یارسول اللہ انظر حالنا پڑھنا کیسا ؟
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں کے سپہ سالار جلیل القدر صحابی حضرت خالد بن ولید اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو براہ راست مدد کےلیے پکارا ۔ چنانچہ منقول ہے : کان شعارھم یومئذٍ یا محمداہ - یعنی اس دن مسلمانوں کا طریقہ اور شعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مدد کےلیے پکارنا تھا - (البدایہ والنہایہ مطبوعہ بیروت لبنان جلد ششم صفحہ نمبر 24)
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنظُرْ حَالَنَا
یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ اِسمَعْ قَالَنَا
اِنَّنِی فِی بَحرِْ ھَمِّ مُّغْرَقٌ
خذْیَدِیْ سَھِّلْ لَّنَا اَشْکَالَنَا
ترجمہ : اے اللہ کے رسول ، ہماری حالت پر توجہ فرمایۓ اے اللہ کے حبیب ، ہماری عرض سماعت فرمایۓ ، بیشک میں غموں (پریشانیوں کے) سمندر میں غرق ہوں ، میرا ہاتھ پکڑیں اور ہماری مشکلات کو (باذن خداوندی) آسان فرمادی ۔ (کلام غوث اعظم رضی اللہ عنہ)
جناب رشید احمد گنگوہی یوبندی سے کسی نے سوال کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟
یا رسول اللہ انظر حالنا
یا حبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذ یدی سھل لنا اشکالنا
یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم
تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳صفحہ ۵)
رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : یہ خود آپ کو معلوم ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل اعتقاد کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کے حق تعالیٰ ان کو مطلع فرمادیوے گا ‘ یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطاب بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس انہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب صفحہ ٦٨ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)
جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اس کو نہ دیے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور اللہ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے) حی ہو (زندہ) یا میت (مردہ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴ صفحہ ۹۹)
حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ⬇
یا شفیع العباد خذبیدی
دستگیری کیجئے میری نبی
انت فی الضطرار معتمدی
کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی
لیس لی ملجاء سواک اغث
جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ
مسنی الضر سیدی سندی
فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی
غشنی الدھر ابن عبداللہ
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف
کن مغیثا فانت لی مدری
اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری
نام احمد چوں حصینے شد حصین
پس چہ باشد ذات آں روح الامین
کچھ عمل ہی اور نہ اطاعت میرے پاس
ہے مگر دل میں محبت آپ کی
میں ہوں بس اور آپ کا دریا یارسول
ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی
خواب میں چہرہ دکھا دیجئے مجھے
اور میرے عیبوں کو کر دیجئے خفی
درگزر کرنا خطاو عیب سے
سب سے بڑھ کر ہے یہ خصلت آپ کی
سب خلائق کیلئے رحمت ہیں آپ
خاص کر جو ہیں گناہگار و غوی
کاش ہو جاتا مدینہ کی میں خاک
نعل بوسی ہوتی کافی آپ کی
آپ پر ہوں رحمتیں بے انتہا
حضرت حق کی طرف سے دائمی
جس قدر دنیا میں ہے ریت اور سانس
اور بھی ہے جس قدر روئیگی
اور تمہاری آل پر اصحاب پر
تابقائے عمر دار اخروی
الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالمِ امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین دیوبند جناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ امداد المشتاق صفحہ نمبر 60 ۔ کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟
اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ہے آخر یہ دوغلہ پن و دہرا معیار فتویٰ کیوں ؟
یاد رہے اس جملہ پر بھی غور کیا جائے کہ : عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو دور و نزدیک بحث عبث یعنی بے کار ہے ۔
یا پھر مان لیجیے اپنے لیے فتوے اور ہیں اور مسلمانان اہلسنت کےلیے اور ہیں اور اس طرح کے دہرے معیار سے آپ لوگ امتِ مسلمہ پر شرک کے فتوے لگا کر فتنہ و انتشار پھیلاتے ہیں ۔
اعتراض : یارسول اللہ انظر حالنا پڑھنا یہ استغاثہ ہے اور دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی جاتی ہے دعا میں استغاثہ کی صورت میں غیر اللہ کی عبادت کا شبہ آتا ہے ۔
جواب : دعا کو اپنے گمان میں " ایاک نعبد " کی طرح پرستش سمجھ بیٹھنا
یعنی یہ اشعار پڑھنے والا : ⬇
یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذ یدی سہل لنااشکالنا
پڑھتا تو اس کا مطلب کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی پرستش کا شبہ آتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا اصطلاحی معنی بیان کردیا جائے تاکہ وسوسہ شیطانی اور گمراہ فرقوں کے فریب کا ازالہ ہو جائے حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : عبادت کا اصطلاحی معنی ، عبادت کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کسی کو خالق یا خالق کا حصہ دار مان کر اس کی اطاعت کرنا جب تک یہ نیت نہ ہو تب تک اسے عبادت نہیں کہا جائے گا ۔ اب بت پرست " بت " کے سامنے سجدہ کرتا ہے اور مسلمان کعبہ کے سامنے وہاں بھی پتھر ہی ہیں لیکن وہ مشرک ہے اور ہم موحد کفار اپنے دیوتاؤں رام چندر وغیرہ کو مانتا ہے مسلمان نبیوں ولیوں کو پھر کیا وجہ کہ وہ مشرک ہو گیا اور یہ موحد رہا فرق یہی ہے کہ وہ انہیں "الوہیت" میں حصہ دار مانتا ہے ہم ان کو اللہ کا خاص بندہ مانتے ہیں بہر حال "عبادت" میں یہ قید ہے کہ جس کی اطاعت کرے اس کو اپنا خالق مانے ۔ (تفسیر نعیمی جلد اول صفحہ نمبر 73)
رہا یہ سوال کہ : ⬇
یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذیدی سہل لنااشکالنا
کہنے سے غیر اللہ کی پرستش کا شبہ اورشرک تو نہیں تو اس سلسلے میں حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : انبیاء ٬ اولیاء سے امداد لینا حقیقت میں رب ہی سے امداد لینا ہے کیونکہ ؛ اس کی امداد " دو " طرح کی ہے ۔ 1 بالواسطہ ۔ 2 بِلاواسطہ ۔ اللہ کے بندوں کی مدد رب کے فیضانِ کا واسطہ ہے قرآن کریم نے غیر خدا سے امداد لینے کا خود حکم فرمایا ارشاد بار تعالیٰ ہے ،،استعینوا بالصبر والصلوہ،، مسلمانوں مدد لو ! صبر و نماز سے ٬ صبر و نماز بھی غیر خدا ہیں ۔ نیز فرماتا ہے " ان تنصرواللہ ینصرکم " اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ۔ رب تعالیٰ غنی ہوکر بندوں سے مدد طلب فرماتا ہے تو اگر ہم محتاج بندے کسی بندے سے مدد مانگیں تو کیا برائی ۔ نیز حضرت ذوالقرنین کا قول نقل فرماتا ہے " اعینونی بقوۃ " تم لوگ میری مدد کرو! اپنی قوت سے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا " من انصاری الی اللہ " میرا مددگار کون ہے اللہ کی طرف ۔ نیز قرآن کریم نے فرمایا " وتعاونوا علی البر والتقوی " یعنی ایک دوسرے کی مدد کرو ! بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ غرض کہ ؛ قرآن کریم نے جگہ جگہ غیر خدا سے مدد لینے کا حکم فرمایا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا نام ہے " انصار " جس کے معنیٰ ہیں " مددگار " اگر غیر خدا سے مدد لینا شرک ہو تو یہ نام ہی مشرکانہ ہو ۔ (تفسیر نعیمی جلد اول صفحہ نمبر 81/82،چشتی)
اس تفصیل سے بخوبی واضح ہوگیا کہ ان اشعار کا : ⬇
یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذیدی سہل لنااشکالنا
کہنا ٬ پڑھنا جائز و درست ہے ۔ اس دعا سے غیر خدا کی عبادت کا شبہ آنا وسوسہ شیطانی اور گمراہ فرقوں کا فریب ہے ۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پکارنا شرک نہیں ہے
محترم قارئینِ کرام : کچھ لوگ جوشِ توحید میں صیغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغیر کہہ کر شرک قرار دیتے ہیں اوراسے ناجائز سمجھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہیں کیا بلکہ پکارنے کے آداب سکھائے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا ۔ (النور، 24 : 63)
اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ائمہ تفسیر نے حضرت سیدنا عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’یا محمد‘‘ اور ’’یا ابا القاسم‘‘ کہا کرتے تھے ۔
امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فنهاهم ﷲ تعالي عن ذالک بقوله سبحانه : لا تجعلوا. . . الآية إعظاما لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم، فقالوا : يا نبي ﷲ يا رسول ﷲ ۔
ترجمہ : پس اللہ عزوجل نے انہیں اپنے اس فرمان ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر منع فرمایا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء یا نبی ﷲ، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر دیا۔‘‘(آلوسی، روح المعانی، 18 : 204،چشتی)
تمام علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاپرواہی اور بے توجہی و بے اعتنائی کے طور پر ذاتی نام سے پکارنا حرام ہے اور یہ حکم حیاتِ ظاہری کے ساتھ مختص نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے ۔ تمام اہلِ ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز ہے خواہ قریب ہوں یا بعید اور خواہ حیاتِ ظاہری ہو یا بعد از وصال ۔ آیتِ مبارکہ میں وارد ہونے والی نہی کا محل دراصل وہ عامیانہ لہجہ اور طرزِ گفتگو ہے جو صحابہ اور اہلِ عرب ایک دوسرے سے بلا تکلف اختیار کرتے تھے۔ اس حکمِ نہی میں مطلق ندا سے منع نہیں کیا گیا اس لیے تعظیم و تکریم پر مشتمل ندا جائز ہے ۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ مدعائے کلام بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی تعلیم ہے لہٰذا اگر صیغہ خطاب کے ساتھ ادب و تعظیم کا تقاضا پورا نہ ہو اور عرفاً و معناً اس ندا سے گستاخی اور اہانتِ رسول کا پہلو نکلتا ہو تو وہ ندا ممنوع اور حرام ہوگی وگرنہ نہیں ۔ اہلِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیے بغیر، منصبِ نبوت و رسالت کے ساتھ پکارتے ہیں تو اس میں محبت، ادب، تعظیم اور توقیر مراد ہوتی ہے ۔
نداء کے جواز کا تیسرا سبب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب و بعید اور حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال تمام اہلِ ایمان کو تشہد میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ تعلیم فرمایا اس میں دعا و پکار اور نداء بطریقِ خطاب ہی وارد ہے ۔ یہ تلفّظ محض حکایۃً نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا بلکہ ضروری ہے کہ ہر نمازی اپنی طرف سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. (یا نبی! آپ پر خاص سلامتی ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں) کے کلمات کے ساتھ سلام پیش کرے ۔ تمام اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے بطور انشاء بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام بھیجنا لازم ہے۔ ذیل میں ہم اس سلسلے میں محدثین و محققین کی آراء پیش کرتے ہیں ۔
علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اجمع الأربعة علي أن المصلي يقول : أيُّهَا النَّبِيُّ. وأن هذا من خصوصياته عليه السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غيره و يقول السلام عليک بطلت صلاته ۔
ترجمہ : ائمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازی تشہد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہے اور یہ اندازِ سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ۔ اگر کوئی نمازی آپ کے علاوہ کسی ایک کو بھی خطاب کرے اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ‘‘ کہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۔ (ملا علی قاري، شرح الشفاء، 2 : 120)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبریٰ میں ایک مکمل باب قائم کیا ہے اور اس خصوصیت کو درج ذیل عنوان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے : باب اختصاصه صلي الله عليه وآله وسلم بأن المصلي يخاطبه بقوله ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ ولا يخاطب سائر الناس ۔
ترجمہ : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہیں کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صیغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہیں ہو سکتا ۔ (الخصائص الکبري، 2 : 253،چشتی)
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ المواہب اللدنیہ میں اور امام زرقانی شرح المواہب میں اسی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ومنها أن المصلي يخاطبه بقوله : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کما في حديث التشهد والصلوٰة صحيحة. ولا يخاطب غيره من الخلق ملکا أو شيطانا أو جمادًا أو ميتاً ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ تشہد میں ہے اور اس کے باوجود اس کی نماز صحیح رہتی ہے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی فرشتے یا شیطان اور جماد یا میت کو خطاب نہیں کر سکتا ۔ (زرقانی، شرح المواهب اللدنيه جلد 5 صفحہ 308)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے فرماتے ہیں : واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.
ترجمہ : (اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه . تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں ۔ (إحياء علوم الدين جلد 1 صفحہ 151)
اس عبارت سے یہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہری معنی و مفہوم میں نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پیش کرنے کی تلقین نہ کی جاتی ۔
نماز میں صیغۂ خطاب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کی حکمت امام طیبی نے بھی بیان کی ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا ہے : إن المصلين لما استفتحوا باب الملکوت بالتحيات أذن لهم بالدخول في حريم الحي الذي لا يموت، فَقَرَّت أعينهم بالمناجاة. فنبهوا أن ذلک بواسطة نبي الرحمة وبرکة متابعته. فالتفتوا فإذا الحبيب في حرم الحبيب حاضر فأقبلوا عليه قائلين : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَة ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔
ترجمہ : بے شک نمازی جب التحیات سے ملکوتی دروازہ کھولتے ہیں تو انہیں ذاتِ باری تعالیٰ حَیٌّ لَا يَمُوْتُ کے حریمِ قدس میں داخل ہونے کی اجازت نصیب ہوتی ہے، پس مناجاتِ ربانی کے سبب ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتی ہے۔ پھر انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت اور آپ کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور التفات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کریم رب کے حضور میں موجود ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یوں سلام پیش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔ (فتح الباري، 2 : 314)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صیغہ خطاب کی وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقۃ محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازین شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنور و فائز گردد ۔
ترجمہ : بعض عرفاء نے کہا ہے کہ اس خطاب کی جہت حقیقتِ محمدیہ کی طرف ہے جو کہ تمام موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں حاضر و موجود ہیں لہٰذا نمازی کو چاہئے وہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہو یہاں تک کہ انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفید ہوجائے ۔ (اشعة اللمعات، 1 : 401،چشتی)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ذکر کن او را و درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالتِ حیات، و می بینی تو او را امتادب با جلال و تعظیم و ہیبت وحیاء۔ بد آنکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می بیند ترا و می شنید کلام ترا زیرا کہ وے متصف است بصفات ﷲ تعالیٰ ۔ ویکے از صفات الٰہی آنست کہ انا جلیس من ذکرنی و پیغمبر را نصیب وافر است ازیں صفت ۔
ترجمہ : (اے مخاطب!) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھیج اور حالتِ ذکر میں اس طرح سمجھ کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ظاہری میں تیرے سامنے موجود ہیں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور ہیبت و حیاء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہے۔ یقین جان کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلام سنتے ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہیں۔ ان صفاتِ ربانی میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ (میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفتِ الہٰیہ سے وافر حصہ حاصل ہے ۔ (اشعة اللمعات، 2 : 621)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم دور نہیں ہیں یا مجتبیٰ پکارنا آپ مدد گار ہیں
حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی لکھتے ہیں : یا مرتضیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہمارے دلوں کا حال بیان کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مرحبا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم غائب ہوں تو موت آجائے دنیا تاریک ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں کے مدد گار اور خیر خواہ ہیں ۔ (حیات المسلمین صفحہ 51 حکیم الامت دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی مطبوعہ مکتبہ امیزان اردو بازار لاہور) ۔ (حیات المسلمین صفحہ 9 ، 10 حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ ختم نبوت بند روڈ کراچی) ۔ (حیات المسلمین صفحہ نمبر 9 ۔ حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مکتبہ معارف القرآن کراچی نمبر 14)
مفتیانِ دیوبند سے سوال حکیمِ دیوبند اس طرح پکار اور لکھ کر مشرک ہوئے کہ نہیں اگر ہوئے تو علمائے دیوبند کی طرف سے آج تک کوئی فتویٰ اس پر لگایا گیا ہو تو ثبوت دیں اگر مشرک نہیں ہوئے اور یہ شرک نہیں تو پھر مسلمانانِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں ؟
احبابِ دیوبند سے گذارش ہے آیئے حکیمِ دیوبند کے بیان کردہ عقیدہ کو ہی مان لیجیئے اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عطاء فرمائے آمین ۔
دیوبندیوں کے امامُ الحدیث جناب علامہ محمد زکریا کاندہلوی لکھتے ہیں کہ : بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ (اؤجزُالمسالک جز ثانی صفحہ نمبر 225 مطبوعہ دارالقلم دمشق،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حاضر و ناظر ہیں وہابیوں کا اقرار
غیر مقلدوں کے امام نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ ( مسک الختام شرح بلوغ المرام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 244)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ : بعض لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوی اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کی بجائے اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ کہتے تھے لہٰذا اب سلام بصیغہ خطاب کہنا جائز نہیں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کے اندازِ نداء و خطاب میں ہی سلام پیش کرنے کا طریقہ سکھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ میری ظاہری حیات میں تو مجھ پر سلام نداء و خطاب کے ساتھ پیش کریں اور بعد از وصال بدل دی ں۔ اگر بعد از وصال نداء و خطاب کے انداز میں سلام پیش کرنا جائز نہیں تھا تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشہد کے بارے میں تعلیم ادھوری اور ناقص رہ گئی؟ (معاذ ﷲ) کیا کوئی عام مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں منبر پر بیٹھ کر نداء و خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کی تعلیم دی اور اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ تلقین فرمائی اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے صیغہ خطاب کے ساتھ سلام پیش کیا ہے ۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنا واجب نہیں ہے لیکن وجوب کی نفی سے جواز بلکہ استحباب کی نفی بھی لازم نہیں آتی کیونکہ خلفائے راشدین اور اہلِ مدینہ کا اجماع اور جمہور امت کا اسی پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور دلیلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر قول بطور دلیل ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں کہ جمہور امت کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پیش کرنا بالکل جائز ہے ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کو آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ اور بعد از وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سلف صالحین نے قریب اور بعید کی مسافت کے فرق کے بغیر بصیغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احادیث اور سیر میں درجنوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ اکابر اور سلف صالحین کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ خطاب پکارنے میں کسی قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں رہے ۔ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدہ صحیحہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment