Wednesday, 2 November 2022

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 2

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 2
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ” ابو محمد “اور القابات” محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ” ہیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ ٤٧٠ ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور ٥٦١ ھ میں بغداد شریف ہی میں وصال فرمایا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے ۔ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار ذکرنسبہ و صفتہ صفحہ ۱۷۱)(الطبقات الکبرٰی للشعرانی ابو صالح سیدی عبدالقادر الجیلی جلد ۱ صفحہ ۱۷۸)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نانا جان، دادا جان، والد ماجد، والدہ محترمہ ، پھوپھی جان ، بھائی اور صاحبزادگان سب متقی و پرہیزگار تھے ، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے ۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ محترم حضرت ابوصالح سیّد موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ تھے ، آپ کا اسم گرامی “سیّد موسیٰ” کنیت “ابوصالح” اور لقب “جنگی دوست” تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ علیہم میں سے تھے ۔

جنگی دوست ” لقب کی وجہ : آپ رحمۃ اللہ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لیے ہوا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کےلیے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے ، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کےلیے مشہور تھے ، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے ، چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا ، تو خلیفہ نے کہا : سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ کو فوراً میرے دربارمیں پیش کرو ۔ چنانچہ حضرت سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا : آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کر دیا ؟ ” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے ۔ خلیفہ نے کہا : آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کیے گئے ہیں ؟ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا : جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا : حضور والا ! امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے ؟ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر ۔ خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمتِ اقدس میں عرض گزار ہوا : عالیجاہ ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں ۔ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا : جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے ۔ اُسی دن سے آپ “جنگی دوست” کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۲،چشتی)

حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت زاہد اور پرہیزگار ہونے کے علاوہ صاحب فضل و کمال بھی تھے ، بڑے بڑے مشائخ کرام رحمہم اللہ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا ۔

ایک مرتبہ جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تو لوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ اُم عائشہ رحمۃ اللہ علیہا کے گھر آئے اور آپ سے بارش کےلیے دعا کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اور زمین پرجھاڑو دے کر دعا مانگی : اے رب العالمین ! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤ فرما دے ۔ کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مَشک کا منہ کھول دیا جائے ، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہو گیا ۔ (بهجة الاسرار ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۱۷۳،چشتی)

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف “عوارف المعارف” میں تحریر فرماتے ہیں :
ایک شخص نے حضور سیدنا غوثُ الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : یاسیدی ! آپ نے نکاح کیوں کیا ؟ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ “ عبدالقادر ! تم نکاح کر لو ، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ۔ پھرجب یہ وقت آیا تو اللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں ، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے ۔ (عوارف المعارف الباب الحادی و العشرون فی شرح حال المتجرد و المتاهل من الصوفية ۔ الخ صفحہ نمبر ۱۰۱،چشتی)

حضور سیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ “ جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں ۔ ایک موقع پر میرے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ، جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اس روشنی پر پڑی تو وہ روشنی فوراً غائب ہو گئی ، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “ یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتا تھا اسی لیے میں نے اسے ختم کر دیا ، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کیے دیتا ہوں ۔ اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جو چاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا ۔ (بهجة الاسرار و معدن الانوار ذکر فضل اصحابه ۔ الخ صفحہ ۱۹۶،چشتی)

محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃ الہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرما کر بشارت سے نوازا : يَا اَبَا صَالِح اَعْطَاكَ اللّٰهُ اِبْنًا وَ هُوَ وَلِيٌّ وَ مَحْبُوْبِيْ وَ مَحْبُوْبُ اللّٰهِ تَعَالٰی وَ سَيَکُوْنُ لَهٗ شَانٌ فِي الْاَوْلِيَآءِ وَ الْاَقْطَابِ کَشَانِيْ بَيْنَ الْاَنْبِيَاءِ وَ الرُّسُلِ ۔
ترجمہ : اے ابو صالح ! اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اور وہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہو گی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۵ بحواله تفريح الخاطر)

غوث اعظم درمیان اولیاء
چوں محمد درمیان انبیاء

حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے یہ بشارت دی کہ “ تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۵۵ بحواله تفريح الخاطر)

جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا ۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے ، چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ “ جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا ۔ (بهجة الاسرار و معدن الانوار ذکر نسبه وصفته رضي الله تعاليٰ عنه صفحہ ۱۷۲،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہما فرمایا کرتی تھیں : جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھا اگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کےلیے آئے تو میں نے کہا کہ “ میرے بچے نے دودھ نہیں پیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا ۔ (بهجة الاسرار ذکر نسبه وصفته رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۷۲)

شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ “ حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا : يَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِهٰذَا خُلِقْتَ ، یعنی اے عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ تم کو اس قسم کے کاموں کےلیے تو پیدا نہیں کیا گیا ۔ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدانِ عرفات میں لوگ کھڑے ہیں ، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : آپ رحمۃ اللہ علیہ مجھے راہِ خدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کر دیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے ۴۰ دینار لے لیے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ کےلیے چھوڑ دیے ، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہا نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کےلیے تشریف لائیں اور فرمایا : اے میرے پیارے بیٹے ! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا ۔(بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۷،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا : آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا ؟ ارشاد فرمایا کہ “ میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کےلیے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ ” اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کےلیے جگہ فراخ کر دو ۔ (بهجة الاسرار ذکر کلمات اخبر بھا ۔ الخ صفحہ ۴۸)

حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ہم ۵۶۱ ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم ، عمل اور حال و فتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے ، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لیے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اور جو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے ، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے ، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرما دیے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۵،چشتی)

امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اور شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمہم اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے ۔ ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر ، حدیث ، فقہ اور علم الکلام پڑھتے تھے ، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه وتسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۵)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ “ ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنیٰ پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیے اور پھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی ، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے ۔ (اخبارالاخيار صفحہ ۱۱)

بلادِ عجم سے ایک سوال آیا کہ “ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کر رہا ہو ، اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی ، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہیے ؟ اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ “ وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔ اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہو گئے تھے ۔ (اخبارالاخيار)

حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضر رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اور سمندر کے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے صدر ہیں ، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طرے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں ۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھا اور اسی حالت میں جب میں بیدار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’ خضر ! ایک طُرّہ علمِ شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علمِ حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف و مرتبہ کا طُرّہ ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۲۲۶،چشتی)

حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بقا بن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے روضۂِ اقدس کی زیارت کی ، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرمایا : اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت ، علم حقیقت ، علم حال اور فعلِ حال میں تمہارا محتاج ہوں ۔ (بهجة الاسرار ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۲۶،چشتی)

حضرت قطبِ ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ “ میں نے (راہِ خدا عزوجل میں) بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۱۰)

حضرت شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے شہنشاہِ بغداد رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ ’’ میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھا میرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطار در قطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے ، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا : اے عبدالقادر اُٹھو ان کی طرف بڑھو ، مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے ۔ پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے ، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ “ یہاں سے چلے جاؤ ۔ تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ ، پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۵،چشتی)

مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ جلد رونے والے ، نہایت خوف والے ، باہیبت ، مستجاب الدعوات ، کریم الاخلاق ، خوشبودار پسینہ والے ، بُری باتوں سے دُور رہنے والے ، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے ، نفس پر قابو پانے والے ، انتقام نہ لینے والے ، سائل کو نہ جھڑکنے والے ، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۰۱،چشتی)

حضرت قطب شہیر سیدنا احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ ، جس میں سے چاہیں پانی لیں ، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی ثانی نہیں ۔ (بهجة الاسرار ذکراحترام المشائخ والعلماء له ثنايهم عليه صفحہ ۴۴۴)

حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی ، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر طريقه رحمة الله تعالیٰ عليه صفحہ ۱۶۴)

حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه ۔ الخ صفحہ ۱۱۸) ۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے ۔ (تفريح الخاطر صفحہ ۳۶)

روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے ، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے ، بیماروں کی عیادت فرماتے ، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ۔ (بهجة الاسرار ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۲۰۰،چشتی)

حضرت شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ ایک مرتبہ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں ۔ پھر ارشاد فرمایا : میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا ، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے (کہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردوں اور بھوکے لوگوں کو کھانا کھلادوں) ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۸)

ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا : تمہارا کیا حال ہے ؟ اس نے عرض کی ’’ حضور والا ! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا : جاؤ یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “ آئندہ وہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے ۔ (اخبار الاخيار صفحہ ۱۸)

حضرت بزاز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے نانا جان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک عجمی مرد ہوں ، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : بیٹا ! اپنا منہ کھولو ۔ میں نے اپنا منہ کھولا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات بار لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’ لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ ۔ پھر میں نے نمازِ ظہر ادا کی اور بیٹھ گیا ، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے ، اس کے بعد میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجھہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا : اے میرے والد لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے میرے فرزند اپنا منہ کھولو ۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ بار لعاب ڈالا ، میں نے عرض کیا کہ ’’ آپ نے سات بار کیوں نہیں لعاب  ڈالا ؟ تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے ۔ پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور میں نے یہ شعر پڑھا : ⬇

ترجمہ : (۱) فکر کا غوطہ زن دل کے سمندر میں معارف کے موتیوں کےلیے غوطہ لگاتا ہے پھر وہ ان کو سینے کے کنارہ کی طرف نکال لاتا ہے ۔
(۲) اس کی زبان کے ترجمان کا تاجر بولی دیتا ہے پھر وہ ایسے گھروں میں کہ اللہ عزوجل نے ان کی بلندی کا حکم دیا ہے جو طاعت کی عمدہ قیمتوں کے ساتھ خرید لیتا ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعا بشي من عجائب صفحہ ۵۸،چشتی)

حضرت غوثِ اعظم حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا پہلا بیان اجتماعِ برانیہ میں ماہ شوال المکرم ۵۲۱ ہجری میں عظیم الشان مجلس میں ہوا جس پر ہیبت و رونق چھائی ہوئی تھی اولیاء کرام اور فرشتوں نے اسے ڈھانپا ہوا تھا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب و سنت کی تصریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف بلایا تو وہ سب اطاعت و فرمانبرداری کےلیے جلدی کرنے لگے ۔ (بهجة الاسرار ذکر وعظه صفحہ ۱۷۴)

حضرت سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۴)

حضرت ابراہیم بن سعد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ جب ہمارے شیخ حضورِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ عالموں والا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہو کر بیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۹،چشتی)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس مبارک میں باوجود یہ کہ شرکاء اجتماع بہت زیادہ ہوتے تھے لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آواز مبارک جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دُور والوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور اور نزدیک والوں کےلیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آوازمبارک یکساں تھی ۔(بهجة الاسرار ذکرو عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۱)

آپ رحمۃ اللہ علیہ شرکاء اجتماع کے دلوں کے مطابق بیان فرماتے اور کشف کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے جب آپ رحمۃ اللہ علیہ منبر پر کھڑے ہو جاتے تو آپ کے جلال کی وجہ سے لوگ بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور جب آپ رحمۃ اللہ علیہ اُن سے فرماتے کہ ’’ چپ رہو ۔ تو سب ایسے خاموش ہو جاتے کہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ان کی سانسوں کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہ دیتا ۔ (بهجة الاسرار ذکرو عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۱)

حضرت شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمہ اور انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف فرما ہوتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی تربیت و تائید فرمانے کےلیے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’ جس کو بھی فلاح و کامرانی کی خواہش ہو اس کو غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ حاضری ضروری ہے ۔ (اخبار الاخيار صفحہ ۱۳،چشتی)

حضرت شیخ ابو زکریا یحییٰ بن ابی نصر صحراوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے ایک مرتبہ عمل کے ذریعے جنات کو بلایا تو انہوں نے کچھ زیادہ دیر کر دی پھر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’ جب شیخ سید عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما رہے ہوں تو اس وقت ہمیں بلانے کی کوشش نہ کیا کرو ۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا : تم بھی ان کی مجلس میں جاتے ہو ۔ انہوں نے کہا : ہاں ! ہم مردوں میں کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ، ہمارے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان سب نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر توبہ کی ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۰)

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو ، چور ، فساق و فجار ، فسادی اور گمراہ لوگوں نے توبہ کی ۔ (بهجة الاسرار ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۴،چشتی)

ایک بار حضرت سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک ۹۰ سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھی ، ایک مریدنے بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ علیہ میں عرض کیا : مرشدی اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا ، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کر کے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی ، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے ، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے ، یہ روزانہ یہا ں دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پا کر رو دھو کر چلی جاتی ہے ۔ حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیے ، چند منٹ تک کچھ ظہور نہ ہوا ، بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عزوجل میں عرض کی : یااللہ عزوجل ! اس قدر تاخیر کی کیاوجہ ہے ؟ ارشاد ہوا : اے میرے پیارے ! یہ تاخیر خلافِ تقدیر نہیں ہے ، ہم چاہتے تو ایک حکمِ ’’کُنْ‘‘ سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بمقتضائے حکمت چھ دن میں پیدا کیے ، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں ، اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری ، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھا چکے ہیں ، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کاوقت ہے ۔ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ بمع دولہا ، دلہن و باراتی سطح آب پر نمودار ہو گئی اور چندہی لمحوں میں کنارے آلگی ، تمام باراتی آپ رحمۃ اللہ علیہ سے دعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے ، اس کرامت کو سن کر بے شمار کفّار نے آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیا ۔ (سلطان الاذکار في مناقب غوث الابرار)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کرامت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برِصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ (الحَمْدُ ِلله)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں ، اس کا انکار نہ کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضويه جديد صفحہ ۶۲ جلد ۲۹)

آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ جب میں علم دین حاصل کرنے کےلیے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا ، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے ! تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ میں نے جواب میں کہا : ہاں ۔ ڈاکونے کہا : کیا ہے ؟ میں نے کہا : چالیس دینار ۔ اس نے پوچھا : کہاں ہیں ؟ میں نے کہا : گدڑی کے نیچے ۔
ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا ، اس کے بعد دوسرا ڈا کو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کیے اور میں نے یہی جوابات اس کو بھی دیے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا ، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا ، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے ۔ ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے مخاطب ہوا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ میں نے کہا : چالیس دینار ہیں ، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا : اس کی تلاشی لو ۔ تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ ’’ تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ میں نے کہا : والدہ ماجدہ کی نصیحت نے ۔ سردار بولا : وہ نصیحت کیا ہے ؟ میں نے کہا : میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا ۔ توڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا : یہ بچہ اپنی ماں سے کیے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کیے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے ۔ اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۶۸،چشتی)

حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ “ دیہاتی ہوں ۔ مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا : شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہو گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں عبدالقادر ہوں ۔ تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر يَا سَيِّدِيْ عَبْدَالْقَادِرِشَيْئًا لِلّٰهِ (یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پررحم فرمائیے) جاری ہو گیا ۔ آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کےلیے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی : اے عبدالقادر ! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہوگیا ۔ (سيرت غوث الثقلين صفحہ ۱۳۰،چشتی)

حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں : بلا دالله ملکي تحت حکمي ، یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه مرصعا ۔ الخ صفحہ ۱۴۷)

حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ میں ایک رات حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لیے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ “ کاش آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں ۔ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہو گیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا، اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۵۰)

ایک مرتبہ رات میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرُ انوار کی زیارت کےلیے تشریف لے گئے ، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ان کے آگے آگے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی پتھر ، لکڑی ، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے ۔ (قلائد الجواهر صفحہ ۷۷،چشتی)

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “ جو مسلمان تمہارے مدرسے کے دروازے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف فرماؤں گا ۔ (الطبقات الکبریٰ منهم عبدالقادر جيلاني جلد ۱ صفحہ ۱۷۹)(بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)

ایک شخص نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ “ فلاں قبرستان میں ایک شخص دفن کیا گیا ہے جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس کی قبر سے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے عذاب میں مبتلا ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : کیا وہ ہم سے بیعت ہے ؟ عرض کی : معلوم نہیں ۔ فرمایا : ہمارے یہاں کے آنے والوں میں تھا ؟ عرض کی : معلوم نہیں ۔ فرمایا : کبھی ہمارے گھر کا کھانا اس نے کھایا ہے ؟ عرض کی : یہ بھی معلوم نہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور ذرا دیر میں سرِ اقدس اٹھایا ہیبت و جلال روئے انور سے ظاہر تھا ارشاد فرمایا : فرشتے ہم سے یہ کہتے ہیں کہ “ ایک بار اس نے ہم کو دیکھا تھا اور دل میں نیک گمان لایا تھا اس وجہ سے بخش دیا گیا ۔ پھر جو اس کی قبر پر جاکر دیکھا تو فریاد و بکا کی آواز آنا بالکل بند ہو گئی ۔ (الطبقات الکبریٰ منهم عبدالقادر جيلاني جلد ۱ صفحہ ۱۷۹،چشتی)(بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ “ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لیے ان سے دعا کا کہو ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا : کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا ؟ نوجوان نے کہا : جی ہاں ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی ۔ پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ ’’ میں نے آج رات اپنے والد کو سبز حلہ زیبِ تن کیے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ’’ میں عذابِ قبر سے محفوظ ہو گیا ہوں اور جو لباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کرلو ۔پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “ میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃ المسلمین پر ہو گا ۔ (بهجة الاسرار ذکر اصحابه وبشراهم صفحہ ۱۹۴،چشتی)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂِ مبارکہ میں ایک بہت ہی گنہگار شخص تھا لیکن اس کے دل میں سرکار بغداد رحمۃ اللہ علیہ کی محبت ضرور تھی ، اس کے مرنے کے بعد جب اس کو دفن کیا گیا اور قبر میں جب منکر نکیر نے سوالات کیے تو منکر نکیر کو اللہ عزوجل کی بارگاہِ عالیہ سے ندا آئی : اگرچہ یہ بندہ فاسقوں میں سے ہے مگر اس کو میرے محبوبِ صادق سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے محبت ہے پس اسی سبب سے میں نے اس کی مغفرت کردی اور حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کی محبت اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سے حسن اعتقاد کی وجہ سے اس کی قبر کو وسیع کر دیا۔ (سيرت غوث الثقلين رحمة الله تعاليٰ عليه صفحہ ۱۸۸)

بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا : کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : حضور والا ! اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ “ اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا : بندہ نواز اس کا بھی ہمیں علم نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ “ کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے ۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : المفرط اولی بالخسارۃ ، یعنی بھولا ہوا شخص ہی خسارہ میں پڑتا ہے ۔ اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک سے جلال ، ہیبت اور وقار ظاہر ہونے لگا ، آپ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کہ ’’ فرشتوں نے مجھے کہا ہے : اس شخص نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے حسن ظن اور محبت رکھتا تھا تو اللہ عزوجل نے آپ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے ۔ اس کے بعد اس قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فضل اصحابه و بشراهم صفحہ ۱۹۴)

ایک بی بی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ “ اس کا دل آپ رحمۃ اللہ علیہ سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اس کی تربیت فرمائیں ۔ آپ نے ا سے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہو گیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تناول فرمایا تھا ، عرض کی : اے میرے مولیٰ ! آپ تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی ۔ یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا دستِ اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا : قُوْمِيْ بِاِذْنِ اللّٰهِ الَّذِيْ يُحْيِی الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْم ” یعنی جی اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا ۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۸،چشتی)

حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضرت سیدنا شیخ علی بن ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک بار آپ وہیں بیمار ہو گئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی ، قطب ربانی ، شیخ سیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بغداد سے تیمار داری کےلیے تشریف لائے ، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے ، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کیے تو وہ سبز ہو گئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آگیا حالانکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سے کچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے فرمایا : اللہ عزوجل تیری زمین ، تیرے درہم ، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے ۔ حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دوسے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا ، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دوسے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے اب تک باقی ہے ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۹۱)

حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ : انہوں نے فرمایا کہ “ ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی ، غوث صمدانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : میں ان کی حاجت نہیں رکھتا ۔ اور قبول کرنے سے انکار فرما دیا اس نے بڑی عاجزی کی ، تب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا : اے ابوالمظفر کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو ۔ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہو گیا ۔ پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ عزوجل کی قسم ! اگر اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۰)

راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ وقت کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہا ہے کہ “ حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ میرا دل اطمینان پائے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : میں غیب سے سیب چاہتا ہوں ۔ اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں تھے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا ، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا : یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب د یکھا ؟ آپ نے فرمایا : ابوالمظفر تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۱،چشتی)

حضرت شیخ برگزیدہ ابوالحسن قرشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ میں اور شیخ ابوالحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہما کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسمعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرنے لگا کہ : اے میرے سردار ! آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جدِ امجد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ “ جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہیے ۔ میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کر کے فرمایا : ہاں آؤں گا ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے ، شیخ علی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ ، علماء اور معززین جمع ہیں ، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کےلیے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سربمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دستر خوان کے ایک طرف رکھ دیا گیا ، تو ابو غالب نے کہا : بسم اللہ اجازت ہے ۔ اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانا نہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی تو کسی نے بھی نہ کھایا ، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ “ وہ صندوق اٹھا لائیے ۔ ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ “ صندوق کو کھولا جائے ۔ ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے کہا : کھڑا ہو جا ۔ ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہو گیا اور ایسا ہوگیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا ، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہو گیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا ۔ اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ “ حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۳،چشتی)

ایک دن میں حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت مجھے کچھ حاجت ہوئی تو میں فی الفور حاجت سے فراغت پاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : مانگ کیا چاہتا ہے ؟ میں نے عرض کیاکہ “ میں یہ چاہتا ہوں ۔ اور میں نے چند امور باطنیہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا : وہ امور لے لے ۔ پھر میں نے وہ سب باتیں اسی وقت پالیں ۔ (بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۲۴)

ایک شخص حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ “ میں اصبہان کا رہنے والا ہوں میری ایک بیوی ہے جس کو اکثر مرگی کا دورہ رہتا ہے اور اس پر کسی تعویذ کا اثر نہیں ہوتا ۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی ، غوث صمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ یہ ایک جن ہے جو وادی سراندیپ کا رہنے والا ہے ، اُس کا نام خانس ہے اور جب تیری بیوی پر مرگی آئے تو اس کے کان میں یہ کہنا کہ ’’ اے خانس ! تمہارے لیے شیخ عبدالقادر جو کہ بغداد میں رہتے ہیں ان کا فرمان ہے کہ ’’ آج کے بعد پھر نہ آناورنہ ہلاک ہو جائے گا ۔ تو وہ شخص چلا گیا اور دس سال تک غائب رہا پھر وہ آیا اور ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ “ میں نے شیخ کے حکم کے مطابق کیا پھر اب تک اس پر مرگی کا اثر نہیں ہوا ۔ جھاڑ پھونک کرنے والوں کا مشترکہ بیان ہے : حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی مبارک میں چالیس برس تک بغداد میں کسی پر مرگی کا اثر نہیں ہوا ، جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وصال فرمایا تو وہاں مرگی کا اثر ہوا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۴۰)

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرما رہے تھے کہ : بارش شروع ہو گئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کر دیتا ہے ۔ تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا راوی کہتے ہیں کہ ’’ اللہ عزوجل کی قسم ! شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہو گئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ ۱۴۷)

حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضری کے والد فرماتے ہیں کہ : میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ، قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی تیرہ برس خدمت کی ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ میں بہت سی کرامات دیکھی ہیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ جب تمام طبیب کسی مریض کے علاج سے عاجز آجاتے تو وہ مریض آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لایا جاتا آپ رحمۃ اللہ علیہ اس مریض کےلیے دُعائے خیر فرماتے اور اس پر اپنا رحمت بھرا ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے صحتیاب ہوکر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا ، ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سلطان المستنجد کا قریبی رشتہ دار لایا گیا جو مرض استسقاء میں مبتلا تھا اس کو پیٹ کی بیماری تھی آپ نے اس کے پیٹ پر مبارک ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے لاغر پیٹ ہونے کے باوجود کھڑا ہو گیا گویا کہ وہ پہلے کبھی بیمار ہی نہیں تھا ۔ (بهجة الاسرار ذکر فصول من کلامه صفحہ نمبر ۱۵۳) ۔ (مزید حصّہ نمبر 3 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...