم کو اِس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ تم سویا کرو ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھا کہ ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا اے عبدالقادر! تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو تو میںنے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اْوپرایک ہیبت سی طاری ہوگئی۔ مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدنا شیخ ابوصالح رحمۃ اللہ علیہ جن کا لقب’’ جنگی دوست ‘‘ ہے اِس کی وجہ سے ’’قلائدالجواہر‘‘ میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیہ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ وہ آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کی ادائیگی اور مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اْستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اْستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18 پارے زبانی پڑھ ڈالے۔ استاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا....؟ اور کیسے پڑھا...؟ تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر وردکیاکرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سْنتے سْنتے مجھے بھی یاد ہو گئے تھے (یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کر چکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اورپڑھ رہی ہوتی ہے تو اْس کااثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتاہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21 اکیسویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے، جبکہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے صدیوں قبل اِس کا عملی ثبوت دنیاکے سامنے خود پیش کر دیا تھا اِس سے ہم اْمت مسلمہ کو فخرہوناچاہئے کہ موجودہ دنیا کی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہرنہیں ہوسکتی ۔(چشتی)
اور یوں آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طور پر قرآن کریم ختم کیااور چند دوسری دینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں۔ حضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے۔ سرکارغوث اعظم نے528سنہ ھ میں درس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے غوث اعظم ہونے پر تمام اْمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ’’کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں تواتر سے منقول ہیں(نزہۃ الخاطر)۔خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظرآتاہے۔ مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغدادمیں آپ کی مجالس وعظ میں ستر، ستر (70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسدہونے لگاکہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کرگیاہے۔
چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے ۔ (بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی وسیلہ (یعنی ساؤنڈ سسٹم کے بغیر) ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانااور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے جو روزانہ ظاہرہوتی رہتی تھی۔
سیدناعوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اولیاء وصلحاء بھی موجودتھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعداد موجود تھی) دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله ۔
ترجمہ : میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے ‘‘ تو مجلس میں موجود تمام اولیاء نے اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اولیاء نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں ۔ حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آقا آپ کا قدم میری گردن پر بھی اور میرے سر پر بھی‘‘ ۔ (اخبار الاخيار، شمائم امدادية، سفينة اوليا، قلائدالجواهرِ، نزهته الخاطر، فتاویٰ افريقه کرامات غوثيہ اعلی حضرت)
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیا کرتے ہیں اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں ۔ (مزید حصّہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment