Wednesday 9 November 2022

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 5

0 comments

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 5
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولایت و مقامِ حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ ۔ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ ۔ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا ۔ (سورہ الکہف آیت نمبر 28)
ترجمہ : اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ۔

آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ : سردارانِ کفار کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمیں  غُرباء اور شکستہ حالوں  کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ۔ اگر آپ انہیں  اپنی صحبت سے جدا کردیں  تو ہم اسلام لے آئیں  اور ہمارے اسلام لانے سے خلقِ کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر روح البیان الکہف  الآیۃ : ۲۸، ۵ / ۲۳۸)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرمایا گیا کہ اپنی جان کو ان لوگوں  کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب عزوجل کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں یعنی جو اِخلاص کے ساتھ ہر وقت اللّٰہ عزوجل کی طاعت میں  مشغول رہتے ہیں ۔

اِس آیتِ مبارکہ سے درج ذیل مسائل معلوم ہوئے : ⬇

(1) نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت خود ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے جیسے یہاں  ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خود تربیت فرمائی اور آپ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی ۔

(2) یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں  کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں اور بروں کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں ۔

(3) یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرنا بہت افضل ہے ۔ قرآنِ پاک میں  بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ، جیسے اِس آیت میں  بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں  میں ہے ۔

(4) یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صالحین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کا حکم دیا گیا ہے ۔

(5) صالحین کی دو علامتیں  بھی اس آیت میں  بیان فرمائیں اوّل یہ کہ وہ صبح و شام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا ذکر کرتے ہیں  اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔

(6) مزید اِس آیت میں  دنیا داروں  کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں  حکم ہے ۔ اس حکم میں قیامت تک کے مسلمانوں  کو ہدایت ہے کہ غافلوں ، متکبروں ، ریاکاروں ، مالداروں کی نہ مانا کریں اور ان کے مال ودولت پر نظریں نہ جمائیں بلکہ مخلص ، صالح ، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں ۔ دنیا کی محبت میں  گرفتار مالداروں کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں  پڑ جاتے ہیں اسی لیے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حکم حدیث ِ مبارک میں  ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ میری امت میں  سے کچھ لوگ علمِ دین سیکھیں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس اس لیے جاتے ہیں  تاکہ ان سے دنیا حاصل کرلیں اور اپنے دین کو ان سے جدا رکھتے ہیں حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ کانٹے والے درخت سے پھل توڑنے میں کانٹے ہی ہاتھ آتے ہیں اسی طرح وہ ان کے قرب میں  گناہوں سے نہیں  بچ سکتے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب السنّۃ باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ ۱ / ۱۶۶ الحدیث : ۲۵۵،چشتی)

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ اگر علماء علم حاصل کرنے کے بعد اسے محفوظ رکھتے اور اسے اہل لوگوں  کے سامنے پیش کرتے تو اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے لیکن انہوں  نے اسے دنیا والوں  پر اپنی دنیا حاصل کرنے کےلیے خرچ کیا اس وجہ سے ذلیل ہو گئے ۔ میں  نے رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ’’ جس شخص کی ساری فکر آخرت کے متعلق ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا کے غموں  سے اس کی کفایت فرمائے گا اور جو شخص دنیاوی اُمور میں  پریشان ہوتا رہے گا اللّٰہ تعالیٰ کو اس کی پروا  نہیں  چاہے وہ کسی وادی میں  بھی گر کر مرے ۔(سنن ابن ماجہ کتاب السنّۃ باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ ، ۱ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۵۷)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے نہیں  بلکہ دنیاوی مَقاصد کےلیے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو ہر گز نہیں  پائے گا ۔ (سنن ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴،چشتی)

آیت کریمہ میں مذکور یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ کے دو معانی ہیں : ⬇

عالمانہ معنی تو یہ ہے کہ ان لوگوں کی رفاقت ، معیت اور سنگت میں جم کر بیٹھ جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے اور ہر وقت اُس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں ۔

عاشقانہ معنی یہ ہے کہ چونکہ ’وَجْہٌ‘ چہرے کو کہتے ہیں ، اس لیے صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن لوگوں کی سنگت میں جم جا جو صبح شام رب کو یاد کرتے ہیں ، یہ لوگ رب کو دنیا اور جنت کےلیے یاد نہیں کرتے بلکہ صرف رب کے مکھڑے کے طلبگار ہیں ۔

پھر فرمایا : وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا ۔
ترجمہ : کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے ؟ ۔ (سورہ الکهف ، 18 : 28)

یعنی اُن کے چہرے پر توجہ مرکوز رکھ اور ان کی طرف سے نگاہیں نہ ہٹاؤ ۔ ایسے لوگوں کے چہروں سے اگر نگاہیں ہٹ گئیں تو دنیا کے طالب بن جاٶ گے ۔

آیت کریمہ کے آخری حصہ میں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کے دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیے ہیں، ان کی اطاعت نہ کریں۔ یہ آیت کریمہ ’عبارۃ النص‘ ہے، اس سے ’اشارۃ النص‘ یہ ہے کہ ُان کی اطاعت کر جن کے دل ذاکر ہیں۔ یعنی غافلوں کے پیچھے نہیں بلکہ ذاکروں کے پیچھے چلا کریں۔ جو رب کے ذکر سے غافل ہے، اس کا قلب مردہ ہے، اُس کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ قلب حییّ کے پیچھے جاؤ ۔

قرآن مجید کے اس حکم کی تصریح فرماتے ہوئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : ألا أنبئکم بخیارکم ’ کیا میں تمہیں’خیار‘ بھلے لوگوں (اونچے درجے کے حاملین) کی خبر نہ دے دوں ؟ ‘

یعنی جو تم میں بہت اچھے لوگ ہیں، میں تمہیں اُن کی پہچان نہ بتاؤں کہ یہ کون ہوتے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمایئے ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خیارکم الذین إذا رؤوا ذکر ﷲ ۔
’ اُن کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب اُن کے چہروں کو دیکھو تو ﷲ یاد آجائے ‘ ۔ (سنن ابن ماجه، کتاب الزهد باب من لا یؤبه له جلد 2 صفحہ نمبر 1339 رقم الحدیث : 4119،چشتی)

جنہیں دیکھنے سے ﷲ یاد نہ آئے ، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ان کی عزت و احترام ضرور کریں ، سلام کریں لیکن ان سے مریدی کا تعلق نہ بنائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’خیار‘ کی جو پہچان بیان فرمائی ہے، آج اسے پیمانہ بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ مقصود ﷲ کی یاد دلانا ہے ، اپنی یاد کرانا نہیں ۔

سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ’غنیۃ الطالبین‘ میں مرید کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جو ہر شے کو چھوڑ کر صرف ﷲ کا ارادہ کر لے، اُس کو مرید کہتے ہیں ۔

یعنی مرید وہ ہے جو خالصتاً اللہ کا ارادہ کرے اور شیخ و مرشد وہ ہے جو ہر شے سے بندے کے قلب کا دھیان ہٹا کر اس کے دل کا تعلق صرف ﷲ سے جوڑ دے ، جو شخص اللہ کے بجائے اپنا ارادہ کرائے ، وہ سیدنا غوث الاعظم کی مذکورہ تعریف کے مطابق نہ مرید ہے اور نہ ہی شیخ و مرشد ۔

افسوس ! ہمارے تصورات خراب ہیں ، ہمارا دھیان ﷲ کی طرف نہیں اور جس کی طرف ہم دھیان کرتے ہیں اُس کا دھیان ہماری جیب کی طرف ہوتا ہے ۔ پیسے والا ہو تو اُسے قریب بٹھاتے ہیں ، کھانے کھلاتے ہیں اور جب کوئی غریب مرید آجائے تو اس سے سلام لینا تک گوارا نہیں کرتے ۔

آج کل کثیر تعداد میں کئی مشائخ اور پیرانِ کرام ایسے ہیں کہ یہ لوگ اپنے ساتھ مارکیٹنگ مینجرز بھی رکھتے ہیں جو اپنے اپنے پیروں کی کرامتیں سناتے ہیں اور ہر ایک اپنے پیر کے غوث ، سلطان الفقر اور قطب ہونے کا دعویدار ہوتے ہیں ۔ سمجھ نہیں آتی کہ مردِ کامل کون ہوتا ہے اور پیر کامل کون ہے ؟ اور ان کی پہچان پہچان ۔

پیر کامل کی بڑی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ پیر کامل وہ ہے جسے مریدوں کی تلاش نہ ہو ۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہا : ⬇

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق

حرص و لالچِ دنیا ، عہدہ و منصب اور اس دنیا کے ٹکوں کے پیچھے مارے مارے پھرنا ، مومن کے شایانِ شان نہیں ۔ مومن اور دنیا کے رشتہ کی مثال بندے اور سائے کی سی ہے ۔ جس طرح سایہ بندے کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے ، اسی طرح بندۂ مومن جب دنیا کی طرف سے منہ موڑ کر چلتا ہے تو دنیا ایک سایہ کی طرح اس کے پیچھے چلتی ہے ۔ پس مرشدِ کامل اور پیرِ کامل کی علامت یہ ہے کہ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرے ۔ جو مریدوں کی تلاش میں مارا مار ا پھرتا ہے وہ تو ابھی خود مریدوں کا مرید ہے ، شیخ و مرشد کیسے ہو سکتا ہے ؟ یعنی وہ تو ابھی مریدوں کا ارادہ کیے ان کے پیچھے پھرتا ہے ، رب کا مرید کب بنے گا ؟ اسے ابھی مریدوں کی تلاش ہے ، رب کی تلاش کا سفر کب شروع ہو گا ؟

ولایت اور ولی کا معنی و مفہوم
ولایت کے چار معنی ہیں اور اس رو سے ولی کے بھی چار معنی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں : ⬇

ولایت کا پہلا معنی ’محبت‘ ہے ۔ اس لحاظ سے ولی محبت کرنے والے کو کہتے ہیں ۔

ولایت کا دوسرا معنی ’قربت‘ ہے ۔ اس رو سے ولی ’اقرب‘ یعنی قریب والے کو کہتے ہیں ۔ ماں باپ ولی ہیں ، دادا ، نانا ولی ہیں ۔ اس لیے اقرباء کو اولیاء کہتے ہیں ۔

ولایت کا تیسرا معنی ’کفالت‘ ہے ۔ مثلاً : جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں فلاں کی ولایت میں ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی نگرانی میں ہے ۔

ولایت کا چوتھا معنی مدد و نصرت بھی ہے ۔ اس معنی کی رو سے ولی ، مدد گار کو کہتے ہیں ۔
ولایت کے مذکورہ چار معانی کی روشنی میں ہی ولی کا معنی متعین ہوتا ہے ۔ ان معانی کی وضاحت : ⬇

1 ۔ ولی : اللہ کا محب و محبوب بندہ ۔ ولایت کے پہلے معنی ’محبت و مؤدت‘ کے لحاظ سے ولی وہ شخص ہے جس کی محبت خالصتاً ﷲ کےلیے ہو جائے اور نتیجتاً ﷲ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ ’ وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔ (سورہ المائدة، 5: 54)

معلوم ہوا کہ جب تک دو طرفہ رشتۂ محبت بین العبد و المعبود ، بین الخالق و المخلوق قائم نہ ہو جائے ، اس وقت تک بندہ ﷲ کا ولی نہیں بنتا ۔ گویا جو بندہ خالصتاً ﷲ سے محبت کرے اور اس کی محبت کا مرکز و محور ﷲ کی ذات ہو جائے تو اس کو ولی کہتے ہیں ۔

2 ۔ ولی : اللہ کا مقرب ترین بندہ
ولایت کے دوسرے معنی ’قربت‘ کے تناظر میں ولی کا معنی یہ ہوگا کہ جس شخص کو ﷲ اپنے قریب کر لے اور وہ بندہ ﷲ کے قریب ہو جائے یعنی دنیا سے اس کا دل دور ہو جائے ، حرص ، لالچ ، دنیا کی رغبت ، دنیا کی ہوس ، حسد ، کبر ، بغض ، عناد ، دشمنیوں ، غیبتوں ، چغلیوں ، لوٹ مار ، گناہ ، فسق و فجور ، الغرض ہر شے سے اس کا دل دور ہو جائے اور ہر چیز سے دور ہو کر وہ ظاہراً و باطناً صرف ﷲ کے قریب ہو جائے ۔

جب بندے کو ظاہر و باطن میں ﷲ کا قرب مل جاتا ہے اور اس کا قلب ، نفس ، روح ، ظاہر ، باطن اللہ کے قریب ہو جاتا ہے تو وہ قربتِ الٰہیہ کی وجہ سے ﷲ کا ولی ہو جاتا ہے اور پھر ﷲ بھی اس کے قریب ہو جاتا ہے ۔ حدیث مبارک کے مطابق جب یہ بندہ ایک قدم اللہ کی طرف بڑھتا ہے تو ﷲ اس کی طرف اپنی شان کے لائق کئی قدم بڑھتا ہے ۔ پس ﷲ کے اس قرب کی وجہ سے وہ بندہ ولایت کے مقام پر فائز ہوتا ہے ۔

3 ۔ ولی : اللہ کی رضا پر راضی بندہ ۔ ولایت کا تیسرا معنی ’کفالت اور سپردگی‘ ہے ۔ اس معنی کی رو سے جو بندہ خود کو ﷲ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی چھوڑ دے ، اﷲ کی مرضی کو اپنے اوپر نافذ کر دے ، اپنی ترجیحات کو ترک کر دے اور ﷲ کے امر اور شریعت کی ترجیحات کو غالب کردے ، حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور اللہ کی رضا و ناراضی کو ہر قدم پر ملحوظ رکھے ، اسے ولی کہتے ہیں ۔

تمام امور میں ﷲ کے اوامر و نواہی اور معاملاتِ زندگی میں بندہ جب شریعت کے احکام کی پیروی اس طرح کرے کہ اپنی زندگی ﷲ کے امر کی نگرانی اور کفالت میں دے دے ، خود سے فناء ہو جائے اور خود کو ﷲ کے امر کے سپرد کر دے تو ﷲ اس کا کفیل بن جاتا ہے ۔

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بندے کو چاہیے کہ خود کو ﷲ کی کفالت ، نگرانی میں اس طرح دے دے جیسے مُردہ غسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔

یعنی جس طرح غسّال میت کو نہلاتا ہے ، اسے الٹا سیدھا ، دائیں بائیں پلٹتا ہے ، اس وقت اس مُردے کی مرضی نہیں رہتی بلکہ وہ مکمل طور پر غسّال کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو اپنے مولیٰ کے سپرد کردے اور اُس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس کی تعلیمات و احکامات کو اپنے ہر معاملہ پر غالب کر دے ۔ اس لیے کہ مُردہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کی مرضی نہ رہے ، جس کی اپنی حرکت اور ترجیح نہ رہے ، غسّال جیسے چاہے ، اپنی مرضی مُردے پر چلاتا ہے ۔ گویا جب تک بندہ بشکلِ مُردہ اپنے آپ کو ﷲ کے امر کے سپرد نہ کر دے ، ولایت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

جب اللہ کا امر اس پر اس طرح چلے جیسے غسّال کا امر مُردے پر چلتا ہے تو اللہ کا امر چاہے اسے الٹائے یا پلٹائے ، بیمار کرے یا صحتمند کرے ، عزت دے یا عزت لے لے، نعمت دے یا چھین لے ، وہ جس حال میں رکھے ، بندہ اپنی مرضی کو فنا اور ﷲ کی مرضی کے ساتھ بقا ہو جائے تب وہ اللہ کی کامل کفالت اور نگرانی میں ہوتا ہے اور نتیجتاً کائنات کی ہر چیز اس بندے کی مطیع ہو جاتی ہے ۔

حدیثِ قدسی : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے : وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبه فاذا احببته کنت سمعه الذی یسمع به و بصره الذی یبصربه و یده التی یبطش بها ، ورجله التی یمشی بها ۔
ترجمہ : میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقائق، باب التواضع، جلد 5 صفحہ 2384 ، رقم : 6137،چشتی)

اب چونکہ اس کے اپنے کان اور سماعت نہ رہی ، لہذا اب وہ وہی کچھ سنتا ہے جو ﷲ اُسے سنانا چاہتا ہے اور جو بات ﷲ اُسے سنانا نہیں چاہتا ، اس سے وہ بہرہ ہو جاتا ہے۔ وہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو ﷲ دکھانا چاہتا ہے اور جس کو دیکھنے سے ﷲ نے روکا ہے، اس سے اس کی آنکھ ہی بند ہو جاتی ہے ۔ الغرض اُس کے ہاتھ ، پاٶں اور دل تک اللہ کی رضا کے تابع ہوجاتے ہیں اور وہی امور سر انجام دیتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے ۔ جب بندہ اس طرح کاملاً ﷲ کی کفالت و نگرانی میں آجائے اور ﷲ تعالیٰ اسے اپنی نگرانی میں لے لے تو اس مقام کو ولایت اور اس بندے کو ولی کہتے ہیں ۔

4۔ ولی : اللہ کی مدد و نصرت کا حامل بندہ ۔ ولایت کا چوتھا معنی ’نصرت و مدد‘ کے ہیں اور ولی مدد گار کو کہتے ہیں ۔ ولی وہ ہوتا ہے جو اپنا مدد گار خود نہیں رہتا بلکہ ﷲ کی مدد سے جیتا ہے ، ﷲ کی مدد سے رہتا ہے اور ﷲ اس کا مدد گار ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَهُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ ’ اور وہی صلحاء کی بھی نصرت و ولایت فرماتا ہے ۔ (الاعراف، 7: 196)

ایک اور مقام پر فرمایا : ذٰلِکَ بِاَنَّ ﷲَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ’ یہ اس وجہ سے ہے کہ ﷲ ان لوگوں کا ولی و مددگار ہے جو ایمان لائے ہیں ۔ (سورہ محمد ، 47 : 11)

اللہ جب اپنے ولی کا مدد گار ہو جاتا ہے تو پھر بندہ اپنی مدد آپ نہیں کرتا ۔ ﷲ جو چاہے کرے اور جو نہ چاہے ، نہ کرے ، بندہ کسی بھی حالت میں اس کا شکوہ نہیں کرتا ۔ ﷲ کے بندہ اور ولی کی مثال ایک کلہاڑے کی سی ہے ۔ کلہاڑا سارے جنگل کو کاٹتا ہے مگر اپنے دستے کو نہیں کاٹ سکتا ، اس لیے کہ جب تک دستہ اس کلہاڑے کے اندر ہے ، اُسے اس ہی کے ذریعہ نہیں کاٹا جا سکتا ۔ جس طرح کلہاڑا اپنا دستہ خود نہیں کاٹ سکتا ، اسی طرح ولی ﷲ باقی پورے عالم کا مددگار ہوتا ہے مگر اپنی ذات کا مدد گار نہیں رہتا ۔ وہ خود اگر بیمار ہو گا تو خود کو دم نہیں کرے گا بلکہ ﷲ کی مشیت پر چھوڑ دے گا اور طریقِ سنت پر عمل کرے گا اور علاج کروائے گا جبکہ باقی سارے بیماروں کو اس کے ایک دم سے اللہ شفا یابی دیتا رہے گا ۔ اسی طرح اگر وہ خود فاقے میں ہے تو کئی دن فاقے میں گزار دیتا ہے لیکن اپنے لیے روحانی توجہات سے اسباب حاصل نہیں کرے گا لیکن اگر لوگ فاقہ کی حالت میں اس کے پاس آئیں گے تو اس کی دعا سے ان کی تقدیریں بدلتی رہیں گی ۔ یعنی ولایت کا مطلب ہے کہ بندہ اپنا مدد گار خود نہیں رہتا ، بلکہ اللہ اس کا مددگار ہو جاتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں کوئی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے بیٹھے رہے اور اس کو کوئی بھی جواب نہ دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سرِ انور نیچے کر کے مسکراتے رہے ۔ کچھ دیر گزری تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کی بات کا جواب دیا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مجلس سے اٹھ کر گھر تشریف لے گئے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید میرے جواب دینے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ناگوار محسوس فرمایا ، اس لیے مجلس سے چلے گئے ہیں ۔ عرض کیا : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا ماجرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے آئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر ! جب تک وہ شحص تمہیں گالیاں دے رہا تھا اور تم خاموش تھے ، یعنی اپنا دفاع خود نہیں کر رہے تھے ، اپنی مدد خود نہیں کر رہے تھے تو ﷲ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا تھا اور وہ تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے ۔ میں فرشتوں کے اس جواب کو سن کر مسکرا رہا تھا لیکن جب تم نے اس شخص کی ایک بات کا جواب دیا تو ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب یہ خود اپنا کفیل ہو گیا ہے ، اپنا دفاع خود کرنے لگ گیا ہے لہٰذا فرشتو ! تم واپس آجاؤ ۔ پس اس پر میں دُکھی ہو کر گھر چلا آیا ۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ﷲ کا ولی اگر اپنا دفاع خود کرے تو ﷲ اس کے دفاع اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے ۔ اس لیے ﷲ کا ولی اپنا دفاع اور مدد خود نہیں کرتا ، لوگ جو چاہیں کریں ، وہ خاموش رہتا ہے ۔ اس صورت حال میں رب خود اس کا دفاع بھی کرتا ہے اور اس کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان بھی کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے ولی کا دل ہر وقت دعا گو ہی رہتا ہے ، ولی ہر ایک سے مسکرا کر ملتا ہے ، دعا دیتا ہے ، کسی سے غیض و غضب نہیں کرتا ۔

امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو علی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں : ولی وہ ہے جو اپنے حال اور جان سے فنا ہو جائے اور مشاہدۂ حق میں اس کو بقاء نصیب ہو جائے یعنی وہ اپنے معاملات کا خود حاکم اور متصرف نہیں ہوتا بلکہ توکل اور تفویض کے اس درجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملات سے علی طریق التوکل ، علی طریق الرضا، علی طریق التفویض فنا ہو جاتا ہے ۔ اپنی پسند و نا پسند کو فنا کر دیتا ہے ، کسی کی کوئی چغلی ، شکایت ، نفس کی اشتعال انگیزی ، کسی پر کیچڑ اچھالنا ، کسی کے اوپر گفتگو اور نقدو جرح کرنا ، یہ صوفیا اور اولیاءاللہ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ نفس اور شیطان کا کام ہے ۔ جب ولی اپنے حال سے فانی ہو گیا تو اسے اب کسی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ کسی کے بارے تجسس نہیں کرتا بلکہ اللہ کے مشاہدہ ، امر اور اس کی رضا میں باقی ہوتا ہے ۔

یہاں تک کہ اللہ اس کے تمام امور کی نگرانی اپنے ذمے لے لیتا ہے ۔ اللہ اس کے امور کی نگرانی اس طرح فرماتا ہے کہ اُسے اپنے احوال کی خبر نہیں رہتی اور وہ کسی اور جگہ قرار نہیں پاتا ، اس کی طبیعت پنجرے میں بند پرندے کی طرح تڑپتی رہتی ہے ۔

علاماتِ اولیاءاللہ

اولیاءاللہ و صوفیاء سے پوچھا گیا کہ ولی کی کیا علامت ہے ؟ تو کبار اولیاءاللہ نے فرمایا : علامة الولی ثلاثة: شغله باﷲ وفراره الی الله وهمه ﷲ ۔
ترجمہ : اولیاء کی علامتیں تین ہیں  ۔ شغلہ باللہ : جس کا قلب و باطن، روح ، ارادہ ، خیال ، توبہ ، محبت اور دھیان ہر وقت ﷲ کے ساتھ مشغول رہے ۔ ﷲ کے سوا اس کا دل اور ذہن کسی اور سے مشغول نہیں ہوتا ۔ لہٰذا جب کسی سے مشغول نہیں ہوگا تو رذائلِ اخلاق غیبت ، چغلی ، حسد ، مسابقت ، نفرت ، تہمت ، الزام تراشی ، حرص ، طمع ، کبر ، نخوت ، لالچ سے محفوظ رہے گا ۔
و فرار الی ﷲ : اس کا دل زہد عن الدنیا سے ایسا مالا مال ہوتا ہے کہ دل ہر شے سے بھاگ کر ﷲ کی طرف راجع ہو جاتا ہے ۔ ﷲ کے تعلق کے سوا اسے سکون نہیں ملتا ، ﷲ کے انس کے سوا اسے قرار نہیں ملتا اور ﷲ کے وصال کے سوا اسے اطمینان نہیں ملتا ۔
وھمہ ﷲ : اس کا فکر و خیال اور ارادہ و ہمت ہر وقت خالصتاً ﷲ کےلیے رہتی ہے ۔

حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بندہ اگر یہ مقام چاہتا ہے کہ اُسے ﷲ کی دوستی اور صفائے قلب نصیب ہوجائے تو : کن مع ﷲ بلا خلق و کن مع الخلق بلا النفس ’ تصوف میں اعلیٰ درجہ اور ولایت یہ ہے کہ ﷲ کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ مخلوق درمیان میں نہ رہے اور مخلوق کے ساتھ معاملہ ایسا ہو کہ نفس درمیان میں نہ رہے ۔

یعنی ﷲ کے معاملے سے اگر مخلوق درمیان میں سے نکل جائے اور مخلوق کے ساتھ معاملے میں نفس ، ’میں‘ نکل جائے تو بندہ ولی ہو جاتا ہے ۔ اگر ﷲ کی رضا کےلیے ہم کسی پر احسان کریں تو درمیان سے مخلوق اس طرح نکل جائے کہ اب جس پر احسان کیا گیا ہے بھلے وہ ہمیں گالی دے لیکن ہماری طبیعت میں ملال نہ آئے ، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کےلیے اس پر احسان نہیں کیا ۔ جب اللہ کی رضا کےلیے کسی کے ساتھ بھلائی کی تو اس کی زیادتی سے ہمیں رنج نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ہم نے مخلوق کےلیے نہیں بلکہ ﷲ کےلیے اس پر احسان کیا ۔ الغرض ﷲ کے ساتھ جو معاملہ کیا ، اس میں مخلوق نظر نہ آئے اور اگر کوئی معاملہ مخلوق کے ساتھ کیا تو درمیان میں نفس نہ آئے تو اس کو ولایت کہتے ہیں ۔

جب ہم ولایت کے مذکورہ تمام معانی و مفاہیم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ آسمانِ ولایت پر سب سے بلند و ارفع ستارے کی مانند چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہم اکثر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے ان اقوال اور کرامات کو بیان کرتے ہیں جو صوفیاء و اولیاءاللہ کی کتابوں میں ہیں مگر یہ امر ذہن نشین رہے کہ محدثین ، فقہاء اور ائمہ علم نے بھی تواتر کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے علمی و روحانی مقام کو بیان فرمایا ہے ۔ صرف عقیدت مندوں ہی نے آپ رضی اللہ عنہ کا یہ مقام نہیں بنارکھا بلکہ جلیل القدر ائمہ علم ، ائمہ تفسیر اور ائمہ حدیث نے بھی اسے بیان کیا ہے ۔

امام یافعی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات کے تواتر پر اجماع ہے اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔

اسی طرح امام ابو الحسن علی بن جریر شافعی ، امان ملا علی قاری ، امام ذہبی اور دیگر ائمہ علیہم الرحمہ نے بھی آپ کے علمی و روحانی مقام کو بیان کیا ہے : ⬇

حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف خود محدث ، مفسر اور امام تفسیر ہیں بلکہ آپ کے دس کے دس صاحبزادے وقت کے عظیم محدث اور فقیہ ہوئے ۔ آپ کے نہ صرف صاحبزادے بلکہ پوتے ، پوتیاں اور پڑپوتے پڑپوتیاں بھی محدث ہیں ۔ صاحب قلائد الجواہر نے اپنی زندگی میں حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے 12 پشتوں تک کے احوال کا مطالعہ کیا ، وہ لکھتے ہیں کہ : آپ رضی اللہ عنہ کی بارہ پشتوں تک کے افراد میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی عظیم مفسرین ، محدثین ، فقہاء اور ائمہ علم ہوئی ہیں ۔ یعنی اتنا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سرکارِ غوث پاک کی اولاد نے ان کے فیض سے تقسیم کیا ہے ۔
آپ کی مجلسِ درس میں تین سو سے زائد کبار اولیاء موجود ہوتے اور سینکڑوں کی تعداد میں رجال الغیب موجود ہوتے۔ آپ نے امرِ الٰہی کے تحت جب یہ ارشاد فرمایا : قدمی هذه علی رقبة کل ولی ﷲ ’ میرا یہ قدم روئے زمین کے ہر ولی کی گردن پر ہے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کے اعلان کے وقت جتنے اولیاء آپ کی مجلس میں موجود تھے انہوں نے نہ صرف اپنے سروں کو جھکا کر اطاعت کا اعلان و اظہار کیا بلکہ اس وقت روئے زمین پر جتنے بھی اولیاء و صلحاء موجود تھے، انہوں نے بھی اپنے اپنے مقامات پر آپ رضی اللہ عنہ کی ولایتِ کبریٰ کے سامنے سرِتسلیم خم کیا۔

آپ رضی اللہ عنہ کے اس اعلان پر حضرت علی بن الحیطی رحمۃ اللہ علیہ نے عملاً اپنا سر نیچے کر کے آپ کا پائوں اپنی گردن پر رکھ لیا اور تمام اولیاء نے گردنیں جھکا دیں۔

امام علی بن البرکات بیان کرتے ہیں کہ میرے عم بزرگ امام عدی بن المسافر بیان کرتے تھے کہ اولین و آخرین اولیاء میں سے قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ کہنے کا امر سوائے حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کو نہیں ہوا کیونکہ آپ کا ولایت میں مقام مقامِ فرد تھا۔

سلسلہ رفاعیہ کے شیخ امام رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحتاً فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سواء کسی کو یہ امر نہ تھا۔ آپ جب امرِ الٰہی سے یہ اعلان فرما رہے تھے تو اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ کثرتِ کرامات میں آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کے طریق سے ہٹ کر کسی شخص کو ولایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کے جملہ طرق اور سلاسل حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔

اللہ کا ولی سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا ’لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْن‘ کا فرمان الہٰی ان کی زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہیں کسی کا طمع اور لالچ نہیں ہوتا۔حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بنو عباس کے خلفاء حکمران رہے۔ آپ ان حکمرانوں کے غلط کاموں پر فوراً گرفت فرماتے اور ان کی اصلاح فرماتے۔ ان حکمرانوں سے کسی بھی قسم کا کوئی خوف کبھی آپ کے دامن گیر نہ رہا۔ آپ خطاب کے دوران منبر پر ان خلفاء کو ’یا نخل‘، (اے کھجور کے تنے) کہہ کر مخاطب فرماتے، یعنی آپ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ آپ ان سے کلیتاً بےنیاز رہتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو کسی ایک دن بھی کسی بادشاہ یا حکمران کے در پر نہیں دیکھا گیا بلکہ خلفا آپ کی مجلس میں سائل بن کر بیٹھتے۔ آپ رضی اللہ عنہ ان حکمرانوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرماتے:
یا نخل لا تتعدی، اقطع رأسک.

’اے کھجور کی شاخ! حد سے نہ بڑھ، میں تمہارا سر قلم کر دوں گا۔‘

آپ کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ خلیفہ المستنجد باللہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں آیا اور آپ کا وعظ سنتا رہا، جب اختتام ہوا تو آگے بڑھا اور بیس تھیلیاں دینار آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

انہیں لے جاؤ، مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔ اس نے جب بہت اصرار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دو تھیلیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور انہیں ہاتھ میں اٹھا کر نچوڑا تو دینار کی بھری ہوئی دونوں تھیلیوں سے خون ٹپکنے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اگر مجھے کئی امور کا حیا نہ ہوتا تو میں انہیں اتنا نچوڑتا کہ یہ خون تمہارے محلات تک پہنچ جاتا۔ ظالم تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور غریب لوگوں اور رعایا کا خون چوستے ہو، ان کا مال لوٹتے ہو اور ان کا نذرانہ بنا کر میرے پاس لے آتے ہو۔

یہ حضور غوثِ اعظمص کی ولایت کا مقام ہے کہ ماسوا اللہ سے بے نیازی اور بے خوفی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔

تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ہم سابقہ مضامین میں بحوالہ عرض کر چکے ہیں انہیں کتب سے ماخوذ خلاصةً پیشِ خدمت ہیں : ⬇

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ تصوف کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:بندے تو شوق اور اشتیاق سے اللہ کو یاد کر، وہ تجھے تقرب اور وصال سے یاد کرے گا۔ تو حمد و ثنا سے اسے یاد کر، وہ تمہیں انعام و احسان سے یاد کرے گا۔ تو اسے توبہ سے یاد کر، وہ تجھے بخشش سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ غفلت سے یاد کر، وہ تجھے ترکِ مہلت سے یاد کرے گا۔ تو اسے ندامت سے یاد کر، وہ تجھے کرامت سے یاد کرے گا۔ تو اسے معذرت سے یاد کر، وہ تجھے مغفرت سے یاد کرے گا۔ تو اسے اخلاص سے یاد کر، وہ تجھے نفس سے خلاصی سے یاد کرے گا۔ تو اسے تنگ دستی میں یاد کر، وہ تجھے فراخ دستی سے یاد کرے گا۔ تو اسے فنا ہوکر یاد کر، وہ تجھے بقا دے کر یاد کرے گا۔ تو اسے صدق سے یاد کر، وہ تجھے رزق سے یاد کرے گا۔ تو اسے تعظیم سے یاد کر، وہ تجھے تکریم سے یاد کرے گا۔ تو اسے ترکِ خطا سے یاد کر، وہ تجھے بخشش و عطا سے یاد کرے گا۔

توکل کی تعلیم دیتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے بندے تو تمام اغیار کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے لو لگا لے اور ظاہری اسباب کو بھول کر مسبب میں گم ہو جا۔ وہ مسبب تجھے اسباب سے بالاتر و بے نیاز کر دے گا‘۔

یہ مقامِ توکل ہے اور توکل کا مقام حقیقتِ اخلاص کے بغیر نہیں ملتا اور حقیقتِ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندہ عمل کرے مگر کسی عمل کا معاوضہ اور اجر و جزا طلب نہ کرے۔ بندہ جب تک دنیا اور آخرت کے ہر معاوضے سے آزاد نہ ہوجائے، اس کا قلب و باطن اللہ تعالیٰ سے متصل نہیں ہوتا۔

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے الفتح الربانی میں ارشاد فرمایا:
لوگو! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہو گیا، اقوال بڑھ گئے اور اعمال کم ہو گئے ہیں اور جس میں نفاق بڑھ جائے، اخلاص کم ہو جائے تو وہ بندے قربِ حق کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں‘۔

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے بغداد کے منبر پر ستر ہزار افراد، صلحا اور سامعین کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’لوگو! یہ دنیا ایک بازار ہے تھوڑی دیر کے بعد اس بازار میں کوئی باقی نہیں رہے گا۔ دکانیں بند ہونے کو ہیں، یہ جو چہل پہل بازارِ دنیا میں نظر آ رہی ہے، نہیں رہے گی۔ لوگو! تم اس دنیا کے بازار سے وہ سودا خریدو جس کی آخرت کے بازار میں ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس بازار کے بند ہونے کے بعد ایک اگلا بازار کھلنے والا ہے‘۔

اس دنیاوی بازار میں کہیں شہواتِ نفسانی کا سامان پڑا ہے، کہیں لذاتِ بدنی کے سامان ہیں، کہیں تکبر، حرص، نفس، لالچ، طمع، بغض اور عداوت کی دکان ہے اور کہیں غیبت، نفاق، دنیا طلبی، فسق و فجور، بربادی، زنا، چوری، گناہ، کذب اور منافقت کی دکانیں ہیں۔ الغرض یہاں ساری نافرمانیوں، معاصی اور گناہوں کی دکانیں سجی ہیں۔

آج انسان اِن کی خریداری کرتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ جب اگلے بازار میں جائے گا اور اس سودے کو بیچنا چاہے گا تو وہاں تو خریدار اللہ ہے، یہ سودا وہاں فروخت نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ کو یہ سودا نہیں چاہیے۔

وہاں کا سودا یہ ہے کہ وہ خریدار (اللہ) یہ چاہتا ہے کہ دنیا سے قیام اللیل اور رات کے اندھیرے میں سجدوں کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ توبہ، گریہ و زاری، تقویٰ، زہد اور ورع کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ یقین، توکل، اللہ کی اطاعت، عبادت بندگی، پرہیزگاری، ترکِ گناہ و معصیت کا سودا لے کر جاؤ ۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی، اتباع، متابعت اور محبت کا سودا لے کر جاؤ۔۔۔ الغرض وہ سودے خریدو اور وہ سامان لے کر جاؤ کہ اگلے بازار کے کھلتے ہی وہاں کا خریدار اسے لے لے، ورنہ حسرت کے ساتھ تکتے رہ جاؤ گے اور سودا نہیں بکے گا۔

حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگو! اپنے قلوب کی اصلاح کر لو۔ افسوس! تم وعظ اور ذکر کی مجلسوں میں سیر کرنے کے لیے آتے ہو، علاج و معالجہ کے لیے نہیں آتے۔ مذاق اڑانے، ہنسنے اور کھیلنے آتے ہو، رونے نہیں آتے‘۔

ایک اور مقام پر فرمایا:اپنی عادت کے قیدی نہ بنو، یہ قید تمہیں آزادی کے مرتبے سے دور لے جائے گی۔ پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرو تاکہ دوسروں کو نصیحت کرنے کے قابل ہو سکو‘۔

خود جو ڈوبا جا رہا ہو وہ کسی اور کو کیا بچائے گا۔ جو خود نابینا و اندھا ہو، وہ راہ دکھانے کے لیے کسی اور کا ہاتھ کیا تھامے گا۔ دریا سے ڈوبنے والوں کو وہی نکال سکتا ہے جو خود ڈوبنے سے بچا ہوا ہو۔ اللہ کی طرف لوگوں کو وہی پہنچا سکتا ہے جو خود معرفت حاصل کر چکا ہو۔ راستہ وہی بتا سکتا ہے جو سیدھے راستے پر خود جا رہا ہو۔

توحید و شرک کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:بندے تجھ پر افسوس کہ تیری زبان پر توحید ہے اور تیرے قلب کے کوٹھے میں شرک ہے۔ تیری زبان پر تقویٰ ہے اور تیرے دل کے کوٹھے کے اندر فسق و فجور ہے۔ ظاہر و باطن کو ایک کر لے۔ اگر ظاہر و باطن ایک ہو جائے تو اس ظاہر و باطن کی موافقت کا نام ولایت ہے۔ اسی موافقت کا نام تصوف اور فقر ہے۔

حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص آپ رضی اللہ عنہ کا مرید بھی نہ ہو، آپ سے بیعت بھی نہ کر سکا ہو، آپ سے خرقہ بھی نہ پہن سکا ہو یعنی یہ تقاضا بھی پورا نہ کیا ہو مگر آپ سے محبت کرے اور آپ کا ارادہ رکھے تو اس کا حال کیا ہو گا ؟ فرمایا:جس نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی اور جس نے میرا خرقہ بھی نہیں پہنا مگر مجھ سے محبت اور اخلاص کے ساتھ اور میری تعلیمات پر عمل کے ساتھ میری طرف ارادہ کیا، قیامت کے دن وہ میرے مریدوں میں شامل ہو گا‘۔

صاحب قلائد الجواہر فرماتے ہیں کہ : حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا کہ کوئی میرے مدرسہ کے سامنے سے گزر جائے اور محبت کی ایک نگاہ سے میرے مدرسہ کے در و دیوار کو دیکھ لے تو قیامت کے دن اللہ اس کے عذاب میں بھی تخفیف کر دے گا۔

اپنے ساتھ محبت کرنے والوں اور مریدین کی دست گیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لو کان مریدی فی المشرق وانا بالمغرب لسترته.
’اگر میرا مرید مشرق میں ہو اور اس کا ستر کھل جائے اور میں مغرب میں ہوں تو میں مغرب میں ہو کر بھی مشرق میں موجود اپنے مرید کی ستر پوشی کروں گا‘۔

ایک اور مقام پر فرمایا:جو میرے ساتھ منسلک ہیں اور میرے ساتھ ان کی نسبت ہے اور میرے طریق پر چلتے ہیں، میری تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو میں ہمہ وقت ان کی بخشش اور مغفرت کے لیے اللہ کے حضور التجائیں کرتا رہتا ہوں اور ان کے لیے وسیلہ بنتا رہتا ہوں‘۔

حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور جمیع اولیاء و صوفیاء کے اقوال، تلقینات اور تعلیمات کا مضمون اصلاحِ ظاہر و باطن ہی ہے۔ اس لیے کہ ایک ہی نور سے یہ ساری شمعیں روشن ہیں۔

حقیقتِ ولایت اور تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے حوالے جو کچھ تمام مضامین میں بیان کیا گیا ، یہ کل تصوف کا نچوڑ ہے اور تمام اولیاءاللہ علیہم الرحمہ خواہ اُن کا تعلق کسی بھی سلسلۂ طریقت سے ہو ، اسی تصوف و روحانیت کے امین ہیں اور تمام حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے ہی مستفیض ہو رہے ہیں ۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض سے مستفیض فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔