Saturday, 12 November 2022

حضرت خواجہ نظامُ الدّین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ

حضرت خواجہ نظامُ الدّین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : سر زمینِ ہند پر اللہ تعالیٰ نے جن اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم اجمعین کو پیدا فرمایا اُن میں سے ایک سِلسِلۂ چشتیہ کے عظیم پیشوا اور مشہور ولیُ اللہ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔

ولادت اور نام و نسب : آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد اور اَلقابات شیخ المشائخ ، سلطانُ المشائخ ، نِظامُ الدّین اور محبوبِ اِلٰہی ہیں ، آپ نَجیبُ الطَّرَفَیْن (یعنی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے) سیّد ہیں ، آپ کی ولادت 27صفر المظفر 634ھ بدھ کے روز یُوپی ہند کے شہر بدایوں میں ہوئی ، والد حضرت سیّد احمد رحمۃ اللہ علیہ مادَرزاد (پیدائشی) ولی تھے ، والدہ بی بی زُلیخا رحمۃ اللہ علیہا بھی اللہ کی ولیہ تھیں ۔ آپ کا اصل نام محمد تھا۔ سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے ۔ (محبوبِ الٰہی صفحہ90،91)(شانِ اولیاء صفحہ 383)

تعلیم و تربیت : ناظرہ قراٰنِ پاک و ابتدائی تعلیم اپنے  محلّے سے ہی حاصل کی ، پھر بدایوں کے مشہور عالمِ دِین مولانا علاءُ الدِّین اُصُولی رحمۃ اللہ علیہ سے بعض عُلُوم کی تکمیل کی اور انہوں نے ہی آپ کو دستار باندھی ، بعداَزاں بدایوں و دِہلی کے ماہرینِ فن عُلَما اور اَساتذہ کی درسگاہوں میں تمام مُرَوَّجَہ عُلوم و فنون کی  تحصیل کی ۔ (سیرالاولیاء صفحہ 167)۔(محبوبِ الٰہی صفحہ 94،225)

بیعت و خلافت : مختلف مَقامات اور شُیوخ سے عُلوم و مَعرِفَت کی مَنازِل طے کرتے ہوئے آپ حضرت سیّدنا بابا فریدُالدِّین مسعود گنج شکر علیہ رحمۃُ اللہِ الاکبر کی بارگاہ میں پہنچے اور پھر اِسی دَر کے غلام و مُرید ہوگئے، جب رُوحانی تربیَت کی تکمیل ہوئی تو پیر و مُرشد نے خلافت سے نوازا ۔ (سیر الاولیاء صفحہ 195،چشتی)(محبوبِ اِلٰہی صفحہ 115)ا

مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے لیے دہلی پہنچے جہاں آپ نے مولانا شمس الدین ، مولانا کمال الدین اور مختلف مشاہیر علما سے مختلف علوم کی تحصیل کی ۔ علمی مہارت واستعداد کی بنا پر معاصرین کے مابین ’’ نظام الدین منطقی اصولی‘‘ اور ’’نظام الدین محفل شکن‘‘ کے لقب سے معروف ہوگئے ۔

خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں : زمانۂ طلب علمی ہی میں برہان العاشقین خواجہ فرید الدین گنج شکر قدس سرہٗ کے روحانی فضائل وکمالات نے کشورِ دل کو فتح کرلیا تھا۔ بیس سال کی عمر میں اجودھن (پاک پٹن شریف) میں فرید وقت کی بارگاہ قدس میں حاضر ہوئے۔ اپنی اس حاضری اور ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے خود ہی فرماتے ہیں: جب میں شیخ کبیر کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا : ⬇

 اے آتش فراقت دلہا کباب کرد 
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کرد

تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کر دیا اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانیں خراب کر دیں ۔ خواجہ شیخ کبیر کی حیات میں تین بار اجودھن حاضر ہوئے ۔ کس حاضری میں خلافت سے مشرف ہوئے ، تذکرہ نگاروں نے اس کی صراحت نہیں کی ہے ، ہاں یہ صراحت ضرور ملتی ہے کہ آپ شیخ فرید کی بارگاہ سے علمی وروحانی فیضان اور خلافت سے سرفراز ہوکر دہلی لوٹے ۔

خانقاہی نظام کا قیام اور صوفیانہ شان : دہلی کے قریب بستی غیاث پور میں نظام خانقاہی قائم کی اور مسند رشد وہدایت کو زینت بخشی ۔ آپ صاحبِ کشف وکرامت تھے ۔ متعدد کرامات کا آپ سے ظہور ہوا جو زبان زد عام وخاص ہے۔ غیاث پور میں قیام کے ابتدائی دور میں کافی تنگ دستی اور فاقوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دور میں سلطان وقت نے ایک گائوں کی پیش کش کی۔ آپ نے صوفیانہ شانِ استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اور میرے خدمت گاروں کو تمھارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں، خداوند قدوس بڑا کارساز ہے۔ پھر غیب سے آپ کی امداد ہوئی، مقبولیت کا ستارہ چمکا، یہاں تک کہ اس عسر کے بعد یسر کا دور آگیا۔ آپ مرجع عوام وخواص، شاہ وگدا بن گئے۔ لوگوں کا آپ کی طرف رجوع اس قدر ہوا کہ سلاطینِ دہلی کی عظمتیں ماند پڑگئیں۔ اب خانقاہی نظام سے دست گیری، غریب نوازی، انسان سازی کا کارنامہ انجام دیا جانے لگا۔ روزانہ لنگر خانے سے ہزاروں لوگ شکم سیر ہونے لگے مگر آپ کا حال یہ تھا کہ مسلسل روزے رکھتے اور سحری میں خاد م کھانا پیش کرتا تو اس خیال سے نہ کھاتے کہ نہ جانے اس وقت کتنے لوگ بھوکے پیاسے سورہے ہوں گے۔ خلق کی درد مندی کی ایسی انوکھی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے ۔ یقیناً یہ ایک صاحب دل اور مرد حق آگاہ ہی کی صفت ہوسکتی ہے ۔

مریدین و خلفا : اس دور میں جو آپ نے انسان سازی کا سب سے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ مریدین کی باطنی اصلاح فرماکر انھیں کشورِ ولایت کی حکمرانی عطا کی ۔ مریدین وخلفا کی ایک طویل فہرست ہے جو زہد وتقویٰ، علم وروحانیت اور معرفت وولایت غرض ہر اعتبار سے اپنے عہد میں یکتائے روز گار شمار کیے جاتے ہیں۔ ان حضرات نے بھی بزرگان چشت کے مشن کو آگے بڑھایا، گلشنِ اسلام کی آبیاری کی اور انسانی اقدار کے احیا کا فریضہ انجام دیا۔خاص کر خواجہ نصیرالدین محمود اودھی چراغ دہلوی ، حضرت خواجہ امیر خسرو،خواجہ برہان الدین غریب،خواجہ امیر حسن علاسجزی ، خواجہ شمس الدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی دینی وعلمی وادبی اور صوفیانہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔

تبلیغ دین : مسلمانوں کی اصلاح وتزکیہ کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں دین اسلام کا کام کیا اور اپنے مریدین کو تبلیغ اسلام کی خاطر مختلف بلاد وامصار میں بڑی تعداد میں متعین کردیا۔ اسلام کی جڑیں جس طرح دورِ نظامی میں ہند میں مضبوط ہوئیں وہ ہماری دعوتی تاریخ کا روشن حصہ ہے۔ جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے خواجہ برہان الدین غریب ہانسوی کو خلافت واجازت عطا فرمائی اور انھیں سات سو مریدوں کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کے علاقہ دکن میں دعوت وارشاد کے لیے روانہ کیا۔ دکن میں آج جو اسلام کی فصل بہار ہے، اس میں خواجہ نظام الدین اور ان کے مریدین وخلفا علیہم الرحمہ کا خون جگر شامل ہے ۔

شریعت کی پاس داری اور تصلب فی الدین : بلاشبہ شریعت کے زینے کے بغیر منزلِ ولایت تک رسائی تقریبا ناممکن ہے؛ اس لیے کہ شریعت زینہ ہے اور طریقت جلوۂ بالائے بام ۔ دین پر استقامت سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل آوری کے بغیر ولایت کا خواب دیکھنا ریت کا محل بنانے کے مترادف ہے، جو خود ہدایت یافتہ نہیں وہ بھلا لوگوں کی رہ نمائی کیسے کرسکے گا؟ اسی لیے جاہل صوفی کو شیطان کا مسخرہ کہا گیا ہے۔جو خود گم راہ ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی گم راہ کرتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے کردار وعمل کو شریعت اسلامی کے سانچے میں ڈھالا جائے تاکہ آگے رسائی ممکن ہوسکے۔ اس ضمن میں جب ہم خواجہ نظام الدین اولیا کی کتابِ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر ہر ورق سے اطاعت وشرعی پاس داری کے ساتھ تصلب فی الدین کے ناقابل فراموش واقعات اور نصیحت آمیز ارشادات ملتے ہیں۔ جو سالکین کے لیے بہترین زادِ راہ ہیں۔ بادشاہوں کی بارگاہوں سے پرہیز، خلوت وگوشہ نشینی کے باوجود خلق خدا کی امداد ودست گیری، حاجت روائی، ذہنی وفکری رہنمائی، تربیت روحانی، انسانی اقدار واوصاف کی تعمیر وتصحیح، آسودگی وتنگ دستی ہر دو حالت میں شکر خداوندی محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں اوصاف رہے ہیں ۔

دو محتشم و مکرم واسطوں سے : نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جناب سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے "شیخ طریقت" ہیں ۔

سولہ پُر عظمت واسطوں سے : سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی  (رحمۃ اللہ علیہ)" حضرت پیر طریقت سید آل احمد معینی چشتی رحمۃ اللہ علیہ [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ] کے شیخ طریقت ہیں ۔

سترہ قابل فخر واسطوں سے : سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی (رحمۃ اللہ علیہ)" حضرت پیر طریقت جناب پیرزادہ سید آل ابطحی معینی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  (جناب صوفی سید جاوید احمد) [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ]  اور حضرت پیرطریقت خواجہ سید محمد سراج معینی چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ] کے شیخ طریقت بھی ہیں ۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے القابات : ⬇

 • نظام الدین اولیاء 

• محبوب الہی

• سلطان المشائخ 

• سلطان الاولیاء

• سلطان السلاطین

 اور 

• زری زر بخش

نجیب الطرفین سید : حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ  کا سلسلۂ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت  بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے ۔

خا ندان : حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری رحمۃ اللہ علیہ"  اور ان کے چچا زاد بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپ کے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ تھے ۔

والدین : آپ کے نانا سید عرب کی صاحبزادی "سیدہ زلیخا رحمۃ اللہ علیہا (آپ کی والدہ ماجدہ)"  جو زھد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں ۔ عبادت گزار اور شب بیدار تھیں۔ اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں ۔ ان کو اپنے وقت کی "رابعہ عصری" کہا جاتا تھا ۔

آپ کے دادا حضرت سید علی بخاری کے صاحبزادے "سید احمد (آپ کے والد ماجد) رحمۃ اللہ علیہ "  جو  نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال تھے ۔ آپ کے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمۃ اللہ علیہ"  اور آپ کے نانا "سید عرب بخاری رحمۃ اللہ علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے ۔ دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ "حضرت سید احمد علی رحمۃ اللہ علیہ"   کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمۃ اللہ علیہا " سے کردی ۔

کم سِنی ہی میں والد ماجد کا وصال : ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا - لیکن آپ کی نیک دل ، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہ  نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی ۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی مادر گرامی حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہ ایک امیر و کبیر بزرگ حضرت خواجہ عرب رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں - لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کی جانب نگاہ نہ کی ۔ جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے ۔ آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرا دیتیں ۔ اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی، اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا ۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہو جاتا - جس روز فاقہ ہوتا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں ’’ بابا نظام! آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں ‘‘ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد" سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اللہ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اللہ کی مہمانی کا ذکر سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو ۔ پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی محترم ماں کے حضور عرض کرتے ’’ مادر گرامی ! اب ہم کس روز اللہ کے مہمان بنیں گے ؟ ‘‘ والدہ محترمہ جواب دیتیں ’’ بابا نظام! یہ تو ﷲ کی مرضی پر منحصر ہے ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے ۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنالے گا‘‘ ۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے ۔ اے ﷲ ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا ۔

ﷲ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 

پانچ سال کی عمر میں یہ دعا، یہ خواہش اور یہ آرزو! اہل دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی… مگر وہ جنہیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا- وہ اس راز سے باخبر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا-

 اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کم سنی کے عالم میں اﷲ کا مہمان بننے کی آرزو کیوں کرتے تھے ۔

 آپ رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ کا  فضل و کرم تھا اس لیے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کر لیا- اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت اختیار فرمائی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی ذوق کو دیکھتے ہوۓ آپ پر خصوصی توجہ دی ۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب "قدوی" ختم کی ۔

دستار فضیلت

جب امام قدوری رحمۃ اللہ علیہ کی  کتاب قریب الختم تھی ۔ تو ایک دن آپ کے استاد محترم مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین علیہ الرحمہ سے فرمایا : سید ! اب تم ایک منقبت اور بڑی کتاب ختم کررہے ہو۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ اپنے سر پر دانشمندی کی دستار بندھواؤ ۔ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں ۔ پھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا ۔ اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا نے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علماء کو دعوت دی ۔ جب بدایوں کے ممتاز و جلیل القدر علماء جمع ہوچکے تو "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد کے سر پر دستار فضیلت باندھی ۔ حاضرین نے اس مجلس روحانی میں بڑا جانفزا منظر دیکھا۔ زمانۂ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کررہا تھا ۔ دستار بندی کے بعد "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے "حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ" سے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک نظر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی طرف دیکھا اور دعا کےلیے ہاتھ اٹھا دیے : اے خدائے بحروبر ! جس طرح تونے مجھ گم راہ کو صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق بخشی ۔ اسی طرح اس بچے پر بھی اپنے رحم و کرم کی بارش فرما ۔ میں تو بت پرستوں کی اولاد تھا اور قزاقی میرا پیشہ تھا ۔ لیکن سید محمد (نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ) تو تیرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل پاک کا نمائندہ ہے ۔ پرہیزگاروں کی اولاد ہے ۔ اس کی خاندانی عظمت کو برقرار رکھ اور "سید زادے" کو علمائے دین میں شامل فرمالے اور اپنی قدرت بے پناہ کے صدقے میں اسے جرأت و صداقت کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دے ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کے لہجے میں اس قدر گداز تھا کہ اہل مجلس بے اختیار ہوکر رونے لگے ۔ مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں ۔ خود حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھی آب دیدہ نظر آرہے تھے ۔ پھر جب حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا اور دستار بندی کی رسم ادا ہوچکی تو حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی نشست سے اٹھے ۔ سب سے پہلے آپ نے "حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کی کہ اس وقت بدایوں میں وہی ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کے بعد "حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ"  اپنے استاد گرامی کی طرف بڑھے اور "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی سے شرف یاب ہوئے ۔ مولانا اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے محبوب ترین شاگرد کو اس طرح دعائیں دیں کہ شدت جذبات سے اہل مجلس کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ پھر عام رسم دعا ادا کی گئی اور اس طرح تمام علمائے بدایوں کی دعاؤں کے سائے میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے نئے سفر کا آغاز ہوا ۔ اسی تقریب میں "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا : اللہ نے چاہا تو اس بچے کا سر کسی انسان کے آگے خم نہیں ہوگا ۔

شیخ طریقت حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات : دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے قرب میں ہی  "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ"  کے بھائی "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ" کی رہائش گاہ تھی ۔ 

 حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ اکثر  "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ"  سے ملاقات فرماتے تھے-

 "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ"  کی زبانی "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ"  علیہ کی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتہ چلتا رہتا تھا-

 "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ غائبانہ طور پر "شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ"  کے معتقد ہو گئے-

 اور "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں یہ خواہش غلبہ پانے لگی کہ "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" سے ملاقات کی جاۓ -

چنانچہ "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر پاک پتن شریف روانہ ہو گئے- 

جب "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" کی خدمت میں پہنچے تو  آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر پڑھا : ⬇

اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جا نہا خراب کردہ

ترجمہ : تیری فرقت کی آگ نے قلوب کو کباب کردیا اور تیرے شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا ۔

بیعت و خرقۂ خلافت

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گۓ ۔ حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ فرید الدین مسعود رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا - 

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو گاہے بگاہے  ظاہری و باطنی علوم سے نوازا اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی شفقت فرمائی - مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کے چھ پارے تجوید و قرآت کے ساتھ پڑھے ۔

مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہی کے حلقۂ درس میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی "تصنیف عوارف المعارف"  کے چھ باب پڑھے ۔ اس کے علاوہ مرشد پاک مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ابو شکور سالمی کی "تمہید" بھی شروع سے آخر تک پڑھائی ۔

ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبۂ کمال کو پہنچے تو شیخ العالم مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو خلقِ خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر659 ہجری کو دہلی میں روانہ فرمایا ۔

ولی کامل کی نظر کیمیا اثر کی تاثیر

پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ، فقہ و تصوف اور لغت و ادب کے حوالے دیا کرتے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے تھے ۔ آپ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ بعض اوقات کسی آیتِ مبارکہ کی تفسیر فرماتے اور اپنے سامعین کو قرآنی معارف سے آگاہ فرماتے ۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے ۔ آپ جیسے اسرارِ طریقت و حقیقت میں اولیاء کامل و مکمل تھے ویسے ہی علومِ فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی ، ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے ۔ حضرت  نظام الدین  اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے  بہت مقبولیت دی ۔ عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے  لگے ۔ اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھولے گئے ۔اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعہ سے فائدہ حاصل کرنے لگا ۔ آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے، ہمیشہ  روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا  سا پانی پی لیتے، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے ۔ فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے فیض باطنی سے ولی کامل ہو جاتا ۔
 
شہرت عام

اللہ تعالٰی نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔ وقت کے بادشاہ اور امراء بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے ۔ 

خدمتِ فقراء اور مساکین

 خانقاہ عالیہ میں ہزاورں کی تعداد میں فقراء اور مساکین آپ کے لنگر خانہ سے کھانا کھاتے ۔ وصال سے قبل آپ علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی گھر اور خانقاہ کے اندر جس قدر اثاثہ ہے ۔ سارے کا سارا مساکین اور غرباء میں تقسیم کر دیا جائے ۔ آپ کے حکم پر خواجہ محمد اقبال داروغہ لنگر نے ہزارہا من غلہ بانٹ دیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا ۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے اَخلاقِ عظیمہ

 حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلبِ علم ، عبادت و رِیاضت ، مُجاہَدہ اور لوگوں کی تربیت و اِصلاح میں گزار دی، آپ نہایت متقی، سخی، اِیثار کرنے والے، دِل جوئی کرنے والے، عَفْو و دَرگزر سے کام لینے والے، حلیم و بُردبار، حُسنِ سُلوک کے پیکر اور تارِکِ دُنیا تھے ۔

ہم عصر سلاطین

سلطانہ رضیہ بنت شمس الدین التمش،سلطان معز الدین بہرام شاہ،سلطان علاؤ الدین مسعود شاہ،سلطان ناصر الدین محمود،سلطان غیاث الدین بلبن،سلطان معز الدین کیقباد،فیرز شاہ خلجی،ابراہیم خلجی،علاؤ الدین خلجی،شہاب الدین عمر شاہ،قطب الدین مبارک،ناصر الدین خسروخان،غیاث الدین تغلق،محمد بن تغلق ۔ (بہ تحقیق صحیح کل 14عدد سلاطین)۔

ہنوز دلی دور است

جب "غیاث الدین تغلق"  ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز پر ایک مذہبی مجلس منعقد کی تاکہ اس میں حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف درباری علماء کے ذریعے حضرت محبوبِ الٰہی کو نیچا دکھایا جا سکے ۔ حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اس مجلس میں تشریف لے گئے اور مباحثے میں علماء کے الزامات کا ایسا مدلل جواب دیا کہ وہ جید علماء جو اپنے علم و فضل پر نازاں تھے لاجواب ہو کر رہ گئے ۔ بادشاہ غیاث الدین تغلق کو بےحد شرمندگی ہوئی ۔ چونکہ اسی دن اسے ایک مہم میں بنگال روانہ ہونا تھا اس لیے اس نے جاتے جاتے حکم جاری کیا ۔ حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء  اس کے دہلی واپس آنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ۔ آپ کے عقیدت مندوں کو اس شاہی حکم نے رنجیدہ و فکر مند کر دیا ۔ لیکن آپ نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی اور بدستور اپنے معمولات میں مشغول رہے ۔ لیکن اس وقت آپ کے مریدوں اور حلقہ بگوشوں کی پریشانی حد سے بڑھ گئی جب بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ کر ایک عارضی محل میں مقیم ہوا - کیونکہ اگلے دن اس کے فاتحانہ استقبال کے لیے شہر میں زبردست تیاریاں کی جا رہی تھیں ۔ عقیدت مندوں کے فکر و تشویش ظاہر کرنے پر آپ نے فرمایا : 

ہنوز دلی دور است

اسی رات کو وہ عارضی محل گر پڑا اور بادشاہ ملبے میں دب کر مر گیا ۔ آپ کا تاریخی جملہ "ہنوز دلی دور است" ضرب المثل بن گیا ۔

صُلبی اولاد

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے تجرد اختیار فرمایا تھا ۔ لہٰذا صُلبی اولاد کوئی نہ تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت اور لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور ان کے دکھ درد دور کرنے میں مشغول رہے ۔ البتہ آپ نے اپنی ہمشیرہ کی اولاد کو اولاد کی طرح پالا اور تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمایا ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ خلفاء

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں : ⬇

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

جانشین و خلٰیفہ اکبر

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا - اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے ۔ انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی ۔ انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا ۔

تصانیف

راحت القلوب 
ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر
مرتبہ : حضرت سلطان نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ

افضل الفوائد
مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

فوائدالفواد
مرتبہ : حضرت امیر حسن علا سجزی رحمۃ اللہ علیہ

سیر الاولیاء

حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ بھی ان بندگانِ خاص میں سےتھے جنہیں نماز سے بے پناہ محبت اور رغبت تھی ۔ شریعت کی پاس داری کا خیال اس قدر رہتا کہ جب لوگ ملاقات کے لیے آتے اور مہینہ رمضان کا ہوتا تو ان سےصدقۂ فطر اور نماز تراویح کے اہتمام کے بارے میں ضرور پوچھتے، نمازوں کی پابندی اور احکام شرع پر عمل آوری کی تلقین کرتے۔ آپ کی مجالس ذکر اور ملفوظات کے مجموعوں میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ۔ آپ کے معمولات میں نماز اوّابین ، ایام بیض کے روزے ، نماز چاشت ، صلاۃ السعادت (چار رکعت) ، تلاوت قرآن خاص طور سے تھے ۔ پوری زندگی شریعت پر تصلب کی برکت سے آخری وقت بھی نماز کی پابندی کا ثمرہ ملا۔ ہوا یوں کہ وصال شریف سے چالیس روز پیشتر استغراق کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ جب آپ نے کھانا ترک کردیا اور سکر (جو اہل اللہ کا وصف ہے) کا عالم پیدا ہوتا تو اس میں نماز کی پابندی فرماتے رہے ۔ لوگوں سے پوچھتے کہ کیا میں نے نماز ادا کرلی ہے ؟ جواب ملتا ، جی ! آپ ادا کرچکے ہیں ۔ ارشاد فرماتے: میں دوبارہ پڑھتا ہوں ۔ غرض آخری ایام میں ہر نماز تکرار سے پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت محبوبِ الٰہی کی کتابِ حیات بڑی انوکھی ہے ، ہر موافق ومخالف کے لیے درسِ عبرت ہے اور دعوتِ عمل بھی ۔

اَخلاق وکردار : آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلبِ علم ، عبادت و رِیاضت ، مُجاہَدہ اور لوگوں کی تربیت و اِصلاح میں گزار دی ، آپ نہایت متقی ، سخی ، اِیثار کرنے والے ، دِل جوئی کرنے والے ، عَفْو و دَر گزر سے کام لینے والے ، حلیم و بُردبار ، حُسنِ سُلوک کے پیکر اور تارِکِ دُنیا تھے ۔ (محبوبِ الٰہی صفحہ 208 تا 250)

منقول ہے کہ چھجو نامی ایک شخص کو خواہ مخواہ آپ سے عَداوت (یعنی دشمنی) تھی ، وہ بلا وجہ آپ کی برائیاں کرتارہتا، اس کے اِنتقال کے بعد آپ اس کے جنازے میں تشریف لے گئے ، بعدِ دفن یوں دعا کی : یااللہ ! اس شخص نے جو کچھ بھی مجھے کہا یا میرے ساتھ کیا ہے میں نے اس کو معاف کیا ، میرے سبب سے تُو اس کو عذاب نہ فرمانا ۔ (سیرتِ نظامی صفحہ111،چشتی)

کرامت : آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مشہور کرامَت یہ بھی ہے کہ ایک دن آپ کے کسی مُرید نے محفل مُنعقد کی ، جس میں ہزاروں لوگ اُمنڈ آئے جبکہ کھانا پچاس ساٹھ افراد سے زائد کا نہ تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خادِمِ خاص سے فرمایا : لوگوں کے ہاتھ دُھلواؤ ، دَس دَس کے حلقے بناکر بٹھاؤ ، ہر روٹی کے چار ٹکڑے کرکے دَستر خوان پر رکھو ، بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرو ۔ ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف ہزاروں لوگ اُسی کھانے سے سَیر ہو گئے بلکہ کچھ کھانا بچ بھی گیا ۔ (محبوب الٰہی صفحہ 280 ، 281)(شان اولیاء صفحہ 387)

 چند ملفوظاتِ مبارکہ : کچھ مِلے تو جمع نہ کرو، نہ مِلے تو فکر نہ کرو کہ خدا ضرور دے گا ۔ کسی کی بُرائی نہ کرو ۔ (بلا ضرورت) قرض نہ لو ۔ جَفا (ظلم) کے بدلے عطا کرو ، ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے دَر پر آئیں گے ۔ فَقْر و فاقَہ رَحمتِ اِلٰہی ہے ، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اُس کی شبِ مِعراج ہے ۔ بلا ضرورت مال جمع نہیں کرنا چاہیے ۔ راہِ خدا میں جتنا بھی خرچ کرو اِسراف نہیں اورجو خدا کیلئے خرچ نہ کیا جائے اِسراف ہے خواہ کتنا ہی کم ہو ۔ (شان اولیاء صفحہ 402)(محبوب الٰہی صفحہ 293)

وِصال و مزارِ پُراَنوار : خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا - مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے : ⬇

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں
سراج دو عالم شدہ بالیقیں
چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب
نداداد ہاتف شہنشاہ دیں
(۷۲۵ھ - 1324ء)

سیّدنا ابوالفتح رُکنُ الدِّین شاہ رُکنِ عالَم سُہروردی علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ، دِہلی میں ہی آپ کا مزارشریف ہے ۔ (محبوب الٰہی صفحہ 207) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...